Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آوارہ کتا

دیپک کنول

آوارہ کتا

دیپک کنول

MORE BYدیپک کنول

    موتی ایک آوارہ کتا تھا جو میرے محلے میں شب و روز گھومتا رہتا تھا۔ اس محلے کے کچھ لوگ اسے پسند کرتے تھے اور کچھ ناپسند۔ حالانکہ وہ بڑا بے ضرر اور خوش خصال کتا تھا جو صرف بھونکنا جانتا تھا کاٹنا نہیں ،پھر بھی کچھ نفاست پسند لوگ اسے دیکھ کر ہی چڑ جایا کرتے تھے۔ وہ رات بھر ہمارے محلے کی مفت میں چوکیداری کرتا تھا پھر بھی انعام میں اسے ڈنڈے ہی ملتے تھے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ بیچارا بغیر کسی اجرت کے ہماری چاکری کئے جا رہا ہے پھر بھی لوگ اُسکی وفا داری سے چشم پوشی کر لیتے تھے۔ وہ ذرا سا کیا بھونکنے لگتا کہ گھروں میں بیٹھے لوگ غصے سے لال پیلے ہو جاتے اور وہیں پر بیٹھے بیٹھے وہ اسے صلواتیں سنانے لگتے تھے۔ وہ رات بھر اس لئے بھونکتا رہتا تھا کہ چور اور نقب زن اس محلے سے پرے رہیں۔ وہ اس کام کے عوض ہم سے کسی صلے کی امید نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو بس اپنا فرض نبھائے جا رہا تھا جو اسے فطرت نے سونپا تھا۔ چنانچہ اُس کی فرض کی ادائیگی سے محلے کا محلہ بے فکری سے سویا رہتا تھا اور وہ ساری ساری رات ایک ٹانگ پر کھڑا رہ کر ادھر ادھر کی ٹوہ لیتا رہتا تھا اس پر ستم یہ کہ رات بھر کا تھکا ماندہ یہ کتا جب دن کو کسی دوکان کے تھڑے کے نیچے یا کسی مکان کے پھاٹک کے پاس دم ہلا کر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو صاحب مکان اسے ڈنڈے مار کر بھگا دیتے تھے۔ کتنی بڑی ستم ظریفی تھی یہ کہ رات بھر وہ جن دوکانوں اور مکانوں کی رکھوالی کرتا تھا وہی اسے مار کر بھگاتے تھے۔ وہ گھر کے مکینوں سے پناہ مانگنے کی کوشش کرتا تو وہ پھٹ پھٹ دردر کرکے اسے پرے ہٹا دیتے تھے پر وہ بھی اتنا ڈھیٹ اور بے شرم تھا کہ گھوم پھر کے وہ پھر اسی جگہہ ڈیرہ ڈالتا تھا جہاں سے اسے بھگایا جاتا تھا۔ کھانا بھی اسے کوئی پیار سے نہیں کھلاتا تھا بس جہاں کسی کا جھوٹن پڑا ملا کھا لیایا کسی نے از راہ ترحم ایک روٹی کا ٹکڑا ڈال دیا تو اسی سے گزارہ کر لیا۔ یعنی ملا تو روزی نہیں تو روزہ۔

    جانے کیوں مجھے یہ بھورے رنگ کا بازاری کتا موتی پیارا لگتا تھا۔ میں جب صبح صبح گھر سے آفس کی طرف نکلتا تھا تو موتی دم اٹھائے مجھے پھاٹک پر کھڑاملتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ میری ٹانگوں سے لپٹ جاتا تھا اور پھر میرے پیر چاٹنے لگتا تھا۔ میں پیار سے اُسکے بدن پر ہاتھ پھیر کر آگے بڑھتا تھا۔ وہ میرے پیچھے پیچھے چلا آتا تھا اور جب تک میں اسے علی نانبائی کی دوکان پر جاکر ایک روٹی نہیں کھلا دیتا تھا وہ میرا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ شام کو بھی مجھے وہ اسی طرح انتظار کرتا ہوا ملتا تھا۔ بس ایک پل کا یہ پیار اور دلار اسے بہت سکون اور فرحت دے جاتا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ جانور بڑے حساس اور جذباتی ہوتے ہیں۔ موتی بھی بڑا حساس تھا۔ اگر کسی دن میں اسے بوجہ عجلت نظر انداز کرکے نکل جاتا تھا تو وہ بڑا اداس اور افسردہ ہو جایا کرتا تھا۔ اس کا احساس مجھے شام کو گھر لوٹتے وقت تب ہوتا تھا جب وہ مجھے دیکھکر مجھ سے دور دور بھاگنے لگتا تھامیں اسے آواز دیتا تھا تو وہ میری طرف بڑھنے کی بجائے کسی اور سمت میں دوڑنے لگتا تھا۔ میں سمجھ جاتا تھاکہ وہ مجھ سے ناراض ہے سو میں کچھ دیر تک اس کی اس آنکھ مچولی کا مزہ لیتا تھا۔ جب وہ کافی دیر تک ادھر اُدھر دوڑ دوڑ کے تھک جاتا تھا تو وہ آکر میرے قدموں میں لیٹ جاتا تھا اور اسطرح وہ اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا تھا۔

    ایک بار کسی نے میو نسپلٹی والوں کے پاس جاکر یہ شکایت کی کہ موتی بچوں کا کاٹنے لگا ہے۔ شکایت ملتے ہی میو نسپلٹی والے ترت پھرت محلے میں پہنچ گئے موتی کو اٹھانے کے لئے۔ موتی بھی اتنی آسانی سے کسی کے قابو میں کہاں آنے والا تھا۔ اس نے سرکاری اہلکاروں کو اپنے پیچھے خوب دوڑایا۔ جب اسے لگا کہ اب اس کا دوڑنا بےسود ہے تو وہ سیدھے میرے کمرے میں درآیا۔ وہ کافی ڈرا سہما ہوا تھا۔ وہ میری طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھنے لگا جیسے مجھ سے کہہ رہا ہو کہ مجھے ان جلادوں سے بچا لو۔ میں نے اسے پیار کیا اور اس کے پیچھے پڑے میو نسپلٹی اہلکاروں کو روکتے ہوئے کہا۔

    ”کیا بات ہے بھائی۔ آپ میرے کتے کے پیچھے کیوں پڑے ہیں؟“

    ”آپ کا کتا؟“ ایک اہلکار نے حیران ہوکے پوچھا۔

    ”جی ہاں یہ میرا پالتو کتا ہے موتی جسے میں صبح صبح کھلا چھوڑ دیتا ہوں تاکہ یہ گھوم پھر کے آ جائے۔“ میں نے موتی کی خاطر صریحاً جھوٹ بولا تھا۔

    ”صاحب ہمارے پاس تو یہ شکایت آ گئی ہے کہ یہ بازاری کتا ہے اور بچوں کو کاٹتا ہے۔“

    ”آپ کو لگتا ہے یہ کسی کہ کاٹ سکتا ہے۔ ضرور کسی نے آپ لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے۔“

    وہ میرے اس بیان کے بعد چپ چاپ چلے گئے۔ ان کے چلے جانے کے بعد موتی میرے قدموں میں لوٹ کر میرے پاوں اس طرح چاٹنے لگا جیسے وہ میرا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہو۔ میں نیچے بیٹھ کر اسے پچکارنے لگا۔

    زندگی بڑے چین و سکون سے گزر رہی تھی کہ اچانک ایک ایساطوفان اٹھا جس نے آن کی آن میں سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ یہ سن نوے کی بات ہے جب کشمیر میں شورش نے سر اٹھا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ اُلٹ پلٹ ہو گیا۔ رواں دواں زندگی کو جیسے اچانک بریک لگ گئی۔ بارود کے دھوئیں سے فضا مسموم ہوکر رہ گئی۔ حالات نے ایسی کروٹ لی کہ اپنے بیگانے ہوکر رہ گئے۔ آئے دن نہتے اور بےقصور شہری گولیوں کا نشانہ بننے لگے۔ ہر طرف موت کا تانڈو جاری تھی۔ جو قصور وار تھے وہ توبچ کر نکل جاتے تھے اور جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا تھا وہ فائرنگ کی ذد میں آ جاتے تھے۔ بھرا پرا شہر شہر خموشان کی طرح لگنے لگا۔ دن میں تو زندگی ادھر ادھر رینگتی ہوئی دکھائی دیتی تھی مگر شام ہوتے ہی شہر ایک دم سنسان اور ویران ہو جاتا تھا۔ لوگ چراغ میں بتی پڑنے سے پہلے ہی گھر کا رخ کرتے تھے اور جو خیریت سے گھر پہنچ جایا کرتے تھے وہ سجدہ شکر بجا لاتے تھے کہ آج کا دن خیر و عافیت سے گزر گیا۔ شام کے بعد گھر کے افراد اپنے ہی گھر میں اسیر بن کر رہتے تھے۔ کھڑکیاں اوردروازے اندر سے بند کئے جاتے تھے تاکہ باہر کا کوئی آدمی گھر میں نہ گھس سکے۔ خوف و دہشت کا عالم یہ تھا کہ گھر کی کوئی درز کھلی نہ چھوڑی جاتی تھی کہ کہیں موت وہیں سے نہ در آئے۔ ایسی لاچار اور بے بس ہوکے رہ گئی تھی زندگی۔

    جب کھلانے والوں کے ہی جان کے لالے پڑے ہوں تو ایسے میں موتی کی سدھ لینے والا کون تھا۔ کون اس کے لئے روٹی لے کر آتا۔ بسا اوقات وہ بھوکوں پیٹ ہی محلے کی نگہبانی کرتا رہتا تھا۔ لوگ بھلے ہی اس سے لاتعلق ہو چکے تھے مگر وہ اپنے فرض سے منھ موڑنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اب تو اس کا کام پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی بڑھ چکا تھا۔ رات کو موت کے سوداگر اپنے اپنے بلوں سے نکل آتے تھے اور مخبری کے نام پر لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔ موتی شاید اس بدلاو کوسمجھ گیا تھا اس لئے وہ رات بھر بھونک بھونک کر محلے والوں کو باہر کی ہر ہلچل سے آگاہ رکھتا تھا۔

    اسی بیچ شہر کے کئی ہندوں کی ہلاکت کی خبرنے اقلیتی فرقے میں کھلبلی مچا دی۔ ایس افراتفری مچ گئی کہ جس کے جہاں سینگ سمائے وہ وہاں بھاگا۔ ایک بار کسی قوم یا فرقے میں بکھراو شروع ہو جائے تو وہ تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ چل چلاو کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کشمیری ہندو جو قرن ہا قرن سے بھاگتے کے آگے اور مارتے کے پیچھے رہے ہیں، ایسے حالات میں بھاگنے کے سوا اور کیا کر سکتے تھے سو جو بچے تھے انہوں نے بھی اداسا کسنا شروع کیا۔ ایک رات میرے محلے کے آدھے سے زیادہ ہندو چوروں کی طرح گھر سے ایسے بھاگے کہ بغل میں رہنے والے پڑوسی کو بھی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اپنی برادری کے لوگوں کو اس طرح نقل مکانی کرتے دیکھ کر میری ہمت جواب دینے لگی۔ اب اس محلے میں صرف میرا ہی پریوار ایساتھا جو اب تک ٹکا ہوا تھا۔ میں شاید اور کچھ دن رکنے کا حوصلہ دکھا پاتا مگر میرے گھر والے کافی ڈرے ہوئے تھے۔ وہ جلد سے جلد اس قتل گاہ سے نکل جانا چاہتے تھے۔ چنانچہ گھر والوں کی ضد کے آگے میری ایک نہ چلی اور میں بھی ایک رات چوروں کی طرح ٹرک میں تھوڑا بہت سامان لاد کر اپنے گلستان کو خیر باد کہہ کے نکل گیا۔ جب ہم ٹرک میں سوار ہوئے تو موتی بہت دور تک ہمارا پیچھا کرتا رہا۔ میرے پاس اتنا وقت کہاں تھا کہ میں رک کر اسے پیار کرتا اسے پچکارتا۔ وہ بہت دور تک ہمارے ٹرک کا پیچھا کرتا رہا۔

    میں نے جموں پہنچ کر ایک کمرہ کرایہ پر لے لیا اور از سر نو اپنی زندگی کے تانے بانے بننے لگا۔ ایک تو جموں کی قیامت خیز گرمی اوپر سے تنگ دستی۔ جو کچھ

    میں گھر سے اٹھا کر لایا تھا وہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کے برابر تھا۔ میری پونجی ایک آدھ مہینے میں ختم ہوگئی اور مجھے آٹے دال کا بھاو معلوم پڑنے لگا۔ بد بختیوں اور کٹھنا ئیوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ میں نے ادھر ادھر خوب ہاتھ پاوں مارے پر اُمید کی کرن کہیں نظر نہیں آئی۔ میں اپنے بچوں کو بھوکوں مرتے نہیں دیکھ سکتا تھا اس لئے میں ہر روز جموں کے بس اڈے پر اس امید کے ساتھ بیٹھ جایا کرتا تھا کہ کہیں سے کوئی فرشتہ رحمت نکل آئے جو مجھے اس مصیبت سے باہر نکال سکے۔ ان دنوں کشمیرسے بہت سارے دلال جموں آکر کشمیر ی ہندوں کی جائیداد بکوانے کا کام کرتے تھے۔ میری حالت اسقدر خستہ تھی کہ میں اپنا آبائی مکان بیچنے کے لئے تیار ہوگیاتھا۔ جب جان ہے تو جہان ہے۔ مکان کا کیا ہے زندہ رہے تو آج نہیں تو کل نیا مکان بنوا لیں گے۔

    میرے محلے کے آدھے سے زیادہ مکان بک چکے تھے۔ میرا مکان تین منزلہ تھا۔ بڑے چھوٹے ملا کر اس میں چودہ کمرے تھے۔ ستھو بر بر شاہ کا یہ مکان کئی دلالوں کی نظر پر چڑھ چکا تھا۔ وہ اسے خریدنے کے لئے بے تاب تھے کیونکہ مستقبل میں اسے ہوٹل میں تبدیل کیا جا سکتا تھا سو جب رجب دلال نے میرے سامنے دس لاکھ کی آفر رکھی تو مجھے لگا جیسے میری منہ مانگی مراد پوری ہوئی۔ میں نے ترت پھرت رجب چاچا سے پچاس ہزار روپیے پیشگی کے طور پر لئے اور اسطرح میں نے اپنے اس آشیانے کا سودا کر لیا جو میرے باپ نے بڑے چاو سے بنوایا تھا۔

    میں نے جب گھر پہنچ کر بیوی کے سامنے پچاس ہزار کے نوٹ رکھ دئے تو میری بیوی بملا کی آنکھیں پچاس ہزار دیکھ کر پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ وہ حیرت زدہ ہوکے مجھ سے استفسار کرنے لگی۔ ”یہ اتنے سارے پیسے کہاں سے آ گئے؟“

    ”میں نے گھر بیچ دیا“ میں نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔

    ”آپ نے گھر بیچ ڈالا“ وہ تیورا کے بولی۔ اچانک اس کی آواز بھاری ہو گئی۔ وہ گلو گیر ہوکے بولی۔ ”جب ہم واپس لوٹیں گے تو پھر ہم کہاں رہیں گے؟“

    ”تمہیں کیا لگتا ہے ہم کبھی لوٹ پائیں گے؟“

    ”کیوں نہیں لوٹ پائیں گے۔ وہ ہماری جنم بھومی ہے۔ اپنی جنم بھومی سے کوئی بھلا دور رہ سکتا ہے کیا؟“

    ”اس جنم بھومی کو اب بھلانے کی عادت ڈالو۔ اب ہم کو ان ہی تپتے میدانوں میں اپنی بچی کھچی زندگی گزارنی ہوگی۔ ہمیں اسی تڑاقے کی گرمی میں اپنا مقدر سنوارنا ہوگا

    شاید ہماری تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ کاغذ پر لکھی تحریر تو بدل سکتی ہے البتہ قسمت کے لکھے کو کو ئی نہیں مٹا سکتا۔“

    میری باتوں نے سنتوش کو کافی دل آزردہ اور افسردہ کر دیا۔ وہ ایک کونے میں بیٹھ کر بہت دیر تک چپکے سے آنسو بہاتی رہی۔ روتی بھی کیوں نا۔ اس کا تو گھر چھن گیا تھا۔ گھر کیسا بھی ہو، سیمنٹ گارے سے بنا ہو یا کچی مٹی سے ،عورت کی پہچان تو گھر سے ہی ہوتی ہے۔ وہ اس گھر کے ساتھ جذباتی طور پر جڑی ہوتی ہے۔ وہ اس سچ کو کس دل سے سہن کر پاتی کہ اس کا گھر ہمیشہ کے لئے اس سے چھن گیا ہے۔ وہ کئی روز تک مجھ سے کچھی کچھی سی رہی۔ سیدھے منھ مجھ سے بات بھی نہیں کرتی تھی ۔ میں کچھ پوچھتا تو کاٹ کھانے کو دوڑتی تھی۔ گھر بک جانے کا دکھ مجھے بھی تو تھا پر جینے کے لئے اسکے سوا اور چارہ بھی کیا تھا۔ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ جب پرانا گھر بکےگا تو اس کی جگہہ ایک نیا گھر بنےگا۔ ویسے بھی صدا کسی کی رہی نہیں۔ جس طرح رت بدلتے ہیں اسی طرح زندگی کے رنگ بھی بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی سکھ تو کبھی دکھ۔ کوئی بھی چیز پائدار نہیں ہے۔ دکھ سکھ تو دھوپ چھاوں کی طرح ہیں۔ کل جو تھا وہ آج نہیں ہے اور کل جو ہوگا وہ پرسوں نہیں ہوگا یہی تو قدرت کا دستور ہے۔

    ایک ہفتے کے بعد رجب دلال اچانک میرے گھر پر نازل ہوا۔ وہ بڑا دکھی اور پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے جو خبر سنائی وہ خوش کن نہیں تھی۔ جس شخص کو رجب دلال میرا مکان بیچنے والا تھا،وہ جب اسے مکان دکھانے لے گیا تو نہ جانے موتی کہاں سے نکل آیا اور اس نے اس شخص پر حملہ کر دیانہ صرف اس کے کپڑے پھاڑ ڈالے بلکہ سارے کے سارے دانت اس کے بدن میں پیوست کر دئے۔ وہ خون اگلتا ہو وہاں سے بھاگا۔ پچھلے ایک ہفتے سے وہ اسپتال میں بھرتی ہے۔ میں اس خبر سے حیران و ششدر ہوکے رہ گیا۔ موتی نے آج تک کسی کو کاٹنا تو دور ایک کھرونچ تک نہ ماری تھی۔ آخر ایسا کیا ہوا جو وہ اتنا خونخوار ہو گیا۔ میں نے رجب علی کی طرف دیکھا۔ اس کا خون ابل رہا تھا۔ وہ غصے سے اپنی مٹھیاں بھینچ کر دانت پیستے ہوئے بولا۔

    ”میرا بس چلتا تو میں اس بازاری کتے کو گولی سے اڑا دیتا۔ یہ تو ستیاناس ہو آپ کے محلے والوں کا جو اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے اور کتے کو کچھ کہنے کی بجائے الٹے مجھ سے ہی سوال کرنے لگے کہ آخر میں نے کس کی اجازت سے اس مکان کا پھاٹک کھولا۔ میں نے کہا کہ اس مکان کا روپ کشن سے میرا سودا ہوا ہے۔ وہ تو یہ بات سن کر ہتھے سے اکھڑ گئے اور مجھ سے کہنے لگے کہ اس کو کس نے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اپنی موروثی جائیداد کسی اور کو سونپ دے۔ اسے ہر حال میں یہاں آنا ہی ہوگا۔ جب یہ کتااُسکے بنا نہیں رہ سکتا تو ہم انسان اس کے بنا کیسے رہ پائیں گے اسلئے کان کھول کر سن لو یہ مکان کسی بھی قیمت پر نہیں بکے گا۔ ہم اگر اسے بیچنے کی اجازت دے بھی دیں لیکن موتی کو کون سمجھائےگا۔ جب سے وہ لوگ یہاں سے چلے گئے ہیں تب سے اس نے اس گھر کا دوار نہیں چھوڑا ہے۔ رات دن اس گھر کی رکھوالی کرتا رہتا ہے۔ اسکے رہتے اس گھر میں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ اسے کھانے پینے کی پرواہ ہی نہیں رہتی۔ کبھی کوئی کچھ کھلا دیتا ہے تو کھا لیتا ہے نہیں تو بھوکاپیاسا یہیں بیٹھا رہتا ہے ایک چوکیدار کی طرح۔“

    یہ کہانی سن کر میں رو پڑا۔ وہ بازاری کتا جس کے ساتھ میں نے پیار کے کچھ پل بانٹے تھے آج وہ اس پیار کی قیمت اپنی جان سے چکا رہا تھا۔ سنتوش بھی یہ بات سن کراپنے آپ کو روک نہ سکی۔ وہ تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں نے اپنے آپ کو سنبھال کر رجب علی سے کہا۔

    ”رجب کاکا جب موتی نہیں چاہتا کہ وہ مکان بکے تو وہ بکےگا نہیں۔ آپ ابھی اپنے پیسے واپس لے کر جائیے۔ اب وہ مکان نہیں بکےگا۔“

    میں نے سنتوش سے وہ پیسے منگاکر رجب علی کو واپس کئے تو اس کا چہرہ اتر گیا اور وہ مجھے ڈراتے ہوئے بولا۔

    ”روپ کشن! جذبات میں بہنے کی کوشش نہ کرو۔ تمہارے لئے کشمیر کے حالات ابھی موافق نہیں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ گھر کے چکر میں جان سے ہی ہاتھ دھونے پڑیں“

    میں نے خشم سے رجب علی کی طرف دیکھا اور پھر بڑی بیزاری سے اس کی بات کاٹ کر بولا۔ ”جینا مرنا ایشور کے ہاتھ میں ہے۔ اگر میری موت وہیں پر لکھی ہے تو اسے نہ تم ٹال سکتے ہو اور نہ میں۔ جس محلے کا ایک آوارہ کتا میرے لئے اتنا تڑپ رہا ہے اس محلے کے لوگ میرے لئے کتنے تڑپ رہے ہونگے اسکا اندازہ تو مجھے اب ہو رہا ہے اسلئے نہ میں تمہارے ڈرانے سے اپنا فیصلہ بدل دوں گا نہ تمہارے بہکانے سے۔“

    رجب علی پہلے تو آڑھا ترچھا ہونے لگا پھر بدر بدر کرتا ہوا نکل گیا۔ اس کا یوں بیزار ہونا فطری تھا کیونکہ یہ سودا نہ ہونے کے باعث اُسکا بہت بڑا مالی نقصان ہوا تھا۔ دس لاکھ کے سودے میں اس نے اپنے لئے کتنا کمیشن مقرر کیا تھا یہ تو وہی جانے پر یہ تو طے تھا کہ یہ سودا ٹوٹنے سے اس کے ہاتھ سے ایک موٹی رقم چھن گئی تھی۔ اس کے جانے کے بعد میں نے سنتوش کے چہرے پر شادابی دیکھی۔ وہ اس سودے کے ٹوٹنے سے نہال ہو گئی تھی۔ میں نے اسے چھیڑتے ہوئے کہا۔

    ”تم عورتوں کی زبان کالی ہوتی ہے۔ ایک بار جس چیز کیلئے نا کہہ دی وہ نا ہوکر ہی رہ جاتی ہے۔ اب پڑ گئی نا تمہارے دل میں ٹھنڈک۔ ہو گیا نہ سودا کینسل۔“

    ”آپ کو مجھ سے کہیں زیادہ موتی کا احسان ماننا چاہے جس نے ہمارے گھر کو بکنے نہ دیا۔ میرا دل کرتا ہے کہ میں اڑ کے اپنے گھر جاوں اور موتی کو گلے لگاکر جی بھر کے پیار کروں۔ کتنا وفا دارکتا نکلا وہ۔“

    ”کتے تو سارے کے سارے ہی وفا دار ہوتے ہیں۔ بس ان کی وفاداری کو پرکھنے کا ہنر آپ کو آنا چاہے۔“

    ایک ہفتے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ پہلے میں سری نگر جاوں گا۔ اگر مجھے حالات موافق لگے تو اگلے ہفتے میں بیوی بچوں کو وہاں بلا لوں گا۔ میرے اس فیصلے سے سبھی نے اتفاق کیا۔ سچ کہوں تو میں سری نگر پہنچنے کے لئے بے چین ہوا جا رہا تھا۔ میں اڑ کر وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اپنے یار دوستوں، اپنے پڑوسیوں اور خاص کر اپنے موتی سے ملنے کے لئے میں مرا جا رہا تھا۔

    آخر دو دن کے جان لیوا انتظار کے بعد میں سری نگر پہنچ گیا۔ جب میں نے اپنے محلے میں پاوں رکھا تو پتہ نہیں میری آمد کی خبر کیسے پھیل گئی۔ لوگ گھروں سے دوڑتے ہوئے نکل آئے اور مجھ سے لپٹ لپٹ کر رونے لگے۔ میں بھی اپنے آنسو روک نہیں پایا۔ ایسا لگا جیسے ایک بھٹکی ہوئی روح اپنے خول میں واپس آ گئی ہو۔

    گھر کے بنا ایک انسان شریر کے بنا ایک بھٹکتی ہوئی روح کی کی طرح ہوتا ہے۔ انسان اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر محلوں میں رہے، اسے وہ سکھ اور وہ خوشی کہیں نصیب نہیں ہوتی جو اسے اپنے گھونسلے میں میسر ہوتی ہے جس میں اس نے جنم لیا ہوتا ہے۔ میں لوگوں سے ملتے ملاتے جب اپنے گھر کے پھاٹک کے پاس رک گیا تو میں نے دیکھا کہ میری بو سونگھتے ہی موتی تیزی سے ایک اندھیرے کونے سے نکل آیا اور پھر مجھ سے روٹھ کر ادھر ادھر بھاگنے لگا۔ ایسا کرکے وہ اپنی ناراضگی جتا رہا تھا۔ حالانکہ وہ بہت مریل ہو چکا تھا پھر بھی نہ جانے اس میں اتنی توانائی کہاں سے آ گئی کہ بہت دیر تک وہ مجھ سے آنکھ مچولی کھیلتا رہا۔ جب وہ تھک کر چور ہو گیا تو میں نے آگے بڑھ کر اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا ور پھر اسے یوں پیار کرنے لگا جیسے وہ میرا بچہ ہو۔ وہ بھی فرط جذبات سے کبھی میرا منہ چومتا، کبھی میرے ہاتھوں کو چاٹنے لگتا تھا۔ میری آنکھیں اشک بار تھیں۔ میرے پیچھے جو محلے کے لوگ کھڑے تھے، ان کی آنکھیں بھی یہ منظر دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں۔ جذبات جب امڈ پڑتے ہیں تو اپنے ساتھ آنسوں کی طغیانی لے کر آتے ہیں۔ جذبات کا ریلا جس دل سے بھی اٹھے اظہار کی ادا اور انداز ایک جیسا ہوتا ہے۔

    میرا لوٹ کے آ جانا کسی نوید سے کم نہ تھا۔ گویا کہ حالات ابھی سدھرے نہیں تھے تاہم دلوں کی بستیوں میں پیار و محبت کی دنیا ویسی ہی آباد تھی۔ ہر کوئی بیتے دنوں کو یاد کرکے رو رہا تھا۔ وہ دن جب ہر طرف چین و امن تھا۔ خوشحالی اور آسودگی تھی۔ جب ان مرغزاروں میں قہقہے گونجا کرتے تھے۔ انسان دل سے برا نہیں ہو تا۔ اسے حالات برا بنا دیتے ہیں۔ میرے محلے کے لوگ آج بھی ویسے ہی سیدھے سادھے اور مہربان تھے جیسے کہ وہ اس شورش سے پہلے تھے۔ گو کہ اُن کی زبان پر تالے پڑے تھے البتہ اُنکے دل کے پیمانے آج بھی پیار و محبت سے لبریز تھے۔

    رات کو مجھے لے کر کافی کھینچا تانی ہوئی۔ کوئی کھانا کھانے کے لئے مجھے ایک طرف کھینچ رہا تھا تو کوئی دوسری طرف۔ آخر یہ طے پایا گیا کہ میں اپنے گھر میں تب تک کچھ نہیں پکاوں گا جب تک سنتوش جموں سے آئےگی نہیں۔ خیر رات کا کھانا میں نے اپنے ایک مسلم پڑوسی کے یہاں کھا لیا۔ کھانا کھا کے جب وہ میرے اصرار پر مجھے گھر چھوڑنے آیا تو یہ دیکھ کر میں دھک سے رہ گیا کہ موتی بری طرح ہانپ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پتھرائی ہوئی تھیں اور وہ پھاٹک کے پاس بیٹھا نہ جانے کب سے میرا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں ایک انجانی سی چمک آ گئی اور پھر یہ چمک دفعتاً بجھ گئی۔ میں جب اس کے قریب چلا گیا تو یہ دیکھ کر میں چکرا گیا کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ میں پریشان ہو اٹھا۔ اس سے پہلے میں کچھ کر پاتا اس نے میری بانہوں میں دم توڑ دیا۔ مجھے لگا جیسے میرا کوئی عزیز مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے روٹھ کر چلا گیا ہو۔ میں بے ساختہ اس سے لپٹ کربچے کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے