aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مغز"
ہر مصرعۂ پر جستہ ہے پھل تیشہ نہیں ہے یاں مغز سخن کا ہے رگ و ریشہ نہیں ہے
يہ پريشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو ہے اگر مجھ کو خطر کوئي تو اس امت سے ہے
مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپیٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔
دل اپنا خون کرنے کو ہوں موجودنہیں منظور مغز سر کا آماس
کہ نظموں میں میرینہیں مغز کوئی
حاشیہ(۱) میں نے ان اشعار کا انتخاب انگریزی میں ترجمہ کرنے کے لیے کیا تھا، اس وجہ سے ان کی زبان میں کشش تھی، ان میں وہ ’’مغز‘‘ معلوم ہوتا تھا جو ترجمے کو کسی قدر آسان کر دیتا ہے اور امید تھی کہ یہ سمجھ میں بھی آ جائیں گے۔ یہ امید میری اپنی کوشش سے نہیں بلکہ جناب روش صدیقی صاحب کی رہنمائی سے پوری ہوئی۔ آخر میں معلوم ہوا کہ یہ اشعار ترجمے کے لیے نہایت موزوں ہیں۔
زندگی کا بڑا حصّہ تو اسی گھر میں گزر گیا، مگر کبھی آرام نہ نصیب ہوا۔ میرے شوہر دنیا کی نگاہ میں بڑے نیک، خوش خلق، فیاض اور بیدار مغز ہوں گے۔ لیکن جس پر گزرتی ہے وہی جانتا ہے۔ دنیا کو تو ان لوگوں کی تعریف میں مزہ آتا ہے جو اپنے گھر کو جہنم میں ڈال رہے ہوں اور غیروں کے پیچھے اپنے آپ کو تباہ کئے ڈالتے ہوں۔ جو گھر والوں کے لئے مرتا ہے، اس کی تعریف دنیا والے نہیں کرتے۔ وہ تو ان کی نگاہ میں خود غرض ہے، بخیل ہے، تنگ دل ہے، مغرور ہے، کور باطن ہے۔ اسی طرح جو لوگ باہر والوں کے لئے مرتے ہیں، ان کی تعریف گھر والے کیوں کرنے لگے۔ اب انہیں کو دیکھو، صبح سے شام تک مجھے پریشان کیا کرتے ہیں، باہر سے کوئی چیز منگواؤ تو ایسی دکان سے لائیں گے جہاں کوئی گاہک بھول کر بھی نہ جاتا ہو۔ ایسی دکانوں پر نہ چیز اچھی ملتی ہے، نہ وزن ٹھیک ہوتا ہے، نہ دام ہی مناسب۔ یہ نقائص نہ ہوتے تو وہ دکان بدنام ہی کیوں ہوتی، انہیں ایسی ہی دکانوں سے سودا سُلف خریدنے کا مرض ہے بارہا کہا کہ کسی چلتی ہوئی دکان سے چیزیں لایا کرو، وہاں مال زیادہ کھپتا ہے، اس لئے تازہ مال آتا رہتا ہے، مگر نہیں ٹٹپونجیوں سے ان کو ہمدردی ہے اور وہ انہیں الٹے استرے سے مونڈتے ہیں۔ گیہوں لائیں گے تو سارے بازار سے خراب، گُھنا ہوا۔ چاول ایسا موٹا کہ بیل بھی نہ پوچھے۔ دال میں کنکر بھرے ہوئے، منوں لکڑی جلا ڈالو کیا مجال کہ گلے۔ گھی لائیں گے تو آدھوں آدھ تیل، اور نرخ اصلی گھی سے ایک چھٹانک کم۔ تیل لائیں گے تو ملاوٹ کا، بالوں میں ڈالو تو چکٹ جائیں، مگر دام دے آئیں گے اعلٰی درجے کے، چنبیلی کے تیل کے۔ چلتی ہوئی دکان پر جاتے تو جیسے انہیں ڈر لگتا ہے، شاید اونچی دکان اور پھیکے پکوان کے قائل ہیں۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ نیچی دکان پر سڑے پکوان ہی ملتے ہیں۔
بارڈر کے اس پار کئی پھیرے ہوئے۔۔۔ ہر بار میں نے اس پگلی کو دیکھا۔ اب وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ رہ گئی تھی۔ بینائی کمزور ہو چکی تھی، ٹٹول کر چلتی تھی، مگر اس کی تلاش جاری تھی بڑی شدومد سے۔ اس کا یقین اسی طرح مستحکم تھا کہ اس کی بیٹی زندہ ہے، اس لیے کہ اسے کوئی مار نہیں سکتا۔ بہن نے مجھ سے کہا کہ ’’اس عورت سے مغز ماری فضول ہے۔ اس کا دماغ چل چکا ہے بہتر یہی ہے کہ تم اسے پاکستان لے جاؤ اور پا گل خانہ میں داخل کرادو۔‘‘
سختی کو جوڑ بند کے کب مانتی تھی وہہر استخواں کو مغز قلم جانتی تھی وہ
۲۰ اکتوبرکل گرانڈ ہوٹل میں ’’یوم بنگال‘‘ منایا گیا۔ کلکتہ کے یوروپین امراء و شرفاء کے علاوہ حکام اعلیٰ، شہر کے بڑے سیٹھ اور مہاراجے بھی اس دلچسپ تفریح میں شریک تھے۔ ڈانس کا انتظام خاص طور پر اچھا تھا۔ میں نے مسز جیولٹ تریپ کے ساتھ دو مرتبہ ڈانس کیا (مسز تریپ کے منھ سے لہسن کی بو آتی تھی۔ نہ جانے کیوں؟‘‘) مسز تریپ سے معلوم ہوا کہ اس سہن ماہتابی کے موقعہ پر یوم بنگال کے سلسلہ میں نو لاکھ روپیہ اکٹھا ہوا ہے۔
کیا ہوا واعظ کرے ہے شور جوں طبل تہیوہ سر بے مغز گویا کانسۂ طنبور ہے
میرا خیال ہے کہ پاگل پن کے جراثیم اس کے شوہر میں شروع ہی سے موجود ہوں گے جو اب ایک دم ظاہر ہوئے ہیں۔۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اب محمودہ کیا کرے گی۔ اس کا یہاں کوئی رشتہ دار بھی نہیں۔ کچھ شادی کرنے لاہور سے آئے تھے اور واپس چلے گئے تھے۔۔۔ کیا محمودہ نے اپنے والدین کو لکھا ہوگا۔۔۔ نہیں، اس کے ماں باپ تو جیسا کہ کلثوم نے ایک مرتبہ کہا تھا اس کے بچپن ہی میں مرگئے تھے۔ شادی اس کے چچا نے کی تھی۔ ڈونگری۔۔۔ ڈونگری میں شاید اس کی جان پہچان کا کوئی ہو۔۔۔ نہیں، جان پہچان کا کوئی ہوتا تو وہ فاقے کیوں کرتی۔۔۔ کلثوم کیوں نہ اسے اپنے یہاں لے آئے۔۔۔ پاگل ہوئے ہو مستقیم۔۔۔ ہوش کے ناخن لو۔‘‘مستقیم نے ایک بار پھر ارادہ کرلیا کہ وہ محمودہ کے متعلق نہیں سوچے گا، اس لیے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا، بے کار کی مغز پاشی تھی۔ بہت دنوں کے بعد کلثوم نے ایک روز اسے بتایا کہ محمودہ کا شوہر جس کا نام جمیل تھا، قریب قریب پاگل ہوگیا ہے۔ مستقیم نے پوچھا، ’’کیا مطلب؟‘‘ کلثوم نے جواب دیا، ’’مطلب یہ کہ اب وہ رات کو ایک سیکنڈ کے لیے نہیں سوتا۔ جہاں کھڑا ہے، بس وہیں گھنٹوں خاموش کھڑا رہتا ہے۔۔۔ محمودہ غریب روتی رہتی ہے۔۔۔ میں کل اس کے پاس گئی تھی۔ بے چاری کو کئی دن کا فاقہ تھا۔ میں بیس روپے دے آئی کیوں کہ میرے پاس اتنے ہی تھے۔‘‘
نہ ہوں گے سوز محبت کے دل جلے ٹھنڈےبھری ہے آتش غم مغز استخواں کی طرح
اب اگر کہیں انہوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید‘‘ تو کیا۔ اختر صاحب کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ ممکن ہے؟ یا کہیں انہوں نے مزدوروں کی حکومت کے متعلق فرمایا ہے کہ ’’اگر خسرو نباشد کوہ کن ہست‘‘ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ ضرور ان کے خلاف ہیں بالکل غلط ہے۔ مزدوروں کی حکومت میں بھی زیادتیاں ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ وہاں بھی اختلاف رائے کی گنجائش نہیں، وہاں بھی احتساب ہے اور ایسا احتساب ہے جس پر سرمایہ دار حکومتیں شرماتیں۔ وہاں بھی آمریت ہے، وہی آمریت جس کی بنا پر مسولینیؔ گردن زدنی ہے، وہاں بھی دور عبوری کو اتنا طول دیا گیا ہے کہ منزل مقصود وہی معلوم ہوتا ہے۔ اگر کوئی شاعر اس افراط و تفریط کی طرف اشارہ تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ اس نظام حکومت کے خلاف ہے۔ ہرگز صحیح نہیں۔ اختر صاحب مسولینیؔ والی نظم پڑھتے ہیں، لینن والی نظم نہیں پڑھتے ہیں۔ وہ ’’قیصر ولیم‘‘ کے ارشادات سے برافروختہ ہو جاتے ہیں۔ ’’فرمان خدا فرشتوں کے نام‘‘ ان کے ذہن سے اتر جاتا ہے۔ اقبالؔ جمہوریت کے خلاف نہیں، لیکن جب آپ جمہوریت کے نام پر ہر ممکن زیادتی کرنے کو تیار ہوں اور اس کا جواز یہ پیش کریں کہ کثرت رائے سے جو بات منظور ہو وہ آخری بات ہے تو ایک حکیم شاعر کا فرض ہے کہ نرمی سے یہ کہے کہ ’’از مغز دو صد خر، فکر انسانے نمی آید۔‘‘
دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔۔۔ بھوک گداگری سکھاتی ہے۔ بھوک جرائم کی ترغیب دیتی ہے۔ بھوک عصمت فروشی پر مجبور کرتی ہے۔ بھوک انتہا پسندی کا سبق دیتی ہے۔۔۔ اس کا حملہ بہت شدید، اس کا وار بہت بھرپور اور اس کا زخم بہت گہرا ہوتا ہے۔ بھوک دیوانے پیدا کرتی ہے۔ دیوانگی بھوک پیدا نہیں کرتی۔دنیا کے کسی کونے کا مصنف ہو، ترقی پسند ہو یا تنزل پسند، بوڑھا ہو یا جوان، اس کے پیش نظر دنیا کے تمام بکھرے ہوئے مسائل رہتے ہیں۔ چن چن کر وہ ان پر لکھتا رہتا ہے۔ کبھی کسی کے حق میں کبھی کسی کے خلاف۔ آج کا ادیب بنیادی طور پر آج سے پانچ سو سال پہلے کے ادیب سے کوئی زیادہ مختلف نہیں۔۔۔ ہر چیز پر نئے پرانے کا لیبل وقت لگاتا ہے۔ انسان نہیں لگاتا۔۔۔ ہم آج نئے ادیب کہلاتے ہیں۔ آنے والی کل ہمیں پرانا کر کے الماریوں میں بند کر دے گی، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے کار جئے، ہم نے مفت میں مغز دردی کی۔ گھڑی کی سوئی جب ایک سے گزر کر دو کی طرف رینگتی ہے تو ایک کا ہندسہ بے مصرف نہیں ہو جاتا۔۔۔ پورا سفر طے کر کے سوئی پھر اسی ہندسے کی طرف لوٹتی ہے۔۔۔ یہ گھڑی کا اصول بھی ہے اور دنیا کا بھی۔
’’تو میں کیا کروں، جاؤ اپنے گناہوں کی توبہ کرو۔ میرا سر کیوں چاٹ رہے ہو۔‘‘اس قدر کوڑھ مغز انسان سے بات کرنا حماقت تھی۔ کوئی اور ہوتا ان کی جگہ تو چھمن منہ توڑ دیتے، مگر بچپن سے بڑے بھائی کی عزت کرنے کی کچھ ایسی عادت پڑگئی تھی کہ خون کے سے گھونٹ پی کر گردن لٹکائے چلے آئے۔
خان بہادر کو اپنے بیٹے کی یہ گفتگو پسند نہیں تھی۔’’ تم چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔ میرا مغز مت چاٹو۔۔۔ میں ہر چیز سے واقف ہوں۔‘‘
عورت کا مغز مرد کے سر پر لگا دیااس تجربے نے قیس کو لیلیٰ بنا دیا
عصمت فروشی کوئی خلاف عقل یا خلاف قانون چیز نہیں ہے۔ یہ ایک پیشہ ہے جس کو اختیار کرنے والی عورتیں چند سماجی ضروریات پوری کرتی ہیں۔ جس شے کے گاہک موجود ہوں، اگر وہ مارکیٹ میں نظر آئے تو ہمیں تعجب نہ کرنا چاہیئے، اگر ہمیں ہر شہر میں ایسی عورتیں نظر آتی ہیں جو اس جسمانی تجارت سے اپنا پیٹ پالتی ہیں تو ہمیں ان کے ذریعہ معاش پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیئے۔ اس لئے کہ ہر شہر میں ان کے گاہک موجود ہیں۔عصمت فروشی کو گناہ کبیرہ یقین کیا جاتا ہے۔ ممکن ہے یہ بہت بڑا گناہ ہو، مگر ہم مذہبی نقطۂ نظر سے اس کو جانچنا نہیں چاہتے۔ گناہ اور ثواب، سزا اور جزا کی بھول بھلیوں میں پھنس کر آدمی کسی مسئلے پر ٹھنڈے دل سے غور نہیں کر سکتا۔ مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپیٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔ اس لئے مذہب کو عصمت فروشی سے الگ کر کے ہم نے ایک طرف رکھ دیا ہے۔
حیرت آفت زدۂ عرض دو عالم نیرنگموم آئینۂ ایجاد ہے مغز تمکیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books