۳۱ مارچ
اس محبت کی مدت دس مہینے تیس دن ہے۔ یعنی یکم مئی ۵۸ء کو اس کا آغاز ہوا اور ۳۰مارچ ۵۹ء اس کا انجام ہوا۔ اصل میں اس کاانجام مارچ کی آخری تاریخ کو ہونا تھا۔ اس صورت میں حساب سیدھا ہوتا اور محبت کی مدت گیارہ مہینے ہوتی۔ گھپلا اس وجہ سے پیدا ہوا کہ حسن مارچ کو تیس دن کا مہینہ سمجھے ہوئے تھا۔ ۳۱مارچ کی صبح کا اخبار دیکھ کراسے احساس ہوا کہ مہینہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ لیکن اب کچھ نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ کل ڈائری میں لکھ چکا تھا کہ محبت ختم ہوگئی۔
مگر حسن نے محبت کی میعاد چھ ماہ رکھی تھی۔ چار مہینے تیس دن زائد المیعاد ہیں۔ حسن نے ششماہی محبت کا منصوبہ سوچ سمجھ کر بنایا تھا اور اس کا پابند رہنے کی حتی الامکان کوشش کی تھی۔ پھر بھی اسے چھ ماہ کے ختم پر توسیع کرنی پڑگئی۔ یہ توسیع دومرتبہ کی گئی۔ دونوں مرتبہ دو دو مہینے کی توسیع دی گئی۔
حسن کہ دانشور تھا یہ بات بہت دنوں سے جانتا تھا کہ محبت کے بغیر آدمی کی تکمیل نہیں ہوتی۔
مگر خود اپنی تکمیل کرنے کی وہ کوئی نیت نہیں رکھتا تھا۔ اپنی تکمیل کی نیت اسے زبیدہ کے یہاں بھی نظر نہیں آئی۔ اور زبیدہ پر اسے ایک معصوم اور پارسا لڑکی کا گمان تھا۔ اس لیے اس کے متعلق اس نے یہ طے کیا کہ ایسی لڑکی سے شادی کی جاسکتی ہے، محبت نہیں کی جاسکتی۔ اور چونکہ مجھے شادی نہیں کرنی ہے اور چونکہ وہ بھی مجھ سے شادی نہیں کرسکتی اس لیے مجھے اس خیال سے باز رہنا چاہیے۔ یہ بات اس نے بہ قائمی ہوش و حواس سوچی اور چپ ہوگیا۔ مگر پھر اس کے ذہن میں یہ سوال آیا کہ آخر یہ بات اس کے ذہن میں آئی کیوں۔ اب تک تو اس لڑکی کے متعلق کوئی خیال اس کے ذہن میں نہیں آیا تھا۔ آخر اس نےنفسیات پڑھی تھی اور وہ اس بات سے بےخبر نہیں تھا کہ ذہن میں کسی خیال کا آنا خود ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ تو اس نے احتیاطاً ڈائری میں تاریخ نوٹ کرلی کہ کس دن ایسا خیال پہلی مرتبہ اس کے ذہن میں آیا یہ سوچ کر کہ مبادا کوئی قصہ شروع ہوجائے۔ اور قصے کی انتہا نہ معلوم ہو ابتدا تو معلوم ہونی چاہیے۔ یہ ۲۷فروری ۵۸ء کی بات ہے۔
۲۷فروری ۵۸ء کے بعد سے اس نے اپنی تھوڑی سی نگرانی شروع کردی۔ بات یہ ہے کہ وہ محبت کے الجھیڑے میں نہیں پھنسنا چاہتا تھا۔ تو جب زبیدہ کا خط آتا تو وہ اپنے آپ سے دور کھڑے ہوکر اپنے آپ پر اس خط کے اثرات کامشاہدہ کرتا۔ اور جب زبیدہ کا فون آتا تو ایک حسن فون پر باتیں کرتا اور دوسرا حسن کونے میں کھڑا ہوکر فون پر باتیں کرنے والے حسن کو تکتا رہتا۔ مگر پھر دوسرا حسن خود ہی رفتہ رفتہ ڈھیلا پڑگیا۔
پھر ایک روز حسن نے کسی قدر تردد کے ساتھ مقصود سے کہا کہ ’’یار اس لڑکی کامعاملہ کچھ گڑ بڑ ہے۔‘‘
’’اچھا؟‘‘ مقصود نے بہت اشتیاق سے پوچھا۔
’’ہاں یار‘‘ حسن نے پریشان ہوکر کہا وہ خط بہت لکھتی ہے۔‘‘
’’اورتم؟‘‘
’’میں بھی لکھتا ہوں۔‘‘
’’تو محبت ہوگئی ہے؟‘‘
محبت کے لفظ پر حسن بہت بھڑکا۔ اور اس کے بعد اس نے اچھے خاصے دنوں تک اس مسئلہ پر مقصود سے کوئی بات نہیں کی۔ مگر پھر عزیز سے باتیں کرتے کرتے یہ لفظ خود ہی اس کے منہ پر آگیا، ’’یار مجھے اندیشہ ہے کہ مجھے اس سے محبت تو نہیں ہوگئی۔‘‘
’’محبت؟‘‘ عزیز نے تحقیر آمیز لہجہ میں کہا۔ ’’وہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’پتہ نہیں یار،‘‘ حسن تھوڑا سٹپٹاگیا۔ ’’مگر وہ خط بہت لکھتی ہے اور میں بھی خط لکھتا ہوں۔‘‘
’’تو سیدھی بات کہو کہ ایک لڑکی پھنس رہی ہے مگر ویسے وہ خط کیا لکھتی ہے۔‘‘
حسن نے وضاحتی بلکہ معذرتی انداز میں کہا، ’’نہیں یار ایسا معاملہ نہیں۔ ہماری خط و کتابت انٹکچوئل مسائل پر ہوتی ہے۔‘‘
’’انٹکچوئل مسائل پر؟‘‘ عزیز پھر بھڑک گیا۔ ’’انٹکچوئل مسائل پر خط و کتابت لڑکی سے۔‘‘
حسن نے پھر معذرت کی، ’’یار وہ لڑکی ویسی نہیں۔‘‘
’’کیسی نہیں،‘‘ عزیز نے غصہ سے کہا۔
اور حسن نے دبے سے لہجہ میں کہا، ’’وہ بہت سنجیدہ لڑکی ہے یار۔‘‘
عزیزنے اپنے غصہ پر قابو پایا اور پھر کہا کہ ’’دیکھو حسن ہر لڑکی سنجیدہ ہوتی ہے۔ مگر کوئی لڑکی سنجیدہ نہیں رہنا چاہتی اور ہر لڑکی جو کالج میں پڑھتی ہے۔ انٹکچوئل خط لکھے گی۔ مگر کوئی لڑکی یہ نہیں پسند کرے گی کہ اس کے انٹکچوئل خط کا جواب انٹکچوئل خط سے دیا جائے۔‘‘
حسن نے یہ بات کسی قدر شک کے ساتھ قبول کی۔ مقصود نے جب یہ سنا تو افسوس بھرے لہجہ میں کہا کہ ’’خرابی یہ ہے کہ بیچارے عزیز کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔ اس کی ایک خاص ذہنی سطح ہے اس سے بلند ہوکر وہ نہیں سوچ سکتا۔‘‘ چپ ہوا۔ پھر بولا، ’’جن لڑکیوں سے پالا پڑا وہ بھی ایسی ویسی تھیں۔ کسی شریف تعلیم یافتہ لڑکی سے اس کاربط ہوا ہی نہیں۔ ایسی لڑکی ہمیشہ یہ دیکھتی ہے کہ کیا آپ اس سے ذہنی طور پر برتر ہیں۔ ذہنی لحاظ سے اپنے سے کمتر کو وہ قبول نہیں کرسکتی۔‘‘
اصل میں عورت کے بارے میں مقصود کے اپنے نظریات تھے اور عزیز کی اپنی ایک مخصوص بصیرت تھی۔ حسن دو بصیرتوں کے درمیان لڑھک رہا تھا۔ مگر موت اور عورت، ان دو کے سامنے آدمی اکیلا ہوتا ہے۔ اپنی ہی بصیرت ہو تو کام آتی ہے۔ حسن بصیرت سے محروم تھا۔ اس نے فراخدلی سے اپنی اس کوتاہی کا اعتراف کیا۔ پھر کچھ درس مقصود سے لیا اور کچھ زانوئے ادب عزیز کے سامنے تہہ کیا۔ اور عزیز یہ کہتا تھا کہ عورت سفنکس ہے۔ جو عورت تمہارے پاس آتی ہے وہ ایک سوال بن کر آتی ہے۔ اگر تم نے اس کے سوال کو سمجھ لیا تو تم نے اسے توڑ دیا نہیں سمجھا تو وہ تمہیں توڑدے گی۔ مقصود عزیز کی ایسی سب باتوں کو سن کر بس ایک بات کہتا تھا کہ پرانے لوگوں نے عورت اور مرد کے رشتہ کے صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کے حریف اورمقابل نہیں ہیں۔ اور محبت کوئی جنگ نہیں ہے۔
حسن بیک وقت مقصود اور عزیز دونوں کا قائل تھا۔ تو کبھی وہ زبیدہ سے یوں رجوع کرتا جیسے وہ سپاہی ہے اور اسے اس قلعہ کو توڑنا ہے اور یہ مہم سرکرنی ہے۔ اور کبھی یوں رجوع کرتا جیسے وہ بھگت ہے اور مندر میں داخل ہو رہا ہے۔
زیدہ کی روش یکساں تھی۔ اس نے شروع ہی میں لکھ دیا تھا کہ میں اپنی تنہائی کے جہنم میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرتی ہوں۔ مگر اس معذرت نے اور قہر ڈھایا۔ یہ معذرت حسن کے دانشورانہ مزاج میں کھب گئی۔ اس فقرے نے اس پر وہی اثر کیا جو نوخیز ان پڑھ لڑکوں پر فلی مکالمہ اثر کرتا ہے۔ اس نے اس خط کا جواب بہت سوچ سمجھ کر دیا اور لکھا کہ میری ذات میرا جہنم ہے۔ میں اس سے نجات چاہتا ہوں۔
اس دانشورانہ رومانی لہجہ میں بہت سے خط حسن نے لکھے اور بہت سے جواب زبیدہ نے دیے۔ مگر پھر حسن تھک گیا اور اس نے سوچا کہ میں نے محبت کو ایک علمی مسئلہ بنادیا ہے۔ حالانکہ وہ ایک سیدھا سچا انسانی تجربہ ہے۔ اس احساس کے تحت اس نے اپنے صبا رفتار قلم کو تھوڑی لگام دی۔ خیر لگام تو اس نے دے لی مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ اب وہ کیا کرے۔ اسی الجھن میں اس نے ایک روز مقصود سے کہا ، ’’یار میں تھوڑا سا بیوقوف نہیں ہوں۔‘‘
مقصود نے اس کی بات سنی اور جواب دیا۔ ’’ہر محبت کرنے والا بیوقوف ہوتا ہے۔ چالاک بن کر تو محبت نہیں کی جاسکتی۔
کہیں اسی وقت عزیز بھی آن دھمکا۔ اس نے خود اس نظریے کی تردید کی ’’یہ کون کہتا ہے۔ آدمی جب تک مکار نہ ہو، محبت نہیں کرسکتا۔‘‘
مگر عزیز نظریاتی بحثوں کا زیادہ قائل نہیں تھا۔ مقصود نے اس مسئلہ پر بحث کی کوشش کی کہ آیا عشق حماقت کا نام ہے یا مکاری کا۔ لیکن عزیز نے اس کی ساری بحث کاٹ کر حسن سے سیدھا سوال کیا، ’’سیدھی بات بتاؤ۔ چکر کیا ہے۔‘‘
حسن نے منہ لٹکاکر جواب دیا ، ’’یار خط و کتابت بہت لمبی ہوگئی۔‘‘
’’اسے مختصر کرو۔‘‘
’’مگر کیسے کروں۔‘‘
’’دیکھو دنیا میں دو قسم کی لڑکیاں پائی جاتی ہیں۔‘‘ عزیزرکا اور بولا، ’’میرا مطلب ہے کہ خط لکھنے والی لڑکیوں میں دو قسم کی لڑکیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک وہ جو اپنے خطوں میں فلمی مکالموں سے استفادہ کرتی ہیں اور ایک وہ جو انٹکچوئل قسم کے ناولوں سے استفادہ کرتی ہیں۔ مگر لفظ خواہ وہ فلمی ڈائی لوگ ہوں خواہ وہ سارتر سے ماخوذ ہو،عمل کا بدل نہیں ہے اور خیر فلمی مکالموں سے استفادہ سے ایک جواز ہے۔ مگر انٹلکچوئل ناولوں سے استفادہ کرکے خط لکھنا متبذل حرکت ہے۔ خواہ یہ حرکت تم کرو یا وہ کرے۔ تو لفظوں کے اس ابتذال کو ختم کرو۔‘‘
’’مشکل ہے،‘‘ اس نے اک بیچارگی کے احساس کے ساتھ کہا۔
’’مشکل ہے تو پھر اس قصہ پر خاک ڈالو اور اس لڑکی پہ لعنت بھیجو۔ ورنہ تم مارے جاؤگے۔ پوچھوں کیوں؟‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میری جان وہ یوں کہ محبت کوئی دائمی چیز نہیں ہے ہر جذباتی صورت حال کی ایک مدت ہوتی ہے اور اس کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ یہ تقاضے اس مدت میں پورے ہونے چاہئیں۔ اگر مرد ان تقاضوں سے کترائے گا تو عورت اس پہ لعنت بھیجے گی اور متنفر ہوجائے گی۔ اگر عورت دامن بچائے گی تو مرد اسے ٹھوکر مارے گا اور الگ ہوجائے گا۔ تو قبل اس کے کہ وہ تم پہ لعنت بھیجے اور تم سے متنفر ہو تم اسے ٹھوکر مارو اور الگ ہوجاؤ۔‘‘
مقصود نے عزیز کو حقارت کی نظروں سے دیکھا اور پھر وہ کتاب جو وہ ابھی ابھی خرید کر لایا تھا کھول کر یوں پڑھنی شروع کردی جسے وہ عزیز کی باتیں مطلق نہیں سن رہا۔
حسن چونکہ رومانٹک آدمی نہیں تھا۔ اس لیے اس نے ایسے خیالات کا ہمیشہ احترام کیا تھا۔ مگر اس وقت وہ کسی قدر مذبذب تھا۔ عزیز نے پھر کہا، ’’ٹھوکر مارو جی‘‘ اور یہ کہتے کہتے، اس نے ایک اور حکمت اگل ڈالی، ’’عورت کو ٹھوکر مارو۔ عورت تمہارے قدموں پہ گرے گی۔ عورت کو سجدہ کرو، عورت تمہارے سرپہ سوار ہوجائے گی۔ عورت کی عزت کروگے تو عورت تم سے نفرت کرے گی۔ عورت کو حقیر جانو، وہ تمہیں سرچڑھائے گی۔
عزیز چلا گیا تو مقصود نے کتاب بند کی اور اطمینان کا سانس لیا۔ ’’سخت ولگر آدمی ہے۔ لچر باتیں کرتا ہے۔‘‘ اس دیباچہ کے بعد اس نے ٹکڑا لگایا، ’’عورت سے ملنے کے لیے اپنے آپ کو توڑنا پڑتا ہے۔ محبت انا کے اعلان کا نام تو نہیں ہے۔ حسن تمہارے ساتھ خرابی یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو توڑ نہیں سکتے۔ اپنے آپ کو اپنے جذبے کے سپرد نہیں کرسکتے۔ مگر محبت تو سپردگی چاہتی ہے۔ اور عورت کو تم اس کی عزت کرکے ہی جیت سکتے ہو۔‘‘
حسن نے کچھ باتیں عزیز کی سنیں، کچھ باتیں مقصود کی سنیں۔ کچھ باتیں اس نے کتابوں میں پڑھ رکھی تھیں۔ اور کتابوں میں پڑھنے کے بعد اس نے اپنے متعلق طے کیا تھا کہ وہ رومانٹک آدمی نہیں ہے۔ مگر ان دنوں مختلف باتیں اور مختلف نظریات و تصورات اس کے اندر کچھ گڈمڈ ہوگئے تھے۔ اور اسے پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس نظریے کا آدمی ہے۔ مگر آخر وہ دانشور تھا۔ اس نے اس نظریاتی فساد کو رفتہ رفتہ ایک واضح نقطۂ نظر میں ڈھال لیا اور مقصود اور عزیز کو آکر اطلاع دی۔ ’’یار میں نے اس سے کہہ دیا کہ مجھ سے شادی کرلو۔‘‘
’’شادی؟‘‘ عزیز نے نہایت تحقیر کے ساتھ حسن کو دیکھا۔ ’’شادی اور محبت کا آپس میں کیا تعلق ہے۔‘‘
مقصود نے اطمینان کے لہجہ میں کہا ، ’’حسن تم نے ٹھیک کیا۔ کیا جواب دیا اس نے۔‘‘
’’یار خفا ہوگئی وہ۔‘‘
’’اصولاً اسےخفا ہونا چاہیے تھا۔‘‘ اب عزیز نے اطمینان کا لہجہ اختیار کیا۔
مقصود نے عزیز کی بات سنی ان سنی کی اور افسوس کے لہجہ میں کہا ، ’’یار اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تم سے نفرت کر رہی تھی۔‘‘
عزیز نے کہا ، ’’نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ فلرٹ نہیں کر رہی تھی۔ سچی محبت کرتی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب،‘‘ مقصود نے غصہ سے پوچھا۔
’’مطلب یہ ہے کہ جب لڑکی فلرٹ کرتی ہے تو شادی کی بات پر خوش ہوتی ہے جب محبت کرتی ہے تو شادی کی بات پر خفا ہوتی ہے۔ اور اگر محبت میں لڑکی شادی پر رضامند ہو جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ محبت نہیں کر رہی تھی، شادی کے لیے پھانس رہی تھی۔ انکار کردے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ واقعی محبت کرتی ہے۔ شادی اور محبت زندگی کی دو الگ الگ مدیں ہیں۔ ایک عقل کاروبار ہے۔ دوسری چیز تخلیق سرگرمی ہے۔‘‘
بہرحال اب حسن نے ایک واضح موقف اختیار کرلیااور عزیز اور مقصود کے نظریاتی اختلافات اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتے تھے۔ کہنے لگا کہ ’’یار بات یہ ہے کہ میں رومانٹک آدمی نہیں ہوں۔ اور ہر تجربہ کی اک عمر ہوتی ہے۔ میرے تجربہ کی عمر پوری ہوچکی۔ ویسے میں عجلت پسند نہیں ہوں۔ میں نے ایک ہفتے کا مارجن رکھا ہے۔‘‘
مقصود نے تھورا بیزار ہوکر سوال کیا، ’’اس سے تمہاری کیا مراد ہے۔‘‘
’’میری مراد یہ ہے کہ آج مار چ کی ۲۳ہے، یہ مہینہ بہرحال اپنے تجربے کے لیے وقف ہے۔ اسمیں کچھ نہ ہوا اور ظاہر ہے کہ کچھ نہیں ہوگا تو اس مہینہ کے ختم پر میں باقاعدہ اور قطعی طور پر اس تجربے کے ختم کا اعلان کردوں گا۔‘‘
عزیز نے ٹکڑا لگایا، ’’صحیح فیصلہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے عہد میں محبت کے تجربے کی عمر اتنی طویل نہیں ہوسکتی جتنی مجنوں اور فرہاد کے عہد میں تھی۔ اور ان کے لیے عشق ہول ٹائم جاب تھا۔ ہم اسے پارٹ ٹائم ہی کرکتے ہیں اور اسے لمبا نہیں چلا سکتے۔
’’مجھے بس ایک بات کی فکر ہے،‘‘ حسن نے کہا۔
’’کیا۔‘‘ عزیز نے سوال کیا۔
’’یار میں نے اپنے خطوط میں بعض بہت کام کی باتیں لکھی ہیں۔ ان خطوط کی نقلیں میرے پاس محفوظ نہیں ہیں۔ اور اب مجھے یہ بھی یقین نہیں کہ ادھر بھی یہ تحریر میں محفوظ رہیں گی یا نہیں۔‘‘
عزیز بولا، ’’اس کا انحصار اس پر ہے کہ تم زندگی میں مشہور آدمی بنتے ہو یا نہیں بنتے، اگر تم وہی رہے جو اب ہو تو یہ خط ضائع کردیے جائیں گے۔ اگر تم مشہور شخصیت بنے تو یا تو وہ تمہارے مرنےکے بعد ایڈٹ کرکے شایع کرے گی یا مرتے وقت اپنے سامان میں محفوظ چھوڑ جائے گی کہ محققین ان پر کام کریں۔‘‘
چونکہ حسن کو یہ یقین تھا کہ وہ اپنے عہد کی مشہور شخصیت بن کر مرے گا اس لیے اسے یہ سن کر خاصی پریشانی ہوگئی۔ ’’یار بات یہ ہے کہ میں نے بعض خطوں میں سخت گھپلا کیا ہے۔ لارنس کا بیان سار تر سے منسوب کردیا اور سارتر کا فقرہ کامیو کے منہ میں ڈال دیا۔ اور کہیں کہیں ایکسپریشن بھی بہت کمزور ہوگیا ہے بلکہ شاید کچھ محاورے کی بھی غلطیاں ہوئی ہیں۔‘‘
ان خطوں کی فکر حسن کو کئی دن پریشان کیے رہی۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور اس نے زبیدہ کو خط لکھا کہ فلاں فلاں خط میں حوالےکی غلطیاں ہیں۔ انہیں درست کرلیا جائے۔ اور جن فقروں کاایکسپریشن کمزور ہے انہیں سمجھا جائے کہ میں نے نہیں لکھے ہیں۔ ایک خط میں ایک محاورہ غلط لکھا گیا ہے اسے درست کرلیا جائے۔
زبیدہ کے نام حسن کا یہ آخری خط تھا۔ یہ خط ۳۰مارچ کی صبح کو لکھا گیا۔ اسی تاریخ کو رات کو حسن نے اپنی ڈائری کا ورق بھرتے ہوئے لکھا کہ آج مارچ کا آخری دن ہے، مارچ کا بھی اور میری محبت کا بھی۔ اس تجربہ کی میعاد طے شدہ پروگرام کے مطابق آج ختم ہوئی ہے۔
۳۱مارچ
تب اس نے اطمینان کا سانس لیا اور کہا کہ ایسا ہی ہونا تھا۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ اس نےمحبت کا تجربہ کرلیا اور اس میں سے کامیاب نکل آیا۔ کامیاب کے لفظ پر وہ تھوڑا ٹھٹکا۔
وہ ان لوگوں کو دھیان میں لایا جو تجربے میں غرق ہوکر رہ جاتے ہیں او ران لوگوں کو جو تجربے سے نکل آتے ہیں مگر ٹوٹ پھوٹ کر اس نے خالص علمی انداز میں اس مسئلہ پر غور کیا اور محبت میں کامیابی کے مروجہ تصور کو ایک تحقیر کے ساتھ روکر کے اپنے تئیں کامیاب قرار دیا۔ اس نے اپنی ساری پسلیوں کو شمار کیا اور طے کیا کہ وہ آگ سے سالم نکلا ہے۔ اسے اپنی کئی ذلتو ں کا خیال آیا مگر پھر اس نے غیر جذباتی غیرجانبدارانہ انداز میں طے کیا کہ ذلتیں تجربے کا حصہ ہیں اور آدمی بننے کے لیے ان سے گزرنا ضروری ہے۔ وہ اب آدمی بن گیا ہے، اس نے ایک احساس برتری کے ساتھ فیصلہ کیا اور مطمئن ہوگیا۔
اب اسے فراغت تھی۔ فراغت کے ساتھ اسے بھولے ہوئے کام یاد آئے۔ اس نے ایک احساس ذمہ داری کے ساتھ ان سارے کاموں کی اہمیت کو محسوس کیا جو دس مہینے تیس دن غفلت کا شکار رہے تھے۔ اس نے پھر سے سرگرم ہونے کا تہیہ کیا اور تولیہ کاندھے پر لپک جھپک غسل خانے میں داخل ہوگیا۔
اس نے غسل، غسل صحت کی طرح کیا۔ یا جیسے اس نے کوئی لمبا سفر کیا ہو۔ اور نہادھوکر ساری تھکن ساری گرداتار دینا چاہتا ہو۔ جیسے وہ غم و غصہ کی گرد میں اٹا ہوا تھا اور ذلتوں اور نجشوں نے اسے میلا کردیا تھا۔ اور اس نے اشنان کیا اور وہ پوتر ہوگیا۔ غسل خانے سے وہ اپنے پھول سے بدن اور خوشبو روح کے ساتھ ایک نیا آدمی بن کر نکلا۔
کپڑے بدلتے بدلتے اس کی نظر اس نیلے خط پر جاپڑی جو کئی دن سے میز پہ کھلا پرا تھا۔ اس خط کو اٹھاکر یوں پڑھا جیسے وہ کسی قدیم قلمی نسخہ کا مطالعہ کر رہا ہے۔ جس بے تعلقی کے ساتھ اس نے اسے اٹھایا تھا اسی بے تعلقی کے ساتھ اسے پھر میز پہ ڈال دیا۔ نہایت فضول قسم کا خط ہے۔ میں نے کیا لکھا تھا۔ اس نے ایک تلخ سے احساس کے ساتھ پچھلے مختلف خطوط کا دھیان کیا۔ مگر پھر اسے یکایک خیال آیا کہ محبت کی میعاد تمام ہوچکی ہے۔ اس قسم کے کسی مسئلہ پر غور و فکر محض تضیع وقت ہوگا۔ اور آج پہلی ہے اور اسے بہت کام نبٹانے ہیں۔
عجلت میں کپڑے بدلے اور عجلت میں ناشتہ کیا کہ آج پہلی تھی اور اسے بہت کام نبٹانے تھے۔ مگر ناشتہ کرتے کرتے اس نے اخبار پر بھی ایک نظر ڈال لینے کی کوشش کی۔ ۳۱مارچ اس نے اخبار کی تاریخ کو پھر غور سے دیکھا۔ تو گویا آج پہلی نہیں ہے یعنی مارچ کا مہینہ ختم نہیں ہوا ہے۔ یعنی اپنی میعاد تمام نہیں ہوئی ہے۔ مگر دوسرے سانس میں اس نے سوچا کہ جو لکھا گیا وہ لکھا گیا۔ کل میں اپنی ڈائری لکھ چکا ہوں۔ اور اب محبت کا کھڑاک دوبارہ شروع نہیں کیا جاسکتا۔
جب وہ پوری طرح تیار ہوگیا اور گھر سے نکلنے کو تھا تو اسے خیال آیا کہ اسے واقعی آج ہی سے زندگی کا نیا پروگرام شروع کرنا ہے۔ مگر طے یہ ہوا تھا کہ مارچ کے ختم تک پرانا پروگرام چلے گا اور مارچ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ تو کیا میں اس تجربے کی تجدید کروں، نہیں۔ وہ تجربہ تمام ہوچکا ہے۔ پھر؟ اور اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ پھر وہ کیا کرے۔ پورا دن خالی پن کے ایک پہاڑ کی مثال اس کے سامنے کھڑا تھا۔
۳۱مارچ۔ مارچ کی اکتیس اگر مارچ ہی کا حصہ ہے تو محبت کی میعاد کہاں سے ختم ہوگئی۔ اور اگر محبت کی میعاد ختم ہوچکی ہے تو اس دن کو کس خانے میں ڈالا جائے۔ گزرتے بسرتے دنوں میں کوئی کوئی دن عجب طرح اڑکر کھڑا ہوجاتا ہے اور کسی خانے میں مقید ہونے سے انکار کردیتا ہے۔ اور حسن یہ فیصلہ نہ کرسکا کہ آج کا دن اسے کیسا گزارنا ہے۔ اس نے اپنے کمرے کا جائزہ لیا۔ کتابوں پر نظر ڈالی۔ کتابوں کو اس نے کتنے دنوں سے ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ الٹ پلٹ کتابوں پر گرد کی تہہ جمی دیکھ کر اس نے سوچا کہ لگے ہاتھوں آج کتابوں کو درست کرکے رکھ دے۔
بہت دیر وہ کتابوں کوجھاڑتا رہا۔ جھاڑ پونچھ کر قرینہ سے ترتیب دیتا رہا۔ الماری میں کتابیں سجانے کے بعد اس نے میز پر بکھری کتابوں کو جمع کیا اور سلیقہ سے ترتیب دیا۔ ردی کاغذ کچھ چاک کئے کچھ توڑ مڑوڑ کر ٹوکری میں ڈالے۔ پھر اس نے وہ نیلاخط اٹھایا۔ چونکہ اس خط میں کوئی خاص بات لکھی ہوئی نہیں ہے اس لیے اسے محفوظ رکھنا بے سود ہوگا۔ مگر توڑتے مڑوڑتے ہوئے اس نے یونہی وہ خط کھولا اور اسے پڑھنا شروع کردیا۔ ایک دفعہ پڑھا۔ پھر دوسری دفعہ بہت آہستہ آہستہ پڑھا۔ پھر اس نے اپنے ہاتھوں کو دیکھا جو کتابیں صاف کرتے کرتے بہت میلے ہوگئے تھے۔ اس نے ہاتھ رومال سے صاف کیے۔ پوروں سے خط کو پکڑا اور احتیاط سے تہہ کرکے لفافہ میں رکھا اور میز پر رکھ دیا۔
ڈھیر ساری کتابیں صاف کرنے اور سجانے کے کام سے وہ تھک گیا۔ تھکن کے راستے ایک افسردگی کی کیفیت اس پر طاری ہوگئی۔ اس نےآنکھیں بند کرلیں۔ آنکھیں بند ہوئی تو تصور کا دریچہ کھل گیا۔ نیلے کاغذ پر سجے ہوئے سب لفظ جی اٹھے اور اس کے تصور میں منڈلانے لگے۔ اس کا بے اختیار جی چاہا کہ وہ ان لفظوں کے جواب میں لفظ لکھے۔ اس کی انگلیوں میں وہی بے چینی پیدا ہوئی جو پچھلے دنوں خط لکھنے سے پہلے پیدا ہوا کرتی تھی اور جب وہ قلم اٹھاتا تو سارے بدن کا جی انگلیوں میں اتر آتا، پوروں میں آکر ہڑ جاتا اور لفظ قلم سے کاغذ پریوں لکھا جاتا جیسے ہونٹ ہونٹوں پر بوسہ نقش کرتے ہیں مگر پھر اس نے فوراً جھرجھری لی۔ قصہ پاک ہوچکا ہے۔ اب جو کچھ اس نے سوچا وہ محض رومائسزم ہے۔ تضیع وقت ہے۔
اس نے سونے کی کوشش کی مگر تھک جانے کے باوجود اسے نیند نہیں آئی۔ اس نے کتاب اٹھائی اور پڑھنے کی کوشش کی۔ وہ بہت سے صفحے پڑھ گیا مگر پھر اس نے بیزار ہوکر کتاب بند کردی۔ اصل میں اس نے اپنے رومائسزم پر قابو تو پالیا تھا مگر لگتا تھا کہ اس کے اندر کسی علاقہ میں بدستور بغاوت کی آگ بھڑکی ہوئی ہے۔ جیسے یہ باغی علاقہ اپنی خودمختاری کااعلان کردے گا۔ اس نے بغاوت کو سختی سے کچلنے کی کوشش کی اور اپنے ارادے کو پورے شعور کے ساتھ بروئے کار لایا۔ مگر بدامنی قائم رہی۔ جیسے دو سانٹہ آپس میں لڑ رہے ہیں۔ اور اس کی ہستی چٹخ کو ریزہ ریزہ کرجائے گی اور اس نے کہ علم و حکمت کے موتی کتابوں سے چن چن کر اپنی شخصیت کی تعمیر کی تھی۔ محسوس کیا کہ اس کے اعضالیتی سے جوڑے گئے ہیں۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جوڑ بند کھل رہے ہیں اور وہ ایک ملبہ بنا چاہتا ہے۔
یکم اپریل۔
اس نے اس فقیر کی صورت صبح کی جس کےاعضارات کو بکھرجاتے تھے اور صبح کو جڑ جاتے تھے۔ اس نے اپنے آپ کواکٹھا کیا اور اطمینان کا سانس لیا کہ مارچ گزر چکا ہے اور وہ صحیح و سالم نکل آیا ہے۔
بستر سے وہ اک اکساہٹ کے ساتھ اٹھا۔ آئینہ دیکھا میلی چیپڑ بھری آنکھوں کو صاف کرتےہوئے اس نے سوچا کہ وہ کتنے برسوں سے نہیں نہایا ہے۔ تولیہ کاندھے پہ ڈال وہ غسل خانے میں چلا گیا۔
نہادھوکر اس نے کپڑے بدلے، بال سنوارے۔ چلتے چلتے اس نے میز کی چیزیں درست کیں۔ پہلے خط کو اس نے بے تعلقی سے دیکھا، ایسے مٹھی میں ملا اور ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔ اور پھر وہ باہر نکل گیا۔
جب وہ گھر سے نکلا تو دن چڑھ چکا تھا۔ چاروں طرف دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ چار قدم میں اس کا نہایا دھویا برابر ہوگیا۔ بس اڈے پر اچھی خاصی بھیڑ تھی کئی بسوں کو اس نے یہ سوچ کر گزرجانےدیا کہ ان میں رش بہت ہے لیکن جب رش کسی طرح کم نہ ہوا تو اس نےہمت کی اور مار توڑ کرتا بس میں گھس گیا۔
پسینے میں بھیگے میلے مسافر اس کے آگے پیچھے دائیں بائیں اس طرح کھڑے تھے کہ اس کے لیے سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سوچا کہ کیا وہ اپنی سفید قمیض کواس غلاظت بھری بس سے سلامت لے کر نکل سکتا ہے۔
رفتہ رفتہ وہ اپنی سفید قمیض کو بھول گیا، بس کی بساند اس کے دل و دماغ میں اتر رہی تھی۔ اس نے جانا کہ مری ہوئی مکھیوں کے انبار کے درمیان کھڑا ہے۔
اس نے ایک بار پھر بچنے کی کوشش کی۔ ایک مسافر کے اترنے پر وہ پسینے میں شرابور کالے بھجنگ آدمی کے برابر سے ہٹ کر آگے سرک گیا۔ یہ قدرے بہتر جگہ تھی۔ وہ آسانی سے سانس لے سکتا تھا۔
ایک گوری گردن اس کے سانس کی زد میں تھی۔ اس نے اوپر سے نیچے تک ہرے بھرے پچھائے کو نظر بھر کر دیکھا۔ پھر اس کی نظر ان شاداب لمبی باہوں پر گئی جو کھوسے تک کھلی ہوئی تھیں۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔ مگر پھر اسے احساس ہوا جیسے وہ اس شاداب جسم کو ایک بے تعلقی سے دیکھ رہا ہے پھر اس گلشن بدن کو نظر بھر کر دیکھا، اور دیکھتا رہا۔ مگر اسے دیکھتے ہوئے اس کی طبیعت اداس ہوتی چلی گئی۔ اور اس وقت اسے احساس ہوا جیسے وہ سالم نہیں ہے۔ جیسے اکٹھا ہوتے ہوئے اس کا کوئی ریزہ، کوئی کنکی باہر پڑی رہ گئی ہے۔ جیسے اس کے جہنم کا کوئی انگارہ کہیں باہر پڑا دہک رہا ہے۔ میری ذات میرا جہنم ہے۔ میرے جہنم کے سب انگارے میرے اندر رہنے چاہئیں۔
اپنے جہنم سےباہر نکلنے کی نیت باندھتے ہوئے اس نے سوچا کہ اس بھلی لڑکی شاکرہ کے اس کے پیچھے دو فون بھی آچکے ہیں۔ خط بھی آچکا ہے اس سے ملنا چاہیے۔ مگر اس ارادے سے بھی اس کے اندر گرمی پیدا نہیں ہوئی اور وہ اس بس سے یوں اترا جیسے اس پہلے ہجوم میں پھنس کر وہ ٹوٹ پھوٹ گیا ہے۔
بس سے اتر کر وہ آگے جانے کی بجائے گھر کی طرف واپس چلا۔ میری رات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ میرے اجزا ہنوز منتشر ہیں۔ اور چلتے ہوئے اسے یوں لگ رہا تھا جیسے وہ کم ہوتا چلاجارہا ہے۔ جیسے اس کے جہنم کے انگارے رستےمیں گرتے چلے جارہے ہیں اور گھر پہنچتےپہنچتے وہ بجھ جائے گا۔
اپنےبکھرے انگاروں کے ساتھ وہ واپس گھر پہنچا۔ کمرے میں داخل ہوکر سب سے پہلے اس کی نظر ردی کی ٹوکری پر گئی۔ اس نے وہ مرا تڑا خط نکالا۔ اسے احتیاط سے تہہ کیا اور پھر میز پر رکھ دیا۔ اور اس نےڈائری میں یکم اپریل کا صفحہ کھول کر لکھا۔ ۳۱مارچ، پھر وہ اگلے ورق الٹتا چلا گیا اور ان پر لکھتا چلا گیا ۳۱مارچ، ۳۱مارچ، ۳۱مارچ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.