آدھا پھول، آدھا شَو
(شَو: لاش، میت یا جنازہ)
حافظ جی کھانا کھانے بیٹھے تو گوشت میں انہیں نمک کچھ زیادہ ہی تیز لگا اور انہوں نے کھانا چھوڑ دیا۔
گھر والوں کو حیرت ہوئی۔ نمک چاہے تیز ہو یا کم، حافظ جی کھانا تو کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ بہو کو تھوڑا ڈانٹ ڈپٹ دیتے تھے اور جیسے ہی ان کے سامنے تازے تمباکو کا حقہ آتا تو خوش باش ہو اٹھتے۔ لیکن اس روز ایسا نہیں ہوا، حافظ جی چوکی پر سے اٹھ گئے اور پلنگ پر جا لیٹے۔
’’اگر ان کا گھوڑا مارنے کے چکر میں نہ پڑتے ہم تو مات نہ ہوتی۔۔۔‘‘ حافظ جی سوچنے لگے، ’’بجائے پیادہ چلنے کے اگر ہم اپنا ہاتھی چل دیتے تو کھیل کانقشہ دوسرا ہی ہوتا۔۔۔‘‘
حافظ جی اس روز ہار گئے تھے بری طرح اور رائے صاحب ٹھٹھا مار کر ہنس پڑے تھے۔
’’یہ کربلا کی لڑائی نہیں ہے حافظ جی، شطرنج ہے!‘‘ رائے صاحب نے چٹکی لی تھی اور حافظ جی کٹ کر رہ گئے تھے۔
جیسے جیسے رات گہری ہو رہی تھی، حافظ جی کا دماغ اور زیادہ الجھ رہا تھا۔
ایک ایک کرکے رائے صاحب کی ساری چالاکیاں ان کے سامنے اجاگر ہو رہی تھیں۔ بازار کی وصولی، تالاب کی نیلامی، چک بندی میں کھیتوں کا چناؤ سب جگہ رائے صاحب بازی مار لے گئے تھے اور حافظ جی دوستانہ مروت میں پڑ کر خاموش رہ گئے تھے مگر دھیرے دھیرے اب ان کی سمجھ میں آنے لگا تھا کہ یہ رائے صاحب کی سہل کامیابیاں نہیں تھیں، ان کے پیچھے شطرنجی چال کی گہری چالاکیاں چھپی ہوئی تھیں۔
حافظ جی کو نیند نہیں آ رہی تھی۔ شاید ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ اندر کے کمرے سے بیٹے کی ہنسی اور بہو کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ انہیں سنائی پڑی تھی، ورنہ کھانا کھاکر اور حقے کا دم لگاکر جب وہ بستر پر پڑتے تو فوراً ہی گہری نیند میں ڈوب جاتے تھے۔
مگر فکر تو بنا پنکھ کا پرندہ ہے نا، آدمی کا گوشت کھانے والا۔۔۔
یکے مرغ دیدم، نہ پاؤں نہ پر
نہ از شکم مادر نہ پشتِ پدر
نہ برآسماں ہے نہ زیر زمیں
ہمیشہ خورَد گوشت ہے آدمی
(ایک پرندہ دیکھا جس کے نہ پاؤں ہیں نہ پر۔ نہ وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے نہ باپ کی قوت سے۔ نہ آسمان میں رہتا ہے نہ زمین کے نیچے۔ آدمی کا گوشت ہی اس کی خوراک ہے۔)
اگر وہ رائے صاحب کا گھوڑا نہ مارتے تو مات نہ ہوتی ان کی۔ اگر اس دن وہ شہر نہ چلے گئے ہوتے تو بازار کی وصولی کا اختیار انہیں ضرور مل گیا ہوتا۔ اگر ایک بار اپنی بولی وہ اور بڑھا دیتے تو اتنے بڑے تالاب کے مالک آج وہی ہوتے۔ اگر چک بندی افسر سے خواہ مخواہ جھگڑا نہ کر لیتے تو جو کھیت رائے صاحب کو ملے وہ انہیں کو ملتے۔۔۔
ککڑوں کوں۔
گھر کامنار کا مرغا اتنے زور سے بولا کہ حافظ جی چونک اٹھے۔ وہ ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھے اور دیوار پر ٹنگی ٹک ٹک کرتی ولایتی گھڑی کی طرف دیکھنے لگے جو بنی ہوئی تو تھی جاپان کی مگر بیٹا اسے لایا تھا چوں کہ عرب سے، اس لیے حافظ جی نے اس کا پرچار عربی گھڑی ہی کے روپ میں کیا تھا۔ اس میں ساڑھے تین بج رہے تھے۔
صبح وہ پھر کھیلیں گے رائے صاحب سے۔ دیکھتے ہیں آج کیسے جیتتے ہیں وہ!
’’اللہ اکبر۔۔۔‘‘
حافظ جی اٹھ گئے۔ انہوں نے پیروں میں جوتیاں ڈالیں اور تکیے کے نیچے سے ٹوپی نکال کر مسجد کی طرف چل پڑے۔
اس وقت مسجد میں صرف تین چار نمازی تھے اور وہ وضو بنا رہے تھے۔ حافظ جی بھی ایک طرف بیٹھ کر، مٹی کے بدھنے میں پانی لے کر وضو بنانے لگے۔
اگر رائے صاحب کا گھوڑا مارنے کے چکر میں نہ پڑتے وہ تو ہرگز ان کی مات نہ ہوتی۔۔۔وضو بناتے وقت بھی حافظ جی کل رات کی اپنی مات ہی کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ ’’اچھا آج دیکھتے ہیں۔۔۔‘‘
ساتھ ہی وہ اپنی ہونے والی چالیں بھی سوچ رہے تھے کہ اچانک دوتین نمازی اور آ گئے۔ وہ لوگ کسی اہم بات چیت میں مشغول تھے جو ان کے مسجد میں گھستے ہی موقوف ہو گئی۔
نمازجب ختم ہوئی تو صبح کی ریکھائیں کافی واضح ہوگئی تھیں اور چاروں طرف اجالا پھیل گیا تھا۔ حافظ جی کو یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ نماز کے بعد کوئی بھی نمازی باہر نہیں گیا تھا۔ سب لوگ مسجد کی صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اور پیش امام کی طرف مشتاق نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ حافظ جی پھوٹے، ’’بات کیا ہے صاحب؟‘‘
’’دیکھا آپ لوگوں نے؟ ہم کہہ رہے تھے نا کہ حافظ جی جان بوجھ کر انجان بنیں گے۔‘‘ پیش امام نے بڑے طنزیہ لہجے میں یہ بات کہی اور سارے نمازیوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ حافظ جی ناراض ہوکر بولے، ’’دیکھیے صاحب، میں اشارے کنایے کی باتیں پسند نہیں کرتا۔ جو کچھ کہنا ہے صاف صاف کہیے۔‘‘
’’ارے کا صاف صاف کہیں حافظ جی۔ آپ تو قادر خان کے پورے جوڑی دار ہیں۔ جیسے وہ ہندوؤں کا فیور کرتے ہیں ویسے ہی آپ بھی۔ آپ کو پتا نہیں ہے کہ قبرستان کی زمین پر اہیروں نے اپنے گھر بنا لیے ہیں؟ اور اُورام درس رئیوا کے اشارے پر آگے کی تیاری ہو رہی ہے اورئیوا تو آپ کا جگری دوست ہے نا!‘‘
قصبے کے منھ پھٹ قسم کے درزی اسماعیل نے یہ بات کچھ اس انداز میں کہی کہ مسجد کے صحن میں اچانک ایک عجیب اشتعال اپلوں کے دھویں کی طرح بھر گیا۔ حافظ جی سمجھ گئے کہ بات کیا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے۔
’’دیکھیے صاحب، رائے صاحب ہمارے دوست ہیں، یہ ٹھیک ہے۔ لیکن دین اسلام کسی بھی دوستی سے اوپر ہے۔ ہم اپنے قبرستان پر ہندوؤں کا قبضہ نہیں دیکھ سکتے۔۔۔کسی بھی قیمت پر نہیں۔ آپ لوگ پروگرام بنائیے۔ ہمیں آپ سب سے آگے پائیں گے اس میں۔‘‘ اتنا کہہ حافظ جی مسجد سے باہر چلے گئے۔
’’اب دیکھتے ہیں رائے صاحب کون سی چال چلتے ہیں۔ یہ شطرنج کی بازی نہیں ہے، اس ملک کی اقلیت کا جذبہ ہے۔۔۔اب بازار کی وصولی اور تالاب کی نیلامی کا معاملہ نہیں ہے، معاملہ ہے ہمارے آبا و اجداد کی ارواح پاک کا۔۔۔‘‘ حافظ جی جتنی تیزی کے ساتھ سڑک پرچل رہے تھے، اس سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ خیالات ان کے دماغ میں چل رہے تھے۔ اتنی تیزی کے ساتھ کہ راستے میں اسلامیہ اسکول کے ایک بچے نے جب انہیں ’’السلاں والیکم حافظ جی‘‘ کہا تو حافظ جی کو وہ آواز سنائی ہی نہیں پڑی اور وہ ویسے ہی کسی کھدیڑے ہوئے ٹٹو کی طرح بگٹٹ بھاگتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
یہ پڈرونا ہے۔ پوربی اترپردیش میں دیوریا ضلعے کا ایک بڑاقصبہ۔ بڑا اس لیے کہ یہاں کہ آبادی گھنی ہے۔ بڑا اس لیے بھی کہ یہاں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے، جس کا اندازہ اور کبھی نہیں تو کم سے کم محرم میں تو ہو ہی جاتا ہے، جب تعزیے کا جلوس یہاں کی سڑکوں پر اپنے پورے تام جھام کے ساتھ نکلتا ہے۔ یہ قصبہ اس لیے بھی بڑا ہے کہ کئی اسکولوں کے ساتھ ساتھ یہاں ایک کالج بھی ہے اور اس کالج کے پرنسپل دیش کی ایک بڑی ہستی ہیں۔ بڑی ہستی اس لیے نہیں کہ وہ ہندی ادب میں ایم اے اورپی ایچ ڈی ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ ہندی کے ایک مشہور کوی ہیں۔ ابھی، بالکل ابھی ان کا ایک شعری مجموعہ شائع ہوا ہے جس کا ہندی دنیا میں کافی ذکر ہے۔
پڈرونا کالج کے پرنسپل، یعنی کوی، یعنی بابو صاحب۔۔۔ درمیانہ قد، دبلی پتلی کاٹھی، گورارنگ، پتلی پتلی مضبوط انگلیاں، گول چہرہ، چھوٹی مگر گہری آنکھیں، آنکھوں میں چھوٹی چھوٹی بے شمار کویتاؤں کے گہرے عکس، عکسوں میں جیون، جیون میں سہج سبھاؤ کی لے، لے میں مدھم گیت، گیتوں میں خزاں کے موسم کی ندی کا سا بہاؤ۔۔۔
بابو صاحب ضلع بلیاکے رہنے والے ہیں اور بنارس میں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی ہے۔ بنارس ان کی رگوں میں بسا ہوا ہے۔ وہاں کے مندر، وہاں کی مسجدیں، وہاں کے گھاٹ، وہاں کی یونیورسٹی۔۔۔بنارس شہر کا سمپورن جیون! پڈرونا میں بابو صاحب کو آئے لگ بھگ سات برس ہوئے۔ ان سات برسوں میں انہوں نے پڈرونا کو بھی بنارس ہی کی طرح جیا ہے۔ بابو صاحب سماجی میل جول میں پیچھے ہیں اور الگ تھلگ ہی رہنے میں انہیں اچھا لگتا ہے۔ پھر بھی انہیں سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں اور وہ بھی یہاں کے لوگوں کو پوری طرح پہچانتے ہیں۔ وہ اس بات کے قائل ہیں کہ لوگوں کی پہچان ان کی اولاد سے ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ پڈرونا کی اولاد کے وہ استاد ہیں!
اس روز بابو صاحب کالج کے کیمپس میں داخل ہوئے تو بہت خوش تھے۔ اپنے بنارس کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے اسی رات انہوں نے ایک کویتا لکھی تھی اور اس کویتا سے وہ خوب مطمئن تھے۔ ’’یہ شہر آدھا پھول میں ہے آدھا شو میں/آدھا جل میں ہے آدھا منتر میں۔۔۔‘‘ نظم کی یہ سطریں ان کے ذہن میں شنکھ کی آواز کی طرح گونج رہی تھیں۔۔۔
لیکن دو پیریڈ ختم ہوتے کالج کا ماحول بدل گیا۔ اپلوں کا جو دھواں صبح صبح مسجد میں ابھرا تھا، اب تک پورے قصبے میں بھر چکا تھا۔ قبرستان کے پاس ایک جاہل بھیڑ اکٹھی ہو چکی تھی اور دھویں کا کڑواپن کچے پکے گھروں کو پھلانگتا ہوا کالج کی دیواریں چیر کر اندر کلاسوں میں گھس آیا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے کالج خالی ہو گیا تھا۔ بابو صاحب اپنی کویتا کی سطریں بھول گئے تھے اور اپنے دو چپراسی کو ساتھ لے کر گھر کی طرف چل پڑے تھے۔ اداس اور خاموش۔۔۔
قصبے کے ایک چھور پر بابو صاحب کا گھر اور دوسری چھور پر وہ قبرستان۔۔۔آم اور نیم کے دس بارہ چھتنار درخت اور ان کی چھاؤں میں ڈوبی ہوئی کچی پکی قبریں۔ وہیں ایک طرف چار پانچ چھوٹے چھوٹے گھر اور سامنے تھوڑی دور پر کانٹے دار تاروں کی ایک باڑھ۔ تاروں کی یہ لکیر ابھی حال ہی میں کھنچی ہے اور گھروں کے سامنے چند کیاریاں ابھر آئی ہیں۔۔۔
’’یہ گھر اجاڑے جائیں اور یہ کیاریاں تباہ کی جائیں!‘‘ پڈرونا کے مسلمانوں کا یہ خاص مطالبہ ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین قبرستان کی ہے۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ یہ نہیں ہو سکتا۔ جس زمین پر مکان اور کیاریاں ہیں وہ قبرستان سے باہر ہے۔ قبرستان کے پاس لوگ ہی لوگ ہیں۔ ایک پھیلی ہوئی انسانی بھیڑ۔ ہندو اور مسلمان۔ پنڈت اور حافظ۔ دکان دار اور نوکری پیشہ، بے روزگار جوان اور طلبا۔ سبھی طرح کے لوگ۔ اپلوں کا دھواں قصبے کے اس چھور پر کچھ زیادہ ہی گھنا ہو گیا ہے۔
’’کہیے حافظ جی، اب یہی سب ہوگا؟‘‘
بھیڑ میں سے رائے صاحب باہر نکلتے ہیں اور اپنی نوفٹی لاٹھی زمین میں دھنسا دیتے ہیں۔ سفید دھوتی اور مکھنی کرتے میں سجی ایک بھاری بھر کم پہلوانی ڈیل سامنے آتی ہے۔ حافظ جی چونک اٹھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے، ا بھی دو روز پہلے یہی ڈیل ایک کالے گھوڑے پر سوار تھی جسے انہوں نے مار گرایا تھا اور بدلے میں یہ ان کے سموچے وجود ہی پر چڑھ بیٹھی تھی۔۔۔ایک ساتھ دو دو سفید ہاتھیوں کی راہ!
’’دیکھیے رائے صاحب، دوستی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ شہ پر شہ دیتے جائیں اور ہم صرف اپنا بچاؤ کرتے رہیں۔ آخر آپ لوگ چاہتے کیا ہیں، کہ اس ملک میں ہمارا کوئی قبرستان بھی نہ رہے؟‘‘
اور بات بڑھنے لگی۔ دھویں کے بیچ چنگاریاں بھی چمکنے لگیں۔ لگا قبرستان کے مردے ڈھانچوں میں شیطانی ہتھیار چھپائے باہر آ گئے ہیں۔۔۔ تبھی قصبے کا داروغہ اپنی موٹرسائیکل پھٹپھٹاتا موقعے پر حاضر ہو گیا۔ پیچھے پیچھے پولیس سے بھری ایک جیپ۔
اور بھیڑ کی آنکھوں میں ہندوستان کے تمام فسادات کی تصویریں ایک ساتھ ناچنے لگیں۔۔۔گرفتاریاں، لوٹ مار، آگ زنی، عورتوں کی بے عزتی، چھتوں پر پولیس کا پہرا، سڑکوں پر پولیس کا گشت، فضا میں پولیس کی سیٹی۔۔۔بھیڑ کانپ اٹھی۔
چاروں طرف سناٹا چھا گیا۔ دھویں کا بہاؤ تھم گیا۔ فضا میں صرف اس کی کڑواہٹ باقی رہی۔
’’میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ اس معاملے کو آپسی فیصلے سے رفع دفع کر لیں، ورنہ مجھے قانونی کاروائی کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑےگا اور آپ لوگ کان کھول کر سن لیجیے کہ اگر کوئی آدمی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرےگا تو میں اسے چھوڑوں گا نہیں۔‘‘ داروغہ نے اپناایک ہاتھ موٹرسائیکل کے ہینڈل پر اور دوسرا پینٹ کی جیب میں کھسے پستول پر رکھے ہوئے یہ تنبیہ کی اور لمحے بھر بعد وہ موٹرسائیکل پھٹپھٹاتا ہوا چلا گیا۔ پیچھے پیچھے دھول اڑاتی جیپ بھی چلی گئی۔
اب وہاں قبرستان کے نہیں بلکہ داروغہ کے بارے میں طرح طرح کے تبصرے کیے جانے لگے۔
’’یہ داروغہ سالا بڑا حرامی ہے۔‘‘
’’ہریجن ہے نا، دماغ اس کا ساتویں آسمان پر رہتا ہے ہمیشہ۔‘‘
’’اس کی آنکھ میں سؤر کا بال ہے۔‘‘
’’سنا ہے اس نے اپنے بیٹے تک کو جیل بھجوا دیا، ڈکیتی کے جرم میں۔‘‘
’’پتا نہیں کیوں اس کا ٹرانسفر بھی نہیں ہو رہا ہے؟‘‘
’’ارے رشوت کھلاتا ہوگا اوپر والوں کو اور کیا!‘‘
’’جہاں ایک بار پٹایا، دماغ ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘
اور دھیرے دھیرے بھیڑ چھٹنے لگی، جیسے رسی کا بندھن کھل جانے سے بوجھ میں بندھی فصل بکھرنے لگتی ہے۔
دھویں کا گھٹاٹوپ پھٹ گیا اور دھیرے دھیرے وہ قصبے کے گھروں میں سما کر دب گیا۔
اگلے دن قصبے کے تھانے پر ایک پنچایت بیٹھی۔ دھواں تو اس روز بھی کڑوا تھا مگر اس میں چنگاریاں نہیں چمک رہی تھیں۔ اپلے اندر سے لہک رہے تھے مگر اوپر راکھ کا پردہ تنا ہوا تھا۔
داروغہ نے پنچایت شروع کی۔
’’اپنی طرف سے ایک آدمی کا نام ہندو لوگ دیں اور ایک آدمی کا نام مسلمان لوگ دیں۔ دونوں آدمی اس پنچایت کے سرپنچ ہوں گے اور دونوں کی آپسی رائے سے جو فیصلہ ہوگا وہ دونوں گروہوں کو قابل قبول ہوگا۔‘‘
اور بھیڑ میں ایک عجیب سی خاموشی چھا گئی۔ پھر کھسر پھسر شروع ہوئی اور صلاح مشورہ ہونے لگا۔ کچھ لوگ وہاں سے اٹھ کر کنویں کی طرف چلے گئے اور کچھ لوگ ایک چبوترے پر جاکر بیٹھ گئے۔ داروغہ اندر جاکر چائے پینے لگا۔
’’تو کیا ہوگا اس قصبے میں اب؟‘‘ بابو صاحب کھڑے کھڑے سوچنے لگے۔ کیا ان کے کالج میں ہندو طلبا کی کلاسیں الگ لگیں گی اور مسلمان طلبا کی الگ؟ کیا یونیورسٹی کو ان کے نصاب بھی الگ الگ بنانے پڑیں گے؟ کیا اب انہیں پرنسپلی بھی الگ الگ ڈھنگ سے کرنی ہوگی؟ اور بابو صاحب کا جی گھبرانے لگا۔ انہیں یہاں آنا ہی نہیں چاہیے تھا، وہ پچھانے لگے۔ جس پڈرونا کو انہوں نے پھول کی طرح پیار کیا ہے، وہ اب شَو بننے کی تیاری کر رہا ہے۔۔۔بابو صاحب اپنی کویتا یاد کرنے لگے، جیسے مصیبت کی گھڑی آنے پر لوگ بھگوان کو یاد کرنے لگتے ہیں، ’’یہ شہر آدھا پھول میں ہے آدھا شو میں/ آدھا جل میں ہے آدھا منتر میں۔۔۔‘‘
تبھی ایک آدمی کنویں کی منڈیر پر سے آگے بڑھ کر تھانے کے آنگن میں پہنچ گیا۔ داروغہ چائے پی کر باہر آ گیا تھا اور اپنی کرسی پر بیٹھ کر اخبار دیکھ رہا تھا۔ اس آدمی نے کاغذ کا ایک پرزہ دھیرے سے داروغہ کی ٹیبل پر رکھا اور رائے صاحب کے پیچھے جاکر کھڑا ہو گیا۔
مسلمانوں کا جی دھک دھک کرنے لگا۔ ہندوؤں کا سرپنچ بھلا رائے صاحب کے سوا کون ہو سکتا ہے؟ یہ کریں گے فیصلہ؟ اس پنچایت سے اچھا تو یہی تھا کہ دین کے نام پر لڑمرتے وہ۔۔۔
داروغہ نے پرزے کو غور سے دیکھا اور کسی نیلامی کے فیصلے کی طرح اسے پڑھ کر سنایا، ’’ہندوؤں کی طرف سے پڈرونا کالج کے پرنسپل کوی جی کا نام آیا ہے۔ اب مسلمان بھائی بھی اپنے سرپنچ کا نام دے دیں تاکہ پنچایت کی کارروائی شروع کی جا سکے۔‘‘
اور بابو صاحب گھبرا گئے۔
وہ کیا فیصلہ کریں گے؟ وہ تو ہندوؤں کے بھی پرنسپل ہیں اور مسلمانوں کے بھی۔ کیا ان کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ ہندو ہیں؟ مگر استاد کیا ہندو یا مسلمان ہوتا ہے؟ بابو صاحب ابھی اسی پس و پیش میں پڑے تھے کہ مسلمانوں کا پرزہ بھی داروغہ کی ٹیبل پر پہنچ گیا۔ بھیڑ میں کھسر پھسر بڑھ گئی۔ لوگ ایک دوسرے کو دھکیاتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ ہندوؤں کے دل تیز تیز دھڑکنے لگے۔ قصبے بھر میں اگر کوئی مسلمان بھروسا کرنے لائق ہے تو وہ ہیں صرف قادر خان۔ اکیلے وہی ایسے مسلمان ہیں جو مانتے ہیں کہ وید بھی بھگوان کے گرنتھ ہیں اور ان کی اہمیت بھی قرآن کے برابر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندوؤں کو کافر نہیں کہا جانا چاہیے۔ کافر وہ ہے جو کفر کرے، یعنی ایشور کے احکام کی خلاف ورزی کرے۔ اگر ان کی جگہ کسی اور کا نام ہوا تو انصاف کی امید نہیں ہے۔۔۔
لیکن داروغہ کے چہرے کو دیکھ کر لوگ کچھ زیادہ ہی خوف زدہ ہو گئے۔ لگتا ہے پرزے پر حافظ جی ہی کا نام ہے۔ داروغہ بار بار پرزے کو الٹ پلٹ رہا تھا اور اس کے چہرے کا رنگ لال ہو گیا تھا۔
’’سنایئے داروغہ صاحب، سنائیے!‘‘
بھیڑ کاصبر ٹوٹ چلا تھا۔
داروغہ نے پرزے کو ایک بار پھر غور سے دیکھا اور پھر کچھ لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولا، ’’مسلمانوں کی طرف سے جو نام آیا ہے۔۔۔وہ۔۔۔وہ نام بھی پڈرونا کالج کے پرنسپل کوی جی ہی کا ہے!‘‘
اور بھیڑ پر سکتہ سا چھا گیا۔ دھویں کا کنٹوپ ککرمتے کی چھتری کی طرح چھترا گیا۔
بابو صاحب کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہنے لگے۔ یہ سموچا ہندوستان پڈرونا اور بنارس ہی کی طرح ایک شہر ہے شاید! اور یہ شہر آدھا پھول میں ہے آدھا شو میں، آدھا جل میں ہے آدھا منتر میں۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.