آج تمام فرشتے جہنم کی آگ سے اپنے ہاتھوں میں دبی ہوئی سردی کو تپا رہے تھے۔ ان سب سے بے نیاز شیطان کائنات پر ایک لامحدود کھمبے کی طرح ایستادہ لوگوں کو اپنی جانب بلا رہا تھا۔۔۔ آگ کی ہستی۔
بشیر، راستے ہی میں ٹھرے کی بوتل اپنے حلق میں انڈیلتا جلدی جلدی آگے کی طرف بڑھنے لگا۔ پھر بھی اس رات کی سردی اس پر بےتحاشہ ہنس رہی تھی۔ وہ راہ میں آنے والی بدبودار گلیوں، نالیوں سے بے پرواآگے ہی بڑھتا جا رہا تھا۔ قدم قدم پر وہ ٹھوکریں کھاتا پھر سنبھلتا اور مشینی انداز میں اٹھتا۔ اچانک اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔ وہ راستہ بھول کر بازار کی جانب آ نکلا تھا۔ سامنے نندو پان کی دکان میں دبکا خود بھی ایک بڑا سگار دکھائی پڑ رہا تھا۔ کاش کوئی گاہک اسے سلگالے۔ اس کے سلگنے سے ایک چولھا سلگ سکتا ہے اور اس چولھے سے گھر کے بچوں، بیوی کے بجھے ہوئے پیٹ کی آگ بجھ سکتی ہے۔
اور تو اور۔۔۔ نندو نے سلگنے کے لیے سگریٹ کی پیکٹوں سے زیادہ فلم ایکٹریسوں کی تصاویر جگہ جگہ چپکا دی تھیں۔ مگر اس میں ایک چوٹ ہوگئی تھی کہ وہ تمام لباس پہنے ہوئے تھیں۔ آخر ہے نا ایک پان والا۔ بشیر نے اپنی جیب ٹٹولی۔
دس کا ایک نوٹ کبھی کبھی تنخواہ سے پہلے آ جاتا اور جس کے لیے اس سردی میں اپنے جی کو مارتے ہوئے وہ کام کرنا پڑتا ہے جو دفتری امور کے حساب سے آٹھ روز کے کام کے برابر ہوتا ہے۔۔ اور نہ بھی کرتا تو کیا کرتا۔ سات زندگیوں کی محض بھوک مٹانا، یہ کام بھی اس کی تنخواہ نہیں کر سکتی تھی۔ یوں تو آٹھ افراد تھے مگر وہ اپنے آپ کو ان میں شامل نہیں کر سکتا تھا، کیوں کہ بہت سال ہوئے اس کی بھوک ختم ہو چکی تھی۔ مسلسل فاقوں سے اس کی آنتوں نے یہ سبق ضرور لیا تھا کہ کھانا اب صرف قے کرنے کے قابل ہے۔ اس لیے وہ صرف شراب پیتا تھا۔۔۔ شراب۔
کچھ دیر کے لیے تو اس سے اپنے آپ کو بھول سکتا تھا، اپنی سات زندگیوں کو بھول سکتا تھا، ان بچوں کی بھوک کو بھول سکتا تھا جنھیں وہ ابھی سے فاقوں کی ٹریننگ دے رہا تھا۔ اس نے دو قدم اور آگے بڑھائے اور نندو کی دوکان سے گول کنڈہ کی پیکٹ خریدی۔ دس کی ریزگاری نہیں تھی۔ نندو نے عجیب نظروں سے اسے دیکھا اور پیسے کل لینے کے لیے کہا۔ بشیر دس کا نوٹ اور نندو کی حسرت کو اپنے جیب میں ڈالے بڑھنے لگا۔ سگریٹ کا دھواں پیچھے پیچھے چکر کھا رہا تھا اور اس کے خیالات آگے کی جانب نکلنے لگے۔ وہ سوچ رہا تھا اس کی بیوی اس کے پاؤں کی چاپ کا انتظار کر رہی ہوگی اور بچے بڑی بے چینی سے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ کیا واقعی بچے اس کا انتظار کر رہے ہوں گے یا اپنی بھوک کے مداوا کا۔۔۔؟
آج کوئی بیٹا کسی باپ کا انتظار نہیں کرتا، محض اپنی بھوک کی تسکین کا انتظار کرتا ہے۔ امیر، ملکہ، تاج۔ بےارادہ اس کے ہونٹوں پر ہنسی نمودار ہو گئی۔ اس نے بھی اپنے بچوں کے نام غیرشعوری طور پر کیسے کیسے رکھ دیے تھے۔ کیا اس کے لاشعورمیں ایک اچھی زندگی کا تصور انگڑائی نہیں لے رہا ہے؟ تبھی تو وہ ان ناموں کے، ان لفظوں کے سحر، جن سے یہ نام بنے تھے، بچ نہ سکا تھا۔
سدھارتھ نے لکھا تھا، ’’الفاظ کے سحر سے بچو۔‘‘ کیا کوئی لفظوں کے سحر سے بچ سکتا ہے! ہر گز نہیں خود سدھارتھ لفظوں کے سحر سے نہ بچ سکا۔ ورنہ کیا بات تھی کہ وہ ’’میرا بیٹا مر گیا‘‘ کے سحر سے بچ نہ سکا او رنروان کی تلاش میں انسانی دکھ کے مداوا کے لیے نکل پڑا۔ ورنہ لاکھوں لوگ روز یہ جملہ سنتے ہیں اور کافی ہاؤس کی طرف چل دیتے ہیں۔ سدھارتھ کی طرح نروان کی تلاش میں نکل نہیں پڑتے۔
دراصل لفظ بڑا ساحر ہے جو شخصیت دیکھ کر عمل کرتا ہے۔ لفظ محبت میں ایسا معلوم ہوتا ہے کوئی مدھم مدھم سروں میں مسلسل گھنٹیاں بجا رہا ہو۔ لفظ نفرت میں چنگھاڑنے والی موسیقی نکلتی ہے۔ لفظ بھوک سے کسی خوں خوار بھیڑیے کا تصور ذہن کے پردے پر چھا جاتا ہے۔ الفاظ میں بڑی طاقت ہے۔ اس دنیا میں آدمی کبھی نہ کبھی الفاظ کے نروان کو پا لیتا ہے، اگرچہ کہ اب محبت میں مدھم سروں کی گھنٹیوں کے بجائے لاتعداد چیخیں نکلتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔ زمانے نے ہر چیز کا چہرہ مسخ کر دیا ہے، اسی طرح جس طرح کہ امیر، تاج، ملکہ۔۔۔ بجائے اپنے باپ کے اپنی تسکین کا انتظار کرتے ہیں۔
بشیر کے ہونٹوں پر ہنسی معدوم ہوتی گئی اور اس نے غصے سے سگریٹ ایک طرف پھینک دیا۔ سامنے نذر اللہ اپنی تجوری سے ٹیک لگائے سڑک پر نظریں جمائے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا وہ اس سرد رات میں تجوری کو آتش دان سمجھ رہا ہو۔ بشیر اس کی نظروں سے بچتا تیزی سے نکل گیا، کیوں کہ گزشتہ مہینے کا حساب باقی تھا۔ گھر قریب آ رہا تھا۔ اس نے سامنے کی دوکان سے دو درجن کیلے خریدے اور پیسے جیب میں ڈالے گھرکی طرف چل دیا۔ گھر کے دروازے پر قدم رکھتے ہی اسے محسوس ہوا گویا وہ گر پڑےگا۔ وہ اپنے آپ کو سنبھالتا ہوا گھر کے اندر داخل ہوا۔ بچے فوراً کیلوں پر جھپٹ پڑے اور وہ دھم سے بستر پر گرپڑا۔ بیوی سے رضائی لانے کو کہا اور اسے اچھی طرح اپنے گرد لپیٹ لیا مگر سردی کم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کی بیوی نے کنکھیوں سے کیلوں کی جانب نگاہ ڈالی۔ سارے کیلے ختم ہو چکے تھے۔ وہ آہستہ سے اٹھی اور بچوں کو بستر پر سلا دیا اور چھلکے بےبسی سے اٹھاکر باہر پھینک دیے۔ ایسا معلوم ہوا گویا وہ چھلکے نہیں، اپنی بھوک کو پھینک رہی ہو، پھر وہ آہستہ سے چلتی ہوئی بشیر کے بستر تک آئی۔ وہ آنکھیں بند کیے لیٹا تھا اور وہ بھی لاچار سو گئی۔
سورج نے آہستہ سے اپنی پلکیں کھولیں مگر بشیر کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو چکی تھیں۔ اس کی بیوی نے اپنے تکتے ہوئے بچوں کے چہروں کو دیکھا۔ وہ یہ نہیں کہہ سکی اب وہ بشیر کا۔۔۔ اپنے باپ کا انتظار نہ کریں۔ دو پہر تک کسی نہ کسی طرح روپیوں کا انتظام ہو گیا اور لوگ اس کو دفناکر گھروں کو واپس آ گئے۔
بشیرنے آنکھیں کھولیں۔ چاروں طرف گھپ سیاہی پھیلی ہوئی تھی۔ اسے احساس ہوا کہ آج وہ واقعی مر گیا ہے۔ اسے اپنے گھر کا خیال آیا۔ نہ جانے سکینہ میرے بعد کس طرح گھر چلا۔۔۔ چاروں طرف روشنی ہو گئی۔ دو نورانی صورت بزرگ قبر میں داخل ہوئے اور بشیر کی جانب بڑھنے لگے۔ ان میں سے ایک نے کچھ کہنے کے لیے منھ کھولا ہی تھا کہ بشیر نے ٹوکا، ’’مجھے عربی نہیں آتی۔‘‘
دوسرے نے سنجیدہ لہجے میں جواب دیا، ’’یہاں زبان کا جھگڑا نہیں ہے۔‘‘ پھر پہلے بزرگ نے کہا، ’’تمھارا نام؟‘‘
مرد کے چہرے پر سنجیدگی آئی اور اس نے جواب دیا، ’’کلرک۔‘‘
بزرگ نے آنکھیں نکال کر کہا، ’’ہم تمھارا پیشہ نہیں بلکہ نام پوچھ رہے ہیں۔‘‘
’’ہمارا ایک ہی نام ہوتا ہے۔ ویسے مجھے بشیر کہتے ہیں‘‘ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔
’’تم نے اپنی زندگی میں شراب پی ہے؟‘‘ ایک نے پوچھا۔
’’ہاں! جب کبھی غم حد سے تجاوز کر جاتے تو یہ مجھے سہارا دیتی تھی۔‘‘ بشیر نے جواب دیا۔
’’بیس کوڑے لگاؤ۔‘‘ پہلے بزرگ نے کہا۔ سزا ختم ہونے پر اس نے سوال کیا، ’’تم نے رشوت لی ہے؟‘‘
’’ہاں۔ جب کبھی۔۔۔‘‘
’’بیس کوڑے۔۔۔‘‘ فرشتے نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
اس طرح مختلف سوالات ہوتے رہے اور وہ مار کھاتا رہا۔ آخر میں بزرگ نے کہا، ’’کیا تمھیں آخرت کا یقین تھا؟‘‘
بشیر کے ہونٹوں پر زہر خند دوڑ گیا۔
’’قرآن پڑھا تھا؟‘‘
بشیر نے جواب دیا، ’’ان اللہ مع الصابرین۔‘‘
’’بیس کوڑے!‘‘
سزا ختم ہونے پر دونوں بزرگ واپس جانے لگے۔ بشیر نے آواز دی اور پوچھا، ’’کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ضرور۔‘‘ دونوں نے جواب دیا۔
بشیر نے حسرت بھرے لہجہ میں پوچھا، ’’قبر کا عذاب ختم ہو گیا؟‘‘
’’ہاں!‘‘ جواب ملا۔
اچانک بشیر کے منہ سے ایک قہقہہ نکل پڑا اور اس نے کہا، ’’تو وہ مولوی جھوٹ کہتا تھا۔ کہتا تھا قبر کا عذاب انسان کی برداشت کے باہر ہے۔ اتنا عذاب تو میں نے زندگی کے چند لمحوں میں سہا ہے۔‘‘
فرشتے آگے بڑھنے لگے۔ بشیرنے پھر ٹوکا اور لجاجت سے کہا، ’’آخری سوال۔۔۔ کیا واقعی انسان فرشتوں سے عظیم ہے؟‘‘
’’ہاں!‘‘ یہ کہہ کر وہ دونوں چل دیے اور قبر میں گھپ سیاہی پھیل گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.