آئینہ
کہانی کی کہانی
قدآدم آئینے کے سامنے کھڑی ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر اپنے جذبات و خیالات کا اظہار کر رہی ہے۔ وہ ہنس رہی ہے کیونکہ وہ خوش ہے، خوش وہ اسلیے ہے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہو گئی ہے۔ جبھی گھر کی خادمہ اسے بتاتی ہے کہ نانی بی نہیں رہیں۔ نانی بی کی موت کی خبر سن کر اس کا چہرہ اتر جاتا ہے اور انجان خاتون ساتھ گزرا اس کا بچپن آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے۔
میں ایک بڑے آئینہ کے سامنے کھڑی بالوں میں کنگھی کر رہی تھی۔ میری توجہ بال بنانے پر نہ تھی۔ یونہی کنگھی کیے جا رہی تھی۔ دراصل میں اپنے چہرہ پر طرح طرح کے جذبات کے اظہار کا مطالعہ کر رہی تھی اور کیا کہنے بڑا ہی مزہ آ رہا تھا۔۔۔ بال بنانے میں ضرورت سے زیادہ دیر لگ رہی تھی۔ امی کہیں گی، ’’کچھ کام بھی کروگی پروین! تم ہو، آئینہ ہے اور بس۔ جب دیکھو آئینہ کے سامنے۔۔۔‘‘ نہیں آج امی بھی کچھ نہ کہیں گی۔ آج تو وہ مجھ سے بہت خوش ہیں۔ ابھی ابھی، آج ہی میرا رزلٹ معلوم ہوا ہے نا؟ رزلٹ اور آئینہ نے خوشی کی تصویر پیش کر دی۔ سیکنڈ ڈیویژن! اور میرے گال تمتما رہے تھے۔۔۔ ہونہہ! سیکنڈ ڈویژن بھی کوئی بڑی بات ہوئی میرے لیے؟ میں تو ہمیشہ جماعت میں اول آیا کرتی تھی۔ مجھے تو فسٹ ڈویژن میں کامیاب ہونا چاہیے تھا۔ ایک ہلکی سی تحقیر اور ناز۔۔۔ ارے میں یوں بھی بھلی معلوم ہوتی ہوں۔۔۔؟ پھر بھی اگر کسی دوسرے امتحان کا نتیجہ ہوتا تو کچھ پروا نہ تھی۔ بی اے! ان دو نسخے سے حرفوں کتنی شان ہے۔ کتنا دبدبہ! اب تو میں گریجوٹ ہوں۔ آئینہ کی تصویر پر رعب اور فخر چھا گیا۔۔۔ گویا میں اپنی صورت نہیں دیکھ رہی تھی۔ بلکہ پردۂ فلم کی کسی ہیروئن کے چہرہ پر بدلتے جذبات کو یا کسی مصور کی بنائی ہوئی تصویروں کو جن میں مصور نے خاص خاص جذبے کو کینواس پر کھینچا ہے۔۔۔ اب لڑکیاں میرا پیچھا نہ چھوڑیں گی، خوب ستائیں گی۔ ’’مٹھائی کھلاؤ۔ مٹھائی کھلاؤ‘‘ اور میں کہتی پھرتی تھی نا کہ اس سال ہرگز کامیاب نہ ہوں گی۔ میں نے امتحان کے لیے ذرا بھر بھی تیاری نہ کی تھی اور وہ کہتی تھیں، ’’آخر تم کامیاب نہ ہو تو کسی اور کی کامیابی کی امید بھی ہو سکتی ہے۔‘‘ اور مجھ سے شرطوں پر شرطیں باندھا کرتی تھیں۔ بھلا مٹھائی پر راضی ہو جائیں گی۔ شاید پارٹی ہی دینی پڑے۔ ہاں، کیوں نہ آج ہی اپنی چند خاص سہیلیوں کو بلاکر پارٹی دوں۔ خوب لطف آئےگا۔ گھر بیٹھے بیٹھے میراجی اکتا گیا ہے۔۔۔ اوہ! امی بھی ادھر آ نکلیں۔ ’’آج میں سہیلیوں کو چائے پر بلاؤں امی؟‘‘
’’ہاں، ہاں، کیوں نہیں بیٹی۔ شوق سے بلاؤ۔ آخر ایسی خوشی کے موقع بار بار نہیں آتے۔‘‘ آہا! آج امی نے کتنی جلد اجازت دے دی۔ زینی کو ضرور بلاؤں گی۔ وہ تو پارٹی کی جان ہوگی اور صرف اسی کو معلوم ہے نا کہ۔۔۔ اول۔۔۔ اماں! بڑی شریر ہے وہ تب سب سے کہہ دےگی۔ پروین کو ڈبل کنگریجولیشن دو۔ ایک تو اس کے گریجوٹ بننے پر اور دوسرا اس سے بڑھ کر اس کی ینگیجمنٹ (Engagement) پر۔‘‘ اور سب لڑکیاں مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی۔ چھیڑتی چھیڑتی میرا ناک میں دم کر دیں گی اور میں بناؤٹی غصہ سے یوں منہ بنالوں گی۔۔۔ ارے تو غصہ بھی مجھے بھاتا ہے۔ منہ پھلائے ہوئے میں بھی اچھی لگتی ہوں۔ یہ تو آج ہی معلوم ہوا۔‘‘
ہاں ہاں لڑکیاں کہا کرتی تھیں نا۔ ’’غصہ کا اظہار کرتی ہوئی تم تو بالکل مادھوری کی سی دکھائی دیتی ہو‘‘ لیکن میں نے آج تک توجہ سے نہ دیکھا تھا۔ واللہ یہ آئینہ بھی بڑی انوکھی ایجاد ہے۔ اپنی تصویر کو جس پور میں، جس پہلو میں چاہو دیکھ لو۔ جس طرح بھی چاہے دیکھ لو۔۔۔ ہاں۔ تو میں اپنے چہرے پر یوں مصنوعی غصہ پیدا کردوں گی۔ گوجی تو یہی چاہتا ہوگا کہ وہ یونہی چھیڑتی جائیں۔ ہاں۔ گھنٹوں یونہی چھیڑتی رہیں۔ کیسا لطف آئےگا ان کی اس چھیڑ چھاڑ میں۔ ایک خاص لذت۔۔۔ چائے کے اختتام پر زینی مجھ سے گانے کے لیے اصرار کرےگی تو کیا گاؤں؟ ہاں وہ فلمی گیت گاؤں گی۔ وہ گیت۔۔۔
سا جنا جمنا پیچھے کھیلوں۔ کھیلوں، کیلی کیا؟
اور جب میں یہ گیت گا رہی ہوں گی تو زینی ایسی معنی خیز، ایسی شرارت بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہوگی۔۔۔ اور پھر وہ برس ہی تو پڑےگی۔ ساتھ ہی گدگداتی ہوئی، ’’اکیلی اکیلی؟ ہم اتنی سکھیاں جو ہیں۔ ہونہ! اب ہماری حقیقت ہی کیا ہے۔ اسے تو اپنا ساجن چاہیے۔ اپنا۔۔۔ نہ ہو تو۔۔۔‘‘ اُف۔۔۔ میں۔۔۔ کے خیال ہی سے کیسے شرما جاتی ہوں۔ میں نے ذراسی نظریں اٹھاکر آئینہ میں پھر دیکھا۔ یہ تصویر تو سب سے دلکش تھی۔ میں۔۔۔ کے سامنے شرماتی ہوئی بھی ایسی ہی نظر آؤں گی نا۔۔۔
چھوٹی بی بی! ’’کیا ہے خیرن بی۔‘‘ ’’ایک خبر سنانے آئی تھی۔‘‘ ’’خبر۔‘‘ میں نے مڑ کر پوچھا، ’’ہاں ہاں کہو نا کیا خبر۔‘‘
’’ارے آج تو تم بہت خوش نظر آ رہی ہو۔ بی بی! ہاں یاد آیا۔ بڑی بیگم کہہ رہی تھیں۔ تم کسی بڑے امتحان میں کامیاب ہو گئی ہو۔ ایسی خوشی کے وقت تمہیں بری خبریں سناکر رنجیدہ کروں۔ چھی چھی۔ توبہ توبہ۔‘‘ وہ جانے لگی۔
’’ارے ٹھہرو خیرن بی! آخر کچھ معلوم بھی ہو۔‘‘
’’کچھ نہیں بی بی۔ وہ جو ہمارے محلے میں نانی بی رہتی تھیں نا۔ وہی جو چھٹپن میں تمہیں کھلایا کرتی تھیں۔۔۔ ارے توبہ میرے منہ سے تو نکل ہی گیا تھا نا بابا۔ چھی چھی خوشی کے وقت یہ خبر کیسے سناؤں۔‘‘
’’اوئی میرے اللہ میں نے کیا کیا! بڑی بیگم مجھ پر خفا ہوجائیں تو؟ جس وقت تم چھوٹی تھیں۔ انہوں نے تاکید کی تھی کہ ’نانی بی‘ کا نام تمہارے سامنے نہ لیا کروں۔‘‘
’’امی تمہیں کچھ نہ کہیں گی۔ اس کا ذمہ میں لیتی ہوں۔‘‘
’’کل رات نانی بی جاتی رہیں۔ بیٹی ہم سب محلہ کی عورتیں ان کے پاس جمع تھیں۔‘‘ خیرن بی نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا، ’’مرتے وقت تمہارا ہی نام زبان پر تھا۔‘‘
گویا تصویروں کے سٹ کو مکمل کرنے میں ایک اور جذبہ کی کمی تھی۔۔۔ اداسی کی جھلک۔۔۔ اورمیں بال گوندھتی ہوئی آئینہ کے سامنے سے چلی آئی۔
’’نانی بی، میری بوڑھی انّا، وہی جس نے اتنے سال مجھے اپنی گود میں کھلایا تھا۔ اب اس دنیا میں نہیں ہے؟ کاش میں اپنی انا کو مرنے سے پہلے ایک بار دیکھ، میں کیا کچھ نہ دیدوں گی۔ پھر اپنی انا سے صرف ایک بار ملنے کے لیے! میری انّا کیا تم میرے سہانے بچپن کی ان تمام یادوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئی ہو؟ ان ننھی ننھی دلچسپیوں کی یاد کو، ان خیالات کو جو تمہارے بڑھاپے اور میرے بچپن کے جوڑ سے پیدا ہو گئے تھے؟ آخر تم نے اس دنیا کو چھوڑا کیسے؟ تم جو اس دنیا کو اتنا عزیز رکھتی تھیں گو اس دنیا میں تمہارے لیے کوئی خوشی نہ تھی۔ ہاں میں اچھی طرح جانتی ہوں۔ تاہم تمہیں زندگی سے محبت تھی۔ تم زندہ رہنا چاہتی تھیں۔ ایک بے بسی۔ ایک مایوسی کے ساتھ اس دنیا سے چمٹی ہوئی تھیں۔ غم کے مارے بھی اس مصیبت بھری دنیا سے کیسے چمٹے رہتے ہیں۔۔۔! اور تم تو، نانی بی! چھوٹی چھوٹی مصیبتوں کو بھی سہہ نہ سکتی تھیں۔ ستائی ہوئی تصور کرتی تھیں۔ میں نے تمہیں کبھی ہنستے نہ دیکھا تھا۔ تمہارے لیے اس دکھ بھری دنیا میں اگر ذرا سی خوشی اور دل چسپی کا کوئی ذریعہ تھا تو وہ میں ہی تھی۔ تم مجھے گود میں لے کر سب کچھ بھول جاتی تھیں۔۔۔ ہاں میری انّا۔ تم مصیبت زدہ تھیں۔ مگر دنیا کو تم سے ہمدردی نہ تھی۔ امی۔ ابا کو بھی نہیں۔ گو ان کے گھر میں تم اتنا کام کیا کرتی تھیں۔ آخر کیوں؟ اگر تمہارے چہرہ پر تمہارے دلی دکھ کا ذرا بھی اظہار ہوتا تو شاید لوگوں کو تم سے کچھ ہمدردی ہوتی۔ مگر تم یوں دکھائی دیتی تھیں۔ گویا تم میں جذبات ہی نہیں۔ ایک پتھر کی مورت سی۔۔۔ اور میری غریب انا! تمہارے چہرہ میں کچھ ایسی چیز بھی نہ تھی جو ذرا سی بھی کشش رکھتی جو لوگوں کے دلوں میں رحم کے جذبہ کو ابھار سکتی۔ سیاہ رنگ۔ پچکے ہوئے گال، روکھے سفید بال، پوپلامنہ، لٹکتے ہوئے ہونٹ، بے نور، اندر کو دھنسی ہوئی، چھوٹی چھوٹی منکوں کی سی آنکھیں۔۔۔ انسانی زندگی کی بوسیدگی کی مکمل تصویر! تمہاری یہ ہیئت اور اس پر ظاہری بےحسی دلوں میں رحم کی بجائے ایک ہلکی سی نفرت۔۔۔ ایک خوف سا پیدا کر دیتی تھی۔ گویا تم پرانے قصوں کی کوئی جادوگرنی ہو اور امی تو تمہیں جادوگرنی ہی سمجھتی تھیں۔ جب کبھی وہ تمہیں ڈانٹ بتاتیں تو تم کچھ جواب دینے کی بجائے خاموش نگاہوں سے گھورنے لگتیں۔ شاید تمہارے یوں دیکھنے سے تمہارا مدعا طلب رحم ہوتا۔ مگر تمہاری پھیکی بےنور آنکھیں اس کو ظاہر نہ کر سکتی تھیں اور امی کسی خوف سے سہم جاتیں۔ گویا تم ان پر آنکھوں کے ذریعہ جادو اتار رہی ہو۔ ابا بھی تم سے دور دور رہتے تھے۔ جب کبھی انہیں تم سے بات کرنے کی ضرورت ہوتی تو وہ دوسری طرف منہ پھیر کر نہایت بےپروائی سے جواب دیتے۔۔۔ وہی خوف ملی ہوئی نفرت کا جذبہ۔۔۔ گھر میں کوئی بھی تمہیں چاہتا نہ تھا۔ مگر، میری بوڑھی بےبس انا، میں تمہیں چاہتی تھی، ننھے سے دل سے۔ اس محبت نے مجھے ایک چھوٹی فلاسفر بنا دیا تھا۔ کیونکہ میں ہی تمہیں سمجھ سکتی تھی۔ ابا کا علم، ان کی عمر، امی کا تجربہ تمہیں سمجھنے میں مدد نہ دے سکے تھے۔ مگر میں گو ننھی سی تھی۔ تمہیں اچھی طرح سمجھتی تھی۔ کیونکہ مجھے تم سے محبت تھی، ہمدردی تھی۔ میں اچھی طرح جانتی تھی کہ تم میں کوئی جادو کی طاقت نہیں تھی۔ تم بے بس تھیں، کمزور تھیں۔
دس بارہ سال پہلے کی زندگی میری آنکھوں میں پھرنے لگی۔ بہت سی تصویریں میرے دماغ کے پردہ پر ابھرنے لگیں۔ اس وقت کی تصویریں جب میں ننھی سی تھی۔ ہر وقت نانی بی کے دامن سے چمٹی پھرتی تھی۔ نانی بی رسوئی میں کھانا پکارہی ہوتیں (وہ مجھے کھلانے کے علاوہ گھر کا سب کام بھی کر لیتی تھیں) میں بھی دوڑی ہوئی وہاں جاپہنچتی۔ امی روکنے کی کتنی ہی کوشش کرتیں۔ طرح طرح کے کھلونے میرے سامنے لارکھتیں۔ مٹھائیاں منگواتیں۔ مگر میں مچلنے لگتی۔
’’اوں، یہ مٹھائیاں نہیں کھاؤنگی۔ مجھے تو کھوپرے کی مٹھائی پسند ہے۔ نانی بی لے دینگی۔‘‘ امی بڑبڑانے لگتیں، ’’کمبخت بازار کی سستی مٹھائیاں دلاکر بچی کی صحت خراب کرتی ہے۔‘‘ میں پھر اپنی ہٹ سے باز نہ آتی تو لڑکے کو دوڑا کر وہی سستی مٹھائی منگادیتیں۔ مٹھائی سنتے ہی میں وہاں سے بھاگ نکلتی، میں تو نانی بی کے ہاتھ سے مٹھائی کھاؤں گی۔‘‘ امی جھلا اٹھتیں، ’’اری پروین! کہاں بھاگ چلی۔ خدایا اس بوڑھی نے تو میری بچی پر جادو کر دیا ہے۔‘‘ ہاں امی نانی بی نے سچ مچ مجھ پر جادو کر دیا تھا۔ محبت کا جادو، وہ مجھ سے کتنا پیار کرتی تھیں، میری ننھی پربِن، ارے کیا نام ہے تمہارا۔۔۔ اونہہ بابا کیسے کیسے نام نکل گئے ہیں اس جمانے میں۔ ہم پرانے جمانے کی بوڑھیاں کیسے بول سکیں۔ یہ جمانا ہی کیا میرا نام بھی بجرگوں نے کچھ ایسا ہی رکھا ہے۔ جھا۔ را۔ جہرہ۔ مجھے کھود بولنے نہیں آتا۔ میں تمہیں شہجادی پکارا کروں گی۔ چھوٹی شہجادی ہاں تم ایک شہجادی کی طرح کھبصورت ہو۔ ہوں، تو میری چھوٹی شہجادی کو کیا چاہیے۔‘‘ یہ مٹھائی تمہارے ہاتھ سے کھلا دو نانی بی۔‘‘ میں اپنی مٹھی کھول کر ننھی سی ہتھیلی پسار دیتی، نانی بی ذرا ذرا سی مٹھائی توڑ کر مجھے کھلانے لگتیں اور یہ معمولی مٹھائی اس سوکھے ہاتھ سے کھاتے ہوئے مجھے ایسا مزہ آتا کہ امی کے پاس بیٹھ کر خوبصورت ننھی طشتریوں میں سجے ہوئے گلاب جامن۔ برفی۔ دودھ پیڑے اور حلوہ سوہن کھاتے ہوئے کبھی نہ آتا تھا۔
میں نے ایک دن امی سے نانی بی کا نام پوچھا، ’’نانی بی اور کیا‘‘ انہوں نے بے پروائی سے جواب دیا، ’’نہیں امی کچھ ایسا نام جھارا‘‘ ’’زہرہ‘‘ اور مجھے بڑا ہی تعجب ہوا۔ زہرہ! نانی بی کا نام ’’زہرہ‘‘ ایسا پیارا نام۔ ایک چھوٹی سی خوبصورت لڑکی کے نام کا سا! اور امی مجھے پروین کہہ کر بلاتیں تو مجھے خاک اچھا نہ لگتا۔ اوں۔ ’’امی مجھے شہجادی کہو۔ پرویں نہیں‘‘ امی سرپیٹ لیتیں۔ ’’ارے کیا ہو گیا ہے میری بچی کو؟ میرے اللہ اس بوڑھی نے کچھ کھلا نہ دیا ہو۔‘‘ آخر امی کونانی بی سے اتنی چڑ کیوں تھی؟ شاید اس نفرت کا سبب حسد بھی تھا۔ ان کی اپنی بچی انہیں چھوڑ کر کسی اور سے ایسی چمٹ جائے انہیں کیسا برا معلوم ہوتا ہوگا۔ پھر جب نسیم اور نسرین پیدا ہوئے تو امی نے یوں انتقام لینا شروع کیا کہ ساری توجہ ان دونوں پر صرف کر دیتیں۔ ہر بات میں ان کی طرف داری کرتیں اور مجھے جھڑکتی رہتیں۔ جب کبھی امی مجھے جھڑک دیتیں تو میرے ننھے دل میں بہت دکھ بھر آتا اور میں نانی بی کے سینے سے چمٹ کر زور زور سے سسکیاں لینے لگتی۔ ’’نانی بی میں تم۔۔۔ تم ہاری بےٹی ہوں۔ امی کی نہیں۔‘‘ رونہ میری ننھی! میری شہجادی کو کس نے رلایا، وہ اپنے لٹکے ہوئے نچلے ہونٹ کو اور سامنے لاکر میری تھوڑی پکڑ کر رونے لگتیں۔ ’’میری بچی! نہ جانے بیگم کا دل اتنی پیاری بچی کو جھڑکنے کیسے چاہتا ہوگا۔ وہ ان دو چھوٹے بچوں پر ہی کیوں جان چھڑکتی ہیں؟ وہ میری شہجادی کے سے کھوبصورت بھی تو نہیں۔‘‘
آخر امی یہ کب سہہ سکتی تھیں۔ وہ صرف انتقام لینے مجھ سے بے توجہی برتا کرتیں۔ دل میں تو مجھی کو سب سے زیادہ پیار کرتی تھیں۔ مجھے یوں الگ ہوتی دیکھ کر کئی بار انہوں نے نانی بی سے ہمارے گھر کا کام چھوڑ دینے پر مجبور کرانا چاہا مگر یہ خیال کرکے کہ مجھے بہت ہی دکھ پہنچے گا اور نانی بی اس سلیقہ سے سب کام سنبھال لیتی تھیں کہ ان کے کام میں کوئی نقص نکالنا مشکل تھا۔ نئے نوکروں سے ایسے سلیقہ کی امید نہ تھی۔ پھر نانی بی کے جادو کا ڈر! امی چپ ہو رہتیں۔ مگر، آخر یہ ہوکر ہی رہا۔ ایک دن نسرین نے میری سب سے پیاری گڑیا توڑ ڈالی۔ اس پر میں نے اسے زور سے نوچا۔ وہ تھی ہی امی کی لاڈلی۔ منہ بسورتے ہوئے امی کے پاس دوڑی۔ ’’ارے کیا ہوا میری بچی کو؟‘‘ ہونہہ ان کی بچی کوبچھو نے کاٹ کھایا تھا۔۔۔ امی کا یہ کہنا تھاکہ نسرین نے دھاڑیں مار مار کر رونا شروع کر دیا۔ ’’آپا پرویں نے میرا۔ منہ۔ نوچ لیا۔ خون۔ نکل۔ آیا ہے۔ اوں۔ اوں ؤ۔ اوں۔‘‘ اف رے مکاری گویا سچ مچ خون نکل آیا تھا۔ بس کیا تھا۔ امی نے مجھے گھسٹ کر طمانچے پر طمانچے لگانے شروع کیے۔ میں نے سسکتے ہوئے کہا، ’’نہیں امی نسرین نے میری گڑیا توڑ دی ہے۔‘‘ میں نے خیال کیا کہ یہ کہہ کر بچ جاؤں گی۔ مگر امی کہیں سننے والی تھیں۔ میں نانی بی کی بیٹی جو ہوئی۔ ’’اونہہ! گڑیا توڑ ڈالی تو دوسری منگوا دیں گے۔ گویا تیری موئی گڑیا میری منی سے زیادہ ہے دیکھ تو میری بچی رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہی ہے۔‘‘ اور ساتھ ہی ایک ایسا چانٹا رسید کیا کہ میں مارے درد کے بے حس ہو گئی۔ نانی بی میرے رونے کی آواز سن کر باورچی خانہ سے بھاگی بھاگی آئی تھیں۔ یہ دیکھتے ہی مجھے امی سے چھین لینا چاہا۔ ’’بیگم آکھر کیوں بچی کو مارے دیتی ہو۔ کیا کھسور کیا تھا اس ننھی نے ننھی سی جان، ناجوں کی پلی، اتنی مار سہہ سکےگی۔‘‘ امی کی آنکھوں سے گویا آگ برس رہی تھی۔ میں اپنی سسکیوں کو روکے سہمی سہمی کھڑی تھی۔ ’’دور ہو جاؤ۔‘‘ امی نے مجھے کھینچ کر نانی بی سے الگ کرتے ہوئے گرج کر کہا، ’’تم کون ہوتی ہو مجھے روکنے والی؟ کیا حق ہے تمہارا اس بچی پر۔ میں اس کی ماں ہوں جو چاہے کر سکتی ہوں۔‘‘
’’نہیں بی بی، سوچو تو۔ ننھی سی جان۔۔۔ گسہ اترنے پر تمہیں خود رنج ہوگا۔‘‘
’’چلی جاؤ، میں ایک لفظ بھی سننا نہیں چاہتی۔ دور ہوجاؤ میری نظروں کے سامنے سے۔‘‘ امی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی۔ میں دوڑ کر نانی بی سے چمٹ گئی۔ پھر کیا تھا۔ امی آگ بگولہ ہو گئیں۔ مجھے بے تحاشا تڑتڑ مارنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ خود مارتی مارتی تھک گئیں۔ ’’اچھا لے جاؤ، اس دیوانی کو بی لے جاؤ میرے سامنے سے۔ یہ میری بچی نہیں۔‘‘ امی نے ایک زور کا چانٹا رسید کرکے مجھے دھکیل دیا۔ نانی بی کی منکوں کی سی آنکھوں میں پانی بھر آیا تھا۔ ’’میرے اللہ کھدا جانے کیوں کچھ روج سے بیگم کادل اس بچی سے پھر گیا ہے۔‘‘ نانی بی اپنے میلے آنچل سے آنسو خشک کرتی ہوئی مجھے گود میں لے کر چلی آئیں۔ روتے روتے میرے ہچکی بندھ گئی تھی۔ کچھ دیر تک تو یہ حالت رہی گویا مجھے آس پاس کی چیزوں کا احساس ہی نہیں۔ اتنے میں نسرین میرے سامنے آ کھڑی ہوئی اس کے ایک ہاتھ میں میری ٹوٹی ہوئی گڑیا تھی اور دوسرے میں چاکلیٹ کا ڈبہ۔ وہ میری طرف شریر نظروں سے دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ پھر اس نے وہ گڑیا زور سے صحن میں پھینک دی۔ میرا منہ چڑا چڑا کر بہت سے چاکلیٹ منہ میں بھرلیے اور ’’نوکرانی کی بیٹی‘‘ کہہ کر قہقہہ لگاتی ہوئی زور سے بھاگی۔ یہ میری برداشت سے باہر تھا۔ میری ہی گڑیا ٹوٹے۔ میں خود ہی خوب پٹوں اور پھر نسرین میری ہنسی اڑا لے، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ’’نانی بی میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ مجھے اپنے گھر لے چلو۔ تمہارا گھر کہاں ہے، نانی بی؟ میں امی کے پاس جانے کے لیے کبھی ضد نہ کروں گی۔ تمہاری بیٹی بن کر رہوں گی۔‘‘
میری بھولی بچی! میرا گھر کہاں؟ گھر ہوتا تو یہاں تمہارے گھر میں رات دن کیوں پڑی رہتی؟ پھر نانی بی مجھے منانے کی بہت کوشش کی۔ مٹھائی لے آئیں ہنسانے والی کہانیاں بنائیں مگر اس دن مجھے اتنا دکھ پہنچا کہ کوئی چیز میرے آنسو کو تھما نہ سکتی تھی۔ میں دن بھر روتی رہی اور رات کو یونہی روتی روتی باورچی خانہ میں ہی نانی بی کے پہلو میں سو گئی۔ دوسری صبح امی کی آواز سے میری آنکھ کھل گئی۔ امی دروازے کے کواڑ سے لگی کھڑی تھیں۔ ان کا منہ سوجا ہوا تھا اور آنکھیں سرخ تھیں۔ شاید وہ بھی روئی تھیں۔ وہ کچھ کہے بغیر نانی بی کی طرف گھور کر دیکھ رہی تھیں، دونوں اپنی اپنی جگہ خاموش، گویا ایک دوسرے کی موجودگی کا احساس ہی نہیں مگر جونہی امی نے یہ دیکھ لیا کہ میں جاگ رہی ہوں۔ یک لخت منظر ہی بدل گیا۔ میں سہمی ہوئی نظروں سے امی کو تک رہی تھی۔ امی نے لپک کر مجھے گود میں اٹھا لیا اور چومنے لگیں۔ ’’میری بچی، مجھ سے ڈرتی ہے۔ کیوں ڈرتی ہو ننھی۔ میں تمہاری ماں نہیں ہوں؟‘‘ زہرہ بی! (امی نے پہلی دفعہ نانی بی کو نام سے پکارا تھا ورنہ ہمیشہ نانی بی ہی کہا کرتیں) تم نے میری بچی کو ڈس لیا ہے۔ تم ناگن ہو! تم کون ہوتی ہو میری بچی کو مجھ سے چھیننے والی؟ تم نے میرے اپنے خون کو چھینا ہے۔ میرے جگر کے ٹکڑے کو چھینا ہے۔ تم ڈائن ہو۔ کہتی ہو میرا دل بچی سے پھر گیا ہے۔ اس کی ذمہ دار تم ہو۔ تمہاری طرف سے میں نے میری ننھی کو اتنا ستایا۔ میں حسد کی آگ میں بھن رہی تھی۔ سن رہی ہو اپنے ظلم کی داستان؟‘‘
’’بی بی، میں کیا کروں بچی کا دل مجھ سے لگ گیا ہے۔‘‘
’’بچی کادل لگ گیا ہے! شرم نہیں آتی بوڑھے منہ سے جھوٹ بولتے۔ تمہیں اپنے سفید چونڈے کی لاج نہیں؟ خدا کی قسم تم نے بچی کو کچھ کھلا دیا ہے۔ جادو کر دیا ہے۔ ورنہ وہ ایسی کریہہ صورت بوڑھی سے مانوس ہو جاتی (میں دل ہی دل میں ملامت کر رہی تھی وہ غصہ میں کیسی کیسی باتیں کہے جا رہی تھیں) میں نے کلیجہ پر پتھر رکھ کر بہت دنوں تک یہ سہا ہے۔ اب میں ایک لمحہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ ہونہہ! برداشت میں ایک موئی نوکرانی کی خاطر یہ رنج سہوں؟ ہونہہ! میں بھی کتنی دیوانی ہوں! ادنیٰ نوکرانی سے دبوں؟‘‘ امی جذبات کی شدت سے کانپ رہی تھیں۔ ’’سنتی ہو، کان کھول کر سن لو۔ تم اب ایک لمحہ بھی اب اس گھر میں نہیں رہ سکتیں۔ چلی جاؤ اسی وقت۔ تمہاری یہ منحوس صورت ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں دیکھنا چاہتی۔ اٹھو، بوریا، بستر باندھ لو۔۔۔ بیٹھی کیا تک رہی ہو۔ مجھے پھٹے پھٹے دیدوں سے؟ کیا مجھ پر بھی جادو کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’بیگم میں تمہارے پاؤں پڑتی ہوں، مجھے کبھی کبھی بچی کو آکر دیکھنے کی اجاجت دو۔ اس دکھ بھری دنیا میں یہ ننھی سی جان ہی میرے دل بہلاوے کا جریہ (ذریعہ) ہے بی بی۔ اس کو بھی نہ چھین لو۔ کھدا کے واسطے اتنا جلم (ظلم) نہ کرو۔ اللہ میاں تمہیں برکت دے۔ میں نے بہت دنوں تمہارا نمک کھایا ہے۔‘‘
’’بچی کو دیکھنے، بچی کو دیکھنے۔ اب تمہارا سایہ بھی اس پر پڑنے نہ دوں گی۔ اگر پھر کبھی تم نے اس گھر میں قدم رکھا۔ تمہاری منحوس صورت دکھائی! میری بچی کو پھر مجھ سے چھیننے۔۔۔ میری ننھی، میں تمہاری ماں نہیں،‘‘ امی نے مجھے بھینچ لیا اور رونے لگیں اور میں حیرت سے کبھی ادھر دیکھ رہی تھی کبھی ادھر۔ ان دونوں مورتوں میں کتنا فرق تھا! ایک جذبات مجسم دوسری گویا پتھر کی مورت۔ امی کی خوبصورت آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ تھیں۔ ان کی لانبی گھنی پلکوں پر آنسو تھرتھرا رہے تھے۔ چہرہ سرخ ہو گیا تھا۔ پھول کی سی تراش کے ہونٹوں کے کونے کانپ رہے تھے۔ مرمریں گردن اور سینہ میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی تھی۔ غم اور حسن کا امتزاج۔
ادھر نانی بی پھٹی پھٹی آنکھوں سے امی کو تک رہی تھیں۔ خاموش نگاہوں میں یاس اور رنج کی ایک دنیا ہوتی مگر بظاہر وہ جذبات سے عاری معلوم ہوتی تھیں۔ پتھرائی ہوئی، وہ بےحس بیٹھی ہوئی تھیں۔ جیسے سکتے کا عالم۔ مگر میرا ننھا دل سچی انصاف کرنا چاہتا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو ضرور امی کی طرفداری کرتا۔ آخر ’’غمگین حسن‘‘ اپنے اندر بہت اثر رکھتا ہے نا۔ مگر مجھ پر نہ تو اس حسن کا کوئی اثر تھا، نہ نانی بی کے پچکے ہوئے گالوں اور پوپلے منہ سے نفرت تھی۔ ہاں مجھے امی پر ترس آرہا تھا، مگر اس دل کا کیا حال ہوگا۔ جس سے ایک عزیز چیز چھین لی گئی ہو۔ امی کے پاس دولت تھی، عزت تھی، ہر طرح کا آرام تھا۔ چاند سے بچے تھے، اس قسمت کی ستائی ہوئی بوڑھیا کے پاس کیا رکھا تھا۔ رہنے کے لیے ٹکا نہ بھی تو نہیں۔ ہاں امی کے چہرے سے بہت رنج ظاہر ہو رہا تھا۔ مگر میں اچھی طرح جانتی تھی۔ ان سادہنگاہوں میں کتنی یاس چھپی ہوئی تھی اور اس سوکھے سینے کے اندر رکا ہوا سیلاب تھا۔ کتنی دبی ہوئی ہلچل تھی۔ کیسا طوفان تھا۔
نسیم کے رونے کی آواز آئی اور امی مجھے گود سے اتار کر آنسو پونچھتی ہوئی اندر چلی گئی۔ نانی بی خاموشی سے ان بستر اور کپڑے باندھ رہی تھیں۔ امی کے جاتے ہی میں دوڑی ہوئی ان کے گود میں جابیٹھی۔ ’’نانی بی مجھے چھوڑ کر چلی جاؤگی نانی بی ’’میں نے سسکتے ہوئے کہا۔ نانی بی نے مجھے گلے لگا لیا۔ پھر کیا تھا جیسے بند ٹوٹ گیا ہو۔ رکا ہوا سیلاب امڈ آیا۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا۔ نانی بی کا دل پگھل کر آنکھوں کے ذریعہ بہہ رہاہے۔ ’’میری بچی، میری ننھی شہجادی۔ تمہیں چھوڑ کے کیسے جاؤں۔‘‘ ’’اچھی نانی بی اقرار کرو، تم مجھے دیکھنے کبھی کبھی آیا کروگی نا؟‘‘ نہیں بیٹی اب اس گھر میں کھدم نہ رکھوں گی۔‘‘ ’’کیوں نانی بی! مجھ سے روٹھ تو نہیں گئی میں تمہارے لیے سب کچھ کروں گی۔ تم جو کچھ کہو وہ سنوں گی۔ نہ روٹھونا نی بی! آتی رہو مجھے دیکھنے۔‘‘
’’اچھا میں جو کچھ کہوں وہ سنوگی؟‘‘ ’’ضرور۔‘‘ ’’مجھے وہ آئینہ کا ٹکڑا دے دونا اچھی بیٹی۔‘‘ نانی بی نے مجھے پیار کرتے ہوئے کہا۔ میں بھاگی بھاگی اپنے کمرے میں گئی اپنے چھوٹے ٹرنک میں سے ریشمی بٹوہ نکالا۔ اس بٹوے میں میں نے قارون کا خزانہ جمع کر رکھا تھا۔ بہت سی ٹوٹی ہوئی چوڑیاں، رنگین ننکے موتیاں۔ کانچ کے ٹکڑے۔ گڑیوں کے ننھے زیور، نئے ڈھالے ہوئے تانبے کے پیسے، جسے میں ’’ساورن‘‘ کہا کرتی تھی۔ سفید چمکتی ہوئی چونیاں، دونّیاں۔۔۔ اسی میں میں نے نانی بی کا آئینہ رکھا تھا۔ آئینہ کے ٹکڑے پر گرد کی تہ جمی ہوئی تھی۔ جگہ جگہ چکنائی کے دھبے بھی تھے۔ پھر بھی کیسا پیارا لگتا تھا وہ آئینہ۔ کیسے خوبصورت کنارے ان پر رنگین شیشوں سے تراشے ہوئے خوبصورت پھول تھے۔ سنہری، عنابی، فیروزی، آسمانی۔ اس دن جب میں نے نانی بی سے یہ آئینہ مانگا تھا تو انہوں نے پیار سے چمکار کر کہا، ’’میری اچھی بیٹی تمہیں مٹھائی لادوں گی۔ یہ نہ لو،‘‘ میں کوئی چیز مانگوں اور نانی بی نہ دیں۔ وہ کبھی نہ، نہ کرتی تھیں۔ ہو نہ ہو اس میں کچھ ہوگا ہی اور میں آئینہ لینے پر مصر ہو گئی۔ ’’ہونہہ میں تو یہ آئینہ ہی لوں گی۔‘‘ بچپن کی ضد۔ میں نے ہٹ کر کئے رو رو کے آخر آئینہ چھین ہی لیا۔ ان آنسو کے معنی کیسے جان سکتی؟ پھر وہ آئینہ میرے ہی پاس رہا۔ کئی بار نانی بی نے ترسی ہوئی التجا بھری آواز میں مجھ سے وہ آئینہ واپس مانگا تھا۔ مگر میں ہر دفعہ رونے لگتی۔ ’’ہوں، وہ غلیظ آئینہ کا ٹکڑا مجھ سے پیارا ہے؟‘‘ نانی بی ناچار چپ ہوجاتیں، ’’مگر آج جب کہ وہ مجھ سے جدا ہو رہی تھیں، مجھے چھوڑ کر چلی جا رہی تھیں میں وہ آئینہ تو کیا سب کچھ دینے کو تیار تھی۔ میں بٹوہ لیے نانی بی کے پاس واپس آئی اور سب خزانہ ان کے سامنے انڈیل دیا۔ میں اپنے دل میں ایک عجیب طرح کی مسرت محسوس کر رہی تھی گویا میں اپنی پیاری چیزیں دے کر بہت بڑا یثار کر رہی ہوں۔
’’یہ سب کچھ لے لو نانی بی، مگر ضرور آتی رہنا۔ نہیں تو میں خوب روؤنگی۔‘‘ ’’اچھا بیٹی، اللہ نے مجھے جیتا رکھا تو جب تم اپنی گھر بساؤگی وہیں آکر جان و دل سے تمہاری کھدمت کروں گی۔ مرتے دم تک وہیں پڑی رہوں گی۔ پھر مجھ پر دو مٹھی کھاک ڈال دینا بیٹی۔‘‘ نانی بی نے ایک سرد آہ بھر کر اپنی چادر اوڑھ لی اور اپنے سامنے پھیلی ہوئی چیزوں سے صرف آئینہ اٹھا لیا۔ اسے آنکھوں سے لگا لیا اور اپنے میلے رومال میں لپٹ کر کرتے میں چھپا لیا۔ پھر مجھے گود میں لے کر میری بلائیں لیں، گلے سے لگایا، پیار کیا اور مجھے آہستہ سے اتار کر اٹھ کھڑی ہوئیں کپڑوں کی گٹھڑی بغل میں دبائی اور سر جھکائے خاموشی سے چلی گئیں۔ اب میں رو نہیں رہی تھی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ نانی بی پھر آئیں گی۔ جب تم اپنا گھر بساؤگی کی شرط کو تو میں سمجھ نہ سکی تھی! میں اپنے بکھرے ہوئے خزانہ کو سمیٹ کر بٹوے میں ڈالنے لگی۔ کیسی پیاری چیزیں تھیں۔ نانی بی نے ان سب کو چھوڑ کر اس گرو آلود ٹوٹے پھوٹے آئینہ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے چند سال اور گزرنے تھے۔ اس کے بعد میں اس آئینہ کی یاد کے بغیر نانی بی کا تصور کر ہی نہ سکتی۔ اب اس وقت کی تمام یادوں میں جب نانی بی کا اور میرا ساتھ تھا اس آئینہ والے واقعہ کا نقش ہی سب سے گہرا ہے ہاں وہ نقش جو کبھی تحت الشعور میں چھپا ہوا تھا۔ اب کتنا صاف ہے! نانی بی کا ایک ایک لفظ ان کی ایک ایک حرکت۔ اس دن کی جب انہیں آئینہ ملا تھا۔ ان کی وہ آئینہ لینے کے لیے التجائیں۔ وہ آخری سین جب انہوں نے آئینہ کو آنکھوں کو لگاکر سینہ میں چھپا لیا تھا، دل کے پاس۔ یہ تصویریں بارہا ابھرتی ہیں۔ یہ یادیں بارہا میرے دماغ میں گھومنے لگتی ہیں اور میں سوچتی ہوں۔ بظاہر اس بے حس مجسمہ میں ایسے جذبات بھی تھے؟ اس بجھے ہوئے دل کی راکھ میں اتنی چنگاریاں دبی ہوئی تھیں۔ اس سوکھے سینے میں اتنی آگ سلگ رہی تھی۔ ایسی یاد چٹکیاں لے رہی تھی، یہ آئینہ انہیں راستہ میں پڑا ہوا ملا تھا۔ جب ہم ہوا خوری کے لیے جارہے تھے ہر شام مجھے نانی بی ہوا خوری کے لیے باہر لے جایا کرتی تھیں۔ ہم گھر سے بہت دور نکل جاتے۔ ایک کھلے میدان کی طرف جہاں بہت سی خودرو گھاس بےترتیبی سے اُگی ہوئی تھی اور دور دور پر کہیں کہیں گھنے درخت تھے۔ شام ہوتے ہی میٹھی بولی بولتی ہوئی چڑیاں ان درختوں پر آ بیٹھتیں۔ ان کے چہچہوں سے ساری فضا شیریں نغموں سے معمور ہو جاتی۔ مجھے یہ جگہ بہت پسند تھی اور میں ہر روز نانی بی کی چادر کھینچتی ہوئی انہیں اس طرف لے جاتی۔ راستہ میں ہمیں ایک چھوٹی سی دوکان ملتی تھی۔ جہاں صرف پان اور بیڑی بکتی تھی۔ نانی بی ہر روز وہاں جاتی تھیں۔ ایک پیسہ کے پان اور سپاری خرید لیتیں۔ وہیں سے ایک پان میں بہت ساچونا بھی مانگ لیتیں۔ دوکان کے سامنے کچھ تختے بچھے ہوئے تھے۔ نانی بی وہیں بیٹھ کر بڑے انہماک سے پان کی نسیں نکالنے لگتیں۔ بوڑھا دکاندار اندر جاکر ’’پانکوٹنی‘‘ لے آتا اور نانی بی کے سامنے رکھ دیتا۔ اتنے میں دو چار پوپلے منہ والی بوڑھیاں اور آ جاتیں۔ سب کی سب پان خرید کر ’’پان کوٹنی‘‘ کا انتظار کرتی ہوئی نسیں نکالنے لگتیں۔ ایک بوڑھے میاں بھی چلم لیے آ جمتے۔ اچھی خاصی محفل جم جاتی۔ مجھے اس بوڑھوں کی مجلس سے بڑی دلچسپی تھی۔ اپنی دونوں مٹھیوں میں نانی بی کی چادر تھامنے ان سے لگ کر کھڑی ہو جاتی اور ان سب کی عجیب عجیب حرکتوں کو غور سے دیکھتی رہتی۔ بوڑھیاں نسیں نکالتی ہوئی، پان کوٹتی ہوئی اور بوڑھے میاں چلم بھر کر کش لگاتے ہوئے ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیتے۔ کبھی اپنے بیٹا بیٹی، پوتے پوتوں کی، کبھی محلے والوں کی اور اکثر ’’ہمارے جمانے‘‘ اور اب کے ’’جمانے کی‘‘ اب کے جیور بھی کوئی جیور ہوئے! بابا ابکی چھوکریوں کا دماگ تو آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ ایک بوڑھی منہ پر زور سے ہاتھ مار کر کہتی۔ پرانے جیوروں کے نام ہی سے کان پکڑتے ہیں۔ ہونہہ ہاتھوں میں دوچوڑیاں، گلے میں باریک ’’سنکل‘‘ کانوں کی لو میں ایک ’’باریک‘‘ کرن پھول یا جھومر اور بس بھلا یہ بھی کوئی جیور ہوئے۔ ہمارے جمانے میں جو پہنتی تھیں کان بھر کر سونے کی پتیاں۔ ہا ہا ’’نحشاروں‘‘ پر جھومتی ہوئی کیسی بھلی لگتی تھیں۔‘‘
’’اور یہ بھی دیکھا، ناک چھدوانا تو گویا عیب ہی ہو گیا۔ چھی چھی کیسی بری لگتی ہے ناک۔‘‘ ایک بوڑھیا نتھنے چڑھاکر نفرت ظاہر کرتی۔
’’نانا یہ جمانے کی چھوکریاں بھی کیسے بال بناتی ہیں۔ تیل نام کو نہیں۔ روکھے بال سر سے دو انگل اوپر اٹھے ہوئے۔ موٹی موٹی لٹیں نکلی ہوئیں۔ سر کو اچھا خاصا کوڑے کا ڈھیر بنا لیتی ہیں، سر کیا ہوا کھاد کا جھوا ہوا۔‘‘ اور ٹیڑھی ٹیڑھی مانگ نکالے کیسے اتراتی پھرتی ہیں۔ حشر کادن پل صراط پر سے پھسل پھسل گر نہ پڑیں تو جب جانیں۔ کیا ہمارے بجرگوں نے جھوٹ کہا تھا، ’’بیچ میں سیدھی مانگ نکالی تو پل بھر میں سیدھے پل صراط طے کرلو۔‘‘ اب تو اللہ ہی بچائے ان ٹیڑھی مانگ والوں کو۔ سیدھی مانگ نکالو چہرہ پر کیسا نور جھلکتا ہے۔ ٹیڑھی مانگ تو کیسی اچھی صورت بگاڑ دیتی ہے۔ اب اس بچی ہی کو دیکھ لو بوا۔ کیسا پھول سا مکھڑا، چاند سی پیشانی، سیدھی مانگ نکالتی تو چہرہ پر کیسی رونکھ آ جاتی اب تو کرسٹان لگتی ہے کرسٹان۔‘‘ اور ایک بوڑھی بھویں چڑھاکر نفرت سے منھ پھیر لیتی۔
کوئی اور میرے ریشمی فراک کوالٹ پلٹ کر دیکھنے لگتی۔ ’’اماں اب کے کپڑے تو دیکھو کیسے کیسے پھیشن۔‘‘
’’واہ بوا، وہ پھیشن کی بھی تم نے ایک ہی کہی۔ ذرادیکھو تو پنڈلیاں ننگی۔ بازو ننگے، لعنت بھیجو لعنت۔‘‘
اور یہ رنگ تو دیکھو بوا، کیسا پھیکا چھی چھی، یہی کیا اب کے سب رنگ پھیکے۔ سب پوچھو تو اجلے رنگ میں اور ان میں کوئی فرق ہی نہیں۔‘‘
’’اونہہ اجلا رنگ! اب کی چھوکریاں اجلے کپڑے پہننے کو بھی عار نہیں سمجھتیں۔ ابھی سے بوڑھیاں بنی پھرتی ہیں، بھلاان بھئی چھوکریاں کو کہیں اجلا رنگ سا جتا ہے۔‘‘
’’ان بھئی چھوکریاں کا۔ ارے بابا اب تو گجب ہو گیا گجب!توبہ توبہ کچھ سہاگ کا پاس بھی ہے انہیں؟‘‘
’’اور ہم کچھ کہیں تو یہ موئی لڑکیاں کہیں ہماری باتوں کو پاس خاطر میں لاتی ہیں اللہ کی ماران پر۔ الٹا ہم سے ٹھٹا مجاکھ کرتی ہیں۔ ہم بوڑھیوں سے مجاکھ۔ ہمارامنہ چڑاتی ہیں۔ اللہ اللہ ان پر کیا کبھی بڑھاپا نہ آئےگا۔‘‘
کبھی شادی بیاہ کی باتیں ہونے لگتیں۔۔۔
’’ہمارے زمانے کی شادیاں شادیاں تھیں۔ کئی ہفتے لگتے تھے، کیسی کیسی رسمیں۔ اب دیکھو چٹ منگنی پٹ بیاہ اور بیاہ بھی کیسا بیاہ، ادھر نکاح پڑھا گیا، ادھر دلہن کی رخصتی ہوئی۔ نہ کوئی رسم نہ ریت۔‘‘
’’اور اب کی دلہنیں تو خالہ! اباری چھوریاں، توبہ توبہ آنکھ کاپانی بہ گیا ہے۔ کیسی ہنسی خوشی رخصت ہوتی ہیں۔ اپنے خسم کے گھر کو، ہم تھے کہ تین تین روز تک آنکھ کا پانی نہ سوکھتا تھا۔ رو رو کے بے سُدھ ہوجاتے تھے۔ اللہ اللہ کیا زمانہ آیا۔‘‘
’’پرسوں میں ایک شادی میں گئی تھی۔ اماں! کاہے کو بولوں اس دلہن کی بے شرمی۔‘‘ اور سب بوڑھیاں تھوڑیوں کو ہاتھ لگائے آنھیں پھاڑے بڑے غور سے سننے لگتیں۔
’’جب اس کی ہمجولیاں چھیڑ چھاڑ کر رہی تھیں تو ہنس رہی تھی۔ بھری مجلس میں نوشہ کے گھر والے بھی پاس ہی بیٹھے تھے، توبہ توبہ ہم پر تو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ ماں بیچاری نے سرپیٹ لیا۔ کیا کرتی سمدھنوں کو منہ دکھانے سے رہی۔ جب رخصتی کا وقت آیا تو وہ تیار ہی بیٹھی تھی۔ اوئی، میرے اللہ ایک بوند بھی نہ تھی، اس چھوکری کی آنکھوں میں؟ نا بابا ہم سے تو رہا نہ گیا۔ آخر بیٹی والوں کی لاج رکھنی تھی، سمدھنوں کے سامنے۔ ہم دو چار بوڑھیوں نے مل کر کپڑے برابر کرنے کے بہانے اسے اتنے زور سے نوچا کہ اس کے چیخ نکل گئی۔ جب کہیں جاکر دوبوند پانی نکلا۔ وہ تو خیر ہوئی کہ چھوکری ہم پر پلٹ نہ پڑی۔ ورنہ رہی سہی عزت بھی جاتی رہتی۔‘‘
’’اچھا کیا بہت اچھا کیا۔ اس بے شرم کے ساتھ ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔‘‘ سب ایک زبان ہوکر کہتیں اور بوڑھے میاں بھی بڑے زور سے سرہلا ہلاکر داد دیتے۔ یہ بوڑھے میاں سرکو ہاتھ لگائے ہمہ تن گوش ہوکر بوڑھیوں کی باتیں سنا کرتے۔ جب کبھی ان کے بات کرنے کی باری آتی تو پگڑی ذرا ہٹاکر (کسی پگڑی ایک بڑے سے رومال کو سر کے گرد لپیٹ لیا کرتے تھے) اپنے چمکتے ہوئے گنجے سر کو زور زور سے کھجلانے لگتے اور بڑی ہی سوچ بچار کے بعد ایک جملہ نکالتے گویا انہیں کی رائے آخری اور فیصلہ کن ہے۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں ہوتیں مگر یہاں بھی نانی بی خاموشی سے سب باتیں سنتیں۔ ’’اب کے جمانے‘‘ پر اتنے اعتراضات سن کر بھی کوئی رائے ظاہر نہ کرتی تھیں اور نہ ہی ان کے چہرہ سے کوئی جذبہ کا اظہار ہوتا۔ شاید ان باتوں سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا۔ پھر جب یہ محفل برخاست ہوجاتی تو میں نانی بی کی چادر کھینچتی ہوئی انہیں اس میدان میں لے جاتی۔
یہاں ہم کسی گھنے درخت کے سائے میں بیٹھ جاتے۔ میں گرے ہوئے سرخ پھولوں سے کھیلنے لگتی۔ پھر انہیں سمیٹ کر اپنے دامن میں بھر لیتی اور نانی بی کی گود میں آ بیٹھتی۔
’’ایک اچھی سی کہانی بولو نانی بی۔‘‘ ’’آج کون سی کانی (کہانی) بولوں‘‘ اور ساتھ ہی اپنی نسوار کی ڈبیا نکال لیتیں۔ ایک چٹکی بھر کر نتھنوں میں چڑھا لیتیں۔ پھر ایک میلا سا رومال اپنی سوسی کے ’’لہنگے‘‘ کے نیفے سے ڈھونڈ ڈھانڈ کر نکالتی ہوئی کہانی شروع کرتیں۔ اچھا سنو ایک باچھا تھا۔ اس کی ساتھ بیٹیاں تھیں۔‘‘ پھر ناس پونچھتی ہوئی آہستہ آہستہ کہتیں۔ اس نے سب شہجادیوں کو باری باری اپنے دربار میں بلایا۔ پوچھا تمہیں کون پالتا ہے، سب بولیں ’’آپ‘‘ مگر چھوٹی شہجادی بولی اور نانی بی اس حیلے سے رومال کو پھر نیفے میں ٹھونس لیتیں۔ اس سے پونچھنے پر بھی کالی کالی دھول کی ایک تہ سی ان کے نتھنوں پر جمی رہتی۔ اتنی باتیں ایک ساتھ کہنے سے ان کے پوپلے منہ کے کنارے پر پان کی لال لال پیک بہ آتی اور وہ ایک طرف پھر کر پیک کو تھوکتی ہوئی اپنی کہانی کو جاری رکھتیں۔‘‘ چھوٹی شہجادی بولی، ’’ہم سب کو اللہ میاں ہی پالتے ہیں اور ہجور آپ کو بھی۔‘‘ اس جواب کو سن کر باچھا۔۔۔
’’کیسی چھوٹی شہجادی نانی بھی؟‘‘ مجھ جیسی؟ میں بیچ میں کہہ اٹھتی اور وہ لپک کر مجھے گود میں اٹھا لیتیں۔ ’’ہاں بیٹی تمہاری جیسی شہجادی ایسی ہی کھوبصورت شہجادی،‘‘ میں خوشی سے پھول جاتی اور نانی بی کی طرف محبت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگتی۔ ’’ننھی کیسا پیارا مکھڑا ہے تمہارا۔ اہا۔ چاند کا ٹکڑا۔‘‘ نانی بی میری بلائیاں لینے لگتیں۔ تٹ تٹ تٹ، ’’دیکھو تو سب انگلیاں ٹوٹیں۔ کتنا پیار ہے مجھے اپنی بچی سے۔‘‘ اور میں اپنی ننھی ننھی باہیں نانی بی کی گردن میں ڈال دیتی۔ اس وقت مجھے ان نتھنوں پر جمی راکھ دھول اور پوپلے منہ سے بہتی ہوئی پیک سے بھی نفرت محسوس نہ ہوتی۔
پھر نانی بی اپنی ہتھیلی پر ذرا سا چونا پھیلاکر۔ پھونک پھونک کر خوش کر لیتیں اور اس میں تھوڑی سی نسوار انڈیل کر ملنے لگتیں۔ ساتھ ہی ساتھ آہستہ آہستہ کہانی بولتی جاتی تھیں۔ ناس گھس گھس کر چھوٹی چھوٹی گولیاں بناتیں اور ایک پیاری بڑی سفید ڈبیا میں۔ بالکل میرے کریم کی ننھی سی ڈبیا کی سی انہیں ڈالتی جاتی تھیں۔ یہ سب کرتی ہوئی وہ بڑی ہی دیر سے کہانی سناتی تھیں۔ ایک ایک جملہ مزے لے لے کر، نانی بی کو کہانی سنانے میں بڑا ہی کمال حاصل تھا۔ بار بار کسی نہ کسی بہانہ سے ایسی جگہ ٹھہرا دیتیں، جہاں میرا اشتیاق بڑھا ہوتا۔ ان کی پیک تھوکنے کے بہانے یا گولیاں بنانے میں بہت ہی منہمک ہوں میں بےتاب ہو جاتی۔
’’اس کے بعد کیا ہوا نانی بی؟ جلدی جلدی کہونا۔‘‘
’’نا بیٹی جلدی بولوں تو کھاک مجا آئےگا۔‘‘ اور یہ سچ تھا۔ ان کے یوں بیان کرنے میں کہانی کا دوگنا مزا آتا اور وہ واقعات کوایسی تفصیل سے اتنی اچھی طرح بیان کرتیں کہ میں اپنے آپ کو اس ماحول میں تصور کرنے لگتی۔ مجھے نانی بی کی ہر کہانی کی ’’شہجادی‘‘ سے محبت ہو جاتی مگر نہ جانے کیوں ان کی ہر ’’شہجادی‘‘ پر کوئی نہ کوئی مصیبت آ پڑتی۔ پھر کہیں سے ایک ’’شہجادہ‘‘ آ ٹپکتا۔ شکار کھیلتے ہوئے یا اور کچھ طریقے سے اور اس شہجادی کو مصیبت سے نجات دلاکر اپنے محل لے جاتا۔ دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگتے۔ نانی بی کی ہر کہانی یوں ہی ختم ہوتی۔ یہ شہجادہ کتنا اچھا ہے۔ چھوٹی شہجادی کو بچانے والا۔ میں سوچا کرتی۔
’’میں چھوٹی شہجادی ہوں، نانی بی!مجھے بھی ایک ایسا چھوٹا شہجادہ لے جائےگا۔‘‘ میں نہایت بھولے پن سے پوچھ بیٹھتی اور نانی بی کی بےنور آنکھوں میں ایک لمحہ کے لیے چمک آ جاتی۔
’’ہاں کیوں نہیں میری ننھی! جب تم بڑی ہوکر انگریجی پڑھوگی۔ کھوب پڑھ کر بی-اے۔ پاس ہو جاؤگی تو۔۔۔ اس پر تم ہو بھی کھوبصورت تمہیں جرور ایک بڑا آدمی بیاہ لے جائےگا۔ کوئی بہت بڑا ہافیسر۔‘‘
’’ہوں، ہوں، بڑا ہافیسر نہیں چاہیے۔ چھوٹا شہجادہ۔‘‘ میں مچلنے لگتی۔
’’ہاں ننھی، وہ شہجادہ ہی ہوگا۔ میری شہجادی وہ دن کب آئےگا۔ اللہ مجھے اس وکھت تک جیتا رکھے۔ تمہیں دلہن بنی دیکھ لوں تو چین سے مر سکوں گی۔‘‘ آہ نانی بی، شہجادہ تمہاری شہجادی کو لینے آ گیا ہے۔ مگر تم اس دنیا میں نہیں ہو۔ کاش تم چند ہی دن اور زندہ رہتیں وہ دن بھی دیکھ لیتیں جس کو دیکھنے کی تمہاری آخری آرزو تھی۔ کو دیکھ کر فرطِ خوشی سے پھولے نہ سماتیں۔ ان کے حسین چہرے کی کتنی ہی بلائیاں نہ لیتیں تم ضرور انہیں شہزادہ ہی سمجھتیں۔
ہاں تو یہ ہمارا معمول تھا۔ میں ہر روز نانی بی کے ساتھ اس میدان میں جاتی۔ کچھ دور پرایک چھوٹا سا گدلے پانی کا تالاب تھا۔ کئی بات میں نانی بی سے کہنا چاہتی تھی کہ اس تالاب تک ہو آئیں، مگر نانی بی کے کہانی بولنے ہی میں اندھیرا ہو جاتا اور ہم گھر لوٹ آتے۔ ایک دن جب نانی بی نے ابھی کہانی شروع نہیں کی تھی میں نے ایک آدمی کو بندریا ساتھ لیے آتے دیکھا۔ اس کے پیچھے بہت سے بچے شور مچاتے آرہے تھے، تالاب کے پاس آکر وہ بندر والا اکڑوں بیٹھ گیا اور اس نے تماشہ دکھانا شروع کیا۔ لڑکے اس کے گرد حلقہ باندھ کر کھڑے ہو گئے۔ چند بے فکرے مرد بھی جمع ہو گئے۔ ’’میں بندر کا تماشہ دیکھوں گی نانی بی تالاب کے پا س لے چلو۔‘‘ نانی بی میری ہر خواہش کو پورا کرتی تھیں۔ انہوں نے مجھے دور لے جاکر ایک اونچے ٹیلے پر کھڑا کیا۔ جہاں سے میں اچھی طرح دیکھ سکتی تھی۔ ’’یہاں نہیں اور بھی قریب لے چلو نانی بی۔‘‘ ’’نابیٹی، یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ اتنے گیر مردوے کھڑے ہیں۔ اوئی میرے اللہ‘‘ اور نانی بی نے چادر کھینچ کر اپنے چہرہ کواور زیادہ ڈھانپ لیا۔ ’’اچھا تم نہیں آؤگی تو میں بھی یہیں رہوں گی۔‘‘ میں نانی کی چادر تھامے تماشہ دیکھنے لگی۔
’’اچھا بیٹا اب اپنی ماں کے گھر کا کام کرو۔‘‘ بندر والے نے ڈگڈگی بجاکر حکم دیا۔
بندریا نے جلدی سے ایک چھڑی اٹھالی اور اسے سر پر رکھ کر ادھر ادھر پھرنے لگی۔ گویا بہت کام کر رہی ہے۔ ’’اچھا اب ساس کے گھر کا بھی کام کر دو بیٹا، بندریا نے زور سے چھڑی زمین پر پھینک دی اور منہ پھلائے ایک طرف جاکر بیٹھ رہی۔
’’بندریا نے چھڑی کیوں پھینک دی نانی بی۔‘‘ کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے چادر کو دو ایک جھٹکے دے کر پھر وہی پوچھا۔ پھر بھی نانی بی نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو نانی بی ایک مٹی کے ڈھیر میں کرید کرید کر کوئی چیز نکال رہی تھیں۔ انہوں نے میری بات سنی تھی۔ کچھ دیر بعد نانی بی نے وہ چیز نکال لی۔ ایک آئینہ کا ٹکڑا۔۔۔ ’’کیسا آئینہ نانی بی مجھے بھی دکھاؤنا!‘‘ نانی بی نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا۔ وہ بڑے غور سے آئینہ کوالٹ پلٹ کر دیکھ رہی تھیں۔ بہت دیر کے بعد انہوں نے دبی آواز میں کہا۔ مجھ سے نہیں اپنے آپ سے۔
’’آہ! انہوں نے ایسا ہی آئینہ میرے لیے منگوایا تھا۔‘‘
’’ایسا آئینہ کس نے منگوایا تھا نانی بی؟‘‘ ’’وہی ہمارے گھر والے، ہمارے آدمی۔‘‘ ’’تمہارے گھر والے کون نانی بی۔‘‘ ’’وہی بجرگوں نے جن سے میرا بیاہ کیا تھا۔‘‘ ’’تو تمہارا بیاہ ہوا تھا نانی بی۔ باجے بجے تھے، تمہارے بیاہ میں؟ اور تم نے اچھے اچھے کپڑے اور زیور پہنے تھے۔ اپنے بیاہ کا قصہ سناؤ نانی بی، آج اوئی میرے اللہ میں تو شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ انہوں نے دوسرے ہاتھ سے آئینہ میرے چہرے کے سامنے پکڑ رکھا تھا۔ کہنے لگے، ’’دیکھو کیسے بھلے لگتے ہیں جھومر تمہارے کانوں میں۔‘‘ میں نے جلدی سے جھومر نکال ڈالے۔ مجھے تو بڑے برے لگتے تھے۔ اتنے لانبے لانبے لٹکے ہوئے، نابابا مجھے تو کھاک اچھے نہیں لگتے۔ وہ ہنس کر بولے، ’’تم تو پرانے ڈگر پر چلتی ہو۔ آکر ون رات چاردیواری میں بند رہتی ہونا۔ تم کیا جانو۔ جمانہ کیسے بدل رہا ہے۔ ارے بھئی یہ نیا پھیشن ہے نیا پھیشن۔‘‘ ’’پھیشن ویشن کیا جانوں مجھے تو انہیں پہنتے شرم لگتی ہے۔‘‘ کھیر جانے دو، یہ آئینہ تو تمہیں پسند ہے۔ دیکھو اسے بھی نہ نہ کہنا۔ بری دور سے منگوایا ہوں، چھتر (۷۰) روپے لگتے ہیں چھتر۔‘‘ اہا آئینہ! آئینہ کیا کہوں۔ کیسا پیارا تھا۔ کھیر یہ تو ایک ٹکڑا ہے۔ اس سے اسکی کھوبصورتی کی کیا کھبر ہے۔ کناروں پر کیسے کیسے رنگارنگ پھول گویا ہیرے جواہرات جڑے تھے۔ دل میں تو بہت کھوس تھی مگر یونہی گلہ کرنے لگی۔ ارے بھلے آدمی کا ہے تو اتنا روپیہ کھرچ کرتے ہو مجھ پر۔ تمہیں تو پیسوں کی کھدر ہی نہیں۔ کیا ٹھیکریاں ہوگئیں ہیں تمہاری نجر میں۔ چھتر روپے بابا۔‘‘ اور وہ میری طرف کیسے پیار سے دیکھ کر بولے تھے، ’’جہرہ تمہیں یوں کھوس دیکھ کر کھیمت ویتی سب کچھ بھول جاتا ہوں۔ تمہاری کھوسی پر چھتر روپیہ تو کیا سب کچھ سدکھے ہیں۔‘‘ آہ! ان کی کونسی کونسی بات یاد کروں۔ ان باتوں کو یاد کروں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ نانی بی نے آنسو پونچھے اور دبی آواز میں کہنے لگیں، ’’آہ اس جمانے میں وہ مجھے کتنا چاہتے تھے، چھتر روپیہ دے کر، اتنی دور سے، پرائے ملک سے میرے لئیے آئینہ منگائے تھے۔ اللہ اللہ یہ آئینہ تو ان کی یادگار محبت ہے۔‘‘ اور انہوں نے اس آئینہ کے ٹکڑے کو آنکھوں سے لگا لیا۔‘‘ اور میں کیسے پھخر سے وہ آئینہ میری سہیلیوں کو بتاتی پھرتی تھی۔ وہ کہتیں، ’’اری جہرہ تو تو بڑے بھاگ والی ہے۔ کیسا اچھا میاں ملا ہے تجھے۔۔۔‘‘
’’آہ کسی کے بھاگ ہمیشہ ایک سے ہوتے ہیں، یہ آسمان کا چکر! یہ جمانا کسی کو سکھی نہیں دیکھ سکتا۔ اپنا دکھڑا کیا سناؤں بیٹی۔ میرا ستارہ بھی گردش میں آ گیا۔ میری کھسمت ایسی پھوٹی ایسی پھوٹی خدا وہ دن دشمن کو بھی نہ دکھائے۔ نانی بی پھر رونے لگیں۔ میرے سسر جاتے رہے۔ اللہ ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔‘‘ نانی بی نے آسمان کی طرف نگاہیں اٹھاکر اپنا آنچل پھیلا دیا۔ ’’میرے باپ سے بھی جیادہ تے ک۔ اللہ کا دیا اتنی دھن دولت تھی۔ باپ کے مرنے پر انہیں کے ہاتھ آئی۔ انہوں نے دنیا ہی کیا دیکھی تھی۔ پیسہ ہاتھ لگا اور ان کا ہر کوئی دوست اور ہمدرد بن گیا۔ اتنے دوست پیدا ہو گئے ہر وکھت انہیں گھیرے رہتے۔ وہ وہ تاریپھوں کے پل باندھتے اور یہ تھے سیدھے سادھے آدمی۔ پھولے نہ سماتے اپنی تعریپھ سن کر۔ سب کو سچے دوست جان کر کھوب کھاطر کرتے۔ انہوں نے دنیا ہی کیا دیکھی تھی کہ اچے ھ برے کی تمیج کرتے اور پھر کھدا نے انہیں ایسا نرم دل دیا تھا۔ کسی کو اپنے درواجے سے دھتکار کر نکالنا ان کے بس کی بات نہ تھی۔ تم جانو بہت سے لچے لفنگے گنڈے بھی جمع ہونے شروع ہو گئے۔ بری صوبت (صحبت) سے اللہ ہر ایک کو بچائے۔ جب پیگمبر کا بیٹا تک کھراب ہو گیا تھا توہم جیسیوں کی کیا بساط۔ پیسہ تو ہر ایک کو کھراب کرتا ہی ہے۔ پھر بھری جوانی۔ ان شہدوں نے اپنی جیبیں بھرنے کے لیے ان کو شراب اور جوئے کا چسکہ لگا دیا۔ کھدا ان سب کو گارت کرے۔ میرے ہیرے ایسے آدمی کو کھراب کیا۔ پھر کیا تھا بیٹی! باپ کی اتنی محبت سے کمائی ہوئی پونجی مہینوں میں اڑ گئی۔ پھر میرے جہیج کی چیزیں بھی ایک ایک کرکے بک گئیں۔ یہاں تک تو کھیر تھی۔ جب کچھ نہ رہا، تو کیا کہوں بیٹی!‘‘ نانی بھی زور زور سے سسکیاں لینے لگیں۔۔۔ تو میرے گہنے مانگنے لگے۔ شراب کے نشہ میں چور آدھی رات کو آتے اور جیور کے لیے تکھا جا کرتے۔ کبھی ہاتھ روک لیتی تو بس میری شامت ہی آجاتی۔ اتنا مارتے، اتنا مارتے، لاتوں سے گھونسوں سے، لکڑی کہیں دیکھ پاتے تو اس سے بھی بے دھڑک پیٹتے۔ میرے ہاتھ پاؤں سوجھ جاتے اور ان پر نیلے نیلے نشان ابھر آتے۔ سارے جیور کپڑے برتن سب ٹھکانے لگ گئے، یہاں تک کہ میرے بدن پر ایک دامنی کے سوا کچھ نہیں رہا۔ پھاکوں پھاکے گجار کے میرے دیدے اندر دھنس گئے۔ کلوں میں گڑھے پڑگئے۔ سوکھ کر کانٹا ہو گئی۔ ایک رات انہوں نے خوب شراب پی لی تھی۔ لڑ کھڑاتے گرتے پڑتے آئے اور باہر دریچہ سے پکارا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے درواجا کھولا۔ مگر وہ اندر نہیں آئے مجھے وہیں بلایا۔ گئی، تو کیا کہوں بیٹی انہیں برابر ہوش بھی نہ تھا۔ رہا سہا کپڑا بھی کھینچنے لگے۔ یا اللہ میں کیا کرتی۔ پوری طاکھت لگائی بہت روئی بھی۔ مگر انہوں نے دامن کھینچ ہی لی۔ وہ دامنی تھی ریشم کی۔ یوں چند پیسوں کی امید میں مجھے ننگ دھڑنگ چھوڑ کر چلے گئے۔ میں اس رات کیا سوتی۔ بدن پر ایک کپڑا نہیں، بھوکی، ٹھنڈ سے ٹھٹھڑی ہوئی، ایک کونے میں دبکی بیٹھی رہی۔ رات بھر اپنی پھوٹی کھسمت پر رویا کی۔ صبح رسوئی میں ادھر ادھر سے کچھ کوئلے جمع کرکے انہیں سلگا کر چولہے کے پاس بیٹھی آگ تاپ رہی تھی۔ ایسے میں کیا دیکھتی ہوں، میرا بھائی آ کھڑا ہوا ہے، کھدایا مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ جمین میں گڑ جاتی ایسی حالت میں، مادرجاد ننگی، کھدایا جمین سکھ (شق) ہوجاتی اور میں اس میں سما جاتی۔ آہ! ہم جیسی گھنا گاروں کی دعا کہاں کھبول ہوتی ہے۔ وہ تو اگلی نیک بی بیوں کا ہی مکھ تھا۔ ادھر دعا ہونٹ سے نکلی اور جمین سکھ ہو گئی۔ کھیر، کیا کرتی، ادھر ادھر دیکھا تو ہانڈیاں پکڑنے کا کالکھ سے بھرا کپڑا پڑا تھا۔ تن ڈھانکنے کو وہ بھی گنیمت تھا۔ جلدی سے اوڑھ کر کونے میں سمیٹ کر بیٹھ رہی۔ بھائی، پھٹی پھٹی حیران نجروں سے مجھے گھور رہا تھا۔ جبان سے ایک لفج بھی نہ بولا۔ میرے میکے والوں کو کچھ کھبر نہ تھی کہ مجھ پر یہاں کیا گجر رہی ہے۔ ہاں ایک دو دپھے میرا بھائی آیا تھا مگر میں کچھ نہ بولی۔ لاکھ کھراب آدمی ہو۔ کتنا ہی ستائے۔ آکھر میرے میاں تھے۔ میں ان کے کھلاپھ کیسے جبان کھولتی۔ اب میرا بھائی چند دنوں کے لیے مجھے میکے لے جانے آیا تھا۔ پچھلی دپھے کہہ گیا تھا جہرہ کتنے دن ہو گئے تمہیں میکے آکر۔ بچاری اماں بہت یاد کرتی ہیں۔ اب میں نوکری کی خاطر پرائی بستی جا رہا ہوں۔ وہاں سے لوٹ آؤں گا تو اب کی دپھے تمہیں جرور بلاکر جاؤں گا اور بیٹی جب وہ آیا تو میں ایسے حال میں تھی۔ ایسی لاچار ایسی بے بس، اسے کتنا دکھ پہنچا ہوگا؟ آکھر کھون سے کھون لگا تھا۔‘‘ اس کے بعد دیر تک نانی بی کچھ بول نہ سکیں۔ روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی۔ کیسی بری حالت ہو رہی تھی ان کی۔ آواز ہی نہ کلتی تھی۔ لٹکا ہوا نچلا ہونٹ اور زیادہ لٹک آتا اور آنسو ابل ابل آتے۔ نانی بی کو اس حالت میں دیکھ کر میرا ننھا دل بھر آیا۔ گو میں ان کی کہانی کو پورے طور پر سمجھ نہ سکی تھی۔ پھر بھی نانی بی کو یوں روتی دیکھ کر میں بھی رونے لگی۔ انہوں نے بہت مشکل سے اپنی حالت سنبھالی۔ آنسو پونچھے اور مجھے سینے سے لگا لیا۔ ’’رو نہ ننھی، تم کاہے کو روتی ہو ننھی شہجادی۔ اتنا درد ہے میرا بچی کو۔‘‘
’’اچھی نانی بی، تمہیں کہانی سنانے سے اتنا دکھ ہوتا ہے تو نہ سناؤ۔ میں اچھی بچی ہوں۔ ضد نہیں کرتی۔ چلو گھر چلیں۔‘‘
’’نہیں بیٹی، تمہیں اپنی دکھ بھری کانی سناکر میرے دل کا بوجھ ہلکا ہو رہا ہے۔ اب تلک میں کسی سے نہ بولی تھی۔ کس سے بولتی۔ اس کھود گرجی (خودغرضی) دنیا میں میرا کوئی درد پہچاننے والا نہیں، مگر تم بیٹی ننھی ہو۔ پر کیسا درد بھرا دل رکھتی ہو۔ اب تم یہ سب کچھ نہیں سمجھ سکتیں۔ جب بڑی ہوگی تو سمجھوگی۔ نانی بی کی یاد کے ساتھ تمہیں آج کی باتیں یاد آئیں گی۔۔۔ اور دکھ سکھ کا کہنا ہی کیا وہ اس جندگی میں لگا ہی رہتاہے۔ پھر میں اتنا سکھ نہیں پاتی تو اتنا دکھ کاہے کو اٹھاتی۔ کھیر۔ لو تمہیں باکھی کہانی بھی سنائے دیتی ہوں۔ کم سے کم دل کا بوجھ تو ہلکا ہو جائے۔‘‘
’’یہ تمہارا کیا حال ہوا ہے جہرہ،‘‘ میرے بھائی نے پوچھا۔ میں پھر بھی کچھ نہ بولی کھدا ہاجر ناجر ہے۔ ان کے کھلاف میری زبان نہ کھلی۔ مگر میرے آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی تھی۔ میرا بھائی روتا ہوا چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ آیا۔ ایک گٹھڑی پھینک کے وہ بولا، ’’لو جہرہ یہ پہن لو،‘‘ اور آپ دوسری طرپھ منہ پھیر کر توشہ دان میں سے کچھ کھانے کی چیجیں نکالنے لگا۔ میں نے گٹھڑی کھولی کپڑے پہنے اور ہم دونوں کھانے پر بیٹھے، کھاتے ہوئے اس نے کوئی بات نہ کی۔ نجریں نیچیں کیے بیٹھا رہا۔ کھا چکنے کے بعد آہستہ سے دبی آواج میں بولا، ’’چلو جہرہ گھو چلو، مجھے اس بدماس کے سب کرتوت معلوم ہو چکے ہیں۔ کھداکی قسم میں تمہیں پھر اس نالائکھ کے گھر بھیجوں۔ اس جالم کو ہمارے گھر میں کھدم رکھنے دوں تو میں ایک باپ کی اولاد نہیں، پھر بھی اس بےگیرت (بے غیرت) نے کھدم رکھا تو محلہ بھر میں پھجیتی (فضیحت) کراؤنگا‘‘ ، پھر وہ کچھ نہ بولا۔ کھا موسی سے مجھے گاڑی میں بٹھاکر گھر لے آیا۔ میں تبھی سمجھ گئی تھی کہ وہ ایسا جرور کرےگا۔ آہ! میں تبھی سمجھ گئی تھی کہ وہ مجھے ان سے پھر ملنے نہ دےگا۔ نانی بی بہت زور سے سسکیاں بھر کر رونے لگیں۔ ’’وہ گھسہ میں یہ باتیں کہتا تو اور بات تھی۔ گھسہ اتر ہی جاتا اور مجھے کچھ آس ہوتی۔ لیکن یہ کہتے وقت اس کے چہرہ پر کیسا سکون تھا۔ گھسہ نام کو نہیں۔۔۔ میں تبھی جان گئی کہ اس کا ارادہ پکا ہے۔ نانی بی نے سرد آہ بھری، ’’میرا گمان صحیح نکلا۔ کچھ دن بعد وہ آئے۔ آہ بیٹی، بیٹی۔‘‘ میں تعجب سے تکنے لگی۔ نانی بی کے سینے میں ایک ہل چل سی مچی ہوئی تھی۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ ’’آہ! کیا کہوں۔۔۔ بے۔۔۔ ٹی ان کے چہرہ پر پچھتاوا تھا۔ اداسی تھی۔ وہ جرور اپنے کئے پر رنجیدہ تھے اور بیٹی ان کے ہاتھ میں ایک نئی ساری بھی تھی۔ میں درواجا کھولنے بھاگی۔ بہت جلد بھاگی۔ پھر بھی میرا بھائی آہی گیا۔۔۔ آہی گیا۔ مجھے جور سے دھکیل کر آگے بڑھا۔ انہیں ایسی ایسی باتیں سنائیں، انہیں شہدا، لفنگا، بدماس کہا۔ بےسرم کہا۔ بےگیرت کہا۔ میرے اللہ! نہیں، کبھی نہیں، وہ بےگیرت نہ تھے۔ ان میں سریپھوں کا خون تھا، میں بھائی کے پاؤں پر گر پڑی۔ ’’اللہ واسطے ایسا نہ کہو بھائی۔‘‘ اس نے مجھے بھی بےگیرت کہا۔ اللہ اللہ یہ سن کر بھی وہ کھاموس کھڑے تھے۔ صرف اتنا بولے، ’’میں تمہارے گھر پڑے رہنے نہیں، جہرہ کو لینے آیا ہوں۔‘‘ اب اس کا تم سے کوئی تعلکھ نہیں۔ سرم نہیں آتی اسے اتن ستاکر۔ میرا بھائی دانت پیس کر برس پڑا۔ کیا میری بہن اتنی سستی ہے ہمارے پاس دو ٹکڑے روٹی بھی نہیں کہ اسے پال سکیں؟ کھدا کی کھسم اگر میری بہن بھوکوں مرے۔ پر اسے، تم جیسے جالم کے پاس نہ بھیجوں گا۔ مار ہی تو دیا اسے میرے بھائی نے ان کے ہاتھ سے ساری کھینچ کر نالی میں پھینک دی۔
’’مجھے جہرہ سے تو پوچھ لینے دو۔ اگر وہ نہ کہے تو میں جرور چلا جاؤں گا۔ اگر راجی ہے تو تمہارا کوئی حکھ نہیں۔ اس پر، وہ میری بیوی ہے۔ میں اسے جرور لے جاؤں گا۔‘‘ ’’ہونہہ! کیوں نہ کہےگی؟ پھر آ جائےگی تمہارے ساتھ اپنا مردہ نکلوانے‘‘ اور میں پیچھے سے رو رو کر التجا کر رہی تھی، ’’بھائی میں جاؤنگی۔ بھائی مجھے جانے دو۔‘‘ اور بھائی نے مجھے آگ برساتی نجروں سے دیکھا۔ ’’چپ بے گیرت کہیں کی۔‘‘
’’نہیں میں جہرہ ہی سے پوچھوں گا۔‘‘ انہوں نے دہلیز پر کھدم رکھتے ہوئے کہا، کھریب تھا، میرا بھائی انہیں دھکا دے کر باہر نکال دے۔ ’’بے سرم اندر کھدم رکھتا ہے؟ ایسا بےسرم نہ ہوتا تو عورت جات کے گہنے بیچتا۔ کیا پوچھتا ہے جہرہ سے۔ وہ تو رو رو کر کہہ رہی ہے، میں اس جالم کے ساتھ نہ جاؤں گی،‘‘ آہ بھائی نے کیسا جھوٹ بولا۔۔۔ کیسا جھوٹ بولا، ’’اگر تجھ میں جرا بی گیرت ہے تو جا فوراً یہاں سے چلاجا۔ پھر کبھی ادھر نہ پھٹکنا۔‘‘ پھر میرے بھائی نے اتنے جور سے کواڑ بند کیا۔ کچھ دیر بعد میں نے ڈرتے کھڑکی میں سے جاکر دیکھا۔ وہ ہمارے گھر سے کچھ دور پر کھڑے تھے۔ آہ بیٹی میں نے اچھی طرح دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں پانی کھڑا تھا، ان کی آنکھوں میں آنسو تھے، پھر وہ چلے گئے۔ ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ وہ بڑے گیرت والے تھے بیٹی۔ اتنا ہونے کے بعد پھر اس گھر پر آتے؟ آہ میرے بھائی نے مجھے کیوں جانے نہ دیا؟ نہ جانے دیا تو کیا ہوا۔ میں موکھا پاکر رات وہاں سے چلی آئی۔ وہاں سے نکل کر انہیں بہت ڈھونڈا بھی مگر کہاں ملتے۔ میرے ایسے نصیب کہاں۔ وہاں سے جو نکلی بیٹی، تو نوکری کے لیے ماری ماری پھری۔ مگر پھر اس گھر میں کھدم نہ رکھا۔ میں ماں کے ہاں چین سے رہ سکتی تھی۔ مگر میری گیرت کیسے کھبولتی کہ وہاں پڑی رہوں، مجھے کسی کے گھر کی نوکری تو کیا کولی، مجوری کرنا منجور تھا۔ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا، بھیک مانگنا منجور تھا۔ مگر اس درواجے پر جانا منجور نہ تھا۔ جو ان پر بند ہوا تھا۔ اگر ہمارے بابا اس وقت پر جندہ ہوتے تو کبھی ایسا نہ کرتے۔ مجھے جرور بھیج دیتے۔ انہیں بیٹی کا لاکھ درد سہی۔ وہ میاں کا درجہ پہچانتے تھے۔ کہا کرتے تھے، عورت کا مکھام سوہر کا گھر ہی ہے۔ بھائی نے جوش میں یہ نہ پہچانا۔ بابا ہوتے تو جرور بھیج دیتے۔ سبھی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ ان کی تو بھری جوانی تھی۔ بعد میں سنبھل ہی جاتے اور مجھے تو ایسا معلوم پڑتا کہ وہ تبھی ڈیڑھ دو مہینوں میں ہی بہت سنبھل گئے تھے۔ پھر میری جندگی کیسے سکھ سے گجرتی! ایک دو دن تکلیف سہہ ہی لیتی اور پھر وہ مارتے تھے تو کیا کچھ جان کر مارا کرتے تھے۔ شراب پی کر انہیں ہوش تھوڑا ہی رہتا تھا۔ صبح جب ان کی حالت اچھی رہتی تو ان نیلے سوجے ہوئے حصوں پر ہاتھ نہ پھیرا کرتے۔ پھر ایک دودپھے تو انہوں نے گرم پانی میں روئی بھگوکر سینکا بھی تھا۔ ان دنوں بھی کبھی کبھی کیسی پیار بھری نجروں سے دیکھ لیا کرتے تھے۔ میں سب کچھ بھول جاتی اور کھدا! کھدایا! ان کی ایسی ایک نجر ہی بس تھی۔۔۔ ایک نجر ہی بس تھی۔‘‘ نانی بی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھیں۔ میں تو ڈر گئی ان کا سوکھا جسم ایسے ہل رہا تھا گویا اس کے اندر بھونچال آ گیا ہو۔ کچھ دیر تک نانی بی خاموش ہو گئیں۔ پھر جب طوفان آہستہ آہستہ تھما کہنے لگیں۔
’’اور ان میں کوئی ایسی ویسی بات بھی نہ تھی۔ سراب جوئے کا کیا کہنا اگر یہ لت پھرشتوں کو بھی پڑے تو نہ چھوٹے۔ مگر کسی کی کیا مجال کے دوسری باتوں میں ان کی طرف انگلی اٹھائے۔ ایسے تھے وہ۔ گیر عورت کی طرپھ کبھی نجر اٹھاکر بھی نہ دیکھتے تھے اور بیٹی! جب مرد میں یہ گُن ہو۔ یہ بات ہو تو عورت کیا کچھ نہیں سہہ لیتی۔‘‘
نانی بی کی طویل کہانی ختم ہو گئی۔ مگر اس کہانی کی بہت سی باتیں میرے دماغ کے کسی کونے میں جا گھسی تھیں۔ صرف ایک بات مجھے اہم معلوم ہو رہی تھی۔ ’’نانی بی کا آدمی انہیں مار کر ان کے زیور چھین لیا کرتا تھا۔‘‘ اور میں بڑی بے صبری سے انتظار کر رہی تھی کہ نانی بی اپنی کہانی ختم کریں تو اپنی ننھی زبان سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ہمدردی ظاہر کرکے انہیں تسلی دوں۔ جب نانی بی نے رونا بند کیا اور آنسو پونچھ لیے تو میں بڑی ہمدرد صورت بنائے بولی،
’’نانی بی! تم سچ مچ کتنا دکھ اٹھائی ہو۔ کیسا خراب تھا تمہارا آدمی۔ تمہیں یوں مار کر تمہارے اچھے اچھے زیور چھین لیتا تھا؟ کیسا خراب آدمی۔ تمہیں اس کی صورت دیکھ کر نفرت ہوتی تھی نا؟‘‘
’’نپھرت بیٹی؟ اس کی صورت سے نپھرت،‘‘ کیا بتاؤں تمہیں وہ کیسا تھا، کیسا ہنس مکھ ک، یسا بانکا سجیلا جوان! گھٹا ہوا بدن، چوڑا چکلا سینہ اور صورت کا تو کیا کہنا۔ چوڑی صورت، یہ اونچی ناک، چوڑی پیشانی، موٹی موٹی کالی آنکھیں۔ میں تو گھنٹوں بیٹھی اس صورت کو تکا کرتی۔ پھر بھی جی نہ بھرتا، جب اجلے اجلے کپڑے پہنے، لال کشمیری رومال کندھوں پر ڈالے باہر نکلتا تو دیکھنے یہ دو آنکھیں بس نہیں تھے۔ میں جلدی جلدی لال پیلا پانی لے آتی اور دیوڑھی کے باہر کھدم رکھتے ہی اتار پھینکتی کہ کہیں چاند سے مکھڑے کو نجر نہ لگ جاے۔ اس کی صورت سے نپھرت بیٹی! وہ تو باچھا ہوں کا باچھا تھا۔ شہجادوں کا شہجادہ!‘‘
’’کیا کر رہی ہو پروین؟ اگر تم اپنی سہیلوں کے نام چٹھیاں لکھ دی ہیں تو لاؤ انھیں رحیم کے ہاتھوں بھجوادوں سب سامان آ گیا ہے، تم آؤ نا خیرون بی کی کچھ مدد کرو۔ بیچاری اکیلی اتنی چیزیں کیسے تیار کر سکےگی۔ دو ایک تم کر لو۔ تم دیکھتی ہو تسنیم تو میری گود چھوڑتا ہی نہیں۔‘‘
’’نہیں امی آج پارٹی نہیں دونگی۔‘‘
’’کیوں بیٹی؟ تم بھی عجیب ہو۔ آج خوشی کا دن ہے۔ جی بھر کے خوشیاں مناؤ۔‘‘
’’اس دنیا میں تو صرف خوشی ہی نہیں ہے امی! اس کے ساتھ غم بھی تو لگا ہوا ہے۔‘‘
’’ہونہہ۔‘‘ امی زور سے ہنس پڑیں۔ ’’ابھی سے قنوطی ہوتی جا رہی ہو۔ اپنی زندگی کے سب سے رنگین زمانے میں ہی۔‘‘
’’امی! شاید آپ کو معلوم نہیں۔ کل نانی بی انتقال کر گئیں۔‘‘ میں نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’پھر وہی نانی بی! سچ مچ اس بوڑھی نے تم پر جادو کر دیا تھا۔‘‘
امی تم اب بھی نانی بی کو نہ سمجھ سکیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.