ولی محمد کی دکان کے۔ ایم۔ ڈی کے بس اڈے کی پتھریلی دیوار سے لگی ہوئی تھی۔ دکان کیا تھی جیسے مرغیوں کا دڑبہ۔ شکر ہے کہ ولی محمد ایک سوکھا مریل سا آدمی تھا جو جیسے تیسے اس دکان میں سما پاتا تھا۔ کوئی تن و توش والا آدمی ہوتا تو اس دکان کو کب کا تھوک کے نکل گیا ہوتا۔ پر ولی محمدکو اس دکان سے والہانہ حد تک لگاو تھا اسے جگہہ کی تنگی سے کبھی کوئی شکایت نہ رہی۔ وہ کمال فنکاری کے ساتھ اس دڑبے نما دکان میں نہ صرف خود بیٹھتا تھا بلکہ اس میں اپنا مال بھی کھپا تا تھا۔ ولی محمد پیشے سے سبزی فروش تھا۔ پہلے وہ ہر طرح کی سبزیاں بیچا کرتا تھا البتہ پچھلے کئی سالوں سے اس نے دیگر سبزیوں سے ناتہ توڑ کے خالی ندرو (کمل ککڑی کو کشمیری میں ندرو کہتے ہیں) بیچنے شروع کئے تھے۔ ندرو کے لئے اُس کی دکان بڑی مشہور تھی۔ کہاں کہا ں سے گاہک آکر اس کی دکان سے ندرو خرید کر لے جاتے تھے۔ وہ یہ ندرو ہر روز نگین جھیل سے نکال کر لاتا تھا۔ پھر وہ چھوٹے بڑے ندروملا کر ان کی چھوٹی چھوٹی گٹھڑیاں بناتا تھا۔ ایک گٹھے میں دس بارہ ندرو ہوتے تھے۔ اندربڑی ہنر مندی کے ساتھ پتلے والے رکھ دئے جاتے تھے اور باہر موٹے سائز کے ندرو۔ قیمت بھی بڑی معقول ہوا کرتی تھی۔ ایک گٹھڑی دس سے بارہ روپئے میں مل جاتی تھی۔ شام ہوتے ہوتے ولی محمد کی بھری پری دکان ایک دم خالی ہو جاتی تھی۔
ولی محمد کے گراہک بندھے ہوئے تھے۔ اس کے گاہکوں میں سب سے زیادہ تعداد کشمیری پنڈتوں کی تھی جو اوروں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ندرو خرید کر لے جایا کرتے تھے۔ شیو راتری کے موقع پر تو ولی محمد کے پو بارہ ہو جایا کرتے تھے۔ اس کی دکان پر صبح سے ہی خریداروں کا تانتا لگا رہتا تھا۔ وہ سال بھر شیو راتری کی تقریب کا انتظار کرتا رہتا تھا، اس مبارک دن پر اُس کی دکان کی رونق ہی کچھ الگ ہوا کرتی تھی۔ ایک طرف ندرو اور دوسری طرف کمل کے پھول جنہیں کشمیری زبان میں پمپوش کہا جاتا ہے اس کی دکان کی زینت بڑھاتے تھے۔ شیو راتری کی پوجا میں شیو بھگت پمپوش کی پنکھڑیاں شیو جی کی مورتی پر چڑھاتے تھے۔ ولی محمد مالی لحاظ سے اگر چہ کافی کمزور تھا مگراس کا دل کسی راجے مہاراجے کے دل سے کچھ کم نہ تھا۔ دیگر دکاندار دھیلا دمڑی تک چھوڑنے پر راضی نہ ہوتے تھے ایک وہ تھا کہ شیو راتری کے موقع پر یہ پھول اپنے پنڈت گراہکوں میں مفت میں بانٹتا تھا جب کہ وہ یہ پمپوش خود خرید کر لاتا تھا۔ اگر کوئی اسے ان پھولوں کے عوض پیسے دے جاتا تو وہ ہتھے سے اکھڑ جاتا تھا۔ اُس کا دل سچے معنوں میں بہت وشال تھا۔ وہ فراخ دل ہونے کے ساتھ ساتھ بڑا ہی خوش خلق اور مذاقیہ آدمی تھا۔ اس کی کسی کے ساتھ بھی بنتی تھی۔ وہ چاہئے ملا ہو یا موالی، چور ہو یا سپاہی وہ ہر ایک کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آتا تھا۔ اس کا قول تھا زبان شیرین ملک گیری، زبان ٹیڑھی ملک بانکا۔ یعنی نرم زبان سے کوئی بھی کام بن سکتا ہے جب کہ تلخ کلامی سے سب دشمن بن جاتے ہیں۔ شاید یہ اسی نرم گفتاری کا ثمر تھا کہ اُس کی دکان میں مال کبھی پڑا نہیں رہتا تھا بلکہ ہاتھوں ہاتھ نکل جاتا تھا۔ گراہک بھی مال کو لے کر کبھی سوال نہیں کرتے تھے۔ وہ جو بھی دے دیتا تھا وہ اسے تبرک سمجھ کر لے جاتے تھے۔ اس کی شرافت اور خوش اخلاقی کا کچھ لوگ غلط فائدہ بھی اٹھاتے تھے۔ دوکان پر جو بھی ایرا غیرا نتھو خیر آ جاتا تھا، ولی محمد اسے سر آنکھوں پر بٹھاتا تھا۔ کوئی اُدھار میں چار چھ گٹھڑیاں ندرو کے لے جاتا اور اگلے دن پیسے دینے کا وعدہ کرکے ایسے چمپت ہو جاتا تھا کہ پھر ولی محمد کو دوبارہ اس کی صورت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ کتنے ہی لوگ اسے چونا لگا کر گئے تھے لیکن وہ بھی نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ اپنی خو بو بدلنے کے لئے تیار نہ تھا۔ وہ تو توکل والا آدمی تھا۔ اسے آدمی سے زیادہ اپنے مولا پر بھروسہ تھااور اس کا یہ بھروسہ اتنا اٹل اور مستحکم تھا کہ وہ جتنا بھی کماتا تھا اس میں اتنی برکت ہوتی تھی کہ کبھی اسے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔
ولی محمد کو ایک بھرے پرے کنبے کی کفالت کرنا پڑتی تھی۔ اس کے چھ بچے تھے۔ جن میں چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں۔ ایک بوڑھی ماں تھی رحت دید جو اس قدر ضعیف تھی کہ ہر ہفتے اس کا دوا دارو کرانا پڑتا تھا۔ اتنی عمر رسیدہ ہونے کے باوجود اس کی ترش روئی میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ وہ آج بھی اپنی بہوسارہ کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی رہتی تھی۔ رات کو ولی محمد گھر میں پاؤں دھرتے ہی شکوہ شکایتوں کی ذد میں آ جاتا تھا۔ ایک طرف ماں اور دوسری طرف بیوی۔ وہ کس کی سنے اور کس کی نہ سنے اس کے لئے صورت حال بڑی سنگین اور پریشان کن ہو جایا کرتی تھی۔ بیوی کی طرفداری کرے تو ماں خفا۔ ماں کی حمایت کرے تو بیوی نالان۔ ایسے حالات سے نپٹنے کا اُسنے آسان سا توڑ نکال کے رکھا تھا کہ وہ ایک کان بہرا اور ایک گونگا کر لیتا تھا۔ اسطرح وہ دونوں اطراف کے عتاب سے بچ جاتا تھا۔
روز روز کی اس چخ چخ کا وہ عادی ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس طرح کی نوک جھونک توہر گھر میں چلتی ہی رہتی ہے۔ وہ ان باتوں کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا وہ اگر فکر مند تھا تو اپنے بڑے بیٹے بشیر احمدکو لے کے جو کہ سن بلوغت کو پہنچ چکا تھا مگر حرکتیں بچوں جیسی کرتا تھا۔ اسے پڑھائی لکھائی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
کھیل کود سے اسے کوئی رغبت نہ تھی۔ گھر کے معاملات سے اسے کوئی سروکار تھا ہی نہیں۔ وہ بیشتر اوقات یوں چپ سادھے بیٹھا رہتا تھا جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھ لیا ہو ولی محمد تو یہ آس لگا کے بیٹھا تھا کہ بیٹا جوان ہو گیا ہے۔ اب وہ اس کا ہاتھ بٹا کر اس کی زندگی کی کٹھنائیوں کو کچھ آسان کر دےگا۔ اس کا سہارا بن کر اسے راحت پہنچائےگا پر وہ تو خود ہی محتاج ہو کے جی رہا تھا، ایسے میں وہ کسی اور کا کیا سہارا بنتا۔ اس کی حالت دیکھ کر اس کے ماں باپ من مسوس کر رہ جاتے تھے۔
ایک دن ولی محمد بشیر کو لے کر صورہ میڈیکل انسٹیوٹ میں چلا گیا۔ وہاں پر اس کے ہر طرح کے ٹیسٹ ہوئے۔ ڈاکٹروں کو کوئی جسمانی بیماری دکھائی نہیں دی اس لئے انہوں نے اسے چست درست قرار دیا۔ ولی محمد بڑا اداس اور دلگیر ہو گیا۔ اس نے سوچا تھا کہ ڈاکٹر اس کی بیماری کی تشخیص کر پائیں گے مگر انہوں نے تو جوابہی دے دیا۔ وہ اسے گھر لے آیا اور ماں کے بغل میں بیٹھ کر بچے کی طرح رونے لگا۔ ماں نے اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سمجھاتے ہوئے بولی۔
”تم جو ان ڈاکدروں کے آگے پیچھے گھوما کرتے ہو یہ وقت کے زیاں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ارے بیٹا یہ موئے ڈاکدر کھانسی زکام کا ڈھنگ سے علاج نہیں کر پاتے ہیں یہ تمہارے پوت کا کیا علاج کر پائیں گے۔ ویسے بھی تمہارے جائے کا علاج ڈاکدر کے پاس نہیں بلکہ کسی صاحب کمال کے پاس ہے۔ تم مانو یا نہ مانو اس بچے پر کسی بدروح کا سایہ پڑا ہے۔ اسے کوئی پیر فقیر ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔ جاو کسی پیر فقیر کو ڈھونڈو۔ اسے گر پڑ کر منا لو۔ وہی تمہاری مشکل آسان کر دےگا۔“ سارہ، جسے اپنی ساس رحت دید ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔ جو سانجھ سویرے اسے کو ستی رہتی تھی پہلی مرتبہ اس نے ساس کی بات سے اتفاق کیا۔ آج اس کے بچے کا سوال تھا اس لئے اسے اپنی ساس کی رائے سے صاد کرنا پڑا۔ ولی محمد کو ماں کی بات میں کافی وزن نظر آیا پر اس نے بیوی کے سامنے ماں کی تعریف نہ کی کہ کہیں سارہ خفا نہ ہو جائے۔ اس نے سوچا کہ اسے ڈاکٹروں کی آس چھوڑ کر کسی ملنگ کی تلاش میں نکل جانا چاہئے۔ وہی اس کی مشکل آسان کر سکتا ہے۔ اُس نے ماں سے وعدہ کیا کہ وہ آج سے ہی کسی فقیر کا پتا لگا نے کی کوشش کرےگا۔
اسبکی دکان پر بھانت بھانت کے لوگ آیا جایا کرتے تھے۔ وہ سب کے ساتھ یارانہ بنا کے رکھتا تھا۔ اس کا یہ ماننا تھا کہ زندگی میں کب کس کی ضرورت پڑ جائے کسے معلوم اس لئے سب کے ساتھ بنا کے رکھنے میں کیا برائی ہے۔ اُسکی اس دوستانہ پالیسی کے سبب وہ ہمیشہ ہر الا بلا سے بچا رہا۔ ایک دن وہ دکان پر کافی اداس و ملول ہوکے بیٹھا تھا کہ اس کا برسوں پرانا دوست جانکی ناتھ سر پر پیلے رنگ کا صافہ باندھے اور ماتھے پر چندن کا ٹیکہ لگائے اس کی دکان پر آکے رکا۔ اس کے چہرے سے نور برس رہا تھا۔ جانکی ناتھ سے اس کا رشتہ بڑا گہرا اور جذباتی تھا۔ جانکی ناتھ حبہ کدل کا رہنے والا تھا۔ سات سال قبل وہ محکمہ تعلیم میں ایک اچھے عہدے پہ طعینات تھا۔ اب وہ ریٹائر منٹ کی زندگی گذار رہا تھا۔ وہ بڑا نیک اور پرہیزگار آدمی تھا۔ کچھ لوگوں کا ماننا تھا کہ وہ بہت پہنچا ہوا آدمی ہے پر ولی محمد کے لئے وہ اس کا دل و جگر تھا۔ ہر صبح شام وہ حبہ کدل سے پیدل چل کر شنکر آچاریہ کے مندر میں جاتا تھا اور وہاں پوجا ارچنا کرنے کے بعد جب گھر لوٹتا تھا تو تھوڑی دیر کے لئے ولی محمد کی دکان پر رک جاتا تھا۔ دونوں دوست بیٹھ کر ڈھیر ساری باتیں کرتے۔ ایک دوسرے کے گھر کے حالات معلوم کرتے اور پھر جانکی ناتھ اپنی راہ ہو لیتا تھا۔ وہ گھر گرہستی والا آدمی تھا۔ ایک بیٹا امریکہ میں بہت بڑے عہدے پرکام کر رہا تھا۔ گھر میں روپیے پیسے کی کوئی کمی نہ تھی، پھر بھی جانکی ناتھ اتنی سادگی اور انکساری کے ساتھ زندگی گذار رہا تھا کہ لوگ دیکھ کردنگ رہ جاتے تھے۔ وہ کار میں نہیں گھومتا تھا جب کہ کار گھر میں بےکار پڑی رہتی تھی۔ وہ پیدل چلنا ہی پسند کرتا تھا۔ اس میں نام کا بھی تکبر نہ تھا۔ بڑے تو بڑے وہ بچوں کے ساتھ بھی جھک کر بات کرتا تھا۔ ولی محمد کی دکان پر بیٹھ کر وہ ایک دم بچہ بن جاتا تھا اور دونوں دوست دل کھول کر ہنسی ٹھٹھا کرتے رہتے تھے۔
اس دن جب وہ شنکر آچاریہ کے مندر سے واپس لوٹ رہا تھا تو حسبِ عادت وہ ولی محمد کی دوکان کے پاس رک گیا۔ ولی محمد کو پہلی بار اس نے فکر و تردد میں ڈوبا ہوا پایا۔ وہ اسے اس حالت میں دیکھ کر چونک پڑا۔ اپنی کملی میں مست رہنے والا آدمی آج اتنا اداس اور آشفتہ کیوں تھا اس بات نے جانکی ناتھ کو تذبذب میں ڈال دیا۔ وہ ولی محمد کے پہلو میں بیٹھ گیا اور اس نے اپنائیت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔
”کیا بات ہے ولی محمدا۔ یہ کس کے فراق میں تم ساون بھادون بن کے بیٹھے ہو۔ کہیں گھر میں آگ لگا کر تو نہیں آئے ہو؟“
جواب میں ولی محمد کی آنکھیں بھیگ گئیں اور وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”آگ گھر میں نہیں میرے نصیب میں لگی ہوئی ہے۔ کیا بتاؤں۔ میرا بڑا بیٹا اٹھارہ انیس سال کا ہو گیا ہے لیکن ابھی بھی بچوں جیسی حرکتیں کرتا ہے۔ اسے گھر کے کسی بھی معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ جب دیکھو چپ سادھے کسی کونے میں پڑا دیواروں کو تاکتا رہتا ہے۔ نہ کسی سے بولتا ہے اور نہ ہی اپنا من کھولتا ہے۔ میں اسے صورہ میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں بھی لے کے گیا تھا ڈاکٹروں کو دکھانے کے لئے۔ وہاں ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ تو کیا مگر بیماری ان کی پکڑ میں نہ آ سکی۔ اپنی ناکامی
چھپانے کے لئے انہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ اسے کوئی بیماری ہے ہی نہیں اس لئے اسے ابھی گھر لے کے جاو۔ میں ان کے اس جواب سے بڑا مایوس اور آزردہ ہوا اور بادل نخواستہ بچے کو گھر لے آیا۔“
”ارے کمبخت تم نے آج تک مجھ سے اس بات کا کبھی زکر کیوں نہیں کیا۔ مجھے یہ بات بتانے سے تمہاری ناک کٹ جاتی کیا۔ خیر یہ بتاو پھر کیا کیا تم نے؟“
”کیا کرتا میں۔ گھر پہنچ کے اپنی پھوٹی قسمت کو رونے لگا میں۔ میری ماں بڑی جہاندیدہ عورت ہے۔ اس نے اپنی نوے سالہ زندگی میں بڑے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ اس نے پہلے مجھے تسلی دی اور پھر مجھے سمجھا کے کہا کہ بیٹا اس کا علاج کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں بلکہ کسی پیر فقیر کے پاس ہے۔ اب اسی ادھیڑ بن میں ہوں کہ ایسے پیر فقیر کو کہاں سے ڈھونڈوں۔ یہ جتنے بھی پیر فقیر ادھر ادھر گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں، وہ چاہے خرقہ پوش ہوں یا وہ بھگوے رنگ کا پوشاک پہننے والے یہ سب کے سب ڈھونگی ہیں۔ اپنے منہ میاں مٹھو بن کر یہ بھولے بھالے لوگوں کو ٹھگتے رہتے ہیں۔ وہ زمانہ اور تھا جب اس وادی کو ریشیوں کی پھلواری کہا جاتا تھا۔ ایکطرف میرک صاحب جیسا پیر قلندر تھا قور دوسری طرف نندہ لال جیسا ملنگ جو سر پرفرہنگیوں والی ہیٹ پہنے دن بھر ڈنڈے بجاتا پھرتا تھاپر جس کے سر پر ہاتھ پھیرتا تھا اس کا طالع چمک اٹھتا تھا۔ وہ دونوں قلندر اس دنیا سے رخصت کیا ہوئے، یہ وادی جیسے روحانی سایے سے محروم ہو گئی۔ اب تم ہی بتاو میں کیا کروں، میں کس کے پاس اپنی فریاد لے کے جاؤں؟“ ”صوفی سنتوں کی یہ دھرتی روحانیت کے حساب سے ہمیشہ گل و گلزار بنی رہے گی، بس ایسے لوگوں کو پہچاننے والی نظر چاہئے۔ آج بھی یہاں ایسے کتنے ہی پیر پارساہیں ولی محمدا جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ انہیں دنیا داری کا کوئی موہ نہیں۔ وہ تو ہر پل مراقبے میں رہتے ہیں۔ جو اپنی پوجا پرارتھنا کی نمائش کرتا ہے وہ سنت نہیں سودا گر ہے۔ جو عبادت کو کاروبار بناتا ہے۔ جو معجزوں کا دعوی کرتا ہے اور جو اپنی روحانی طاقت کی تشہیر کرتا ہے وہ سچاپیر نہیں ہے بلکہ ڈھونگی ہے۔ فراڑ ہے۔ تم سمجھ رہے ہو نا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟“
”میں تو سمجھ رہا ہوں پر تم میری پرابلم کو سمجھ نہیں پا رہے ہو جان کاکا۔“ وہ قدرے چڑ کر بولا”مجھے جلدی سے کسی فقیر سے ملا دو، اگر کوئی تمہاری نظر میں ہے۔“
”گرم مت کھاو۔ گرم کھانے سے منہ جل جاتا ہے۔ کسی بھی کام میں عجلت اور اُتاولا پن نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔“ جانکی ناتھ اپنا صافہ ٹھیک کرتے ہوئے بولا۔ ”مجھے دو ایک دن کی مہلت دو۔ میں کسی نہ کسی پیر فقیر کو گھیر گھار کر تمہارے گھر لے آوں گا مگر کسی کو گھر میں بلانے سے پہلے میں تمہارے لڑکے سے ایک بار ملنا چاہتا ہوں اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو۔“
”ارے مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے بھلا۔ میں تو کہتا ہوں کہ ملنا ہے تو آج ہی مل لو نا۔ دانا لوگ کہہ گئے ہیں جو کل کرے سو آج کر“
”آج مجھے کہیں اور جانا ہے۔ کل صبح مل لیتا ہوں۔ تم صبح گھر پر ہی رہنا کہیں ادھر ادھر مت کھسک جاناتمہارے پاؤں زمین پر ٹھہرتے نہیں ہیں نا اسی لئے کہہ رہا ہوں۔“
”تم پہلی بار میرے گھر پہ آ رہے ہو کیا۔؟ میں نہیں رہوں گا تو کیا ہوا، سارہ اور اماں گھر پر ہے نا۔ ویسے ایک بات کہوں۔ اماں کب سے بھرائے ہوئے بیٹھی ہے۔ اس بار اتنے دن بعد اماں سے ملنے جا رہے ہو تو اماں سے تمہیں خوب کھری کھوٹی سننے کو ملےگی“
”اماں کی ڈانٹ کا مزہ ہی کچھ الگ ہوتا ہے۔ اس کی ڈانٹ پھٹکار میں بھی پیار ہی چھلکتا ہے۔“ کہکر وہ ہنسا اور پھر اٹھ کے چلا گیا۔ ولی محمد اپنی ہی سوچ میں غوطہ زن رہا۔
اگلے روز جانکی ناتھ حسبِ وعدہ ولی محمد کے گھرٹھنڈے ٹھنڈے ہی پہنچ گیا۔ گھر میں ولی محمداور سارہ چشم براہ کھڑے تھے۔ رسمی علیک سلیک کے بعد اس نے سارہ کے ہاتھ کی بنی گرم گرم نمکین چائے پی لی پھر وہ اٹھ کر اس کمرے میں چلا گیا جہاں بشیر چپ کی مورت بنا بیٹھا تھا۔ جانکی ناتھ کچھ دیر تک بشیر کو یک ٹک دیکھتا رہا اور اس کے بعد اُس نے ولی محمد اور سارہ کو باہر جانے کے لئے کہا اور خود وہ بشیر کے ساتھ کمرہ اندر سے بند کرکے بیٹھا رہا۔ سارہ اور ولی محمد دروازے کے باہر بت بنے کھڑے ایک دوسرے کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ من میں طرح طرح کے سوال اٹھ رہے تھے۔ آخر وہ اندر بیٹھ کربچے کوکیا پٹی پڑھا رہا ہے۔ کہیں وہ بشیر کو مارپیٹ تو نہیں رہا ہے۔ اس طرح کے سوال ایک ماں کے من میں اُٹھنا ایک فطری رد عمل تھا۔ ولی محمد بھی تذبذب کے عالم میں کھڑا تھا۔
اندرجس قدرخموشی چھائی ہوئی تھی۔ اس سے کہیں زیادہ سناٹا باہر طاری تھا۔ سارہ کے دل میں تو ہول اٹھنے لگا تھا جب کہ ولی محمد کے من میں طرح طرح کے وسوسے اٹھ رہے تھے۔ یہ سلسلہ آدھے گھنٹے تک جاری رہا۔ آدھے گھنٹے کے بعد جانکی ناتھ دروازہ کھول کے باہر آیا اور اُس نے مسکرا کے ولی محمد سے کہا۔
”بشیرا کو کچھ نہیں ہوا ہے۔ وہ تو بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہم دونوں چاچا بھتیجے اندر بیٹھ کر سکھ دکھ کی باتیں کر رہے تھے۔ کیا ہے کہ تم نے اپنے بچے کو بیمار کہہ کہہ کے سچ میں بیمار بنا ڈالا۔ تم کو جو بھی ملتا ہے، تم اس کے سامنے یہی رونا لے کر بیٹھ جاتے ہو کہ تمہارا بیٹا بیمار ہے، لاچار ہے، کچھ کرتا دھرتا نہیں، بس چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ تمہاری انہی بے تکی باتوں نے اسے سچ مچ بیمار بنا ڈالا۔ پہلی بار اُس نے میرے سامنے اپنے من کے کواڑ کھول دئے ہیں۔ یہ دیکھو وہ کس طرح بیٹھ کے رو رہا ہے۔“
”رو رہا ہے“ سارہ فرطِ جذبات میں اپنے بچے کی طرف بھاگی اور اس کا سر اپنی بانہوں میں لے کر اسے سینے سے لگا کر اسے چومتے ہوئے رونے لگی اور ساتھ ہی وہجانکی نا تھ کو کھا جانے والی نظروں سے گھورنے لگی۔ ولی محمد کا من جانکی ناتھ کی باتیں سن کراور کھٹا ہو گیا۔ وہ تویہ آس اُمید لے کے بیٹھا تھا کہ جانکی ناتھ اُس کے لئے کسی پیر فقیر کو لے کر آئےگا۔ پیر فقیر کو بھول کر وہ خود ہی ناصح بن بیٹھا اور انہیں درس دینے لگا۔ وہ کچھ نہیں بولا۔ چپ چاپ کھڑے رہ کر جانکی ناتھ کے جانے کا انتظار کرنے لگا۔ وہ جب چلا گیا تو وہ دروازے پر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔
کئی ہفتے بیت گئے۔ جانکی ناتھ اس کی دکان پر نہیں آیا اور نہ ہی اس نے اس سے ملنے کی ضرورت محسوس کی۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اس سے منہ چھپائے کیوں پھر رہا ہے۔ شاید اسے کوئی پیر فقیر ملا نہیں ہوگا اس لئے وہ اُس سے ملنے سے گریز کر رہا ہوگا۔ اسی بیچ ایک دن معجزہ ہو گیا۔ ولی محمد دکان پر بیٹھا ایک گاہک کے ساتھ لین دین میں مشغول تھا کہ بشیر سر پر ندرو کا ایک بڑا سا گٹھا اٹھائے دکان پر آ گیا۔ بشیر کو دیکھ کر ولی محمد دکان سے ایسے اچھلا جیسے کسی نے اس کے نیچے جلتا ہوا توا رکھ دیا ہو۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے پہلے بشیر کو دیکھنے لگا اور پھر اس کی آنکھوں سے مارے خوشی کے آنسوں کی جھڑی لگ گئی۔ اس نے بشیر کو سینے سے لگا لیا اور پھر وہ پھوٹ پھوٹ کے رو دیا بشیر جامد و ساکت کھڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر اس کا باپ اس طرح رو کیوں رہا ہے۔
بشیر کے اس طرح ٹھیک ہوتے ہی ولی محمد کو جانکی ناتھ کی یاد آ گئی۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ چمتکار کس کی بدولت ہوا ہے۔ وہ اس کے گھر حبہ کدل چلا گیا تو پتا چلا کہ وہ اپنے بیٹے سے ملنے امریکہ چلا گیا ہے اور اگلے مہینے وہ وطن واپس لوٹےگا۔ وہ اداس ہوکے گھر لوٹا۔ گھر میں وہ سارہ کے ساتھ جانکی ناتھ کے بارے میں بہت دیر تک باتیں کرنے لگا۔ وہ جانکی ناتھ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا تھا۔ اُس نے سارہ سے کہا کہ جب جانکی ناتھ امریکہ سے لوٹے گا تو وہ اُس کے گھر پر ڈالی لے کر جائے گا۔ اسی بیچ کشمیر کے حالات اچانک بگڑنے لگے۔ حد تو تب ہو گئی جب کہ کشمیر کے ایک نامی ریٹائرڈ پنڈت جج کو دن دھاڑے گولی مار کر ڈھیر کر دیا گیا۔ اقلیتی فرقے میں کھلبلی مچ گئی۔ ہجرت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پتا چلا کہ جانکی ناتھ کے گھر والے بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کرجموں بھاگ گئے ہیں۔ ولی محمد روز جانکی ناتھ کے گھر پر جاتا۔ وہاں دروازے پر بڑا سا قفل لگے دیکھ کر اس کا کلیجہ منہ کو آ جاتا تھا اور وہ جہلم کے کنارے بیٹھ کر آٹھ آٹھ آنسو بہانے لگتا تھا۔
مہینے بیت گئے۔ سال گذرتے گئے۔ کشمیر کے حالات روز بہ روز بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ ایک دن ولی محمد کے سر پر اس وقت کھڑے کھڑے بجلی گری جب سارہ اچانک دھڑام سے گری اور گرتے ہی اُسکی زبان بند ہو گئی۔ ولی محمد کو جانکی ناتھ کی یاد شدت سے آنے لگی۔ وہ اس مشکل وقت میں اکیلا پڑ گیا تھا۔ وہ جانکی ناتھ کی روحانی طاقت کا قائل ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سارہ کی زبان پر پڑا تالا وہی کھول سکتا ہے۔ رحت دید اس کے سر پڑ گئی کہ وہ جموں جاکر اس کی کھوج کرے۔ وہ اگر مل گیا تو اس کی بکھری ہوئی زندگی ایک بار پھر سے سنور سکتی ہے۔ اُسکے گھر کا سکھ چین پھر سے لوٹ کر آ سکتا ہے۔
ولی محمد نے بلآخر جموں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ ایک دن صبح تڑکے اٹھا، نگین جھیل سے چنی ہوئی ندرو کی ککڑیاں نکال کر لے آیا اور پھربڑے سلیقے سے اس نے انہیں ایک گھٹڑی میں باندھا اور پھر وہ یہ تحفہ لے کر جموں کے لئے روانہ ہو گیا۔ رات کو وہ جموں پہنچا تو اسے بس اڈے پر ایک کشمیری پنڈت ملا جو اس کا پرانا گاہک تھا اس نے اسے پہلی ہی نظر میں پہچان لیا۔ وہ دونوں فرطِ جذبات سے گلے مل کر رونے لگے۔ رو دھو کے وہ اسے اپنے ساتھ اپنے ڈیرے پر لے آیا۔
اگلے روز وہ جانکی ناتھ کی تلاش میں نکلے۔ پتا چلا کہ وہ روپ نگر میں کسی مکان میں رہتا ہے۔ دن بھر کی کڑی محنت آخر رنگ لائی۔ انہیں جانکی ناتھ کا مکان مل گیا۔ وہ جب گھر کے اندر داخل ہوا تو گھر والوں نے اسے فوراََ پہچان لیا اور وہ اُسے دیکھ کر سبکنے لگے۔ ولی محمد کا جی بیٹھا جانے لگا۔ اس نے دھڑکتے دل سے پوچھا۔ ”میرا یار خیریت سے ہے نا؟“
جانکی ناتھ کی بیوی اسے دوسرے کمرے میں لے گئی جہاں جانکی ناتھ بستر پر مردے کی طرح پڑا تھا۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا اور وہ ایک زندہ لاش کی طرح مہینوں سے بستر پر دراز پڑا تھا۔ ولی محمد دھم سے اس کے پلنگ کے پاس بیٹھ گیا اور پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلک بلک کر رونے لگا۔ اسے روتے دیکھ کر اس کی بیوی بھی رونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر میں کہرام مچ گیا۔ اچانک ولی محمد نے کیا دیکھا کہ جانکی ناتھ کے بے جان جسم میں حرکت ہونے لگی۔ وہ ولی محمد سے کچھ کہنا چاہتا تھا۔ آخر کافی جدو جہد کے بعد اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ولی محمد سے پوچھا۔ ”خالی ہاتھ آئے ہو۔ ندرو نہیں لائے ہو کیا؟“
ولی محمد سرعت سے اٹھا اور بھاگ کر باہر پڑی اپنی تھیلی لے کے آیا۔ اس نے ندرو کی گھٹڑی اس میں سے نکالی اور پھر وہ گھٹڑی جانکی ناتھ کی چھاتی پر رکھدی۔ جانکی ناتھ کے بے جان ہاتھوں میں نہ جانے کہاں سے اتنی طاقت آ گئی کہ اُ سنے اس گھٹڑی کو اپنی بانہوں میں اس طرح بھر لیا جیسے کوئی کھویا ہوا بچہ برسوں بعد اپنی ماں کے سینے سے لگا ہو۔ ولی محمد اس درد کو سہہ نہیں سکا۔ وہ دہاڑیں دہاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ جانکی ناتھ کی آنکھوں سے بھی ساون بھادون کی جھڑی لگ گئی تھی۔ اسے لگا جیسے وہ اپنی ماں کی آغوش میں بیٹھا رو رہا ہو۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.