Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آرزوؤں کا ایک ویرانہ

حسن امام

آرزوؤں کا ایک ویرانہ

حسن امام

MORE BYحسن امام

    جنوری کی ٹھٹھرتی ہوئی سنسان رات نفیسہ کے گیسوؤں کی طرح آدھی ادھر اور آدھی ادھر تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس کے گیسو اندھیری رات کی طرح سیاہ تھے اور آج کی رات دودھیا چاندنی میں سفید گلاب کی طرح کھلی ہوئی تھی۔ وہ کھڑکی کے قریب اپنی پلنگ پر بے حس و حرکت پڑی باہر دیکھ رہی تھی۔ کھڑکی سے ذرا آگے ایک چھوٹا سا پیڑ تھا جو ایسے موسم میں پھولوں سے لد جاتا تھا جنہیں رات کے وقت چمگادڑیں بے شمار تعداد میں کتر کر گرا دیا کرتی تھیں۔ اس سے کافی پرے بانس کے بڑے بڑے درخت تھے جن کی اونچی پھنگیوں کے گہوارے میں لیٹی ہوئی چاندنی پچھم کی طرف سے آنے والی ہواؤں میں ہولے ہولے جھول رہی تھی۔ ما نسوانی ہواؤں میں تو انہیں دیکھ کر احساس سے بھرپور دل بری طرح دھڑکنے لگتا تھا۔ ان ہواؤں میں وہ ذبح کیئے ہوئے پرندوں کی طرح پھڑ پھڑاتے اور سر پٹکتے دکھائی دیتے تھے۔ خزاں میں یہ کیفیت اور بھی درد ناک ہو جاتی۔ اس موسم میں ان کے بدن سے پتوں کے لباس کا ایک ایک تار اتر جاتا اور وہ سموم کے طمانچے کھا کھا کر زرد پڑ جاتے تھے۔ اس کے قریب ہی سیمبل کا ایک بڑا بھاری درخت تھا۔ اس کی اونچی اونچی شاخوں پر چمگادڑیں گھگنگروؤں کی طرح لٹکی رہتی تھیں۔ سردیوں میں اس پر بڑے بڑے سرخ شگوفے کھل اٹھتے تھے جو دور سے بھڑکتے ہوئے شعلے کی طرح دکھائی دیتے تھے۔ اس وقت بڑے غور سے دیکھنے پر صرف وہ پھول جو پوری طرح چاندنی کی زد میں تھے، بجھتے ہوئے انگاروں کی طرح دکھائی دے رہے تھے اور اس پورے منظر کے پیچھے بہت دور نفیسہ کے خیالوں کی طرح وسیع آسمان تھا جس کی نیلا ہٹ شبنم کے سفید غبار میں گم ہو گئی تھی۔ آج اسے فہد بڑی شدت سے یاد آ رہا تھا۔

    دیکھتے دیکھتے نفیسہ کے دل میں ایک بہت ہی پرانی خواہش نے نئے سرے سے جنم لیا جو اس کے سارے وجود پر چھا گئی۔ مدت ہوئی اس نے اس خواہش کو تھپک تھپک کر ہمیشہ کی نیند سلا دیا تھا۔ لیکن آج جب وہ جاگی، تو اس کے دل میں وہی روز اوّل والی شدت محسوس ہو رہی تھی جیسے کوئی تصویر پر سے گرد اتار دے اور وہ پھر اسی آب و تاب کے ساتھ چمکنے لگے۔ اس نے بوسیدہ سی کھیس اپنے جسم پر سے ہٹائی اور آہستگی سے اُٹھ بیٹھی۔ دوسری پلنگ کی طرف دیکھا، ماں بے خبر سو رہی تھی۔ وہ پلنگ سے اتری اور دبے پاؤں دروازے کی طرف بڑھی۔ لکڑی کے کمزور سے دروازے پر ہاتھ رکھ کر سوچنے لگی، دروازہ کھلنے کی آواز پر اس کی ماں یا دوسرے کمرے میں سوئے اس کے بھائی اور باپ جاگ سکتے تھے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں، لیکن وہ کسی کی نیند میں مخل ہونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ آنگن میں نکل آئی جو دن کے مقابلے میں کافی سنسان دکھائی دے رہا تھا، بالکل اس کےاپنے من کی طرح۔ اس کے من میں بھی تو یادوں کی چاندنی چھٹکی ہوئی تھی مگر پھر بھی یہ کتنا سنسان اور اداس تھا۔ اس کی روح کا وہ زخم جسے گزرے ہوئے وقت نے مند مل کر دیا تھا، آج پھر سے ہرا ہو گیا تھا اور اس کی جلن اس کے سارے وجود میں ایک آگ سی لگا رہی تھی۔ اس نے احتیاط سے دروازہ کھولا اور باہر نکل آئی۔

    اپنی مخصوص جگہ پر پہنچ کر وہ درختوں کے قریب بیٹھ گئی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ اور فہد ملا کرتے تھے۔ یہاں سے قریب ہی فہد کا گھر تھا جہاں وہ اپنی بہن اور ماں کےساتھ رہتا تھا۔ ویسے تو وہ اسے بچپن سے جانتی تھی، دونوں گھرانوں کے تعلقات دیرینہ تھے، وہ اس کے ہاں آتا جاتا اور وہ بھی اس کے گھر جاتی تھی۔ لیکن پہلی بار جب فہد کے لیئے اس کے دل میں ایک اجنبی سا جذبہ پیدا ہوا، تو وہ یہی جگہ تھی۔ نفیسہ، فہد کی ماں بہن سے مل کر لوٹ رہی تھی، شام گہری ہو گئی تو فہد اسے گھر چھوڑنے ساتھ چلنے لگا۔ وہ ہمیشہ اس سے بےجھجھک باتیں کیا کرتی، لیکن وہ محسوس کرتی تھی کہ فہد اس سے بات کرتے وقت جھجھکتا تھا۔ جب وہ یہاں تک پہنچے تو وہ اچانک رک گیا۔ نفیسہ نے اس کی طرف دیکھا۔ ابھرتے ہوئے چاند کی روشنی درختوں سے چھن کر سیدھی اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا، شاید کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ‘’نفیسہ‘‘

    وہ اس کی آواز پر چونک پڑی، آج اس کی آواز ہمیشہ سے مختلف تھی۔ اس میں ساز کے ڈھیلے تار کی طرح لرزش اور گونج تھی، لہجے میں ایک عجیب التجا تھی۔ اس نے اسے پکارا تو بہت بار تھا لیکن ایسی پکار اس نے کبھی نہیں سنی تھی۔ یہ تو جیسے اس کے دل کی گہرائیوں سے آتی ہوئی معلوم دیتی تھی۔ کوئی جواب نہ پاکر فہد نے سر اٹھایا اور اس کی طرف دیکھا۔ چند لمحوں تک وہ برابر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھتا رہا۔ پھر جیسے یکا یک نفیسہ کے سینے میں چھپا ہوا نازک سا تار ہولے سے بج اٹھا۔ اس نے نگاہیں نیچی کر لیں۔ اس وقت اسے پہلی بار محسوس ہو رہا تھا کہ فہد کتنا بھرپور مرد ہے۔ طاقت اور جوانی اس کے بدن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ‘’نفیسہ، یہ ویران سی جگہ کتنی خوبصورت ہے‘’

    نفیسہ نے سوچا کیا یہ جگہ واقعی حسین ہے؟ اس سے پہلے اس نے اس جگہ کے متعلق کبھی نہ سوچا تھا۔ اس نے کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا، اس وقت یہ جگہ اسے سچ مچ بڑی خوبصورت دکھائی دی۔ ‘’میں روز رات میں ادھر آتا ہوں‘’ فہد نے کہا وہ سوچ میں پڑ گئی۔ ایک دل خوش کن خیال اس کے ذہن میں آیا لیکن لیکن پھر اس نے اس خیال کو جھٹک دیا اور بےسوچے سمجھے بولی ‘’دیر ہو رہی ہے فہد‘’ اور فہد نے بغیر کچھ کہے اس کے گھر کی طرف قدم بڑھا دیئے۔ دروازے پر پہنچ کر وہ رک گیا ‘’ناراض ہو نفیسہ؟‘’ اس نے بےاختیار سر اُٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر جلدی سے سر جھکا لیا، ‘’نا۔۔۔نہیں تو۔۔۔’’ وہ گڑبڑاکر بولی اور گھر کے اندر چلی گئی۔ اس کی ماں نے اس سے فہد کے گھر والوں کے متعلق جو بھی پوچھا اس کا الٹا سیدھا جواب دیتے ہوئے بھی وہ یہ سوچ رہی تھی کہ بھلا یہ کوئی ناراض ہونے کی بات ہے۔ جوں جوں رات گزرتی گئی، اس کے ذہن میں اس خیال کی گردش بڑھتی گئی کہ وہ روز رات کو وہاں کیوں آتا ہے؟ اور آخرکار جب سب سو گئے تو وہ چپکے سے گھر سے نکلی اور اسی جگہ جا پہنچی۔ فہد وہاں درخت کی جڑ پر بیٹھا تھا۔ اس کے بعد وہ ہر روز اسی جگہ ملنے لگے۔ گھر والوں نے دونو کا رشتہ طئے کر دیا تھا اور انہیں ان کے ملنے پر بھی کوئی اعتراض نہ تھا۔

    کافی عرصہ بعد ایک دن فہد نے بتایا کہ وہ شہر جا رہا ہے۔ نفیسہ کا دل دھک سے رہ گیا۔ اس نے پوچھا کہ آخر ایسی کیا ضرورت آ گئی کہ وہ اتنی دور جا رہا تھا۔ زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ فہد کی کچھ زمینیں تھیں جس سے عزت سے گزر اواقات ہو رہی تھی۔ وہ کیوں نہیں سوچتا کہ اس کی جدائی میں اس کا کیا حال ہوگا اور کیا اس کا اپنا دل اس جدائی کے لیئے آ مادہ تھا؟ فہد نے بتایا کہ اسے کچھ عرصہ کے لیئے ایک ایسا کام مل گیا ہے جس کے مکمل ہوتے ہی اسے بہت سارے پیسے ملیں گے اور پھر وہ نفیسہ سے شادی کر کے ایک خوشگوار اور بھرپور زندگی گزارےگا۔ نہ وہ کسی کا محتاج ہوگا اور نہ مقروض۔ فہد کی جدائی ایک بڑے فائدے کے پیش نظر تھی، اس کے باوجود نفیسہ کا دل رو اٹھا۔ جس دن وہ جا رہا تھا اس سے پہلی رات وہ اس سے لپٹ کر خوب روئی ،فہد کا دل بھی بھر آیا مگر اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لیئے اسے جانا ہی تھا۔

    کئی ماہ گزر گئے فہد کی کوئی خبر نہ آئی۔ وہ ماہئ بےآب کی طرح تڑپتی رہی۔ گھر والے بھی پریشان تھے۔ ایک دن نفیسہ کا ایک رشتہ دار جو شہر میں رہتا اور جانتا تھا کہ وہ فہد سے منسوب ہے اس کے گھر آیا۔ اس نے بتایا کہ شہر میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو جس میں بہت سارے دفاتر تھے، بم سے اڑا دیا گیا تھا۔ وہ بھی اسی عمارت کے ایک دفتر میں موجود تھا، دھماکے کے بعد جب وہ بھاگا تو اس نے فہد کو بھی دیکھا جو زمین پر پڑا ہوا تھا اور اس کے جسم سے خون نکل رہا تھا۔ افرا تفری اور اپنی جان بچانے کی جلدی میں وہ اس کی کوئی مدد نہ کر سکا۔ اس نے ایک اخبار بھی نفیسہ کو دیا جس میں اس واقعہ کی تفصیل درج تھی۔ اخبار پڑھ کر اسے لگا جیسے اس بم نے عمارت کے نہیں اس کے وجود کے پرخچے اڑا دیئے ہوں۔ دنیا اس کی نظروں میں تاریک ہو گئی۔ اس کا دل خون ہو گیا اور خون پانی، جو وہ گھر کے کونوں کھدروں میں چھپ چھپ کر بہانے لگی۔ اس نے باہر نکلنا چھوڑ دیا، اپنے گھر کو قبر سمجھ کر خود کو ہمیشہ کے لیئے اس میں دفن کر لیا۔ اسے دنیا کی خبر نہ رہی، اب اسے دنیا سے لینا ہی کیا تھا۔ لیکن آج کی چاندنی اتنی ظالم تھی اور اس نے اتنا مجبور کیا کہ وہ گھر سے نکلے بغیر نہ رہ سکی۔ اس کے پہلے بھی کتنی ہی چاندنی راتیں آئیں، لیکن نہ جانے کیوں آج کا سا درد اس کے دل میں کبھی نہ اٹھا تھا۔

    اسے یہاں آئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ وہ اٹھ کر چلی ہی تھی کہ اسے کسی نے پکارا۔ آواز فہد جیسی تھی۔ وہ رُک گئی۔ فہد زندہ ہے؟ بےاختیار اس کے سینے سے ایک آہ نکلی۔ اتنے میں تیز ہوا کا ایک جھونکا درخت کے پتوں میں آواز پیدا کرتا ہوا گزر گیا۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، ایک انسانی ہیولیٰ دکھائی دیا جو بالکل ساکت و صامت کھڑا تھا۔ ‘’کون؟‘’ اس نے دل کی دھڑ کنوں سے ابھر کر پکارا۔ ‘’میں۔۔۔فہد‘’ وہ لپک کر اس کے قریب گئی لیکن اس سے تھوڑے فاصلے پر رک گئی۔ ‘’فہد تم۔۔۔؟’’ ہاں نفیسہ میں بچ گیا ہوں وہ بچ گیا تھا، نفیسہ دیکھ رہی تھی۔ اسی وقت وہ اندھیرے سے نکل کر چاند کی ہلکی ہلکی روشنی میں آ گیا۔ دفعتاً کوئی چیز نفیسہ کے سینے سے اُٹھی اور حلق میں آ کر رک گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو جگر جگر کر نے لگے۔ فہد بیساکھی کے سہارے چل رہا تھا، اس کی داہنی ٹانگ کٹی ہوئی تھی۔۔۔۔اس سے یہ منظر برداشت نہ ہوا اور وہ وہاں سے بھاگتی ہوئی گھر واپس آ گئی۔

    دوسرے دن وہ صبح سے ہی بے چین تھی۔ اس کا ذہن طرح طرح کے خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا، اس نے گھر میں کسی کو کچھ نہیں بتایا تھا۔ شام ہوتے ہوتے وہ کسی حد تک پُرسکوں ہو چکی تھی، جیسے اس نے کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔ اندھیرا ہوتے ہی وہ گھر سے نکل پڑی اور مخصوص جگہ پر پہنچ گئی۔ فہد وہاں موجود تھا۔ چاندنی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ فہد نے اسے دیکھا اور ایک افسردہ سی مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر گئی۔ ‘’میں تمہیں کسی امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا نفیسہ۔ میں جانتا ہوں ایک اپاہچ کے ساتھ زندگی نہیں گزاری جا سکتی، میں۔۔۔‘‘

    ’’چپ ہو جاؤ فہد‘’ وہ چیخ پڑی۔ اس کی چیخ سن کر چمگادڑیں بھی زور زور سے چیخیں اور پھڑ پھڑا کر اڑنے لگیں۔ اس کی نظریں آسمان پر چاند کو تکنے لگیں۔ چاند شبنم کی وجہ سے سبزی مائل دکھائی دے رہا تھا۔ وہ اسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک کہ وہ سرک کر پتوں کی اوٹ میں نہ چلا گیا۔ پھر حسرت زدہ آواز میں کہنے لگی ‘’اگر کسی حادثے میں ایک کیا، تمہاری دونوں ٹانگیں بھی کٹ جاتیں تو میں تمہارا سہارا بننے میں فخر محسوس کرتی۔۔۔لیکن فہد تم۔۔۔‘’ اس کی آنکھوں سے آنسؤں کی برسات شروع ہو گئی۔۔۔اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اخبار فہد کی طرف پھینکا اور وہاں سے بھاگ گئی۔۔۔چاند کی مدھم مدھم روشنی میں فہد نے اخبار کو غور سے دیکھا۔۔۔شہر میں ہونے والی دہشت گردی میں ملوث دہشت گرد کا خاکہ اس کا منہ چڑا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے