آئینہ
چارپائی پر لیٹا بوڑھا وجود ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔ زور زور سے کھانستے ہوئے جیسے اس کے انجر پنجر سب ہلنے لگے۔ منہ سے لعاب بہ رہی تھی۔ کہنیوں کی مدد سے وہ اٹھ گئیں۔ میلا کچیلا لحاف اپنے اوپر سے ہٹایا اور قمیض کے دامن سے رال صاف کرنے لگی۔ اتنی مشقت کے بعد ہاتھ تھر تھر کانپ رہے تھے۔ وہ جس کمرے میں لیٹی ہوئی تھیں، وہ کمرہ ان کی معاشی صورت حال کا واضح آئینہ تھا۔ ایک کونے میں چارپائی رکھی گئی تھی۔ دوسرے کونے میں چولہا رکھا تھا، جس کے ساتھ لکڑی کا ایک ٹکڑا رکھ دیا گیا تھا۔ لکڑی کے ٹکڑے کو شیلف کی شکل دینے کے لئے اس کے نیچے دو اینٹیں رکھی گئی تھیں۔ چارپائی کے عین سامنے دیوار پر آئینہ لگا ہوا تھا۔ جگہ جگہ سے کھرچا ہوا، جس میں عکس بھی کافی غور کرنے کے بعد واضح ہوتا تھا۔ ایک جانب دیوار پر کیلیں ٹھونک کر کپڑے لٹکائے گئے تھے۔ کپڑوں کے عین نیچے لکڑی کا ایک پرانا صندوق رکھا ہوا تھا جس کا تالہ کب کا ٹوٹ چکا تھا۔ عورت کھانستے کھانستے تھک کر واپس لیٹ گئیں۔ دھویں کی مانند اسکے منہ سے سانسیں نکل رہی تھیں۔ ہانپتے ہوئے اس نے پوری آنکھیں کھول رکھیں۔اتنے میں باہر چھوٹے سے برآمدے کے کونے پر بنے ہوئے غسل خانے کا دروازہ کھلا اور اندر سے ایک لڑکی نکلی۔ وہ چادر کے پلو سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے اسی کمرے کی جانب آ رہی تھی۔ بوڑھی عورت نے تھوڑا سر اٹھاکر اسے دیکھنے کی کوشش کیں۔ وہ اندر کمرے میں آکر سیدھے آئینے کی جانب بڑھی۔ سرخ و سپید رنگت کے ساتھ لمبے بال پشت پر بکھرائے وہ ایک دلکش نقوش والی لڑکی تھی۔ اس نے جارجٹ کا سرخ رنگ جوڑا پہن رکھا تھا۔
سرخ رنگ میں وہ گلا ب لگ رہی تھی۔ وہ گلاب جو اپنے آخری ایام گزارنے کے بعد یا بکھر جاتا ہے یا رنگ بدل کر سوکھ جاتا ہے۔
پلنگ پر لیٹی بوڑھی عورت کی نظریں اس کے کپڑوں سے پھسلتے ہوئے اس کے چہرے تک گئیں۔ جب کہ وہ لڑکی اس عورت سے بے نیاز دکھائی دے رہی تھی۔ آئینے میں ایک نظر دیکھنے کے بعد وہ گنگناتے ہوئے واپس آئی اور خستہ حال صندوق کی طرف بڑھی۔ صندوق کا ڈھکنا کھول کر اس نے اندر سے ایک پرانا پرس نکالا اور واپس آئینے کی جانب بڑھی۔ اب وہ آئینے میں دیکھتے ہوئے کاجل لگا رہی تھی۔پھر اس نے خوشبو چھڑکی۔ سیلن ذدہ کمرے میں دھیمی سی مہک پھیلی۔
’’یہ خوشبو کہاں سے آئی؟‘‘
چارپائی پر لیٹی بوڑھی عورت کی نحیف سی آواز گونجی۔
’’بتایا تو تھا آپ کو یہ سب سامان ہماری با جی نے لے کر دیا ہے، وہ جہاں میں کپڑے سینے جاتی ہوں۔ کہ رہی تھی صاف ستھری ہو کے آنا۔ تم لیٹی رہو، زیادہ بولو گی تو کھانسنے لگوگی۔ آج آتے ہوئے تمہاری کھانسی کے لئے دوا لے کر آؤں گی۔‘‘
کہتے ساتھ ہی اس نے کیل پر لٹکے کپڑوں کے ساتھ لٹکا ہوا نفیس پرس اٹھایا اور باہر نکل گئی۔پیچھے چارپائی پر لیٹے وجود کی آنکھوں میں جھانکو تو قیامت لرزاں تھی۔ پلکوں کے پار سے ایک پرانا منظر دھیرے دھیرے آنکھوں کے راستے باہر نکلا اور جھریوں زدہ چہرے پر بہ گیا۔ سچ ہے کہ اپنی بوئی فصل کاٹنے کا وقت آسان نہیں ہوتا۔
وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے ابا بچپن میں چلے گئے اور پیچھے رہ گئی اماں!
ابا کے جانے کے بعد اس کی ماں نے اسے پالا۔ دو ستونوں پر کھڑی چھت کے نیچے سے ایک ستون گر جائے تو عمارت کا وزن ایک ستون کے اوپر آتا ہے۔ اس کی ماں نے ہر طرح کا وزن اٹھائے رکھا لیکن چھت کو گرنے نہ دیا۔ پھر اس کو پال پوس کر بڑا کیا گیا اگرچہ وہ اس پالنے سے حد درجہ نالاں نظر آتی تھی۔ اولاد بھی بڑی نا شکری قوم ہوتی ہے۔ باپ کے سخت ہاتھ اور ماں کی لڑ کھڑاتی سانسیں دیکھ کر بھی راضی نہیں ہوتی۔
تو اس کی اماں کا واحد ذریعہ معاش اچار تھا۔ گھر میں ہر وقت اچار کی بو شرارتی بچوں کی طرح ہر کونے میں گھومتی رہتی۔ بلکہ گھر کیا تھا ایک برآمدے کے ساتھ ایک چھوٹا سا کمرہ، جس کے ساتھ ملحق ایک غسل خانہ تھا۔ اس کا پورا بچپن اماں جیسی سخت عورت کی سرپرستی میں گزرا۔ پانچویں پاس کرتے ہی وہ بھی اماں کے کاروبار میں شامل ہو گئی۔گاجر کا اچار، ہری مرچ کا اچار چھوٹے سے برآمدے میں بنائی گئیں کیاریوں کی بدولت تھا۔ کیاریوں میں جونہی مرچیں لگتیں اماں اتار کر پانی میں ابالنے کے بعد مسالے لگاکے تیل میں ڈبو کے ڈبے میں بند کر دیتیں۔ اچار جب پکنے لگتا تو اماں ڈبوں سے نکال کر شاپر میں ڈال کر بلقیس آنٹی کو دے آتیں اور وہ اماں کو اچار کے پیسے ادا کرتی۔ ہر ہفتے کے اس معمول میں جب رات کے آٹھ بج جاتے تو وہ ہاتھ دھوتے ہوئے بڑبڑاتی۔
’’اس پورے بکواس چکر میں مجھے کیا ملتا تھا صرف دو وقت کی روٹی اور مسالوں کی بو ہر وقت میرے سے چمٹی رہتی ہے۔‘‘
ان دنوں جب اماں سے ملنے گھر میں کوئی بھی آتا تو اس کی طرف دیکھ کر ایک دفہ ضرور کہتا:
’’یہ تمہاری لڑکی تو بہت سوہنی ہے۔‘‘
تب اس نے آسمان کے دو تین چکر لگائے اور انہی ہواؤں میں اڑتے ہوئے اماں سے ضد کر کے ایک عدد آئینہ لگوا لیا، جو اماں نے سیدھا اپنی چارپائی کے عین سامنے لگا دیا۔ اب جب بھی وہ آئینے میں دیکھنے کے لئے کھڑی ہوجاتی پیچھے سے اماں کی تنبیہہ نظریں آئینے سے چپک جاتیں۔
اب آٹھ بجے کے بعد ہاتھ دھوتے وقت ہونے والی بڑبڑاہٹ کا متن بدل گیا تھا۔
’’میں تنگ آ گئی ہوں ان طرح طرح کے مسالوں سے۔ چھوٹے سے کمرے سے دو وقت کی روٹی سے۔۔۔اور۔۔۔
اور اماں سے۔۔۔!‘‘
اور پھر اس کی قسمت نکھرنے لگی کہ بکھرنے لگی جو اس کی ماں بیمار ہو گئیں۔ وہ چارپائی سے لگ گئیں۔ انہیں ٹی بی ہو چکی تھی۔ ہر وقت کھانستی رہتیں۔ ان دنوں جب ماں کے اندر مزید جان نہ رہی تو بلقیس آنٹی تک اچار پہنچانے کی ذمہ داری اس پہ آ گئی۔ اچار پک کر ٹین کے ڈبوں میں بالکل تیار ہو چکا تھا۔ وہ شاپر میں ڈال کر باہر نکلی۔
’’افف! باہر کی دنیا بھی کتنی عجیب ہے۔‘‘
وہ چلتے چلتے جھوم اٹھی۔ اس نے کئی سالوں کے بعد دنیا دیکھی تھی اسےپتا ہی نہیں تھا کہ یہ جتنی حسین ہے اتنی بدصورت بھی۔۔۔!
کھلے ہوا میں خوشی سے چلتے ہوئے وہ بھول گئی کہ جنت کو وہ گھر چھوڑ کر آئی ہے اور جنت سے بہتر بھلا کچھ اور ہو سکتا ہے!
خیر تازہ تازہ خمار تو ہو سکتا ہے دوزخ کا بھی چڑھتا ہو۔
اسی خمار کے زیر اثر واپس سیدھے گھر آنے کے بجائے اس کے قدم سڑک کے دوسرے طرف بنے دکان کی طرف اٹھ گئے۔ رنگ برنگی چوڑیاں دور سے ہی دکھائی دے رہی تھیں۔
وہ تیز رنگوں کے پیچھے پاگل ہوجانے والی تھی، رنگ بھی ایسے کہ شام کو چڑھے صبح کی دھوپ میں اترے۔ خیر چوڑیاں اس کی کمزوری تھی بلکہ چوڑیاں کیا پراندہ، جھمکے ،سرخی، ذنجیر ،خوشبو سب اس کی کمزوری تھے۔انسان کے اندر اگر ہلکا سا حرص بھی پیدا ہو جائے تو عفریت بن کر کھا جاتا ہے اور ڈکار بھی نہیں مارتا۔
خیر بنے بنائے منصوبے کے مطابق
دکان کے اند ر پہنچ کر اسے یاد آیا کہ اس کے پاس تو پیسے ہی نہیں۔
اس نے مسکراتے ہوئے چوڑیاں اٹھائی اور اگلے دن پیسے دینے کا وعدہ کر کے گھر واپس آگئی اور اگلے دن کے وعدے کرتے کرتے وہ ایک ہفتے میں دکان کا آدھا سامان گھر میں لا چکی تھی۔
اب آٹھ بجے کے بعد ہونے والی بڑبڑاہٹ کے جملے بدل گئے۔
’’اماں تو کبھی چاہتی ہی نہیں تھی کہ میں خوش رہوں اور کچھ اچھا پہنوں۔‘‘ چارپائی پر لیٹے لیٹے ہی ماں نے جب سختی سے اس سے پوچھا:
’’صادقہ! یہ سب کہاں سے آ رہا ہے؟‘‘
تب تو وہ خاموشی سے باہر نکلی۔ لیکن اس کے بعد اس کے جملے بدل گئے۔اگلے دن اٹھتے وقت وہ اپنے ہی جون میں تھی۔
آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر ہلکا سا بڑ بڑائی۔
’’آج میں نے قربان سے پوری بات کرنی ہے۔‘‘
پھر جب وہ تیار ہو رہی تھی تو ماں چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی اور کڑی نظروں سےاسے دیکھ رہی تھی۔
خیر ا سے کس بات کی پریشانی تھی۔جب اس نے دکان سے ادھار لیا ہوا سرخ جوڑا پہن لیا۔ بال سمیٹے اور خوشبو چھڑکنے لگی تو ماں نے سختی سے پوچھا:
’’یہ خوشبو کہاں سے لائی ہے تو؟‘‘
’’اماں! بلقیس آنٹی نے دی ہے۔‘‘
اس نے کاجل بھری نظریں اٹھاتے ہوئے ناگواری سے کہا۔اور باہر نکل گئی اس نے دیکھا تھا، اماں کی سانس اتھل پھتل ہو رہی تھیں شاید پھر کھانسی کا دورہ پڑنے والا تھا۔ اس نے باہر آکر کیاری میں چھپا بیگ نکالا جو رات کو تیار کر کے رکھا گیا تھا۔ وہ دھیرے سے ٹین سے بنا چھوٹا سا دروازہ بند کر کے باہر نکلی۔ اس کے قدم زمین کے بجائے ہواوؤں میں تھے۔ لیکن اسے پتا ہی نہیں تھا کہ ہوائیں تیز چلے تو منہ کے بل گرا دیتی ہے۔
قربان کے ساتھ نکاح کے بعد جب وہ تین دن بعدگھر واپس پہنچی تو دروازہ بند تھا۔ اسے دیکھ کر ارد گرد سے مرد باہر نکل آئے۔ عورتیں چھتوں پر نکلی اسے گھور رہی تھیں۔ پہلے وہ تھوڑی پریشان ہو گئی۔لیکن پھر بےشرمی سے کھڑی رہی۔
’’اب کیا لینے آئی ہے بےحیا!‘‘
’’ماں کو مار کر سکون نہ ملا جو اپنی بے شرم شکل لے کر پھر آئی ہے۔‘‘
کہیں سے آواز ابھری اور آواز در آواز گونجنے لگی۔ لوگ ایک ساتھ بولنے لگنے۔ شور ہی شور تھا۔ وہ آہستہ سے پیچھے ہٹ گئی۔
واپس اپنے شوہر کے ساتھ گھر آتے ہوئے اس کا دماغ سن تھا اور زہن کے پردے پر وہ آخری اتھل پھتل سانسیں گونج رہی تھیں۔
’’تو اماں مر گئی۔۔۔‘‘
اب آٹھ بجے والی بڑبڑاہٹ دن بھر جاری رہتی۔ لمبے لمبے جملے سمٹ کر چار لفظوں تک محیط ہو گئے۔
’’تو اماں مر گئی۔۔۔‘‘!
پہلے پہل بے یقینی سے یہ جملہ منہ سے نکلتا۔ اٹھتے، بیٹھتے اور پھر سوتے، جاگتے ورد بن گیا۔ اس ڈربے خانے میں دو سال ہو گئے اور جب اس کی بیٹی ایک سال کی ہو گئی تو اس کا شوہر ایک حادثے میں چلا گیا۔ تب وہ صحیح معنوں میں کھلے آسمان تلے آ گئی۔ زندگی کا انتہائی کھٹن دور اس نے بہت صبر سے کاٹا۔ بالکل ایسے ہی جیسے اس کی ماں نے کاٹا تھا۔ وہ دن بھر کام میں لگی رہتی اس کی بیٹی دن بہ دن بڑی ہوتی جا رہی تھی۔ خرچے بڑھتے جا رہے تھے۔ اخراجات کی فکر نے وقت سے پہلے اسے بوڑھا کر دیا۔ لیکن رات کو سوتے وقت جب وہ بستر پر لیٹتی تو کہیں سے تیز تیز سانسوں کی آواز اور ملتجی نظریں پوری رات سونے نہ دیتی اور وہ تھک ہار کر بھیگی آواز میں چار لفظوں کا ورد کرنے لگتی۔
’’تو اماں مر گئی۔۔۔‘‘!
جیسے جیسے اس کی بیٹی کی عمر بڑھتی جا رہی تھی ویسے ویسے اس کے اندر اس کی ماں آتی جا رہی تھی۔
پہلے اس کی پیشانی پر بالکل ماں کی طرح سلوٹیں پڑ گئیں اور پھر اس کی آواز بھی بالکل ان کی طرح سخت ہو گئی۔ وہ بھی بالکل اپنی ماں کی طرح آہستہ آہستہ کھانستے ہوئے چارپائی سے لگ گئی۔ اپنی بیٹی کو اس نے سلائی کڑھائی سکھائی تھی۔ وہ اس کے ساتھ ہی اس بوتیک میں جاتی تھی لیکن اس کے بیمار ہوتے ہی اکیلے جانے لگی۔ اب وہ اپنی ماں کی طرح چارپائی پر کھانستی رہتی اور بیٹی تیار ہو کر چلی جاتی۔وقت پلٹ کر آ گیا تھا اور اس کی طرف دیکھ کر تالیاں بجا رہا تھا۔
حقارت سے۔۔۔
نفرت سے۔۔۔
حسرت سے۔۔۔
بڑے بوڑھے کہتے ہیں:
’’والدین کے ساتھ کیا ہوا ساتھ نسلوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘
تو وقت بھی اسی خوف کے زیر اثر تھا۔
اور وہ بالکل اماں کی طرح سہمی ہوئی چھت کی کڑیاں گنتی رہتی۔
اس کی بیٹی بوتیک جانے کے لئے تیار ہے۔ وہ سرخ رنگ کا جوڑا پہنے آئینے کے سامنے کھڑی ہے۔ کھرچا ہوا آئینہ جس میں صورت بھی بہ مشکل آدھی نظر آتی ہے۔ اس کے لمبے بالوں سے پانی ٹپک رہا ہے بالکل کسی کے یقین کی طرح۔
اور جب اس نے خوشبو چھڑکی تو سارے کواڑ کھلتے گئے اور ماضی کا ایک جملہ بےساختہ اس کے منہ سے نکل گیا۔
’’یہ خوشبو کہاں سے آئی؟‘‘
جواب اسے معلوم تھا۔
کیوں؟
کیونکہ یہ وہی جواب تھا جو وہ اپنی ماں کو دے چکی تھی۔
اس کی سانسوں کی گردش تیز ہونے لگی۔ حلق سوکھا جا رہا تھا۔ کچھ کہنے کی کوشش میں کراہ کر رہ گئی۔ بیٹی جب باہر نکلی تو وہ کہنیوں کے بل بڑی مشکل سے تھوڑی اونچی ہوئی۔ سامنے آئینے پر جب اس کی نگاہ پڑی تو وہ خاموش تھی موت اس کے ارد گرد منڈلانے لگی۔ ٹوٹا پھوٹا آئینہ آج واضح دکھانے پر تلا ہوا تھا۔ وہ صورت تو دکھا رہا تھا لیکن اس کی نہیں،
بلکہ اس کی ماں کی۔۔۔!
تین دن بعد جب بیٹی کسی کے ساتھ واپس آئی تو گھر کا دروازہ بند تھا۔ مرد باہر نکلے عورتیں چھتوں پر نکل آئیں۔
شور سا بڑھ گیا ہوا خاموش ہو گئی۔ وہی جملے دہرائے گئے۔ آئینے پر ایک اور صورت نقش ہو گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.