بیدی گاؤں کا مہادیوسنار ایک مشہور آدمی تھا۔ وہ اپنے سائبان میں صبح سے لے کر شام تک انگیٹھی کے سامنے بیٹھا کھٹ کھٹ کرتاتھا۔ یہ لگاتار آواز سننے کے لوگ اتنے عادی ہوگئے تھے کہ جب کسی وجہ سے وہ بندہوجاتی توایسا لگتا تھا جیسے کوئی چیز غائب ہوگئی ہو۔ وہ بلاناغہ روزانہ ایک بارصبح سویرے اپنے توتے کاپنجرہ لئے کوئی بھجن گاتا ہوا تالاب کی طرف جاتاتھا۔ اس وقت دھندلی روشنی میں اس کا کمزور جسم، پوپلامنہ اورجھکی ہوئی کمردیکھ کر کسی اجنبی آدمی کواس پرکوئی بھوت پریت ہونے کاشبہ ہوسکتا تھا۔ جیسے ہی لوگوں کے کانوں میں آتی۔۔۔ ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘ لوگ سمجھ جاتے کہ صبح ہوگئی۔
مہادیو کی خانگی زندگی پرسکون نہیں تھی۔ اس کے تین بیٹے تھے، تین بہوئیں تھیں۔ درجنوں ناتی پوتے تھے لیکن اس کے بوجھ کو ہلکاکرنے والا کوئی نہ تھا۔ لڑکے کہتے، جب تک دادا زندہ ہیں ہم زندگی کالطف اٹھالیں، پھرتو یہ ڈھول گلے پڑے گا ہی۔ بیچارے مہادیو کوکبھی کبھی بھوکاہی رہناپڑتا۔ کھانے کے وقت وہ فلک شگاف شورہوتا کہ وہ بھوکاہی اٹھ جاتا اور ناریل کا حقہ پیتا ہوا سوجاتا۔ اس کی عام زندگی اوربھی پریشان کن تھی۔ اگرچہ وہ اپنے فن میں ماہرتھا، اس کی گھٹائی اوروں سے کہیں زیادہ اچھی تھی اوراس کا کاکیمیائی عمل کہیں زیادہ محنت طلب ہوتا تھا، اس کے باوجود اسے آئے دن شکی مزاج اوربے صبرلوگوں کی بدزبانی سننی پڑتی تھی لیکن مہادیو بڑے صبروتحمل کے ساتھ سرجھکائے سب کچھ سناکرتاتھا۔ جیسے ہی یہ شورختم ہوتا وہ اپنے توتے کی طرف دیکھ کرپکاراٹھتا۔۔۔ ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘ یہ منتر جاپتے ہی اس کی طبیعت کومکمل سکون حاصل ہوجاتاتھا۔
ایک دن اتقاق سے کسی لڑکے نے پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔ توتا اڑگیا۔ مہادیو نے سراٹھاکر جوپنجرے کی طرف دیکھا تو اس کاکلیجہ سن سے ہوگیا۔ توتا کہاں گیا۔ اس نے پھرپنجرے کودیکھا۔ توتا غائب تھا۔ مہادیو گھبراکر اٹھا اور ادھرادھر کھپریلوں پرنگاہ دوڑانے لگا۔ اسے دنیا میں اگرکوئی چیزپیاری تھی تو وہ یہی توتاتھا۔ لڑکے بالوں، ناتی پوتوں سے اس کا جی بھرگیاتھا۔ لڑکوں کی چلبل سے اس کے کام میں رکاوٹ پڑتی تھی۔ بیٹوں سے اسے محبت نہیں تھی۔ اس لئے کہ وہ نکمے تھے بلکہ اس لئے کہ ان کے سبب وہ اپنے سکون بخش شراب کے پیالوں کی مقررہ تعداد سے محروم رہ جاتاتھا۔ پڑوسیوں سے اسے چڑھ تھی اس لئے کہ وہ انگیٹھیوں سے آگ نکال لے جاتے تھے۔ ان تمام ہنگاموں سے اس کے لئے اگرکوئی پناہ تھی تو وہ یہی توتاتھا۔ اس سے اسے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوتی تھی۔ وہ اب اس منزل میں تھا جب انسان کو سکون کے علاوہ اورکوئی خواہش نہیں رہتی۔
توتاایک کھپریل پربیٹھا تھا۔ مہادیو نے پنجرااتارلیا اوراسے دکھاکر کہنے لگا، ’’آ، آ ست گرودت شودت داتا۔‘‘ لیکن گاؤں اورگھرکے لڑکے اکٹھے ہوکر چلانے اور تالیاں بجانے لگے۔۔۔ اوپر سے کوؤں نے کائیں کائیں کی رٹ لگائی۔ توتا اڑا اورگاؤں سے باہرنکل کرایک پیڑپر جابیٹھا۔ مہادیوخالی پنجرا لئے اس کے پیچھے دوڑا، ایسا دوڑاکہ لوگوں کواس کی تیزرفتاری پرحیرت ہورہی تھی۔ ہوس کے اس سے خوبصورت اس سے زیادہ مکمل، اس سے زیادہ پراثر مرقع کا تصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔۔۔
دوپہر ہوگئی تھی۔ کسان لوگ کھیتوں سے چلے آرہے تھے۔ انہیں تفریح کااچھا موقع ملا۔ مہادیو کوچڑانے میں سب ہی کومزہ آتا تھا۔ کسی نے کنکر پھینکے، کسی نے تالیاں بجائیں۔ توتا پھراڑا اوروہاں سے دورآم کے باغ میں ایک پیڑ کی پھنگی پر جابیٹھا۔ مہادیوپھر خالی پنجرا مینڈک کی طرح اچکتا ہوا چلا۔ باغ میں پہنچا توپیڑ کے تلوؤں سے آگ نکل رہی تھی۔ سرچکرکھارہا تھا۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی توپھر پنجرا اٹھاکر کہنے لگا، ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘
توتا پھنگی سے اڑکرنیچے کی ایک ڈال پرآبیٹھا۔ لیکن مہادیو کی طرف شک بھری نگاہوں سے تاک رہاتھا۔ مہادیو سمجھا کہ ڈررہاہے۔ وہ پنجرے کوچھوڑکر اپنے آپ ایک دوسرے پیڑ کی آڑمیں چھپ گیا۔ توتے نے چاروں طرف غور سے دیکھا۔ اس کا شک دورہوگیا۔ اترا اورپنجرے کے اوپربیٹھ گیا۔ مہادیو کا دل اچھلنے لگا، ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘ کامنترجپتاہوا آہستہ آہستہ سامنے آیا اور لپکاکہ توتے کوپکڑے لیکن توتا ہاتھ نہ آیا پھرپیڑپر جابیٹھا۔
شام تک یہی حال رہا۔ توتا کبھی اس ڈال پرجاتا اورکبھی اس ڈال پر۔ کبھی پنجرے پر آبیٹھتا کبھی پنجرے کے دروازے پربیٹھ کراپنے دانہ پانی کی پیالیوں کو دیکھتا اور پھر اڑجاتا۔ بڈھا اگر ہوس کامجسمہ تھا تووہ توتا مایا کانمونہ۔ یہاں تک کہ شام گئی۔ مایا اورموہ کی یہ کشمکش اندھیرے میں چھپ گئی۔
رات ہوگئی۔ چاروں طرف گہرا اندھیرا چھاگیا۔ توتا نہ جانے پتوں میں کہاں چھپا بیٹھا تھا۔ مہادیوجانتا تھا کہ رات کوتوتا کہیں اڑکر نہیں جاسکتا اورنہ پنجرے ہی میں آسکتا ہے۔ پھربھی وہ اس جگہ سے ہلنے کانام نہ لیتاتھا۔ آج اس نے دن بھر کچھ نہیں کھایا۔ رات کے کھانے کاوقت بھی نکل گیا۔ پانی کی ایک بوندبھی اسکے حلق میں نہیں گئی۔ لیکن اسے نہ بھوک تھی، نہ پیاس۔ توتے کے بغیر اسے اپنی زندگی ویران، بے کیف اورسونی معلوم ہوتی تھی۔ وہ دن رات کام کرتا تھا اس لئے کہ یہ طبعی تحریک تھی۔ زندگی کے دیگرکام اس لئے کرتا تھا کہ اس کی عادت تھی۔ ان کاموں میں اسے اپنے وجودکا ذراسابھی دھیان نہیں ہوتاتھا۔ توتا ہی وہ شئے تھا جو اسے زندگی کااحساس دلاتارہتا تھا۔ اس کاہاتھ سے جانا زندگی کے احساس سے محروم ہوجاناتھا۔
مہادیو دن بھرکا بھوکا پیاساتھکا ماندہ رہ رہ کر جھپکیاں لے لیتاتھا لیکن ذرا دیر میں پھر چونک کر آنکھیں کھول دیتا اور اس گہرے اندھیرے میں اس کی آواز سنائی دیتی۔۔۔ ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘
آدھی رات گزرگئی تھی۔ اچانک وہ کوئی آہٹ پاکرچونکا۔ دیکھا ایک دوسرے درخت کے نیچے ایک دھندلاساچراغ جل رہا ہے، اور کوئی آدمی بیٹھے ہوئے آپس میں باتیں کررہے ہیں۔ وہ سب چلم پی رہے تھے۔ تمباکو کی مہک نے مہادیو کو بے قرار کردیا۔ بلندآواز سے بولا۔۔۔ ’’ست گرودت شودت داتا۔‘‘ اوران آدمیوں کی طرف چلم پینے چلا۔۔۔ لیکن جس طرح بندوق کی آواز سنتے ہی ہرن بھاگ جاتے ہیں، اسی طرح اسے آتے دیکھ کرسب کے سب اٹھ کربھاگے۔۔۔ کوئی ادھر گیااورکوئی ادھر۔ مہادیو چلانے لگا۔۔۔ ’’ٹھہرو، ٹھہرو۔۔۔‘‘ یکایک اسے دھیان آگیا۔ یہ سب چور ہیں۔ وہ زورسے چلااٹھا۔۔۔ ’’چور چور۔۔۔ پکڑو پکڑو۔‘‘ چوروں نے پیچھے پھر کربھی نہ دیکھا۔
مہادیوچراغ کے پاس گیا تواسے ایک کلسا رکھا ہواملا جوزنگ سے کالا ہورہا تھا۔ مہادیو کادل اچھلنے لگا۔ اس نے کلسے میں ہاتھ ڈالا تومہریں (اشرفیاں) تھیں۔ اس نے ایک اشرفی باہرنکالی اورچراغ کے اجالے میں دیکھا۔۔۔ ہاں اشرفی تھی۔ اس نے فورا کلسا اٹھالیا۔ چراغ بجھادیا اورپیڑ کے نیچے چھپ کربیٹھ گیا۔۔۔ شاہ سے چور بن گیا۔۔۔
اسے پھراندیشہ ہوا، ایسا نہ ہو، چورپلٹ آئیں اور مجھے اکیلا دیکھ کر اشرفیاں چھین لیں۔۔۔ اس نے کچھ اشرفیاں کمرمیں باندھیں پھر ایک سوکھی لکڑی سے زمین کی مٹی ہٹاکرگڑھے بنائے اور انہیں اشرفیوں سے بھرکرمٹی سے ڈھانپ دیا۔
مہادیوکی آنکھوں میں ایک دوسری ہی دنیاتھی۔ تصورات اورخیالات سے بھرپور۔ اگرچہ ابھی خزانے کے ہاتھ سے نکل جانے کا کوئی ڈرباقی تھا لیکن تمناؤں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ایک پکا مکان بن گیا۔ صرافے کی ایک بھاری دکان کھل گئی۔ عزیزوں، رشتے داروں سے پھرناتاجڑگیا۔ عیش وعشرت کاسامان فراہم ہوگیا۔ پھر تیرتھ یاترا کوچلے اوروہاں سے واپسی پر بڑی شان وشوکت سے یگیہ، برہمن بھوج ہوا۔ اس کے بعدایک شوالہ اور کنواں بن گیا۔ ایک باغ بھی لگ گیا اور وہ روزانہ کتھا پران سننے لگا۔ سادھو سنتوں کاآدرسنسکار ہونے لگا۔
اچانک اسے دھیان آیا کہیں چور آجائیں تومیں بھاگوں گا کیونکر؟اس نے آزمائش کے لئے کلسااٹھایا اور دوسوقدم تک بے تحاشا بھاگا ہوا چلاگیا۔ معلوم ہوتا تھا اس کی پیروں میں پرلگ گئے ہیں۔۔۔ اس کی فکر دورہوگئی۔ اطمینان ہوگیا۔۔۔ ان ہی تصورات میں رات بیت گئی صبح کی جلوہ دکھانے لگی۔۔۔ ہواجاگی۔ چڑیاں گانے لگیں۔ اچانک مہادیو کے کانوں میں آواز آئی۔۔۔
’’ست گرودت شودت داتا
رام کے چرن میں چت لاگا ‘‘
یہ بول ہمیشہ ہی مہادیو کی زبان پر رہتاتھا۔ دن میں ہزاروں بار ہی یہ الفاظ اس کے منہ سے نکلتے تھے۔ لیکن اس کے اصل مفہوم نے کبھی اس کے دل پر اثر نہیں کیاتھا۔ جیسے کسی باجے سے راگ نکلتا ہے اسی طرح اس کے منہ سے یہ بول نکلتا تھا۔۔۔ بے معنی اوربے اثر۔۔۔ تب اس کا دل بے برگ وباردرخت کی مانند تھا۔ یہ لطیف ہوااس پرکوئی اثرنہ کرسکتی تھی۔ لیکن اب درخت میں کونپلیں اور شاخیں نکل آئی تھیں۔ اس ہواکے جھونکے سے جھوم اٹھا، مسحورہوگیا۔
صبح ِصادق کاوقت تھا۔ کائنات ایک معرفت کی روشنی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسی وقت توتاپیروں کوجوڑے ہوئے اونچی ڈال سے اترا۔۔۔ جیسے آسمان سے کوئی تارا ٹوٹے اور آکرپنجرے میں بیٹھ گیا۔ مہادیوخوشی سے جھومتا ہوا دوڑا اورپنجرے کو اٹھاکر بولا۔۔۔ ’’آؤ۔ آتما رام، تم نے تکلیف تو بہت پہنچائی مگرمیرا جیون بھی سپھل کردیا۔ اب تمہیں چاندی کے پنجرے میں رکھوں گا اورسونے سے مڑھ دوں گا۔‘‘
اس کے روئیں روئیں سے پرماتما کی تعریف کی آوازیں نکلنے لگی۔۔۔
’’پربھو، تم کتنے دیاوان ہو۔۔۔ یہ تمہاری بہت بڑی مہربانی ہے۔ نہیں تو مجھ جیسا پاپی ذلیل انسان کب اس کرپا کے لائق تھا۔‘‘ ان پاکیزہ جذبات سے اس کی آتما بے چین ہوگئی وہ خود فراموشی کے عالم میں بول اٹھا۔۔۔
’’ست گرودت شودت داتا
رام کے چرن میں چت لاگا ‘‘
اس نے ایک ہاتھ میں پنجرا لٹکایا، بغل میں کلسا دبایا اور گھرکی طرف چل پڑا۔
مہادیو گھرپہنچا تو ابھی کچھ اندھیراتھا۔ راستے میں ایک کتے کے سوااورکسی سے بھینٹ نہیں ہوئی اورکتوں کواشرفیوں سے کوئی خاص محبت نہیں ہوتی۔ مہادیو نے کلسے کو ایک ناندمیں چھپادیا اوراسے کوئلے سے اچھی طرح ڈھانک اپنی کوٹھری میں رکھ آیا۔ جب دن نکل آیا تو وہ سیدھا پروہت کے گھرپہنچا۔ پروہت جی پوجا پربیٹھے سوچ رہےتھے۔۔۔ ’’کل ہی مقدمے کی پیشی ہے اورابھی تک ہاتھ میں ایک کوڑی بھی نہیں، ججمانوں میں کوئی سانس بھی نہیں لیتا۔‘‘
اتنے میں مہادیو نے پالاگن کیا۔ پنڈت جی نے منہ پھیرلیا۔ یہ منحوس کہاں سے آپہنچا معلوم نہیں، دانہ بھی میسر ہوگا یانہیں۔ سخت لہجے میں بولا۔۔۔ ’’کیا ہے جی۔۔۔ کیا کہتے ہو، جانتے نہیں، ہم اس سمے پوجا پررہتے ہیں۔‘‘
مہادیو نے کہا، ‘‘مہاراج آج میرے یہاں ستیہ نارائن کی کتھا ہے۔‘‘
پروہت جی حیرت زدہ رہ گئے۔ مہادیو کے گھرکتھا ہونا اتنی غیرمعمولی بات تھی جتنی کہ اپنے گھر سے کسی بھکاری کے لئے بھیک نکالنا، پوچھا۔۔۔ ’’آج بھگوان کی کتھا سن لیں۔‘‘
صبح ہی سے تیاری ہونے لگی۔ بیندو اورآس پاس کے دیہات میں سپاری پھری۔ کتھاکے بعد بھوج کا بھی نیوتا تھا۔ جوسنتا حیرت کا اظہار کرتا۔ آج ریت میں دوب کیسے جمی؟
شام کے وقت جب سب لوگ جمع ہوگئے اورپنڈت جی اپنے سنگھاسن پربراجمان ہوئے تومہادیو کھڑا ہوکر اونچی آواز میں بولا۔۔۔ ’’بھائیو! میری ساری عمر چھل کپٹ میں کٹ گئی۔ میں نے جانے کتنے آدمیوں کودغادی۔۔۔ کتنے کھرے کوکھوٹا کیا۔۔۔ مگر اب بھگوان نے مجھ پر دیا کی ہے۔ وہ میرے منہ کی کالک کومٹانا چاہتا ہے۔ میں آپ سب بھائیوں سے للکار کرکہتا ہوں کہ جس کا میرے ذمے جوکچھ نکلتا ہو، جس کی جمع میں نے مارلی ہو، جس کے چوکھے مال کوکھوٹا کردیاہو، وہ آکراپنی ایک ایک کوڑی چکالے۔ اگرکوئی یہاں نہ آسکا ہو، توآٖپ لوگ اس سے جاکر کہہ دیجئے۔ کل سے ایک مہینے تک جب جی چاہے آئے اوراپنا حساب چکتا کرلے گواہی ساکھی کاکام نہیں۔‘‘
سب لوگ سناٹے میں آگئے۔ کوئی شخص معنی خیزاندازمیں سرہلاکربولا۔۔۔ ’’ہم نہ کہتے تھے۔‘‘
کسی نے بے یقینی سے کہا۔۔۔ ‘’کیا کھاکربھرے گا۔ ہزاروں کاٹوٹل ہوجائے گا۔‘‘
ایک ٹھاکر نے ٹھٹھولی کی۔ ’’اور جو لوگ سورگباش ہوگئے۔‘‘
مہادیو نے جواب دیا۔۔۔ ’’ان کے گھروالے توہوں گے۔‘‘
لیکن لوگوں کواس وقت وصولی کی اتنی خواہش نہ تھی جتنی یہ جاننے کی کہ اسے اتنادھن مل کہاں سے گیاکسی کومہادیو کے پاس آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ دیہات کے آدمی تھے گڑے مردے اکھیڑناکیاجانیں۔ پھراکثرلوگوں کویادبھی نہ تھا کہ انہیں مہادیو سے کیالیناہے۔ اورپھر ایسے متبرک موقع پربھول چوک ہوجانے کا خوف ان کامنہ بند کئے ہوئے تھا۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ مہادیو کی نیک نیتی نے انہیں مرعوب کرلیاتھا۔
اچانک پروہت جی بولے۔۔۔ ’’تمہیں یاد ہے، میں نے ایک کنٹھا بنانے کے لئے سونا دیاتھا۔ تم نے کئی ماشے تول میں اڑادیے تھے۔‘‘
مہادیو نے کہا، ’’ہاں یادہے۔ آپ کا کتنا نقصان ہواہوگا؟‘‘
پروہت بولا، ’’پچاس روپے سے کم نہ ہوگا۔‘‘
مہادیو نے کمرسے دواشرفیاں نکالیں اور پروہت جی کے سامنے رکھ دیں۔
پروہت جی کی ہوس پرچہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ یہ بے ایمانی ہے۔ بہت ہوا تو دوچارروپے کانقصان ہواہوگا۔ بیچارے سے پچاس روپے اینٹھ لئے۔ نارائن کا بھی ڈرنہیں۔ بننے کوپنڈت، پرنیت ایسی خراب۔۔۔ رام رام۔
لوگوں کومہادیو سے عقیدت سی ہوگئی۔ ایک گھنٹہ گزرگیا مگران ہزاروں آدمیوں میں سے ایک بھی آدمی کھڑا نہ ہوا۔ تب مہادیو نے پھر کہا۔۔۔ ’’معلوم ہوتا ہے آپ لوگ اپنا اپنا حساب بھول گئے ہیں۔ اس لئے آج کتھا ہونے دیجئے۔ میں ایک مہینے تک آپ کی راہ دیکھوں گا۔ اس کےبعد تیرتھ یاترا کرنے چلاجاؤں گا۔ آپ سب بھائیوں سے میری ونتی ہے کہ میرا ادّھارکریں۔‘‘
ایک مہینے تک مہادیو لین داروں کی راہ دیکھتا رہا۔ رات کوچوروں کے ڈر سے نیند نہ آتی۔ اب وہ کوئی کام نہ کرتا۔ شراب کاچسکا بھی چھوٹا۔ سادھو سنت وغیرہ جو دروازے پرآجاتے، ان کی خاطر خواہ تعظیم اورتواضع کرتا۔ دور دور اس کی شہرت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ مہینہ پورا ہوگیااورایک آدمی بھی حساب لینے نہیں آیا۔ اب مہادیو کوپتہ چلا کہ دنیا میں کتنا دھرم ہے، کتنااخلاق ہے۔ اب اسے معلوم ہوا کہ دنیا بروں کے لئے بری ہے اوراچھوں کے لئے اچھی۔
اس واقعے کو پچاس برس گزرچکے ہیں۔ آپ بنیدوں جائیے تو دورہی سے ایک سونے کاکلس دکھائی دیتاہے۔ وہ ٹھاکردوارے کا کلس ہے۔ اس سے ملا ہوا ایک پکا تالاب ہے جس میں کمل کھلے رہتے ہیں۔ اس تالاب کی مچھلیاں کوئی نہیں پکڑتا۔ تالاب کے کنارے ایک بہت بڑی سمادھی ہے۔ یہی آتمارام کی یادگار ہے۔ اس کے بارے میں مختلف روایتیں مشہورہیں۔۔۔ کوئی کہتا ہے، وہ مرصع پنجرا سورگ کو چلا گیا۔۔۔ کوئی کہتا ہے، وہ ست گرودت کہتا ہوا نظروں سے اوجھل ہوگیالیکن حقیقت یہ ہے کہ اس پرندہ نما چاند کو کسی بلی نما راہونے ہڑپ کرلیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ آدھی رات کوابھی تک تالاب کے کنارے یہ آواز آتی ہے۔۔۔
’’ست گرودت شودت داتا
رام کے چرن میں چت لاگا۔۔۔‘‘
مہادیو کے بارے میں بھی کتنی داستانیں مشہورہیں۔ ان میں سب سے قابلِ یقین یہ ہے کہ آتما رام کے ’سمادھی است‘ ہونے کےبعد وہ کئی سنیاسیوں کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اوروہاں سے واپس نہیں آیا اوراس کا نام ’’آتما رام ‘‘ مشہور ہوگیا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.