کہی ان کہی
کہانی کی کہانی
ایک نفسیاتی کہانی، جو خدا اور انسان کے درمیان کے رشتوں سے وابستہ کئی سوالوں پر بات کرتی ہے۔ ایک شخص شہر کے چوک میں کھڑا ہوکر پوچھتا ہے کہ کیا کسی کو پتہ ہے کہ وہ دن کون سا تھا جب خدا انسان سے خوش ہوا تھا؟ مجمع میں بہت سے لوگ کھڑے ہیں مگر کوئی بھی سوال کا جواب نہیں دیتا۔ بس سبھی اس کے مذہب اور سوال کے وجہ پر زور دیتے رہتے ہیں۔
’’کچھ بھی تو نہیں بدلا، سب کچھ ویسا ہی ہے۔ پہلے بھی سڑک یہاں تک تھی۔ سواریاں ٹم ٹم سے یہیں اترتی تھیں اور اپنا اپنا سامان اٹھائے لوگ گھروں کی طرف چل دیا کرتے تھے۔‘‘
آٹو رکشہ کا کرایہ ادا کرتے ہوئے اظہار نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا تھا یا کراچی سے ساتھ آئے مختار سے، دونوں کیا تینوں ہی نہ سمجھے۔ کلکتہ سے بردوان اور وہاں سےاودھم پورہ تک وہ بس میں آئے اور وہاں آٹو رکشہ پہ نظر پڑنے کے بعد پہلے تو انہوں نے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھا ور پھر تینوں ہی آٹو رکشہ کو دیکھنے لگے تھے، جس میں کئی سواریاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ سواریوں میں ان کے ہم عمر دو تین ہی تھے، جنہوں نے ان تینوں کو پہلے تو غور سے دیکھا پھر اپنے ذہنوں پر زور دیا۔ کسی کو کچھ یاد نہ آیا تو ان میں سے ایک نے ان سے پوچھنا ہی مناسب جانا اور جب اس نے یہ جانا کہ سبھی کراچی پاکستان سے آئے ہیں تو اس نے دوسرا سوال کیا، ’’کس کے گھر جائیں گے؟‘‘
سوال نہیں کیا گیا۔ ان تینوں نے محسوس کیا سوال کرنے والے نے انہیں صحرا میں کھڑا کر دیا ہے۔ چاروں طرف ریت ہی ریت ہے، منزل ہے نہ ہی اس کے آثار۔ پل بھر کے لئے وہ لرز کر رہ گئے۔ لیکن فوراً حافظے نے انہیں سنبھالا۔ انہیں یاد آیا، ایمبیسی میں ویزا فارم کی خانہ پری کرتے ہوئے یہ سوال کسی اور روپ میں ان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔ گھنٹہ بھر بعد جب سفارت خانے میں افسر کے سوالوں کے جوابات دے رہے تھے تب بھی یہی سوال کسی اور شکل میں ان کے سامنے موجود تھا۔
’’بلوندر پال سے ملنے آپ کیوں جانا چاہتے ہیں اور یہ بھی بتائیں، بلوندر صاحب آپ کے کون ہیں؟‘‘
بلوندر ان کا کوئی نہ تھا۔ انہو ں نے بے چارگی سے افسر کو دیکھا تو اس نے مسکراتے ہوئے ان سے کہا، ’’اس گاؤں میں آپ تینوں کا کوئی بھی سگا سمبندھی نہیں ہے۔ آپ میں سے ایک بھی نہیں بتا پارہا ہے کہ بلوندر آپ کے کون ہیں؟ اور پھر بھی آپ بردوان کے اس گاؤں میں جانے کی خاطر کراچی سے اسلام آباد ویزا لینے آئے ہیں۔‘‘
’’دیکھئے صاحب! بات دراصل یہ ہے کہ ہم وہاں بلوندر سے ملنے نہیں جا رہے ہیں۔ وہ ہے بھی یا نہیں یہ تو ہم بھی نہیں جانتے۔ ہمیں اس کا نام بھی اس وجہ سے یاد رہ گیا کہ جب ہم وہاں سے چلے تھے وہ ہمیں چھوڑنے کلکتے تک آیا تھا۔ ‘‘
ویزا افسر کی سمجھ میں ساری بات آ گئی تو بڑے ہی معنی خیز انداز میں فارم کے ذیلی حصے پر دستخط کرتے ہوئے اس نے کہا تھا، ’’پورے ترپن برسوں کے بعد گاؤں یاد آیا ہے۔‘‘
ان تینوں کو اس کا مسکرانہ اچھا لگا، نہ اس کی بات ہی بھلی معلوم دی۔ اظہار اور مظہر کے تو منہ ہی بن کر رہ گئے تھے پر مختار نے بات نبھائی تھی۔
’’دیکھئے جی! یاد تو بھلا دینے والوں کو کرتے ہیں۔ گاؤں کے جن گھروں میں ہم پیدا ہوئے، جن گلیوں میں کھیلے کو دے، انہیں کون بھلا پائےگا صاحب۔‘‘
’’سوری، لیکن میں پھر کہوں گا پورے ترپن سال بعد۔۔۔‘‘
’’نہیں صاحب نہیں۔ یاد تو وہ روز ہی آتا رہا اور زوروں سے یاد آتا رہا ہے۔ لیکن اب تک ہماری مجبوریاں ہمیں روکتی رہیں۔ بچوں کی تعلیم، تربیت، ان کے مستقبل کا خیال۔۔۔ اب کہیں وقت نے مہلت دی تو ہم نے سوچا کہ اس سے پہلے ہم اس زمین کا حصہ بن جائیں۔ اس زمین کو چوم آئیں جس پہ آج بھی ہمارے وجود کا لمس ناچتا ہوگا اور صاحب! خاص بات تو یہ ہے کہ وہیں ہمارے پرکھے آرام کر رہے ہیں۔‘‘
’’بلوندر کے گھر۔۔۔‘‘
پلکیں میچ کر ان میں سے دو نے کچھ یاد کرنے کی کوشش کی پھر ٹھنڈا سانس خارج کرتے ہوئے تھوڑے سے فاصلے پہ موجود بستی کی طرف اشارہ کرنے کے بعد سڑک سے ملحق گلی کی طرف بڑھ گئے۔
’’رکشہ سے اترنے کے بعد تم نے کچھ کہا تھا؟‘‘
’’ہاں۔ میں نے کہا تھا۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔‘‘
’’کہتے ہوئے خیال نہ آیا، ہم بدل چکے ہیں۔‘‘
اظہار نے مختار کی بات پر دھیان دیتے ہوئے اپنے چھوٹے بھائی مظہر کی طرف دیکھا اور سر جھکانے کے بعد اسے اثبات میں جنبش دی۔ پانچ منٹ بعد گاؤں کے کھڑنجوں پہ چلتے ہوئے ان تینوں کے دلوں میں مسرت کدکڑیاں بھر رہی تھی۔ دائیں بائیں کچے مکانوں کے اندر سے آتی مٹی کی بساندان کے نتھنوں میں اتری تو دلوں میں کدکڑی بھرتی خوشی قلانچیں لگانے لگی۔ ایک آدھ دروازے پہ کھڑی عورت نے انجانے چہرے دیکھے تو دو قدم پیچھے ہٹی اور کواڑوں کے پٹ بھڑ گئے۔ کچھ پل بعد کھلے تو گھروں میں سے چھوٹے بچے باہر نکلے اور ان کے پیچھے ہولئے۔ اپنے حافظے پر زور دیتے ہوئے وہ بڑھتے رہے۔ دو ایک گلیوں سے گزرنے کے بعد انہیں محسوس ہوا بچوں کے ساتھ ساتھ کچھ نوجوان بھی ہیں۔ انہوں نے رک کر ان سبھی کو دیکھا۔ ایک نوجوان کو اشارے سے بلانے کے بعد ان سے بلوندر کے متعلق معلوم کیا تو وہ ان سے دو قدم آگے چلنے لگا اور کچھ ہی دیر بعد لکھوری اینٹوں والے مکان کے دروازے پہ کھڑا وہ کسی کو آواز دے رہا تھا۔ دوسری ہی آواز پر اسی کی عمر کا ایک لڑکا دروازے پر پہنچا تو اس نے اس سے کہا، ’’یہ۔۔۔ تیرے دادا کو پوچھ رہے ہیں۔‘‘
مکان کے اندر سے کسی کی گونجتی ہوئی آواز نے معلوم کیا کہ کون ہے اور جواب میں نوجوان نے سوال کرنے والے کو دروازے پر بلایا تو انہیں اطمینان ہوا۔ دوسرے ہی پل ایک تنومند شخص ان کے سامنے کھڑا ہوا تھا۔
’’ہمیں بلوندر سے ملنا ہے۔۔۔ آپ۔۔۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
مکان کے اندر سے ایک اور آواز انہوں نے سنی تو تینوں کے چہرے کھل اٹھے۔ تنومند شخص ان کے مطمئن چہروں کو دیکھ کر الٹے پیروں لوٹا۔ اس دوران مکان کے سامنے کچھ اور لوگ جمع ہو چکے تھے۔ ہر آنکھ میں اشتیاق ڈیرا ڈالے ہوئے تھا۔ بچے پہلو بدل رہے تھے اور وہ تینوں بھی کبھی ان سب کو دیکھتے کبھی آس پاس کے مکانوں پر نظر ڈالتے۔
’’کون ہیں؟‘‘
ساٹھ پینسٹھ برس کا ایک بوڑھا، تنومند کے شانے پر ہاتھ رکھے دروازے پر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ مختار، اظہار اورمظہر نے غور سے اسے دیکھا۔ تینوں کے دل زور زور سے دھڑکے۔ مختار کا دل کچھ زیادہ ہی زور سے دھڑکا تو اس نے بوڑھے سے کہا، ’’پہچانانہیں بلو؟‘‘
’’مکی با!‘‘
’’ہاں بلو، تمہاری مکی با۔‘‘
اور پھر تو سب ہی پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ بلوندر نے آگے بڑھ کر مختار کے ہاتھ پکڑنے کے بعد انہیں چوما اور مختار نے ہتھیلیوں کی پشت پر نمی محسوس کرتے ہی جان لیا کہ بلوندر رو رہا ہے۔
’’اپنے کو سنبھالو بلو۔‘‘
’’رلاتے ہوئے گئے تھے مکی با۔ اب آئے ہو تو رونے کو منع کر رہے ہو۔ جوگا! ان کے چرن چھوؤ، یوگی سے بھی کہو ان کے چرن چھوئے۔۔۔یہ ۔۔۔یہ‘‘
اظہار اور مظہر پہ نگاہ پڑتے ہی بلوندر نے ذہن پر زور دیتے ہوئے مختار سے معلوم کرنے کے ارادے سے کچھ پوچھنا چاہا، تو اس نے کہا، ’’یہ اجو ہے اور یہ ان کا چھوٹا بھائی مجو۔ دونوں ذکی چچا کے پوت ہیں۔‘‘
بلوندر نے مختار کو چھوڑ ان دونوں کو ساتھ ہی گلے لگایا۔ تنومند جوگا اور دروازے پہ پہلے آنے والے جوان نے مختار کے پیر چھوئے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے دونوں کے سروں پر ہاتھ رکھ دیا۔
کچھ دیر بعد گاؤں کے کئی بزرگ اور جوان بلوندر کے صحن میں مونڈھوں، چارپائیوں اور پاس پڑوس سے منگوائے گئے اسٹولز پر بیٹھے تھے۔ نوجوانوں کی اچھی خاصی تعداد ان سبھی کو گھیرے کھڑی تھی۔ بلوندر کے برابر ہی مونڈھے پہ اس کی بیوی بھی بیٹھی باتیں سن رہی تھی، اس کے پیچھے جوگا کی بیوی اور وہ دو لڑکیاں بھی کھڑی تھیں۔ ایک جوان ہو چکی تھی اور دوسرے پہ جوانی بس آیا ہی چاہتی تھی۔ مونڈھوں کے بیچ میز کے اوپر چائے کی پیالیاں اور دو طشتریوں میں بسکٹ اور دال موٹھ موجود تھے۔ تمام ہی لوگوں کے چہروں سے استعجاب بولنے کو تھا۔ نوجوانوں کی آنکھوں میں سوال مچل رہے تھے، مگر کوئی بھی کچھ نہ پوچھ پا رہا تھا، کیونکہ بلوندر سوال پہ سوال کیے جا رہا تھا۔
’’اب تو بکوبا کے بچے بھی جوان ہوں گے،‘‘ اس نے مختار کے چھوٹے بھائی کے بچوں کے بارے میں پوچھا۔
’’ہاں بلو! وہ تو اتنے بڑے ہوگئے کہ اب تو بختیار، اس کی بیوی اور ہم بھی چھوٹے ہوچکے ہیں۔ دونوں ہی کینڈا میں ہیں۔ ایک ڈاکٹر ہے۔ دوسرا بیرسٹری کر رہا ہے۔‘‘
’’اور آپ کے والے۔۔۔؟‘‘ بلوندر نے اظہار سے پوچھا تو اس نے طشتری میں بسکٹ اٹھاتے ہوئے کہا، ’’میرا تو، ایک ہی بیٹا ہے۔ وہ بھی ڈاکٹر ہے لیکن دوا دارو والا نہیں۔‘‘
’’اور بی بی صاحبہ کیسی ہیں؟‘‘ بلوندر نے مختار کی والدہ کے بارے میں پوچھا تو مختار کے بجائے اظہار نے اسے بتایا کہ وہ اب نہیں رہیں۔ بلوندر نے اپنے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے بیوی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ بہت ہی یاد کرتی تھی انہیں۔۔۔ بڑی دیالو، بڑی محبت کرنے والی تھیں بی بی۔ پربھو سورگ میں انہیں پل پل آرام دیتا ہوگا۔‘‘
ان تینوں کے چائے کی چسکیاں لیتے، بسکٹ کھاتے منھ گلوگیر لہجے کو سن کر لحظہ بھر کر رک گئے۔ اظہار غور سے اس خاتون کو دیکھ رہا تھا لیکن مظہر کی آنکھوں میں نظر آنے والی بے یقینی مختار نے صاف صاف دیکھ لی۔ چارپائی پہ بیٹھے ان ہی کے ہم سن نے بلوندر کو مخاطب کرنے کے بعد اسے تینوں کی تھکن کا احساس دلایا اور پلنگ سے اٹھتے ہوئے حاضرین سے مخاطب ہونے کے بعد پوچھا کہ آج کس کی باری ہے؟ بلوندر کے پوتے نے ہاتھ اٹھاکر اشارہ کیا۔ ان تینوں کی سمجھ ہی میں نہ آیا۔ کس نے کیا دریافت کیا اور جواب میں اشارہ اسے مطمئن بھی کر سکا یا نہیں؟ لیکن انہوں نے دیکھا، سوال کرنے والا ان سے رخصت کی اجازت کا طلب گار ہے اور یہ یقین بھی دلا رہا ہے کہ میں پھر حاضر ہو جاؤں گا۔ انہوں نے کھڑے ہوکر اسے رخصت کیا۔ اس کے پیچھے ہی خاصے لوگ نکل گئے۔ بلوندر کی بیوی نے مڑکر پیچھے کھڑی بہو اور لڑکیوں سے کچھ کہا۔
باتوں کا سلسلہ ختم ہی نہیں ہو رہا تھا۔ جوگا، یوگی اور اس کی بہنیں کئی بار چائے لا چکے تھے۔ بسکٹ اور دال موٹھ کی پرچیں اٹھائی جا چکی تھیں۔ اظہار اور مظہر بلوندر سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے لیکن چونکہ بات چیت کے ڈانڈے ان سبھی سے ملے ہوئے تھے جو آگے پیچھے مختلف ٹکڑیوں میں پاکستان گئے، اس لئے انہوں نے تامل سے کام لینے کو ہی بہتر جانا۔ البتہ دونوں بھائی اس پہ زیادہ خوش ہو رہے تھے کہ پچاس برسوں کے بعد بھی انہیں یاد کرنے والی ہستی ان کے سامنے بیٹھی ہے۔ باتیں ہوتی ہی رہیں۔ صحن میں موجود نیم کے پیڑ کا سایہ مشرقی مکان کی دیوار پہ پڑا تو سب سے پہلے مظہر نے پہلو بدلا۔ اس نے اظہار کی طرف جھک کر اس سے کچھ کہا۔ مختار اور بلوندر نے انہیں دیکھا تو بلوندر نے پوتے کو پکارا۔ اس کے آنے پر اس سے کہا کہ ان دونوں کو مسجد میں لے جائے اور تب تک وہیں رہے جب تک یہ نماز ختم نہ کر لیں۔
’’کمال ہے صاحب! کمال ہے۔ بچے سے پتہ چلا کہ بستی میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے پر مسجد تو کچھ اور ہی کہہ رہی تھی۔ کون کرتا ہے صاف صفائی؟ کس نے کروائی کلئی؟‘‘
مظہر نے بلوندر سے پوچھا تھا تو جواب میں اس نے ایک لمبی سانس کھینچی اور جتنی بھی ہوا پھپھڑوں میں بھر سکا، بھرنے کے بعد اسے منھ سے خارج کر گیا۔دونوں بھائیوں نے اپنے ذہن پر زور دے کر اس کی اس حرکت کو عنوان دینے کی اپنی سی کوشش کی لیکن ناکامی کے بعد ان کی نگاہیں مختار کے چہرے پہ مرکوز ہو گئیں۔ ان کی باتیں بلوندر کی بیوی بھی اندر بیٹھی سن رہی تھی۔ وہ اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے کہنے لگی، ’’صاف صفائی ہم کرتے ہیں۔ سال میں دو بار کلئی بھی ہم ہی پھیرتے ہیں۔‘‘
دونوں نے قدرے حیرت سے اسے دیکھا، پھر مظہر نے کہا، ’’عجیب سا محسوس ہوا ہے جان کر۔ وہاں جب یہ خبر ٹی وی پہ دیکھی، سنی کہ مسجد دن دہاڑے ڈھا دی گئی تو یقین کریں ہمیں افسوس کم ہوا، پر غصہ زیادہ آیا تھا۔ بس پل بھر کے لئے ہمیں یہ مسجد یاد آئی تھی۔ لیکن اب حیرت ہو رہی ہے۔‘‘
’’حیرت کیوں بھائی؟ اس لیے کہ ہم مسلمان نہیں۔ نہیں ہیں تو اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ آدمی اپنے گھر کی صاف صفائی کرتا ہے نا۔ وہ تو ہمارے پالن ہار کا گھر ہے۔ آپ لوگوں کے جانے کے بعد ہم سبھی نے مل بیٹھ کر طے کیا تھا کہ روز صبح نہا دھوکر ہم میں سے دو چار مسجد صاف کرنے پہنچیں گے۔ ہر گرووار کی شام کو کچھ عورتیں وہیں موم بتی جلاتی ہیں، جہاں بی بی جلایا کرتی تھیں۔ ہم سب نے یہ بھی طے کیا کہ روز صبح، دوپہر اور شام کو بار باری وہاں اذان دی جائےگی۔‘‘
تینوں کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں، دہانے وا تھے اور انہیں جو کچھ بھی یاد آرہا تھا، وہ ان کی نظریں جھکانے کا باعث تھا۔ لیکن بلوندر کی بیوی انہیں اس کا موقع ہی نہیں دے رہی تھی، وہ کہہ رہی تھی، ’’ہمارا جوگا، اس کا پوت، روز شام جھٹپٹا ہوتے ہی مسجد میں جاکر چراغ جلاتے ہیں۔ جس کا وار ہو وہ اذان دیتا ہے۔ یہ دونوں اور کچھ دوسرے، تمہاری طرح کانوں پہ ہاتھ رکھ کر اللہ اکبر کہتے ہیں۔ پھر گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر جھک جاتے ہیں اور پھر اپنے سیس دھرتی پر ٹیکتے ہیں۔۔۔ یہ بتا رہے تھے۔ مسجد ان کے جنم سے پہلی مکی با کے باپ نے بنائی تھی۔‘‘
’’باپ نہیں دادا نے بنوائی تھی۔‘‘
بلوندر نے تصحیح کی تو ان کی نگاہوں کا زاویہ بدلا۔ تینوں کی آنکھوں میں پتلیوں کو متحرک دیکھ کر بلوندر نے ان سے کہا، ’’پورے گاؤں میں یہی ایک مسجد ہے۔ اتر کی اور دھرم تلہ میں ایک مندر بھی ہے۔ تم لوگوں کے جانے کے بعد ہم نے آپس میں فیصلہ کیا ہم اسے ویران ہونے نہ دیں گے۔ نماز ہو یا پوجا۔۔۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ دوسری بستی سے کچھ لوگ ہمیں سمجھانے آئے تھے مگر ہم نے ان کی ایک نہ سنی۔ اپنا گھر تو مکی با مجھے دے گئے تھے۔ چلنے سے پہلے میں نے مکی با سے کہا بھی تھا، دنگے تو آس پاس ہو رہے ہیں، آپ کیوں ڈرتے ہیں؟ آپ پاکستان نہ جائیں۔ مگر میری کسی نے بھی نہ سنی، سب کے سب پہلے کلکتے گئے، پھر ڈھاکہ۔ کراچی کب گئے، ہمیں معلوم ہی نہ ہوا۔ آپ لوگ برا نہ مانیں تو آج میں آپ سب سے پوچھوں گا، ہم تو آپ کو جانے ہی نہیں دے رہے تھے، آپ رکے کیوں نہیں؟‘‘
بلوندر کا سوال ان سے جواب طلب کر رہا تھا اور ان تینوں کے سر آہستہ آہستہ جھکتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ ٹھوڑیاں سینوں سے لگتیں مسجد سے اذان کی آواز سنائی دی۔ سب ہی نے دیکھا، مکان کے گھیر میں اندھیرا دبے پاؤں اتر رہا ہے اور ان کے کانوں میں اذان کے ساتھ بلوندر کا سوال بھی اترتا جا رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.