aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "کافی_الجملہ"
تری تلاش کافی الجملہ ماحصل یہ ہےکہ تو یہاں نہیں ملتا وہاں نہیں ملتا
وہ 'تلک' یا 'گوکھلے' کی رحلت پر نوحہ ہو یا شاعر کی طرحی غزل، رامائن کا ایک سین ہو یا آصف الدولہ کا امام باڑہ۔ ہر نظم میں آپ جذباتِ عالیہ کا ایک ہی تلاطم اور احساسات و لطف کا وہی ہیجان پائیں گے۔ یہ ہے ایک شاعر اور مصنف کی اصلی انفرادیت۔ فارسی کی ایک مشہورکہاوت ہے کہ ‘بزرگی بعقل است نہ بہ سال’ یعنی بزرگ وہ شخص ہے جو عقلمند ہو، نہ کہ صرف بوڑھا ہو۔ چک...
نمازجب ختم ہوئی تو صبح کی ریکھائیں کافی واضح ہوگئی تھیں اور چاروں طرف اجالا پھیل گیا تھا۔ حافظ جی کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ نماز کے بعد کوئی بھی نمازی باہر نہیں گیا تھا۔ سب لوگ مسجد کی صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اور پیش امام کی طرف مشتاق نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ حافظ جی پھوٹے، ’’بات کیا ہے صاحب؟‘‘ ’’دیکھا آپ لوگوں نے؟ ہم کہہ رہے تھے نا کہ حافظ جی جان بوجھ کر انجان بنیں گے۔‘‘ پیش امام نے بڑے طنزیہ لہجے میں یہ بات کہی اور سارے نمازیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ حافظ جی ناراض ہوکر بولے، ’’دیکھیے صاحب، میں اشارے کنایے کی باتیں پسند نہیں کرتا۔ جو کچھ کہنا ہے صاف صاف کہیے۔‘‘
مثلاً سب سے پہلے ہمارے ملک میں انگریزی سرمایہ دار کمپنیوں نے ریلیں بنائیں جن سے بے حساب، غیرمعمولی نفع اندوزی کے علاوہ بیرونی مال کو دور دور کی منڈیوں تک پہنچانا اور بیچنا اور ہمارا کچا مال اٹھانا اور ملک کو محکوم رکھنے کے لیے تیز فوجی نقل وحرکت مقصود تھا۔ اس طرح انگریزی سرمایہ داروں نے جو پَٹ سن اور روئی کی ملیں قائم کی ان کا مقصد ہمارے مزدوروں کو...
ظاہری حالات تو یہی بتا رہے ہیں کہ اب دنیا سے شعر و ادب کا چل چلاؤ ہے، عموماً لوگ اس کی توجیہ یوں کرتے رہتے ہیں کہ سائنس اور صنعت کاری کے مقابلہ میں ادب کا ٹھہرنا مشکل ہے، لیکن آج کل ہم یہ تماشا بھی دیکھ رہے ہیں کہ یورپ اور امریکہ میں ہزاروں نوجوان سائنس اور صنعت دونوں سے بیزار ہوتے جا رہے ہیں لیکن احتجاج اور رد عمل کے جو طریقے انہوں نے نکالے ہیں و...
काफ़ी-उल-जुमलाکافی الجملہ
enough sentences, said
سب اس بات کو مانتے ہیں کہ اردو شاعری ہندوستانی تہذیب کی حسین ترین تخلیقوں میں سے ایک نایاب روحانی اور ذہنی تحفہ ہے۔ شاعری کا منصب یہ ہے کہ وہ ہمارے ذہن کے ان گوشوں میں حقیقت اور سچائی کی روشنی ڈالے، جہاں علم کے معمولی وسیلوں سے مشکل کے ساتھ رسائی ہوتی ہے۔ روح اور احساس کے تاروں کو چھیڑ کر انھیں اس طرح مترنم کرے کہ بہترین انسانی خصائص اور ابھریں اور...
حالیؔ کی نکتہ سنجی اور بصیرت اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے شاعر کے عام کلام کے ہموار اور اصول کے مطابق ہونے کے ساتھ ایسے حیرت انگیز جلووں پر بھی زور دیا ہے جن کی وجہ سے شاعر کا کلام خاص و عام کے دلوں پر نقش ہو جائے مگر ان کا یہ کہنا کہ شعر میں جہاں تک ممکن ہو حقیقت اور راستی کا سر رشتہ ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہیے، در اصل اسی اصلاحی جذبے ک...
(۱) جمیل کی عمر ابھی چودہ سال سے متجاوز نہ ہوئی تھی لیکن اس کے خیال میں جس قدر بلندی اور ارادوں میں جس درجہ رفعت تھی اس کا اندازہ مشکل سے ہو سکتا ہے۔ جمیل جس قدر حسین اور خوش اندام تھا اس سے کہیں زیادہ متین و سنجیدہ۔ اس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کے اعماق قلب اور منافذ دماغ میں ایسا خون گردش کر رہا ہے جو محض عزم و ارادہ کی غیرفانی قوتوں سے مرکب ہے۔
میں اردو مرکز لندن کے عہدہ داروں اور اراکین کا ممنون ہوں کہ انہوں نے فیض کی پہلی برسی کے موقع پر مجھے لندن آنے اور پہلا فیض میموریل لیکچر دینے کی دعوت دی۔ فیضؔ کی یاد میں لیکچروں کے سلسلے کا یہ آغاز ایک قابل قدر اقدام ہے اور امید ہے کہ ان لیکچروں کے ذریعہ سے اردو دنیا میں فکر و نظر کی روایت پھلے پھولے گی۔ شعر و ادب کی قدر شناسی عام ہوگی اور ادب ا...
اس مضمون کے بارے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس پر کئی ہفتے صرف ہوئے ہیں۔ یہ وقت میں نے لکھنے میں نہیں لگایا، سوچنے میں بھی نہیں۔ اگرمجھ میں کسی نظریاتی موضوع پر اتنی دیر مسلسل اور متواتر سوچنے کی صلاحیت ہوتی تو بھی یہ امر مشکوک رہتا کہ اس قسم کی صلاحیت کسی افسانہ نگار کے لیے موزوں بھی ہے یا نہیں۔ انشاپردازی اور غور و فکر بڑی مرعوب کن چیزیں ہیں۔ مگر م...
ہوش کی آنکھ کھولی تو گھر بھر میں مولانا ظفر علی خاں کا چرچا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ کی بدولت خاص قسم کے الفاظ زبان پر چڑھے ہوئے تھے۔ انہی الفاظ میں ایک ٹوڈی کا لفظ بھی تھا۔ زمیندار نے اس کو خالص وسعت دے دی تھی کہ مولانا ظفر علی خاں کے الفاظ میں راس کماری سے لے کر سری نگر تک ،سلہٹ سے لے کر خیبر تک اس لفظ کا غلغلہ مچا ہوا تھا، جس شخص کا ناطہ بلاواسطہ یا ب...
یہ بات بعض لوگوں کو بہت ناگوار گزری اور بعض اردو اخباروں نےاس کی تردید بھی چھاپی لیکن جو سچی بات تھی وہ کہہ گزرے، اس خیال کا اظہار انہوں نےکئی جگہ کیا ہے کہ جو شخص اردو کا ادیب اور محقق ہونا چاہتا ہےاسے سنسکرت یا کم سےکم ہندی بھاشا کا جاننا ضروری ہے۔ ‘‘مقدمۂ شعرو شاعری’’ میں ایک مقام پر فرماتے ہیں:‘‘اردو پر قدرت حاصل کرنے کے لیے صرف دلّی یا لکھنؤ کی زبان کا تتبع ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ عربی فارسی سے کم متوسط درجے کی لیاقت اور نیز ہندی بھاشا میں فی الجملہ دستگاہ بہم پہنچائی جائے۔ اردو زبان کی بنیاد جیسا کہ معلوم ہے ہندی بھاشا پر رکھی گئی ہے، اس کے تمام افعال اور تمام حروف اور غالب حصہ اسماء کاہندی سے ماخوذ ہے اور اردو شاعری کی بنا فارسی شاعری پر جو عربی شاعری سے مستفاد ہے قائم ہوئی ہے، نیز اردو زبان میں بڑا حصہ اسماء کا عربی اور فارسی سے ماخوذ ہے۔ پس اردو زبان کا شاعر جو ہندی بھاشا کو مطلق نہیں جانتا اور محض عربی و فارسی کے تان گاڑی چلاتا ہے وہ گویا اپنی گاڑی بغیر پہیوں کے منزلِ مقصود تک پہنچانی چاہتا ہے۔ اور جو عربی و فارسی سے نابلد ہے اور صرف ہندی بھاشا یا محض مادری زبان کے بھروسہ پر اس کا بوجھ کا متحمل ہوتا ہے وہ ایسی گاڑی ٹھیلتا ہے جس میں بیل نہیں جوتے گئے۔’’
اس ایک بار کے علاوہ میں کبھی دلی نہ جا سکا۔ خط لکھتے مجھے شرم آتی تھی لیکن سال میں ایک دوبار کوئی تحفہ میرزا صاحب کے لے بھجوادیا کرتا اور دعا کی درخواست کرتا۔ کبھی ملیح آباد کے آم اور جونپور کی امرتیاں، کبھی اپنے مبارک پور کی لنگیاں اور پگڑیاں۔ کبھی کبھی ایک آدھ غزل ہمت کرکے بھیج دیتا۔ لیکن انہوں نے اصلاحی غزل کبھی واپس نہ کی۔ شاید وہ مجھے شاگرد نہ...
مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی
ریت سے آندھیوں کا جھگڑا تھاسانس در سانس دم الجھتا تھا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books