آقائے ماضی کے عجائب خواب
پھر ایک وحشت ناک خواب اور!
آقاے ماضی چیخ مار کر اچھل پڑے۔ انھوں نے آنکھیں کھول دیں۔ اپنے کمرے کی جانی پہچانی فضادیکھ کر اطمینان کی سانس لی۔ ہمیشہ کی طرح پانی کا جگ انھوں نے سرہانے رکھ چھوڑا تھا۔ ایک دو ٹھنڈے ٹھنڈے گھونٹ بھر کر ان کے حواس کچھ ٹھکانے آئے۔ وہ اٹھے اور لڑکھڑاتے ہوئے کھڑکی تک گئے۔ صبح بہار کی سرد ہوا بڑی رغبت کے ساتھ پھیپھڑوں میں بھری۔ تڑکے کی سفیدی پھیل چکی تھی۔ کئی گہری گہری سانسوں نے انھیں کسی قدر سکون بخشا۔ رات کے خوابوں سے ان کا سر گھوم رہا تھا۔ ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا کہ وہ دکھ جھیل رہے تھے، اور یہ انھوں نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔ لیکن اس دن، صبح کی اس روح پرور فضا میں انھوں نے قسم کھاکر عہد کر لیا کہ پہلی فرصت میں کسی ماہر نفسیات سے رجوع کریں گے۔
دوسرے دن سہ پہر کو وہ ڈاکٹر آشنا کے سامنے بیٹھے تھے اور ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کریں۔ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے سند یافتہ ماہر ڈاکٹر آشنا کو بھانت بھانت کے مریضوں سے نپٹنے کا خوب تجربہ تھا۔ اس نے آقاے قاضی کو اطمینان دلایا کہ وہ ان کی بپتا گھنٹوں سن سکتا ہے، اور آقاے قاضی نے یوں بات شروع کی۔
*
میری بدبختی کی شروعات اس وقت سے ہوئی جب سے ان وحشت ناک خوابوں نے میرا پیچھا لیا اور کوڑھ کی طرح میری جان کو لگ گئے۔ ایسے خواب جنھیں دل دہلا دینے والے بھیانک کابوسوں کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ڈاکٹر صاحب، میں مٹا جارہا ہوں۔ ایسی اذیت ناک اور قاتل موت مر رہا ہوں کہ خدا اپنے کسی بندے کو نصیب نہ کرے۔ میری روح تک روگی ہوگئی ہے، مرجھاتی چلی جارہی ہے اور کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہونا کیا ہے۔
میں جانتا ہوں کہ اتنے ہی بیان سے آپ کو میری تکلیف کی اصل معلوم ہوگئی ہوگی، پھر بھی کوشش کرتا ہوں کہ اس مرض کے اسباب کا پتا لگانے اور اس کا علاج نکالنے میں آپ کے ساتھ پورا تعاون کروں۔ میں کوئی بے علم آدمی نہیں۔ اجازت ہو تو پہلے کچھ ا پنے متعلق عرض کردوں۔
میری تعلیم کا خصوصی میدان تاریخ ہے، گو میں نے لسانیات میں بھی ڈی لٹ کیا ہے۔ ایران کی قدیم تاریخ کے سلسلے میں میرے مطالعات اور سریانی اور سغدی زبانوں پر میری تحقیقات کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے میں نے ٹیلی ویژن پر خط میخی کے بارے میں پروگرام دیا تھا، پتا نہیں آپ نے ملاحظہ کیا کہ نہیں، میں نے اس میں کچھ نئے نظریات پیش کیے تھے۔ امید ہے اسے خود ستائی پر محمول نہ کیا جائے گا، عرض فقط یہ کرنا تھا کہ میں کوئی عامی نہیں ہوں۔ خوابوں کے بارے میں بھی بہت کچھ علم رکھتا ہوں۔ فرائڈ کی تعبیرِ خواب پر حاشیہ نویسی کے منصوبے کے علاوہ خوابوں کے موضوع پر ایک مستقل کتاب کا خاکہ بھی میرے ذہن میں بننا شروع ہوگیا ہے۔ یہ بغیر علمی اصطلاحوں کے عام فہم کتاب ہوگی۔
میں جانتا ہوں کہ خواب کبھی تو روزانہ کے یا گزرے ہوئے واقعات کی بازگشت ہوتے ہیں اور کبھی انسان کے اپنے تخیل کی پیداوار، لیکن اگر ایک سال سے زیادہ عرصے تک متواتر ہر رات عجیب و غریب اور ناقابل یقین خواب آپ کے تعاقب میں آتے رہیں، وہ بھی ایک مقررہ ترتیب کے ساتھ، تو قدرتی بات ہے کہ آپ کو اپنے بارے میں طرح طرح کے گمان ہونے لگیں گے۔ آپ کا دماغ پریشان نہیں کرنا چاہتا، معاف کیجئے گا، لیکن اس خیال سے کہ اپنے خاندان، بلکہ خاص اپنے گھرانے، کے بارے میں بھی کچھ عرض کروں۔ صرف اپنی پشتینی روایت کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا۔
میرے والد بزرگوار معتمد الماضی شاہ شہید کے قرابت دار تھے اور ایک ریاست کی حکومت ان کے حوالے تھی۔ اسی طرح میرے دادا صاحب خواجہ پہلوان ماضی باشی کا آغا محمد خان قاجار کے دربار میں بڑا دبدبہ تھا۔ شاہی خاندان کے رکن اور شاہ کے سیاسی مشیر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے وقت کے پہلوان اور کشتی کے چیمپین بھی تھے۔ میرے اجداد پشت در پشت ایران کے درباروں میں بڑے مقام اور مرتبے کے حامل رہے تھے۔ امن کے دنوں میں ان کی خوش انتظامی اور جنگ کے زمانے میں ان کی شجاعت اور جنگجوئی کی دھوم رہتی تھی اور معتبر تاریخی کتابوں میں اس کا تذکرہ ہوا ہے۔
جہاں تک میں نے تحقیق کی ہے، میرے جد اعلیٰ ہندوستان کی مہم میں نادر شاہ کے سپہ سالار تھے اور تاریخ میں ان کی دلاوری کا خصوصی بیان ملتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے کہ دشمن تک ان کی بہادری اور دلیری سے چشم پوشی نہیں کرسکے۔ میرے ذاتی کتب خانے میں ایک تذکرہ موجود ہے، اس کے مطالعے اور دوسرے مستند ماخذوں سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی تیس پشت پہلے میرے ایک بزرگ شہنشاہ دار یوشِ اعظم کے خاص سنگ تراش تھے اور سفر و حضر میں اس کے ساتھ رہتے تھے۔ میرا تاریخی اور وجدانی ادراک میرے پورے وجود پر محبت اور عقیدت کے وہی احساسات طاری کردیتا ہے جو میرے ان بزرگ پر، دار یوش شاہ اعظم کے کتبے کندہ کرتے وقت طاری رہتے ہوں گے۔ ذرا تصور فرمائیے، ارتشِ جاویداں کے سے لاو لشکر کی خدمت، وہ بھی شہنشاہ دار یوش کی ہم رکابی میں! کیا عرض کروں، زبان ساتھ نہیں دیتی۔ انھیں بزرگ کے دادا کا ذکر نہیں کروں گا کہ بعض مؤرخ کروشِ اعظم کے منشور حقوق انسانی کو ان سے منسوب کرتے ہیں۔
اور میں۔۔۔ ایسے بزرگوں کی ناخلف اولاد، اپنے خوابوں کی، جی ہاں ڈاکٹر صاحب، اپنے خوابوں کی فریاد لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں اس بودے پن پر میرے اجداد کے استخوان قبروں میں کانپ کانپ جاتے ہوں گے۔
البتہ ڈاکٹر صاحب، میری باتو ں کو دراز بیانی سمجھ کر آپ انصاف نہ کریں گے۔ یہ باتیں آپ کے لیے اور ملت ایران کے لیے فخر کا سرمایہ ہیں۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ خود نمائی میرا مقصد نہیں۔ ایک متخصص کی حیثیت سے میں بھی خوب جانتا ہوں کہ کسی معاملے کے ہر پہلو سے اچھی طرح واقف ہوجانے کے بعد ہی اس کے سلسلے میں مناسب اقدام کیا جاسکتا ہے۔ یہ بھی جانتا ہوں کہ آٖپ ان خوابوں کی تفصیل جاننے کو بے چین ہوں گے، اس لیے تمہید ختم کر کے اصل قضیے پر آتا ہوں۔
ڈاکٹر صاحب، مختصراً عرض ہے کہ میرے خواب کچھ عجب کا بوس ہیں، جن کا تعلق گزشتہ تاریخ سے ہوتا ہے۔ آپ کو تعجب ہوا نا؟ لیکن ان کابوسوں کو اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، البتہ ایک سال کے ان سب خوابوں کو کابوس کہہ دینا بھی انصاف کی بات نہ ہوگی، اس لیے کہ شروع کے چھ ماہ تک تو میرے خواب ایسے شیریں اور لذت بخش ہوتے تھے کہ میں نہ صرف رات بھر مزے لیتا تھا بلکہ صبح کو بڑے جوش اور شوق کے ساتھ بستر سے اٹھتاتھا، خوب سینہ تان کر اور گردن اکڑا کر اور زور زور سے قدم رکھتا ہوا چلتا تھا جیسے کوئی جنگ جیت کر مفتوحہ زمین پر چل رہا ہوں۔ یہ سنہرے خواب بڑی بڑی جنگوں میں میری شجاعت اور سپہ گری کے منظر دکھاتے تھے۔
میں بادشاہ سلامت کے ندیموں میں ہوا کرتا تھا، ایسا ندیم کہ ان کے پہلو بہ پہلو بیٹھتا تھا۔ بادشاہ سلامت کے بارے میں بھی بتاد وں۔ وہ زرِ سرخ کے بڑے سے تخت پر جلوہ افروز ہوتے تھے جس کے دونوں طلائی زینے ہیرے اور موتیوں سے آراستہ تھے۔ دیباے رومی کے گاؤ تکیوں سے ٹیک لگائے، الماس، زمرّد اور فیروزے کی انگشتریوں سے مزین دست مبارک زانوں پر دھرے، جواہر سے مکلّل لباسِ فاخرہ جواُن کے شاہانہ پیکر پر خوب پھبتا تھا، گردنِ عالی میں زمردوں سے مرصع طوق اپنی بہار دکھاتا ہوا۔ تاجِ شاہی کی بابت کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر بس ایک خواب کا ماجرا سن لیجئے۔
میں نے بادشاہ سلامت کو دیکھا کہ بڑا بھاری مطلاّ تاج، طائران ہند کے پروں سے سجا ہوا، ان کے سر پر تھا۔ چار حبشی غلام نیچے سے تاج کو روکے ہوئے تھے۔ مجھے اس خیال سے وحشت ہونے لگی کہ اگر کہیں ایک بھی غلام کا ہاتھ ڈھیلا ہوجائے تو یہ زبردست تاج گردنِ شاہانہ کو شکستہ کردے گا۔ ظاہر ہے میری پریشانی فضول تھی، اس لیے کہ یہ غلام قلچاق کے بردوں میں سے چھانٹ کر لائے گئے تھے، پھر بھی، چونکہ میرا عقیدہ ہے کہ ہمیشہ احتیاط کے تقاضوں کو نظر میں رکھنا چاہیے، اس لیے میں نے بادشاہ سلامت پر اپنا اندیشہ ظاہر کردیا اور وہ میری دانائی اور دور اندیشی سے اس قدر خوش ہوئے کہ انھوں نے مجھ کو غلاموں کی جماعت میں شمولیت کا حکم دے دیا۔
زیادہ تر خوابوں میں بادشاہ سلامت مجھ کو یوں نظر آتے تھے کہ ان کی غضب ناک نگاہوں کے آگے کرۂ ارض کا نقشہ پھیلا ہوا ہے۔ یہ نقشہ مہندسوں اور ماہرین تعمیرات نے بارگاہ سلطانی کے دانش مند وزیروں کی کمک سے تیار کیا ہے۔ بادشاہ سلامت عالم جلال میں ہیں۔۔۔ کبھی کبھی قصد شاہی یہی ہوتی ہے کہ غصہ فرمایا جائے۔۔۔ اور غیظِ ہمایونی سے وزیر اور ندیم اور حاجب اور اس حقیر سے لے کر دیواروں کے اینٹ پتھر تک بید کی طرح کانپ رہے ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ قسمت ہمارا بڑا ساتھ دیتی تھی۔۔۔ اکثر تو قسمت ہی ساتھ دیتی تھی۔
مجھے یاد ہے، میرے ایک خواب میں ارادۂ ملوکانہ یوں ہوا کہ کھانسا جائے، لیکن ناگہاں کھانسی کے بجائے چھینک سرزد ہوگئی۔ بس، حاضر باشوں کو اور خود بندے کو اپنی آنکھوں کے آگے موت کی پرچھائیں نظر آنے لگی۔ بادشاہِ جہاں ایسے غضب ناک ہوئے کہ ان کے تختِ مرصع کے یاقوت و زمرد تک کارنگ اڑ گیا۔ بادشاہ سلامت کا ارادہ ہوا کہ بائیں طرف والے وزیر کے کان اور داہنی جانب والے وزیر کی ناک اڑادیں اور جملہ حاضرین کی زبانیں حلق سے باہر کھینچ لیں۔ اب دیکھیے قسمت کس طرح ہمارا ساتھ دیتی ہے۔ مفخر الشعرا جو حضوری میں موجود تھے، انھوں نے فی البدیہہ یہ رباعی موزوں کر کے پڑھ دی۔
گر شاہ جہاں ارادہ کرد بر سرفہ
اما ز مبارک دہنش رفت عدسہ
شاہا، چہ کند باد کہ سرگردان است
خوش یمن بود کہ بادنہ ماند در عرصہ
اور حسن اتفاق سے یہ رباعی بادشاہ سلامت کے اس قدر پسند خاطر ہوئی کہ فی الفور انھوں نے تبسم فرمایا اور حکم صادر کیا کہ تین دن اور تین رات تک متواتر اسی کو گایا جائے، اور خود اپنے دست مبارک سے تین مرتبہ مفخر الشعرا کاا منھ موتیوں سے بھر دیا۔
موضوع سے نہ ہٹوں، تو ذکر غضب ہمایونی کا اور کرہ ارض کے نقشوں کا تھا۔ بادشاہ سلامت اپنی چمکیلی آنکھیں بند کیے ہوتے تھے اور ان کی نازنین انگلی، وہ والی جس میں فیروزے کی انگوٹھی تھی، فضا میں چکر کاٹ رہی ہوتی تھی، ایک چکر، دو چکر، اور پھر نیزے کی طرح نیچے جھکتی۔ نقشے کا جو حصہ زیرِ انگشت مبارک آجاتا اس کو ہمارے وطن عزیز کی بے مثال زر خیز مٹی میں مل جانا ہوتا تھا۔ اس وقت بادشاہ سلامت خاصے پر تشریف فرما ہوتے تھے۔ ندیم خدمت میں مصروف رہتے اور مطرب گانے بجانے میں، اور دورِ شراب چل رہا ہوتا تھا۔
تین شبانہ روز تک ہم بادہ نوشی کرتے رہتے۔ ڈھائی من شراب کے صَرف کے بعد مزاجِ مبارک بحال اور طبیعت خرسند ہوتی، تب وہ گونجتی ہوئی آواز میں کوچ کا حکم دیتے۔ فراش سلطانی جامے حاضر کرتے۔ بادشاہ سلامت لباس جنگی زیب تن فرماتے، کلاہ اور خود اور زرہ اور خفتان اور ایک سرخ پارچہ قہر و جلال کے اظہار میں کندھوں پر پڑا ہوا۔ حملے کی صورتیں اور دوسرے امور جنگ طے کرنے کے لیے ہم ایک بڑے قلعے کو روانہ ہوجاتے جس کے چاروں برج آسمانی رنگ کے روغنی کھپروں سے آراستہ ہوتے تھے۔ تین سو فیلانِ ہندی پر کسے ہوئے تین سو ہود جوں میں ہزارہا پری چہرہ مہ لقائیں بھی حاضر رہتیں۔ ہمارے شہنشاہ جنگی معاملات کے ساتھ ساتھ ملکی معاملات کو بھی پوری اہمیت دیتے تھے۔
میں بھی اپنی دیباے لعل اور قباے زر اتار کر لباس جنگ پہنتا اور خاصہ خانے سے، جہاں ہر طرف مشک و عنبر کی لپٹیں ہوتیں، باہر آتا۔ جدھر دیکھو آگ کے جھاڑ حملے کے دن کی نشاندہی کے طور پر جل رہے ہوتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آگ نے میری غضب ناک آنکھوں کی سرخی مستعار لی ہے، ایسی سرخی کہ دیکھے سنے بغیر ہی دشمنوں کے دم نکل جاتے۔ آپ اندازہ نہیں کرسکتے ڈاکٹر صاحب کہ اس وقت میں کیسے جوش اور جلال میں ہوتا تھا۔ تب میں اپنے برق سیر نقرہ گھوڑے پر سوار ہوتا اور بجلی کی سرعت سے یوں دھاوا کرتا کہ غبار کے بادل زمین و زمان پر چھا جاتے۔
معاف فرمائیے گا ڈاکٹر صاحب، افسوس، میں ایسا جذباتی ہوگیا کہ اپنے آپے میں نہیں رہا۔ مگر یقین کیجیے میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو اسی طرح بے قابو ہوجاتا۔
خیر، تو اپنی داستان پوری کروں۔ آدھا سال میں نے یہ میٹھے میٹھے خواب دیکھتے ہوئے ہنسی خوشی گزار دیا۔ میں بہت مگن تھا اورمزے کی بات یہ ہے کہ میں کبھی شکست نہیں کھاتا تھا اور اسی کے ساتھ کبھی خون بھی نہیں دیکھتا تھا۔ جب بھی تلوار چلاتا یا گرز آتشیں گھماتا، کسی نہ کسی سر کو گیند کی طرح ہوا میں اچھال دیتا، لیکن کبھی پلٹ کر دیکھتا نہیں تھا۔ بات یہ ہے کہ اپنے سورما پرکھوں کے برخلاف مجھ کو خون سے ڈر لگتا ہے۔
قصہ مختصر کرتا ہوں۔ میرے سنہرے خواب جو ہمیشہ فتح و فیروزی پر ختم ہوتے تھے، اب شکست کا بھی مزہ چکھنے لگے۔ آپ جانتے ہیں یہ میرے اختیار کی بات نہیں تھی۔ کوشش کرتا کہ شکست نہ کھاؤں لیکن خوابوں کی چیرہ دستی کے آگے میری ایک نہ چلتی۔ میں صاف شکست کھاجاتا، بالکل صاف!
یقین جانیے ڈاکٹر صاحب، یہ بڑی وحشت ناک چیز ہے۔ میرا ملک، اس شان و شکوہ کو پہنچنے کے بعد، ایک پارۂ نان ہوکر رہ گیا تھا کہ ہر بے مادر و پدر اس میں سے ایک ایک لقمہ نوچ کر کھائے جارہا تھا۔ اپنے سپاہیوں کی کمک، بادشاہ سلامت کی بلند ہمتی اور سرداروں، وزیروں کی شجاعت کے بل بوتے پر جو علاقے ہم نے اپنی مملکت میں شامل کیے تھے، وہ سب ہم سے واپس لیے جارہے تھے یا انھیں زبردستی ہڑپ کیا جارہا تھا۔ لعنت ہو شیاطین پر۔
اب مجھے ا پنے خوابوں میں کوئی لذت نہ ملتی، بلکہ یہ میرے لیے ایک عذاب بن گئے۔ یہ کابوس میری زندگی کے وحشت ناک ترین واقعات ہیں۔ میں رات سے گھبرانے لگا، صرف اس لیے کہ میرے سونے کا وقت آ پہنچتا اور میں مجبور ہوتا کہ اپنے بستر، بلکہ اپنی عارضی قبر، میں جالیٹوں تاکہ کئی گھنٹے تک عذاب جھیلتا رہوں۔ آخر میرا سونا، کھانا پینا چھٹ گیا اور میں دن پر دن زیادہ بیمار ہوتا گیا۔ واے ہو میرے حال پر، اپنے اجدادو بزرگ کو کیا منھ دکھاؤں گا۔ پھر بتائیے آنسو نہ بہاؤں؟ دیواروں سے سر نہ ٹکراؤں؟ کنویں میں نہ پھاند پڑوں؟ اس اذیت کو آخر کہاں لے جاؤں؟ لیکن یہ جو میں نے بیان کیا، فقط یہی ایک اذیت نہیں ہے۔ میں کتنے ہی تاریخی کرداروں سے لڑا ہوں اور کتنے ہی تاریخی کردار مجھ سے لڑنے آئے ہیں۔
یقین کیجئے ڈاکٹر صاحب، اگر اس منگول خان، یا اس پھٹی ہوئی آنکھوں والے ترک، یا اس بے لحاظ افغان کی صورت اورمہیب سراپا کسی اور کو خواب میں دکھائی دے جاتا تو ہول کھاکرا س کا دم ہی نکل جاتا، لیکن میں اپنے آبا و اجداد کی جنگ آزمائیوں کے طفیل ان منظروں کی تاب لاسکا اور دن رات میں سات سات گھنٹے تک ان وحشی چہروں کو دیکھا کیا۔ ان کی جفا کاریاں، ان کی زور زبردستیاں، ان کی آتش زنی، ان کی کتاب سوزی دیکھ دیکھ کر میرا دل کڑھتا تھا لیکن میں سب کی تاب لاتا تھا تا وقتے کہ صبح ہوجائے اور میں منھ لٹکائے، گردن جھکائے اپنی دفتری میز کے پیچھے پناہ لوں۔
تب، اچانک ایک نئی بیماری نے مجھ کو آدبوچا۔
ایک دن میں حسب معمول اپنے دفتر۔۔۔ ادارۂ احیاے ماضی۔۔۔ میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کوئی میری میز کے سامنے موجود ہے۔ سر جو اٹھایا تو دیکھتا ہوں چنگیز خان منگول کھڑا ہے۔ وہی جنگی لباس، ننگی تلوار، چھوٹی چھوٹی چمکتی ہوئی آنکھیں، دولخت مونچھیں، قسمیہ کہتا ہوں، میں اتنا سا بھی نہیں ڈرا، بلکہ مجھے پوری جان سے طیش آگیا۔ اجداد کا خون میری رگوں میں سنسنانے لگا اور میرے اندر ایک نئی قوت دوڑ گئی۔ بڑے جوش و خروش کے ساتھ میں نے میز پر سے اسکیل اٹھاکر وار کیا کہ اس کا سرتن سے جدا کردوں۔ اس نے وار خالی دیا، تب میں بجلی کی طرح تڑپ کر میز کے پیچھے سے نکلا اور اس کے سینے کو قیمہ قیمہ کردینے کے ارادے سے اس پرجھپٹا ہی تھا کہ کچھ لوگوں نے میرے ہاتھ پیر جکڑ لیے اور چیخ چیخ کر پوچھنے لگے، ’’آقاے ماضی، آقاے ماضی، ہوش میں آئیے، آخر بات کیا ہے؟‘‘
اور میں چلا رہا تھا، ’’چھوڑ دو مجھے۔ میں اس نطفۂ حرام کا سر قلم کردوں گا۔‘‘
ڈاکٹر صاحب، یقین فرمائیے مجھے شرم آرہی ہے، لیکن بتانا پڑتا ہے کہ میں دراصل آقاے اطاعتی پر ٹوٹ پڑا تھا جو چھٹی اور ساتویں صدی کے تاریخی احیا کے نگراں تھے۔ لیکن بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی، اس دن کے بعدبھی میں نے اپنے کتنے ہی رفیقوں، حتی کہ ادارے کے سربراہ کو بھی، سکندر اور تیمور، چنگیز اورخلیفۂ بغداد اورمحمود افغان تصور کر کے پیٹ ڈالا اور بالآخر تھوڑے ہی دن کے اندر، خانوادۂ ماضی کی آبرو محفوظ رکھنے کے لیے، مجھے استعفیٰ دینا پڑ گیا۔
خانہ نشین ہونے کے بعد ایک مدت تک میں نے کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ نادر شاہ کی تصویر بھی طاقچے سے ہٹا دی، سیاست کو طلاق دے کر دوسرے فنون کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ریڈیو تک سننا چھوڑ دیا۔ راتوں کو دیر تک جاگتا اور مشقت کرتا، مثلاً تارے گنتا، زیادہ سے زیادہ سوئیوں میں تاگا پرونے کی کوشش کرتا اور اس طرح خود اتنا تھکا لیناچاہتا تھا کہ وہ وحشت ناک خواب میرا پیچھا چھوڑ دیں۔ لیکن ڈاکٹر صاحب، کوشش بیکار گئی۔ ابھی ان عجوبہ تاریخی خوابوں کی اذیت رفع نہیں ہوئی تھی کہ نئے نئے کابوس، نئے نئے موضوعوں کے ساتھ آپہنچے۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ آدمی ایسے وحشت ناک خواب دیکھتا ہے اورایک لمحے کو بھی نہیں سمجھ پاتا کہ وہ اپنے ہی گھر میں اوراپنے ہی بستر پر ہے۔ خواب کی دنیا اسے حقیقت کی دنیا معلوم ہوتی ہے اور یہیں سے اس کی پریشانی شروع ہوتی ہے کہ سڑک پر چہل قدمی کو نکلتا ہے تو دیکھتا ہے کہ موٹروں میں عام پہیوں کی جگہ لکڑی کے پہیے لگے ہوئے ہیں۔۔۔ واقعی عجیب سے لگ رہے تھے۔۔۔ بجلی کے کھمبوں پر چربی کے چراغ جل رہے ہیں اور لوگ دگلے اور فرغل پہنے، بے ہنگم ٹوپیاں سروں پر منڈھے، اسے اس طرح گھور رہے ہیں گویا وہ کوئی چور اچکا یا ناقص الہیئت مخلوق ہو۔
سڑکیں بھی کچھ کی کچھ ہوگئی ہیں۔ محرابیں، قوسی چھتیں، چکنی اینٹوں کے ستون، گشتی سپاہیوں کے بجائے دو گوشیہ چوگوشیہ کلاہوں والے برقنداز ہاتھوں میں روپہلے عصا تھامے نظر آرہے ہیں۔ ان برقندازوں کی گھنی مونچھیں ایسی خوفناک ہوتی ہیں کہ جب وہ اپنے سروں، بھنووں اور داڑھی مونچھوں کے جھاڑ جھنکاڑ میں سے مجھ کو گھورتے ہیں تو میرا دل بیٹھنے لگتا ہے اور سانس الٹی چلنے لگتی ہے۔ آخر خدا کا کرم ہوتا ہے اور میں چیخیں مارتا ہوا جاگ پڑتا ہوں اور نذر نیاز شروع کرتا ہوں کہ ایسی شکلیں دیکھ کر بھی زندہ ہوں۔
میں ایک ہیجانی خواب کا ضرور ذکر کروں گا جو پلٹ پلٹ کر آتا ہے اور میرے تن بدن میں تھر تھری ڈال دیتا ہے۔ دیکھتا ہوں کہ ایک وسیع میدان کے گوشے میں بیٹھا ہوں۔ میدان میں ہریالی سے گھرے ہوئے حوض ہیں۔ چہار جانب دو رستہ بازاروں کے سلسلے ہیں، اوربازار بھی کیسے ڈاکٹر صاحب کہ آپ نے کبھی خواب میں نہ دیکھے ہوں گے۔۔۔ محرابی چھتے، نقش و نگار سے لپے ہوئے، رستم سہراب کی جنگ، اسفند یار روئیں تن اور رستم کی لڑائی کے مرقعے، فرہاد کوہکن اور ضحاک ماردوش کی شبیہیں، بازاروں کے اندر فروخت کے مال سے چھلکتے ہوئے حجرے، مال بھی وہ کہ آج ڈھونڈھے نظر نہ آئے، مروارید، یاقوت، ادویۂ ہندی، ابریشم و زر بفت کے پارچے، ململ، تنزیب کے تھان، اس طرف بزازوں کی کوٹھیاں، اس طرف جفت سازوں کے دکانچے، سامنے عطر فروشوں کے بازار، غرض ایک گہما گہمی ہے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔
البتہ یہاں تک کوئی ڈراؤنی بات نہیں ہے، لیکن بس یہیں سے مجھ پر وحشت کا غلبہ ہوتا ہے۔ بازار کے اُدھر ہرے بھرے ٹیلے اور ایک خوبصورت اونچی عمارت نظر آتی ہے۔ یہ حاکم شہر کا محل ہے، جس کی شاہ نشینوں کو بلوری ستون سہارے ہوئے ہیں۔ چھتوں اور دیواروں پر رنگ برنگ شیشہ بندی اور طلاکاری، کاشی کے آسمانی ٹائلوں پر طرح طرح کے مرقعے، حاکم اعلیٰ کے شکار کے مناظر۔ جدھر دیکھو وہی دو گوشیہ چوگوشیہ ٹوپیوں والے، آتشیں گرزوں سے مسلح گھوم رہے ہیں۔ توجہ کے قابل بات یہ ہے کہ انھیں میں سے ایک خواب نے رنگ بدل کر کچھ تفریح کا سامان بھی کردیا۔
محل کے جلو خانے میں مداری اور رقاص، ظاہرا ً ہندی بنجاروں کی یادگار، اپنا اپنا فن دکھارہے تھے۔ خیر چھوڑیے، یہ خواب دوبارہ پلٹ کر نہیں آیا۔ مصیبت یہ ہے کہ زیادہ تر خوابوں میں سہ پہرکی چہل قدمی کے بعد، یعنی غروبِ آفتاب کے قریب، اچانک کچھ لوگ میرا گریبان پکڑ لیتے ہیں اور مجھے کھینچتے ہوئے حاکم کے پاس لے جاتے ہیں۔ حاکم مے نوشی میں مصروف ہے کہ میں اس کے سامنے گیند کی طرح لڑھکا دیا جاتا ہوں۔ حاکم کو ایسا تاؤ چڑھتا ہے کہ اس کے گال تمتما کر اس کے جام کی شراب کے مانند سرخ ہوجاتے ہیں، تب وہ گلا پھاڑ کر چیختا ہے، ’’اڑا دو گردن اس پدر سوختہ کی جس نے ہمارا مزہ کرکرا کردیا۔‘‘
خدا آپ کو خواب میں نہ دکھائے، ڈاکٹر صاحب، بھاری بازوؤں اور بڑی سی توند والا جلاد، چہرے پر سرخ ڈھانٹا، جس میں سے خون آلود آنکھیں جھانکتی ہوئی، چوڑے پھل کا تیغہ تانے میری سمت بڑھتا ہے۔ منّت و زاری بے سود ہے، کوئی نہیں جو مجھ اجل گرفتہ کی فریاد سنے۔ جیسے ہی تیغہ مجھ پر پڑتا ہے، میں ہمیشہ کی طرح ہائے واویلا کرتا جاگ پڑتا ہوں اور ابھی اس دھچکے سے سنبھلنے بھی نہیں پاتا کہ ہمسایوں کی صدائیں بلند ہوتی ہیں، ’’یہ آدمی پگلا گیا ہے، ہر رات ہلڑ مچاتا ہے۔ اسے محلے سے نکال باہر کرو۔ جا کے ڈاکٹر کو کیوں نہیں دکھاتے جی؟ ہسپتال میں بھرتی ہوجاؤ۔ ذرا اپنی چونچ بند رکھا کرو۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
جی ہاں ڈاکٹر صاحب، ایکڑوں زمین اور کتنی جاگیروں کے مالک معتمد الماضی کا بیٹا، اس خواجہ پہلوان ماضی باشی کا پوتا جس نے آغا محمد خان قاجار کے سامنے ایک ہاتھ سے ایک گدھے کی گردن توڑ دی تھی، وہ سڑی ہوکر اسپتال میں بھرتی ہوا! تف ہے مجھ ننگ خاندان پر۔
یہاں تک کہ۔۔۔ کل رات میں نے ایک نئے موضوع کا نیا خواب دیکھا تو اس خوف سے کہ کہیں یہ بھی پلٹ پلٹ کر نہ آنے لگے، میں نے ایک نیا عہد کیا۔ ایک بار اپنے خاندان کی آبرو بچانے کے لیے میں نے ملازمت سے استعفیٰ دیا تھا، یہ کوئی کم سبکی کی بات نہیں تھی، پھر بھی میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ ایک بار اور سبکی مول لوں اور ان خوابوں کے بارے میں کسی ماہر نفسیات سے بات کروں۔ آپ کل رات والے خواب کا ماجرا بھی ضرور سننا چاہتے ہوں گے۔ دیکھیے، بیان کرنے کی کوشش کرنے کی کوشش کرتا ہوں، ماجرا کچھ یوں تھا،
میں اطمینان کے ساتھ ایک پرانے قلعے میں ٹہل رہاتھا۔ ٹھیک سے یاد نہیں مگر شاید کچھ گنگنا بھی رہا تھا۔ محض اتفاق تھا کہ بہت مگن تھا۔ یکایک شور برپا ہوگیا۔ کوئی آواز، زمین پر زور زور سے پڑتے ہوئے قدموں کی آوازتھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ پاگل جنگلی گھوڑے قلعے کے کوچوں میں سرپٹ دوڑ رہے ہیں۔ اچانک ایک نعرے نے مجھے چونکا دیا، ’’آؤ۔۔۔ یہاں ہے۔۔۔ پکڑ لو۔۔۔ جانے نہ پائے۔‘‘
اور، ہر چند میرا دم نکلا جارہا تھا مگر مجھ میں کچھ غیر معمولی طاقت آگئی اورمیں جان توڑ کے بھاگا۔ میں کسی اندیکھے فوجی دستے سے بھاگ رہا تھا جو میرے تعاقب میں تھا۔ جتنا جتنا میں بھاگ رہا تھا، زمین پر پڑتے ہوئے بھاری قدموں کی دھمک میرے اوربھی نزدیک ہوتی جارہی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تعاقب کرنے والے دستے کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن بھاگتے میں مڑنے کاموقع نہیں ملتا تھا۔ آخر کار جب آوازیں بالکل ہی سر پر آگئیں اور بھاگنے میں کوئی فائدہ نظر نہ آیا تو میں نے سوچا کم از کم پشت پر تو زخم نہ کھاؤں، اس لیے موت سے کھیلنے پر تیار ہوکر میں گھوم پڑا۔
جناب ڈاکٹر صاحب، اللہ آپ کو روزِ بد نہ دکھائے، میرا پیچھا کرنے والی جماعت اصل میں بہت سی کتابیں تھیں جن کے ہاتھ پیر نکل آئے تھے۔ وائے برحالِ من! میں چلاّ اٹھا، میں نے نعرہ مارا، پھر میں چیخا، اور پھر چیخا اور افسوس کہ یہ سب ہنگامہ میں نے کسی قلعے میں نہیں، اپنے بستر میں مچایا تھا، اورایک بار پھر اپنے ہمسایوں کو جگا دیا تھا۔
اور اب آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ کو اپنے پیاروں کی قسم، مجھے بچا لیجیے۔ یہ کابوس مجھ کو پاگل کیے دے رہے ہیں۔ آپ پچاس گولیاں روز کھلائیے، ایک ایک دن میں سو سو انجکشن لگائیے، مجھے سب منظور ہے، بس یہ خواب میرا پیچھا چھوڑ دیں۔
*
آقاے ماضی نے خاموش ہوکر کچھ دیر تک متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھا، پھر رونا شروع کردیا۔ اس درد سے روئے اور ایسے ایسے بین کیے کہ ڈاکٹر آشنا پر سخت اثر ہوا اور بلا ارادہ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی۔ یہ ایک پرشکوہ لمحہ تھا۔ ڈاکٹری کی تاریخ میں پہلی بار ایک بیمار دوست معالج اپنے مریض کی بیماری پر رو رہا تھا اور ڈاکٹری کی دنیا اس واقعے پر پھولے نہیں سماتی تھی۔ اس کیس نے ڈاکٹر آشنا کو ایسا ہلا کے رکھ دیا کہ ایک طویل مدت میں پہلی مرتبہ وہ کتاب سے رجوع کرنے پر مائل ہوا۔ ڈاکٹری کی بھاری بھرکم کتابوں کا دیر تک مطالعہ کرتے رہنے کے بعد وہ ہنستا ہوا آقاے ماضی کے نزدیک آیا اورملائمت سے بولا، ’’میرے دوست، آئیے کچھ دیر ہم آپ باتیں کرتے ہیں۔‘‘
*
رات۔ آقاے ماضی اپنے کمرے میں چکر کاٹ رہے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کسی سخت ادھیڑبن میں مبتلا ہوں۔ گاہ گاہ پلٹ کر اپنے بستر کو دیکھتے، پھر فوراً ہی دوسری طرف بڑھ جاتے۔ ان کے چہرے پر بڑھاپے کی سی جھریاں پڑ گئی تھیں، آنکھیں پتھرائی ہوئی اور بدن ٹوٹتا ہوا۔ وہ کھڑکی پر گئے اور گھور گھور کر اندھیرے میں کچھ دیکھنے لگے۔
*
کچھ دن بعد اخبار پرھتے ہوئے ڈاکٹر آشنا نے حادثات کے کالم میں یہ خبر دیکھی،
مشہور محقق آقاے ماضی نے خود کشی کرلی۔ خود کشی کرنے کے وقت وہ اپنی آخری تصنیف آقاے ماضی کے عجیب و غریب خواب کی تحریر میں مصروف تھے جو ان جملوں پر ختم ہوئی ہے،
’’ڈاکٹر نے کہا، میرے دوست، دو ہی راستے رہ گئے ہیں، یا تو آئندہ کا خیر مقدم کیجیے، یا حال کو الوداع کہیے۔
اور اس نے دوسرا راستہ چن لیا۔‘‘
(فارسی عنوان، خوابہای عجیب آقای ماضی‘‘)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.