Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری دعوت

خالد جاوید

آخری دعوت

خالد جاوید

MORE BYخالد جاوید

    میں جو پہاڑیوں سے نیچے لاشیں لایا ہوں، تمہیں بتا سکتا ہوں کہ دنیا رحم سے خالی ہے اور سنو کہ اگر خدا ہی رحم سے خالی ہو تو دنیامیں بھی رحم نہیں ہوسکتا۔

    یہودا امی خائی

    سب سے پہلے تو مجھے یہ اجازت دیں کہ میں آپ کو بتاسکوں کہ اس کہانی کے تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں اور اگر دنیا میں موجود کسی کردار، یا ہونے والے کسی واقعے سے ان کی کسی بھی قسم کی مطابقت ثابت ہوتی ہے تو اس کے لیے کم از کم میں ذمہ دار نہیں ہوں۔ مگر مجھے ایک مکھوٹا چاہیے ہے۔ سچ بولنے کے لیے۔

    اور اس طرح یہ کہانی میری یا آپ کی اخلاقی زندگی میں داخل ہوتی ہے۔ لیکن میں آپ سے ابھی کہہ دوں کہ کہانی کی سچائی کسی اجلاس میں نہیں، زبان کی اندرونی دنیا میں اپنی شرطوں پر ہی حلف اٹھاسکتی ہے۔ یہ ایک قسم کا بڑ بڑانا ہے۔ مدھم اور دھیمے لہجے میں بڑبڑانا۔ دوسری بات یہ کہ میرے اندر اتنی اخلاقی جرأت کبھی نہیں رہی کہ میں کسی صورت اب دیکھیے میں اپنی طرف سے ہرگز ٹھوس احساسات کو تجریدی شکل دینے کی کوئی سعی نہیں کر رہا ہوں مگر یہ ضرور محسوس کر رہا ہوں کہ کسی ان دیکھی طاقت کے تحت یہ احساسات تجریدی بنتے جارہے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، میں بھی نہیں جانتا۔

    مگر اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ میں ایک بے چہرہ بھوت کی طرح اپنے حافظے کو پھر سے پکڑ لینے کے لیے بھٹکتا پھر رہا ہوں۔ اس کے لیے جگہ جگہ مجھے بیچا کا چہرہ لگانا پڑسکتا ہے۔ آپ جانتے ہیں نا کہ بے چہر گی ہر بھوت کا مقدر نہیں۔ میں نہیں جانتا کہ میری یہ بھنبھنی سی آواز کب تک زندگی سے اپنے حصے کی روشنی مانگتی رہے گی۔

    ’’آنپ کیں پانس مانچس ہوں گیں ؟‘‘

    یقیناً اگر زندگی نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو پتھر کی ہوجائے گی۔

    تو یہ دراصل اپنے حافظے کے پیچھے میری ہی دوڑ ہے۔ ایک جنگ کی طرح یہ ایک مرا راستہ ہے۔ اپنی نجی اور اداس بدشگونیوں سے بھرا ہوا راستہ۔

    جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے وہ شام انتہائی سرد مگر جاڑوں کی عام شاموں کی طرح تاریک سی یا اپنی بل میں دبکی ہوئی سی نہیں تھی۔

    ’’آج بھی چاندنی رات ہوگی۔‘‘ میں نے دل میں خیال کیا تھا۔

    اندھیری چکردار گلیوں میں سے گزرتا ہوا جب میں ان کے گھر کے دروازے کے تقریباً سامنے پہنچنے ہی والا تھا تو اچانک بجلی آگئی۔ قطار سے بنے تقریباً ایک جیسے گھروں کی دیواروں کے نچلے حصے پر بنے ہوئے سنڈاس روشن ہوگیے۔ گلی کو درمیان سے کاٹتی ہوئی نالیوں میں کالا پانی چمکنے لگا۔ ٹین کے کواڑ میری دستک سے غیر معمولی طور پر بجنے لگے۔ کھڑکی کا ایک پٹ تھوڑا سا کھلا۔ کالے مفلر میں لپٹا ان کا چہرہ تھوڑا سا باہر آیا، پھر پٹ زوردار آواز کے ساتھ بند ہوگیا۔ اندر ہلکی سی ہلچل محسوس ہوئی، جیسے کوئی میز یا کرسی فرش پر ادھر سے ادھر کھینچی گئی ہو۔ ٹین کے کواڑ کھل گیے۔

    ’’آؤ! آؤ کہاں رہ گئے تھے ؟‘‘ کالے مفلر میں لپٹے ان کے مغموم اور سنجیدہ چہرے پر دو آنکھیں تشویش سے پر تھیں۔ میں نے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ سے ملانے کے لیے آگے بڑھایا۔ مگر تب ہی میں نے غور کیا کہ ان کے دونوں ہاتھ کسی شے میں سنے تھے جن کو وہ دانستہ طور پر کپڑوں سے الگ کیے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال لیا اور ان کے بیٹھک نما کمرے میں داخل ہوگیا۔ وہاں تخت پر کھانا لگا ہوا تھا۔ ہمارے مشترکہ دوست (جو غزل کے بہت عمدہ شاعر ہیں اور اب آگے اس کہانی میں انہیں غزل گو کہہ کر ہی مخاطب کروں گا) چمڑے کی سیاہ جیکٹ میں ملبوس کھانا کھا رہے تھے۔

    غزل گو کا چہرہ خشک اور ستا ہوا رہتا ہے۔ سردیوں میں ان کے چہرے کی یہ خصوصیات اور بھی بڑھ جاتی ہیں۔ مفلر میں لپٹے اپنے چہرے کو ایک بار آستین سے پونچھتے ہوئے صاحب خانہ نے کہا،

    ’’بس جلدی سے آجاؤ۔‘‘

    ’’کیا بات ہے، آپ لوگوں نے اتنی جلدی شروع کردیا؟‘‘ میں نے گھڑی کو ناخوشگواری سے دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ارے بھئی۔۔۔ ہم لوگوں نے ابھی ابھی کھانا شروع کیا ہے۔ کافی دیر سے تمہارا انتظار کر رہے تھے۔ بلکہ یہ تو آدھ گھنٹہ پہلے تمہیں گھر سے لینے بھی گیے تھے مگر تم گھر پر تھے ہی نہیں۔‘‘ غزل کے شاعر نے بے حد شائستگی سے صفائی دی۔

    ’’مگر جناب ابھی تو آٹھ بجے ہیں۔ نو بجے سے پہلے ہی رات کے کھانے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مجھے تو ابھی بھی بالکل بھوک نہیں ہے۔‘‘ میں پس و پیش میں پڑتے ہوئے بولا۔

    ’’نہیں۔ تم سمجھتے نہیں۔ بس آؤ بیٹھ جاؤ۔ یہ لو رکابی۔‘‘ صاحب خانہ (یہ نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں) نے تشویش ناک انداز میں کہا۔ وہ جب مفلر باندھتے ہیں تو ان کا چہرہ حد سے زیادہ مغموم نظر آنے لگتا ہے۔ مگر آج مغمومیت کے ساتھ ساتھ اس پر پراسراریت کے آثار بھی نمایاں تھے۔

    میں آج رات یہاں ایک دعوت پر مدعو تھا۔ یہ دعوت اس سلسلے میں منعقد کی گئی تھی کہ ان کی ایک نظم ایک اعلیٰ ادبی جریدے میں شائع ہوئی تھی۔ نظم میں ملک کے نامساعد حالات کو بڑے ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا تھا اور میرے خیال میں یہ نظم بیانیہ شاعری کی ایک اچھی مثال تھی۔ اس دعوت کے سلسلے میں دوباتیں گوش گزار کرنا ضروری ہیں۔

    پہلی تو یہ کہ یہ دعوت ہمارے مشترکہ دوست (جو غزل کے بہت عمدہ شاعر ہیں) کے پیہم اصرار پر منعقد کی گئی تھی، اور دوسری یہ کہ یہ دعوت ایک بہت ہی روایتی قسم کے کھانے پر مشتمل تھی۔ اس روایتی قسم کے کھانے کی مقبولیت سردیوں میں بڑھ جاتی ہے۔ اس کھانے کے بیشتر بلکہ تقریباً تمام اجزا بڑی بڑی ہڈیوں پر مبنی ہیں۔ میں ایک بار زور دے کر کہوں گا کہ اس کھانے کے دوران آپ ان بڑی بڑی ہڈیوں کو ہرگز نظرانداز نہیں کرسکتے، ہرگز نہیں۔

    اتنی جلدی کھانا کھانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ میں کئی لوگوں سے مل کر اور وہاں باقاعدہ ناشتہ وغیرہ کرکے یہاں آیا تھا۔ میرا پیٹ بھرا ہوا تھا۔ میں تو صرف اس لیے اپنی دانست میں یہاں جلدی پہنچ گیا تھا کہ کھانے سے پہلے ان کی نظموں اور ان کی غزلوں اور اپنے افسانوں پر (اگرچہ افسانوں پر آخر میں) ایک تبادلۂ خیالات کرنے کا موقع مل جائے گا۔ یہ تو ہے کہ یہ تبادلۂ خیالات ہمیشہ کی طرح کچھ فرسودہ اور سنی سنائی باتوں پر ہی مشتمل رہتا ہے، پھر بھی بالکل تبادلۂ خیالات نہ ہونے سے بہتر ایک فرسودہ تبادلۂ خیالات ہی ہے۔ جی ہاں۔ اور آپ یہ بات فخر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں بلکہ اس مشہور زمانہ مقولے کے برابر میں شان سے لکھ سکتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے، یا اس سے ملتا جلتا ہے۔ فی الحال میں اسے صحیح طور پر یاد کرنے سے قاصر ہوں۔ ’’یہ بہتر ہے کہ تم ایک غیرمطمئن اور مغموم سقرط بن جاؤ، بجائے اس کے کہ تم ایک مطمئن اور مسرور سور بن جاؤ۔‘‘

    ہم سور نہیں بننا چاہتے ہیں۔ جی ہاں ہماری ساری دماغی کاوش دراصل اس نکتے میں پوشیدہ ہے کہ ہم ایک غیرمطمئن اور مغموم سور بھی نہیں بننا چاہتے۔

    مگر آگے چل کر آپ کو اس افسوس ناک امر کے بارے میں علم ہوگا کہ ہمیں تبادلۂ خیالات کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ مگر یہ اس تبادلۂ خیالات کو کرنے کا جوش ہی تھا جو میں بے حد تیز تیز چلتا ہوا ان اندھیری چکردار گلیوں سے گزرتا ہوا یہاں تک پہنچا تھا۔ جب میں تیز تیز چلتا ہوں تو میرے کاندھے آپ ہی آپ جھک جاتے ہیں۔ مگر آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ میری طبیعت کو یہ کتنا گراں گزرا ہوگا کہ جب میں ان کے بیٹھک نما کمرے میں داخل ہوا تو صاحب خانہ اور غزل کے شاعر، دونوں باقاعدہ کھانا کھارہے تھے بلکہ تقریباً کھانا ختم کرچکے تھے۔ میں کچھ شش و پنج میں پڑتا ہوا تخت پر بیٹھ گیا۔

    ’’جوتے اتارو اور سنبھل کر بیٹھ جاؤ۔ یہ لو رکابی۔‘‘ صاحب خانہ نے پرخلوص لہجے میں کہا۔ میں نے جب جوتے اتارے تو ایک ناگوار بو کمرے میں پھیل گئی۔ سردیوں میں میرے پیر بہت پسیجتے ہیں۔

    ’’دراصل بات یہ ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ انتہائی رازدارانہ لہجے میں میرے کان کے پاس اپنا منھ لے آئے، ’’۔۔۔ کہ ان کی حالت آج شام پانچ بجے سے بہت خراب ہے۔۔۔ تم میرا مطلب سمجھ رہے ہو نا؟ کسی بھی وقت کچھ ہوسکتا ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔ ؟‘‘ میں احمقانہ انداز میں بولا، حالانکہ ان کے تئیں یا اس امر کے تئیں یہ میرا سب سے زیادہ سنجیدہ انداز تھا۔

    ’’ہاں!‘‘ انہوں نے سرہلایا۔ اور مفلر میں لپٹے ان کے چہرے کی مغمومیت کچھ اور نمایاں ہوگئی۔

    ’’اسی لیے ہم نے دیر نہیں کی۔‘‘ غزل گو نے کھانا ختم کرکے پانی کا کٹورہ ہونٹوں سے لگا لیا۔ کٹورہ تانبے کا تھا۔ وہ ہمیشہ تانبے کے کٹورے میں ہی پانی پیتے ہیں۔ اس سے ان کے خون کا دباؤ ٹھیک ٹھاک رہتا ہے۔

    ’’بس شروع کرو۔ لو ٹھیک سے سالن نکالو۔ اب دیر مت کرو۔ وہ کبھی بھی۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ مرسکتی ہیں۔‘‘ صاحب خانہ نے سفید تام چینی کا خوبصورت ڈونگا میری طرف بڑھایا۔ ڈونگا چھوٹی بڑی اور مختلف اشکال والی ہڈیوں سے لبالب بھرا تھا۔

    ’’وہ کبھی بھی مرسکتی ہیں۔‘‘ میں نے ایک بار اپنے دل میں دہرایا اور پھر کھانے پر ٹوٹ پڑا۔

    اب کمرے میں تقریباً سناٹا تھا۔ صرف دیوار پر لگی گھڑی ٹک ٹک کر رہی تھی۔ وہ دونوں تخت سے اترکر سامنے پڑے صوفے پر بیٹھ گیے تھے اور انہوں نے اپنے اپنے سگریٹ سلگالیے تھے۔ میں تخت پر پالتی مارے بیٹھا تھا۔ میری تنگ پتلون کمر اور پیٹ پر پھنس رہی تھی (اِدھر چند ماہ سے میری توند پھر نکل آئی ہے) میں بے تحاشہ کھائے جا رہا تھا۔

    میں بے تحاشہ کھائے جارہا تھا اور یقیناً یہ ایک حیرت انگیز بات تھی۔ ایک ناقابل فہم سی بات۔ ان کی زبان سے یہ جملہ سنتے ہی کہ وہ کبھی بھی مرسکتی ہیں، میرے اندر نہ جانے کہاں کی اور کب کی سوئی ہوئی بھوک جاگ اٹھی تھی۔ میں ازلی بھوکا تھا۔ اگرچہ بھوک انسانی قالب میں پوشیدہ ایک حیوان کی ضرورت بلکہ جبلّت تھی، مگر شاید اس وقت میرے شانوں پر ایک اجتماعی بھوک سوار تھی۔ میں اپنے لیے نہیں لاشعوری بھوک کے پھندے میں پھنسی نسل انسانی سے پہلے نموپذیر ہونے والی تمام چھپکلیوں کے لیے کھا رہا تھا۔ میں ارتقا کے سفر میں، اجنبی راستے پر ایک خود رو جنگلی پودے کی طرح اگے ہوئے انسانی جبڑے کا قرض ادا کر رہا تھا۔ وہ ایک اکیلا جبڑا، جس نے چبانا سیکھا تھا۔ تبدیل ماہیئت ہوتی ہوئی گھٹتی، اور لتھڑتی ہوئی زندگی کا اتارا گیا ایک ایک چھلکا میرے اوپر آسیب کی طرح سوار تھا۔

    لیکن یہ سب تو میں اب سوچ اور بیان کرسکتا ہوں۔ اس وقت تو بس میں صرف کھا رہا تھا۔ پاگلوں کی طرح۔ بغیر کسی جذبے کے۔ نہ سکھ نہ دکھ نہ گھبراہٹ نہ پریشانی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بھی ایک قسم کی اعصاب زدگی ہی ہو۔ ’’اس سے پہلے کہ وہ مرجائیں، تم کھانا کھالو۔‘‘ میرے جسم میں اپنی عریانی کو سمیٹتی ہوئی بے حیا زندگی ترغیب آمیز لہجے میں بولی۔ میں کھائے جاتا تھا۔ میرے منھ سے ہڈیاں چوستے وقت سسکاریاں نکلتیں، تھوک کے جھاگ اڑتے، شوربے میں انگلیوں کے پورے اور ناخن سب ڈوبے جاتے تھے۔ کپڑوں پر سالن گرنے لگا۔ سامنے رکھی روٹیاں آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں۔ تام چینی کا ڈونگا خالی ہونے لگا۔ تخت پر بچھی سفید چادر گندی ہونے لگی۔ دراصل مجھے اپنے منھ اور حلق میں چلتے نوالوں اور کسی کی دم توڑتی ہوئی سانسوں کے درمیان ایک خاص رفتار کو برقرار رکھنا تھا۔

    میں ایک دوڑ لگا رہا تھا۔ ایک لمبی، نجی مگر بے حد خودغرض دوڑ، میں ایک سجے سجائے برق رفتار گھوڑے پر شاہانہ انداز سے سوار تھا۔ زندہ میں موت سے آگے نکل جانا چاہتا تھا۔ کیا میں اپنی موت سے مقابلہ کر رہا تھا؟ شاید ہاں، شاید نہیں۔ کیونکہ اس مقابلے میں جیت کا امکان صرف اس طرح پیدا ہوسکتا تھا کہ میں اپنے دانتوں، جبڑوں، زبان اور رال میں بدل جاؤں۔ نوے سال کی ایک بوڑھی عورت کی پل پل ڈوبتی سانسیں، بند آنکھیں اور پوپلا منھ میرے خطرناک دشمن تھے۔ مجھے ان سے مقابلہ کرنا تھا۔ میں یقینا ہار بھی سکتا تھا۔

    مگر دیکھیے، اب مجھے واقعتاً یہ احساس ہونے لگا کہ یہ تو کچھ جواز یا صفائی پیش کرنے جیسی بات ہوتی جارہی ہے۔ نہیں، میں آپ سے قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اس وقت میں صرف اور صرف کھا رہا تھا اور یہ بھی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں لاکھ کوشش کرنے پر بھی آپ کو یہ نہیں بتاسکتا کہ میں اس وقت کھانے کے علاوہ اور کیا کر رہا تھا۔ اس لیے میری نیت پر شک آپ ہرگز نہ کریں ورنہ اس کہانی میں آپ کی دلچسپی اگر ختم نہیں تو کم ضرور ہوجائے گی۔

    اب اگر بے حد سادگی سے کہوں تو بس اتنا ہے کہ میں یہ چاہتا تھا کہ وہ میرے کھانا کھا لینے سے پہلے ہی کہیں مرنہ جائیں۔ اصل نکتہ اس امر میں پنہاں ہے۔ اگرچہ میں اسے اتنی آسانی اور بے حیائی سے اجاگر نہیں کرنا چاہتا۔ ابھی تو میں ایک احساس کو دوسرے احساس کی زمین پر بساط کی طرح بچھا رہا ہوں۔ یہ شطرنج کی ایک عیارانہ چال ہے۔ کسی حدتک سفلہ پن لیے ہوئے جس میں میرے دائیں ہاتھ کی لکھتی ہوئی انگلیوں کی اکڑن کا احساس بھی شامل ہے۔

    اور بالآخر میں کامیاب ہوا۔ میں نے کھانا ختم کرلیا اور وہ نہیں مریں۔ میں نے سرخرو ہوکر ماتھے سے پسینہ پونچھا (مسالہ دار کھانوں کی وجہ سے جاڑوں میں بھی مجھے پسینہ آ جاتا ہے حالانکہ اس بے ہنگم انداز میں وحشیوں کی طرح کھانا کھانے کی وجہ سے میرے سر کے بالوں کے درمیان بھی پسینہ آگیا تھا اور بال گیلے ہوگئے تھے۔) لیکن یہ اس احساس کا صرف ایک رخ یا اس کا عمومی بیان ہے۔ اگر گہرائی سے سوچوں اور غور کروں تو پاتا ہوں کہ بھوک کے آگے میں ایک فاحشہ کی طرح بچھ گیا تھا۔ میری آنکھوں بلکہ ناک تک سے پانی نکل رہا تھا۔

    ’’مرچ کچھ کھل گئی ہے۔‘‘ صاحب خانہ نے کچھ افسوس کے ساتھ کہا۔

    ’’کچھ شوربہ بھی پتلا رہا۔‘‘ غزل کے شاعر نے سگریٹ کا لمبا سا کش کھینچا اور ان کے ہونٹ زیادہ خشک نطر آنے لگے۔

    ’’نہیں۔۔۔ ایسی بات نہیں۔۔۔ بہت اچھا مال تھا۔۔۔ روغن بھی خوب دیا۔ میری انگلیاں آپس میں چپک رہی ہیں۔‘‘میں نے صاحب خانہ کو اپنی انگلیاں دکھاتے ہوئے دل کھول کر کھانے کی تعریف کی۔ پھر تخت پر بچھے دسترخوان پر پڑی ہڈیوں کو دیکھنے لگا۔

    میرا ہمیشہ یہ ایقان رہا ہے کہ کھانا یا ناشتہ وغیرہ جب دسترخوان یا میز پر لگایا جاتا ہے تو بڑا کشش انگیز محسوس ہوتا ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ اسے دیدہ زیب بنانے کی حتی الامکان کوشش بھی کی جاتی ہے۔ لیکن اگر آپ اسے دیدہ زیب یا پرکشش بنانے کی پروا نہ بھی کریں تب بھی پکائے جانے والے برتنوں میں سے نکلا ہوا کھانا اپنے فطری خدوخال میں یا اپنی ماہئیت میں ہی ایک قسم کی جاذبیت رکھتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ کھانا کھاچکنے یا ناشتہ کرلینے کے بعد لوگ عام طور پر اس کی زیادہ پروا نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر پلیٹ میں چھوڑے گیے ایک دو بسکٹ اداسی سے ادھر ادھر پڑے رہتے ہیں اور ہڈیاں، ان کی تو بات ہی مت پوچھیے۔ وہ تو بہت ہی بھدے پن اور بدسلیقگی کے ساتھ پلیٹ میں ڈال دی جاتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ چھوٹی بڑی ہڈیوں کو اگر ذرا حساب کتاب سے منظم کرکے لگادیا جائے تو کھانے کے بعد کی حیوانی تشفی کے بعد کافی حد تک جمالیاتی یا روحانی تشفی بھی ہو جائے۔ کچھ کچھ اس طرح جیسے جسمانی ملاپ کے بعد عورت اور مرد کروٹ بدل کر خراٹے نہ لینے لگیں اور تھوڑے سے رومانی ہوکر (دکھاوے میں ہی سہی) ایک دوسرے کی بانہوں میں سمٹ کر آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔

    یہی سبب تھا کہ کھانا کھانے کے بعد دسترخوان اور رکابی میں پڑی یہ ہڈیاں اپنے غیر آرٹسٹک منظر کی وجہ مجھے افسردہ سی نظر آئیں۔ مگر اب سوچتا ہوں تو واضح طور پر محسوس ہوتا ہے کہ چوسی گئی ہڈیوں کا یہ ڈھیر شاید اپنی اداسی کی وجہ سے قدرے دلچسپ بھی نظر آتا تھا۔ یا ممکن ہے کہ ایسا صرف ہڈیوں کی بدنمائی اور بھدے پن کے درمیان جو ایک ناقابل فہم سا رشتہ ہے، اسے کوئی نام دے دوں۔

    ماچس کی ایک تیلی نکال کر میں دانت کریدنے لگا اور تھوڑی سی دیر کے لیے خالی الذہن ہوگیا۔ جب آپ ماچس کی تیلی سے دانت کریدتے ہیں تو ایک صوفی کی طرح بے نیاز ہوجاتے ہیں۔

    ’’سنا ہے آج کل یورپ میں شترمرغ، زیبرا اور کنگارو کا گوشت کھایا جارہا ہے۔‘‘ غزل گونے بلند آواز میں کہا۔

    ’’اوں۔۔۔ وہ، وہاں بکروں وغیرہ میں منھ اور پیروں کی بیماری پھیل گئی ہے۔‘‘ صاحب خانہ (جو نظم کے بہت اچھے شاعر ہیں) کی تقریباً کپکپاتی ہوئی آواز اس اطلاع کی تمام فالتو مقدار کو کمرے کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک رگڑنے لگی۔

    ’’کنگارو کا گوشت کیسا ہوتا ہوگا؟‘‘ میں نے ماچس کی تیلی پھینکتے ہوئے کہا۔

    ’’میرا خیال ہے کہ کچھ کھٹا کھٹا سا ہوگا۔‘‘ نظم کے شاعر نے پر اعتماد لہجے میں جواب دیا۔

    ’’ضروری نہیں۔ مگر ریشے بہت ہوتے ہوں گے۔‘‘ غزل کے شاعر نے اپنی سیاہ چمڑے کی جیکٹ پر ہاتھ پھیرا۔

    ریشوں والا گوشت مجھ سے کھایا نہیں جاتا۔ اس کی وجہ میری ڈاڑھ میں لگا کیڑا ہے۔ کیڑے نے وہاں نہ جانے کیا کیا چاٹ ڈالا ہے۔ وہاں جو چیز بھی پھنس جائے، سڑنے لگتی ہے۔ اس کے بعد گال کا نچلا حصہ سوجنے لگتا ہے۔ حلق کے پوشیدہ غدود باہر ابھر آتے ہیں۔ دانت سے ٹیس اٹھتی ہے۔ مگر اس عارضے میں مبتلا ہوکر مجھے اپنی ڈاڑھ کو ہمیشہ زبان سے کریدتے اور ٹھیلتے رہنے کی بھی عادت پڑگئی ہے۔ اور جب میں ایسا کرتا ہوں تو نرم ملائم، اجنبی گوشت کا سراسیمہ سا کردینے والا ذائقہ ملتا ہے۔ جن کی ڈاڑھیں نہیں گلتیں یا گرتیں وہ اس پراسرار اندھے ذائقے کو کبھی محسوس نہیں کرسکتے۔ ابھی انسان کے اندر کتنا گوشت، کتنی ہڈیاں اور کتنی جھلیاں ایسی ہیں کہ ’’زبان‘‘ کی رسائی وہاں کبھی ممکن نہیں ہوگی۔

    میں نے چاہا کہ منطقی اثبات پسندوں کے نظریۂ زبان کو بلند آواز میں بیان کرنے لگوں۔ مگر اس کے بجائے میں نے ہلتی ڈاڑھ کے عقب میں چھپے گوشت کے اس ذائقے کو فتح کرنے کے لیے غرور کیا۔

    ’’اچھا صاحب۔ یہ لوگ سب کچھ کھالیتے ہیں۔ بس باتیں ہی باتیں ہیں۔‘‘ صاحب خانہ نے اپنا کالا مفلر کچھ اور قاعدے سے لپیٹا۔

    ’’کون لوگ؟‘‘ غزل کے شاعر نے پوچھا۔ پھر فوراً ہی سمجھ گیے۔ آنکھیں چمک اٹھیں، ’’اچھا۔۔۔ یہ لوگ! ہیاں یہ تو ہے۔‘‘

    ’’مگر یہ لوگ ایسے نہیں کھاسکتے۔‘‘ میں نے بکھری ہوئی ہڈیوں کی طرف اشارہ کیا۔

    ’’بنتے ہیں۔ سالے سور کھارہے ہیں۔ یہ نہیں کھاسکتے۔‘‘ نظم گونے اپنے چہرے پر طنز اعلیٰ پیدا کرلیا جو کالے مفلر کی وجہ سے کچھ اور گہرا محسوس ہوا۔ غزل کے شاعر نے کھنکارا۔ جب وہ اس طرح کھنکھارتے ہیں تو ہمارے علم میں ضرور اضافہ ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہنا شروع کیا،

    ’’ان لوگوں کا تہذیبی اعتبار سے ذائقے کا کبھی مکمل ارتقا ہی نہیں ہوسکا۔ میرا مطلب ہے کہ یوں تو یہ لوگ جانے کیا الابلا کھاتے رہے۔ گھاس پھوس سے لے کر طرح طرح کے جانور، کیڑے مکوڑے، مگر وہ جو ایک معیار ہوتا ہے ذائقے کا۔۔۔ بلند، اعلیٰ اور نفیس، اس کے لیے ان کی زبان میں کبھی خلیے ہی نشوونما نہ پاسکے۔ یہ سب ان کی تہذیب کے ارتقا کے اچانک ٹھہر جانے کے باعث ہوا اور صاحب کھانے کا کوئی تعلق روحانیت سے نہیں ہے۔ آپ کسی بھی قسم کا گوشت کھاکر کسی بھی قسم کے رِشی منی ہوسکتے ہیں۔‘‘

    مجھے معاف کیجیے اگر میں اس منظر اور گفتگو کو ہو بہو آپ تک نہیں پہنچا رہا ہوں۔ شاید یہ سب انہوں نے بالکل اسی طرح نہیں کہا تھا۔ آپ یہ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ شاید میں اس موت کو بھول گیا ہوں جسے میں نے کھانا کھاکر جیت لیا تھا۔ مگر نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ فی الحال میں ایک احساس کو دوسرے احساس کی زمین پر بساط کی طرح بچھا رہا ہوں اور میرا یہ عیارانہ کھیل ابھی جاری ہے۔ مگر آپ مجھ سے قسم لے لیجیے کہ میں کہیں بھی تمثیل یا علامت کا استعمال کروں۔ اور استعارہ، اس سے تو میں بہت پہلے تائب ہوچکا ہوں کہ وہ تو کہانی کے خوبصورت باغ میں گھس آیا ہوا جنگلی سور ہے۔ (اس کم بخت جانور کا نام نہ جانے کیوں آج بار بار ذہن میں چلا آرہا ہے۔)

    ’’آپ لوگوں نے شاید کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ۔۔۔‘‘ صاحب خانہ نے دوسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے کہا۔ اس وقت ان کا چہرہ انتہائی سنجیدہ تھا جس پر کسی بے حد پوشیدہ مگر اہم ترین نکتے کو اجاگر کردینے کاجنون بھی نظر آرہا تھا۔

    ’’کہ یہ لوگ دراصل ڈرتے ہیں۔ ان ہڈیوں کو برداشت نہیں کرپاتے۔ انھیں وہ دیکھ ہی نہیں سکتے۔ اس قسم کے کھانے دیکھ کر ہماری قوم اور مذہب کا جاہ و جلال اچانک ان کے سامنے آکر کھڑا ہوجاتا ہے اور یہ لوگ بے پناہ احساس کمتری میں مبتلا ہوکر ہماری عبادت گاہوں پر حملہ کرکے انھیں منہدم کرنے لگتے ہیں۔‘‘

    کمرے میں خاموشی چھا گئی، مگر میرے ذہن میں ایک بات کھٹکی، ’’یہ ہڈیوں سے ڈرنے کی بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ لوگ تو گھڑوں اور مٹکوں میں اپنے مردوں کی ہڈیاں لیے لیے پھرتے ہیں۔‘‘

    ’’بات ہڈیوں کی نہیں ہے۔ کھانوں کی ہے۔ اسی لیے تو وہ اور زیادہ ڈرجاتے ہیں۔ اصل میں ہم لوگوں کے کھانے بڑے بارعب قسم کے ہیں۔ ہڈیوں کا کیا ہے، وہ تو چوس کر پھینک دی جانے والی اشیاء ہیں۔‘‘ غزل گو نے سگریٹ کا دھواں میرے منھ پر پھینکا اور اس کوشش میں ان کے ہونٹ اور خشک ہوگیے۔ مگر فوراًہی انہوں نے دوبارہ کہنا شروع کردیا۔

    ’’اب اس واقعے کو ہی لے لیجیے۔ یاد نہیں آرہا ہے کہ کس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ایک انگریز پرانی دلی کی ایک گلی میں بیٹھنے والے نانبائی کی دکان سے بریانی کھاکر مع اپنے اہل و عیال کے مسلمان ہوگیا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ جس قوم کے کھانوں کا معیار ایسا اعلیٰ اور نفیس ہو، اس قوم کا دین اور مذہب کیسا بلند اور اعلیٰ ہوگا۔‘‘

    ’’بس یہی تو میں کہنا چاہتا تھا۔‘‘ صاحب خانہ جوش میں آگیے۔

    ’’گوشت وشت کھانے سے کچھ نہیں ہوتا۔ سالے سور کھارہے ہیں۔ بات اس شجاعت اور طاقت اور حوصلے کی ہے۔ ہم نے جس طرح کائنات کی حیوانی قوتوں کو پسپا کرکے ارتقا کے سفر کو آگے بڑھایا اور اپنی روحانی اور تخلیقی صلاحیتوں کو جلابخشی، اس میں کہیں اس بھرپور اعتماد کا تعاون بھی شامل تھا کہ ہمارا کھانا ایک پاکیزہ اور جرأت مند شکار کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ جی ہاں، ایک پاکیزہ اور جرأت مندانہ شکار، جس میں قوی ہیکل جانوروں کی ہڈیاں یونہی سوچ کر پھینک دی جاتی ہیں۔ یہی دیکھ اور سمجھ کر ہی تو ان پر احساس کمتری طاری ہے۔‘‘ نظم کے شاعر (جو صاحب خانہ بھی ہیں) نے جلدی جلدی اپنی بات ختم کی اور پھر بے پروا سے نظر آنے لگے۔

    ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ میں کس قدر مشکل میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ کیونکہ میں کہانی بیان کر رہا ہوں اس لیے مجھے اس میں دلچسپی کا عنصر بھی برقرار رکھنا چاہیے۔ اب اس گھسی پٹی بات کو کیسے دہراؤں کہ کہانی اور زندگی دونوں ایک شے کا نام ہے۔ زندگی کبھی تو دلچسپ ہوتی ہے اور کبھی بڑی ٹھس۔ یہ کہانی بھی جگہ جگہ تو ضرور دلچسپ ہے مگر جگہ جگہ بڑی ٹھس۔ اس لیے دل سے تو میری نیک نیت اور کوشش یہ ہے کہ میں کہانی کو زندگی کی طرح آگے بڑھاتا چلوں۔ جب کہانی کے حصے کی فطری دلچسپی آئے گی تو آپ اس سے ضرور فیض یاب ہوں گے۔ مگر شاید میں ایسا کر نہیں پارہا ہوں اور مصنوعی دلچسپی پیدا کرنے کے سلسلے میں بے وجہ غیرضروری لوازمات کہانی میں ٹھونستا جارہا ہوں۔ مگر یہ بھی ہے کہ یہ غیر ضروری لوازمات وجود کی بے معنویت کا استعارہ بن سکتے ہیں۔ یوں تو میں استعارے سے توبہ کرچکا ہوں، مگر اگر میرے کسی لفظ یا جملے نے خود ہی استعارہ بننے کی ٹھان لی ہو تو پھر سمجھ لیجیے کہ کہانی کے خوبصورت باغ میں جنگلی سور گھس آیا ہے (اب یاد نہیں کہ سور کا لفظ میں نے پانچویں بار استعمال کیا یا چھٹی بار۔)

    ’’لائیے صاحب مجھے بھی ایک سگریٹ دیں۔‘‘ میں نے ہاتھ بڑھایا۔ صاحب خانہ نے جو نظم کے بہت عمدہ شاعر ہیں، میری طرف سگریٹ کا پیکٹ بڑھادیا۔ جب میں سگریٹ سلگانے کے لیے جھکتا ہوں تو ہمیشہ کنکھیوں سے ادھر ادھر ضرور جھانکا کرتا ہوں۔ عجیب بے تکی عادت پڑگئی ہے۔ میں نے کنکھیوں سے دیکھا۔ غزل کے شاعر نے اپنی سیاہ چمڑے کی جیکٹ کو سہلاتے ہوئے شرارتی انداز میں نظم کے شاعر کی طرف دیکھا۔ ان کے ستے ہوئے گال پھیلنے لگے اور پھر وہ قدرے بدلی ہوئی سی آواز میں بولے، ’’ان کی عورتیں۔۔۔ ان کی عورتیں دل و جان سے چاہتی ہیں کہ ایک بار کوئی ہم میں سے ایک دن ان کو۔۔۔‘‘

    انہوں نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈال کر کھجایا، پھر شاید ہنستے ہنستے رہ گیے۔

    ’’عورت طاقتور مرد کے جوتوں کو بوسہ دیتی ہے۔ ہمارے کھانے بے حد مردانگی بخش ہوتے ہیں۔‘‘ نظم کے شاعر (صاحب خانہ) نے فیصلہ صادر کردیا۔

    اس کے بعد ان دونوں میں عورت اور اس کے Libidoکے موضوع پر ایک ’’مردانہ‘‘ مکالمہ شروع ہوگیا۔ جس میں ان دونوں نے اپنے بلند اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے حصہ لینے کا موقع اس لیے نہیں دیا کہ ایک تو میں عمر میں ان سب سے بہت چھوٹا تھا اور دوسرے ابھی میری شادی نہیں ہوئی تھی۔ یہاں یہ اعتراف کرلینے میں کوئی باک نہیں کہ میں ایک بے حد بزدل آدمی واقع ہوا ہوں اور بزدلی اپنی کمینگی کو ہمیشہ پیٹھ پر لادے لادے پھرتی ہے۔ ایسی کمینگی کبھی اپنا وجود ختم نہیں کرتی جو بزدلی کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔

    یہ میری کمینگی ہی تھی جو میں وہاں شرما شرما کر جھینپی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اپنے جوتوں کو دیکھنے لگا جو تخت کے نیچے تھکے تھکے سے پڑے تھے۔ حالانکہ میں اگر اپنی پر اتر آتا تو اس موضوع پر غزل کے شاعر اور نظم کے شاعر دونوں کی زبان بند کرسکتا تھا۔ مگر میں نے ریاکاری سے کام لیا۔ اس قسم کی مکاریوں میں ہمیشہ سے میرا کوئی جواب نہیں ہے۔ میں نہ صرف بے حد دھیان اور دلچسپی کے ساتھ ان کی چٹخارے دار گفتگو کو سن رہا تھا بلکہ اس موضوع اور بات چیت کو ایک باوقار معیار عطا کرنے کی غرض سے بے حد احترام کے ساتھ جھینپا جھینپا سا مسکرا رہا تھا اور اپنے جوتے دیکھے جارہا تھا۔

    ’’پتہ ہے دبلی پتلی ہڈیوں کا ڈھانچہ جیسی عورت اگر ایک بار پوری طرح سے جوش میں آجائے تو بڑے سے بڑے مرد کو بھی کچل کر رکھ دیتی ہے۔ اس کی ہڈیوں میں تو اصل جان پوشیدہ رہتی ہے۔‘‘ غزل کے شاعر نے دبی ہوئی آواز میں اطلاع دی اور ان کا چہرہ پہلے سے بھی زیادہ ستا ہوا اور بدرونق نظر آنے لگا۔ مگر میرا ذہن اچانک بھٹکنے لگا۔ مجھے بے اختیار ’’وہ‘‘ یاد آگئی۔

    وہ اب اس دنیا میں نہیں ہے مگر مجھے نہ جانے کیوں اس کی یہ بری عادت لذت کے ساتھ یاد آرہی ہے کہ وہ مجھے بوسہ دینے کے لیے اپنے ہونٹوں کوہمیشہ کھلا رکھتی تھی۔ آہستہ سے اس کی انگلی چھولینے پر بھی اس کے ہونٹ اچھے خاصے کھل جایا کرتے تھے اور آنکھیں بوجھل ہوکر بند ہونے لگتی تھیں (یہ ایک بری عادت تھی نا۔)

    یہ ساری گفتگو ٹھوس اشیا کے بارے میں نہیں تھی۔ ٹھوس اشیا وہی ہوتی ہیں جو کہ وہ ہیں۔ ان کے تمام امکانات تقریباً سب پر ہی اجاگر ہوتے ہیں۔ وہ اپنے بھید اپنے ’’ہونے‘‘ میں ہی آشکار کردیتی ہیں۔ مگر جب وہ بے جا طور پر انسانی دنیا اور انسانوں کے بدلتے ہوئے باہمی رشتوں کی دنیا میں دخل اندازی کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ وہی بکھری ہوئی صورت حال ہوتا ہے جس کا سب سے نمایاں عنصر مضحکہ خیزی ہے تو کیا ہماری تمام باتیں لایعنی تھیں ؟ مجھے ایک پل کو شدید طور پر محسوس ہوا کہ ہم اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ انواع و اقسام کے کھانوں کے بارے میں گفتگو کرنا ان کے لیے ایک پناہ گاہ بن گئی تھی۔

    اب اپنی اپنی شاعری کے بارے میں تبادلۂ خیالات کرنا اس لیے ممکن نہیں رہا تھا کہ یہاں سے گفتگو کی غیرمحفوظ سرحدیں شروع ہوتی تھیں۔ احساس جرم کو کہیں دبالے جانا ضروری تھا۔ ہاں ایک ہلکا سا ہی سہی، مگر احساس جرم وہاں موجود تھا۔ صرف اس لیے کہ کھانا کھایا گیا تھا۔ اس وقت بھی جب موت ان پر مکھی کی طرح بھنبھنا رہی تھی۔ یہ جلد ہی وقوع پذیر ہونے والی ایک انتہائی معین موت تھی جو بہت ہی واضح اور غیرمبہم انداز میں ہمارے درمیان ہی آ اور جا رہی تھی۔ مگر ہم نے اسے جھٹلایا تھا۔

    کھانا کھاکر ہم نے اپنی آنتوں، معدے اور جبڑوں کی سلامتی کا جشن منایا تھا۔ لیکن میں قبول کرتا ہوں کہ ان لمحات میں مجھے کسی احساس جرم کا سیدھا سیدھا پتہ نہیں چل سکا (یہ تمام یا وہ گوئی تو میں اب کر رہا ہوں) صاحب خانہ کے چہرے پر کبھی کبھی ضرور پریشانی یا غمگینی کی سی کیفیت نظر آجاتی تھی مگر اس کی وجہ شاید ان کے گھر میں سرسراتی ہوئی وہ موت نہیں بلکہ ایک قسم کی الجھن اور جھنجھلاہٹ رہی ہوکہ آج دعوت کے موقع پر ہی رنگ میں بھنگ پڑگیا تھا یا تمام مزہ کرکرا ہوگیا تھا۔ خیر میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ میں بہت ذہین آدمی ہوں۔

    اور یہ سطریں نہ تو دیوانی ہیں نہ ہی انہیں میں نے حواس باختہ ہوکر لکھا ہے۔ یہ تمام تحریر بہرحال بالکل ہی ناقابل اعتبار نہیں ہے اور یہاں سے میری ذہانت کا شرانگیز پہلو شروع ہوتا ہے۔ اپنی اور ان کی لایعنی گفتگو کے بارے میں بیان کرتے وقت میں نے خاصے سفلے پن سے کام لیا ہے مگر لطف کی بات یہ ہے کہ یہ سفلہ پن بھی لایعنی ہے۔ سرسری نظر سے دیکھیں تو بالکل اس کائنات کی طرح ہی لایعنی۔ مگر اس کی طرح اندر سے بے حد چالاکی اور فنکاری سے رچا گیا سنسار۔ اپنے اندر کے الجھے ہوئے دھاگوں میں کوئی بہت ہی چالاک کھیل یا قواعد۔ یہ ایک نہ سمجھ میں آنے والی ریاضی ہے۔ مگر اس ریاضی کے سارے ہندسے اور اعداد سرخ بلب کی طرح چوکنے ہیں۔ وہ جلتے ہیں انسان کی بنیادی خودغرض اخلاقیات کی سرحدوں پر۔

    مگر اس تحریر کی اخلاقیات کی بنیادی شرائط ہی بے ایمانی، بزدلی اور سستی ہیں اور جنھیں میں اپنی شرانگیز ذہانت کے بل بوتے ابھی تک پورا کرتا رہا ہوں۔ ورنہ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ تمام سطریں اسی مضحکہ خیز صورت حال سے مستعار ہیں۔ اپنے حافظے کو بے شرمی کے ساتھ جھٹلاتی ہوئیں۔ اور بے شرمی کا کیا ہے۔ اب تک میں نے کیا کیا نہ بے شرمی کے ساتھ جھٹلا رکھا تھا۔

    پوپلا منھ، سر کے بال اس درجہ سفید کہ انہیں دیکھ کر دہشت ہوتی تھی۔ ان بالوں کی سفیدی کی بھیانک چھوٹ ان کے سارے جسم پر پڑتی تھی۔ جسم جس میں کچھ تھا ہی نہیں۔ خاص طور سے ہڈیاں تو بالکل ہی نہیں۔ منھ سے لے کر پاؤں کی ایڑیوں تک بے پناہ جھریوں والی بے حدخشک اور بدرنگ کھال شاید ہوا جیسی کسی شئے پر جھولتی رہتی تھی۔ ہڈیاں ان کے وجود میں بھیس بدل کر کہیں چھپ گئی تھیں۔ اس طرح کہ ان کا احساس بمشکل ہی ہوسکتا تھا۔ حالانکہ وہ یوں تو بالکل سامنے ہی تھیں۔ خوفناک پنجر کی صورت بالکل سامنے دسترخوان پر پڑی بے ہنگم چھوٹی بڑی ہڈیوں پر ایک پتنگا ڈول رہا تھا۔

    جب میں انہیں ہفتے بھر پہلے دیکھا تھا تب وہ ایسی ہی تھیں۔ میلے باندوں کی ایک بوسیدہ سی چارپائی تھی۔ جس کے درمیان اتنا گڈھا ہوگیا تھا کہ وہاں کے باندھ تقریباً زمین کو چھوتے رہتے تھے۔ چارپائی پر ایک پرانی اور گندی دری بچھی ہوئی تھی۔ اس پر وہ لیٹی تھیں۔ یا شاید پڑی ہوئی تھیں۔ ان کی ناک میں لگی ہوئی نلکی سانس کے ذریعے آہستہ آہستہ ہلتی تھی۔ ان کے پیروں کے اوپر چادر تھی جس پر ایک بڑا سا دھبا تھا۔ دھبے پر مکھیاں چپٹی ہوئی تھیں۔ ان کا بایاں ہاتھ بار بار ہوا میں اٹھتا تھا پھر بے جان ہوکر پلنگ کی پٹی سے نیچے جھول جاتا تھا۔

    چارپائی گھر کے چھوٹے سے آنگن میں پڑی تھی، جاڑوں کی سنہری دھوپ اوپر سے گزر رہی تھی۔ دھوپ سے دھندلے ہوتے ہوئے نیلے آسمان پر ایک بیری آہستہ آہستہ تیر رہی تھی۔ چارپائی کے نیچے المونیم کی ایک سلپچی الٹی پڑی تھی۔ ان کی آنکھیں ادھ کھلی تھیں۔ ان میں کچھ بھی نہ تھا۔ نہ دکھ نہ تکلیف، نہ جذبہ، نہ احساس، یہ آنکھیں کہیں بھی نہیں دیکھ رہی تھیں اور اس بے پناہ جھریوں والے خاموش چہرے پر یکسر نقلی طور پر لگائی گئی محسوس ہوتی تھیں۔

    وہ صاحب خانہ کی ساس تھیں۔ نہ جانے پہلے کہاں رہتی تھیں۔ اب اچانک وقت کے ایک جھونکے نے انہیں یہاں پہنچا دیا تھا۔ نظم کے شاعر اور غزل کے شاعر دونوں طرح طرح کے کھانوں کے بارے میں چونکا دینے والے انکشافات کرتے رہے۔ ان انکشافات کے عام ہونے پر تاریخ کو ازسرنو لکھنے کی ضرورت پیش آسکتی تھی۔

    میں تو یہ نہیں کہوں گا کہ اس وقت میں ان کی گفتگو میں حصہ نہیں لے رہا تھا، مگر بات یہ تھی کہ وہ قرض اترجانے کے بعد میں کچھ کس مندی سی محسوس کر رہا تھا اور میری آنکھیں بار بار بند ہونے لگتی تھیں۔ اور یقیناً وہ قرض تھا۔ وہ اس اجتماعی بھوک کا قرض تھا جو کچھ دیر پہلے میں نے ادا کیا تھا۔ وہ آکر چلی گئی تھی۔ جسم کے ایک ایک مسام پر اس کے جاتے ہوئے قدموں کے نشان ثبت تھے۔ بھوک کے خونخوار پاؤں، اس کی مہیب ایڑیاں اور وحشی پنجے میرے اونگھتے ہوئے اور ریت کی طرح بے حس ہوتے ہوئے جسم پر ایک سیدھی لکیر کی طرح چلتے چلے گیے تھے۔

    اچانک بجلی پھر چلی گئی۔ صاحب خانہ نے اٹھ کر مٹی کے تیل کا لیمپ روشن کردیا، اس نئی اور الگ روشنی میں کمرے کی دیواریں قابل رحم حدتک سپاٹ نظر آئیں۔ کمرے میں موجود کرسی، میز اور تخت، سب کے کونے بہت ابھرے ابھرے سے محسوس ہونے لگے۔ میں نے یونہی بے خیالی میں بائیں طرف کی دیوار کی طرف دیکھا۔ لیمپ کی افسردہ تھر تھرائی ہوئی روشنی میں وہاں دسترخوان پر رکھی ہڈیوں کی پرچھائیاں ڈول رہی تھیں۔ بے تکی مگر اپنے اصل جسم سے بڑی ہوتی ہوئی پرچھائیاں۔

    دراصل اس علاقے میں بجلی بہت جاتی ہے، یہ علاقہ اس بڑے شہر کی فاضل آنت کی طرح ہے۔ ایک اندھی سرنگ جس میں زیادہ تر گھر ایک ہی قطار میں بنے ہوئے ہیں جن کی دیواروں کی نچلی سطح پر سنڈاس ہیں۔ ان سنڈاسوں کی جیومیٹری کچھ اس طرح کی ہے کہ مہتر کو زمین پر لیٹ کر ان کی صفائی کرنی پڑتی ہے۔ کبھی کبھی آوارہ کتے یا سور بھی یہاں منھ مارنے آجاتے ہیں۔ پتلی سی گلی کے دونوں طرف درمیان میں سڑک کو کاٹتی ہوئی گندی سڑتی نالیاں ہیں جن میں ہمیشہ کالا پانی چمکا کرتا ہے۔ یہ پانی بہتا نہیں ہے، بس ایک ہی جگہ کانپتا ہلتا نظر آتا ہے۔ گلی میں سر کے اوپر آسمان نہیں بلکہ بجلی کے جھولتے ہوئے تاروں کے جال نظر آتے ہیں۔ اس گلی میں دور تک استعمال شدہ پلاسٹک کی گندی رنگین تھیلیاں اور کیلے کے چھلکے بکھرے ہوئے ہیں۔

    وہ خود بھی ایک سوکھے ہوئے کیلے کے چھلکے میں بدل چکی ہیں۔ یہ موت سے پہلے کی موت ہے۔ ایک زیادہ بے رحم موت، جب وہ ہم سے ایک خطرناک کھلواڑ کرتی ہے۔ ہمارے سال خوردہ جسم پر بیٹھ بیٹھ کر وہ ایک شیطان بدنیت اور ڈھیٹ مکھی کی طرح اڑتی رہتی ہے۔

    اس علاقے کے بارے میں میں نے جوبیان کیا اس کا کوئی سماجی پہلو نہیں ہے۔ اور میں پہلے بھی کئی بارآگاہ کرچکا ہوں (’’آگاہ‘‘ لفظ میں تکبر کی بو آتی ہے، اس کے لیے مجھے معاف کریں) کہ میں کسی بھی قسم کی تمثیل یا علامت کااستعمال ہرگز نہیں کروں گا اور استعارے کے بارے میں تو اب آپ بخوبی جان گیے ہیں کہ میرا اس کے بارے میں کیا خیال ہے۔ مگر چند وضاحتیں ضروری ہیں۔ بے حد ضروری۔

    یہ بہرحال ایک کہانی ہے۔ آج کل لوگ باگ کہانی میں ’’کہانی پن‘‘ کچھ اس طرح تلاش کرتے ہیں جیسے ’’عورت‘‘ میں ’’عورت پن‘‘ کی تلاش یا اس کی آرزو کی جاتی ہے۔ مگر اسے کیا کیجیے کہ کبھی کبھی عورت کے پوشیدہ سے پویشدہ باطن میں بھی ’’عورت پن‘‘ مفقود رہتا ہے۔ اس کے لیے آپ کو عورت کو معاف ہی کرنا پڑے گا۔ (اس کہانی میں بھی کہانی پن، پتہ نہیں کہاں ہوگا، اس کے بیانیہ کے الجھے ہوئے دھاگوں اور متن یا بین المتن کے باہمی رشتوں کے ٹکراؤ میں؟ اگر کہیں وہ ہوگا تو ضرور مل جائے گا ورنہ کہانی کو آپ کو معاف کرنا ہی پڑے گا بالکل اپنی عورت کی طرح۔)

    جہاں تک میرا سوال ہے، آپ کی کیا مجال کہ آپ مجھے معاف کرسکیں۔ معاف تو خود کو میں نے ہی کیا تھا۔ اس بھوک کے آگے اپنے جسم کو ایک فاحشہ کی طرح بے شرمی سے پیش کردینے کے لیے۔ یقیناً ایک فاحشہ ہی کی طرح جس کے پاس اس ذلّت بھرے فعل کے لیے زندہ ہونے جیسے چھچھورے، نخرے بھرے، مگر بے حد حقیر سے جواز کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ جب آپ خود کو معاف کرتے ہیں تو حد سے زیادہ شیخی خورے ہوجاتے ہیں۔ اس کمرے میں مٹی کا لیمپ روشن ہونے سے بہت پہلے ہی میں نے خود کو معاف کردیا تھا۔ شیخی میری رگ رگ میں بھر گئی تھی۔

    مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کو بتانا بھول گیا کہ اس گفتگو کے درمیان صاحب خانہ کا چھوٹا بھائی کئی بار کمرے میں آیا تھا۔ وہ وہاں سے جھوٹی رکابیاں اور گلاس اٹھاکر لے گیا تھا۔ دوسری بار آکر اس نے صاحب خانہ سے کچھ کان میں کہا تھا، جس پر وہ ایک پل کو فکرمند نظر آئے تھے۔ تیسری بار آکر اس نے ایک گیلے کپڑے سے تخت کی چادر کے ایک حصے پر گرے سالن کے دھبے کو صاف کیا تھا، اور چوتھی بار سگریٹ لاکر دیے تھے۔ مگر دسترخوان پر پڑی ان ہڈیوں کو اس نے ابھی تک نہیں اٹھایا تھا۔ شاید باہر ہڈیاں پھینکنے کا ابھی وقت ہی نہیں آیا تھا۔

    اور اب جب کمرے کی دیوار پر ان ہڈیوں کی بے ہنگم پرچھائیاں آہستہ آہستہ کانپ رہی تھیں تو میں نے واضح طور پر محسوس کیا کہ گھر کے اندر (شاید آنگن پار کرلینے کے بعد) کہیں دور ایک دوسسکیاں سی فضا میں گونجتی ہیں اور پھر دب کر رہ جاتی ہیں۔

    جاڑوں کی رات بڑھی چلی آرہی تھی۔ سرد ہوا کے جھونکے شاید تیز ہوگیے تھے۔ وہ کھڑکی جو کمرے سے اندر آنگن میں کھلتی تھی، اس پر پڑا ہوا پردہ بار بار ہلنے لگتا تھا۔ آج چاندنی رات ہے، میں نے سوچا، پردہ ہلتا تھا تو نظر آتا تھا۔ خاموش آنگن میں چاندنی ان کے سفید سال خوردہ اور وحشت ناک بالوں کے گچھوں کی طرح جگہ جگہ بکھری پڑی تھی۔ ان بالوں کے گچھوں کو بغیر تھتکارے پار نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    غزل کے شاعر کسی کھانے کی تاریخی اور تہذیبی اہمیت جتاتے جتاتے اچانک رک گیے۔ نظم کے شاعر نے ایک پل کو کان کھڑے کیے پھر بے حد سکون کے ساتھ کہا، ’’تمہاری بھابی ہیں۔ رو رہی ہیں۔ آخر ان کی تو ماں ہیں۔‘‘

    حضرات آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ وہ بڑی ڈرامائی صورت حال تھی۔ مگر نہیں جناب، ڈراما تو یہاں یہ چھچھوری سطریں پیدا کر رہی ہیں۔ ورنہ یقین کریں کہ وہ بالکل عام اور روزہ مرہ سی صورت حال محسوس ہوتی تھی اور جہاں تک مجھے یاد ہے کہ اس وقت شکم سیر ہوکر کھانے کے بعد کی ہلکی سی کسل مندی کے علاوہ میرے اعصاب پر دوسری کوئی شے سوار نہ تھی۔ مجھے اپنی گردن گھماکر ادھر ادھر دیکھنے میں بھی دقت محسوس ہو رہی تھی۔ بالکل ایک سور کی طرح۔ (اس بار اس بدبخت لفظ کا یہ انتہائی ایماندارانہ استعمال ہے۔)

    اب وقت آگیا ہے کہ میں آپ کو بتادوں کہ یہ احساس اس احساس سے بالکل الگ ہے جب میں اس مضحکہ خیز یا سنجیدہ صورت حال سے دوچار تھا۔ مگر اب کہانی بیان کرتے وقت میں ان دونوں احساسات کو بیان کرنے کی بچکانہ خواہش سے خود کو بچا نہیں پارہا ہوں اور اس کوشش میں گویا بھانڈ ہوا جا رہا ہوں۔ میں مایوس کن حدتک ایک غبی فوٹو گرافر کی طرح حقیقت کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑگیا ہوں۔

    مگر میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرا یہ بھانڈ پن اصل میں ایک اعلیٰ اخلاقی پہلو کا حامل ہے۔ میں زندگی کے ساتھ ساتھ لتھڑ جانا چاہتا ہوں، میرا پورا وجود زندگی کے ہرگندے سے گندے چیتھڑے تک کو سونگھ کر اس کی بو میں نہا جانا چاہتا ہے۔ کچھ کچھ اس طرح جیسے بعض قبیلوں میں مرد کو اپنی عورت کے دکھ سکھ میں اس درجہ ایمانداری سے شریک ہونا پڑتا ہے کہ یہ اس کا عین فرض ہے کہ دردزہ میں مبتلا اپنی عورت کی دردناک اور دل خراش چیخوں کے ساتھ وہ بھی اس طرح چیخے اور تڑپے۔ اسے بچہ پیدا کرنے کے عمل کی پوری پوری نقل اتارنا پڑتی ہے۔

    یا یوں کہہ لیں کہ میں یہاں ایک فرد بن کر نہیں رہنا چاہتا۔ میں خود کو ’’کئی‘‘ میں محسوس کرنا چاہتا ہوں اور اس طرح میں ایک ہوتے ہوئے بھی ’’بہت سوں‘‘ میں بٹ جانا چاہتا ہوں۔ اس لیے اس کہانی کا ہر کردار میرے لیے پھانسی کا ایک جھولتا ہوا پھندا ہے۔ میں پھندے میں اپنے سرپر کالا کپڑا ڈال کر گلے کا ناپ لینے جاتا ہوں اور مایوس ہوکر واپس آجاتا ہوں۔ کوئی پھندا ایسا نہیں جو ایک دم میرے گلے کے برابر آئے۔ یہاں دم گھٹتا ہے۔ دم نکلتا نہیں۔ یہ ایک بھیانک اور کریہہ کھیل ہے۔ جس میں اپنی آزادی اور مکتی کے لیے میں خود کو مختلف ضمائر میں تقسیم کرکے اپنے اسم کی تلاش جاری رکھنا چاہتا ہوں۔

    جیسا کہ میں نے پہلے اشارہ کیا تھا کہ ایک دبکا ہوا احساس جرم وہاں ضرور تھا اور آہستہ آہستہ شاید اب اس سناٹے میں گونجتی ڈوبتی سسکیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بل کھول رہا تھا۔ ان دونوں کو بھی احساس جرم تھا۔ مگر اس سے چھٹکارا پانے کا ہر ایک کا ایک نجی طریقہ ہوتا ہے۔ یہ میرا نجی طریقہ ہے جو آپ سے مخاطب ہوں۔ ان کی بے معنی باتیں، کالا مفلر اور چمڑے کی جیکٹ شاید اس احساس جرم کا ہی جز تھیں۔ یہ انسان کی اپنی اکیلی دنیا ہے۔ اس میں دخل اندازی کی اجازت کسی کو نہیں دی جاسکتی۔

    آپ کو یاد ہے کہ شروع ہی میں میں نے آپ کو بتادیا تھا کہ اپنے حافظے کو پھر سے دبوچ لینے مجھے جگہ جگہ بیچا کا منھ لگاکر بھی بھٹکنا پڑتا رہا ہے۔ آپ کو بیچا کا منھ تو یاد ہوگا۔ وہ جسے بچے لگائے پھرتے تھے اور آپ کو اچانک ڈرا دیا کرتے تھے۔ وہ بیچا کا چہرہ میں نے اپنی کمر میں باندھ رکھا ہے۔ ایک چالاک اور کمینے ہتھار کی طرح۔

    اس کہانی میں موقع دیکھ کر میں جھٹ یہ بیچا کا چہرہ اپنے پر لگالیتا ہوں۔ اس کی بھیانک پھیلی پھیلی مگر حیران سی آنکھوں سے آنسو گرتے ہیں۔ بڑے بڑے بدنما خوفناک دانت جبڑوں کو پھاڑ کرباہر نکلنے لگتے ہیں۔ بیچا کا چہرہ ان آنسوؤں سے گیلا ہوجاتا ہے۔ اس کے تیز سرخ اور پیلے رنگ پھیلنے لگتے ہیں۔ وہ قابل رحم نظر آتا ہے، اور اپنے پیلے لال رنگ کو بہنے دیتا ہے۔ نیچے کی طرف۔ انسانی گردن سے لے کر انسانی ایڑیوں تک یہ رنگ بہتے جاتے ہیں۔ مجھے اعتراف ہے کہ یہ ایک بچکانہ حرکت ہے اور بار بار اسے دہرانے سے تو اس کا اثر بالکل ہی ختم ہوسکتا ہے مگر ہر بچکانے پن کی اپنی ایک بے رحمی بھی ہوتی ہے۔ احساس و ادراک کی ایک زیریں سطح پر اس بے رحمی کا اثر ہمیشہ قائم رہتا ہے۔

    ٹھہریے۔۔۔ کہانی میں وہ موقع بس آنے ہی والا ہے۔ میں آپ کو اس بار پہلے ہی سے خبردار کیے دیتا ہوں اور کمرے سے بیچا کا منھ یوں نکال کر چہرے پر لگا لیتا ہوں۔ نہیں اس باررونے یا سسکیوں کی آواز نہیں تھی۔ یہ تو دوعورتیں مل کر شاید کچھ پڑھ رہی تھیں۔ مدھم اور افسردہ سی آواز میں۔

    نہ جانے کیوں اچانک مجھے سردی سی لگنے لگی۔ صحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی کا پردہ اب بہت تیزی کے ساتھ لہرانے لگا تھا۔ رات بڑھتی جانے کے ساتھ ساتھ ہوائیں بھی بڑھتی جاتی تھیں۔ کمرے میں روشن مٹی کے تیل کا لیمپ بھڑکنے لگا۔ صاحب خانہ نے اٹھ کر اس کی لوکم کردی۔ کمرہ کچھ اور دھندلا ہوگیا۔ وہ دونوں ایک لمحے کوجانے کیوں خاموش ہوئے، ایسا لگتا تھا جیسے اپنی اپنی جگہ دونوں کہیں کھو گیے ہیں۔ شاید وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اندر سے پڑھنے کی آوازیں پھر ابھریں۔ کمرے میں سناٹا کچھ اور پھیلا۔ ’’یٰسین شریف ہے۔‘‘ ایک نے بہت ہی دھیمی آواز میں کہا۔ ’’ہاں، یٰسین شریف ہی ہے‘‘ دوسرے نے خود کلامی کے انداز میں دہرایا۔

    میں جھوٹ نہیں کہوں گا۔ اس وقت مجھے ایک ناقابل تشریح قسم کا خوف محسوس ہوا اورمیری ریڑھ کی ہڈی میں سوئیاں چبھنے لگیں۔ میں جانتا ہوں کہ یٰسین شریف عالم نزع میں پڑھی یا سنائی جاتی ہے۔ اس کے سننے سے اور پڑھنے سے جان نکلنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوتی۔ روح بہت آسانی سے جسم سے نکل کر مائل پرواز ہوجاتی ہے۔ (مگر ایسا نہیں ہے کہ صرف مرتے ہوئے انسان کی تکلیف کم کرنے کی غرض سے ہی یٰسین شریف کا پڑھنا مستحسن ہو، بلکہ یٰسین شریف ہو توہر شخص کو پڑھنا اور سننا چاہیے خاص طور سے تب جب اس کے اعصاب و حواس اچھی طرح اپنا فرض انجام دے رہے ہوں)

    کون سن رہا تھا؟

    ’’یٰسین شریف تو یہ لوگ کل سے ہی پڑھ رہی ہیں۔۔۔ مگر۔۔۔‘‘ صاحب خانہ جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہوگیے۔

    کون سن رہا تھا؟

    اِنَّا جَعَلْنَا فِيْٓ اَعْنَاقِهِمْ اَغْلٰلًا فَهِىَ اِلَى الْاَذْقَانِ

    (تحقیق کیا ہم نے بیچ گردنوں ان کے طوق۔ پس وہ ٹھوڑیوں تک ہے۔)

    دونوں عورتوں کی آوازیں تقریباً غیرجذباتی ہوتے ہوئے بھی کانپ رہی تھیں یا مجھے کانپتی ہوئی محسوس ہوئیں۔

    دسترخوان پر پڑی جھوٹی ہڈیوں کے ڈھیر پر وہی پتنگا بار بار اڑے جارہاتھا۔ لیمپ کی لو مدھم ہوجانے کی وجہ سے کمرے کی سفید چونے سے پوتی گئی دیوار پر ان ہڈیوں کے سائے قابل رحم حدتک مبہم نظر آتے تھے۔ کسی بھی قسم کے امکان سے یکسر خالی، قطعی مایوس کن۔

    قَالَ مَنْ يُّـحْيِ الْعِظَامَ وَهِىَ رَمِيْمٌ 78؀ قُلْ يُحْيِيْهَا الَّذِيْٓ اَنْشَاَهَآ اَوَّلَ مَرَّةٍ ۭ

    (بولا ایسا کون ہے جو ہڈیوں کو زندہ کرے جب وہ بالکل گل گئیں۔ تم کہہ دو انہیں وہ زندہ کرے گا جس نے پہلی بار انہیں بنایا)

    اور اب مجھے صاف احساس ہوا کہ دھیمے لہجے میں یٰسین شریف پڑھتی ان دو عورتوں کی آوازوں میں سے ایک کی آواز شاید آہستہ آہستہ رندھتی جارہی ہے۔ جاڑوں کی لمبی رات اپنے سناٹے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ دھندلے ہوتے ہوئے اس نیم تاریک کمرے اور یٰسین شریف دہراتی ہوئی ان افسردہ آوازوں کے درمیان ایک عالم ہو، دبے پاؤں آکر کھڑا ہوگیا۔

    سب سے پہلے غزل کے شاعر اٹھے تھے۔ آخری سگریٹ جوتے سے مسل کر ان کی سیاہ چمڑے کی جیکٹ کا کالر کھڑکی سے آنے والی ہوا میں پھڑپھڑایا۔ میں تخت سے اٹھ کر اپنے جوتے پہننے لگا۔ اور تب میرے ساتھ صاحب خانہ بھی اپنی سیاہ مفلر سختی سے کانوں سے لپیٹتے ہوئے کھڑے ہوگیے۔ انھیں زکام بہت جلد جلد ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی ان کی ناک سرسرا رہی تھی۔

    جب میں جوتے پہن کر کھڑا ہوا تو مجھے محسوس ہوا کہ میرے جوتے تنگ نہیں ہیں اور پیروں کو کہیں سے نہیں کاٹ رہے ہیں، حالانکہ جب بھی میں کھانا کھاکر زیادہ دیر اس طرح بیٹھا رہتا ہوں تو میرے پیر سوج جاتے ہیں اور جوتے انہیں کاٹنے لگتے ہیں۔ مگر اس بار سب ٹھیک تھا۔ کوئی مسئلہ نہ تھا۔

    ’’دیکھو شاید آج رات میں ہی۔۔۔‘‘ نظم کے شاعر نے فرش کی طرف دیکھتے ہوئے دبی دبی زبان میں کہا۔ مگر ان کا لہجہ اندیشے کی دہشت سے پاک صاف تھا۔ ’’ہاں لگتا تو یہی ہے۔ کل دن بھی اچھا مل جائے گا۔‘‘ غزل کے شاعر نے جواب دینے کے سے انداز میں آہستہ سے کہا۔ (کل جمعہ ہے)

    ’’بہرحال۔۔۔ جیسا بھی ہو۔ فوراً خبر کردینا۔‘‘ میں اپنے حساس ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کچھ کچھ تسلی دینے والے انداز میں بولا تھا۔ کھڑے ہونے پر کمرے کی دیوار پر ہم تینوں کی دیوقامت سی بنتی پرچھائیوں نے ہڈیوں کے اداس سائے کو پورا پورا ڈھک لیا۔ مگر تب ہی مجھے اس ناقابل یقین امر کااحساس ہوا کہ وہ ہڈیاں جو چوپایوں کے گھٹنوں اور پنڈلیوں میں پائی جاتی ہیں، اچانک ان دونوں کے چہرے پر اگ آئی ہیں۔ خود شاید میرے چہرے پر بھی، کیونکہ ہاتھ پھیر کر ان کی نوکیں اور ابھار میں نے واضح طور پر محسوس کیے۔ لیمپ کی دھندلی اور میلی سی روشنی میں ان دونوں کے چہرے گندے شوربے کی طرح نظر آرہے تھے۔

    دانتوں کے درمیان پھنسے گوشت کے چند ریشے اور سرسراتی ہوا اور پیٹ میں بننے والی رقیق گیس کی بدبو لیے ہوئے ایک سور (سور لفظ اب میں نے آخری بار استعمال کیا ہے) کی طرح جب میں سامنے کو گردن اٹھائے گھر سے باہر ڈولتا ہوا چلا تو میرے پیچھے ٹین کا دروازہ ہوا سے بجنے لگا۔ اچانک بجلی آگئی۔ نالوں میں رکا کالا پانی چمکنے لگا۔ گلی کے دونوں اطراف میں تقریباً ایک سے بنے مکانوں کے نیچے سنڈاس پھر روشن تھے۔ ان پر میری نگاہ پڑی تو میں نے ڈکار لی (یا شاید ڈکرایا۔) یہاں تک کی رات تو گزر گئی تھی۔ اب گھر پہنچ کر مجھے سوجانا تھا۔

    بس اب رام گنگا میں قلعے کی ندی گرتی ہے۔ مایوس نالی کی طرح، سست رفتار اور سڑتی ہوئی۔ یہ میری بھٹکن کی بندگلی ہے۔ اپنے حافظے کا تعاقب کرنے کی میری آخری سکت۔ یہ ایک قسم کی بے چہرگی ہے۔ ایک بھن بھنی ناک سے نکلتی آواز کے علاوہ میرے پاس اب کچھ نہیں ہے۔ وہ بیچا کا چہرہ میں نے اتار کر رکھ دیا ہے کہ اب اس سے مجھے یا آپ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا۔

    یہ ایک قسم کی خودکشی ہے۔ بزدلی، بے ایمانی، سستی اور کاہلی کے ساتھ جب آپ موت کو فتح کرنے کے لیے نکلتے ہیں تو انجام یہی ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ یہ کہانی ایک قسم کی خودکشی تھی، میں آپ کو یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ سطریں ہرگز اداس نہ تھیں۔ یہ دراصل اداس ہوجانے کی کوشش میں لکھی گئی تھیں۔

    میں تو مسرت کے ایک جھومتے ہوئے کیچڑ کے رنگ کے ہاتھی پر سوار ہوں۔ مست ہاتھی، پرغرور، نشے میں جھومتا ہوا شہر کی چوڑی چوڑی سڑکوں پر ڈولتا ہے۔ شیخی اس کی مچی ہوئی آنکھوں اور ہلتی ہوئی سونڈ سے ٹپکتی جاتی ہے، بکھرتی جاتی ہے۔ اس کے کھمبوں جیسے بے خبر پیروں کے نیچے اس کی اپنی ہی شیخی کچلی جاتی ہے۔ اپنی ہی انا اور اپنا ہی نشہ کچلا جاتا ہے۔

    چلیے۔۔۔ چونی والا کھیل ختم ہوا۔

    تمثیل، علامت اور استعارے سے یکسر خالی یہ کہانی اس مقام پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ اب مجھے کچھ نہیں کرنا ہے سوائے یہ دیکھنے کے کہ کیا میری پیٹھ پر وہ گندی کجلجی چھپکلی ابھی بھی چپکی ہوئی ہے یا اترچکی ہے۔ مگر اپنی پیٹھ تک ہاتھ لے جانے میں مجھے خوف کیوں محسوس ہوتا ہے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے