اس نے دکان کا دروازہ کھولا تو گھنٹی کی آواز ہوئی۔ ٹن۔۔۔جب وہ اندر آیا اور خود کار دروازہ بند ہو گیا تو گھنٹی پھر بجی۔ اس مرتبہ دوبار۔ ٹن۔ ٹن۔۔۔
اس بار آواز کافی دیر تک گونجتی رہی۔ یہ اس بات کا اعلان تھا کہ کوئی اندر آیا ہے۔
دکان میں کوئی نہیں تھا۔ اسے ہمیشہ محسوس ہوتا کہ اگر وہ شیلف سے دوچار کتابیں نکال کر بھاگ جائے تو کسی کو پتا بھی نہیں چلےگا لیکن یہ اس کا وہم تھا۔ گھنٹی بجتے ہی کاؤنٹر کے پیچھے سے دو آنکھیں اسے اپنی گرفت میں لے لیتی تھیں اور اسے خبر تک نہ ہوپاتی۔۔۔نیلی اور نم آنکھیں، عینک کے پیچھے دو قطرے انہیں روشن کر رہے تھے۔
وہ کتابوں کی الماریوں کے بیچ سے راستہ ٹٹولتا ہوا کاؤنٹر کے سامنے آکھڑا ہوا۔
’’کیا حال ہیں؟‘‘ اس نے پوچھا۔ ادھیڑ عمر کے منیجر نے اس کی طرف دیکھا۔ پھر کندھے اچکائے جس سے یہ نہ معلوم ہوسکا کہ وہ کس موڈ میں ہے۔
’’سردی شروع ہو گئی ہے۔‘‘ اس نے کہا۔ موسم کا خیال اچانک اسے منیجر کی مونچھیں دیکھ کر آ گیا تھا جو اتنی سفید تھیں جیسے ابھی ابھی ان پر تازہ برف گری ہو۔
’’ہوگی ہی۔‘‘ بوڑھے نے کوئی تاثر ظاہر کیے بغیر کہا، ’’اکتوبر کا مہینہ ہے۔‘‘
’’ابھی ہیٹنگ شروع نہیں ہوئی۔‘‘
’’نومبر سے پہلے نہیں، چاہے برف ہی کیوں نہ گرنے لگے۔‘‘ بوڑھا حکومت پر بہت تیکھے انداز میں طنز کرتا تھا۔ برسوں پہلے دکان کا مالک وہ خود تھا۔ اب نئے نظام میں سرکار دکان کی مالک تھی اور ان کتابوں کی بھی جو اس کے باپ دادا نے پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں جمع کی تھیں۔ دکان وہی تھی لیکن راتوں رات قانون نے اس کے اور باپ دادا کی وراثت کے درمیان خلیج پیدا کر دی تھی۔ کاؤنٹر پر وہ اب بھی پہلے ہی کی طرح بیٹھتا تھا لیکن اب کتابوں سے اس کا رشتہ ویسا ہی تھا جیسے کوئی باپ اپنی زندگی ہی میں اپنے بچوں کو یتیم خانے میں پلتے ہوے دیکھے۔
’’آپ کیا سوچتے ہیں، برف گرےگی؟‘‘ آدمی نے پوچھا۔ بوڑھے نے عینک اتاری، میلے رومال سے اس کے شیشے صاف کیے، پھر ناک چھٹکی۔
’’برف اور موت گھنٹی بجاکر نہیں آتے۔‘‘
اسے محسوس ہوا جیسے بوڑھے کا اشارہ اسی کی طرف ہے۔ پچھلے دنوں جب کبھی وہ دکان کی گھنٹی بجاتا تھا، بوڑھے کے چہرے پر ایک اضطراب آمیز جھنجھلاہٹ جھلکنے لگتی تھی۔ وہ صاف صاف کچھ نہ کہتا لیکن صاف معلوم ہوتا کہ اسے سامنے دیکھ کر گزشتہ زندگی کی ساری شکایتوں کا دفتر کھل گیا ہو۔۔۔پہلے جنگ عظیم، پھر ہٹلر، پھر کمیونزم اور اب۔۔۔خود وہ۔
وہ آیا اور الماریوں کے بیچ گھومنے لگا۔ کتابوں پر دوپہر کی ٹھنڈی روشنی گر رہی تھی۔ اس نے چاروں طرف ٹٹولتی ہوئی نگاہ ڈالی لیکن وہ کہیں دکھائی نہ دی۔ اچانک ایک اندیشے نے اسے گھیر لیا۔ ممکن ہے وہ آج دکان نہ آئی ہو۔ یہ سوچتے ہی وہ ٹھٹھرنے لگا۔ اپنے کوٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالا، تار والے کاغذ کو چھوا، پھر اسے ایک جھٹکے کے ساتھ باہر کھینچ لیا۔ گرمی کہیں نہیں تھی، نہ کوٹ کے اندر نہ باہر۔ وہ اب بھی جھجک رہا تھا لیکن بوڑھے کی نظروں کے سامنے کھڑے رہنا ممکن نہ تھا۔ کچھ آگے بڑھ کر وہ ایک لمبے شیلف کی آڑ میں چھپ گیا۔ اس نے جیب سے رومال نکالا اور ماتھے کا پسینہ پونچھنے لگا۔۔۔سردی کا پسینہ جو جسم کے مساموں سے نہیں باہر کی دہشت سے ٹپکتا ہے۔
وہ جھٹ سے مڑ گیا۔ ٹرالی کے پہیے چوں چوں کرتے ہوئے شیلف کی دوسری طرف جارہے تھے۔ پیچھے پیچھے وہ آرہی تھی، ٹرالی کے ہینڈل کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے، جیسے وہ کوئی چھوٹا سا پالنا ہو جس میں بچے کی جگہ بہت سی کتابیں بیٹھی ہوں۔
لڑکی کاسر ٹرالی پر جھکا ہوا تھا۔ وہ ایک ایک کتاب اٹھاکر شیلف میں رکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں شاید بچپن ہی سے کمزور رہی ہوں گی۔ وہ ہر کتاب کو اٹھاتی، اسے اپنی عینک کے بہت قریب لے جاتی، مصنف اور کتاب کا نام پڑھتی، پھر کپڑے سے اسے جھاڑ پونچھ کر دوسری کتابوں کے پہلو میں رکھ دیتی۔ وہ اپنے کام میں اس قدر ڈوبی ہوئی تھی کہ اسے محسوس ہی نہ ہوا کہ شیلف کے دوسری طرف سے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔
وہ اسے دیکھ رہا تھا۔ چھت پر سے لٹکے قمقموں کی روشنی سیدھی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ وہ ایک پستہ قد لڑکی تھی لیکن شیلف کے پیچھے کمر سے اوپر صرف اس کا دھڑ دکھائی دیتا تھا جو اس کی ٹانگوں سے کہیں زیادہ دل آویز تھا۔ اس نے نیلے رنگ کا ایک لمبا ایپرن پہن رکھا تھا جو دکان میں کام کرنے والی لڑکیاں پہنتی تھیں لیکن اس کے اوپر وہ زیادہ جچتا نہیں تھا، شاید اس لیے کہ اس میں وہ پوری ڈھک جاتی تھی اور اس وقت یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا تھا کہ وہ کتنی چھوٹی ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے وہ اس کی بیسویں سالگرہ پر اس کے لیے پھول لایا تھا جو شاید اس وقت بھی اس کے کمرے میں پڑے سوکھ رہے ہوں گے۔
اب وہ سرکتے ہوئے بالکل اس کے پاس چلی آئی تھی، قریب قریب اس کے بالکل سامنے۔ شیلف کی تنگ درازوں کے بیچ اس کا سر دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے بال کس کر باندھ رکھے تھے۔۔۔سنہرے چمکیلے بال، جن کے بیچ ایک باریک سی مانگ کچھ دور کھنچ کر اس کی الجھی ہوئی لٹوں میں غائب ہو گئی تھی۔
اس بار وہ خود کو نہیں روک سکا۔ جب لڑکی نے شیلف پر آخری کتاب رکھنے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اس نے آگے بڑھ کر وہیں شیلف کے ٹھنڈے لوہے پر اس کے ہاتھ کو پکڑ لیا۔ لڑکی کے منھ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی اور وہ گھبرا گیا۔ اس نے جلدی سے کتابوں کو ہٹاکر شیلف کے بیچ اپنا سر چھپا لیا۔
’’میں ہوں۔‘‘
’’تم؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
’’کب آئے؟‘‘
’’کچھ دیر پہلے۔۔۔تم ڈر گئیں؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ لڑکی نے سرہلایا۔ وہ چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی جھوٹ نہیں بولتی تھی۔ اس کا ہاتھ اب بھی آدمی کی مٹھی میں دبا تھا۔ ایپرن کے اندر چھوٹا سا جسم اوپر نیچے ہو رہا تھا۔ وہ سچ مچ ڈر گئی تھی، اس لیے کہ وہ دوپہر کے وقت نہیں آتا تھا۔
’’تم کچھ دیر کے لیے چھٹی لے سکتی ہو؟‘‘
’’ابھی؟‘‘ لڑکی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سرد سا پڑ گیا۔
’’بس تھوڑی دیر کے لیے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کوئی خاص بات؟‘‘ لڑکی نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا۔
’’نہیں، یوں ہی۔‘‘ اس نے سرسری لہجے میں کہا۔ جس طرح لڑکی کبھی جھوٹ نہیں بولتی تھی، اسی طرح وہ کبھی براہ راست سچ نہیں بولتا تھا۔
’’تم اندر بیٹھو، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑایا، ایک لمحے کے لیے اس کی طرف دیکھا اور پھر دوسری طرف مڑ کر کتابوں کی شیلف کے پیچھے چھپ گئی۔
دکان کے عقب میں ایک اسٹور روم تھا جہاں لوگ پرانی کتابیں بیچنے آتے تھے۔ لڑکی وہیں ایک اسٹول پربیٹھی تھی۔ پیچھے ایک پردہ تھا جو دکان کے اگلے اور خاص حصے کو اندرونی حصے سے الگ کرتا تھا۔ پردے کے پیچھے ایک چھوٹا سا کیبن تھا جہاں لڑکی لنچ کے وقت گھڑی دو گھڑی آرام کرنے کی غرض سے آ بیٹھتی تھی۔
وہ یہیں چلا آیا۔ یہاں وہ کئی بار آیا تھا۔ ہر بار اسے ایک عجیب سا وہم گھیر لیتا کہ جیسے یہ دکان نہ ہو بلکہ لڑکی کے گھر کا نجی کمرہ ہو۔ وہاں باہر کی کوئی آواز نہیں آتی تھی۔۔۔نہ آدمیوں کا شور نہ ٹریفک کا غل۔ صرف ٹرام کی گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی، بہت گمبھیر اور دھیمی، جیسے دور کہیں شہر کے کنارے پر بادل گرج رہا ہو۔
وہ بید کی آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ کمرے میں روشنی جتنی کم تھی، اندھیرا اس قدر نہیں تھا۔ یہاں کوئی کھڑکی تھی نہ روشن دان، صرف سیلی ہوئی کتابوں کی بو اور چوہوں کی سرسراہٹ۔ ایک چھوٹی سی میز پر چائے اور کافی کا سامان رکھا تھا۔ پرانے سلابی بسکٹ اور براؤن روٹی کے توس ہمیشہ تیار رہتے۔ جب کبھی لڑکی کو بھوک لگتی تو وہ جلدی سے اندر آکر کچھ نہ کچھ اپنے پیٹ میں ڈال لیتی۔
پہلی بار اس نے لڑکی کو اسی کیبن میں دیکھا تھا۔ وہ اپنی پرانی کتابیں بیچنے آیا تھا۔ لڑکی کاؤنٹر کے پیچھے اسٹول پر بیٹھی ایک توس کتر رہی تھی۔ اس کی گود میں کتھئی رنگ کاآدھا بنا ہوا سویٹر پڑا تھا، جس کے پھندوں میں دو سلائیاں پھنسی تھیں۔ اس کی آہٹ سن کر لڑکی گھبراکر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ اُس دن پہلی بار اس نے لڑکی کے چہرے کو دیکھا تھا۔
وہ مارچ کا کوئی دن رہا ہوگا اور اب اکتوبر ختم ہو رہا تھا۔ ان سات مہینوں میں وہ تقریباً اپنی ساری کتابیں بیچ چکا تھا۔ ان کتابوں کو وہ اپنے ملک نہیں لے جانا چاہتا تھا۔ ان میں پرانے لغت تھے، ٹورسٹ گائیڈیں اور وہ ناول جنہیں لڑکی دکان کے لیے خرید لیتی تھی اور خالی وقت میں ان کا مطالعہ کرتی تھی۔ اسے یہ جان کر بڑا تعجب ہوا تھا کہ وہ انگریزی پڑھ لیتی ہے اور تھوڑی بہت بول بھی لیتی ہے۔ دراصل انگریزی کے موضوع پر ہی ان کے درمیان بول چال کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ ایک دن جب وہ کچھ کتابیں بیچنے کے لیے آیا تو وہ کچھ دیر تک انہیں الٹ پلٹ کر دیکھتی رہی، پھر اچانک بولی، ’’کیا آپ کے ملک میں سب لوگ انگریزی بولتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، ایسا نہیں ہے۔‘‘ اس نے کہا، ’’میں بھی ٹھیک نہیں بول پاتا۔‘‘
’’آپ بہت اچھی بولتے ہیں۔‘‘ اس نے بڑی بے پروائی سے کہا۔ پھر اس کی طرف سے آنکھیں پھیر کر کتابوں کو سمیٹنے لگی، ’’میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ اس نے کتابوں کا بنڈل اٹھایا اور پردے کے پیچھے چلی گئی۔
وہ سوچنے لگا، پتا نہیں آج کتنی کتابیں چنی جائیں گی۔ وہاں کچھ ایسا ہی طریقہ تھا۔ لڑکی کتابوں کو منیجر کے پاس لے جاتی، وہ ان میں سے ان کتابوں کو منتخب کر لیتا جو خریدے جانے کے لائق ہوتیں، باقی واپس کر دیتا۔ ساری تجارت جوئے کے کھیل کی طرح تھی۔ کتابوں کو منتخب کرنے اور انہیں مسترد کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد بھی رہی ہو، یہ اس کی سمجھ میں کبھی نہ آیا۔ جب کبھی وہ لڑکی سے اس طریق کار کے بارے میں دریافت کرتا تو وہ ٹال جاتی اور جب وہ (بعد کے دنوں میں) بہت زور دے کر پوچھتا تو وہ جھنجھلاکر کہتی، ’’ہم وہی کتابیں پڑھتے ہیں جنھیں اپنے لیے ٹھیک سمجھتے ہیں۔‘‘
اسے اس کی خوش نصیبی کہیے کہ اس دن ساری کتابیں ٹھیک نکلیں، سوا ایک کتاب کے جسے منیجر نے واپس بھجوادیا۔ ’’ریکوئیم فاراے نن۔‘‘ لڑکی نے حیرت اور تجسس سے اس کی طرف دیکھا، ’’کیا یہ مذہبی کتاب ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘ اس نے کہا، ’’یہ ایک طوائف کے بارے میں ہے۔‘‘
وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس پر کیا ردعمل ہوتا ہے۔ مذہب اور رنڈی بازی دونوں ہی وہاں ممنوع تھے۔ لیکن لڑکی کا چہرہ کسی بھی قسم کے تاثر سے عاری تھا۔ اس نے چرمر پیپر بیک کو دھیرے سے کاونٹر کے نیچے سرکا دیا۔ اسے چھپانا بھی نہیں کہا جا سکتا۔ کاؤنٹر کے نیچے والی دراز اس کی اپنی دراز تھی جس میں وہ اپنا ناشتے دان، رومال، تولیہ اور گھر کی چابیاں رکھتی تھی۔
پتا نہیں اس کی کتنی کتابیں اس کاؤنٹر کے اندر غائب ہو چکی تھیں۔
’’آج آپ کو کافی پیسے ملیں گے۔‘‘
اس نے سرسری نظر سے بل کو دیکھا جو کھٹ کھٹ کرتا ہوا کمپیوٹرمشین سے باہر نکل آیا تھا۔ اس کا جی چاہا کہ ایک بار جھانک کر بل کو دیکھ لے لیکن ایسا کرنے سے اس نے خود کو باز رکھا۔ اگر کمرے کا چوتھائی کرایہ بھی نکل آئے تو باقی رقم کا انتظام کرنے میں اسے زیادہ مشکل نہیں ہوگی۔
’’معلوم ہے کتنا ہے؟‘‘ لڑکی نے بل کو مشین سے نکال کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
چالیس کراؤن۔ لمحہ بھر کو اسے یقین نہیں آیا۔ اس سے پہلے اپنی کتابوں کے لیے کبھی اسے اتنی بڑی رقم نہیں ملی تھی۔ لڑکی اس کی طرف دیکھ کر فاتحانہ شان سے مسکرا رہی تھی۔
’’اتنا کیسے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ایسے ہی۔‘‘ لڑکی نے کہا، ’’اچھے دن ہیں۔‘‘
’’اچھے دن؟‘‘ دکان کے اندر لڑکی کی زبان موہن جو دڑو کی تحریر جیسی ہوتی تھی جس کے پوشیدہ معنی تو بہت کچھ ہوتے ہیں لیکن بظاہر بے معنی ہوتی ہے۔ کبھی کبھی بےخوابی کے عالم میں بستر پر پڑے پڑے ایک جملہ یا کوئی لفظ لڑکی کے تصور کے ساتھ اندھیرے میں چمک اٹھتا۔ اچھے دن، برے دن، بہت برے دن۔ سب سے برے دن وہ ہوتے جب لڑکی اس کی ساری کتابیں واپس کر دیتی۔ پرتاسف نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ کر کہتی، ’’آج کچھ نہیں۔۔۔‘‘ اور وہ ساری کتابیں اپنے تھیلے میں ڈال کر باہر سڑک پر آ جاتا۔ دکان کی لمبی شیشے والی کھڑکی پر ایک سایہ پڑتا۔ وہ دیکھتی کہ وہ جا رہا ہے اور وہ سوچتا کہ اگلی مرتبہ وہ کون سی کتابیں لائے گا جو خریدے جانے کے لائق ہوں۔ لڑکی سوچتی کہ کیسا آدمی ہے جو صرف انگریزی کتابوں کا سودا کرنے آتا ہے۔ منیجر سب کچھ دیکھتا رہتا اور اونگھتا رہتا۔ وہ جانتا تھا کہ آدمی کتابوں کے لیے نہیں بلکہ لڑکی سے ملنے آتا ہے۔۔۔لیکن اس عمر میں؟
لڑکی اندر گئی۔ وہ اپنا ناشتے دان لے کر آئی تھی۔ آتے ہی دہلیز پر ٹھٹک کر اسے دیکھنے لگی۔ آدمی کرسی پر سر ٹکائے آنکھیں بند کیے بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر ہلکی سی تکان تھی گویا اس کی نیند کا فائدہ اٹھاکر نہ صرف گزرے ہوئے برس بلکہ آنے والے سال بھی اس کے چہرے پر سرک آئے ہوں۔ لڑکی کچھ دیر چپ چاپ اس کے چہرے کو دیکھتی رہی۔ کوئی اور دن ہوتا تو آدمی کا اس طرح اچانک دکان میں وارد ہونا اسے اچھا لگتا لیکن آج اسے یہ بدشگونی سی معلوم ہوئی۔ اسے جنوں بھوتوں پر یقین نہیں تھا لیکن آج جب اس نے آدمی کو کتابوں کی شیلف کے پیچھے دیکھا تو پرانے اوورکوٹ کے گرد آلود کالر سیاہ ناگنوں کی طرح اس کی گردن پر اٹھے ہوئے تھے۔ وہ مبہوت سی اسے دیکھتی رہ گئی، جیسے آدمی کے بھیس میں کوئی دوسرا آدمی اسے تاک رہا ہو۔ دوسرا آدمی؟ وہ دھیرے سے آگے بڑھی۔ اس کا جی چاہا کہ وہ اس کے جسم پر ہاتھ پھیرے لیکن پھر اس نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ سونے دو، اس نے سوچا، ابھی کافی وقت ہے۔
دوپہر کے وقت کوئی گاہک نہیں آتا تھا۔
وہ اپنا ناشتے دان کھولنے لگی۔ براؤن روٹی کی سینڈوچ جس کے اندر سلابی دبی تھی، ایک چھوٹی بوتل میں یورگرت کیوب، سر کے میں بھیگا کھیرا۔ یہی اس کا لنچ تھا جسے ہر روز وہ اپنے ساتھ لاتی تھی۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ وہ بھی آنے والا ہے تو وہ اس کے لیے بھی کچھ لے آتی۔ اس نے کتنی بار آدمی سے کہا تھا کہ اسے گھر میں کھانا بنانے کی ضرورت نہیں ہے، دوپہر کا کھانا وہ ایک ساتھ دکان میں کھاسکتے ہیں لیکن آدمی ہر بار انکار کر دیتا تھا، جیسے دن کی روشنی میں لڑکی سے ملنا خطرناک ہو۔ دن کے وقت وہ لڑکی سے اسی صورت میں ملتا تھا جب اسے کوئی ایسی ضرورت ہو جسے ٹالا نہ جا سکتا ہو۔ لیکن آج؟ آج کیا ضرورت ہے؟ وہ کل رات ہی تو اس سے ملی تھی۔
وہ کافی کے لیے پانی گرم کرنے اٹھی تو دیکھا کہ آدمی کی آنکھیں کھلی ہیں۔ پتا نہیں کتنی دیر سے وہ اس کی حرکتوں کو دیکھ رہا تھا۔
’’کچھ کھاؤگے؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
آدمی نے سرہلایا۔ پھر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا۔ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ داڑھی بنی ہوئی تھی لیکن گزری ہوئی رات کا سایہ اس کے گالوں پر پھیلا ہوا تھا۔ اس نے آنکھیں ملیں اور بالوں کو پیچھے کی طرف کرلیا۔ اسے یاد نہ آیا کہ وہ کب سو گیا تھا۔ خواب کی ایک لکیر اب بھی کھنچی ہوئی تھی۔ دھیرے دھیرے وہ غائب ہوگئی اور اس کی جگہ لڑکی دکھائی دینے لگی۔
لڑکی نے اپنا ایپرن اتار دیا تھا۔ اب وہ ہرے رنگ کی اسکرٹ میں تھی جو ہمیشہ اس کے گھٹنوں تک آکر رک جاتی تھی۔ سیاہ نائلون کے موزوں کے اندر سے اس کی ٹانگوں کی نرمی جھانک رہی تھی۔ کمر میں کالے رنگ کی پیٹی کسی تھی۔۔۔بالکل اسکولی لڑکیوں کی طرح۔۔۔ اور اس کے اوپر ڈھیلا ڈھالا کار ڈیگن لٹک رہا تھا۔ لڑکی کا چہرہ تو چھپا رہتا تھا لیکن جسم ہمیشہ کھلا اور اجلا دکھائی دیتا تھا۔۔۔دوسری لڑکیوں کے بالکل برعکس، جن کا چہرہ تو سب کو نظر آتا لیکن جن کا جسم کوئی نہ دیکھ پاتا۔
پانی کھولنے لگا تھا۔ جیسے ہی بھاپ نکلنا شروع ہوئی، لڑکی کافی بنانے کے لیے جھک گئی۔ اس نے دو مگوں میں کافی ڈالی اور جب منھ اٹھایا تو اس کے ہونٹ کھل سے گئے۔ پسینے کے قطرے اس کے ماتھے پر چمک رہے تھے۔
’’گھر سے آ رہے ہو؟‘‘
آدمی تھوڑا سا جھجکا۔ وہ گھر ہی سے آرہا تھا لیکن سیدھا گھر سے نہیں۔ اس کا ہاتھ اپنی جیب میں گیا اور جیب ہی میں پڑا رہا۔۔۔اس میں رکھے ہوئے ٹیلی گرام پر۔
’’انسٹی ٹیوٹ گیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’پورا کر لیا؟‘‘ لڑکی ہمیشہ یہی ایک سوال پوچھتی تھی۔
’’نہیں۔ پیشگی مانگنے گیا تھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کتنے صفحے رہ گئے ہیں؟‘‘
’’آخری باب بچا ہے۔ باقی سب ٹائپ کرنا ہے۔‘‘
’’کیا وہ ٹائپ بھی نہیں کروا سکتے؟‘‘ لڑکی نے ہلکی سی جھنجھلاہٹ کے ساتھ کہا۔
’’ایک ہی انگریزی ٹائپسٹ ہے، وہ بھی چھٹی پر گیا ہوا ہے۔‘‘
آدمی دھیرے دھیرے اس کا ہاتھ سہلانے لگا۔ ایک دوسرے کا غم غلط کرنے کا یہی ایک طریقہ بچا تھا۔ وہ کہاں سے کہاں نکل جاتے لیکن لڑکی کا جسم ساکت رہتا۔۔۔ساکت اور ٹھنڈا۔۔۔اور سب سے زیادہ اس کے پاؤں۔ جب وہ اس کے کمرے میں آتی تو سب سے پہلے اپنے پاؤں آگ کے سامنے پھیلا دیتی تھی۔ آدمی کو بڑا تعجب ہوتا کہ اتنی کم عمر میں لڑکی کے ہاتھ پاؤں اس قدر سن ہو جاتے ہیں۔
’’کتنے دن میں دینا ہے؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’دس دن۔۔۔زیادہ سے زیادہ پندرہ دن۔ کیوں؟‘‘
’’کیا میں ٹائپ کر سکتی ہوں؟‘‘
’’تم۔۔۔؟‘‘ آدمی کے چہرے پر تھکی تھکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’کیوں نہیں۔۔۔ہر شام کروں گی۔‘‘
لڑکی نے حال ہی میں انگریزی ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرنا سیکھا تھا۔ اس کے لیے یہ ایک مشغلہ تھا۔ آدمی جتنا بھی ترجمہ کرتا، اسے بولتا جاتا اور لڑکی کی انگلیاں تیزی سے ٹائپ رائٹر پر چلتی رہتیں اور اس میں سے انگریزی کے الفاظ نکلتے جاتے۔ پھر دونوں بیٹھ کر تصحیح کرتے۔ آدمی کا کہنا تھا کہ اس طرح وہ انگریزی زبان اور ٹائپنگ دونوں ایک ساتھ سیکھ جائےگی۔ لیکن اسے سیکھنے کی خواہش نہیں تھی۔ اسے اس کام میں سکون ملتا تھا۔ رات کا یہی ایک لمحہ ہوتا جب وہ آدمی کے پاس ہوتی تھی۔ کھڑکی کے باہر تارے نظر آتے۔۔۔ٹائپ رائٹر کے حروف کی طرح ٹمٹماتے ہوئے۔ کھٹ۔۔۔کھٹ۔۔۔کھٹ۔۔۔وہ ان حروف پر انگلیاں رکھتی جاتی اور حروف آسمان سے اتر کر سفید فل اسکیپ کاغذ پر پھیلتے جاتے۔
کیتلی کا پانی سنسنا رہا تھا۔ لڑکی نے سوئچ بند کر دیا اور اوپر کا روشن دان کھول دیا تاکہ اس بار بھاپ باہر نکل سکے۔
’’یہ گرم ہے۔۔۔‘‘ لڑکی نے دوسری پیالی بنانے کے لیے سرجھکایا تو اس کا جوڑا کھل کراس کے شانے پر بکھر گیا۔ لڑکی کے جسم پر ایسے کئی چھوٹے چھوٹے حادثے رونما ہوتے رہتے تھے اور وہ ان سے بے خبر رہتی تھی۔ مثلاً جب وہ کوئی پرانی کتاب بیچنے آتا تو وہ انگلی میں تھوک لگاکر اس کے صفحے پلٹتی تھی اور ہونٹ ہلا ہلا کر اسے پڑھتی تھی۔ ایسے موقعوں پر وہ اسے بہت غور سے دیکھتا تھا۔ کیا یہ وہی لڑکی ہے جس کے جسم کو وہ گزشتہ راتوں میں چھوتا رہا ہے اور جو دن میں اتنی اچھوتی دکھائی دے رہی ہے؟ ایسے لمحوں میں اسے محسوس ہوتا کہ وہ نیچے کہیں کسی گڑھے میں ایک جانور کی طرح دبکا ہوا ایک ہی خواہش کے تلے بار بار پس رہا ہے۔۔۔کہ جتنی دیر تک لڑکی اس کی طرف سے بےخبر کافی بنانے میں مصروف ہے وہ اچھل کر اس گڑھے سے نکل سکتا ہے اور اس کی سفید اور کنواری گردن کو دبوچ کر ایک جست میں دکان سے باہر جا سکتا ہے۔۔۔دکان سے، پچھتاوے سے، گناہ سے، سب سے باہر۔ لیکن جب وہ نگاہیں اوپر اٹھاتی تو اس کے سب ارادے دھرے رہ جاتے۔ وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا۔ لڑکی پتا نہیں کس خیال میں کھو کر مسکرانے لگتی۔ وہ اپنے غصے، اپنی اذیت اور اپنے دل کی دلدل میں دھنسا رہتا۔
وہ نیچے تپائی کی طرف، جہاں لڑکی کیتلی ہاتھ میں لیے کھڑی تھی، اس طرح جھکا جیسے اسے ابھی ابھی کچھ یاد آیا ہو۔
’’کل رات تار آیا تھا۔‘‘
’’ٹیلی گرام؟‘‘ لڑکی کے ہاتھ کو جھٹکا لگا اور کافی کا مگ ہوا میں ہلکا سا ٹھہر گیا۔
’’وہ بیمار ہے۔‘‘ آدمی نے کہا، ’’مجھے بلایا ہے۔‘‘ اس نے تار جیب سے باہر نکالا۔ لال کاغذ کی مڑی ہوئی قابل رحم پر چی، جسے لڑکی نے دیکھتے ہی آنکھیں پھیر لیں۔
’’کیا بیماری ہے؟‘‘ اس نے بے پروائی سے پوچھا۔
’’وہیں جاکر معلوم ہوگا۔‘‘ آدمی نے کہا۔
’’کب؟‘‘
وہ چپ بیٹھا رہا اور میز پر پڑے تار کو دیکھتا رہا۔
’’کب جارہے ہو؟‘‘ لڑکی نے دوبارہ پوچھا لیکن اب اس کے لہجے میں سرد مہری کے بجائے عجیب سی نرمی تھی۔
’’خط کا انتظار ہے۔‘‘ اس نے کہا۔
’’لیکن اگر وہ واقعی بیمار ہے۔۔۔‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’واقعی کا مطلب؟ تم سوچتی ہو یہ بہانہ ہے؟‘‘
’’میں نے یہ تو نہیں کہا۔۔۔‘‘ لڑکی بولی، ’’اگر وہ بیمار ہے تو تمہیں جانا چاہیے۔‘‘
’’تمہیں بہت جلدی ہے؟‘‘
’’جلدی کیسی؟‘‘
’’میرے جانے کی۔‘‘
لڑکی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’مجھ سے زیادہ تمہیں اس کی فکر ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں طنز تھا اور وہ طنز سے بھی آگے جانا چاہتا تھا جہاں سے بے رحمی شروع ہوتی ہے لیکن وہاں صرف کمینگی تھی۔ وہ رک گیا۔ اس کے بعد کچھ نہ تھا، صرف ایک غلاظت بھری تکان اور جلن تھی۔ وہ رات بھر نہیں سویا تھا۔
’’میں اب چلتا ہوں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’ٹھہرو۔‘‘ لڑکی نے اس کے گھٹنوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔
’’ابھی تم نے کیا کہا تھا۔۔۔میں بہت جلدی میں ہوں؟‘‘ لڑکی کی آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا جیسے وہ اس کی سنگدلی کو ٹھیک سے دیکھ نہ پا رہی ہو۔
’’میں مذاق کر رہا تھا۔‘‘ آدمی نے دھیرے سے اپنا ہاتھ اس کے بازو پر رکھا۔ لڑکی کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔
’’اگر میں کہوں تو تم رک جاؤگے؟‘‘
’’تم نے کبھی کچھ کہا ہی نہیں۔‘‘
’’بات یہ ہے۔۔۔‘‘ کوئی فائدہ نہیں۔ وہ جب جب آدمی کا امتحان لیتی تو آدمی کا چہرہ اس سے دور ہونے لگتا۔ اس کی جگہ اسے اپنا گناہ نظر آنے لگتا، جو اس سے اسی طرح کے سوال کرتا جس طرح کے سوال وہ آدمی سے کیا کرتی تھی۔ یہ ایک چکر تھا۔۔۔گناہ کا چکر۔۔۔جس کا کوئی اختتام نہیں تھا۔
’’کیا وہ اکثر بیمار رہتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔ وہ کبھی اس کی بیوی کا نام نہیں لیتی تھی۔ صرف ’’وہ‘‘ کہہ کر اس کا ذکر کرتی، گویا اتنی بڑی دنیا میں صرف ایک ’’وہ‘‘ اس کی بیوی ہو سکتی ہے۔ اسے خوشی تھی کہ اس نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ دوسرے شہر میں تھیں اور اس نے وہ شہر بھی کبھی نہیں دیکھا تھا۔
آدمی چپ چاپ لڑکی کو دیکھتا رہا۔ لڑکی کے پیچھے کھڑکی تھی اور کھڑکی کے اس طرف چھتیں، جہاں چڑھتی ہوئی دھوپ کے سایے نمودار ہونے لگے تھے۔
’’کل رات میں نے ایک خواب دیکھا۔‘‘ اس نے کہا۔
’’کیسا خواب؟‘‘
’’میں نے دیکھا کہ تم نیچے کھڑی ہو اور اوپر میرے کمرے کی طرف دیکھ رہی ہو۔ میں تمہیں آواز دے کر بلانا چاہتا تھا لیکن تم مڑ کر چل دیں اور میں نیچے آنے کے لیے زور زور سے دروازہ بھڑ بھڑاتا رہا۔‘‘
لڑکی ہنسنے لگی، ’’سچ؟‘‘
’’پھر میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے دیکھا کہ کوئی سچ مچ دروازہ کھٹکھٹا رہا ہے۔ سوچا شاید تم ہو۔ لیکن باہر تار والا کھڑا تھا۔‘‘
آدمی کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ لیکن لڑکی کی ہنسی پھیکی پڑ گئی۔ اس نے اس خواب کو بدشگونی سمجھا۔ وہ بدشگونیوں میں گھری رہتی تھی، اس لیے کلیسا میں گھڑی دو گھڑی بیٹھنا اسے اچھا معلوم ہوتا تھا۔ اس نے یہ بات کبھی آدمی کو نہیں بتائی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ آدمی سے کچھ چھپاتی تھی لیکن خدا پر اپنے یقین کو وہ ایک نجی قسم کی بیماری سمجھتی تھی جس سے وہ آدمی کو دور رکھنا چاہتی تھی۔ خدا کے اردگرد ویسا ہی اندھیرا تھا جیسا آدمی کی بیوی کے آس پاس اور وہ اس کی بیوی کے بارے میں اتنا ہی جانتی تھی جتنا آدمی اس کے خدا کے بارے میں۔۔۔ان دونوں کو اکیلے چھوڑ دینا ہی مناسب تھا۔
دروازے کی گھنٹی بجی اور وہ دونوں چونک کر ایک دوسرے سے الگ ہو گئے۔ وہ لپکتی ہوئی دروازے کے پاس پہنچی۔ سٹکنی کھول کر باہر جھانکا۔ کوئی گاہک آیا تھا۔
’’یہ لنچ کا وقت ہے۔‘‘ اس نے کہا اور جلدی سے دروازہ بھیڑ دیا لیکن مڑی نہیں۔ چوکھٹ پر کھڑی رہی اور بند دروازے کے شیشے سے چڑھا ہوا دن دیکھنے لگی۔ اکتوبر کا دن کہرے کی پرت سے نکل رہا تھا۔ اسے بہت پہلے کے دن یاد آئے جب اس کی ملاقات آدمی سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ دکان سے گھر اکیلی جاتی تھی اور شہر اسے خالی خالی سا لگتا تھا۔
جب وہ آدمی کی طرف مڑی تو مسکرا رہی تھی۔
’’کتنی دور ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’کیا؟‘‘ آدمی جانے کے لیے تیار کھڑا تھا۔
’’تمہاری بیوی کا شہر۔‘‘ اس بار اس نے واقعی بیوی کا لفظ استعمال کیا جیسے وہ اس کی دور دراز کی کوئی سہیلی ہو۔
’’ایک گھنٹہ لگتا ہے۔‘‘ آدمی نے کہا۔ وہ کچھ مصروف سا نظر آنے لگا۔
’’کیسے جاؤگے؟‘‘
’’بس سے۔ ہر گھنٹے بعد جاتی ہے۔‘‘
لڑکی آدمی کے پاس آئی پھر اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا، ’’میں بھی چلوں؟‘‘
’’تم؟‘‘
’’بس اسٹینڈ تک چلوں گی۔‘‘
آدمی تھوڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا۔ وہ گہرے سناٹے کے بیچ کھڑی تھی جہاں ایک طرف ٹیلی گرام پڑا تھا اور پیچھے کتابوں کی وہ قطار تھی، جس کے اندر موت اور زندگی کا علم بھرا تھا۔۔۔لیکن اس وقت یہ علم نہ اس کی مدد کر سکتا تھا نہ لڑکی کی۔
اس نے تھیلا اٹھایا اور لڑکی کے قریب آکر کھڑا ہو گیا اور اس کے چھوٹے سے سر پر اپنا منھ رکھ دیا۔ وہ عمرمیں آدمی سے بہت چھوٹی تھی اور ایک اسکولی لڑکی کی طرح گم سم کھڑی تھی۔ اس وقت آدمی کو محسوس ہوا کہ اس کی عمر کے چالیس سال ایک گندے نالے کی طرح دکان کے بیچوں بیچ بہہ رہے ہیں اور نالے کے بیچ میں پانی اتنا کم ہے کہ وہ اس میں ڈوب کر مر بھی نہیں سکتا۔۔۔صرف لڑکی کو اس میں گھسیٹ کر گندا کر سکتا ہے۔
وہ دکان سے باہر نکل آیا۔
لڑکی بھاگ کر کھڑکی کے پاس آئی۔ آدمی دکان سے نکل کر سڑک پار کر رہا تھا۔ وہ کھڑکی کے لمبے شیشے سے اسے چھوٹا ہوتے ہوئے دیکھتی رہی۔
دوسرے دن لڑکی یوں ہی ٹہلتے ہوئے اس کے فلیٹ پر پہنچ گئی، حالانکہ اسے معلوم تھا کہ وہ شہر سے باہر ہے اور مکان خالی ہے۔ وہ پچھلی رات کو ہی چلا گیا تھا۔ فلیٹ کی دوسری کنجی اس کے پاس تھی جو ہمیشہ اسی کے پاس رہتی تھی اور وہ کسی بھی وقت اس کے فلیٹ میں جا سکتی تھی۔
لیکن اسی شام وہاں کوئی نہ تھا۔ فلیٹ کی سیڑھیاں اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھیں اور چوکیدار کا حجرہ خالی پڑا تھا۔ اندر داخل ہونے کے بجائے وہ چلتی ہوئی پیچھے کی طرف چلی گئی تاکہ ذرا فاصلے سے آدمی کا کمرہ دیکھ سکے جو تیسری منزل پر واقع تھا اور جس کی کھڑکی پارک کی طرف کھلتی تھی۔
پارک میں بچے کھیل رہے تھے۔
کھڑکی بند تھی۔ جانے سے پہلے وہ کھڑکی کے پردے گرانا بھول گیا تھا، اس لیے شام کی دھوپ کھڑکی کے شیشوں پر چمک رہی تھی، جس کے اندر سے سب کچھ نظر آ رہا تھا۔۔۔میز پر رکھا ٹائپ رائٹر، دیوار پر ٹنگی قمیص اور کھڑکی کے چھجے پر رکھا وہ گلدان جسے بہت دن پہلے وہ اسی کے لیے لائی تھی۔ ایک بار اس کاجی چاہا کہ اندر جائے۔ فوراً ہی اس کی انگلیاں پرس کے اندر گئیں اور اس میں اٹکی ہوئی چابی سے کھیلنے لگیں لیکن کمرے کے خالی ہونے کا احساس انگلیوں کو بھی ہو گیا تھا۔ وہ مڑی اور آہستہ قدموں سے گھاس پر چلنے لگی۔
پارک کے بیچ انگریزی طرز کا تالاب تھا جس میں بطخیں تیر رہی تھیں۔ وہ سوچ میں ڈوبی تالاب کے کنارے کنارے چلنے لگی لیکن اس کی سوچ کا کوئی ایسا سرا نہیں تھا جسے پکڑ کر وہ اندر کی گرہ کھول سکے۔ ساری سوچ آدمی سے شروع ہوتی تھی اور اُس دن سے شروع ہوتی تھی جس دن وہ پہلی بار دکان میں آیا تھا۔ وہ ایک عام سا دن تھا لیکن اس وقت اسے پتا نہ تھا کہ اس کے ساتھ یہ رشتہ اتنا انوکھا ہو جائےگا کہ وہ دن رات اس کے بارے میں سوچا کرےگی۔ جب وہ اپنی کتابیں کاؤنٹر پر چھوڑ کر چلا جاتا تو وہ ان کے صفحے الٹنے لگتی۔ انگریزی کی پرانی خستہ کتابیں جن پر اس کا نام، اس کے شہر کا نام اور وہ تاریخ لکھی رہتی جب اس نے یہ کتابیں خریدی تھیں۔
ان تاریخوں کو دیکھ کر اسے عجیب سی حیرانی ہوتی کہ جب وہ اس دنیا میں آئی بھی نہیں تھی، اس وقت وہ اپنے شہر میں گھومتا رہا ہوگا، پڑھتا رہا ہوگا اور جب آدمی کی شادی ہوئی ہوگی اس وقت اس نے اسکول جانا شروع کیا ہوگا۔۔۔وہ مسکرانے لگی۔ لوگ مجھے اس کی بیٹی سمجھتے ہیں۔ شاید اسی لیے وہ دن کی روشنی میں میرے ساتھ چلنے سے کتراتا ہے۔ مجھے کبھی عمر کا خیال نہیں رہتا۔ جب وہ میرے ساتھ ہوتا ہے تو مجھے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ مجھ سے کتنا بڑا ہے۔ عمر کے بارے میں کیا سوچنا! وہ رات میں گرنے والی برف ہے جس کا سوتے میں پتا بھی نہیں چلتا اور صبح اٹھو تو پھاٹک پر ڈھیر سی دکھائی دیتی ہے۔
برف کی بات پر اسے مارچ کا مہینہ یاد آ گیا۔ اس شام وہ پہلی بار آدمی کے ساتھ سوئی تھی۔ اس شام سال کی آخری برف گری تھی۔ وہ باہر نکلی تو سارا وجود سن تھا اور سارا شہر ٹھٹھر رہا تھا۔ آدمی نے اسے بہت روکا لیکن اس کے اندر کچھ پل رہا تھاجو سارے شہر کو سوخت کر سکتا تھا۔ وہ چلتی رہی اور جب اس سے برداشت نہیں ہوا تو وہ اس کلیسا میں چلی گئی جو ویران پڑا رہتا تھا اور جس میں وہ اکثر جایا کرتی تھی اور جس کے بارے میں آدمی کو کچھ بھی نہیں معلوم تھا۔
وہ اندر چلی آئی اور سب سے آگے والی بنچ پر بیٹھ گئی۔ کچھ دیر قبل وہ آدمی کے بستر میں تھی اور اب یہاں۔۔۔وہاں وہ کیا کر رہی تھی، یہ اسے بہت دیر تک نہیں معلوم ہو سکا۔ سامنے سولی پر ایک آدمی ٹنگا تھا جس کے ہاتھ پیر اور سینے میں کیلیں ٹھکی تھیں۔ بہت دیر تک اسے یہ بھی نہ معلوم ہوا کہ وہ اکیلی نہیں ہے، کوئی اس کے پاس بیٹھا ہے۔۔۔بالکل اس کے قریب۔۔۔جسے وہ اندھیرے میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ وہ ایک بوڑھی عورت تھی جو اسی کے ساتھ بنچ پر بیٹھی تھی، گنگناتی ہوئی، دعا کرتی ہوئی، ہوا میں شمع کی طرح لہراتی ہوئی۔ کیا وہ کچھ مانگ رہی تھی؟ وہ خدا سے کچھ مانگ رہی تھی اور اس وقت یہ سوچ کر اسے بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی طویل عمر گزار دینے کے بعد جب کچھ باقی نہیں رہتا، خدا سے کچھ مانگا جا سکتا ہے؟ وہ بوڑھی عورت کے پاس کھسک آئی، ’’سنو! کیا یہ گناہ ہے؟‘‘ اس نے دھیرے سے بوڑھی عورت کے کان میں کہا، ’’اس آدمی کے ساتھ سونا جس کی بیوی زندہ ہے؟‘‘
’’کون؟‘‘ بوڑھی عورت نے اس کے چہرے کو دیکھا، ’’کون زندہ ہے؟‘‘ وہ ہنس رہی تھی۔ اس کے سارے دانت ٹوٹے ہوئے تھے اور اس کے کھلے اور پوپلے منھ سے شراب کے بھبکے نکل رہے تھے۔ شراب، ضعیفی اور آنسوؤں میں لپٹا ہوا اس کا چہرہ اوپر نیچے ہل رہاتھا۔ وہ بھاگ کر باہر چلی آئی۔ بہت دیر تک بڑھیا کا چہرہ اس کا تعاقب کرتا رہا، پھر اچانک غائب ہو گیا۔ برف گرنا بند ہو چکی تھی۔ وہ مارچ کا مہینہ تھاجب وہ پہلی بار آدمی کے ساتھ سوئی تھی۔
اب وہ اس کے گھر کے سامنے بیٹھی تھی۔ بچے اپنے اپنے گھروں کو جا چکے تھے اور بطخیں پتا نہیں کہاں ڈوب گئی تھیں۔ تالاب اندھیرے میں سویا ہوا تھا۔۔۔نہ چھپ چھپ نہ اور کوئی آواز۔ آس پاس کے مکانوں میں روشنیاں ہو رہی تھی۔ صرف آدمی کا کمرہ تیسری منزل پر تاریک اور ویران پڑا تھا۔ اب وہاں نہ گلدان تھا نہ میز، نہ دیوار پر لٹکی ہوئی قمیص۔
وہ کسی دوسرے شہر میں اپنی بیوی کے ساتھ لیٹا تھا۔ نہ جاگ رہا تھا نہ سو رہا تھا۔ وہ اس دن کے بارے میں سوچ رہا تھا جب سات مہینے قبل وہ لڑکی کی دکان میں گیا تھا۔ بغل میں اس کی بیوی سانسیں لے رہی تھی۔
وہ تین دن بعد لوٹا تھا۔ تین چھوٹے دن اور دو لمبی راتیں جن میں لڑکی گھر سے دکان گئی تھی اور واپس گھر لوٹی تھی اور پھر دکان اور پھر گھر۔۔۔ایک شام وہ بس اسٹیشن پہنچ گئی حالانکہ آدمی کے آنے کا وقت اسے معلوم نہیں تھا۔ دوسری شام وہ اس کے گھر گئی اور پارک میں کھیلتے ہوئے بچوں اور تیرتی ہوئی بطخوں کو دیکھتی رہی۔ آدمی اپنی بیوی سے ملنے پہلے بھی جاتا تھا لیکن لڑکی کی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا جب اس نے اس عجیب سی چیز کو دیکھا تھا جو کچھ بھی نہیں تھی۔۔۔کسی کا نہ ہونا۔ یہ بھی کوئی چیز ہے! لیکن جہاں بھی وہ جاتی تھی وہ شے بھی اس کے ساتھ ساتھ جاتی۔ جب رات کو لیٹتی تو وہ چیز بھی اس کے ساتھ لیٹ جاتی اور جب وہ سونے لگتی تو جاگ کر اس کا سونا دیکھتی اور تب اس کی سمجھ میں آیا کہ تنہا لوگ کلیسا میں، شراب خانوں میں اور ایسے گھرو ں میں جاتے ہیں جہاں عورتیں اپنا جسم فروخت کرتی ہیں۔۔۔اور وہ مرد بھی جو اپنی بیویوں کے ساتھ رہتے ہیں، حالانکہ ساتھ رہنے کا سکھ کب کا مٹ چکا ہوتا ہے۔
لیکن سکھ لڑکی کو نہیں ستاتا تھا۔ وہ اس کے بارے میں سوچتی بھی نہیں تھی۔ وہ صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ کیا وہ بھی اس چیز کے بارے میں جانتا ہے جسے وہ اس کے پاس چھوڑ جاتا تھا؟ کیا وہ اس چیز کو جانتا تھا؟ کبھی کبھی اسے محسوس ہوتا کہ وہ اس چیز کو جانتا ہے اور اسی لیے اس سے الگ ہونا چاہتا ہے لیکن الگ ہوتا نہیں تھا۔ ایک عجیب سے غصے میں تنا رہتا تھا۔۔۔بالکل اسی طرح جس طرح اس کی بھرائی اور تنی ہوئی آواز فون پر سنائی دیتی تھی۔
اس کا فون لنچ کے وقت تیسرے روز آیا تھا۔ اس وقت منیجر باہر تھا اور وہ اپنے کیبن میں تھی اور ناشتے دان کھول رہی تھی۔ گھنٹی سنائی دی تو اس کے ہاتھ ڈبے پر سے ہٹے نہیں۔ اسی کا فون ہو سکتا ہے، اس نے سوچا۔ حالانکہ فون کی گھنٹی ہمیشہ ایک ہی طرح بجتی تھی۔ وہ الماریوں کے بیچ سے ہوتی ہوئی کاؤنٹر پر آئی۔ فون اٹھایا، آدمی کی آواز سنی اور جب واپس اپنے کیبن میں آئی تو اسے کھڑکی کے باہر پیڑ نظر آیا، سڑک دکھائی دی، سامنے کی دیوار پر پوسٹر دکھائی دیا جس کا ایک کونا اکھڑکر ہوامیں لہرا رہا تھا۔۔۔تین دن بعد وہ اپنے شہر کو نئے سرے سے دیکھ رہی تھی۔
فون کی آواز اب بھی اس کے اندر گونج رہی تھی۔۔۔یاس انگیز ناراضگی میں ڈوبی ہوئی۔ پتا نہیں وہ کیوں اکڑا ہوا تھا! اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس کے یہ دن کیسے گزرے۔ تین ہی دن اپنی بیوی کے ساتھ رہ کر اس پر اس طرح غصہ کرنا۔۔۔کیا وہ پاگل ہو گیا تھا؟
اس نے جلدی جلدی ان کتابوں کو تھیلے میں ڈالا جو وہ اس کے لیے جمع کیا کرتی تھی۔ یہ کتابیں صرف اسی لیے مخصوص تھیں۔۔۔انہیں نہ کسی کو دکھایا جا سکتا تھا نہ بیچا جا سکتا تھا۔ یہ کتابیں گودام میں پڑی سڑا کرتیں۔ انہیں وہ اپنے پیسوں سے خریدا کرتی تھی اور گودام کے ان تاریک کونوں میں جمع کرتی جاتی جہاں روشنی کا گزر نہیں ہوتا تھا۔
ایک ایک کرکے وہ انہیں اپنے تھیلے میں رکھنے لگی۔ پھر اس کے ہاتھ رک گئے۔ اسے محسوس ہوا کہ وہ آدمی کو دیکھ سکتی ہے۔ وہ اس وقت اکیلا اپنے کمرے میں بیٹھا ہوگا۔۔۔کہرآلود موسم کا دھندلا دن، ٹائپ رائٹر اور کورے کاغذ جنہیں وہ آنے سے پہلے جوں کاتوں میز پر چھوڑ آئی تھی۔
وہ اکڑوں بیٹھا تھا اور اخبار کے کاغذوں کو انگیٹھی میں جھونک کر آگ جلا رہا تھا۔ انگیٹھی کادھواں اوپر اٹھتا، چمنی میں جاتا، پھر لوٹ کر پانی بن جاتا۔ آدمی بار بار آستین سے آنکھیں پونچھنے لگتا تھا۔
لڑکی صوفے پر لیٹی تھی۔ سرہانے کشن تھا، کشن کے نیچے کتابوں کا تھیلا اور تھیلے کے اوپر ناشتے دان جس کے اندر سے سلابی اور کھٹے دہی کی بو آ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ سر دوسری طرف تھا۔ وہ آدمی کی پیٹھ کا وہ حصہ دیکھ رہی تھی جہاں اس کی قمیص پتلون سے باہر نکل کر نیچے لٹک رہی تھی۔
آدمی نے سر گھمایا تو آگ کی لپٹیں بھی اونچی ہونے لگیں۔ دھویں کے پیچھے لڑکی کا چہرہ دکھائی دیا۔ بھیگی ہوئی آنکھوں میں آگ اور لڑکی ایک دوسرے کی بانہوں میں جھول رہے تھے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور صوفے پر اس جگہ بیٹھ گیا جہاں لڑکی کا سر کشن پر ٹکا تھا او رپاؤں نیچے لٹک رہے تھے اور اس وقت اسے یاد آیا کہ نائلون کی جرابوں میں لڑکی کے پاؤں بہت ٹھنڈے رہتے تھے۔ لڑکی ایسی ساکت تھی کہ پیروں کا ہلنا اسے وہم سا معلوم ہوا۔
’’سردی تو نہیں لگ رہی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
لڑکی کے پیر ہوا میں ہلے۔
’’نہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
’’بس میں بہت ٹھنڈک تھی۔‘‘ اس نے کہا، ’’سڑکوں پر پانی جم گیا تھا۔‘‘
’’کب پہنچے؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’دوپہر کو۔ اسی وقت تمہیں فون کیا تھا۔‘‘
’’کیا بیماری تھی؟‘‘ لڑکی نے پوچھا۔
’’کوئی خاص نہیں۔‘‘ آدمی نے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں؟‘‘
’’وہ مجھے دیکھنا چاہتی تھی۔‘‘ آدمی نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا گویا اپنی جلد کی جھریوں کو برابر کر رہا ہو۔
’’تین دن تک؟‘‘ لڑکی نے کہا۔
’’مطلب؟‘‘
’’وہ تین دنوں تک تمہیں دیکھتی رہی؟‘‘
آدمی نے سر اٹھایا، حیرت سے لڑکی کو دیکھا جس کا چہرہ آگ میں تپ رہا تھا۔ وہ عجیب سی آنکھوں سے اسے دیکھ رہی تھی جیسے کچھ پوچھ رہی ہو۔ آدمی اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سہلانے لگا۔۔۔سفید کنوارا ہاتھ جس نے ابھی تک صرف سیکنڈ ہینڈ کتابوں کو چھوا تھا لیکن اس کے اندر کے بوسیدہ صفحات کو نہیں پڑھا تھا، جن میں لوگ شادی کرتے ہیں، ایک دوسرے سے الگ ہو جاتے ہیں، بوڑھے ہو جاتے ہیں، اکیلے کمروں میں مر جاتے ہیں۔ آدمی کے اندر ایک اندھی شہوت جاگی، جس کا اس وقت لڑکی کے جسم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس نے اسے اپنے پاس گھسیٹ لیا۔۔۔اس کے جسم کو اپنے چالیس سالوں میں سمیٹ لینے کے لیے۔۔۔اور وہ اس کی طرف کھنچتی چلی آئی، بالکل ایک کبوتر کی طرح اس کے سینے میں سمٹ گئی۔
’’کیا تم اس کے ساتھ سوئے تھے؟‘‘ لڑکی نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ اسے وہم ہوا کہ جو کچھ اس نے سنا ہے وہ بھی وہم ہے۔
’’تم نے کچھ کہا؟‘‘
’’کیا تم اس کے ساتھ۔۔۔‘‘
آدمی نے سر اٹھایا اور آہستہ سے اس کے سر کو اپنے سینے سے الگ کر دیا۔ لڑکی نے آدمی کے چہرے کی طرف دیکھا جو تکان، نینداور گزری ہوئی عمر سے بوجھل تھا اور تب اسے حیرت ہوئی کہ وہ اس سے پیار کرتی ہے اور اب وہ کچھ کہےگا جس کا کوئی مطلب نہ ہوگا۔
انگیٹھی کے کوئلے اب دہک رہے تھے۔
کچھ دیر بعد لڑکی صوفے سے اٹھی اور کرسی پر بیٹھ گئی۔ ٹائپ رائٹر میں لگے سارے کاغذوں کو دیکھا، پھر اس کی آنکھیں کھڑکی سے باہر جاکر ٹھہر گئیں۔ پارک اندھیرے میں ڈوبا تھا اور تالاب کی جگہ صرف ایک سفید چادر دکھائی دے رہی تھی۔ سڑک کی روشنیاں ایک لمبی جھالر کی طرح شہر کے دونوں کناروں پر لٹک رہی تھیں۔ اس نے کرسی میز کے پاس کھسکالی اور آدمی کی ترجمہ کی ہوئی عبارت ٹائپ کرنے لگی۔ ٹائپ کرتے وقت اسے عجیب سا سکون ملتا تھا جیسے وہ دوزبانوں کے درمیان پھیلے ہوئے جنگل میں اکیلی، بےنیاز اور سب خطروں سے آزاد گھوم رہی ہے لیکن پیچھے صوفے پر لیٹا آدمی اسے دیکھ رہا تھا۔
وہ اس کے جھکے ہوئے سر کو دیکھ رہا تھا جہاں بھورے بالوں کا جوڑا ڈھیلا ہوکر گردن پر لٹک آیا تھا۔ وہ اس کے ترجمے کو پڑھتی تو ہونٹ ہلنے لگتے، پھر ہونٹوں پر آئے ہوئے انہیں لفظوں کو جلدی جلدی کاغذ پر ٹائپ کرنے لگتی۔ اب وہ اس کی بیوی کو بھول گئی تھی۔ وہ اس سے الگ ہو گئی تھی۔ بس کبھی کبھی سر اٹھاکر کسی لفظ کا مطلب پوچھ لیتی اور وہ سوچنے لگتا کہ پچھلی رات وہ اپنی بیوی کے ساتھ تھا اور اب یہاں ہے۔ کل دوپہر کے وقت وہ کتابوں کی دکان پر جائےگا، لڑکی سے جھوٹ بولےگا، بیوی کے پاس جاکر لوٹ آئےگا۔ اسی طرح دن گزرتے جائیں گے۔ لیکن اس سب کا کوئی حاصل ہے؟
آدمی نے ہاتھ آگے بڑھایا اور دھیرے سے لڑکی کی پیٹھ کو چھوا۔ وہ چونک پڑی، پیچھے مڑ کر آدمی کو دیکھا۔ زرد چہرے پر کمزور سی مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔
’’کچھ چاہیے؟‘‘
’’اب بس کرو۔ باقی کل کر لینا۔‘‘ آدمی نے کہا۔
’’بس تھوڑا سابچا ہے۔۔۔تم سو کیوں نہیں جاتے؟‘‘
کیا اس عمر میں لڑکیاں ماں بن جاتی ہیں۔۔۔ بیوی ہونے سے قبل؟ اس نے آنکھیں موند لیں۔ پلکوں کے اندھیرے میں ٹائپ رائٹر صرف ایک لفظ ٹائپ کر تا تھا۔۔۔نیند۔۔۔نیند۔۔۔اور نیند کہیں نہیں تھی۔
رات گئے تک لڑکی ٹائپ کرتی رہی۔ وہ رفتہ رفتہ باب کے آخری حصے تک پہنچ گئی تھی۔ کہانی کے سیاہ جنگل میں جب کبھی وہ بیچ میں بھٹک جاتی تو کبھی آدمی اور کبھی لغت اس اندھیرے کو پار کرا دیتے اور وہ معنی کی صاف روشنی میں آ جاتی اور دوبارہ چلنے لگتی۔ اس طرح رینگتے ہوئے جب وہ آخری سطر پر پہنچی تو کچھ دیر تک وقفے کے سیاہ نقطے پر ٹھہری رہی۔ کاغذ کے باقی حصے کو دیکھتی رہی جو خالی پڑا تھا۔۔۔ان تین دنوں کی طرح خالی جب وہ اپنی بیوی کے ساتھ تھا اور وہ اکیلی شہر کی سڑکوں پر گھومتی پھرتی تھی۔۔۔اور اس وقت اسے عجیب سا محسوس ہوا کہ خالی پن کا مطلب نہ تو وہ آدمی سے پوچھ سکتی ہے اور نہ لغت میں تلاش کر سکتی ہے۔
اس نے رولر سے کاغذ باہر نکالا، ٹائپ رائٹر کو بند کیا، کرسی کو پیچھے کھسکایا اور بیچ کمرے میں آکر کھڑی ہو گئی۔ فرش پر کتابوں کی گٹھری رکھی تھی اور آدی اس سے بےخبر صوفے کے سرہانے لیٹا تھا۔ اچانک اسے خیال آیا کہ اگر وہ اتر کرنیچے چلی جائے تو کسی کو پتا بھی نہیں چلےگا۔
پھر ذہن بھٹک گیا۔ شب کا پروانہ کھڑکی کے شیشے میں پھنس گیا تھا۔ وہ کبھی اوپر جاتا تھا، کبھی نیچے کھڑکی کے فریم سے بار بار ٹکراکر عجیب سی بدحواسی کے عالم میں چھٹپٹا رہا تھا۔ لڑکی نے جھٹ سے کھڑکی کھول دی۔ پروانہ اوپر اٹھا، ایک ننھی سی جان لڑکی کے رخساروں کو چھوتی ہوئی باہر اندھیرے میں پرواز کر گئی۔ لڑکی کچھ دیر تک کھلی ہوئی کھڑکی سے نیچے دیکھتی رہی۔
اکتوبر کے کہرے پر شراب خانے کی روشنی ایک سرخ دھبے کی طرح چمک رہی تھی۔ اچانک ایک آدمی باہر نکلا اور لڑکھڑاتے قدموں سے سڑک پار کرنے لگا۔ وہ ڈولتا ہوا کبھی ایک طرف جاتا کبھی دوسری طرف، جس طرح ابھی کچھ دیر پہلے کھڑکی کے شیشے پر پروانہ ڈگمگا رہا تھا۔ پھر نہ جانے کیا سوچ کر عین کھڑکی کے نیچے فلیٹ کی دیوار سے لگ کر کھڑا ہو گیا اور اپنی پتلون کے بٹن کھولنے لگا۔ لڑکی نے جلدی سے کھڑکی بند کر دی اور واپس کمرے میں لوٹ آئی۔ اس نے بالوں کا جوڑا کھولا۔ کانٹوں کو نکال کر میز پر رکھا، پھر اپنے بیگ سے ویسلین کی ٹیوب نکالی، انگلی سے اسے دبایا، نکلی ہوئی ویسلین کو اپنے چہرے پر، کانوں کے پیچھے والے حصے اور اپنی بانہوں پر ملنے لگی۔ اچانک اس کے ہاتھ ٹھٹک گئے۔ اس کی بیوی بھی اس کے پاس جانے سے پہلے یہی کرتی ہوگی؟
سارے جسم کو مروڑتی ہوئی کسی شے نے اس کے اندر کروٹ لی۔ اس نے اس کی بیوی کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کی بیوی۔۔۔ایک داغ دار اذیت جو جسم میں کیڑے کی طرح کلبلاتی ہے، اوپر اٹھنے کے لیے تلملاتی ہے، پھر نیچے بیٹھ جاتی ہے۔ ایک لمحے کے لیے وہ دہشت زدہ ہو گئی۔ اس کا حلق خشک ہونے لگا۔ وہ منھ پر ہتھیلی رکھ کر باتھ روم کی طرف بھاگی۔ بیسن پر دوہری ہوکر جھک گئی۔ جسم میں جس شے نے کروٹ لی تھی وہ ایک ہی قے میں باہر نکل آئی۔۔۔پانی میں زرد چکتے کی طرح تیرتی ہوئی۔
قے کرنے کے بعد اس نے منھ دھویا، آنکھوں پر پانی چھڑکا اور چہرہ پونچھنے کے لیے جب اس نے تولیہ اٹھایا تو اس کی آنکھیں بیسن کے شیشے میں ٹھٹک گئیں۔ شیشے میں اس بوڑھی پوپلی عورت کا چہرہ جھانک رہا تھا جسے اس نے گرجا گھر میں دیکھا تھا۔ لیکن اب وہ ہنس نہیں رہی تھی۔ بوڑھی عورت اس سے کچھ کہنا چاہ رہی تھی لیکن اب لڑکی کچھ نہیں سننا چاہتی تھی۔۔۔نہ اپنے گناہ کے بارے میں نہ آنے والی زندگی کے بارے میں۔۔۔اس سے پہلے کہ بڑھیا اپنا منھ کھولتی، لڑکی اسے آئینے میں اکیلا چھوڑ کر کمرے میں چلی آئی۔
وہ اس صوفے پر آکر بیٹھ گئی جس پر آدمی لیٹا تھا۔ اس نے کمرے کی روشنی گل کر دی لیکن اندھیرا نہیں ہوا۔ آگ کی بجھتی ہوئی زرد روشنی سب چیزوں پر پڑ رہی تھی۔۔۔ٹائپ رائٹر پر، کتابوں کے تھیلے پر اور کشن سے ٹکے ہوئے آدمی کے سر پر۔ اس نے کپڑے اتارے، الماری سے کمبل نکالا، دھیرے سے اسے آدمی پر ڈال دیا، پھر اس کا ایک سرا اٹھاکر خود بھی اس کے نیچے لیٹ گئی۔
وہ ایسا بےجان پڑا تھا کہ کچھ دیر تک اسے پتا ہی نہیں چلا کہ وہ جاگ رہا ہے یا سویا ہوا ہے۔ اسے صرف اس کی سانس سنائی دے رہی تھی۔۔۔سینے کے اندر غراتی ہوئی۔ اس نے ٹٹول کر کھولی ہوئی قمیص کے بیچ اس کے عریاں سینے کو چھوا جہاں کچھ سفید بال نکل آئے تھے اور پھر اپنا سر اس پر ٹکا دیا۔ آدمی میں حرکت ہوئی۔ ایک گرم سی لہر اس کے لہو کو گرمانے لگی۔ نہیں۔۔۔نہیں۔۔۔نہیں۔ اس کے اندر کوئی کہہ رہا تھا لیکن جب اس نے آنکھیں کھولیں تو لڑکی کا سر اس کے اوپر تھا۔ اس کے بکھرے ہوئے بال کمرے کے اندھیرے کو اور گہرا کر رہے تھے۔ وہ ہل رہی تھی۔ کچھ دیر تک آدمی جان ہی نہ سکا کہ وہ رو رہی ہے۔ آدمی کے سینے پر ایک گرم سی لکیر بہہ رہی تھی۔
’’سنو!‘‘ آدمی نے بہت چپکے سے کہا، ’’میں مرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیا؟‘‘ لڑکی نے سراٹھایا، اس کی طرف دیکھا۔ آدمی کبھی کبھی اس سے اپنی مادری زبان میں بات کرنے لگتا تھا جسے وہ بالکل نہیں سمجھ پاتی تھی۔
’’تم نے کچھ کہا؟‘‘
وہ دھیرے دھیرے اس کا سر ہلانے لگا۔ لڑکی ماں سے بچی بن گئی تھی۔ اب آدمی اس سے ایسا سچ بول سکتا تھا جس کا ترجمہ کرنا لڑکی کے لیے ناممکن تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.