aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "साँवला"
نیشنل کمیٹی برائے سات سو سالہ تقریبات امیر خسرو
ناشر
غالب جشن صدسالہ کمیٹی، ورانسی
منشی سانولداس مبتحج
مصنف
صد سالہ تقریبات سرینگر
صد سالہ یادگار غالب کمیٹی، نئی دہلی
سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آکر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ اس موسم میں کسی کی قربت کی بھی خواہش نہ کرسکتا تھا۔موسم بہت واہیات قسم کا تھا۔ سوا چار بج چکے تھے۔ سورج غروب ہونے کی تیاریاں کررہا تھالیکن موسم نہایت ذلیل تھا۔ پسینہ تھا کہ چھوٹا جارہا تھا۔ خدا معلوم کہاں سے مساموں کے ذریعے اتنا پانی نکل رہا تھا۔ سریندر نے کئی مرتبہ غور کیا تھا کہ پانی اس نے زیادہ سے زیادہ چار گھنٹوں میں صرف ایک گلاس پیا ہوگا مگر پسینہ بلامبالغہ چار گلاس نکلا ہوگا۔ آخر یہ کہاں سے آیا!
چاند کی دھیمی دھیمی ضو میںسانولا مکھڑا لو دیتا تھا
مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر کوٹھے پر کٹا ہوا پتنگ لینے گیا تو اسے جھرنوں میں سے ایک جھلک دکھائی دی۔ سامنے والے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی تھی۔ ایک لڑکی ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی۔ مختار کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکی کہاں سے آگئی، کیونکہ سامنے والے مکان میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ جو تھیں، بیاہی جا چکی تھیں۔ صرف روپ...
مؤناتھ بھنجن میں مشاعرہ ہورہا تھا۔ بشیربدر نظامت کررہے تھے۔ ’راحت اندوری‘ جن کا رنگ گہرا سانولا سلونا ہے، ان کی سرمستی کا دور تھا، مائیک پر آتے ہی بولے۔’’حضرات! میں کل سے بہت خوش ہوں۔ دراصل اپنے رنگ کی وجہ سے شرمندہ شرمندہ رہتا تھا، لیکن بابو جگجیون رام نائب وزیر اعظم کی صدارت میں مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ ان کے رنگ کو اگر آپ ذہن میں رکھیں تو میں خاصا قبول صورت آدمی ہوں۔ بابو جی کو دیکھنے کے بعد میں بہت خوش ہوں۔‘‘
آپ دستانے پہن کر چھو رہے ہیں آگ کوآپ کے بھی خون کا رنگ ہو گیا ہے سانولا
साँवलाسانولا
Tawny
روح غزل
مظفر حنفی
انتخاب
ترقی پسند ادب
سید عاشور کاظمی
تنقید
صد سالہ تاریخ کڑا
حافظ سید محمد اسحاق
تاریخ
غالب کا دو سو سالہ جشن ولادت
بدر درریز احمد
مرتبہ
سی سالہ تاریخ کا ر پردازی
خان بہادر محمد عباس خان
سانولی اور دوسرے ڈرامے
اظہر افسر
ڈرامہ
سورج لاہور
تسلیم احمد تصور
نگار سخن
دیوان
پنجاہ 50 سالہ تاریخ
بیگم تراب علی کا ڈیل ڈول مردوں جیسا تھا۔ آواز اونچی اور گمبھیر اور رنگ سانولا جو غصے کی حالت میں سیاہ پڑ جایا کرتا۔ چنانچہ نوکر چاکر ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے تھر تھر کانپنے لگتے اور گھر بھر پر سناٹا چھا جاتا۔ ان کی اولاد میں سے تین لڑکے اور دو لڑکیاں سن بلوغت کو پہنچ چکے تھے مگر کیا مجال جو ماں کے کاموں میں دخل دینا یا اس کی مرضی کے خلاف کوئی کام کرنا پسن...
کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرامیں اور مدن حیرت زدہ ہو کر بہروپیے کو دیکھنے لگے۔ ہمیں اپنی آنکھوں پر یقین نہ آتاتھا مگر اس نے سچ مچ سرمہ فروشی شروع کردی تھی۔ دو تین آدمی اس کے پاس آکھڑے ہوئے اور اس سے باری باری آنکھوں میں سرمے کی سلائی لگوانے لگے۔ہم جلد ہی وہاں سے رخصت ہوگیے۔ ہم نے بہروپیے کو اس کے اصل روپ میں دیکھنے کا خیال چھوڑ دیا۔
وکٹوریا آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا۔ میں نے کوچوان سے کہا کہ آہستہ آہستہ چلے اس لیے کہ فلمستان میں کہانی پر بحث کرتے کرتے میری طبیعت مکدر ہوگئی تھی۔ موسم خوشگوار تھا۔ وکٹوریا والا آہستہ آہستہ پل پر سے اترنے لگا۔جب ہم سیدھی سڑک پر پہنچے تو ایک آدمی سرپر ٹاٹ سے ڈھکا ہوا مٹکا اٹھائے صدا لگا رہا تھا۔ ’’قلفی۔۔۔قلفی‘‘!جانے کیوں میں نے کوچوان سے وکٹوریہ روک لینے کے لیے کہااور اس قلفی بیچنے والے سے کہا ایک قلفی دو۔۔۔ میں اصل میں اپنی طبیعت کا تکدر کسی نہ کسی طرح دور کرنا چاہتا تھا۔اس نے مجھے ایک دونے (پتوں کا پیالہ) میں قلفی دی۔ میں کھانے ہی والا تھا کہ اچانک کوئی دھم سے وکٹوریا میں آن گھسا۔ کافی اندھیرا تھا۔ میں نے دیکھا تو وہی گہرے رنگ کی سانولی لڑکی تھی۔میں بہت گھبرایا۔۔۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ دونے میں میری قلفی پگھلنا شروع ہوگئی۔
نواب صاحب نے سگار کا لمبا کش لیا اور مسز لوجوائے سے کہا، ’’کیا کام کرتے ہیں؟‘‘مسز لوجوائے نے جواب دیا، ’’جی وہ فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ تھے، مگر تین برس ہوئے لڑائی میں مارے گئے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے یہ پیشہ اختیار کیا۔‘‘
پہلے آدمی نے اپنی بے روح آواز میں جواب دیا، ”وہ اک سانولی رنگت والی لڑکی تھی ماتھے پر لال بندی، زلفیں کمر کمر۔ ایک سانولا نوجوان اس کے ساتھ تھا۔ میں نے نوجوان سے پوچھا، یہ تیری کون ہے۔ بولا کہ یہ میری بہن ہے۔ میں نے کہا کہ تو اسے برہنہ کر۔ یہ سنا تو لڑکی پہ دہشت طاری ہوئی۔ بدن مثل بید کے لرزنے لگا۔ نوجوان نے فریاد کی کہ ایسا مت کہہ کہ یہ میری بہن ...
एक दिन दोपहर को अब्बू दरख़्त की छांव में टांगे पर बैठा ऊँघ रहा था कि एक आवाज़ उसके कानों में भनभनाई। अब्बू ने आँखें खोल कर देखा। एक औरत टांगे के बम्ब के पास खड़ी थी। अब्बू ने उसे बमुश्किल एक नज़र देखा मगर उसकी तीखी जवानी एक दम उसके दिल में खुब गई। वो औरत नहीं जवान लड़की थी। सोलह-सत्रह बरस की। दुबली-पतली लेकिन मज़बूत, रंग साँवला मगर चमकीला। कानों में चांदी की छोटी-छोटी बालियां, सीधी मांग सुतवां नाक। उसकी फुनंग पर एक छोटा सा चमकीला तिल... लंबा कुरता और नीला लाचा, सर पर चदरिया।
جمنا، رمبھا کی طرح حسین تو نہ تھی۔ لیکن اپنا بوٹا سا قد لئے اس طرح ہولے ہولے چلتی تھی جیسے جھیل کی سطح پر ہلکی ہلکی لہریں ایک دوسرے سے اٹھکھیلیاں کرتی جا رہی ہوں اس کے جسم کے مختلف حصّے آپس میں مل کرایک ایسا حسین تموج پیدا کرتے تھے جو اپنی فطرت میں کسی وائلن کےنغمے سے مشابہ تھا اسٹیشن کی لوور مال روڈ پر جب وہ چہل قدمی کے نکلتی تھی تو لوگ اس کے ج...
دبا کے آئی ہے سینے میں کون سی آہیںکچھ آج رنگ ترا سانولا لگے ہے مجھے
بملا البتہ کبھی کبھی انور کو بلاتی تھی، ناول لینے کے لیے۔ اس نے شمیم سے کہا تھا، ’’گھر میں میرا جی نہیں لگتا۔ پتا جی باہر شطرنج کھیلنے چلے جاتے ہیں۔ میں اکیلی پڑی رہتی ہوں۔ انور بھائی سے کہیے، مجھے ناول دے دیا کریں پڑھنے کے لیے۔‘‘پہلے تو بملا، شمیم کے ذریعے سے ناول لیتی رہی ۔پھر کچھ عرصے کے بعد اس نے براہ راست انور سے مانگنے شروع کردیے۔ انور کو بملا بڑی عجیب و غریب لڑکی لگتی تھی۔ یعنی ایسی جو بڑے غور سے دیکھنے پر دکھائی دیتی تھی۔ لڑکیوں کے جھرمٹ میں تو وہ بالکل غائب ہو جاتی تھی۔ بیٹھک میں جب وہ انور سے نیا ناول مانگنے آتی تو اس کو اس کی آمد کا اس وقت پتا چلتا جب وہ اس کے پاس آکر دھیمی آواز میں کہتی، ’’انور صاحب۔۔۔ یہ لیجئے اپنا ناول۔۔۔ شکریہ۔‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books