aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "लालची"
لالی چودھری
مصنف
جواہر لال جی مہاراج
لال جی خلف
مدثر لالی
منشی دودھ ناتھ لال جی
پیارے لال
محمود، ’’تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے؟‘‘حامد، ’’کھلونا کیوں نہیں ہے؟ ابھی کندھے پر رکھا، بندوق ہو گیا" ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہو گیا۔ چاہوں تو اس سے تمہاری ناک پکڑ لوں۔ ایک چمٹا دوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے۔ تمہارے کھلونے کتنا ہی زور لگائیں، اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔ میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔‘‘
گھر کی حالت ذرا بہتر ہونے پر جیون رام اور مگھی نے سدھا کے بر کے لئے زیادہ اعتماد سے کوشش شروع کر دی تھی۔ وہ سدھا کی تنخواہ میں بہت کم خرچ کرتے تھے اور اسکوٹر کے لئے پیسے جمع کر رہے تھے۔ بہت دنوں کے بعد جیون رام ایک لڑکے کے والدین کو اسکوٹر کا لالچ دے کر گھیرنے میں کامیاب ہوا۔ منگنی کی رقم، بیاہ کا جہیز، جہیز کی نقدی، جہیز کا سونا، ساری ہی ضروری باتیں طے ہو گئیں تو موتی جو لڑکے کا نام تھا اور واقعی شکل و صورت میں موتی ہی کی طرح اجلا اور خوبصورت تھا، اپنی ہونے والی بیوی کو دیکھنے آیا۔
’’ہمیں تو سکرین زیادہ مرغوب ہے۔‘‘ مس ہیکن نے ایک ٹکیہ اپنی پیالی میں ڈالتے ہوئے کہا۔ ’’یہ تو ایک بے لذت شے ہے۔‘‘ لینا نے جواب دیا۔
ڈائرکٹر کر پلانی اپنی بُلند کرداری اور خوش اطواری کی وجہ سے بمبئی کی فلم انڈسٹری میں بڑے احترام کی نظرسے دیکھا جاتا تھا۔ بعض لوگ تو حیرت کا اظہار کرتے تھے کہ ایسا نیک اور پاکباز آدمی فلم ڈائریکٹر کیوں بن گیا کیونکہ فلم کا میدان ایسا ہے جہاں جا بجا گڑھے ہوتے ہیں ان دیکھے گڑھے، بے شمار دلدلیں، جن میں آدمی ایک دفعہ پھنسا تو عمر بھر باہر نکلنے کا راستہ...
پان ہندوستانی تہذیب کا ایک اہم حصہ رہا ہے ۔ اس کے کھانے اور کھلانے سے سماجی زندگی میں میل جول اور یگانگت کی قدریں وابستہ ہیں لیکن شاعروں نے پان کو اور بھی کئی جہتوں سے برتا ہے ۔ پان کی لالی اور اس کی سرخی ایک سطح پر عاشق کے خون کا استعارہ بھی ہے ۔ معشوق کا منھ جو پان سے لال رہتا ہے وہ دراصل عاشق کے خون سے رنگین ہے ۔ شاعرانہ تخیل کے پیدا کئے ہوئے ان مضامین کا لطف لیجئے ۔
لالچ
लालचीلالچی
greedy, avaricious
لالچی چوہا
ہرمیندر اوہری
ترجمہ
آب حیات
سوانح حیات
لالچی درویش
محمد یونس حسرت
قصہ / داستان
حد چاہیے سزا میں
کہانی
بھان پرکاشکا
Bharat Ka Nav Nirman
گوشائیں چرتر
مطبوعات منشی نول کشور
بکھرے لمحے
نظم
گاندھی جی بادشاہ خاں کے دیس میں
جوہر زراعت
کھیتی باڑی
ہت اپدیش اردو
حکایات
جوہر قانون
قانون / آئین
Sanath Anath Nirnay
خطبات
قبلہ خان تم ہار گئے ہو!اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکوپولوؔ
میں نے یہ الفاظ پڑھے،’’قبلہ والد صاحب۔۔۔ میں یہاں خیریت سے ہوں۔۔۔ آپ نے میرا گھر آباد ہے۔۔۔ میری خواہش ہے کہ آپ بھی اپنا گھر آباد کرلیں۔۔۔‘‘ولی محمد نے آنکھوں کا زاویہ بدل کر اپنی نوکیلی مونچھوں کو دیکھا اور کہا، ’’منٹو صاحب۔۔۔ لڑکا ہوشیار ہوگیا ہے۔۔۔ لیکن مولانا تو اپنی بات پکی کر چکے ہیں۔‘‘
بارسلونا کیسا شہر ہے؟ میں نے پہلی مرتبہ اس کا نام سنا ہے۔وطن واپسی پر لٹریچر کے لالچی کیکڑے نے اپنی ٹانگیں سفرناموں، افسانوں اور ناولوں کی صورت میں میرے بدن پر اس طرح لپیٹ دیں کہ میں پریم کے باقاعدہ خطوط کے جواب میں کبھی کبھار ہی قلم اٹھاتا۔ کچھ عرصے بعد اس نے ایک مختصر خط میں مجھے اطلاع کی کہ اس کی شادی ہو رہی ہے۔ مگر اس نے یہ نہیں بتایا کہ چیکو کے ساتھ یا اس لڑکے کے ساتھ جو کہ سکھ ہے اور جاٹ ہے اور اس کے والدین کی پسند ہے۔ میں نے اسے مبارکباد کا ایک کارڈ روانہ کردیا۔ پھر وہ خاموش سی ہوگئی۔ میں تو غافل تھا ہی۔ میں نے اس کی تحریر کو مس نہیں کیا۔
لحد کھلی ہےلحد ہے ایسے کہ جیسے بھوکے کا لالچی کا منہ کھلا ہوا ہو
بوڑھے کا ایک پڑوسی تھا۔ بےحد لالچی۔ اس نے بوڑھے کو خزانہ لاتے ہوئے دیکھا تو پوچھ لیا۔ بوڑھا تھا سیدھا سادھا۔ اس نے پڑوسی کو خزانہ ملنے کا سارا واقعہ کہہ سنایا۔ جلن کی وجہ سے پڑوسی کی نیند اڑ گئی۔اگلے دن اس نے میٹھی میٹھی باتیں کر کے بوڑھے سے ایک دن کے لئے پوچی کو مانگ لیا۔ اسے لے کر وہ سیدھے اپنے کھیت میں گیا اور بار بار کتے کو تنگ کرنے لگا کہ وہ اسے بھی خزانہ دکھائے۔ آخر پوچی نے ایک جگہ کر پنجوں سے زمین کریدنی شروع ہی کی تھی کہ پڑوسی نے جھٹ پھاوڑے سے وہ جگہ کھود ڈالی۔ کھونے پر ہیرے موتیوں کے بجائے اسے ملا کوڑا اور گندا کچڑا۔ پڑوسی نے جھلاہٹ میں آؤ دیکھا نہ تاؤ اور پوچی کو مار کر پھینک دیا۔ جب پوچی کے مالک بوڑھے کو معلوم ہوا تو وہ بہت دکھی ہوا۔ اس نے پوچی کی لاش کو گاڑ کر وہاں پر ایک پیڑ اگا دیا۔ حیرانی کی بات کہ دو دن میں ہی وہ بڑھ کر پورا پیڑ بن گیا۔ بوڑھے نے اس پیڑ کی لکڑی سے اوکھلی بنائی نئے سال کے پکوان بنانے کے لیے اس میں دھان کوٹنے لگا تو اوکھلی میں پڑا دھان سونے اور چاندی کے سکوں میں بدلنے لگا۔ پڑوسی کو بھی معلوم ہوا تو وہ اوکھلی ادھار مانگ کر لے گیا۔ جب اس نے اوکھلی میں دھان کوٹے تو دھان گندگی اور کوڑے میں بدل گیا۔ پڑوسی نے غصے میں اوکھلی کو آگ میں جلا ڈالا۔ بوڑھے نے دکھے ہوئے دل سے جلی ہوئی اوکھلی کی راکھ اکٹھا کی اور اسے اپنے آنگن میں چھڑک دیا۔ وہ راکھ جہاں جہاں پڑی وہاں سوکھی گھاس ہری ہو گئی اور سوکھے ہوئے پیڑوں کی ڈالیاں پھولوں سے لد گئیں۔
چڑا اس کی باتیس سن کر مسکرایا اور اندر جاکر وہ منی منی ٹوکریاں اٹھا لایا اور کہنے لگا’’ان میں سے ایک ٹوکری لے لو۔ لالچی عورت نے فوراً بھاری والی ٹوکری اٹھالی اور سیدھی اپنے گھر کو سدھاری، یہاں تک کہ چڑے کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔یہ ٹوکری بڈھے بڑھیا والی ٹوکری سے بھی زیادہ عجیب تھی، ان کی ٹوکری تو گھر پہنچ کر بڑی ہوئی تھی، یہ راستے ہی میں بڑھنے لگی اور ہوتے ہوتے اتنی بڑی اور اتنی بھاری ہو گئی کہ اس عورت کے سنبھالے نہ سنبھلتی تھی۔ مگر بڑھیا بہت خوش تھی وہ سمجھ رہی تھی اس میں جواہرات بھرے ہوئے ہیں اور جواہرات تو بھاری ہوتے ہی ہیں۔ غرض کسی نہ کسی طرح اسے گھسیٹ کر گھر لے ہی آئی، دو چار منٹ دم لینے کے بعد تھکے ماندے ہاتھوں سے صندوق کھولا اک دم دو بھتنے اس کے اندر سے قہقہہ لگاتے ہوئے باہر نکل پڑے اور اس عورت کو پکڑ کر اس جزیرے میں لے گئے جہاں ایسے لوگوں کو سخت سزا دی جاتی ہے جو جانوروں کو ستاتے ہیں اور ان پر ظلم کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے سرکار کیا کر رہی ہے؟ ارے سرکار کی بات چھوڑو، خود اپنے لوگ بھی لالچی ہو گئے ہیں۔
’’جاؤ، اب خانساما ں سے کھانا مانگ لو۔ تمہیں بھوک لگ رہی ہوگی۔‘‘ اس بار بیگم کی آواز میں بڑی نرمی تھی۔ کمرے سے وہ یوں نکلا جیسے واقعی قید سے آزاد ہوگیا ہو۔ باورچی خانے میں جاکر وہ بڑی خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ آیا، مالی اور خانساماں بان سے بنی ہوئی پرانی پیڑھیوں پر بیٹھے، اپنے اپنے حصے کا کھانا کھا رہے تھے اور دونوں ادھیڑ عمر کی آیا سے ہلکے ہلکے فحش مذاق کرتے جارہے تھے۔ آیا کامیاں جوانی میں مرگیا تھا۔ اس نے دوسری شادی نہ کی اور یہی حسرت اس کی آنکھوں سے جھانکتی رہتی۔ ایسی ویسی باتیں سن کر ذرا جی شاد کرلیا کرتی۔ و یسے تو بیگم ایسی سخت تھیں کہ مجال ہے کوئی اپنی من مانی کر سکے۔ وہ چپ چاپ کھڑا ان کی باتیں سن رہا تھا اور جی ہی جی میں کڑھ بھی رہا تھا۔ لالچ کیسی بری چیز ہے۔ ماں باپ اپنی اولاد کو بھی داؤں پر لگادیتے ہیں۔ جانے یہاں سے کب جان چھوٹے گی۔
ہاں لالچی ہوں اور زیادہ کی ہے ہوساتنے قلیل پر تو قناعت نہیں مجھے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books