Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آم کا پھل

علی عباس حسینی

آم کا پھل

علی عباس حسینی

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    نچلے طبقے کی نفسیات کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ بدلیا ذات کی چمارن ہے جو شادی کے تین ماہ بعد ہی بیوہ ہو گئی ہے۔ اس کی ساس اور نندیں بجائے اس کے کہ اس کی دلجوئی کرتیں اس کو ڈائن وغیرہ کہہ کر گھر سے نکال کر بیلوں کے باڑے میں رہنے کے لئے مجبور کر دیتی ہیں۔ چھوٹے سے گاؤں میں اس واقعہ کی خبر ہر شخص کو ہو جاتی ہے اسی لئے ہر نوجوان بدلیا کے لئے ہمدردی کے جذبات سے لبریز نظر آتا ہے اور رات کے اندھیرے میں اس کے کھانے کے لئے چھوٹی موٹی چیزیں دے جاتا ہے۔ اسی ضمن میں گاؤں کا بدمعاش چندی، جو ایک دن پہلے ہی ایک سال کی جیل کاٹ کر آیا ہے، وہ ٹھاکر کے باغ سے آم چرا کر بدلیا کے لئے لے جاتا ہے، بدلیا اسے دیکھ کر دہشت کی وجہ سے چیخ پڑتی ہے، اس کی نندیں اور ساس اس پر بدکرداری کا الزام لگاتی ہیں، اور مارنا پیٹنا شروع کرتی ہیں۔ وہ گھبرا کر بھاگتی ہے تو اسے راستے میں چندی مل جاتا ہے اور وہ سمجھا بجھا کر اسے اپنی بیوی بننے پر راضی کر لیتا ہے۔ جب وہ چمر ٹولی سے گزرتا ہے تو جیسے سب کو سانپ سونگھ جاتا ہے اور کوئی بھی چندی کا راستہ روکنے کی ہمت نہیں کرتا۔

    ساون کا مہینہ تھا۔ کالی کالی گھٹائیں جھوم جھوم کے اٹھتی اور ٹوٹ ٹوٹ کے برستی تھیں۔ ٹھاکر صاحب کے آموں کے باغ میں ٹپکا لگا تھا۔ لڑکے لڑکیاں اسی تاک میں رہتے کہ رحیمن کھٹک کی آنکھ بچے اور آم لے اڑیں۔ مگر وہ بھی سترا بہترا ہونے پر بھی اتنا ٹانٹھا تھا کہ اپنی ایک پلیا چھوٹے چھپرمیں بیٹھا، وہ ڈانٹ بتاتا کہ لونڈوں کے اوسان خطا ہوتے تھے اور ان کو بھاگتے ہی بن پڑتی تھی۔ اگر کوئی لڑکا کسی طرح اس کی آنکھیں بچا کر ایک آدھ زمین پر پڑے ہوئے پھل اٹھا لینے میں کامیاب بھی ہو جاتا تو کبڑیے کا کتا اس کی ٹانگیں لیتا تھا۔

    یہ پاجی اپنے مالک سے بھی زیادہ ایک ایک آم کی رکھوالی کرتا تھا، اس نے لڑکوں کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ گاؤں بھر میں سب سے اچھے اور میٹھے آم اور کوئی بغیر پیسہ خرچ کئے انہیں کھا نہ سکے، اور پیسہ ان کے ماں باپ کے پاس نہیں! کسان کے گھر میں دو چار من غلہ تو پڑا ہو سکتا ہے مگر نقدی علیہ السلام، زرد و سپید سکے، ان کا وہا ں کہاں گذر؟ اس لئے اچک لینے اور چوری کرنے کو جی کیوں نہ چاہے؟ اور وہ بھی ایسے زمانے میں جبکہ سوائے اس باغ کے گاؤں میں کہیں اور آم نہ رہ گیا ہو۔

    چنانچہ ان آموں کے حاصل کرنے کی تدبیروں پر غور کرنے کے لئے سبھائیں ہوتیں، جلسے کئے جاتے اور تجویزیں پاس ہوتیں۔ ان پھلوں کے چرا لانے کے لئے بازیاں لگتیں اور انعام مقرر ہوتے اور کبھی کبھی تو ان دو چار گرے پڑے آموں کے لا دینے پر وہ کچھ مل جاتا جو مجنوں کو جنگلوں کی خاک چھاننے اور فرہاد کو پہاڑ کی چٹانیں کاٹنے کے بعد نہ مل سکا تھا!

    چندی جو اس باغ میں ایک اندھیری رات میں گھسا تھا وہ اسی غرض سے۔ اس کے بچپن ہی میں ماں باپ مر گئے تھے۔ برادری والوں نے اس کے سارے کھیتوں پر قبضہ کر کے اسے اس طرح بے سہارا کر دیا تھا کہ وہ چوری کرنے اور ڈاکہ ڈالنے کا عادی سا ہو گیا تھا۔ پہلے یہ حرکتیں مدافعانہ تھیں۔ اسے زندہ رہنا تھا اور اس کے لئے جنگ ضروری تھی، لیکن جیسے جیسے وہ بڑھتا گیا اوراس کے بازوؤں میں قوت اور دماغ میں عقل آتی گئی، اس کی دفاعی تدبیریں جارحانہ کارروائیوں کی صورت اختیار کرتی گئیں۔ وہ ایک پیشہ ور فسادی، چور اور ڈاکو بن گیا۔ ابھی کچھ ہی دن پہلے وہ بدچلنی کے سلسلے میں محض شبہ پر ایک سال کی سزا کاٹ کر چھوٹا تھا۔ مگر جیل ہو آنے سے اس کی ’’مذموم صفتیں‘‘ اس میں اور راسخ ہو گئی تھیں۔ جیل کی نامعلوم سختیاں ڈراؤنی نہ رہ گئی تھیں۔ بھوکے کے لئے گاؤں سے زیادہ قیدخانے میں راحت تھی، اسی لئے اب اس کی قطع اس سانڈ کی تھی جو داغ کر چھوڑ دیا گیا ہو اور جو یہ سمجھنے لگا ہو کہ اسے اس کا فطری حق ہے کہ وہ ہرایک ہرے بھرے کھیت کو چر ڈالے۔

    مگر آج اس اندھیری رات اور موسلادھار بارش میں چندی کو بھوک اس باغ میں نہ لائی تھی۔ اس کی غرض اپنے لئے آم چرانا نہ تھی، اس کا مقصد، ان آموں کو دل کی دیوی کی بھینٹ چڑھانا تھا۔ اس نے جلدی جلدی اپنے ’’انگوچھے‘‘ کے ایک کونے میں گرہ دی اور اسے تھیلے کی شکل کا بنا لیا، پھر آہستہ آہستہ بلی کی چال چل کر اس نے دس بارہ آم مختلف تھالوں سے اٹھا کر اس تھیلے میں رکھے۔ اس شاطر نے یہ کام کچھ اس صفائی اور احتیاط سے کیا کہ نہ تو کھٹک جاگا اورنہ کتے کو خبر ہوئی، پھر وہ اپنا یہ ’’پرشاد‘‘ لے کر اس طرف روانہ ہو گیا جدھر بدلیا رہتی تھی۔

    بدلیا اسی کی ذات برادری کی ایک چمارن تھی۔ اپریل میں ’’گونا‘‘ کرا کے سسرال آئی اور جون میں ٹھاکر کی بیگارنے اسے دلہن کی جگہ بیوہ بنا دیا تھا۔ پتی کو چھ کوس ٹھیک دوپہر میں شہر تک ننگے پاؤں جانا پڑا۔ زمیندار کا حکم موت کی طرح ٹالا نہ جا سکتا تھا۔ پلٹیتوں میں لو لگی اور گاؤں پہنچنے سے پہلے ہی جلتی بھنتی زمین پر گر کر ٹھنڈا ہو گیا۔ بدلیا نے مانگ کا سیندور دھو ڈالا۔ رنگین ساری اتارکر وہ پھٹی پرانی ساری پہن لی، جس کے سوا اس کے پاس جسم ڈھانکنے کو اور کوئی کپڑا نہ تھا۔

    اور کئی وقت مارے رنج کے ایک دانہ تک منہ میں نہ ڈالا، لیکن اس سوگ منانے سے ساس نندوں کا کلیجہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ انہوں نے اسے ’’ڈائن‘‘ گھر اجاڑن اور بھن پھیری‘‘ ٹھہرا دیا اور اسے اپنے پھوس کے محل سے نکال کر بیلوں کے چھپر میں جگہ دی تاکہ اس کا منحوس سایہ ان کی ’’پوتر‘‘ دہلیز پر نہ پڑے۔ یہیں ایک کھرے کھاٹ پر بدلیا پڑی رہتی تھی۔ دن رات میں ساس نندوں میں سے کسی کا اگر جی چاہتا تو وہ اسے تھوڑا سا ستو، مٹھی بھر چنایا تھوڑی سی مٹردے جاتی تھیں، ورنہ وہ تھی، بیل تھے، مچھر تھے، گوبر تھا اور سڑے ہوئے بھوسے کی بوتھی!

    گاؤں کی چمرٹولی بہت چھوٹی سی جگہ ہوتی ہے، وہاں ایک دل کے دھڑکنے کی آواز دوسرے دل آسانی سے سن لیتے ہیں۔ وہاں کوئی کام راز میں نہیں رہ سکتا۔ ہر بات پھوٹ نکلتی ہے۔ چنانچہ دوسرے ہی دن اس گھر نکالا اور نئی سزا کی خبر سب کو مل گئی۔ بڑے بوڑھے تو سر ہلا کر چپ رہے لیکن لڑکوں اور نوجوانوں میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی، ہر ایک نے بدلیا کی مدد اپنے اوپر فرض کر لی، کوئی لڑکا بڑوں کی آنکھیں بچا کر اپنے گھر سے گڑ کا ٹکڑا اڑا دیتا۔ اور اس میں سے اپنا حصہ نکال کر بدلیا کو دے آتا۔ کوئی اپنے حصہ کا ستو ختم کرکے اپنے کسی بھائی یا بہن کا ستو گھما دیتا، اور اسے نئی بھوجی تک پہنچا آتا۔ کوئی دوسرے لڑکوں کی کوئی کھانے کی چیز چرا لیتا۔ اور اسے اس دکھ کی دیوی کے چرنوں میں چڑھا آتا تھا۔ نوجوان ادھر سے گنگناتے نکلتے، ’’بھوجی‘‘ کہہ کے بدلیا کو متوجہ کرتے اور دوسروں کی نظریں بچا کر ایک آدھ آم، یا دوایک امرود پھینک آتے تھے۔

    چندی بھی اس چھپر کے کئی پھیرے لگا چکا تھا۔ وہ اپنے کرتوتوں اب تک کنوارا تھا۔ اسی لئے دوسروں کی نسبتاً اس کی ہمدردی بھی زیادہ تھی۔ مگر بدلیا اس کی صورت سے ویسا ہی سہم جاتی تھی، جیسے کبوتر بحری کو دیکھ کر ڈر جاتا ہے۔ اس لئے رات کی ڈراؤنی تاریکی میں جب وہ تنہائی، گرج اور چمک سے گھبرا گھبرا کر کروٹیں لے رہی تھی، چندی کا دبے پاؤں اس کے چھپر میں آنا، اس کے لئے کسی طرح تسکین دہ نہیں ہو سکتا تھا۔ یقینی اکیلے میں ساتھی کی بڑی خواہش بڑھ جاتی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ کوئی ہمدرد پہلو میں ہوتا۔ اس سے مل کر بیٹھتے، اپنی بیتی کہتے، پرائی بیتی سنتے، پر یہ باتیں ہم جنسوں سے ممکن ہیں۔ بھیڑ اور بھیریے یا چڑیا اور شکرے میں نہیں ہو سکتی ہیں۔

    بدلیا، اسی لئے چندی کو پہچانتے ہی گھبرا کر کھاٹ پر اٹھ بیٹھی اور اس نے بڑا سا گھونگھٹ نکال لیا۔ چندی مسکرا کر بولا، ’’لو، بھوجی، تمہارے لئے ٹھاکر کے باغ کے آم لایا ہوں۔‘‘ یہ کہتے کہتے اس نے انگوچھے کی گرہ کھول کے بالکل ایک پونجی پتی کے انداز سے کھاٹ پر آم ڈھیر کر دیے۔ لنگڑے، دسہری، سفیدے کے پھل، ڈال پر پکے ہوئے، پورے رس پرٍ! وہ خوشبو پھیلی کہ جگالی کرتے ہوئے بیلوں نے بھی بند آنکھیں کھول دیں اور شیشے کی طرح چمکتی آنکھوں سے ان کی طرف تکنے لگے، بدلیا جانتی تھی کہ چندی کا یہ تحفہ بے غرض نہیں ہے، مگر آموں کو دیکھ کر منہ میں پانی بھر آیا۔ پھر بھی چندی کا ڈر غالب تھا۔ اس لئے اس نے انہیں ہاتھ نہیں لگایا۔ چندی نے اتنی دیر میں انگوچھے کو نچوڑ کر اس سے بھیگا ہوا جسم پونچھا، پھر اسے باندھ کر گیلی دھوتی اتار کر نچوڑی اور باندھ لی۔

    بدلیا کا دھڑکتا ہوا دل ذرا ٹھہرا ہی تھا کہ چندی اس کام سے فراغت کر کے بڑی بے تکلفی سے کھاٹ کے پائتی بیٹھ گیا۔ بدلیا فوراً کھاٹ سے اتر کر اس طرف زمین پر بیٹھ گئی، جدھر بیل بندھے تھے، پاس والے بیل نے دو مرتبہ ’’فوں، فوں‘‘ کر کے اس کی اس حرکت پر اپنا تعجب ظاہر کیا، مگر اس کی مانوس بو سونگھ کر پھر جگالی کرنے لگا۔ چندی بدلیا کے اس پیترے پر ذرا ہنسا۔ بولا، ’’ہم کاٹ نہ لیں گے بھوجی، ہم تو تم سے یہ کہنے آئے ہیں کہ ہماری تمہاری جوڑی اچھی رہےگی۔‘‘

    بدلیا کے ہاں گہرے کہرے کی طرح سکوت چھایا رہا۔ چندی سمجھانے والے انداز میں بولا، ’’میرا جھونپڑا بن گھر والی کے سونا لگتا ہے، اور تم بن مرد کے دکھی ہو۔‘‘ مگر گویا بدلیا گونگی تھی، اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ چندی نے آدھے دھڑ سے کھاٹ پر لیٹ کے اس کی ٹھوڑی کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا، ’’بولتی کیوں نہیں بدلی؟‘‘ وہ ہاتھ جھٹک کے آہستہ سے بولی، ’’ہمیں ایسی باتیں ناپسند ہیں! تم یہاں سے چلے جاؤ!‘‘ چندی پراس جھڑکی کا الٹا اثر ہوا۔ وہ کھاٹ پر گھوم کر اس طرف پاؤں لٹکا کے بیٹھا جدھر بدلیا تھی، وہ سہم کر پیچھے ہٹی۔ چندی پھر ہنسا۔ اس نے اچانک جھک کر بدلیا کی کلائی پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹا، بدلیا چیخ پڑی۔ وہ اتنے زور سے چیخی کہ بیٹھے ہوئے بیل پھپکاریاں مارتے اٹھ کر کھڑے ہو گئے اور بدلیا کی ساس نندیں جاگ اٹھیں۔

    چندی نے بدلیا کے ہاتھ چھوڑ دیے اور گھبرا کر کہا، ’’اچھا، اچھا، چیخ مت۔ لے ہم جاتے ہیں پر دیکھ آم ضرور کھا لینا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جھپٹ کر باہر نکل گیا۔ مگر ویسے ہی بدلیا کی ساس جھونپڑے میں ’’ارے کیا ہے ڈائن؟‘‘ کہتی ہوئی داخل ہوئی۔ اسے کسی کے بھاگنے کی آہٹ مل ہی چکی تھی۔ اب جو دیا جلا کر اس نے دیکھا تو یہ سماں نظر آیا کہ بدلیا کھاٹ سے الگ کھڑی، بڑے بڑے دیدے نکالے، ڈری سہمی اسے دیکھ رہی ہے اور کھاٹ پر اچھے اچھے آم ڈھیر ہیں۔ بس برس پڑی۔ ’’ڈائن، بیسوا، ہرجائن، میرے کلوا کو کھا کر اب یار بلاتی ہے، رہ تو جا، سویرا ہونے دے، برادری بھر کے سامنے تیری مانگ نہ مونڈ دی تو اپنے باپ کی جنی نہ کہنا۔‘‘

    اتنے میں نندیں بھی اپنے اپنے بچے بغلوں میں دبائے آ پہنچیں، وہ بھی ماں کے ساتھ مل کے بھن بھنانے لگیں۔ پھوس کے چھپروں میں رہنے والی چمر ٹولی یوں ہی مینہ برسنے اور چھپر کے ٹپکنے سے جاگ رہی تھی۔ یہ شورسن کے دوڑ پڑی، پانی تھم گیا تھا، اس ہنگامے کی آواز دور تک بآسانی پہنچی۔ بارے بڑی دیرجھک جھک بک بک کے بعد طے ہوا کہ صبح پر معاملہ اٹھا رکھا جائے اور اس وقت پوری تفتیش کر کے برادری سزا دے۔ اس فیصلہ کے بعد اور سب تو چندی کے لائے ہوئے آموں پر حسرت بھری نگاہ ڈالتے گھر سدھارے، مگر چھوٹی نند نے ٹھٹک کے اس ڈھیرسے چن کے چار آم اٹھا لئے، پھر وہ ایک کو دانت سے چھیلتی چل دی۔

    بدلیا نے وہی اطمینان محسوس کیا، جو بحری مسافر، طوفان کے بخیر و خوبی ختم ہو جانے پر محسوس کرتے ہیں، لیکن اس اطمینان سے اسے کسی قسم کی خوشی نہیں ہوئی بلکہ رنج کا احساس اور زیادہ ہوا۔ وہ تھوڑی دیر تو بیٹھی اپنی پھوٹی تقدیر پر روتی رہی۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے جھپٹ کر ایک ایک کر کے آم اٹھائے اور انہیں چھپر کے باہر پھینکنا شروع کیا۔ دو تین پھل غصے میں پھینکے تھے کہ ایک دسہری ہاتھ میں آ گئی، وہ خوشبو، وہ رائحہ، وہ نرم نرم پھسلتی ہوئی جلد کہ توبہ ہی بھلی! پھینکنے کے لئے اٹھا ہوا ہاتھ رک گیا۔

    اس نے بےساختہ اسے ناک کے قریب لے جا کر سونگھا۔ معلوم ہوا جیسے بپھری ہوئی ناگن کو جڑی سونگھا دی گئی ہو۔ وہ جھومنے لگی۔ اس نے دو ایک بار زبان کا سرا ہونٹوں پر پھرایا۔ پھر اٹھ کر کے زمین پر اکڑوں بیٹھ کے اسے دانت سے چھیل کر کے کھانے لگی۔ چھپر میں بڑی دیر تک بیلوں کی جگا لی اور بدلیا کے چٹخاروں کی آواز میں مقابلہ ہوتا رہا۔ البتہ یہ چٹخارے درمیان میں صرف اتنی دیر تک رکتے تھے جتنی دیر کہ بدلیا کو اپنے پھینکے ہوئے آموں کو پھر سے چن کر لانے میں لگتی تھی۔۔۔ پھر تو بیلوں کو مینڈکوں کی غرغراہٹ نہ سننا پڑی بلکہ بدلیا کے خراٹے بھی۔۔۔! اور انہوں نے جگالی کر کے یہ سب انگیز کیا۔

    دوسرے دن صبح سویرے ’’جنگل‘‘ سے پلٹتے ہی ساس نندوں نے مرے ہوئے بیٹے بھائی کا نام لے لے کر وہ ’’کوا گہار‘‘ مچائی کی برداری کی چمارنیں اکٹھا ہو گئیں۔ بدلیا خمار آلود آنکھیں لئے ان کے بیچ میں چپ بیٹھی رہی۔ بار بار پوچھنے پر اس نے گئو کی سوگند کھائی کہ اس کا کوئی یار نہیں ہے اور نہ اس نے کسی سے کہہ کے آم منگائے تھے۔

    ’’تویہ کیوں نہیں بتاتی کہ کون لایا تھا۔‘‘ ساس نے چمک کر کہا۔ بدلیا نے آہستہ سے کہا، ’’چندی آم لائے اور ہم پر ہاتھ ڈالا۔ ہم چیخے، وہ بھاگ گئے، ساس آ گئیں۔‘‘ چھوٹی نند جس سے چندی سے ایک زمانے میں دوستی رہ چکی تھی، کولہے پر ہاتھ رکھ کے بولی، ’’پرائے گھر میں جب تک کوئی بلایا نہ جائے، آئےگا کاہے کو‘‘ ایک چمارن بولی، ’’ارے نہیں، وہ بڑا پاجی ہے۔‘‘ دوسری نے کہا، ’’پر یہ بھی سچ ہے کہ اس میں کلو بہو کا بھی دوش ہے۔‘‘ ساس چیخی، ’’دوش سا دوش ہے، ارے لوگو اس ڈائن نے میرے کلوا کو کھا لیا۔ اب یہ یار ڈھونڈھتی ہے۔ چوری کا مال اڑاتی ہے، ارے یہ ہم لوگوں کی ناک ہی نہ کٹوائے گی، یہ ہم لوگوں کوجیل بھجوائےگی جیل!‘‘

    بڑی نند نے بدلیا کی طرف جھپٹتے ہوئے کہا، ’’تو مار کے نکال دو اس پاجن کو۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے اس نے بدلیا کو ایک طمانچہ رسید ہی تو کر دیا۔ بدلیا بوکھلا گئی۔ مگر قبل اس کے کہ اپنے کو بچانے کی کوئی تدبیر کر سکے، چھوٹی نے بڑھ کر ایک دھول رسید کر دی، اب تو ساری چمر ٹولی پل پڑی، کوئی چمارن کوس رہی ہے، کوئی بال نوچ رہی ہے۔ بدلیا نے جب جان بچتی نہ دیکھی تو اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور موقع پاتے ہی مجمع سے نکل کر دیوانہ وار بھاگی۔ اس کا سانولا چہرہ پختہ اینٹ کی طرح سرخ تھا، اس کے بال کی لٹیں سوار کی طرح الجھی ہوئی، بے قرینہ، منہ اور کندھوں پر پڑی ہوئی تھیں۔ اور اس کا جسم رہ رہ کر اس طرح کانپ اٹھتا تھا جس طرح زلزلہ کے ہر جھٹکے میں مکان اور درخت ہل جاتے ہیں۔ اس کے نتھنوں سے گرم گرم سانس نکل رہی تھی، اس کا حلق بالکل خشک تھا اور اس کی آنکھیں سامنے کے راستے کو نہ دیکھتی تھیں، بلکہ بہت دور کسی منزل کی جستجو میں تھیں، وہ اسی طرح بدحواس پکڑ کے درخت تک پہنچی، جو چمر ٹولی کے قریب ہی تھا۔ اس نے اس کی ابھری ہوئی جڑ سے ٹھوکر کھائی اور منہ کے بل زمین پر گر پڑی۔

    اس اچانک گرنے نے دل میں بھری ہوئی ساری تکلیفوں کو ایک لڑی میں گوندھ دیا اور وہ زمین پر منہ رکھے سسک سسک کر رونے لگی، گویا زمین نہ تھی بلکہ ماں کا سینہ تھا، جس سے سر لگا کر رو لینے میں آرام ملتا ہے۔ وہ یوں ہی پڑی سسک رہی تھی کہ پتوں میں کھڑکھڑاہٹ ہوئی اور چندی پکڑ کی موٹی موٹی شاخوں سے اترتا ہوا زمین پر مع اپنی لاٹھی کے دھم سے کودا۔ بدلیا اس دھماکے پرایک ہلکی سی چیخ کے ساتھ اٹھ بیٹھی، ایک نامعلوم خطرے کے خیال نے اس کے دل میں حد درجہ ڈر پیدا کر دیا، اس کے دماغ نے چندی کو ایک نئے حملہ آور کی شکل میں پیش کیا، وہ جلدی سے اٹھ کر پھر بے تحاشا بھاگی۔ اس کی قطع اس پانی سے بھری صراحی کی تھی، جو کسی ڈھالواں مقام پر لڑھکا دی جائے۔ صراحی کی طرح اس کے منہ سے کف جاری تھا۔ اس کے حلق سے آواز نکلتی جاتی تھی اور اس کی چال کا واک اور ٹیڑھی تھی۔

    چندی چند سیکنڈ بدلیا کے اچانک بھاگنے پر اسے منہ کھولے دیکھا کیا۔ پھر وہ اس کے پیچھے اس طرح دوڑا جس طرح شکاری کسی چڑیا کو زخمی کر کے پکڑنے دوڑتا ہے، بدلیا لڑکھڑاتی، بلکتی، سسکتی، پاس والے تخمی آموں کے باغ تک دوڑی، پھر اسے چکر سا آنے اور باغ لٹو کی طرح گھومنے لگا۔ وہ لپک کر سب سے پہلے درخت کے تنے سے اس طرح جا کر چمٹ گئی جس طرح بچے کسی اجنبی سے ڈر کر باپ کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں۔ چندی قریب پہنچ کر ٹھٹک کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے دلاسا دینے والے ا نداز میں کہا، ’’ارے کہاں جاتی ہے بدلی؟ کیا میکے میں ساس نندیں تجھ کو رہنے دیں گی، انہوں نے تجھ کو اپنے گھر سے نکال دیا، وہ تجھ کو وہاں سے بھی بدنام کر کے نکلوا دیں گے، ارے پگلی کہنا مان، دوسرا گھر بنا!‘‘

    بدلیا بھد سے زمین پر بیٹھ گئی، اور بڑی بے بسی سے رونے لگی۔ چندی اسے سمجھاتا رہا۔ مگر ہمدردی کی آواز تازیانہ کا کام دیتی رہی، گویا چندی کے الفاظ نہ تھے بلکہ ڈاکٹر کا نشتر تھا، جو جگر کے ناسور کو پھیلا اور بڑھا کر مواد کے نکلنے میں مدد دے رہا تھا، لیکن آہستہ آہستہ بے کسی و ناکسی کا طوفانی احساس کم ہونا شروع ہوا۔ مد کی جگہ جزرنے لی۔ چندی نے قریب کھسک کر کہا، ’’ارے بدلی، اس رونے دھونے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ تو ہمارے ساتھ چل کے رہ، پھر کسی کی اتنی ہمت نہ پڑےگی کہ تجھے آدھی بات بھی کہہ سکے۔‘‘

    بدلیا نے ایک دزدیدہ نگاہ چندی پر ڈالی۔ اچھا خاصا جوان تھا۔ عام چماروں کی طرح سوکھا، لاغر، بھوکا نہیں معلوم ہوتا تھا، صورت شکل بھی بری نہ تھی، چہرے سے جرأت اور نڈری کے آثار نمایاں تھے، آنکھوں میں پسندیدگی کی چمک پیدا ہوئی۔ اس نے جلدی سے سر جھکا لیا، چندی مسکرایا، ’’ارے پگلی، جب سب تجھ کو دوش ہی لگاتے ہیں۔ تو پھر کر کے کیوں نہ دکھا دے؟ کسی کا دیا کھاتے ہیں کہ ڈر ہے؟‘‘

    بدلیا نے اور گردن جھکا لی۔ چندی نے آگے بڑھ کر ٹھوڑی میں ہاتھ دے کر جھکے سر کو اٹھایا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر گھورا، اس نظر میں خوشامد بھی تھی، ہمدردی بھی تھی، اور دنیا بھر سے بدلیا کے لئے لڑجانے والا ارادہ بھی تھا۔ پھر بدلیا کی بھیگی ہوئی پلکیں اس کے آنچل سے پونچھ کر بولا، ’’لے اب اٹھ، گھر چل۔‘‘ وہ کاندھے پر لاٹھی رکھے آگے آگے چلا، بدلیا گھونگھٹ نکالے اس کے پیچھے پیچھے ہولی، جب دونوں چمرٹولی سے ہو کر گزرے تو بدلیا کی ساس اور بڑی نند نے راستہ روکا۔ وہ جھڑک کر بولا، ’’ہٹ جاؤ راستہ سے، نہیں تو سر پھوڑ دیں گے۔‘‘ وہ ڈر کے پیچھے ہٹیں، تو چھوٹی ہاتھ چمکا کر بولی، ’’ارے یہی رات کو آم لایا تھا۔‘‘

    چندی پلٹ پڑا، اس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی تھیں، ’’ہاں ہاں! ہمیں لائے تھے۔ وہ رات کی چوری تھی ٹھاکر کے باغ کی! یہ دن کا ڈاکہ ہے تمہارے گھر کا!‘‘

    بڑی نند نے کہا، ’’وہ پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ یہ ڈائن ناک کٹوا کے چھوڑےگی۔‘‘

    چندی نے کندھے پر رکھی ہوئی لاٹھی زمین پر زور سے کھینچ ماری، تینوں عورتیں جلدی سے چھپر میں گھس کر دروازے سے جھانکنے لگیں، چندی نے ڈانٹ کر کہا، ’’خبردار جو کبھی ڈائن کہا، یہ اب ہماری مہریا ہے۔‘‘ پھر ایک بار لاٹھی گھما دی۔ تینوں نے جلدی سے اپنے سر اندر کر لئے۔۔۔ اور یہ سپیرا مع اپنی نئی ناگن کے مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے