خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
دلچسپ معلومات
۱۸۵۲ء
خوش ہو اے بخت کہ ہے آج ترے سر سہرا
باندھ شہزادہ جواں بخت کے سر پر سہرا
کیا ہی اس چاند سے مکھڑے پہ بھلا لگتا ہے
ہے ترے حسن دل افروز کا زیور سہرا
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرف کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے ترا لمبر سہرا
ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا
سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اس انداز کا گز بھر سہرا
رخ پہ دولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگ ابر گہر بار سراسر سہرا
یہ بھی اک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سہرا
جی میں اترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اک چیز
چاہیے پھولوں کا بھی ایک مقرر سہرا
جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پھولوں کا بھلا پھر کوئی کیوں کر سہرا
رخ روشن کی دمک گوہر غلطاں کی چمک
کیوں نہ دکھلاوے فروغ مہ و اختر سہرا
تار ریشم کا نہیں ہے یہ رگ ابر بہار
لائے گا تاب گراں باری گوہر سہرا
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہدے کوئی بڑھ کر سہرا
- کتاب : Deewan-e-Ghalib (Pg. 420)
- Author : kalidas gupta raza
- مطبع : Sakar Publishers Private Limited (1988)
- اشاعت : 1988
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.