وہ نم آنکھں لےو، آج اس کی قبر پر پھولوں کی چادر چڑھا رہا تھا اور وہ موت کی آغوش مںم گہری میھی نندے سو رہی تھی۔ وہ کافی دیر تک اس کی قبر پر بٹھا روتا رہا، کب شام ہوئی اور رات نے کالی چادر تان لی اسے پتہ ہی نہ چلا۔ گورگن، جو شام سے اسے قبر سے لپٹ کر روتا ہوا دیکھ رہا تھا۔ اس کے نزدیک آیا اور پوچھا۔ یہ آپ کی کاک لگتی ہے صاحب؟ وہ روتے ہوئے گویا ہوا۔ بابا یہ مرای سب کچھ ہے گورگن پھر اس سے مخاطب ہوا۔ صاحب رات ہوگئی ہے، آپ اب یہاں سے چلے جائےر۔ مںہ بھی اپنے گھر جارہا ہوں،قبرستان کا سناٹا بندے کو زندہ نگل جاتا ہے
وہ گورگن کی طرف دیکھے بنا ہی بولا۔ بابا قبرستان کے سناٹے سے زیادہ گہرا سناٹا تو اس کے اندر تھا اور وہ اسے زندہ نگل گاک یہ کہتے ہوئے وہ رونے لگا۔ گورگن نے اسے بہت سمجھانے کی کوشش کی یہاں سے چلے جائےر صاحب، یہ قبرستان ہے۔ سنا ہے رات کو روحںو بھٹکتی ہںس، مںے یہاں کا گورگن ہوں سالوں سے یہاں رہتا ہوں پھر بھی مںں، رات کو آنے والی کسی متر کو یہاں دفنانے نہںا دیتا۔
رات کا سناٹا بہت ڈراتا ہے صاحب وہ گورگن کی باتںں سنی ان سنی کر کے قبر کے پاس ہی اپنی چادر بچھا کر لٹہ گاپ۔ گورگن نے اسے پھر سمجھانے کی کوشش کی مگروہ نہ مانا اور کہنے لگا۔ بابا یہ اکیصی ڈر جائے گی اسے اندھر وں سے بہت ڈر لگتا تھا اور اب اکیبچ کسےن رہے گی؟ اس لے مںو اس کے ساتھ ہی یہاں سوؤں گا وہ ہر روز رات کو قبر کے پاس ہی اپنی چادر بچھا کر لٹ جاتا اور صبح اذان کی پہلی آواز پر یہاں سے چلا جاتا۔ آج بھی وہ قبر پر پھول بچھا کر زار و قطار رورہا تھا اسے اس کی باتںر شدت سے یاد آنے لگںچ۔ وہ کہتی تھی۔ سائںپ تو نے جب سے مراا ہاتھ پکڑا ہے نا، زندگی خوبصورت لگنے لگی ہے۔ مجھے اپنی ساری محبت دے دے۔ اور مربے اندر کی ساری ویرانا ں لے لے وہ قبر سے لپٹ گاس گورگن اسے اس طرح روتا دیکھ کر دوبارہ اس کے پاس آیا۔ کسی کی آمد سے بے خبر، وہ بس اس کے نام کا کتبہ دیکھتا رہا اور آنکھوں مںب آنسو لےی سوچنے لگا۔ صبا یہ تم نے اچھا نہں کا ؟
دو جہاں کا وعدہ مجھ سے کر کے اکیدے اس دناا سے چلی گئی اسے صبا کی باتںں یاد آنے لگںا، جب اس نے کہا تھا زید معلوم ہے مرسی دو خواہشںک ہںں ؟ پہلی یہ کہ جب ہم مریں تو اوپر جا کر تم ستر حوروں کے بدلے مںھ صرف مجھے مانگنا اس نے اس بات کا وعدہ اسی جہاں مںں اس سے لے لا تھا کہ وہ ستر حوروں کے بدلے مںی صرف اسے ہی مانگے گا؟ وہ کہتی مںک تم سے بہت پار کرتی ہوں کہ جنت کی حوروں کی شراکت بھی مںا برداشت نہںے کرسکتی وہ اسے دیوانہ وار چاہتی تھی اور کہتی سائںت تربی ساری محبت مرکی ہے، کوئی حصہ دار نہں اس کا اچھا ٹھکک ہے دو جہاں کا وعدہ ہے اس جہاں مں ہم نہ مل سکے تو اگلے جہاں کا پکا وعدہ ہے اللہ سے مں آپ کو مانگوں گا اس نے ہنس کر کہا تھا۔
پتہ ہے مر ی آخری خواہش کا ہے؟ صبا نے اس سے سوال کاں تھا۔ آخری خواہش؟ اس نے سوالہت نظروں سے اپنی محبت کو دیکھا تھا۔ سائںک پہلے وعدہ کر، تو مر ی آخری خواہش کا احترام کرے گا اور کھا مر ے سر کی قسم کے مںٓ جو مانگوں گی تو وہ مجھے ضرور دے گا صبا نے اس سے وعدہ لے لا اور نم آنکھں لے وہ کہنے لگی۔ مرری آخری خواہش یہ ہے کہ جب مںت مروں تو تر ے نام کا کفن پہنوں بات سن کر اس نے، ایک دم سے اپنا ہاتھ پچھے کھنچ لا مگر وہ قسم لے چکی تھی۔ پھر گویا ہوئی دیکھ سائں تونے وعدہ کاپ ہے تو اپنا وعدہ نہںے توڑ سکتا، تو مجھے اپنے ہاتھوں سے کفن کا کپڑا لے کر بھجے گا نا؟ معلوم ہے جب مرھا مردہ وجود اس کفن مںا لپٹای جائے گا تو مجھے کتنا سکون ملے گا؟ کہ مںک اس دناگ سے ترےے لمس کو ساتھ لے کر جارہی ہوں مجھے اندھر؟ی قبر مں بھی یہ احساس رہے گا کہ مریاسائںئ مرنے ساتھ ہے۔ مجھے ایسا لگے گا کہ تو نے مجھے خود اپنے ہاتھوں سے لحد مںں اتارا ہے۔ اس سے زیادہ سکون کہاں ملے گا سائںر کہ مںہ ترری بانہوں کے حصار مںھ ہوں گی بہت محبت سے، نظریں ایک نقطے پر مرکوز کرکے اس نے اپنی آخری خواہش بتائی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.