آدی واس
شانتا میری چچیری بہن ہے۔ عمر میں مجھ سے دس بارہ سال بڑی ہوگی۔ پہلی بچی کے پیدا ہوتے ہی بے چاری بیوہ ہو گئی تھی۔ اس کی اکلوتی بیٹی کا نام لکشمی ہے جوحال ہی میں قریب کے پاٹے گاؤں میں بیاہی جا چکی ہے۔ شانتا وڈنیرلی میں رہتی ہے جو پاٹے گاؤں کے پاس ہی ہے۔ بیٹی کو قریب بیاہنے میں شانتا کا یہی مقصد تھا کہ جب بھی اس کا جی چاہے وہ آسانی سے بیٹی کو اپنے گھر بلا سکے۔ شانتا کے والدین تو عرصہ ہوا سورگباس ہو چکے تھے۔ اس کا کوئی سگا بھائی بھی نہیں تھا۔ چچا کے دیہانت کے بعدگھر کے پاس کافی جگہ خالی پڑی ہوئی ہے۔
شانتا اکثرکہتی، ’’تم ہی اب اس پرایک چھپڑ ڈال لو۔ آخر کوتم میرے چچیرے بھائی ہو۔ گھر میں چراغ بتی جلتی رہے تو بابا کی یاد تازہ رہےگی۔ بس کبھی کبھی آکر میری خیر خبر پوچھ لینا۔ بھائی کے ناطے کبھی بھاؤسیج پر آکر آرتی اتار لینا۔ کبھی تیج تہوار پر نون نمک بھی چکھ لینا۔ بس اسی حسرت میں جی رہی ہوں۔ ‘‘
میرے دونوں بھائی آبائی گاؤں میں کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ میں ملازمت کے لیے گاؤں سے دورایک بڑے قصبے میں رہتا ہوں۔ میرے بھائیوں سے شانتا بیچ بیچ میں ملتی رہتی ہے۔ البتہ مجھ سے شاذونادر ہی ملاقات ہوتی ہے۔ تین تین چار چار برس گزر جاتے ہیں میں شانتا سے نہیں مل پاتا۔ کبھی کبھی میں اپنے آبائی گاؤں دو تین روز کے لیے ضرر چلا جاتا ہوں مگر وہاں سے شانتا کے گاؤں جانا سچ پوچھئے تو بڑا جان پر آتا ہے۔
شانتا کا گاؤں ہمارے گاؤں سے پانچ ایک میل کے فاصلے پر ہوگا۔ دیش کو آزاد ہوئے کتنے برس گزر چکے ہیں۔ کتنے پنچ سالہ منصوبے بنے، گاؤ سدھار اورسڑک اسکیمیں بنیں۔ مگر شانتا کے گاؤں جانے کے لیے جو ایک پرانی، قدیم، کچی سڑک ہے سوآج بھی ویسی ہی ہے۔ اس میں کوئی سدھار نہیں ہوا۔
ہمارے آبائی گاؤں میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کئی سوسائٹیاں بن چکی ہیں۔ ڈیری فارم اور ہائی اسکول بھی بن گیا ہے۔ زراعت میں ترقی ہوئی ہے۔ زراعت کے لیے نئے اوزار نئے بیج بھی دستیاب ہیں۔ نئی نئی دکانیں، بجلی اور ریڈیو، پھر مجھ جیسے نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے بعد آس پاس کے شہروں اور قصبوں میں نوکریاں کرنے لگے اور ہم جیسے بابوؤں کے ذریعے گاؤں میں شہروں اور قصبوں کی تہذیب بھی داخل ہوئی اوراب ایسا لگتا ہے جیسے گاؤں بھی ’صاحب‘بن گیا ہے۔
مگریہ کتنے تعجب کی بات ہے کہ شانتا کا گاؤں ہمارے گاؤں سے صرف پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے تاہم اسے کسی بھی قسم کی تبدیلی چھوتک نہیں گئی۔ البتہ کسی نہ کسی طرح بیل گاڑی وہاں تک ضرور جاتی ہے۔ مگراس کا بھی کوئی ٹھیک نہیں۔ اس کے گاؤں جاتے ہوئے اکثر میں نے ایک آدھ بیل گاڑی کو کسی گڈھے میں چاروں شانے چت پڑے دیکھا ہے۔ اس کے گاؤں جانے کے لیے یا تو بیل گاڑی کی سواری ہے یا پھر پیدل مارچ۔
مجھے اب پیدل چلنے کی عادت نہیں رہی۔ اس لیے شانتا کے گاؤں پیدل جانا اور پیدل واپس آنا میرے لیے ایک دشوار مرحلہ ہے اس لیے میں جب بھی شانتا کے گاؤں جانے کا قصد کرتا ہوں تو ایک مضبوط سائیکل کا انتظام کر لیتا ہوں۔ اس طرح سفر کم تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ کسی پتلی سی نہر کی بالو میں سائیکل اگر رپٹ بھی گئی تو کوئی خاص چوٹ نہیں لگتی۔ کپڑے جھاڑکر اٹھے اور مزے سے دوبارہ سوار ہو گئے۔ دھیرے دھیرے پیڈل مارتے ہوا کھاتے آگے بڑھتے چلے گئے۔ ڈھلان پر سائیکل خودبخود چلنے لگتی ہے۔ چڑھائی پر سائیکل سے اتر گئے اور کشاں کشاں سائیکل ہاتھ میں پکڑے پیدل چل پڑے۔ اس کے بعد بھی اگر بدقسمتی سے کسی پگڈنڈی پر کوئی کانٹا پہیے کو پنکچر کر بھی دے تو سائیکل ہاتھ میں پکڑے پیدل چلتے ہوئے آپ کو کون دیکھنے آتا ہے۔ انہیں سب جھنجھٹوں کے سبب شانت کے گاؤں برسو ں جانا نہیں ہوتا۔
ویسے شانتا مجھے مانتی ہے۔ اسے اس بات پر بڑا فخر ہے کہ اس کا بھائی پڑھ لکھ کر ’صاحب‘ بن گیا ہے۔ وہ جی جان سے چاہتی ہے کہ میں اس کے گاؤں جاؤں۔ اس سے ملوں، اس کا مہمان بنوں اوراسے ’بھاؤبیج‘ کا نذرانہ دوں۔ آرتی اترواؤں۔ اس کی اسی بے لوث چاہت اور بار بار کے اصرار پر میں تقریباً چار برس کے بعد اس کے گاؤں جارہا تھا۔ ’بھاؤبیج‘سے ایک روز پہلے میں دوپہر کو روانہ ہوا۔ دن ڈوبتے ڈوبتے اس کے گاؤں پہنچ گیا۔ سائیکل نے کہیں دغا نہیں کی اس لیے سفر آرام سے کٹ گیا۔
گاؤں برسوں پہلے جیسا تھا اب بھی ویسا ہی دکھائی دے رہاتھا۔ سرخ مٹی اور کچی اینٹوں کے نیم پختہ مکانات۔ ٹیڑھے میڑھے کھمبوں پر ٹکی چھتیں۔ اسی لکڑی کی شہتیریں اور ان پر ہاتھوں سے بنائے ہوئے کھپریل، وہاں نیا مکان بھی اسی شان سے بنتا جس میں زندگی بھر ٹوٹ پھوٹ اور مرمت ہوتی رہتی۔ بارش کی بوچھاروں سے ڈھنے والی کچی دیواروں کی لیپا پوتی، ان کی حفاظت کے لیے گنے اور کڑبے کے پتوں کی جھاپ۔
شانتا کا گھر بھی تقریباً ایسا ہی تھا۔ سامنے پیڑ کے نیچے شانتا کا بوڑھا اکلوتا بیل بندھا ہوا تھا جس کے جسم پر اب صرف ہڈیاں رہ گئی تھیں۔ پتا نہیں شانتا نے اسے کس مقصد کے تحت رکھ چھوڑا ہے۔ سامنے گھاس کے تنکے پڑے تھے۔ چند تنکے اس کے پیروں میں بھی بکھرے ہوئے تھے۔
لکشمی دہلیزمیں بیٹھی برتن مانجھ رہی تھی۔ برتن کاپانی کافی گدلا ہو گیا تھا۔ وہ باربار اسی پانی میں برتنوں کو کھنگال رہی تھی۔ مجھ پراور میری سائیکل پر نظر پڑتے ہی وہ اسی کالے گدلے پانی میں اپنے ہاتھ ڈبوتی ہوئی اٹھ کر اندر بھاگ گئی۔
چند لمحوں بعدہی شانتا دروازے میں دکھائی دی۔ وہ غالباً چولہے کے پاس سے اٹھ کر سیدھی باہر کو دوڑ آئی تھی۔ بدن پر بھورے رنگ کی ایک میلی سی تنگ دھوتی جو گھٹنوں تک چڑھی ہوتی۔ کمر کے گرد مضبوط کسا ہوا کاشٹا جس سے رانوں کا بیشتر حصہ کھل گیا تھا۔ سر پر بنا تیل کے کھچڑی بال جو سر پر اوڑ ھے پھٹے پلو کے چھیدوں میں سے باہر نکلے پڑ رہے تھے۔ چہرہ آگ کی تمازت سے تپا ہوا۔ جسم کے بعض کھلے حصوں پر آگ سے جلنے کے داغ، پنڈلیوں پر جھاڑ جھنکاڑ، گھاس پھوس کی خراشوں کے لمبے لمبے نشان، جیسے گرگٹ کی پیٹھ پر ہوتے ہیں۔ وہ ببول کی ٹہنیوں جیسے خشک ہاتھوں کو اپنی کمر پر رکھے دروازے میں کھڑی تھی۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کے سوکھے چہرے پر رونق آ گئی۔ تپاک سے بولی، ’’آجا آجا میں سمجھی پتا نہیں اس سال بھی آتا ہے کہ نہیں، گھر سے کب چلا تھا؟‘‘
’’اس سال تو آنا ہی تھا۔ چارسال سے ناغہ ہو رہا تھا۔‘‘
’’ہاں چار سال ہو گئے تجھے دیکھے ہوئے۔ سوچ رہی تھی کہیں اس سال بھی کوئی بہانہ نہ کر دے۔‘‘ میں مسکرا دیا۔ ہاتھ پاؤں دھونے کے لیے دروازے میں آیا۔ کچی مٹی کے مکانات ٹیکریوں کی طرح ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ انہیں دیکھ کر خیال ہوا۔ چیونٹی کے بھٹوں جیسے ان مکانوں میں لوگ چیونٹیوں ہی کی طرح بستے ہوں گے بےچارے۔
منہ ہاتھ دھوکر میں اندر گیا۔ ورانڈے سے دہلیز پار کرکے جوں ہی اندر قدم رکھا ’کھٹ‘ سے دہلیز کی چوکھٹ کا اوپری حصہ ماتھے سے ٹکرایا اور میرا سرجھن جھناکر رہ گیا۔
’’جھک کر، وسنتاجھک کر۔ دروازے میں یوں گردن اٹھاکر داخل نہیں ہوتے۔‘‘
عرصہ ہوا میں گاؤں کے مکانوں میں داخل ہونے کا دستور بھول چکا تھا کہ ان کھڑکی نمادروازوں میں گردن جھکاکر ہی داخل ہوا جاتا ہے۔ ماتھے کور گڑتے ہوئے میں نے اپنے جھولے سے تولیہ نکالا اور منہ ہاتھ پونچھنے لگا۔ پونچھتے پونچھتے جب میں نے ذرا سا گردن گھماکر اس دروازے کو دیکھا تو مجھے دروازہ مندر کے اندرونی دروازے کی طرح ایک دم پست اور چھوٹالگا۔ دہلیز کی چوکھٹ کے لیے یہاں اونچی لکڑیاں تک دستیاب نہیں۔ اسکیمو لوگوں کے مکانوں کی طرح چھوٹے چھوٹے پستہ قددروازے۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے۔ پتا نہیں کیوں کر جی لیتے ہیں یہ لوگ۔
سر میں اب بھی جھنجھناہٹ ہو رہی تھی۔ لکشمی بنیے کی دکان سے شکر اور چائے کی پتی لے آئی۔ شانتا نے چولہے پرایک پرانی دیگچی میں پانی رکھا اور چولہا سلگانے لگی۔ سوکھے ڈنٹھلوں اور اپلوں کے دو بڑے ٹکڑوں سے وہ چولہے میں آگ دینے کی کوشش کر رہی تھی۔ پتانہیں ان میں سے کس چیز میں نمی تھی کہ پور اور انڈا دھوئیں سے بھر گیا۔ ورانڈے کے دروازے کے پاس ہی کمبل بچھاکر میرے لیے بیٹھک بنا دی گئی تھی۔
میں اسی گہرائے دھوئیں میں وہاں بیٹھ گیا۔ شانتا نے کپ، ساسر نکالی۔ چار برس پہلے بھی یہی کپ اور ساسر تھی۔ اب ان کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھا۔ ساسر کی کھپچی اڑ گئی تھی۔ برسہا برس پہلے کبھی دھوئے ہوئے کالے کلوٹے کپڑے سے شانتا نے چائے چھانی اور اس کپڑے کو اسی طرح دوبارہ برتن میں ڈال دیا۔ اسی چائے کی پتی کو باربار کھو لاکر چائے بنانے کی اس کی پرانی عادت غالبا اب بھی قائم تھی۔ چائے سے کپ چھلک چکا تھا اور ساسر بھی لبالب بھر گئی تھی۔
’’لے چا، پی۔‘‘ اس نے دونوں ہاتھوں سے کپ ساسر کو تھاما اور میرے سامنے لاکر رکھ دیا۔
’’اتنی چائے؟ میں صرف ساسر کی چائے پیوں گا بس لکشمی تو کپ کی چائے پی لے۔‘‘
میں نے پاس خاموش بیٹھی لکشمی سے کہا، وہ شرماکر چھوئی موئی ہو گئی۔
’’نئیں مجھے نئیں چاہیے میں چانئیں پیتی۔‘‘
اس نے پلومنہ میں ٹھونستے ہوئے کہا۔ پتا نہیں لکشمی کیوں شرما رہی تھی۔ مگر مجھے اس کا شرمانا اچھا لگا۔ مجھے لگا جیسے ان سیدھی سادی عورتوں کے نزدیک خاطرداری کا یہ بھی ایک جزہو۔
’’شانتا! کپ کی چائے توپی لے۔‘‘
’’ارے! پی لے چھپکلی کے کان جتنا توکپ ہے۔ کیا اتی چا بھی نہیں پئےگا۔‘‘
’’نہیں شانتا، یہ بہت زیادہ ہے۔‘‘
’’چار چھ برس کے بعد ایک بار تو آتا ہے۔ تس پر اتی چا نہیں پیئےگا۔ چا اور بھی ہے۔ تو پوری پی لے۔‘‘
شانتا سمجھ رہی تھی میں اس کی غریبی کا خیال کرتے ہوئے کم چائے پی رہا ہوں۔ اس کا خیال تھا جیسے ناشتہ، کھانا پیٹ بھرکر کھایا جاتا ہے ویسے چائے بھی جی چھک کر پینا چاہیے۔
’’چائے پینے کے بعد میں لکشمی سے ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ وہ ہر سوال کا جواب صرف ’ہوں‘’ہاں‘ میں دیتی اور چپ ہو جاتی۔ وہ بار بار بلاوجہ شرما رہی تھی۔ بیچ بیچ میں شانتا سے بھی باتیں ہوتی رہیں۔ گھنٹے بھربعد دونوں رسوئی گھر میں چلی گئیں اور شام کے کھانے کی تیاری میں جٹ گئیں۔
’’آج شنی وار ہے کھانا تیار ہونے تک ذرا مندر کا چکر لگا آ۔‘‘ شانتا کی آواز آئی۔
میں نے سوچا، چلواس بہانے اس گپھا سے باہر نکلنے کاموقع مل گیا۔ میں فوراً تیار ہوکر باہر نکل آیا۔
گاؤں میں بجلی آ گئی تھی۔ دورسڑک کے نکڑپر ایک بجلی کا کھمبا دکھائی دے رہا تھا جس میں لگا ہوا گدلا بلب مریضانہ قسم کی روشنی پھینک رہا تھا مگر بیشتر گھروں میں مٹی کے تیل کے دیے ہی جل رہے تھے۔ بعض مکان تواب بھی اندھیرے میں غرق تھے۔ بجلی گاؤں میں تو آگئی تھی مگر گھروں میں بجلی لینے کے لیے لوگوں کے پاس روپیہ نہیں تھا۔ گاؤں اور گاؤں والوں کی حالت دیکھ کر لگتا تھا اس گاؤں میں ابھی سکے کا رواج شروع ہی نہیں ہوا ہے۔ سوکھے سوکھے چہرے، جھلسے ہوئے ہاتھ پاؤں، کوکنی نین نقش کے لوگ اپنے اپنے گھروں کے دروازوں ورانڈوں میں کھوئے کھوئے سے چپ چاپ بیٹھے دکھائی دے رہے تھے۔
چوتڑوں میں پھنسی لنگوٹیاں باندھے مرد، بہتی ناکوں والے ننگ دھڑنگ غلیظ بچے، سردی کے دن تھے مگر ان کے ننگے جسموں پر موسم کا کوئی اثر ہی نہیں تھا۔ سؤروں کے پلوں کی طرح ادھرسے ادھر بھاگتے ہوئے کوئی کھیل کھیل رہے تھے۔ ماروتی کامندر شانت تھا۔ مندرکے قریب پیپل کے پاس ایک بجلی کا بلب جل رہا تھا۔ وہیں گھٹنے سینوں میں سکوڑے کچھ لوگ بندروں کی طرح بیٹھے ہوئے تھے۔ بیچ بیچ میں چلم بھی چل رہی تھی۔ دن بھرکی تلخی اور منہ کی کڑواہٹ کوزائل کرنے کے لیے چلم کے کش لگا رہے تھے جس سے منہ مزید بدمزہ ہو رہا تھا۔ میں خاموشی سے مندر میں داخل ہوا۔ ماروتی کو نمسکار کیا اور بھاری قدموں کے ساتھ واپس آ گیا۔
لگتا تھا گاؤں کی آبادی چار برس پہلے جتنی تھی آج بھی اتنی ہی ہے بھکمری اور فاقوں نے عورت اور مرد کی قوت افزائش کو بھی متاثر کیا ہے۔ عورتوں کو تین تین چار چار برسوں میں بچے ہوتے اور جو ہوتے وہ بھی ناقص نگہداشت کے سبب کسی نہ کسی بیماری سے مر جاتے ہیں۔ نہ پیٹ میں روٹی نہ تن پر کپڑا۔ وقت پڑنے پر مناسب دوا دارو بھی نہیں۔ ایسی صورت میں ان کے زندہ رہنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے۔
میں اندھیرا گہرا ہونے سے پہلے مندر سے لوٹ آیا۔ ہاتھ پاؤں دھوکر کھانے کے لیے بیٹھا۔ ایک ٹمٹماتی ڈھبری پرانے ماپ کو الٹاکر کے اس پر رکھ دی گئی تھی۔ شانتا نے کھانا پروسا۔ ماپ تقریبا چالیس برس پرانا رہا ہوگا جس کاچلن عرصہ ہواختم ہو چکا تھا مگر شانتا کے گھر میں وہ اب بھی آثار قدیمہ کی کسی نایاب شے کی طرح نہ صرف رکھا ہوا تھا بلکہ اس کا استعمال بھی ہو رہا تھا۔ گویا اس گاؤں کے گھر گھر پھیلے اندھیرے کو ناپنے کا وہ ایک مخصوص پیمانہ ہو۔
تھالی جس میں کھانا پروسا گیا تھا بیسیوں جگہ سے دبی پچکی ہوئی تھی۔ شانتا روٹیاں موڑ کر اس نے تھالی میں ایک طرف کو رکھ دی تھیں۔ تھالی کے بڑے خانے میں تور کی دال کی سرخ مرچوں والی آمٹی تھی اور باقی تھالی بھات سے بھری ہوئی تھی۔ عام طور پر اتنا کھانا میرے لیے دو تین روز کے لیے کافی ہو سکتا تھا۔ چھانچھ کا لبالب بھرا ہوا ایک گلاس بھی اس نے لاکر رکھ دیا۔ میں اس کی ایک ایک حرکت نہار رہا تھا۔ جب سب چیزیں پروس چکی تو بولی، ’’دوپہر سے تھکا ماندہ آیا ہے۔ پیٹ بھر کر کھانا کھا۔‘‘
وہ اپنی عادت کے مطابق جی جان سے میری خاطر کر رہی تھی شانتا میری بھوک کا موازنہ اس کسان کی بھوک سے کر رہی تھی جودن بھر کھیت میں سخت محنت کرنے کے بعد کسی وجہ سے دوپہر کے کھانے سے محروم رہ جائے اور شام کو بے اختیارانہ روٹیوں پر ٹوٹ پڑے۔ میں نے پرسکون لہجے میں کہا، ’’شانتا ایک آدھ خالی تھالی ہو تو دے ذرا۔‘‘
’’اب خالی تھالی کس لیے۔ دوپہر سے بھوکا ہے۔ تکلف مت کر پیٹ بھر کر کھا۔ اس گھر میں آدھا پیٹ کھانے کا رواج نہیں ہے۔‘‘
’’یہ بات نہیں ہے شانتا! یہ کھانا تو میری تین چار دن کی خوراک ہے۔ تیرے گھر میں کیسا تکلف۔ مگر میں اس کا ایک چوتھائی بھی کھا نہیں پاؤں گا۔ شیرگاؤں میں رہتے میری بھوک ہی ختم ہو گئی ہے۔‘‘
میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ لکشمی بھی اصرار کرتی رہی۔ مگرمیرے بہت کہنے سننے پر آخر دونوں مان گئیں۔
مگر ان کے گھر میں مزید تھالی کہاں تھی۔ تھالی کے نام پر مٹی کی دو سینیاں بڑھا دی گئیں۔ میں نے انہیں میں بھات اور روٹیاں نکال کر رکھ دیں۔
’’اب تم لوگ بھی کھانا کھا لو۔‘‘
’’نہیں رے بابا! برسوں بعد اس گھر میں کسی مردوے کو کھانا پروسنے کا سوبھاگیہ ملا ہے۔ تیرا ہاتھ دھلانے کے بعد ہی ہم کور توڑیں گے۔ تو پہلے کھالے۔‘‘
مجبوراً میں نے کھانا شروع کیا۔ روٹی کا پہلا نوالہ توڑ کر آمٹی میں ڈبویا اور جوں ہی اسے منہ میں رکھا ایسا لگا جیسے منہ میں چنگاریاں سی بھر گئی ہوں۔ آمٹی بےحد تیکھی تھی۔ پہلے لقمے کے ساتھ ہی ہچکی آ گئی، ہچکی آئی اور پھر آتی ہی چلی گئی، پانی پیا۔۔۔پانی پینے کے بعدبھی کمبخت رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
’’شانتا! تھوڑا سا گڑ دے ہچ۔۔۔‘‘
’’کیوں رے! آمٹی تیکھی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں آمٹی تیکھی نہیں ہے۔ دراصل تیکھا کھانے کی میری عادت چھوٹ گئی ہے نا۔۔۔‘‘ میں نے بات بناتے ہوئے کہا۔
’’وسنتا! یہ سب شیر گاؤں کا اثر ہے اتنی نزاکت سے جی کر کیسا چلےگا رے۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس نے گڑکی ڈلی دی۔ میں نے اسے منہ میں ڈالا اور چاچھ کے ساتھ آمٹی اور بھات حلق سے اتارنے لگا۔ تھالی کا کھانا بچ جاتاتو شانتا اور بھی خفا ہوتی۔ میں نے پانی کے گھونٹ لے لےکر تھالی کا سارا بھات ختم کر دیا۔ البتہ آمٹی خاصی بچ گئی۔
رات میں نیند بھی ٹھیک سے نہیں آئی۔ ویسے شانتا نے پنے حسابوں میرے بستر کو کافی آرام دہ بنانے کی کوشش کی تھی۔ نیچے ایک دری بچھاکر اس پرایک نرم گدڑی ڈال دی گئی تھی۔ اوڑھنے کے لیے ایک دوسری گدڑی پائتینی پڑی تھی۔ دونوں ماں بیٹی ایک پھٹی پرانی چادر بچھاکر ایک طرف کو لڑھک گئی تھیں۔ گھنٹے بھر میں ان کے دھیمے دھیمے خراٹے بھی گونجنے لگے۔ وہ تو گہری نیند سو چکی تھیں مگر مجھے نیند نہیں آ رہی تھی۔ بسترمیں کوئی شے کلبلا رہی تھی۔ شانتا نے بازو کے غسل خاے میں دو تین مرغیاں چھاپ کے نیچے ڈھانک رکھی تھیں غالباان کی جوئیں اورپسو اڑ اڑ کر گھر بھر میں پھیل گئے تھے۔ پورے جسم میں رہ رہ کر کھجلی ہو رہی تھی۔ میں آنکھیں کھلی رکھے پڑا رہا۔ گاؤں پر ایک مہیب خاموشی طاری تھی۔ کہیں سے کوئی آواز بھی نہیں۔ میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔
صبح ہوئی۔ بھاؤبیج کا دن طلوع ہوا۔ شانتا نے المونیم کے ایک بڑے سے بھگونے میں پانی گرم کیا تھا۔ بارش کا موسم حال ہی میں ختم ہوا تھا۔ ندی کا سرخی مائل گدلا پانی خوب تپایا گیا تھا۔ میں نے چولہے کے جلے ہوئے اپلے کی راکھ سے دانت مانجھے منہ دھویا اور غسل کے لیے بیٹھا۔ گرم پانی کوسموکر دو تین بالٹی پانی تیار کیا گیا تھا۔ میں نے کہا، ’’اب تم لوگ جاؤ میں نہالوں گا۔‘‘
’’ایسے کیسے نہا لےگا۔ بھاؤبیج کا غسل ہے۔ تیری بہن مر تو نہیں گئی کپڑے اتار۔ لکشمے! تیل گرم کرلے۔ ’’شانتا کا لہجہ محبت کی حرارت سے تپا ہوا تھا۔
لکشمی تیل گرم کرنے اندر چلی گئی۔ مجھے مجبوراً صرف ایک چڈی پر غسل کے لیے بیٹھنا پڑا۔ اچانک کچھ سوچ کر میں نے بلند آواز سے لکشمی کو مخاطب کیا، ’’لکشمی! تیل زیادہ گرم مت کر۔ مجھے ٹھنڈا تیل ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘
لکشمی گنگنا تیل لے کر باہر آئی اور دونوں ماں بیٹی میرے دونوں طرف کھڑی ہو گئیں۔ ہاتھ، پاؤں سر اور پیٹھ پر چپاچپ تیل چپڑ کر اس زور سے مالش کرنے لگیں کہ میری ایک ایک ہڈی چٹ چٹ بولنے لگی۔ شانتا نے سر پر چمچہ بھر تیل ڈالا اور دونوں ہاتھوں سے گھساگھس سرکی مالش کرنے لگی۔ میں سختی سے آنکھیں میچے چپ چاپ بیٹھا تھا۔ انہیں سمجھانا یا منع کرنا فضول تھا۔ جو کرتے ہیں کرنے دو۔ اب اگلے تین چار برس تک کون آتا ہے۔ جب میں تیل اور پسینے سے چپ چپا ہو گیا تب شانتا بولی، ’’وسنتا! یہ کیا ہے رے! تیرے سر کے بال تو جھڑ رہے ہیں۔ کوئی دوا دارو کیوں نہیں کرتا۔ جاستی پھکر کرنا بھی اچھا نہیں۔ تھوڑے دن میں تو بالکل ہی ٹکل ہو جائےگا۔‘‘
میں نے آنکھوں کھول کر دیکھا۔ میرے سر کے تقریباً نصف بال اکھڑ کر شانتا کی دونو ں ہتھیلیوں اور انگلیوں میں چپکے ہوئے تھے۔ پیٹ میں خلاسا پیدا ہو گیا۔ صرف ’ہوں‘ کرکے گمبھیر چہرہ بنائے چپ چاپ بیٹھا رہا۔ لکشمی بھی میرے بازوؤں اور پیٹھ پرتیل کی مالش کر رہی تھی۔ ٹھنڈی چھاؤں میں پلا ہوا میرا کپاس جیسا نرم اور پلپلا بدن ایک عرصے بعد ان دونوں کے ہاتھ لگا تھا۔ وہ اسے رگڑ رگڑ کر ایک ہی دن میں پتھر جیسا سخت بنا دینا چاہتی تھیں۔ اپنے کھردرے ہاتھوں کے محبت بھرے لمس سے اس میں توانائی پھونک دینا چاتی تھیں۔ ان کے اوبڑکھابڑ ہاتھوں میں سختی تھی، مگراس سختی میں دس بہنوں جتنی محبت کی نرمی بھی تھی۔ اس سرکش مگر پاکیزہ محبت سے میرا رواں رواں بھیگ گیا۔ اس نایاب محبت کی خاطر میں سب کچھ برداشت کر سکتا تھا۔ کڑک دھوپ، تپتا ہوا پانی۔
انہوں نے میرے جسم کو میرے اپنے لائے ہوئے صابن سے کسی ڈھور کی طرح رگ ڑرگڑ کر دھویا۔ مگر تیل اس قدر چپڑا ہوا تھا کہ صابن سے مل مل کر دھونے کے بعد بھی چیکٹ پن پوری طرح اتر نہیں سکا۔
انہوں نے ایک کمبل کی چار تہیں کرکے میرے لیے بھاؤبیج کی بیٹھک تیار کی۔ میں اس بیٹھک پر جاکر بیٹھ گیا اور شانتا سے بولا، ’’شانتا! اب سب سے پہلے ایک پیالی گرماگرم چائے اس کے بعد باقی رسمیں۔‘‘
’’اچھا، اچھا‘‘ شانتا نے اندازہ لگا لیا کہ مجھے چائے کی سخت طلب لگی ہے۔ شانتا ادھر ادھر کی باتیں کرتی ہوئی چائے تیار کرنے لگی۔ تب تک لکشمی نے آرتی کی تھالیاں نکال لیں اور انہیں راکھ اورمٹی سے مانجھ مانجھ کر چکاچک کر دیا۔ ’بھاؤبیج‘ کی پوری تیاری ہو گئی تھی۔ میں چائے پیتے پیتے سب دیکھ رہا تھا۔ شانتا باتیں کرتے کرتے آرتی کی تھالی سجا رہی تھی۔ میں بھی ہوں، ہاں کئے جا رہا تھا۔ پھر اس نے آرتی کی تھالی اٹھائی اور میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ ایک طرح سے میں نے اپنے آپ کو ان کے سپرد کر دیا تھا۔ اس نے پہلے ’کنکو‘ لگایا۔ سر پر چاول کے دانے ڈالے اور میرے چہرے پر سے آرتی اتارنے لگی۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ جیب میں ہاتھ ڈالا۔ پیسوں کا پاکٹ جیب میں نہیں تھا۔ پاکٹ غالباً میرے بیگ میں رہ گیا تھا۔
میں نے شانتا کے لیے نوواری ایک ساڑی خریدی تھی۔ لکشمی کے لیے ایک بلاؤز پیس بھی تھا۔ ماں نے کچھ لڈو باندھ دیئے تھے۔ کچھ نقدی آرتی کے وقت تھالی میں بھی ڈالنی تھی اور میری ساری چیزیں اسی بیگ میں پڑی رہ گئی تھیں۔ میں نے سوچا اب آرتی کے درمیان اٹھنا ٹھیک نہیں۔ جب آرتی ختم ہو جائے گی تبھی اٹھ کر وہ سب چیزیں ان کے حوالے کر دوں گا۔ مگر میرا تعلیم یافتہ ذہن جو کچھ سوچ رہا تھا وہ ریت رواج کے مطابق نہیں تھا۔ لیکن میں اس وقت اس کے علاہ اور کیا سوچتا۔ شانتا آرتی اتارتے بدبدا رہی تھی۔ ’ایڑا پیڑا جانے دے بلی کا راج آنے دے۔‘
میری آنکھوں کے سامنے آرتی کی تھالی پھرتی رہی۔ اس کی آنچ میں اپنے چہرے پر محسوس کر رہا تھا۔ چار پانچ دفعہ تھالی گھوم چکی پھر بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ پھرتی رہی، پھرتی رہی، شانتا کی بدبداہٹ جاری تھی، بلی کا راج۔
نہ اس کی تھالی تھم رہی تھی نہ میں اٹھ پا رہا تھا۔ بالآخر مجبوراً میں نے ہمت کرکے کہا،
’’شانتا! ذرارک جا، میں نے بھاؤبیج کا نذرانہ لایا ہے وہ تھیلی ہی میں رہ گیا ہے۔ میں جلدی سے اٹھ کھڑا ہو گیا۔ مگر شانتا کی آرتی کی تھالی دھیرے دھیرے اب بھی اوپر نیچے گردش کر رہی تھی۔ اس کا جاپ بھی زیرلب جاری تھا۔ آرتی کی تھالی کا رکنا، اس میں کھنڈت پڑنا شاید اشبھ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے اس نے تھالی کی گردش جاری رکھی۔ آخر میں نے بھاؤبیج کا نذرانہ ڈال دیا۔ لکشمی اپنی بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ یہ سب دیکھ رہی تھی۔ شانتا تھالی اورنذرانہ لے کر اندر چلی گئی اور بھگوان کے سامنے تھالی رکھ کر واپس آ گئی۔ اس کے چہرے پر ایک ناقابل بیان طمانیت کی جھلک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔
اب دیوالی کی مٹھائی پروسی جانے لگی۔ تھالی میں جب ’کرنجیاں‘ ڈالی گئیں تو ایسا لگا جیسے تھالی میں مٹی کے سخت ڈھیلے ڈالے جا رہے ہوں۔ نمکین، سانڈگا، شانتا کے مطابق خاص دیوالی کا پکوان تھا۔ اس نے نمک مرچ لگاکر ’چیوڑا‘ بھی بنایا تھا۔ دس بارہ بوندی کے لڈو بھی بنانے کی کوشش کی تھی مگر وہ چرمرا گئے تھے۔ اس نے تھالی میں لڈو کے نام پراسی ’چورے‘ کو ڈالتے ہوئے کہا، ’’لے جلدی میں لڈو بھی ٹھیک سے نہیں بن سکے۔‘‘
میں نے گھر سے لائے ہوئے لڈواس کے حوالے کیے۔ انہیں دیکھتے ہی بولی، ’’دیکھ چاچی نے کیسے چکنی مٹی کے ڈھیلوں کی طر ح انہیں گوندھ کر بنایا ہے۔ میرے ہاتھو ں میں تو گن ہی نہیں ہے۔‘‘
برآمدے میں بیٹھ کر کھانا کھاتے کھاتے میں نے باہر نگاہ ڈالی۔ جھاڑکے نیچے بندھا ہوا بوڑھا بیل کل دن ڈوبتے جس طرح بیٹھا تھا آج بھی ویسا ہی بیٹھا ہوا دکھائی دیا۔ مکھیاں اسی طرح بھن بھنا رہی تھیں۔ اس کے چوتڑوں کے نیچے گوبر بھی اسی طرح پڑا ہوا تھا۔ لگتا تھا فارغ ہونے کے بعدبھی اس نے اٹھنے کی زحمت گوارا نہیں کی تھی۔
’’شانتا! لگتا ہے بیل تھک کر بالکل ہی ڈھانچہ ہو گیا ہے۔‘‘
’’بوڑھا ہو گیا ہے وہ۔ اب اس میں کوئی دم نہیں رے۔‘‘
’’پھر اسے رکھا کیوں ہے؟‘‘
’’تو کیا بیچ دوں؟ میرے ’دالیا‘ کے ہاتھوں کا بیل ہے وہاں سے بیچنا اپنے دالیا کو بیچنے جیسا ہے۔ کھیت سے تھوڑا چارا آ جاتا ہے جب تک زندہ ہے کھا کے پڑا رہےگا۔ بکھت آ جائےگا تو گردن ٹیک دےگا۔‘‘
شانتا کا سوچنا شاید اپنی جگہ درست تھا۔ میں نے اس کے جذبے کو ٹھیس پہنچانا مناسب نہیں سمجھا، اس لیے چپ رہ گیا۔
شانتا نے جو کرنجیاں (کچوریاں) بنائی تھیں۔ اوپر سے توسخت تھیں مگر اندر سے ان میں خوب مسالہ بھرا ہوا تھا۔ میں کرنجیاں کھاتے ہوئے جھاڑ کے نیچے بیٹھے بیل کی پرلی طرف دیکھنے لگا۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں حسب معمول ندی سے پانی لا رہے تھے۔ ’بھاؤبیج‘ کا دن تھا اس کے باوجود اکثر مرد عورتیں ندی پر ہی غسل کرکے اپنے موٹے جھوٹے کپڑے دھوکر کاندھوں پر ڈالے چلے آ رہے تھے۔ ان کے سروں، کاندھوں اور کمروں پر پانی سے بھرے برتن تھے۔ ندی کافی فاصلے پرتھی۔ اتنی دور سے پانی لاکر گھر میں گرم کرکے غسل کرنا ان کے لیے کافی جھنجھٹ کا کام تھا۔ اسی لیے ندی ہی پر ٹھنڈے پانی سے نہاکر ’بھاؤبیج‘ کا تہوار منانا ان کے لیے زیادہ آسان تھا۔ بیشتر لوگوں کے چہروں پر تہوار کا کوئی جوش نہیں تھا۔ لگتا تھا جیسے مہابھارت کے پانڈو بن باس میں دیوالی منا رہے ہوں۔ شانتا اور لکشمی اس منحوس گاؤں سے نکل پائیں گی کبھی؟ یہ سوچ کر میرا دل بھی ایک نامعلوم اداسی سے بھر گیا۔
مجھے ایک گھنٹے کے اندر اندر روانہ ہونا تھا۔ میں نے بات چھیڑی، ’’شانتا! تیری آدھی سے زیاہ عمر تو یہاں نکل گئی۔ اب اس گاؤں میں کیا رکھا ہے۔ یہ سب کسی کو بیچ باچ کر میرے ساتھ چل۔ وہاں تاتیا کا گھر ویران پڑا ہے۔ اس کی جھاڑ پونچھ کرکے وہیں پڑی رہ۔ ہم بھائی لوگ بھی تیری مدد کے لیے موجود ہیں۔ وہاں تجھے کام بھی مل جائےگا۔‘‘
’’نارے بابا! آدھی چھوڑ کے ساڑی کے پیچھے بھاگوں گی تو نہ آدھی رہےگی نہ ساری۔ جوہے ٹھیک ہے۔ میں اسی میں کھس ہوں۔‘‘
’’مگر یہ بستی تو بڑی اجاڑ ہے۔ رام راون کے زمانے میں جیسی رہی ہوگی ویسی ہی آج بھی ہے۔ ذرا بھی تو ترقی نہیں ہوئی یہاں۔ لوگ بندروں جیسے اور مکان گپھاؤں کی مانند۔‘‘
’’وسنتا! ہمارا جنم انہیں لوگوں کے بیچ میں گزرا ہے رے۔ تو شیرگاؤں میں جاکر پڑھ لکھ کر آ پھیسر ہو گیا ہے۔ تیری بات الگ ہے۔ تو کہیں بھی رہ سکتا ہے۔ مگر ہم تو ایسا نہیں کر سکتے۔ قسمت نے جو لکیر کھینچ دی ہے اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ جس گائے کا دودھ پیتے ہیں اس کے گوبر پر ناک بھوں چڑھانا ٹھیک نہیں۔ گاؤں کے اتے سارے لوگ یہاں رہتے ہیں پھر مجھے ہی کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں۔ گاؤں گندہ چھوٹا ہے مگر گاؤں کے لوگ کھلے من کے ہیں۔ چاہنے والے ہیں۔ ان سب کوکیوں کر چھوڑ سکتی ہوں۔ جیسا بھی ہے اپنا گھر ہے۔ باغ ہے۔ باغ میں چار جھاڑ ہیں۔ پھل پھلواری نہیں دیتے مگر بیٹھنے کے لیے چھاؤں تو ہے۔ جڑیں بہت گہری ہیں وستنا! انہیں اکھاڑنا آسان نہیں۔ میں یہاں بہت مزے میں ہوں۔ کبھی کبھی ادھر آتا رہ۔ تیرے آنے سے لگتاہے میرا پورا میکا میرے پاس آ گیا ہے۔ اچھا لگتا ہے۔‘‘
اس کی آواز بھیگ گئی۔ جیسے اس کے بہت بھتیر کہیں کچھ پگھل رہا ہو۔ لکشمی اپنی ماں کی پرچھائیں کی طرف چپ چاپ بیٹھی تھی۔ میرے آنے کی خبر سن کر وہ اپنے میکے آئی تھی۔ مگر وہ زیادہ تر خاموش ہی رہی۔ اپنا ماموں ’صاحب‘ ہے۔ یہی بات اس کے لیے اطمینان کا باعث تھی اور وہ اسی میں خوش تھی۔ ماموں کو نظر بھر کر دیکھنے میں اسے یک کو نہ مسرت کا احساس ہو رہا تھا۔ میں بھی چپ ہو گیا۔
ماں بیٹی کے انکار کرنے کے باوجود میں نے دس روپے کا ایک نوٹ لکشمی کی ہتھیلی پر رکھ دیا اور سائیکل باہر نکالی۔
’’اب اجازت دو۔‘‘
’’اگلے سال بھی اسی طرح آ جانا۔ گھر میں سب سے کہہ دینا۔ یہاں سب کشل منگل ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ میں سائیکل پر سوار ہو گیا۔
گاؤں کے لڑکے مجھے اور میری سائیکل کو ایک عجوبے کی طرح دیکھ رہے تھے۔ میں گاؤں کے باہر نکل کر سڑک پر آ گیا۔ شیر گاؤں کی جانب بڑھنے سے پہلے میں نے مڑکر گاؤں پر ایک الوداعی نگاہ ڈالی۔ وہی مٹی کے کچے مکانات، وہی پرانا بنجرپتھریلا میدان، جس میں دور تک کوئی متفنس دکھائی نہیں دے رہا تھا، سوکھے مارے درخت اور ندی کے کنارے ہرے بھرے سبزی کے کھیت کھیتوں کے ایک طرف اونچی نیچی کالی چٹانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے ہزاروں برس پہلے وجود میں آنے والی یہ چٹانیں کبھی کبھی انسانوں کا روپ دھار کر گاؤں کی گلیوں میں پرچھائیوں کی طرح چل پھر لیتی ہیں۔ گاؤں کے لوگوں میں اور ان چٹانوں میں کچھ ایسی ہی مماثلت تھی۔ ابھی اس قطعہ زمین کا آدی واس ختم نہیں ہوا ہے۔
مجھے لگا میں صرف شانتا کا نہیں اس پورے گاؤں کا مہمان تھا۔ اب واپس لوٹ رہا ہوں نئے ترقی یافتہ سنسار کی جانب۔ اس گاؤں کو پیچھے چھوڑکر جس میں میرے اپنے موجود ہیں۔ جن کا وجود میرے وجود سے الگ ہوکر بھی الگ نہیں ہے۔ البتہ ایسا لگا، میرے وجوہ کا ایک حصہ پیچھے رہ گیا ہے، پچھڑ گیا ہے اور میں آگے بڑھ رہا ہوں کیوں کہ میں تعلیم یافتہ ہوں۔ مجھے اکیسویں صدی میں قدم جو رکھنا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.