Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آگ کے پاس بیٹھی عورت

اقبال مجید

آگ کے پاس بیٹھی عورت

اقبال مجید

MORE BYاقبال مجید

    سور پالنے والوں کی بستی کی روزمرہ کی زندگی، ان کی گندگی، ان کی عورتوں کی برہنگی اور ننگے دھڑنگے کیچڑ میں لتھڑے اور گرد سے اٹے بالوں والے ناک بہاتے اور غلاظت میں لوٹتے بچوں پر فلم بناکر بڑے انعامات کی دوڑ میں شامل ہونے والے فلم ساز، بڑے کہانی کاروں کو پانچ ستارہ ہوٹل کے عالی شان کمروں میں ٹھہراکر، ان ناداروں پر لکھی جانے والی فلمی کہانیوں کے امکانات پر بحث کرتے اور اس موضوع پر ماضی میں بنائی گئی بعض فلموں کے کیسٹ ری پلے کرکے ان کی بخیہ ادھیڑتے۔

    ہوٹل کے انہیں کمروں کی صاف ستھری میزوں پر ان مظلوموں پر ہونے والے مظالم کی پرانے اخباروں کی چھپی تصویریں بکھری ہوتیں اور دل دہلادینے والی ٹاپ اسٹوریز، چائے کافی کی چمچماتی پیالیوں اور ایش ٹرے میں جلتی قیمتی سگریٹوں کے آس پاس چکنے کاغذ پر چھپے انگریزی رسالوں سے کاٹے گئے تراشے بھی پڑے ہوتے، جن کی خوبصورت سطروں کے نیچے لال قلم سے جگہ جگہ خط بھی کھنچا ہوتا۔

    ایسے ہی ایک کمرے کی میز پر دو چار گھنٹے گزارنے کا موقع مجھے بھی ملا تھا۔ ایک پروڈیوسر نے دلت سبجیکٹ کو لے کر کام کرنے کے لیے اپنی منشا بتاکر مجھے ہوٹل میں مدعو کیا تھا اور ٹیکسی کے کرایے کے نام سے کچھ رقم ملنے کی مجھے امید تھی۔

    اس شہر میں جہاں روشنیوں کی چکاچوندھ تھی اور جس چکاچوندھ میں ہماری تمنا اور خواہش کے پورے ہونے کی کمزور سی امید کے درمیان بڑے جان لیوا فاصلے تھے۔ وہاں کی بھیڑ بھاڑ میں ہر طرح کی مخلوق آباد تھی۔ مزدور، کاریگر، اسکالر، اسمگلر، جرائم پیشہ، مہذب اور غیرمہذب، متمول اور غریب فاحشائیں، پیروں اور ولیوں کے مزار سب ہی کچھ تو وہاں تھا اور میں ان کے درمیان ہزاروں غریب الوطن نوجوانوں کی طرح کبھی ادھر تو کبھی ادھر بھٹک رہا تھا۔ مجھے اس بیٹھک میں یونہی نہیں بلا لیا گیا تھا۔ دعوت نامہ ملنے سے پہلے میری سفارش کرنے والے دوست کے ساتھ جس کی اس پروڈیوسر تک پہنچ تھی، ایک شام مے نوشی کے وقت مجھے بھی بلا لیا گیا۔

    سچ تو یہ ہے کہ اس شام میں صبح سے بھوکا تھا، اس لیے پروڈیوسر کی عمدہ شراب کے پہلے ہی گھونٹ نے میرے بھوکے پیٹ پر کچھ ایسی لات ماری کہ میں نے دیر تک گلاس کو ہاتھ نہ لگایا اور میز پر سجے کھانے کے سامان پر بار بار ہاتھ مارتا رہا۔ اس موقع پر سخت انٹرویو لیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا کہ میں نے فکشن میں کیا پڑھا ہے۔ میں نے بالزاک، داستاؤسکی، ٹالسٹائی، ہیمنگوے اور ایمیلی ژولا وغیرہ کا نام لیا۔ پوچھا گیا ہندوستانی ادب کے بارے میں کچھ بتاؤں، پھر دلت ادب کے بارے میں بات ہوئی، میں نے اسے مہاراشٹر کے ایک شاعر کی نظم سنائی جو اس طرح تھی،

    میرے پاس ہے/دلت کی زبان/اونچی ذات کی خاطر

    میرے پاس ہے/سورن کی بھاشا/دلت کی خاطر

    میرے پاس ہے/اپنی زبان/خود کی خاطر

    پروڈیوسر نے تب مجھ سے کھل کر با ت کی، کہا اس میں دلتوں کی دوسروں کے لیے کھلی اور ننگی نفرت نہیں ہے۔ ہماری فلم دلت کی ایک ایسی خاموش چیخ ہوگی جس کو ہم Cash کر سکیں۔ تھوڑی دیر میں وہاں ایک خوبصورت لڑکی آ گئی۔ وہ پکی عمر میں آچکی تھی، گلے میں چھوٹے رودراکش کی مالا، ذرا لمبے قد کی، ہونٹوں پر لپ اسٹک، چہرے پر غازہ، بھویں خوبصورتی سے ترشی ہوئی کمانیں، آنکھیں بڑی بڑی بے تکلف اور بلند قہقہوں کے ساتھ ہنسنے والی۔ انگریزی اچھی بول رہی تھی، معلوم ہوا کسی انگریزی میگزین میں باتصویر مضامین لکھتی تھی۔ اس کے لیے خاص بوتل اور گلاس کا شاید پہلے سے انتظام تھا۔

    پہلے کچھ دیر چپ چاپ ہماری باتیں سنتی رہی اور سگریٹ پیتی رہی۔ ایک ایک لفظ کو توجہ سے سنتی رہی۔ پروڈیوسر نے اپنے پروجیکٹ کا جو کاروباری پہلو سمجھا یا، غالباً اس سے وہ مطمئن نہیں تھی۔ یکایک سگریٹ بےدردی سے کچل کر وہ کچھ بولنا چاہتی تھی مگر پروڈیوسر نے اپنی بات جاری رکھی۔ وہ کہتا رہا، ’’ہر معنی کے اندر ایک روشنی ہوتی ہے، اس روشنی کی طاقت کتنی دور تک اجالا کر سکتی ہے اور اس اجالے میں کیا کیا دکھائی دیتا ہے۔ بس ہمیں ایسی Situations چاہیے اس فلم میں۔‘‘

    اس بار لڑکی نے پروڈیوسر کو آگے موقع نہیں دیا اور بےصبری سے اپنی بات شروع کرتے ہوئے مجھ پر سیدھا ایک سوال داغ دیا، ’’آپ وائلنس کو کیا سمجھتے ہیں؟‘‘ میں یکایک پوچھے سوالوں پر چکرا گیا۔ ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ وہ دوسری سگریٹ جلاکر مجھے گھورتے ہوئے بولی، ’’آپ یہ جان لیجیے کہ ہم فلم بنانے کے بہانے ایک طرح کے تشدد کے پیشے میں داخل ہو رہے ہیں۔‘‘

    “Exactly”پروڈیوسر نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ہی گھٹنے پر زور سے مارا اور بولا، ’’دیکھیے پیشہ وارانہ تشدد کا نظریہ یہ ہے کہ جس حقیقت کو آپ بیان کر رہے ہیں وہ سیدھی سیدھی ایک گھماسان جنگ کے علاوہ اور کچھ نہیں، ایسی جنگ جس میں کچھ سوچنے سمجھنے اور تجزیہ کرنے کی بھی مہلت نہیں ہے۔ یہ آپ اچھی طرح سے جان لیجیے کہ ہمیں کسی پرتشدد عمل کے پیچھے اس کی سماجی پیچیدگیوں کو فوکس نہیں کرنا ہے۔ ہم کوئی سماجی ذمہ داری نبھانے کے لیے فلم نہیں بنارہے ہیں، ہم کچھ ٹھیک کرنے یا کسی پرابلم کا حل بتانے کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔‘‘

    یہ سن کر پروڈیوسر کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے فوراً لڑکی بول پڑی، ’’کیونکہ ہمارے جینیٹک انجینئر یہ بتارہے ہیں کہ انسان Genetically اور Neurologically ازل سے ہی ناقص پیدا ہوا ہے، اس لیے اس کے سماج میں شیکسپیئر ہمیشہ پیدا ہوں گے اور ٹریجڈی لکھی جاتی رہےگی۔‘‘ پھر پروڈیوسر نے بات آگے بڑھائی، ’’جب سے دنیا بنی، آپ دیکھ رہے ہیں کہ ادھر کچھ ٹھیک ہوتا ہے تو ادھر کچھ بگڑ جاتا ہے، ادھر کوئی ہنستا ہے تو ادھر کوئی رونے لگتا ہے، ہمیں ان ان چکروں میں نہیں پڑنا، سب کمارہے ہیں، جیبیں بھر رہے ہیں ہمیں بھی بھرنا ہے۔ تماشائی کے لیے تشدد کو چرس کی سگریٹ کا ایک کش بنانا ہے ہمیں۔ اس اتنے بڑے شہر میں لوگ چھریوں اور پستولوں سے ہی نہیں مر رہے ہیں، جیو اور جینے دو صرف کتابوں کے لیے ہے، سب اسکائی اسکریپر میں نہیں رہتے، بہتوں کو فٹ پاتھ پر رہنا پڑتا ہے۔‘‘

    میں ان دنوں بہت پریشان تھا۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے میری بیوی کے ساتھ ہمارے آبائی قصبے میں اپنی نانی کے ساتھ رہ رہے تھے۔ یہاں قسمت آزمانے آیا تھا، مجھے کام چاہیے تھا، جو اس پروڈیوسر کے لیے اس کی مطلوبہ چرس فراہم کرنے پر ہی ممکن تھا، میں اس موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتا تھا۔ میں نے انہیں یقین دلایا کہ میری خدمات سے انہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ بہرحال کہانی تیار کی جانے والی بیٹھکوں میں مجھے بلایا جانے لگا۔ کہانی تو ایک وہاں پہلے ہی سے موجود تھی۔ معاملہ اسے مزید طاقتور اور مؤثر بنانے کا تھا۔ انہیں دنوں مجھے یہ فکر رہنے لگی کہ زیادہ بولڈ موضوع اور اس کی تیکھی پیش کش سنسر کے چکر میں پڑ جاتی ہے۔

    ایک دن ریتا سالومن سے میں نے یہ سوال اٹھا ہی دیا۔ ریتا سالومن اس لڑکی کا نام تھا جس کی باتوں نے میرے انٹرویو کے موقع پر کچھ پریشان کر دیا تھا۔ اس نے میری ہمت بندھائی، بتایا کہ جنسی مناظر کے مقابلے میں تشدد کے مناظر دکھانے کی کھلی چھوٹ ہے۔ اگر آپ سرکاری اداروں پر براہ راست کھلی چوٹ نہ کریں تو آپ کی دلیری کی تشہیر کی جائےگی کہ دیکھو ہمارے یہاں اظہار رائے کی کس قدر آزادی ہے کہ ہم اپنی کمزوریوں اور بدنما داغوں کو بھی نہیں چھپاتے کیونکہ وہ اس راز سے واقف ہیں کہ میڈیا کتنی ہی سفاکی اور دلیری سے سسٹم اور اس کے ذمہ داروں کو کتنی ہی گھناؤنی اور موٹی گالی کیوں نہ دیں، اسے اظہار کی آزادی کہہ کرگالی کھانے اور دینے والا چائے کے کپ میں ڈبوکر پی جاتا ہے۔

    لیکن اس موضوع کو لے کر میرے دل میں ایک وسوسہ بار بار کانٹے کی طرح چبھ رہا تھا، دل یہ کہتا کہ ان دلتوں کی بستیاں اب پچاس برس پرانی بستیاں نہیں ہیں، وہاں مختلف محکموں کی گاڑیاں اب گھومنے لگی ہیں۔ سرکاری کیمپ بھی لگتے رہتے ہیں، لیڈر ووٹ مانگنے پہنچتے رہتے ہیں، ایک آدھ پرائمری اسکول ماسٹر نیم کے پیڑ کے نیچے سوکھے موسم میں کچھ بچوں کے ساتھ اپنی قسمت بھی پھوڑتے دیکھے جا سکتے ہیں، بینک والے لون دیتے گھومتے پائے جاتے ہیں۔ نیلی ساڑیاں پہن کر اور ریڈ کراس کا تمغہ لگاکر کالی عورتیں بچوں کو پولیو ڈراپس پلانے بھی آ جایا کرتی ہیں، اخبارات پہنچنے لگے ہیں، دور دراز علاقوں کے فوٹو گرافر وہاں کی زبوں حالی کی تصویریں نئے نئے زاویوں سے کھینچتے رہتے ہیں۔

    ’’پھر یہ بھی میں پڑھتا رہتا تھا کہ یہ دلت اب اتنے بے خبر نہیں ہیں، زمانہ انہیں ہماری ناولوں میں لکھے جارہے بیانات سناتا رہتا ہے۔‘‘ سکھ کا سمبندھ اندریوں سے ہے، اندریاں جو دیوتا اندر سے زیادہ گنی اور گیانی ہیں۔۔۔ گیان/ دھیان/ یوگ/پریوگ/ سادھنا/ کلپنا/ اندریوں کے آدھین ہوتے ہیں۔ (اس لیے) اندریوں کو ہمیشہ جگائے رکھنا/ اونگھنے بھی نہیں دینا۔ (دویہ بانی، غضنفر)

    ایک دن کافی ہاؤس میں ریتا سالومن مجھے اکیلی مل گئی۔ اس کے بیگ میں کچھ انگریزی فلموں کے اسکرین پلے تھے، مجھے اس کے ساتھ بیٹھ کر اکیلے باتیں کرنے کا موقع ملا تھا۔ ہم نے ایک بلیک کافی منگائی، دراصل اس پروجیکٹ میں شامل ہونے کے بعد مجھے اکثر بے خوابی کی راتیں کاٹنا پڑ رہی تھیں۔ میرے اندر سوالات اٹھتے تھے۔ ریتا کو اکیلا پاکر میں نے اس سے پوچھ ہی لیا، ’’کیا دلت سماج ایک سسٹم کا حصہ نہیں؟ اپنے تمام Phenomena سے جڑا ہوا ایک دوسرے سے مربوط۔‘‘

    ’’تمہیں اس سے مطلب؟‘‘ ریتا نے تیوریاں چڑھا کر مجھے دیکھا، شاید وہ بات کو ٹال رہی تھی مگر میں چپ نہیں رہا۔

    ’’میں تمہیں سنجیدگی سے کچھ سمجھانا چاہتا ہوں۔‘‘

    “OK”وہ بولی تو میں نے بات شروع کی، ’’ہم فلم بناکر جس غلیظ گالی کا تشدد اپنے تماشائی کے منہ پر مارنا چاہ رہے ہیں اور اس کے بدلے خود اپنے اندر پل رہے وائلنس کی تسکین چاہ رہے ہیں تو ایسی مقابلہ آرائی کے میدان جنگ میں صرف جارحانہ رویہ کو ہی (Cash) کرنا کیا ہماری زندگی کو اور مشکل نہیں بنا دےگا؟‘‘

    “So What”وہ مجھے گھورتے ہوئے بولی۔

    ’’کیا ہمارا پروڈیوسر، کیمرہ مین اور اسکرین پلے رائٹر جو تشدد کی اس جنگ میں برسرپیکار ہیں، گھر میں بیٹھی اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے اپنے لیے ہمدردانہ اور سکون بخش تعاون کی امید نہیں کرتے؟‘‘

    ’’کرتے ہیں۔‘‘ وہ بولی۔

    ’’تو کیا خاندان کی عورتوں اور ان سماجی رشتوں سے، جن میں دفتروں میں کام کرنے والی خواتین، جہاز کی ہوسٹس اور نرسیں وغیرہ بھی شامل ہیں، کیا ان سب سکون پسندوں کی خدمات ہمیں ایسے آرام کے لمحات نہیں مہیا کرتی ہیں جن میں ہم اپنی پرتشدد گالی کو اور زیادہ پراثر اور دھاردار بنا سکیں۔‘‘

    ’’ہاں ان کے تعاون سے ہمیں آرام کے لمحات ملتے ہیں، آگے بولو۔‘‘ وہ بولی تو میں نے کہا، ’’تو کیا ہم اپنے ان مہربانوں کو اپنی اس لوٹ کھسوٹ کا وہ حصہ دیتے ہیں جس سے ان کے تعاون کا صلہ چکایا جا سکے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو اس ناانصافی اور حق تلفی کی صورت حال میں انہیں گھسیٹ کر اس سے بھی بڑے تشدد پر اترنے کے لیے ہم انہیں آمادہ نہیں کر رہے ہیں؟‘‘

    ریتا سالومن پڑھی لکھی لڑکی تھی، ایک کامیاب جرنلسٹ تھی، اپنی عمر سے زیادہ دنیا دیکھے ہوئی ایک عورت، جس کی آنکھوں کے گرد اس کی شب بیداریوں نے سیاہ حلقے ڈال دیے تھے۔ وہ لفظوں کے انتخاب میں احتیاط برتتی۔ میری باتیں سن کر اس کے کشادہ ماتھے پر ایک کھڑا بل پڑ گیا۔ دھیرے سے بولی، ’’لگتا ہے تم بھی غلط کو ٹھیک کرنے کی بیماری پال رہے ہو۔ فلمیں یا فلم بنانے والے غلط کو ٹھیک نہیں کرتے، ٹھیک یا غلط زندگی کرتی ہے۔ فخر کرنا یا پچھتانا فلموں یا فلم بنانے والوں کا نہیں، زندگی کا کام ہے۔ ہم زندگی سے اپنی ضرورت کا سامان تو لے رہے ہیں خود زندگی پر فلم نہیں بنا رہے ہیں۔‘‘

    ریتا سالومن سے اس چھوٹی سی ملاقات کے بعد مجھے جیسے چپ سی لگ گئی۔ اب میرا دل کہہ رہا تھا کہ ہمیں ایسی جارحیت کی تلاش ہے جو ان لوگوں کی زندگی کے اندر سے نکل کر آئے جو ہماری فلموں کا موضوع ہیں۔ اس پروجیکٹ کی شب و روز کی بحثوں کو الگ رکھتے ہوئے میں نے اتنا سیکھ لیا تھا کہ اہمیت اس بات کی نہیں کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں بلکہ کہاں سے کھڑے ہوکر اور کس زاویے سے دیکھ رہے ہیں اور پھر یہ بھی کہ اپنے اس دیکھے ہوئے میں سے دوسروں کو کیا اور کتنا دکھانا چاہتے ہیں، کیونکہ جتنا فریم کے اندر ہے وہی کام کاہے باقی سب بےمعنی۔

    انہیں دنوں مجھے فلم منیجر نے بتایا کہ پروڈیوسر کے ساتھ دلتوں کی بستی میں مجھے بھی جانا ہے۔ وہاں اسپاٹ پر آرٹ ڈائرکٹر معائنہ کرنا چاہتا ہے، بعد میں معلوم ہوا کہ ریتا سالومن بھی ساتھ جا رہی ہے۔ اس موقع پر مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ سالومن جس سے ریتا کی طلاق ہو چکی تھی، دلت بستی کی ہی پیداوار تھا، جہاں تیس برس پہلے عیسائی مشنری نے اسے گود لے کر پڑھایا لکھایا تھا اور سالومن نام رکھا تھا۔

    جب ہماری جماعت گاڑیوں سے اس مقام پر پہنچی تو ہمیں لگا کہ ہمارے کسی کارندے نے ہماری آمد سے وہاں کے مکھیا کو مطلع کر دیا تھا۔ ایک درخت کے نیچے دو چارپائیاں اور نرکل کے دو چار پرانے مونڈھے وہاں کے چودھری نے ڈال رکھے تھے۔ ایک طرف ایک بیل گاڑی کھڑی تھی۔ ہم سے کچھ فاصلے پر ایک جھونپڑی سے باہر زمین پر لکڑی کا چولہا جلائے ایک عورت اپنے روزمرہ کے کام میں مصروف تھی۔ اس دن ہوا ٹھہری ہوئی تھی۔ موسم پر ایک عجیب طرح کی الکسی اور تھکن سی طاری تھی، کچھ فاصلے پر ان لوگوں کی پالی ہوئی غلاظت میں لتھڑی سورنیاں اپنے بچوں کے پیچھے پیچھے اس جھاڑ جھنکاڑ میدان کی طرف سے واپس آ رہی تھیں جسے وہ لوگ رفع حاجت کے لیے استعمال کرتے تھے۔

    کیچڑ زدہ راستے کے کنارے جھاڑیوں کی جانب ایک کشادہ گڑھا تھا جس میں برساتی پانی لبالب بھرا تھا۔ اس کے کنارے پڑے پتھروں پر دوتین کمسن لڑکیاں کپڑے دھو رہی تھیں۔ میں نے کھلے اور شفاف آسمان پر کچھ گدھوں کو منڈلاتے دیکھا۔ شاید بستی کے کسی چمارنے گاؤں کی سرحد پر کسی مردہ جانور کی کھال کچھ ہی دیر پہلے اتاری ہوگی، کبھی کبھی اگر ذرا بھی ہوا چلتی تو شمال کی جانب سرنگوں قدیم بون مل (Bone Mill) کے اوبڑ کھابڑ کمپاؤنڈ میں جانوروں کی ہڈیوں کے ڈھیر سے مل کی ادھڑی دیواروں کو پھاند کر شاید بوکا ایک تیز جھونکا آتا لیکن ہم سب نے طے کر لیا تھا کہ ہم اپنی ناکوں پر رومال نہیں رکھیں گے اور ان لوگوں میں اس طرح گھلنے ملنے کی کوششیں کریں گے جیسے ہم بھی ان میں سے ایک ہوں۔ ہم میں سے کوئی بھی کار میں نہیں بیٹھا تھا۔ ہم نے چارپائیاں اور مونڈھے سنبھال لیے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ہماری آمد پر وہاں کے مردوں اور عورتوں میں کوئی ہلچل نہیں ہوئی تھی۔ بچے بھی ایک بار موٹروں کو گھیر کر اپنی راہ ہو لیے تھے۔

    گاؤں کا مکھیا اوپر کے بدن سے ننگا تھا، سر پر انگوچھا باندھے۔ ایک کان میں پیلی دھات کی بالی پھنسی ہوئی۔ ابھی وہ ہمیں سلام کرکے کھڑا ہی ہوا تھا کہ اس کی دھوتی کی گانٹھ سے موسیقی پھوٹنے لگی، اس نے گانٹھ سے ایک موبائل نکالا۔ غالباً بون مل سے کال تھی، مجھے لگا وہاں کے کئی لوگ بون مل میں کام کرتے ہوں گے۔ مکھیا موبائل پر بات کر رہا تھا۔ اس کے سینے کی ننگی پسلیاں جنہیں گنا جا سکتا تھا اور کھلے پیٹ پر پڑے ہوئے بل، جنہیں شمار کرنا آسان تھا، بات کرنے میں اوپر نیچے ہو رہے تھے۔ اس کی پنڈلیوں کا سوکھا ہوا چمڑا اپنے بالوں سے زیادہ سیاہ پڑ چکا تھا اور ہاتھوں کی نسوں کا ابھرا ہوا جال اس کی جانگ میں متواتر ہونے والی کھجلی کو مٹانے کے کام میں مصروف ہوکر مرتعش رہتا تھا۔

    ڈائرکٹر نے سگریٹ نکالی، ڈبیا سے سگریٹ تھوڑی باہر نکال کر مکھیا کی طرف بڑھائی۔ اس نے کسی تشکر کے اظہار کے بغیر ایک سگریٹ گھسیٹ لی۔ اسے گھما پھراکر دیکھا پھر اپنے داہنے کان اور کنپٹی کے درمیان رکھ کر پھنسا لی، جب تک ہمارا آرٹ ڈائرکٹر بستی کے اندرونی حصے میں جا چکا تھا۔ وہ عورت جو آگ کے پاس مصروف تھی اور جس کے قریب ہی زمین پر ایک بچہ سو رہا تھا، بار بار میری توجہ کا مرکز بن جاتی تھی۔ وہ ادھیڑ عمر کی رہی ہوگی۔ آدھے سے زیادہ بدن اس نے کالی اوڑھنی سے چھپایا ہوا تھا، جس کی اوٹ سے اس کی تھرکتی اور بولتی آنکھیں اس کے پل پل کے متغیر محسوسات کو آن کی آن میں ایسے واضح اشاروں میں بیان کر رہی تھیں، جن کے لیے مزیدکسی بولی ہوئی زبان کی ضرورت نہ تھی۔

    ڈائرکٹر جب مکھیا سے کچھ ضروری باتیں کر چکا تو میں نے مکھیا سے کہا، ’’یار کچھ پانی وانی تو پلا دو۔‘‘ مکھیا نے چہرے پر بڑھے ہوئے شیو کو پہلے تو کھجایا، پھر ادھر دیکھنے لگا جدھر برگد کے پیڑ کے نیچے ہماری گاڑیوں کے پاس مع بیلوں کے ایک محتصر سی بیل گاڑی کھڑی تھی۔ مکھیا نے ہاتھ کے اشارے سے بلاکر پکارا، ’’دداجل لے آؤ۔‘‘

    بیل گاڑی والا ایک سینی میں اسٹیل کا جگ اور کچھ شیشے کے گلاس لے کر ہماری طرف بڑھا تو مکھیا بولا، ’’پانی برتن سب ٹھاکر گاؤں کا ہے۔‘‘ ہم سمجھ گئے کہ پڑوسی گاؤں سے یہ انتظام کیا گیا ہے۔ جب بیل گاڑی والا گلاسوں میں پانی انڈیلنے لگا تو ڈائرکٹر نے اسے روک دیا۔ گاڑی والا منھ کھولے ہمیں دیکھنے لگا۔ تب گاؤں کا ایک لڑکا جو سوکھی شاخوں کا گٹھرا اپنے کندھے پر لادے آ رہا تھا، زمین پر پٹک کر مکھیا کے قریب کھڑا ہو گیا۔ شاید وہ اس کا لڑکا تھا۔ چولہے کے قریب بیٹھی عورت کے پاس کوئی عورت سوپ میں کچھ آلو لے کر آ گئی تھی اور اپنا چہرہ چھپائے بغیر ہم کو تیکھی نظروں سے مسلسل گھور رہی تھی۔ اس کی گود میں بچہ تھا اور بےبندھی چھاتیوں سے لپٹی دھوتی پر بائیں چھاتی کی طرف تازہ گیلا داغ تھا، جیسے دودھ بہہ کر کپڑے سے چپک گیا ہو۔

    ڈائرکٹر خندہ پیشانی سے مکھیا کو دیکھ رہا تھا۔ اسے آنے والے دنوں میں ان لوگوں کا خاصہ عملی اشتراک درکار تھا۔ وہ ہنس کر بولا، ’’ہم تمہارے برتن میں پانی پئیں گے۔ اٹھاؤ وہ گلاس۔‘‘ اس نے چولہے کے قریب زمین پر لڑھکے ہوئے المونیم کے گلاس کی طرف اشارہ کیا، جدھر آگ کے پاس وہ عورت بیٹھی تھی، جو صرف آنکھیں کھولے سہمادینے والی بجلیاں چمکاکر ہمیں دیکھ لیا کرتی تھی۔ وہ آنکھیں اپنے مقابل کی نظریں جھکا دینے والی آنکھیں تھیں، لگتا تھا زندگی کے حوادث نے کوٹ کوٹ کر ان میں بصیرت بھر دی تھی۔ اس بصیرت میں ایک مقناطیسی زور اور کشش تھی۔ وہ آنکھیں اپنی دونوں بھوؤں کے زاویے کو ایک پل میں ایسے بدل کر اور پھر ہمارے وجود کو مسترد کرتے ہوئے لپلپاتی تلوار کی طرح پورے منظر کو کاٹتی ہوئی گزر جاتی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ ان نظروں کے انداز میں کہیں شکاتییں چھپی ہوئی تھیں۔ ان آنکھوں میں لوہے کی طرح سب کچھ ٹھنڈا پڑ چکا تھا، سخت ہو چکا تھا۔

    ڈائرکٹر کے گلاس مانگنے پر میں نے محسوس کیا کہ مکھیا اپنی جگہ سے نہیں ہلا، لکڑی کا گٹھر لانے والا لڑکا بھی زمین پر بیٹھا رہا۔ اتنے میں پانچ سات برس کی ا یک لڑکی ایک جھونپڑی سے نکل کر چولہے کے پاس بیٹھی عورت کی طرف بڑھی۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کی ایک تختی تھی جس پر ملتانی مٹی پوتی ہوئی تھی۔ لڑکی نے تختی عورت کے چہرے کے سامنے کر دی۔ عورت نے پڑھا، ’’کا، کھا، گھا۔۔۔‘‘ پھر بولی، ’’اور لکھ۔۔۔‘‘ لڑکی جانے لگی تو عورت کی نظر اس کے ننگے پاؤں پر پڑی تو چولہے سے جلتی لکڑی لڑکی کے پاؤں پر ماری اور چلائی، ’’چپل ڈال!‘‘ لڑکی لنگڑاتی ہوئی جھونپڑی کی طرف بھاگی۔

    ڈائرکٹر نے پھر مکھیا سے کہا، ’’وہ گلاس اٹھاؤنا۔ ہم تمہارے گلاس میں پانی پئیں گے۔‘‘ مکھیا دوپل گردن جھکائے چپ رہا پھر بولا، ’’نہیں صاحب، وہ آپ کے لیے نہیں ہے۔‘‘

    ’’بھئی ہمارا نام رام کمار شرما ضرور ہے لیکن ہم تمہارے بھائی ہیں۔ اٹھاؤ گلاس۔۔۔‘‘ مگر مکھیا یونہی گردن جھکائے کھڑا رہا، پھر دھیرے سے بولا، ’’آپ پھوٹو کب بناؤگے؟‘‘

    ’’جلدی ہی۔۔۔‘‘ ڈائرکٹر نے جواب دیا۔

    ’’پھر ٹکٹ لگاؤگے تب پھوٹو دکھاؤگے۔‘‘

    ’’ہاں۔ تمہارے لیے ٹکٹ نہیں ہوگا۔‘‘

    ’’ایک بار جھاڑا پھرتے ہمرا پھوٹو بنا تھا، چوتڑ ہمارا پورا کھلا تھا۔‘‘

    ’’اچھا اچھا۔۔۔‘‘ پھر اس نے اٹھ کر چولہے کے پاس بیٹھی عورت کو مخاطب کیا، ’’ارے وہ گلاس تو دینا۔‘‘ عورت فوراً اٹھ کر وہ گلاس ڈائرکٹر کو دے گئی وار اپنی جگہ پہنچ کر سانس روکے بےچینی سے یہ بھی دیکھتی رہی کہ ڈائرکٹر کیا کرتا ہے۔ ڈائرکٹر نے گلاس کو تھوڑے سے پانی سے اندر باہر دھویا اور پانی انڈیل کر پی لیا اور گلاس لڑکے کو دے دیا جو اسے عورت کو واپس دے آیا۔ عورت گلاس لے کر اپنے چہرے کو چھپائے بغیر پورے جسم سے تنی ہوئی ایک فاتح کی طرح ڈائرکٹر کو دیکھ رہی تھی۔

    ڈائرکٹر پانی پی کر مونڈھے پر بیٹھ گیا تھا اور دلتوں سے اپنی بھائی چارگی کے جذبے کی نمائش کرکے دل ہی دل میں خوش ہوکر مکھیا کے چہرے کو اس کے تاثرات جاننے کے لیے اسے بار بار دیکھ رہا تھا۔ آخر کو رومال سے اپنا منھ صاف کرتے ہوئے مکھیا سے بولا، ’’ہم شرما ہیں، پنڈت! تم اتنا سنکوچ کیوں کر رہے تھے گلاس دینے میں؟‘‘

    ’’وہ آپ کے پانی پینے کے لیے نہیں تھا صاحب۔‘‘

    ’’کیوں؟ تم پی سکتے ہو، تو ہم کیوں نہیں پی سکتے؟‘‘ ڈائرکٹر نے پوچھا۔

    ’’اس سے ہماری عورت سور کے بیمار بچے کو دودھ بھی پلاتی ہے۔‘‘

    یہ سن کر ڈائرکٹر سناٹے میں آ گیا۔ ہم نے چور نظروں سے ڈائرکٹر سے نظریں ملائے بغیر ایک دوسرے کو دیکھا۔ پھر یکایک میری نظر اس عورت کی طرف اٹھ گئی، جس نے ڈائرکٹر کو گلاس اٹھاکر دینے کی پیش قدمی کی تھی۔ مجھے لگا جیسے اس پیش قدمی سے ڈائرکٹر کی جانب سے ہونے والے خاطر خواہ عمل کے سبب وہ عورت کچھ ایسی مسرور اور مطمئن تھی جیسے اس کا پورا وجود کسی لمبی اذیت، اندوہناکی اور درد و داغ کو سہتے سہتے یکایک نکلنے والی ایک ایسی سسکی بن گیا تھا، جس سسکی کے نکل جانے سے روح کو کچھ ایسا آرام مل جاتا ہے جیسا دیر سے ٹھہرے ہوئے پیشاب کے نکل جانے سے ملتا ہے۔

    وہ عورت آگ کے پاس بیٹھ چکی تھی۔ اس کے چہرے کو اس بار میں آنکھیں گڑاکر دیکھتا رہا تو مجھے احساس ہوا جیسے پڑوس میں جلتی اور شعلے لپکتی لکڑیوں کی وہ آگ چپکے چپکے نہ جانے کب سے ان کے خون کی گردش اور سانسوں کے زیر و بم میں بھی جل رہی تھی۔ اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں کے ڈوروں میں بھی وہی آگ سیال بن کر رواں تھی اور اسی سیال میں ہزیمتوں، شکستوں، محرومیوں اور دل آزاریوں کا کیسا کیسا زہریلا اور فاسد خون کسی زخم خوردہ سانپ کے مانند بے قابو ہوکر دوڑتا صاف نظر آ رہا تھا۔

    پھر یہ دیکھ کر تو ہم سب ہی دم بہ خود رہ گئے کہ آگ کے پاس بیٹھی وہ عورت ڈائرکٹر کے جھوٹے کیے ہوئے المونیم کے گلاس کو لوہے کے چمٹے سے پکڑے لپکتے ہوئے شعلوں پر رکھ کر گرم کر رہی تھی اور وہ اس گلاس میں پانی پینے والے کو یوں دیکھ رہی تھی جس کے بےرحم تشدد کو دنیا کی کسی زبان کے بھی الفاظ نہیں، صرف کیمرہ ہی بیان کر سکتا تھا۔ کیا کبھی وہ ڈائرکٹر کسی موقع پر اس عورت سے ملا تھا۔ اگر ہاں تو وہ کیمرے کے فوکس سے باہر تھا۔

    اس رات ہم اپنے ٹھکانے پر آکر شراب کے گلاسوں کے ساتھ خود کو بہت مسرور محسوس کر رہے تھے۔ زندگی نے ہمیں فلم کا ایک ایسا منظر بنانے کا سامان دے دیا تھا، جس کا تشدد دور تک اپنے معنی کی روشنی دے سکے۔ ڈائرکٹر کا خیال تھا کہ یہ واقعہ اس کی فلم کا سب سے پہلا سین ہوگا جو عورت کی آنکھوں سے پھوٹتی نفرت کی چنگاریوں پر ڈزالو (Dissolve) ہوگا۔ فلم کے انجام کے لیے اب ہمیں اپنے پیشہ کو دی گئی اس سے بڑی گالی کی تلاش تھی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے