aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
Showing search results for "تزکیہ"
फ़र्क़ इतना है कि मर्द पहले बहस करते हैं, फिर लड़ते हैं। औरतें पहले लड़ती हैं और बाद में बहस करती हैं। मुझे सानी-उल-ज़िक्र तरीक़ा ज़्यादा माक़ूल नज़र आता है, इसलिए कि इसमें आइंदा समझौते और मेल मिलाप की गुंजाइश बाक़ी रहती है।रहा यह सवाल कि एक चारपाई पर बैक वक़्त कितने आदमी बैठ सकते हैं तो गुज़ारिश है कि चारपाई की मौजूदगी में हमने किसी को खड़ा नहीं देखा। लेकिन इस नौअ के नज़रियाती मसाइल में आदाद-ओ-शुमार पर बे जा ज़ोर देने से बा’ज़ औक़ात अजीब-ओ-गरीब नताइज बरामद हुए हैं। आपने ज़रूर सुना होगा कि जिस वक़्त मुसलमानों ने अंदलुस फ़तह किया तो वहां के बड़े गिरजा में चोटी के मसीही उलमा व फ़ुक़हा उस मसले पर कमाल संजीदगी से बहस कर रहे थे कि सूई की नोक पर कितने फ़रिश्ते बैठ सकते हैं।
غزلیہ شاعری کا سب سے زیادہ پامال مضمون عشق ہے۔ ہر سخن گو کاتختہ مشق یا تکیہ کلام۔ دفتر کے دفتر اس کی شرح میں سیاہ ہو چکے ہیں اور عاشقوں کی تعداد کا تو کوئی شمار و حساب ہی نہیں۔ لیکن کیفیت عشق، لفظ و عبارت کی مدد سے کچھ بھی واضح ہو پائی ہے؟ اکبر اس گونگے کے خواب کی مصوری اپنے مرقع میں کرتے ہیں۔عشق میں حسن بیاں وجہ تسلی نہ ہوا
अलीम-उल्लाह जब क़ाज़ी के हौज़ पर कि गुज़रगाह ख़ास-ओ-आम है पहुंचा, तो उस जवान को वहाँ बैठे देखकर ठिटक गया, जिसके चेहरे से मायूसी, आँखों से ग़म, चैन पेशानी से, कुछ ख़िफ़्फ़त कुछ झुंझलाहट, लिबास से अफ़्लास, हुलिए से इज़्मेहलाल और तर्ज़-ए-नशिस्त से लाउबाली अंदाज़ का इज़हार हो रहा था। ग़ौर से देखा तो जुनून की सी कैफ़ियत, दीवानगी का तौर, मिस्कीनी और अनानियत दोनों का इ...
किसी नाक़ाबिल तर्जुमा कसीर उल मानवियत से भरपूर लफ़्ज़ को जब शायर बार-बार इस्तेमाल करता है तो उसकी अलामती हैसियत के बारे में कोई शुबहा नहीं रह जाता। लेकिन ये कसीर उल मानवियत Arbitrary नहीं होती और न इंतख़्वाब मअनी की क़ाइल होती है, मसलन सुर्ख़ रंग अगर आर्कीटाइप के एतबार से ख़ून, क़ुर्बानी, शदीद जज़्बे और इंतशार की अलामत है तो जब भी ये अलामत आप आर्कीटाइप ...
’’لب جوئے بارے‘‘ میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ میراجی کا اصل موضوع دراصل ایک نفسیاتی الجھن ہے جس کی سزا نظم کے ’’میں‘‘ کو استمنا بالیدکی صورت میں ملتی ہے۔ نفسیاتی الجھنیں میراجی کی نظموں کا خاص موضوع ہیں جنہیں وہ بڑی فنکاری سے ان کے آخری نتیجے تک لے جاتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنے قاری کی الجھنوں کو لاشعور سے شعور میں لاکر اس کے نفس کا تزکیہ کر دیتے ہیں۔ اس کے...
तज़कियाتزکیہ
edification, purification
शुद्ध करना, पवित्र करना, माल की ज़कात देना, शुद्धि, सफ़ाई।।
Tazkiya-e-Nafs
Ameen Ahsan Islahi
Mukashafat-ul-Quloob Urdu
Imam Mohammad Ghazali
Translation
Islamiyat
Tazkiya Nafs Aur Tahzeeb-ul-Akhlaq
Maulana Mohammad Ehtisam-ul-Hasan Kandehlvi
Sama And Others Terminology's
Tazkiya-o-Ahsan
Abul Hasan Ali Nadvi
Syed Abul Hasan Nadvi
Tazkiya Nafs Aur Ham
Mohammad Farooq Khan
ikhwan-ul-Muslimoon Tazkiya, Adab, Shahadat
Ubaidullah Fahad Falahi
Ghazi Mustafa Kamal Pasha
Nadeem Sahbai Firoz Puri
Biography
Tazkiy-e-Nafs
Tazkiyatul-Quloob
Abdul Kareem
Tazkirah Muslim Shora-e-Bihar
Syed Abdullah
Tazkira
Bihar Main Tazkirah Nigari
Mohammad Mansoor Alam
Tazkiyat-ul-Quloob Fi Tazkirat-il-Mahboob
Tazkiyat-ul-Quloob
Mohammad Abdul Kareem
’’ہاں ہاں میں تمھیں تمھارے گھر میں ایسی باتیں سناتی ہوں، تمھاری ہتک کرتی ہوں، جانتی ہو تم پر عصمت والی بیبیوں، محبت والی ماؤں کی لعنتیں، بددعائیں پڑتی ہیں۔ تم جو گھروں کے چین بیبیوں کے آرام کی دشمن ہو تم جو ہمارے خاوندوں کو ہم سے چرا لیتی ہو۔۔۔‘‘ یہ کہتی ہوئی کانپ رہی ہے اور اپنی خلل زندگی کا انتقام اس فاحشہ کی تحقیر کرنے، اسے سخت سخت باتیں سنانے س...
سب کچھ سہی تیری بات رکھ لی میں نےتصوف کی اساس، تزکیہ نفس، عشق و محبت اور اطاعت الٰہی پر ہے۔ صرف اطاعت الٰہی کا دوسرا نام شریعت اور عشق و محبت کا دوسرا نام طریقت ہے۔ اسلامی تصوف میں احسان پر خاص زور ہے اور شریعت اور طریقت کے راستے علاحدہ نہیں ہیں۔ مگر یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ عشق و محبت کے جذبے سے سرشار ہوکر صوفیوں نے طریقت پر زیادہ زور دیا۔ جس میں خدا اور اس کی مخلوق سے ہر رنگ میں محبت کو فضیلت حاصل تھی۔ شہنشاہیت کے دور میں فقہا کی موشگافیوں کے ہجوم میں، جنگوں کی تباہ کاری میں، رنگ و نسل اور طبقے اور درجے کے امتیازات میں، دولت کی فرعونیت کے مظاہروں میں، انسان دوستی، مساوات، اخلاق، عدل، نیکی، فرض شناسی، دلداری کی روایات صوفیوں سے زندہ رہیں۔
اپنے اوپر رحم دلانے کا مرض جس کسی میں بھی پایا جائے۔ بہت ذلیل مرض ہے لیکن عورتوں میں یہ اس قدر عام ہے کہ خوش حال گھرانے کی بہوبیٹیاں بھی گفتگو میں چاشنی پید اکرنے کے لئے کوئی نہ کوئی دکھ وضع کرلیتی ہیں۔ اور موقع موقع پر سنا کر داد لیتی ہیں۔اس تحریر سے میرا مطلب ان بہنوں کا مذاق اڑانا ہرگز نہیں جو فی الواقع غمگین یا مصیبت زدہ ہیں۔ ان کی ہنسی اڑانا پرلے درجے کی شقاوت ہے۔ جو خدا مجھے نصیب نہ کرے۔ کسی کا غم ایسی بات نہیں جو دوسرے کی خوش طبعی کا موضوع بنے۔ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ زندگی کا بہت سا دکھ، ضبط، تحمل، اور خندہ پیشانی سے دور ہوسکتا ہے۔ کسی مصیبت زدہ شخص کے ساتھ سب سے بڑی ہمدردی یہ ہے کہ اس کا غم غلط کرایا جائے۔ کسی بیمار کی سب سے بڑی تیمارداری یہ ہے کہ اس کی طبیعت کو شگفتہ کرنے کا سامان پیدا کیا جائے۔ غم کو برداشت کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کو ضبط کرنے کی کوشش کی جائے۔ مہذب شص کی یہی پہچان ہے۔ اپنے دکھ کے قصے کو بار بار دہرا کر کسی دوسرے شخص کو متاثر کرنے کی کوشش کرنا گویا اپنے آپ کو ذلیل کرنا ہے۔ خود بھی ہنسو اور دوسروں کو بھی ہنساؤ۔ دنیا میں غم کافی سے زیادہ ہے اس کو کم کرنے کی کوشش کرو، ہنسنا اور خوش رہنا دماغ اور جسم کی صحت کی نشانی ہے۔ غم نگار مصنفین کو میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ وہ شخص انمول ہے جو اپنی تحریر سے ہزارہا لوگوں کو خوش کردیتا ہے اور وہ شخص خدا کے سامنے جواب دہ ہوگا جو اپنے زور قلم سے ہزارہا جوان، معصوم، خوش مزاج عورتوں اور مردوں کو رُلاتا ہے۔ اور رُلاتا بھی اس طرح ہے کہ نہ اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے نہ کوئی دل میں امنگ پیدا ہوتی ہے۔ اور ہزار قابل افسوس ہے وہ شخص جو یہ سب کچھ کرکے بھی اپنی انشا پردازی پر ناز کرتا ہے۔
بوسنیا (Bosnia) میں، کاسوو (Kosovo) میں، فلسطین میں، تزکیۂ نسل (Ethnic cleansing) آخر مذہب ہی کی تو بنیاد پر عمل میں لایا گیا ہے۔ اور ان سے بھی بہت پہلے صلیبی جنگوں میں آپ دیکھ رہے ہیں صلیبیوں کو، کہ وہ مسلمان بچوں کو سنگینوں کی نوک پر رکھ کر ان کو بھون کر کھا رہے ہیں، مفتوح شہر کے شہر تاراج کیے جارہے ہیں، اور ان کے باسیوں میں مسلمان بھی ہیں اور ع...
یہی تو وہ شاعری ہے جو تزکیہ نفس اور تطہیر جذبات کرتی ہے۔ ایسی شاعری میں وہ قوت تاثیر ہوتی ہے کہ دل کی دنیا بدلتے دیر نہیں لگتی۔ فوائد الفوائد میں مرقوم ہے کہ حضرت شیخ شرف الدین باخزری فرماتے تھے کہ میں خواجہ حکیم سنائی طیب اللہ ثراہ کے ایک قصیدے کا مسلمان کیا ہوا ہوں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ جس شاعری میں داخلی جذبے کی آمیزش ہوتی ہے، وہ باطن کو مرتعش کرد...
मैं: मीर साहब मैं और न आऊँ। आख़िर दिल्ली आया किसलिए हूँ? मगर आप वक़्त पर किसी को भेज कर बुलवा लें तो बड़ा काम करें। दूसरी मस्रूफ़ियतों में शायद मैं भूल जाऊँ।दिल्ली जब हिंदुस्तान का दिल थी, क़िला आबाद था, उसमें ज़िंदगी के आसार थे तो हरफ़न का साहब-ए-कमाल पैदा होता था। फ़ारिग़ उल बालियाँ थीं। क़दर दानियाँ थीं। लोग अपने अपने हुनर दिखाते थे। देखने वाले कभी बतौर परवरिश कभी “ए वक़्त-ए-तू ख़ुश कि वक़्त-ए-माख़ोशी कर दी” के मिस्दाक़ और कभी शान-ए-इमारत दिखाने के लिए दिल बढ़ाते रहते थे। जब तक सिपाहियाना जोश और फ़ुतूहात के वलवले रहे अंदर और बाहर का वही नक़्शा था। तीर अंदाज़ी, शमशीरज़नी, कुश्ती, घोड़े की सवारी खेलों में दाख़िल थी। वो वक़्त न रहा। हुकूमत दूसरे रंग पर आगई तो रज़्म ने बज़्म की सूरत इख़्तियार करली। ख़ून आशामी के जज़्बात मुर्ग़बाज़ी, बटेर बाज़ी वग़ैरा में और सवारी शिकारी के ख़्यालात, नाच रंग और दूसरे तफ़रीही मशाग़ल में बदल गए। हयात-ए-मुतहर्रिक पर जमूदी कैफ़ियत तारी हुई। तमाम दिन मस्नद तकिया लगाए बैठने में आ’ज़ा शल होजाते थे, रातों की नींद बदमज़ा होने लगी। लोरियों की ज़रूरत पड़ी। क़िस्से कहानियां शुरू हो गईं। ये गोया दास्तान गोई की इब्तिदा है। ख़्वाह उसका मूजिद ईरान हो या हिंदुस्तान, लेकिन है ये क़ौम की ग़नूदगी और हुकूमत की अफ़्सुर्दगी के दौर की पैदाइश।
فانیؔ کے بہت سے معاصرین کے یہاں بھرتی یا حشو کا احساس ہوتا ہے، مگر فانیؔ کے یہاں کوئی لفظ بھی بیکار نہیں معلوم ہوتا۔ فانیؔ کے بعض اشعار اور بعض مصرعے ایسے بے تکلف اور رواں ہیں کہ ضرب المثل بن جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان میں ایسا جہان معنی آباد ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مرحلوں پر یاد آکر ان مرحلوں کو آسان اور گوارا بنا دیتے ہیں۔ ان کے غم میں ای...
کیا دوا نے نے موت پائی ہے آخر میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ میرؔ اردو زبان اور اس کی تہذیب کے سب سے اچھے نمایندے ہیں۔ میرؔ کی زبان میں عام چلن کا جس، خانقاہ کے تجزیہ نفس اور تزکیہ کا رس اور دربار کے آدابِ محفل کی شائستگی ہے۔ میرؔ کی زبان اپنی پوری تاریخ اور پوری فکر کی امین ہے۔ یہ نہ ہندی سے شرماتی ہے، نہ فارسی سے کتراتی ہے۔ یہ مقامی رنگ، ہندوستانی مزاج، وسیع المشربی، انسان دوستی، رواداری اور محبت کی زبان ہے۔ یہ اہلِ دل کی زبان ہے۔ میرؔ سے زیادہ الفاظ سوداؔ اور نظیرؔ نے استعمال کیے ہیں مگر میرؔ کے یہاں ان کے استعمال میں ایک خاص سلیقہ ہے۔ یارانِ سرپل، مخملِ دوخابہ، انچھر، بستار، آسن، مولانا، دوانہ، بانکے، ترچھے، میوۂ رسیدہ، کے جہانِ معانی کو میرؔ کے اشعار میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔
اقبالؔ نے اپنے ایک خط میں فوق کو لکھا تھا کہ اورنگ زیب کو حافظ کے ایک شعر نے گانے والیوں کو دریابرد کرنے سے باز رکھا اور وہ اس موسیقی اور شاعری کے مضر اثرات ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اس سے بہت زیادہ مثالیں موسیقی اور شاعری کے جذبات کو ترفع اور تزکیہ نفس عطا کرنے کی دی جا سکتی ہیں۔ کہنا یہ ہے کہ صوفیائے کرام نے اسلام کے فروغ میں جو عظیم الشان رول ادا ک...
پھر مالکن کو علاقے کی وہ آوارہ عورتیں ناک پر انگلی رکھ کر گھورنے لگیں جن کی جوانی کی کالی راتیں عاشقوں کے بوسوں کے چراغوں سے جگمگاچکی تھیں۔ وہ مالکن کو گھور رہی تھی۔ ادھیڑ مالکن کی کمر سیدھی تھی۔ ایک سفید لٹ چاندی کے جھومر کی زنجیر کی طرح ان کی پیشانی پر جھولتی رہتی۔ نازک خدوخال کے سفید چہرے پر بھوک نے سائے ڈال دیے تھے لیکن برسوں کی حکومت اور امارت...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books