aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ain-gain"
او. پی. گھئی
مصنف
آل انڈیا غالب سینٹنری کمیٹی، نئی دہلی
ناشر
کہ اولاد بھی دی دئے والدینالف لام میم کاف اور عین غین
عاشق مزاج کام نہ لے کر برین سےبھیجے لڑا رہے تھے ہر اک عین غین سے
رک کے جو سانسیں آئیں گئیں مانا کہ وہ آہیں تھیں لیکنآپ نے تیور کیوں بدلے آہوں میں کسی کا نام نہیں
تو آ گئی شامسرمئی وحشت و ہزیمت کے سائے سائے
آ گئی یاد شام ڈھلتے ہیبجھ گیا دل چراغ جلتے ہی
ہار اور جیت زندگی میں کثرت سے پیش آنے والی دو صورتیں ہیں ۔ انسان کبھی ہارتا ہے تو کبھی اسے جیت ملتی ہے ۔ ہارنے اور جیتنے کی اس جنگ میں ضروری نہیں کوئ مقابل ہی ہو بلکہ یہ خود اپنے وجود اور داخل میں ہونے والی ایک پیکار بھی ہے ۔ ہمارا یہ شعری انتخاب ہار اور جیت کے عمومی فلسفے کو الٹ پلٹ کر دیکھتا ہے ۔
گاؤں ہر اس شخص کے ناسٹلجیا میں بہت مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے ہوتا ہے جو شہر کی زندگی کا حصہ بن گیا ہو ۔ گاؤں کی زندگی کی معصومیت ، اس کی اپنائیت اور سادگی زندگی بھر اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ان کیفیتوں سے ہم میں سے بیشتر گزرے ہوں گے اور اپنے داخل میں اپنے اپنے گاؤں کو جیتے ہوں گے ۔ یہ انتخاب پڑھئے اور گاؤں کی بھولی بسری یادوں کو تازہ کیجئے ۔
قافیہ اور ردیف غزل کے بنیادی رکن ہیں لیکن غزل ردیف کے بغیر بھی کہی جا سکتی ہے، ایسی غزلو کو غیر مردف کہا جاتا ہے؛ یہاں آپ کے لئے ایسی ہی چنندہ غزلیں جمع کی گئی ہیں، پڑھئے اور لطف اندوز ہوئیے
رحمانی دست غیب
محمد عمران آسی
مفاتیح الغیب
امام جعفر صادق
دست غیب
خواجہ حسن نظامی
اسلامیات
شہر اور گاؤں
مرجع غیب
دبدبہ سر غیب
سید شیدا علی
اسلام اور غیر مسلم
محمد حفیظ اللہ
دیگر
فتوح الغیب
شیخ عبد القادر جیلانی
تصوف
سروش غیب
التفات امجدی
فتوح الغیب اردو
قادریہ
نعت گویان غیر مسلم
عبدالمنان طرزی
تذکرہ
وحدت الوجود ایک غیر اسلامی نظریہ
الطاف احمد اعظمی
ایک غیر مشروط معافی نامہ
خورشید اکرم
فضل دین سارے گاؤں میں اکیلا ہی لوہار اور دھار لگانے والا تھا۔ درمیانے قد کا ادھیڑ عمر فضل دین گاؤں کی کچی سڑک کے کنارے بنائی ہوئی چھپروں والی دوکان میں صبح سے شام تک کام کرتا رہتا۔ رات جب تھک ہار کر گھر آتا تو چارپائی پر ڈھیر ہو جاتا۔ اس کی کوئی سماجی زندگی نہیں تھی۔ دنیا میں کیا ہورہا ہے وہ کچھ نہیں جانتا تھا۔ جانتا بھی تو کیسے سوجھ بوجھ ہی اتنی ن...
حسن کو شکلیں دکھانی آ گئیںشوخیاں لے کر جوانی آ گئیں
میز پر بساط بچھی ہوئی تھی، ہم چاروں اس کے گرد جمع تھے اور بازی شروع ہونے والی تھی۔ یہ ہمارا روزانہ کا معمول تھا۔ ہم رات کے وقت کھیلتے تھے، کیوں کہ دن میں اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوتی تھیں۔ اپنا دن ہمیں دنیا کو دینا پڑتا تھا تب کہیں جا کر رات آزاد ملتی تھی کہ اپنی اندرونی خواہشات کے مطابق تھوڑی دیر جی لیں۔ دفتر کا کام نمٹانے اور بچوں کو سلا دی...
کچھ کہنا چاہتے تھے کہ خاموش ہو گئےدستار یاد آ گئی سر یاد آ گیا
ہماری ہی بدولت آ گئی ہےیہاں تک جو صداقت آ گئی ہے
نہر کے کنارے چلتے چلتے زمرد ٹھٹھک کر رکی، اچانک پلٹی اور پوری طرح اس منظر کی ہولناکی کا شکار ہو گئی۔ دل دھک دھک کرنے لگا اور قدم جیسے زمین نے جکڑ لیے۔ منہ اندھیرے اپنے محبوب سے چوری چھپے ملاقات کا نشہ ہرن ہو گیا اور اس کی جگہ دہشت نے لے لی۔ اضطراری حالت میں قریب ہی موجود کانٹوں بھری جھاڑی کو سہارے کے لئے پکڑنا چاہا تو ہاتھ لہو لہان ہو گیا۔ وہ اپنی ...
جب کھلیں گتھیاں حقیقت کیدھجیاں اڑ گئیں شرافت کی
مجھے راس ویرانیاں آ گئی ہیںتری یاد بھی اب ستاتی نہیں ہے
رات کی سرحد یقیناً آ گئیجسم سے سایا جدا ہونے لگا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books