کل شام ہی سے وہ اپنے پنجوں پر کھڑا دکھائی دے رہا تھا۔ صبح تو اس نے ایک طرح سے بھوک ہڑتال سی کر رکھی تھی۔ چائے پانی کچھ نہیں۔ ناشتہ بنایا، لگادیا۔ بچوں کو اسکول بھیجا، آنند کو آفس۔
پھر میرے کمرے کے دروازے سے لگ کر آکھڑا ہوا، ’’آج جوس نکال کر تھرمس میں رکھ دوں؟‘‘
چہرہ اٹھانے میں ہتھیلی کے نیچے دبے کاغذ سے کاربن کے کھسک جانے کے اندیشے سے میں نے سراٹھانے کاجو کھم نہیں لیا۔ کچھ تکلیفوں کی ایک بو ہوتی ہے، دیوار پر دھویں کی طرح چپکی، جنہیں چہروں سے الگ نہیں کیا جاسکتا، اور ٹالا بھی نہیں جاسکتا۔
منھ اٹھاکر دیکھنے پر کچھ ویسا ہی چہرہ دیکھنے میں آیا جو میرے تصور میں تھا، بے چین اور باغی۔
یوں وہ ایک خوش مزاج لڑکا ہے، کچھ ہنسی مذاق کرنے والا بھی، سیر چشم بھی۔ ایسی بے چینی کے ہوڑ حملے سے پرے جو آدمی کو اندر سے ثابت نہیں رہنے دیتی۔ ثابت رہنا اچھا ہے یا بے چین رہنا، یہ ایک کٹھن قسم کا فیصلہ ہے۔ بے چینی نہ ہو تو کوئی آگے ہی نہ چلے، اپنے ثابت اطمینان میں بت بنا بیٹھا رہے۔
اصولی طور پرمیں خود بھی اس بے چینی کی قائل ہوں۔ اسی بے چینی نے مجھے بھی کبھی اس قسم کے اطمینان کی مار سے بچالیا تھا۔ تب، جب مجھے لگتا تھا میرے جوڑوں ہی میں نہیں میری ہڈیوں میں بھی زنگ لگ چکا ہے۔ میری کھال کے نیچے ربڑ کے غبارے میں بھرے ہوئے پانی کی طرح قید ایک تھل تھل کرتا بہاؤ ہے جو ادھر سے اُدھر بس لڑھکتا ہے، کسی سمت کاتعین نہیں بنتا۔
اس بے چینی کا کنارہ پکڑ کر چلنا شروع کرنے پر وجود پر جمی کائی ایسے ڈگمگائی تھی جیسے نیچے سے بھونچال کے اٹھنے پر دھرتی پر برسوں سے سوئی مٹی اور ملبے کی پرتیں۔ اپنی ادھ بیچ چھٹی تعلیم کو پورا کرنے کا میں نے فیصلہ کرلیا تھا۔ حالاں کہ آنند کو یہ بات اچھی نہیں لگی تھی۔ بہت اَکھرے تھے اسے بڑھاپے کے یہ بچگانہ آثار۔
میرے اس طرح اچانک وہاں جاکھڑے ہونے پر ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ نے مجھے گھورا تھا۔ میرا کچھ تھل تھل جسم، کمر کے پاس ابھری گوشت کی پرتیں، کہنی سے اوپر آستینوں کے ضبط سے باہر ہوتی بانہوں کی کھال، آنکھوں پر موٹا چشمہ اور ناخنوں پر پتی نیل پالش کو کوروں پر سے جھٹلاتے چکنائی کے داغ۔ ہیڈ آف ڈپارٹمنٹ کی جائزہ لیتی نظر نے میری نظر کو مجھی پر گاڑ دیا تھا، کچھ دوسری طرح سے۔ میں کچھ پریشان ہوگئی۔ پانی پانی۔
’’نوکری؟ ون ہیز ٹو کم تھرو پروپر چینل۔‘‘
’’نوکری نہیں۔۔۔ مجھے داخلہ چاہیے۔‘‘
’’یو مین۔۔۔ یعنی کہ۔۔۔ کس میں؟‘‘
’’ایم اے میں۔‘‘
اپنی نگاہ کو میز تک واپس لے جاتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک بار پھر جانچا، ’’بیٹھ جائیے۔‘‘
ظاہر تھا کہ یہ دعوت دنیا داری کی دوڑ کے لحاظ سے بھاری ہوجانے والے میرے گرہست وجود کو دی گئی تھی۔ سامنے بیٹھتے ہوئے میں نے دھیان دیا تھاکہ ہیڈآف ڈپارٹمنٹ عمر میں مجھ سے کافی چھوٹا تھا، کچھ کچھ میرے چھوٹے بھائی پنو جیسا۔ میرے اس کے سامنے اس طرح کھڑے رہنے کی بے آرامی کو اس کا چہرہ اب تک قبول نہیں کرسکا تھا۔
’’داخلہ؟‘‘ اس نے یوں ہی کھنکھار کر کہا تھا، ’’اب۔۔۔؟ میرا مطلب ہے اس۔۔۔‘‘
’’ہاں ں ں! داخلے کاکیا ہے۔۔۔ کبھی بھی۔۔۔‘‘
’’نہیں، میرا مطلب ہے۔۔۔ سب ٹھیک ٹھاک توہے نا؟‘‘ ‘
مجھے فوراً کوئی جواب نہ سوجھا۔ سب ٹھیک ٹھاک ہے، پر باہر بھیتر کچھ بھی نہیں۔ میاں کی اونچی نوکری، ایک عدد گھر، دو اچھے بچے، بڑھیا اسکول، وہ سب جسے کیا کہتے ہیں، اچھی حیثیت، سیکڑوں ساڑیاں، درجنوں جوتے، سنہرے روپہلے آئینے۔۔۔ مگر اندر کہیں کوئی چیز سب کو فالتو کردیتی ہے، ایکاایک۔
’’آپ سے پہلے بھی کہیں ملا ہوں۔۔۔ نہیں؟‘‘
’’ہاں، مہروترا کی پارٹی میں۔‘‘ اسے بھی یاد آگیا تھا۔
’’پڑھنے کی عادت چھوٹ نہیں جاتی اتنے دنوں میں؟‘‘ اس نے پھر جانچنا چاہا تھا، ’’مائی وائف سیز اِٹس اے لگژری تو اِسٹے ایٹ ہوم۔۔۔‘‘
’’ٹھیک کہتی ہیں آپ کی پتنی۔‘‘ میری اس بات پر وہ چہرہ پھر پرسکون ہوگیا، جیسے یہ پڑھنے اور پھر نوکری کرنا چاہنے کی مجبوریاں، جو کچھ بھی ہیں وہ سمجھتا ہے، اچھی طرح۔
’’کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا زندگی کے بارے میں۔۔۔‘‘ ایک دھیمی، غیر یقینی سی بدبداہٹ انہوں نے سرکائی اور پھر چونک کر اپنے سامنے رکھی گھنٹی ٹنٹنادی۔ پھر سنجیدگی سے سکڑتے ہوئے بولے، ’’ون شڈآلویز بی پریپیرڈ۔۔۔ کبھی بھی، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
کچھ ہونے کا ذکر اس وقت بڑا بدحواس کرنے والا لگا تھا۔ ان واقعوں حادثوں کا کیا ہو جو دوراہوں چوراہوں پر نہیں بلکہ واقعات سے خالی، سنسان اندھیرے میں پیش آتے ہیں۔ ایک مسلسل اور خاموش احساس کی طرح۔ کہیں کچھ بھی نہیں ہوتا، پھر بھی ہوتا رہتا ہے۔ کوئی چیز اندر ہی اندر، دھیرے دھیرے، اپنے دیکھتے جانتے، مرتی رہتی ہے۔ پہلے روح کی جلن جیسا کچھ، پھر خاموشی، پھر سب کچھ سن سن۔۔۔ رگوں میں بہتاگرم لاوا پانی کی تاثیر لے لیتا ہے، اور اپنے سے اپنا رشتہ دوٹوک ہوجاتا ہے۔ اپنی ہی نظروں میں اپنی قدر گھٹ جانے کی وہ گھڑی ٹھیک سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔۔۔ بھدی، ساکت اور بدحواس۔ تب کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ جو ہوچکا ہے وہ کیوں ہوا تھا اور اب آگے کیا ہوگا۔
میں بھول گئی تھی کہ وہ کچھ پوچھتا دروازے پر کھڑا ہے۔ میں کسی دوسرے سفر کے دور میں تھی جو اس سے لگ کر شروع ہوا تھا، پر اس میں اس کے لیے کچھ نہیں تھا، صرف بلندیوں پر ٹکے معنی کے حصول کے اپنے احساس کے سوا۔
’’کیا کہہ رہے تھے تم؟‘‘
’’آج تھرمس میں رکھ دوں آپ کا جوس؟‘‘
’’رکھ دو۔‘‘
میں نے دیکھا وہ جواب سن کربھی گیا نہیں، وہیں کھڑا رہا۔
’’کیوں؟‘‘
’’آپ ابھی کھانا کھالیں تو۔۔۔ مجھے کہیں جانا ہے، لوٹنے میں دیر ہوسکتی ہے۔‘‘
’’کہاں جانا ہے؟‘‘
وہ چپ رہا، میرے اٹھے ہوئے سوالیہ چہرے کو نظرانداز کرتا۔
’’کہاں جانا ہے؟‘‘ اب تک میرے اندر ایک چالاک بزدل پنجوں کے بل کھڑا ہوچکا تھا۔
وہ پہلے تولتا سا رہا، پھر بولا، ’’ملنے جانا ہے۔۔۔ سیٹھ نے بلایا ہے۔۔۔ ساڑھے گیارہ بجے۔۔۔ پچھم پوری۔۔۔‘‘
’’کون سا سیٹھ؟‘‘
’’وہی فیکٹری والا۔ اس کے یہاں ایک ڈرائیور کی جگہ خالی ہے۔۔۔ شروع میں پانچ سو دینے کو کہتا ہے۔۔۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہے وہاں دن رات کی چاکری۔۔۔‘‘ حالانکہ کہتے کہتے میرے اپنے لفظ میرے سامنے ہی کھوکھلے ہوگئے تھے۔ وہاں یا کہیں بھی، کوئی دن یا کوئی رات تو ہوتی ہوگی۔ یہاں تو۔۔۔ پارٹیوں کے دور آئے دن چلتے ہیں، اور رات کے کبھی نہ ختم ہونے کا بوجھ چوکھٹوں پر چپکا ملتا ہے۔
’’وہ سب ٹھیک ہے پر۔۔۔‘‘ اس نے نرمی ہی برتی۔
پندرہ یا بیس دن پہلے یہ ذکر چھڑا تھا اور فیصلہ ہوا تھا کہ چاہے ہم نے تین سو روپے ڈبوکر اسے ڈرائیور کی ٹریننگ دلوائی ہے پر وہ ابھی کہیں بھی ڈرائیور کی نوکری نہیں ڈھونڈے گا۔ اس کی پل پل چوکنی ہوتی ہوئی حیثیت چپ چاپ ہمارے فیصلوں کا انتظار کرے گی۔ وہ فی الحال ایسا کچھ نہیں کرے گا جس سے چٹان کی نوک پر لٹکی ہماری گرہستی کا پیر پھسل جائے۔
ادھر آنند کی فارن کی ٹریننگ ٹرپ طے ہوگئی تھی۔ ببلو پنکی کے امتحان تھے۔ میرا ناول بیچ میں کہیں لتھڑ رہا تھا۔ یہ ذمے داری میں نہیں اٹھاسکتی تھی، اپنی یا اپنے بچوں کی بھی۔ یہ سب اسی کی مہارت اور نرمی کے ذمے تھا۔ بچوں کو اچھا شہری بنانے اور مجھے اچھا لیکھک بنارہنے دینے کی مہم میں وہ ایک ضروری زینہ تھا۔ ہمارے خوابوں اور ارمانوں کو ہمارے قریب سے قریب تر رکھنے میں اس کا حصہ بے حد اہم تھا۔ وہ ایک ان گڑھ پتھر تھا، ہم اسے ان تمام برسوں میں سمجھانے میں کامیاب ہوچکے تھے، جسے ہم ہیرے کی سی تراش خراش دے رہے تھے، ترقی دے رہے تھے، اس کو غلامی کی چوٹی تک لے جاکر۔
’’وہ بات ہم نے تمہیں سمجھا نہیں دی ایک بار؟‘‘
ہم نے اسے سمجھایا تھا کہ ہم اسے یہ ہنر سکھا بھی دیں گے اور سوروپے بڑھا کر اپنے ہی بے مثال گھر میں کھپا بھی لیں گے۔
ا س سوال کا اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تاثرات سے بس اتناجتادیا کہ یہ بات نہ وہ سمجھا ہے نہ سمجھنا چاہے گا۔ اس کے کھڑے ہونے کے تناؤ میں ایک روٹھی ہوئی، ضد بھری ڈھٹائی تھی۔
’’ابھی جاؤ۔۔۔ پھر کبھی اطمینان سے بھیج دیں گے۔‘‘
وہیں جمے رہنا اس بات کا جواب دے گیا، بغیر بولے۔
’’میں نے کہا نا پھر دیکھیں گے۔‘‘ میں گھبرائی نہیں تھی۔ مجھے بھروسا تھا کہ جو کچھ اب تک ہوا ہے، اب بھی ہوسکے گا۔ وہ ٹل جائے گا، کیوں کہ اب تک وہ خاصا پالتو ہوچکا ہے۔ ہم اس کی وفاداری کو ایک طرح سے خریدچکے ہیں۔ سائیکل سیکھتے وقت پیر میں آئی چوٹ میں اس کی دیکھ بھال کرکے، اس کے باپ کی بیماری میں دوا دارو کے لیے پچھتر روپے کا منی آرڈر بھجواکر، ہم اسے یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے تھے کہ اس کی ماں کو اس وقت خود اس کی نہیں، ان پیسوں کی زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں یقین تھا ہم نے اسے خریدلیا ہے، کچھ پھٹی پرانی پینٹوں اور قمیصوں کے ذریعے سفید پوشی کا رتبہ دے کر، چاہے وہ رتبہ دے سکنا ہمیں بھی ایک موچی مارکہ، نوسیکھیے درزی کی مدد سے حاصل ہوپایا ہو۔ ہمارے خیال میں اب وہ پوری طرح ہمارا ہوگیا تھا ہمارا پالتو۔۔۔ پھر کیوں یہ۔۔۔؟
اس کا وہ انداز۔۔۔ یقیناً وہ کپڑے پر بیٹھی برف کی پھوار کی طرح نہیں تھا کہ اٹھاکر جھاڑ دیا جائے۔ آس پاس کہیں کچھ سخت جان تھا۔ اندر سے ٹھوس، میان میں چھپی تلوار کی طرح چمک دار اور چست۔
’’اس دن آپ ہی نے تو کہا تھا۔۔۔‘‘ اس کی آواز ایک دم روہانسی سی ہوگئی تھی۔
’’کیا کہا تھا میں نے؟‘‘ میں پتا نہیں کیوں چونک گئی، اپنے ہی بے دھیانی میں کہے لفظوں کی قید سے بچنے کے لیے چوکنی۔
’’آپ نے کہا نہیں تھا کہ کسی کو بھی اپنے سے تسلی کرکے بیٹھ نہیں جانا چاہیے۔۔۔ پنکی دیدی کو آپ۔۔۔‘‘
بیج جو ہم نے بکھیرے تھے، ان میں اکھوے پھوٹ آئے تھے۔ شام کو بچوں سے بتیاتے وقت وہ بھی سرک کر پاس کہیں زمین پر بیٹھ جایا کرتا تھا، یا نہ بیٹھ پاتا تو کام کی رفتار ایک دم دھیمی کردیتا۔۔۔ اس کا کان دھرنا ہماری نظر میں غلط تھا، پر صحیح غلط کے بیچ ڈولتی ہماری روشن خیالی اسے جھٹک دینے میں سدا ناکام رہتی تھی۔
اس دن تنے ہوئے تیوروں کا عادی اس کا چہرہ کچا سا پڑگیا تھا۔ اٹ پٹے سے نقوش اور بے مطلب لمبائی۔ بیس سال کی عمر میں بھی ہنستے ہوئے بھولپن کو جتاتے اس کے موٹے ہونٹ۔ اس قت وہ ایسے بگڑیل بچے کی تصویر لگ رہا تھا جس کی ضد تو ہوتی ہے پر اس ضد کو سہہ جانے والا کوئی گھر نہیں ہوتا۔
اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے مجھے اس کے کپڑے اچانک بے حد گندے اور ہاتھ کھردرے لگنے لگے۔
’’وہ جو کپڑے سلواکردیے تھے، وہ کیوں نہیں پہنتا؟‘‘
ایک عجیب قسم کی بے چینی اس کے روہانسے پن سے آچپکی۔ اسے شاید پچھلی باتوں اور ان باتوں میں کوئی رشتہ نظر نہیں آیا تھا۔
’’گھر میں یہی ٹھیک ہیں۔‘‘ اس نے اپنی سیلٹی ملیشیا کی کھردری قمیص کو ذرا نیچے کھینچتے ہوئے کہا، ’’ڈرائیونگ اسکول میں جانے کے لیے اچھی پینٹ قمیص چاہیے ہوتی ہے۔‘‘ اس کی آواز بھٹکتے ہوئے پلٹ کر پھر اپنے ٹھکانے پر لوٹ آئی تھی۔
’’پنکی دیدی کو آپ۔۔۔‘‘
’’کیا دیدی دیدی لگا رکھی ہے۔‘‘ میں جھنجھلاگئی۔ پتا نہیں کتنی سمتوں سے آتی ہوا مجھے میرے سامنے بے لباس کر رہی تھی۔ میں کیا چاہتی تھی۔۔۔ اپنا احساس، اپنے کو اپنے آگے کی سیڑھی پر رکھ سکنے کی کمزور مگر حقیقی کوشش۔۔۔ میرے ہی باتوں کا حوالہ دے کر۔۔۔ مجھے گرومان کر۔۔۔ مجھے کھکھول کر۔ کبھی میں بھی۔۔۔ جب میں نے بھی آنند کے اعتراض کے باوجود اسی کی طرح ایک دن کا کنارہ پکڑ کر۔۔۔
’’میں صاحب سے بات کروں گی۔‘‘ پتا نہیں میں نے ٹالا تھا یا سچ مچ اندر ہی اندر نرما گئی تھی۔
’’نہیں، نہیں۔۔۔ صاحب سے نہیں۔۔۔‘‘ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گیا تھا، کانپتا ہوا، ’’ان سے نہیں۔ وہ نہیں جانے دیں گے۔۔۔ کبھی نہیں۔ جب تک آپ نہ کہیں۔۔۔‘‘
اس کی آنکھوں میں ایک پنیلی جھلملاہٹ اتر آئی تھی، ’’میں کیا ہمیشہ۔۔۔ یہیں۔۔۔ اسی طرح۔۔۔‘‘
اس نے اپنا سر دونوں ہتھیلیوں میں لے لیا تھا۔
’’تو کیا نوکری چھوڑنا چاہتا ہے۔۔۔؟ میرامطلب ہے ایسی نوکری؟‘‘
مجھے یقین تھا وہ ابھی ’’نہ‘‘ کہہ دے گا۔ ایسی عزت والی چاکری اسے کہیں اور نہیں مل سکتی تھی جہاں ’’بچوں کی طرح‘‘ کا واسطہ دے کر اسے کتنی ہی کم نازک چیزوں میں حصے دار بنالیا جاتا تھا۔
’’ہاں! اگر آپ غلط نہ سمجھیں۔۔۔ میں سچ کہتا ہوں، میں آپ کے سب پیسے چکادوں گا۔۔۔ ایک ایک۔۔۔ جتنا بھی آپ نے میرے اوپر خرچ۔۔۔‘‘
اس کے کندھوں پر ٹکی گرہستی کا احساس مجھے ایکا ایک بے چین کرگیا۔ پرجو جھلک مجھے سامنے دکھائی دی وہ ادھوری تھی۔ وہ کوئی کونپل نہیں تھی، ایک کھردری، ریشے دار جڑ تھی۔۔۔ بہت اندر۔۔۔ میں اسے جانتی ہی نہیں، پہچانتی بھی تھی۔ مٹی کے نیچے چپ چاپ بیٹھی ضرور رہتی ہے، پر مٹی سہارا نہ دے تو مٹی کے نظام کو توڑ کر پار جانکلتی ہے۔
مجھے لگا نظام خطرے میں پڑنے لگے تو سخی ہوجانا ہی سمجھ داری ہے۔ مگر سمجھ داری کی قیمت؟ میرے سامنے گھر کی دیواریں لڑکھڑانے لگی تھیں اور اپنے ہی لفظوں سے اٹھتا، دم گھونٹتا ہوا دھواں۔۔۔ میں نے اُن سب کو بٹور کر، پاس بٹھاکر سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ اپنا وجود اپنا ہوتا ہے۔ حالات، مقام یا کوئی اور تام جھام اسے ہڑپ نہیں کرسکتے۔ اسے ہڑپنے والے عفریت سے اپنے قد کو دوانچ اوپر رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، نہیں تو اتنی بڑی دنیا میں اپنی کوئی حیثیت نہیں بنتی۔۔۔ ذرا بھی نہیں۔ اچھا شوہر ہو تو بھی نہیں (میں نے پنکی کو خاص طور پر سمجھایا تھا) اچھا گھر ہو، دھن دولت ہو تو بھی نہیں۔۔۔
’’حیثیت پھر الگ سے کیا ہوتی ہے؟‘‘ پنکی نے الجھتے ہوئے پوچھا تھا۔
زمین پر پالتی مار کر بیٹھے، سراوپر کو اٹھائے، اس کی آنکھیں ایک دم چمک اٹھی تھیں۔
’’اپنے کو لگنے لگے، کہ اپن کچھ ہیں۔۔۔ کچھ کرسکتے ہیں۔۔۔ ہے نا میم صاحب؟‘‘
’’ہاں!‘‘ میرا دھیان پوری طرح اس کی طرف نہیں تھا، نہیں تو اس چمک کی جڑ کو میں نے ضرور دیکھ لیا ہوتا۔
’’میں تو کب کا سمجھ گیا۔‘‘ میری باہر جاتی پیٹھ نے کھلکھلاتے غرور سے کہے گئے یہ الفاظ سنے ضرور تھے، پر سمجھے نہیں تھے۔
دیکھاجائے تو وہ کچھ غلط نہیں سمجھا تھا، مگر اس کا یہ سب سمجھ جانا ہی اس وقت میرے دماغ کو سن کر گیا تھا۔ اس وقت میں زمین سے انگل بھر اونچی حیثیت کے بارے میں نہیں، گھر کے ڈانوا ڈول ہوتے ہوے توازن کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اپنے آدھے لکھے ناول کے بارے میں، پنکی ببلو کے امتحانوں کے بارے میں، دیوالی پر پٹنہ سے آنے والے مہمانوں کے بارے میں۔۔۔
اس نے کتنے ہلکے سے جھٹکے سے میری محنت سے حاصل کی ہوئی حیثیت کو ہلادیاتھا۔ کیا نام اس حیثیت اور ہستی کا ہے جو دوسروں کے کندوھوں پر پاؤں رکھ کر چلتی ہے اور اپنے ہی بنائے سیخچوں میں خود قید ہوتی ہے۔۔۔
اس کا چہرہ اب تک بجھ گیا تھا۔۔۔ کچھ کچھ مایوس اور بے جواب۔
’’تو آخر کیا چاہتا ہے؟‘‘ میری بے بسی اس پر جھنجھلاہٹ بن کر اتری۔
وہ لمحہ بھر کو جھجکا، ’’آپ ہی بتادیجیے نا، آپ لوگ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
یہ ایک طرح کا آمنا سامنا تھا۔۔۔ لگ بھگ غیر متوقع، داتا ہوسکنے کی سخاوت سے بھرپور۔ دیکھا جائے تو حیثیت کا سوال یہیں طے ہوگیا تھا۔ جس کی کچھ حیثیت ہوتی ہے وہی دیتا ہے، دے پاتا ہے۔ حیثیت کے کنگال سے یہ امید ہی کہیں ہوتی ہے؟
’’میں چاہتی ہوں، تو تھوڑے دن اور رک جا۔۔۔ تھوڑا ادھر سدھ جائے اور۔۔۔ اور۔۔۔ تب تک یہاں بھی۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔ کوئی اور انتظام بھی ہوجائے گا۔۔۔ نہیں؟‘‘
اس سوالیہ ’’نہیں؟‘‘ کی نوک پر میری ساری حیثیت اس وقت سمٹ کر بیٹھ گئی تھی، تھر تھراتی ہوئی۔
وہ بنا کچھ کہے باہر چلا گیا، پیر پٹکتا سا۔ میرے کان اس کے قدموں کی آہٹ کا پیچھا کر رہے تھے۔ ہاتھ کاغذ سرکاکر چپ بیٹھ گئے تھے اپنے آپ۔
لمحے بھر میں رسوئی گھر میں برتنوں کی کھٹ پٹ سنائی دینے لگی تھی۔ مجھ سے پوچھے بنا تھوڑی ہی دیر میں وہ کافی کا کپ بناکر میری ٹیبل پر رکھ گیا تھا۔
’’سنو۔۔۔ ایک دو بسکٹ دے جاؤ۔‘‘ میں نے اس کے تیزی سے لوٹتے قدموں کی بے دلی کو سہج انداز سے کریدنا چاہا۔
بسکٹ لے کر حاضر ہوا تو میں نے اس کا چہرہ ٹٹولنا چاہا۔ پر وہ چہرہ بند تھا، ان بوجھا اور اداس۔
ذرا دیر میں رسوئی گھر کا فرش دھلنے کی آواز آنے لگی، پھر جھاڑو پٹکنے کی۔ پھر کھانا بنانے لگنے کی۔ دوپہر تک وہ مجھے کافی پرسکون دکھنے لگا، لگ بھگ گم۔
شام کو بچوں کے سیشن میں وہ زمین پر نہیں، دروازے سے لگ کر کھڑا رہا۔ کئی بار اس کے انداز سے کچھ بولنے کاارادہ ساظاہر ہوا مگر روز کی طرح کوئی سوال سامنے نہ آیا۔ سوال کرنے میں روز وہی زیادہ شوق دکھاتا تھا۔ کانونٹ میں پڑھے بچے تو ہمیشہ اپنے میں گم، خود پسند ملاکرتے تھے۔
مجھے لگ رہا تھا وہ کسی نہ کسی طرح گھماپھرا کر یہ بات ضرور پوچھے گا کہ وہی بات پنکی کے لیے، ببلو کے لیے، میرے لیے، ہر کسی کے لیے ضروری اور اس کے لیے غیرضروری کیوں ہے۔ پر۔۔۔
پر یہ تو اچھا ہی تھا کہ وہ سب کو ٹکر ٹکر دیکھ رہا تھا اور سوال پوچھنے کے شوق سے پوری طرح خالی لگ رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.