Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

۱۰x ۷ کا کمرہ

کرتار سنگھ دگل

۱۰x ۷ کا کمرہ

کرتار سنگھ دگل

MORE BYکرتار سنگھ دگل

    ’’یہ کمرہ۱۰x۷ کا ہونا چاہیے۔‘‘ تپائی پر کھلے ہوئے نقشے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسز ملک نے پھر کہا۔ یہ تجویز انہوں نے تیسری بار دی تھی۔ لیکن پتہ نہیں کیسے نہ ان کے شوہر اور نہ ہی ان کے آرکیٹکٹ نے ان کی بات کی طرف کوئی دھیان دیا۔

    مسز ملک اپنا مکان بنوا رہی تھیں۔ دہلی میں سب سے زیادہ فیشنیبل علاقے میں ان کا پلاٹ تھا اور آج کل جب ان کا تبادلہ دہلی میں ہوا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا، چار چھ مہینے لگاکر یہ کام بھی نمٹا دیں۔ مسز ملک کہتیں، ’’میں تو اب دلی میں رہو ں گی۔ آپ کی تبدیلی تو ہر چوتھے روز ہو جاتی ہے۔ میں تو اب بچوں کی پڑھائی اور خراب نہیں کروں گی۔ میں اور ماں جی (مسز ملک کی ساس) بچوں کے ساتھ دلی میں رہیں گے۔ کوئی بات بھی ہوئی۔ ہر دوسرے روز تام جھام اٹھاکر دوسرے شہر۔‘‘

    بچے جوان ہو رہے تھے۔ دلی میں اکیلے رہنے میں کیا ڈر؟ اور پھر ماں جی ان کے پاس ہوں گی۔ مسٹر ملک کو بھی اپنی بیوی کی رائے ٹھیک لگی تھی۔

    ’’یہ کمرہ۱۰x۷ کا ہونا چاہیے۔‘‘ مسز ملک نے پھر کہا۔ کچھ دیر سے مسٹر ملک ساتھ کے کمرے میں ٹیلیفون سن رہے تھے۔

    ’’لیکن یہ تو اسٹور ہے۔‘‘ آرکیٹکیٹ نے مسز ملک کو سمجھایا۔

    ’’یہ تو ٹھیک ہے۔ میرا مطلب ہے یہ کمرہ ماں جی کا ہو جائےگا۔ پھر اسٹور بنا لیں گے۔‘‘

    آرکٹیکیٹ کو جیسے یہ بات سمجھ میں نہ آئی ہو۔ وہ مسز ملک کے منہ کی طرف دیکھ رہا تھا۔

    ’’میرا مطلب ہے۔ ماں جی اس کمرے میں اٹھ بیٹھ لیا کریں گی۔ پھر ان کے بعد۔۔۔ انہیں کون سا اب زیادہ دیر۔۔۔‘‘

    اتنے میں مسٹر ملک ٹیلیفون سن کر آ گئے۔ ٹیلیفون پر باتیں کرتے ہوئے انہوں نے بھی یہی سوچا تھا کہ اسٹور روم ذرا بڑا ہونا چاہیے۔ آدمی کھلا ڈھلا اس کے اندر سامان رکھ سکے اور پھر کھلے اسٹور کی صفائی بھی تو آسانی سے ہو سکتی ہے اور فیصلہ ہوا۔ بچوں کے بیڈ روم اور غسل خانے کے ساتھ لگتا کمرہ۱۰x۷ کا بنا دیا جائے۔ آنگن تھوڑا سکڑ جائےگا۔ اس کا کوئی حرج نہیں۔

    باقی سب سہولتیں نقشے میں پہلے ہی مہیا کی ہوئی تھیں اور نقشہ پاس کرانے کے لیے بھیج دیا گیا۔ مسز ملک نے بڑے شوق کے ساتھ اپنا گھر بنوایا۔ گرمی کے دنوں میں وہ ساری ساری دوپہر چھاتا لیکر کاریگروں کے سر پر کھڑی رہتیں۔ کئیں بار جب کوئی مزدو عورت نہ پہنچتی وہ خود مزدوروں کا ہاتھ بٹانے لگتیں۔ صبح سب سے پہلے موقع پر پہنچتیں، شام کو سب کو بھیج کر واپس آتیں۔ مسز ملک مٹی کے ساتھ مٹی ہوتی رہیں اور پھر ان کامکان کھڑا ہو گیا۔ کمرے تو پہلے ہی بنے ہوئے تھے۔ کون سا کمرہ کس کا ہوگا۔ مسز ملک کہتیں۔ پرانے فرنیچر کا پٹرا بھی وہ اس مکان میں گھسنے نہ دیں گے۔

    گھر بن کر تیار ہو گیا تھا۔ ابھی ’’گرہ پرویش‘‘ نہیں ہوا تھا کہ سرکار نے مکان کو ایکوریشن کر لیا۔ مسز ملک کو جب پتہ چلا، انہیں چاروں کپڑوں آگ لگ گئی۔ لیکن پھر بہت سی رقم کرائے کی سن کر، اس نے سرکار کے اس ظلم کو معاف کر دیا۔

    اڑوس پڑوس کی عورتوں سے پہلے سے بنا رکھی دوستی، گلی محلے میں، مکان بناتے وقت پیدا ہوئے رشتے، مسز ملک کی چھوٹی موٹی کئی امیدیں ویسی کی ویسی دھری رہ گئیں۔ اپنے بنائے ہوئے گھر کو سنوارنے سجانے کے اس کے سپنے، ویسے کے ویسے ادھورے رہ گئے۔ مسز ملک سوچتی اور ایک پھیکی سی ہنسی ان کے لپسٹک رنگے ہونٹوں پر کھیلنے لگتی۔

    اور پھر ان کا تبادلہ ہو گیا۔ مسز ملک نے شکر منایا۔ نہ اب وہ اپنا مکان دیکھا کریں گی، نہ انہیں غصہ آیا کرے گا۔ نہ اگلے پل ڈھیر سارے کرائے کی فکر سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا کرےگا۔ دلی سے چلتے وقت کبھی مسز ملک سوچتیں۔ اچھا ہے۔ جائداد تو بن گئی۔ کبھی انہیں افسوس ہونے لگتا۔ اتنے شوق سے انہوں نے مکان بنوایا تھا۔ اپنی ہر ضرورت کا دھیان رکھ کر اور چار دن بھی وہ اس میں رہ نہ پائی تھیں۔

    تبدیلیوں کے چکر میں ایک شہر سے دوسرے شہر گھومتے کئی سال بیت گئے۔ ایک ارمان تھا مسز ملک کا اپنے مکان میں رہنے کا۔ وہ پورا نہ ہوا۔ سرکار نے ان کے گھر میں کوئی دفتر کھول رکھا تھا اور مسز ملک سوچتیں۔ چلو اچھا ہے۔ کرایہ تو ہر مہینے کی پہلی کو ہمارے نام جمع ہو جاتا ہے۔ اگر سرکار کرایہ پر نہ لیتی تو کبھی کوئی کرایہ دار کبھی کوئی، کسی کا یہ نخرا، کسی کا وہ، کون کرایہ داروں کی فرمائشیں پوری کرتا رہتا۔

    یوں تبادلوں کے چکر میں مسز ملک کی ساس چل بسیں، بوڑھی عمر، کتنی دیر اور انتظار کرتیں۔ مسز ملک کی بیٹی بیاہی گئی۔ بس اب بیٹے کا بیاہ رچانا تھا۔ ادھر ان کے شوہر کے ریٹائر ہونے کا وقت آ رہا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا ریٹائر ہونے سے کچھ دن پہلے وہ لڑکے کا بیاہ بھی کر ڈالیں گے۔ نوکری میں بیاہ رچانے میں سو مدد مل جاتی ہے۔

    ان کے بیٹے کا بیاہ ہو گیا۔ گھر بہو آ گئی اور پھر مسٹر ملک ریٹائر ہو گئے لیکن دہلی والا مکان سرکار نے ابھی تک خالی نہیں کیا تھا۔ مسٹر ملک اور مسز ملک اپنے بہو بیٹے کے ساتھ رہ رہے تھے۔ دہلی میں ہی تو ان کا بیٹا نوکر تھا۔ مکان کے مالک خود کرایہ کے گھر میں رہتے تھے۔ ان کا اپنا گھر سرکار نے سنبھالا ہوا تھا۔ مسٹر ملک سرکار سے عرضی پرچے کرتے ہار گئے۔ پھر ایک دن ان کا آخری وقت بھی آ گیا۔ ابھی مسٹر ملک کی موت کو تین مہینے نہیں ہوئے تھے کہ ان کا گھر خالی کر دیا گیا۔

    مسز ملک کی فیشن ایبل بہو اپنی ساس سے بھی زیادہ اتاؤلی ہو رہی تھی اپنے گھر میں جانے کے لیے، ادھر مکان خالی ہوا، ادھر اس نے اپنا سامان ڈھونا شروع کر دیا۔ ایک دن، دو دن، تین دن ٹھیلے آتے رہے۔ بازار سے نیا فرنیچر پہنچتا رہا۔ مسز ملک کی بہو سارا سارا دن اپنے مکان میں جاکر صفائی کراتی رہتی، گھر سجاتی رہتی۔

    سوموار صبح انہیں اپنے گھر میں منتقل ہونا تھا۔ اس دن سوکر اٹھے تو باہر بارش ہو رہی تھی۔ مسز ملک کی بہو، بیٹا، مسز ملک خود انتظار کرتے رہے۔ بارش اب رکتی ہے۔ لیکن پانی لگاتار پڑتا رہا اور پھر مسز ملک کے بیٹے کا دفتر جانے کا وقت ہو گیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ شام کو وہ اپنے گھر میں منتقل ہوں گے۔ شام کو بھی بارش ویسی کی ویسی ہوئے جا رہی تھی۔ مسز ملک بار بار کہتیں۔ مہورت آج کا نکلا ہے۔ کسی طرح آج اپنے گھر میں پہنچ جانا چاہیے اور پھر ماں جی کا کہنا مان کر بہو بیٹا بارش میں ہی چل دیے۔ جو سامان باقی رہ گیا وہ پھر ڈھویا جا سکتا ہے۔ ایک اپنی کار تھی، ایک ٹیکسی منگوالی گئی۔

    چھم چھم۔ باہر مینہ پڑ رہاتھا۔ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی مسز ملک یادوں کی جھرمٹ میں کھوئی جا رہی تھیں۔

    وہ ارمان جس کے ساتھ انہوں نے اپنا گھر بنوایا تھا۔ وہ دن ہائے۔۔۔ وہ دن بھی کیسے تھے۔ سارا سارا دن وہ دھوپ میں کھڑی، مزدوروں کو کام کرتے دیکھتی رہتیں اور کیا مجال جو اسے ذرا بھر بھی تھکاوٹ ہو۔ ان کے آرکٹیکیٹ نے گھر کا ایک رنگین نقشہ بنایا تھا۔ گھر تیار ہوکر کیسا لگےگا۔ نقشے میں برآمدے کے کھمبے کے ساتھ لگ کر ایک عورت کھڑی تھی۔ بےحد خوبصورت۔ جیسے کوئی پری ہو اور اس روز رات کو سونے کے لیے لیٹی مسز ملک کو لگا۔ آرکٹیکیٹ نے نقشے میں وہ تصویر انہی کی بنائی تھی اور پھر کئی دن بار بار وہ شنگار میز کے سامنے جاکر کھڑی ہوتیں، بار بار اس تصویر کو دیکھتیں۔ مسز ملک کو لگتا۔ آرکٹیکیٹ نے وہ تصویر انہی کی ہی بنائی تھی۔ مسز ملک سوچتیں، وہ تصویر بھی اپنی بہو کو دکھائیں گی۔

    ان کی بہو (یہ آج کی لڑکیاں) کیسے اگلی سیٹ پر شوہر کے ساتھ بیٹھی، ہینڈ بیگ میں سے شیشہ نکال کر لپسٹک سے اپنے ہونٹ رنگ رہی تھی۔ آخر اپنے گھر ہی تو جا رہے تھے۔ باہر پانی پڑ رہا تھا۔ اوپر سے رات ہو رہی تھی۔ ایسے میں اتنے شنگار کی کیا ضرورت؟ لیکن یہ آج کل کی لڑکیاں۔ توبہ توبہ! کیسے گٹ مٹ، گٹ مٹ میں انگریزی میں باتیں کر رہی تھیں۔

    مسز ملک سے بس ایک انگریزی نہیں سیکھی گئی تھی اور سب کچھ اس نے کیا تھا۔ کیا کیا نہیں انہوں نے کیا تھا۔ پی بھی تھی پارٹیو ں میں۔ کلبوں میں کب تک کوئی انکار کر سکتا ہے۔ ڈانس بھی انہوں نے سیکھا تھا۔ اپنے شوہر کے ساتھ بھی، پرائے مردوں کے ساتھ بھی وہ ناچی تھیں۔

    لیکن ان کی بہو تو دس قدم اس سے آگے تھی۔ مسز ملک کو لگا۔۔۔ آرکٹیکیٹ کے رنگین نقشے میں وہ بےحد خوبصورت لڑکی کہیں ان کی بہو تو نہیں تھی؟ نہیں۔ نہیں۔ اس کی بہو کیسے ہو سکتی تھی۔ وہ تو تب کسی کے سپنے میں بھی نہیں تھی۔ تب تو اس کا بیٹا ابھی اسکول میں پڑھتا تھا۔ تربوزی رنگ کی ساڑھی جو ان کی بہو نے آج باندھی ہوئی تھی۔ وہی رنگ تو تھا شاید نقشے والی لڑکی کا، ہاں۔ تربوزی رنگ ہی تو تھا۔ تربوزی رنگ مسز ملک کو کبھی اچھا نہیں لگا۔ اتنا بھڑکیلا رنگ جیسے کسی کو آگ لگی ہو۔ آگ تو لگی ہوئی تھی اس زمانے کو۔

    تربوزی رنگ کی ساڑھی پہن سکتی ہے۔ مسز ملک سوچ رہی تھیں۔ لیکن میں تو تب مانوں جب یہ میرے جیسی محنت بھی کر سکے۔ جیسے میں نے گھر بنایا تھا۔ اس کی عمر میں۔ ایک ایک اینٹ اپنے سامنے لگوائی، چاہے دھوپ ہو چاہے کچھ۔ میں کبھی نہ ہلی تھی چنائی کی دیوار سے۔ میں تو کئی بار اینٹیں اٹھا اٹھاکر انہیں پکڑاتی رہی، میں تو کئی بار ربڑ کا پائپ اٹھاکر خود سیمنٹ کی دیواروں پر چھڑکاؤ کرتی رہتی۔ میں نے تو کئی کئی بار ریت چھانی۔ جب کوئی مزدور عورت نہیں آتی تھی۔ ان دنوں ان چڑیلوں کے بچے ہونے والے تھے۔

    اور پھر کار ان کی کوٹھی میں جا رکی۔ آنکھ جھپکنے کی دیری میں مسز ملک کی بہو کود کر برآمدے میں جا کھڑی ہوئی۔ ٹھیک وہیں کھمبے کے ساتھ سٹ کر جیسے نقشے میں لڑکی کھڑی تھی۔ مسز ملک کے کلیجے میں جیسے چھری چل گئی ہو۔ شاید آرکیٹکیٹ نے اس کے ساتھ چھل کیا تھا۔ دھوکا کیا تھا۔

    سامنے برآمدے میں کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑی، تربوزی رنگ کے ساتھ اپنے موٹے بھاری جوڑھے کو ڈھانپتی اس کی بہو پیچھے ٹیکسی میں سے سامان اتروا رہی تھی۔ اپنی موٹر میں سے سامان نکالنے کے لیے نوکر سے کہہ رہی تھی۔

    سارا سامان نکل گیا۔ ٹیکسی والا پیسے لے کر چلا گیا۔ مسز ملک ویسی کی ویسی کار میں بیٹھی تھی جیسے نیچے ہی نیچے کوئی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہو اور پھر اس کا بیٹا کوٹھی کے اندر چلا گیا۔ اس کی بہو چلی گئی نوکر چلے گئے۔ ہر کمرے میں بتیاں جل اٹھیں۔ مسز ملک ویسی کی ویسی کار میں بیٹھی تھی۔ جیسے اس کا انگ انگ کمزور اور بےجان ہو گیا ہو۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھے جا رہی تھیں۔

    ایک گھنٹہ، دو گھنٹے گزر گئے اور پھر جیسے گھر والوں کو یاد آیا۔

    ’’ارے ماں جی۔‘‘ ان کا بیٹا گھبرایا ہوا لپکا اور اس نے موٹر کا دروازہ کھول کر ماں کو باہر نکال لیا۔

    ’’بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی تھی۔‘‘

    مسز ملک کا بیٹا ہنستا ہوا اپنی ماں کو کوٹھی میں لے چلا۔ اس کی بہو بھی باہر آ گئی تھی۔ برآمدے میں کھمبے کے ساتھ سٹ کر کھڑی ہنس رہی تھی۔ تربوزی رنگ کی ساڑھی کا پلو اس کے موٹے بھاری جوڑے کو ڈھک رہا تھا۔

    ’’مجھے کھانا پینا کچھ نہیں، میں تو اب لیٹوں گی۔‘‘ مسز ملک نے اپنی بہو سے کہا۔ کھانا میز پر لگ چکا تھا۔ کھانے کی میز پر ہی تو انہیں ماں جی کی یاد آئی تھی۔

    ’’تو پھر اپنے کمرے میں آرام کر لیں۔‘‘ مسز ملک کی بہو نے ۱۰x۷ کے اس کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا اور بیٹا ماں جی کا بازو پکڑے انہیں ان کے کمرے کی چارپائی پر لٹا آیا۔

    ’’میرا مطلب ہے، یہ کمرہ ماں جی کا ہو جائےگا، پھر اسٹور بنا لیں گے۔‘‘ چار پائی پر لیٹے لیٹے بار بار مسز ملک کے کانوں میں یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ مسز ملک سوچتیں، اسے کون سا اب بیٹھے رہنا تھا۔ اس کا سرتاج چل دیا تھا۔ جن کے ساتھ لاکھ بار اس کے ایک ساتھ جینے ایک ساتھ مرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔

    ’’میرا مطلب ہے۔ یہ کمرہ ماں جی کا ہو جائےگا، پھر اسٹور بنالیں گے۔‘‘ بار بار ان کے کانوں میں پڑ رہی یہ آواز کتنی اونچی ہوتی جارہی تھی۔ مسز ملک سوچتیں، اسے اب کون سا بیٹھ رہنا ہے۔ اس کے ارمان ایک ایک کرکے اب پورے ہو چکے تھے۔

    ’’میرا مطلب ہے۔ یہ کمرہ ماں جی کا ہو جائےگا۔ پھر اسٹور بنا لیں گے۔‘‘ یہ آواز جیسے ان کے کانوں میں گونجنے لگی۔ ہاں ایک ارمان مسز ملک کا باقی تھا۔ مسز ملک سوچتیں، مر تو اسے جانا ہے۔ کاش مرنے کے بعد وہ یہ دیکھ سکیں کہ اس کی بہو اس کمرے کو اسٹور بنائےگی کہ نہیں۔

    ’’اور تو سب کچھ ہے۔ ایک اسٹور نہیں اس گھر میں۔‘‘ سامنے کھانے کی میز پر بیٹھی اس کی بہو کہہ رہی تھی۔

    مسز ملک نے سنا تو اسے لگا کہ جیسے اس کے دل کی حرکت بند ہو گئی ہو۔ ایک جھٹکا سا اسے محسوس ہوا اور پھر اس کی آنکھیں مند گئیں۔

    مأخذ:

    نمائندہ پنجابی افسانے (Pg. 83)

      • ناشر: اردو اکادمی، دہلی
      • سن اشاعت: 1993

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

    GET YOUR PASS
    بولیے