آئینہ گر
ہستی اور نیستی کے سارے اسرار چھوٹے چھوٹے لمحوں کی کوکھ سے پھوٹتے ہیں لمحے جوکہ آتے رہتے ہیں مگر کم کم آتے ہیں کہ جن کے بطن سے حقیقی خوشیوں اور لذتوں کے سرچشموں کو جنم لینا ہوتا ہے۔
چاول پلیٹ میں ڈال دو؛سکرین سے نظریں ہٹائے بغیر انہوں نے کہا، وہ آگے بڑھ کر ان کے قریب کھڑی ہو گئی۔ پلیٹ میں چاول ڈالتے وقت ہاتھ کپکپا گئے اور تھوڑے چاول باہر گر گئے۔ اس نے کنکھیوں سے دیکھا، مگر وہ منہ دھیان تھے۔ وہ جلدی سے کچن سے تولیا اٹھاکر لائی اور میز کو صاف کر دیا۔ وہ اب پلیٹ کو سرکاکر اپنے سامنے کر چکے تھے، مگر نظریں بدستور ٹی وی کی سکرین پر جمی تھیں۔ وہ ان کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور ان آنکھوں کے اندر جھانکنے لگی جو ٹی وی کی سکرین پر جمی تھیں اور کہیں دور اس کی روح کے اندر گڑی تھیں۔۔۔
اس نے ایک آنکھ درز کے اوپر رکھ کر دوسری طرف جھانکا توبصارت کو سخت دھچکا لگا۔ دوسری طرف تو کچھ بھی نہ تھا۔ بصارت واپس لوٹی تو زخمی تھی، اس کی نظر آئینے کی طرف چلی گئی، آئینہ ٹکڑے ٹکڑے تھا کچھ بھی سلامت نہ تھا۔ نہ اس کے اندر نہ باہر، اس کا بدن لہو لہو تھا، کانچ کے سارے ٹکڑے اس کے وجود کی ایک ایک پورمیں چبھ گئے تھے۔ کراہ کر اس نے کمر پر ہاتھ رکھا اور ہونٹ سہلائے، کمر اور ہونٹ کنکروں سے پر تھے، زخمی تھے، لہو لہو تھے ،اس نے فریاد کی۔ میری کمر اور ہونٹوں کو توبخش دیا ہوتا کہ ان پر تو جنت کی مہروں کے نشان ثبت تھے۔ زمان کے لکھو کھاسال کے چکر میں وہ چند لمحے ہی تو اس کے اپنے تھے جن کو وہ اپنا کہہ سکتی تھی۔ پکے ہوئے رسیلے پھل کے جیسا، نظر زبان اور ہاتھوں کو اختیار سے باہر کردینے والا بدن جانے وہ کب سے سنبھالے ہوئے تھی۔ جن ہاتھوں کو یہ پھل توڑنا تھا وہ کبھی اس کی جانب نہ بڑھے۔ ہزاروں ندیدی نظریں، للچائی ہوئی زبانیں اور نامراد گستاخ ہاتھ اس کی طرف بڑھتے رہے، مگر جونہی کوئی اس کی طرف سیڑھی لگاتا وہ کہیں اوپر چلی جاتی۔ وہ سارے طلب گاروں کے لیے نظر کے دھوکے کی طرح تھی ،نظر آتی مگرجب وہ قریب پہنچتے تو غائب ہو جاتی۔ جن آنکھوں کو وہ پھل دیکھنا تھا وہ کبھی اس کی جانب نہ اٹھیں جب آنکھیں ہی نہ اٹھیں تو ہاتھ کیسے پہنچ سکتے ہیں اور پھر زبان تک جانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔
اس کی کمر پرگداز ہتھیلی کا ہلکا سا لمس جاگا ہونٹوں پر ہونٹوں کی خوشبو نے سسکاری لی۔ ہلکے سے دباؤ کا لمس اور نرم ہونٹوں کی خوشبو کا لمس، خوشبو اس کے حواس پر چھاگئی اوریوں لگا ہر طرف پھول کھل گئے ہوں اتنا لطیف، اتنا نرم اور اتنا پراثر؟؟؟
ہاں۔۔۔ خوشبوآزاد ہوئی۔۔۔
وہ بہت کم تھا
اختصار اس کا جمال ہے۔
اختصار۔۔۔ صدیاں مختصر لمحوں کی گرفت میں آگئیں وقت کٹتا رہا، جگر کٹتا رہا، بدن کٹتا رہا، اس کا سارا بدن لہو لہو تھا۔
میں نے تو کچھ نہیں کیا تھا پھرکیوں سنگسار کر دی گئی؟ یہ بدن تو میرا تھا پھر خلقت کو کس نے حق دیا تھا کہ اس پر اپنے پتھر پھینکے؟ یہ سماعت تومیری تھی پھر لوگوں کو کس نے اجازت دی تھی کہ میری سماعت کو گالیوں کی شنوائی دیں۔ میں نے توکسی کوبھی تکلیف نہیں دی تھی پھر مجھے کیوں اذیت دی گئی؟ شکستہ آئینے کی ایک ایک کرچی میں اس کے بدن کی الگ الگ بوٹیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ جسم تکمیل سے قبل ہی منتشر ہوکر ختم ہو گیا تھا۔
اس نے کتاب کا پہلا صفحہ کھول کر ایک نام پر انگلی رکھی۔ یہ دیکھو! وہ اس کے کندھوں کے قریب جھک آئی سرورق۔۔۔ جایا کپور
ہوں۔۔۔ اس نے اشتیاق کے ساتھ کہا۔
وہ تو کافی مشہور ہے۔۔۔
ہاں اس کتاب کا ٹائٹل اس نے بڑے شوق کے ساتھ بنایا ہے!
وہ اشتیاق کے ساتھ کتاب کے ٹائٹل کو دیکھنے لگی۔۔۔
تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں جانتی ہو.؟ وہ قریب سے بولا۔۔۔
جانتی ہوں اس نے ناگواری سے کہا اورناک سکیڑی ۔۔۔
کیا ہوا ہے؟
پیچھے ہٹو الکوحل کی بوآرہی ہے مجھے ۔۔۔
اچھا ہٹ جاتا ہوں وہ پیچھے ہٹ گیا۔ مگر ان آنکھوں کو یہیں چھوڑ دو
جانتی ہو تمہاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
اچھی طرح جانتی ہوں تم مرد لوگ عورت کو ٹکڑوں میں۔۔۔ اور دھماکہ ہوا آئینہ ٹکڑے ٹکڑے تھا اور ہر ٹکڑے کے اندر وہ تھی نامکمل، بٹی ہوئی، لخت لخت، پارہ پارہ، کہیں آنکھیں تھیں، کہیں ہونٹ، کہیں سینہ تھا اور کہیں پیٹ۔ ایک ٹکڑے کے اندر اس کی آواز تھی، ایک کے اندر لہجہ، ایک کرچی کے اندر اس کی قامت سمائی تھی، قامت، ہاں قامت اس کی سماعت نے سنا۔۔۔
تعریف کیا ہو قامت دلدار کی شکیب
مجسم کر دیا ہے کسی نے الاپ کو
کوئی اس کے کان کے قریب بولا تھا۔ مصنوعی رومانوی لہجہ تواس کو متاثر نہ کرسکا مگر شعر کے الفاظ پروہ چونکی اور لہرا گئی۔ اس کی نظر دوسرے ٹکڑے پر پڑی جہاں اس کی آواز قید تھی دیپک!!! دیپک!! دیپک!!
تم مجھ سے بات کیوں نہیں کرتیں دیپک؟
بات کرتی تو ہوں۔۔۔
نہیں تم مجھے اگنور کرتی ہو۔۔۔ آخر ایسا کیا ہے؟
ایسا تو کچھ بھی نہیں ہے میں بس ایسی ہی ہوں
میں صرف تمہاری آواز سننا چاہتا ہوں
کیا ہے میری آواز میں؟
اس غیرت ناہید کی ہرتان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
ریکارڈ کر لو میری آواز سنتے رہا کرو
میں تمہاری آواز کا عاشق ہوں،
آواز کا عشق بھی کوئی ہوتا ہے تم مرد لوگ ناں ٹکڑوں میں۔۔۔ کرچیاں چیخنے لگیں چلانے لگیں تھیں۔ آوازیں گڈمڈ ہوگئیں۔ لہو اور بوٹیاں رقص کرنے لگے۔ اس کی آنکھیں جل اٹھیں۔ ٹکڑے بغاوت پر آمادہ تھے۔ اودھم مچا رہے تھے۔ آواز کی قید والا ٹکڑا چلایا دیپک، دیپک سفید ریشم سا سرسرایا سفید رنگ، سفید جلد، سفید کھال، سفید مخروطی انگلیوں کے اندر جڑے گلابی نگینوں جیسے ناخن، سفید کھال اور موٹے ہونٹ، اس کے بدن کے منتشر ٹکڑوں میں کراہت نے انگڑائی لی۔ نفرت سے اس کے معدے میں ابال اٹھا اور اس کو ابکائی آنے لگی۔۔۔
تم نہیں جانتی ہو سفید رنگ سوعیب چھپا لیتا ہے۔۔۔
کیا؟؟؟؟ کہیں اس کا دل پھڑکا اور آنکھوں کے کٹورے چھلک پڑے
ہاں محض سفید رنگت بھی بعض اوقات سیاہ نصیبوں کے مقدرتج دیتی ہے۔ دماغ، عقل، وجداں، کردار، نقش، نگار، سلیقہ، ان میں کیا رکھا ہے سفید رنگت تو نظروں کے اوسان خطا کر دیتی ہے بدن کے جزداں لپیٹ دیتی ہے فاعل کو مفعول، ضارب کو مضروب بنا دیتی ہے۔۔۔
بس کر دو مجھے ابکائی آ رہی ہے۔۔۔
تمہیں نفرت سے ابکائی آ رہی ہے؟؟؟
نہیں رشک اور حسد سے بھی ابکائی آ سکتی ہے
چٹاخ کی آواز آئی اس نے پلٹ کر دیکھا آواز کی قید والی کرچی پر کسی نے پتھر مارا تھا۔ پتھر کہاں سے آیا تھا۔ اس نے سمت کا تعین کیا تو اندازہ درست نکلا۔ وہ جبر اور ضبط کی آخری سرحد پر کھڑا تھا، مگر وہ پاس سے گزر گئی۔۔۔
تم نے پوچھا تک نہیں مجھ پر کیا گزری یوں غیروں کی طرح لاپرواہی سے گز رگئی۔ میں اپنی زندگی کی جبر اور ضبط کی آخری حدبندیوں سے گزر رہا ہوں آواز پانی بن کر اس کی سماعتوں کے اندر بہہ نکلی۔۔۔ خود غرضی ہے اس کو آخر ایک نہ ایک دن تو کسی اور کا ہونا تھا۔۔۔
مگر اس نے یوں کیوں کیا؟؟
کیا کیا اس نے؟
وہ کچھ عرصے سے بہت محتاط ہو گئی تھی مجھ سے کترانے لگی تھی۔۔۔
تو اس کو اس کے گھر میں بسنے دو اگر اتنی ہی محبت تھی تواس کو اپنا لیا ہوتا گر اپنانے کا حوصلہ نہ تھا تو اس کا گھر تو مت اجاڑو۔
دیپک میرے ساتھ ہمدردی کرو تم میری دوست ہو۔۔۔
مگر میں ایک عورت بھی ہوں
تم بدلحاظ ہو گئی ہو
ہاں میں ہوں بدلحاظ تمہارا اس کے ساتھ جسم کا رشتہ تھا؟
نہیں
تھا!!!!!!
نہیں تھا ۔۔۔
میں جو کہہ رہی ہوں تھا!! جس ٹوٹ پھوٹ کے شکار تم ہو، مرد ہو یا عورت محبت کے تعلق میں سب سے زیادہ توڑ پھوڑ جسم کا رشتہ ہو تو ہوتی ہے۔ یہ جو تم سہہ نہیں پا رہے تم اس شخص کے تصور میں ہلکان ہو رہے ہو جس کے پہلو میں وہ لیٹی ہوگی، یہ سب چلا چلاکر اعلان کر رہے ہیں کہ تمہارا اس کے ساتھ جسم کا رشتہ تھا۔۔۔ ہاں۔۔۔ تھا۔۔۔ اس نے ٹھہر ٹھہر کر ادا کیا اور گردن جھکا دی۔۔۔
دھم کی آواز کے ساتھ کوئی گرا اس نے آنکھیں کھول دیں۔ کانچ کے بے شمار ٹکڑے اس کے سامنے بکھرے پڑے تھے جن میں اس کا سراپا پریشان تھا۔ اس نے کانچ کے ایک ٹکڑے کو اٹھایا گاڑی کے سامنے والے بیک ویومرر کو ایک خاص زاویے پر سیدھا کرتے ہوئے اس نے ساتھ والی ساتھی کو پکارا۔ ذرا اس کے چہرے سے چادر تو ہٹا دو۔
اس نے ہاتھ بڑھائے اور اس کی ناک کے اوپر سے چادر نیچے گرا دی۔ اس نے ایک دم سامنے دیکھا۔ وہ شیشے کے اندر سے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
تم مجھے ’’مریم‘‘، جیسی لگتی ہو
کون سی مریم؟
اس نے موبائل کے اندر گیلری میں سے ایک تصویر نکالی اور اس کے سامنے کر دی ۔۔۔
اوہ ۔۔۔
ایک طویل قہقہہ اس کے لبوں سے چھوٹا
یہ مریم نہیں ’’مونا لیزا‘‘ہے لیو نارڈو وانچی کی بنائی شاہکار تصویر جوکہ اس نے لکڑی پر بنائی تھی وہ دیر تک ہنستی رہی۔۔۔
وہ شرمندہ ہو گیا۔ میں اس کو مریم بنت عمران سمجھتا رہا
مگر یہ مجھ جیسی کب ہے اس کی تو بھنویں بھی نہیں؟؟؟؟؟
بھنویں لگا دو تو تمہارے جیسی ہی لگے گی۔ ویسے اس کی بھنویں کیوں نہیں ہیں تمہیں تو ہر بات کاپتا ہوتا ہے بتاؤگی؟
ہاں جس دور میں لیونارڈوانچی نے یہ شاہکار تخلیق کیا اس دور میں حسینائیں اور اونچے طبقے کی عورتیں بھنویں مونڈا کرتی تھیں یہ اس دور کے فیشن کا حصہ تھا مجھے لگتا ہے میں تمہارا بچہ ہوں۔۔۔ گرم سانسوں کی آری اس کی گردن کاٹنے لگی۔، تمہی سے جنموں تو شاید مجھے پناہ ملے۔ ،سانس کو سانس نے قطع کیا۔ مجھے اپنے اندر دفن کر لو۔
وہ گرم لاوے کی زدپہ تھی کہ شانت ہو گئی۔ نہیں یہ بدن یہ ہونٹ امانت ہیں کسی کی، اس کی روح کے اندر آنکھیں لرزیں۔ ٹی وی سکرین پر جمی لاپرواہ آنکھیں اس کی روح کے اندر اس کے بدن کی نگرانی کر رہی تھیں۔ وہ کتنے ٹکڑے یکجا کرتی جن کو اس نے بچا بچا کر رکھا تھا، جن کو وہ چھپا چھپا کر لائی تھی، کتنے پتھر اس کے بدن پر پڑے تھے، ہر پتھر پر اس کے کسی نہ کسی محروم کا نام کندہ تھا۔ اس کا بدن لخت لخت تھا، لہو لہو تھا، وہ ایک ایک بوٹی کو سنبھالتی پھری، شکستہ آئینے کے ایک ایک ٹکڑے کو یکجا کرتی گئی، اس آئینہ گر کے انتظار میں جو ان ٹکڑوں کو جوڑ کر اس کی تجسیم کر سکتا تھا، جواس کی بوٹیوں کو ملاکر اس کی تکمیل کر سکتا تھا، آنکھیں ہونٹ، قامت، آواز، سراپا سبھی پر محرومیوں کے پتھر پڑتے رہے، مگر آئینہ گر تھا کہ اس کی آنکھیں ٹی وی کی سکرین پر چپکی تھی، وہی آنکھیں جو اس نے اس کی روح کے اندر گاڑ دی تھیں۔
ہستی اور نیستی کے سارے اسرار انہیں ٹکڑوں میں بٹ گئے تھے۔ آئینہ گر کو کون سمجھاتا کہاں پر کتنا غدر مچا تھا۔ وہ جس کا کوئی قصور ہی نہیں تھا وہ سنگسار کیوں کی گئی تھی۔ اس نے کیا کیا تھا؟ وہ تو ٹکڑوں کی سالمیت کی ہوس میں ہلکان ہوتی رہی۔ اس کی روح کے اندر آنکھیں گڑی تھیں۔ آنکھیں جو اس کی نگران تھیں، وہ سر سے پاؤں تک، جسم سے روح تک شعور سے لاشعور تک کسی کی امانت تھی مگر امانت دار کبھی نہ لوٹا۔
ٹینشن تم پر سوٹ نہیں کرتی سمجھی!!
وہ چپ رہی
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
محبت سے بڑا دکھ تو کوئی بھی نہیں
آئینے کے سارے ٹکڑے سارے منظر غلط ملط ہو گئے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.