Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آوازیں اور اجالے

جینت کھتری

آوازیں اور اجالے

جینت کھتری

MORE BYجینت کھتری

    چپل میں پیر ڈالتے ہوئے آخرکار اس نے طے کر لیا۔ وہ باہر آ گیا۔ کمرے کے دروازے سے نکلتے وقت اسے احساس ہوا کہ آج کچھ ہوگا لیکن کچھ ہوا نہیں۔ کھلے ہوئے کواڑ کھلے ہی رہے۔ اس نے زینے پر پہنچ کر پیچھے دیکھا، منہ بنایا اور پھر زینہ اتر گیا۔

    پھاٹک پر پہنچ کر اس نے گہرا سانس لے کر اطمینان سا محسوس کیا۔ پھاٹک کے باہر ایک پرانی چارپائی پر چوبیسوں گھنٹے بیٹھے رہتے ہوئے بوڑھے پٹھان کی نظر بچا کر وہ آگے بڑھ گیا۔

    یہ گلی ذرا لمبی تھی۔ اس کے دونوں طرف اونچی، پتلی، غلیظ اور مردار عمارتیں ایک دوسرے میں گھسی کھڑی تھیں۔ ان عمارتوں کی کھڑکیوں سے ٹکراتی ہوئی کمزور ہوا میں کھڑکیوں اور دیواروں پر سے دھول اڑالے جانے کی طاقت نہ تھی۔ ان کھڑکیوں کے ذریعہ تنگ وتاریک کوٹھریوں میں جھانکتی ہوئی دھوپ میں گرمی بھی نہ تھی۔ وہ یہاں پہنچنے کی کوشش میں ہی ختم ہو جاتی تھی۔ دن میں نمی اور غلاظت اور رات میں کٹھمل اور مچھر اور کھانستے کھنکھارتے زرد اور بیمار جسم، ہرطرف سے بے پروا۔ ان عمارتوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگی یوں آگے گھسٹ رہی تھی۔ زندگی تو بے شک تھی لیکن زندہ رہنے کی علامت کے طور پر صرف رفتار تھی اور رفتار کی علامت کے طور پر آواز یں تھیں اور کیسی آوازیں؟

    اس گلی میں دن کو اور رات کو۔۔۔ رات کے ابتدائی اور درمیانی حصے میں اور آخری حصے میں۔۔۔ کہیں کوئی گراموفون بجتا رہتا۔ ایک آدھ جھگڑا چلا کرتا، ایک آدھ فضیحتہ ہوا کرتا، بچے روتے ہی رہتے اور جب بچے نہ روتے تو ان کی مائیں روتیں اور جب یہ دونوں سوجاتے تو اس کا دھنی (شوہر) اور ان کا باپ نیند میں بکواس کرتا۔ پتھر پرنل چوبیسوں گھنٹے ٹپکا کرتا بلکہ بہتا رہتا۔ آدھی رات کے وقت بھی میلے کپڑے دھوئے جاتے یا برتن بھانڈے مانجھے جاتے۔ کبھی کبھی کسی مبارک گھڑی میں یہ آوازیں خاموش ہو جاتیں تو مچھروں کی بھنبھناہٹ، جھینگروں کے شور، چوہوں کی چوں چوں کے ساتھ ہلکی ہلکی آہیں اور سسکیاں آپس میں گڈمڈ ہوکر ایک عجیب سی آواز پیدا کر دیتیں۔

    لیکن آج اسے آوازوں کی اس دنیا سے نفرت ہو گئی تھی۔ اس نے اپنی رفتار تیز کردی اور گلی کے نکڑ پر پہنچ کر ان خاک آلود مرد ار عمارتوں کی بے نور لیکن پر آواز کھڑکیوں کی نظر سے بچنے کے لیے وہ بھاگنے لگا اور گلی سے باہر آتے ہی اس نے سڑک پر جگمگاتے ہوئے اجالوں کو خوش آمدید کہا۔

    اس کی دھوتی کے کھلے حصے میں ہوا آکر سما گئی اور پھر ہوا نے اس کے احتیاط سے جمائے ہوئے بالوں کو چوم لیا۔ اس نے اپنے ہاتھ ہاف کوٹ کی جیبوں میں ڈال دیے۔ اس کے دبلے پتلے جسم کا سینہ خوشی سے پھیل کر ابھر آیا اور اس کی گردن نے تن کر سر کو ذرا اوپر اٹھا دیا۔

    وہ آہستہ آہستہ، ایک ہی رفتار سے، نپے تلے قدموں سے چلتا رہا۔ وہ کہاں جارہا ہے، یہ تو وہ خود بھی نہ جانتا تھا۔ وہ صرف آوازوں کی دنیا سے نکل کر اجالے کی دنیا میں آ گیا تھا اور یہاں آتے ہی اجالے کا نشہ اس کی رگ رگ میں سرایت کر گیا تھا۔ چند ثانیوں میں ہی وہ اپنے آپ کو بھول گیا۔ آس پاس اور اوپر نیچے اجالوں کا طوفان تھا۔ زندگی لہریں لے رہی تھی اور وہ اس طوفان میں، ان لہروں میں گم ہوگیا۔ وہ گردن گھما کر دائیں بائیں دیکھتا ہوا چلتا رہا، آگے بڑھتا رہا۔

    باہر کے اجالوں نے اس کے باطنی اندھیروں پر گھڑی بھر کے لیے فتح حاصل کرلی۔ باہر کی جگمگاتی دنیا پر مزید جگمگاہٹ طاری کرتا ہوا تصور بھی دم بخود رہ گیا۔ انسانیت کے اصولوں سے بھڑک کر بغاوت پر آمادہ ہو جانے والے جذبات بھی دبک گئے۔ اجالوں کا مفتوح وہ صرف حیوان باقی رہ گیا۔ جیبوں میں سے اس کے ہاتھ باہر آئے۔ دھوتی کی سلوٹوں میں کھڑے ہوئے بالوں میں اندھیرے اور اجالے اور ہوا آنکھ مچولی کھیلتی رہی اور اس نے اجالے کے ایک دائرے سے دوسرے دائرے کی طرف دیکھتے ہوئے چلنا جاری رکھا۔

    اجالوں کی طلمسی دنیا گزرنے لگی۔ سنیما گھر کے چکاچوند کر دینے والے اجالے میں بھی بھیل پوری والوں کے ٹھیلوں پر تیل کے دیے اور لالٹین کے اجالے لاشوں کی طرح معلوم ہو رہے تھے۔ سرد، بےنور، بےجان اور زرد۔ ڈیڑھ درجن قمقموں کے اجالے میں کسی نے ہوٹل کے لڑکے کو ایک لات رسید کرکے کہا، ’’دیکھتا نہیں ہے، سور کا بچہ؟‘‘

    کچھ ہی دور فل لائٹ میں، آنکھیں چوندھیادینے والی روشنی کی دو موٹی لکیریں بکھیرتی ہوئی ایک کار نے ڈبل بریک لگائی۔ ٹائر چیخ اٹھے۔

    ایک اندھا بھکاری سڑک عبور کر رہا تھا۔

    وہ چلتا ہی رہا۔

    ذرا آگے چل کر، دائیں طرف گل مہر کے جھرمٹ میں میونسپلٹی کا قمقمہ اپنا اجالا گم کر بیٹھا تھا اور اس جھاڑی کے اندھیرے میں ایک بدصورت عورت کا بےڈول جسم خوبصورت نظر آنے کی تیاری میں تھا۔ آخرکار کسی ایک گاہک نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یہ حرکت دیکھ کر ذرا دور کھڑے ہوئے تانگے والے نے ان دونوں کواپنی طرف متوجہ کیا۔ گھوڑا ہنہنایا، گاہک نے کھنکار کر گلا صاف کیا اور عورت نے مچل کر نخرہ دکھایا۔

    اس کی رفتار میں یکسانیت آ گئی اور اس کے ہونٹوں پر گندی مسکراہٹ ناچنے لگی۔ اس گل مہر کی جھاڑی میں بجلی کی بتی کے ستون سے ٹیک لگا کر وہ کھڑا ہو گیا۔ اس نے سگریٹ سلگائی۔ جلتی ہوئی دیا سلائی کے اجالے کے اس پار سب کچھ اندھیرے میں غرق ہو گیا۔ اس نے بڑی ادا سے تیلی بجھا کر پھینک دی۔ اس کے حیوانی دل میں ایک آرزو نے کروٹ لی۔ وہ ہنسا اور اس کی یہ ہنسی لکڑ بھگے کے قہقہے کی طرح بے اختیار اور بے ڈھنگی بن گئی۔ اس کی آنکھوں میں سڑک کے سارے اجالے سمٹ آئے۔

    قریب کی گلی میں داخل ہونے سے پہلے اس نے پان کھاکر اپنے ہونٹ رنگ لیے۔ دل اس بجھے ہوئے دیے سے رنگ ہی گیا تھا۔

    اس گلی کے اجالے بھیانک تھے، خطرناک تھے۔ اتنا تو وہ جانتا تھا، تب بھی اس کے قدم نہ تھمے اور نہ واپس ہوئے۔ بلند عمارتیں روشن تھیں۔ ایک ایک کھڑکی میں لال، پیلے اور سبز قمقمے مختلف قسم اور رنگوں کی ٹوپیاں پہنے بڑی ادا سے لٹک رہے تھے۔ اس گلی کی دنیا کو رات کے اجالوں کے سوا کسی کی پروا نہ تھی اور کسی دوسری چیز کی کوئی قیمت بھی نہ تھی ان کے لیے۔ کھڑکیوں میں کھڑی ہوئی عورتیں جنھوں نے برہنہ نظر آنے کے لیے ہی کپڑے پہنے تھے، ان اجالوں کے پھول بننے کے لیے ان اجالوں کو لوٹ رہی تھیں۔

    یہاں بجلی کے قمقموں کے ساتھ ہی یہ عورتیں جاگ اٹھتیں اور جب یہ قمقمے بجھ جاتے، اپنے اجالے اپنے ساتھ سمیٹ لے جاتے تو ان عورتوں کی آنکھیں بھی بند ہو جاتیں اور تب اس گلی کے باہر سورج طلوع ہوتا۔

    اس کی نظر دیوانی ہوکر دوڑنے لگی۔ شہر کے اس حصے میں اتنی بہت سی ’’حسینائیں‘‘ تھیں؟ بے شک ’حسینائیں‘ ہی تھیں۔ ایک ایک کھڑکی میں چار چار۔ کسی کے بالوں میں وینی تھی، کسی کے منہ میں سگریٹ تھی، کوئی پان چبا رہی تھی لیکن تھیں سب کی سب رنگیلی۔ یہ دوسروں کے مال پر۔۔۔

    وہ کسی کے ساتھ ٹکرا گیا۔

    ’’اندھا ہے بے؟‘‘

    کسی دوسرے سے ٹکرانے سے بچنے کی کوشش میں اس کا پیروہاں لیٹے ہوئے ایک کتے کی دم پر جاپڑا۔ کتا چیخا تو اس نے چونک کر ادھر دیکھاتو ایک پتلا، خشک ہاتھ جس کی کلائی میں میلی چاندی کی چوڑیاں تھیں، بھیک مانگنے کے لیے اس کے سامنے پھیلا دیا گیا تھا۔ اس نے اپنی رفتار تیز کرنی چاہی لیکن یہاں تو آوازوں اور اجالوں میں غضب کی رفتار تھی۔ جیسے دوڑ لگی تھی۔ اس دوڑ کا ساتھ دینے کی قوت اب اس میں باقی نہ رہ گئی تھی۔ چنانچہ اب وہ جیسے گھسٹ گھسٹ کر چل رہا تھا۔

    اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے چھلک آئے۔ فٹ پاتھ پر کچھ زیادہ گہماگہمی تو نہ تھی لیکن یہاں پر ہر کوئی مرضی کا مالک تھا۔ کوئی کہنے سننے والا نہ تھا۔ چنانچہ جس کا جیسے جی چاہتا تھا چل رہا تھا۔ کوئی کسی کو راستہ نہ دے رہا تھا۔ اس کی نظریں پہلی منزل سے چوتھی اور چوتھی سے پہلی منزل پر چڑھ اور اتر رہی تھیں۔

    کوئی اس کے شانے سے شانہ رگڑ کر آگے نکل گیا۔ اس نے نظر اٹھا کر اس طرف دیکھا تو ایک حسینہ بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے کھڑی تھی اور اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ خود اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آکر غائب ہو گئی۔ اس نے آگے جانے کا خیال ترک کر دیا۔ وہ واپس لوٹا۔ لیکن سامنے سے اس نے تین لال ٹوپی والوں کو آتے دیکھا۔ وہ یوں چل رہے تھے جیسے فٹ پاتھ ان کے باپ کی ہو۔ وہ ایک دوسرے کو سہارا دیے ہوئے تھے۔ اس کی مٹھیاں کوٹ کی جیبوں میں بھنچ گئیں اور اس کے قدم رک گئے اور اس کے رکتے ہی اس کے قریب ہی ایک بائیسکل والا اپنی سائیکل پر سے اتر پڑا۔ اس نے بیڑی سلگائی اور بڑے ٹھنڈے سکون سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔ پہلی منزل سے کسی نے پان کی پچکاری ماری جو اس کے قریب ہی فٹ پاتھ کے پتھروں پر ’پڑ‘ سے گری۔ اس کا جی چاہا کہ ایک نظر اوپر دیکھ لے لیکن جرأت نہ کرسکا۔ وہ جہاں تھا وہیں بے وقوف کی طرح کھڑا رہا۔

    رات بہت زیادہ آگے بڑھ گئی تھی۔ آگے یا پیچھے۔ یہاں کی رات ہر رات کی طرح ہر طرف ایک سی ہی تھی۔ گل مہر کے پھولوں جیسے لال جسم، چمپا کے پھولوں جیسے زرد مسکراتے بدن، پھوٹتی کونپلیں اور خزاں رسیدہ پتے، سبھی بن سنور کر کھڑکیوں میں سویرا بنے کھڑے تھے۔

    اس گلی کی ایک ہی خصوصیت تھی، ایک ہی مزاج تھا۔ آوازیں اور اجالے۔ زندگی میں اگر کچھ تھا تو بس یہی تھا۔ پرانی آوازیں خاموش ہو جاتیں، ختم ہو جاتیں، پرانے اجالے بجھ جاتے، مٹ جاتے، پرانے بدن اپنے کو ظاہر کرنے کی کوشش میں تھک کر ڈھے جاتے اور ان کی جگہ نئے، نازک اور کچے بدن لے لیتے۔ یہاں کی رفتار خطرناک تھی۔ وہ ہر ایک کو نگل لیتی تھی۔

    اس رفتار نے اسے زیادہ دیر تک کھڑے رہنے نہ دیا۔ کسی نے اس پر تھوک دیا۔ کسی نے اسے دھکا دیا، کسی نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی، کسی نے اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگی، کسی نے اسے نظر سے ڈرایا، کسی نے اسے نازو ادا سے لبھانے کی کوشش کی، کسی نے اسے پیارے بلایا، کسی نے پچکار کر دعوت نظارہ دی اور وہ گڑبڑ گیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اجالے کے نشے نے اس کی رگ رگ کو جھنجھوڑ دیا۔

    اس کے اعصاب تن گئے۔ اس نے دانت پیسے، جسم کا سارا لہو اس کے دماغ کی طرف دوڑ پڑا اور آنکھیں پھٹ گئیں۔

    ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے کوند گیا اور اتنی ہی تیزی سے اس کا جسم سنبھل کر اپنے آپ میں آ گیا۔ وہ پلٹا اور سامنے کی عمارت کا زینہ تقریباً بھاگتا ہوا چڑھ گیا۔ پہلی ہی منزل کی پہلی ہی کوٹھری کے دروازے کے سامنے وہ رک گیا۔ وہ ہانپ رہا تھا۔ سرخ مٹ میلا پر دہ یوں تیزی سے ہٹ گیا جیسے وہ اسی کی آمد کا منتظر تھا۔ اس نے ابھی اپنا دم درست بھی نہیں کیا تھا کہ پردے کے پیچھے سے ایک نازک ہاتھ باہر آیا اور اسے شانے سے پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا گیا، پہلی ہی کھولی میں دوسری تین ’’حسیناؤں‘‘ کا اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے کا تجربہ ناکامیاب رہا۔ وہ نازک ہاتھ اسے دوسری کھولی میں گھسیٹ لے گیا۔

    اس نازک ہاتھ نے اس کا کوٹ اتارا، ٹوپی اتاری اور اسے پلنگ پر لٹا دیا۔ اچھا، کتنے پیسے لے کر آئے ہو۔۔۔ گفتگو کی ابتدا ہوئی اور باہر شور وہنگامہ رہا۔ کہیں ایک پرانی گھڑی کو ک ختم ہونے کے انتظار میں بیزاری سے ٹک ٹک، ٹک ٹک کیے جا رہی تھی۔ رات کٹ رہی تھی۔ ایک ٹک اس کی ایک قاش کاٹ لیتی تھی۔

    چند سوالات پوچھے گئے۔ اس نے بہت سے جواب دیے۔ وہ پلنگ پر اسی طرح لیٹا رہا۔ وقت گزرتا رہا۔ اس پوڈر اور کریم کی بو اسے پسند نہ آئی۔ وہ جسم اس کے جسم سے ذرا سا چھو گیا تو اس نے ایک جھٹکا سا محسوس کیا اور خوابیدہ جذبات ایک بار پھر طوفان بن آئے۔ نئے جذبات کے ساتھ ماضی کی یادوں کے بھوت بھی دھنس آئے۔ اس کا دل ڈوب گیا اور اس کے منہ سے ایک ٹھنڈی سانس نکل گئی۔

    وہ اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’کیوں! جا رہے ہو؟‘

    ’’ہاں!‘‘

    ’’کیوں؟‘‘

    اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔

    اس نازک ہاتھ والی نے پوچھا، ’’تو پھر آئے کیوں تھے؟ یہ روپے کیوں دیے؟‘‘

    واقعی کیوں؟ یہ خود اس کی سمجھ میں بھی نہ آیا۔ وہ بےحد تھک گیا تھا۔ اس کا دل ’’دھڑ دھڑ‘‘ اسے ہتھوڑے مار رہا تھا۔ روپیہ گیاجہنم میں۔ اس کی آنکھیں اس وقت رونا چاہتی تھیں۔ لیکن یہ رونے کی جگہ نہ تھی۔ گلے میں پھنسے ہوئے پھندے کو اس نے کوشش کرکے نیچے دھکیل دیا۔

    اس کے ہاتھ بے ڈھنگے پن سے ٹوپی سے کھیل رہے تھے۔

    ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی طبیعت کچھ خراب ہے۔ پانی لادوں۔‘‘

    پانی پی کر وہ سنبھلا۔ اس کے حواس قدرے بجا ہوئے۔ پانی پلانے والی نے اسے بازو سے پکڑ کر ایک کرسی پر بٹھا دیا۔

    ’’کیا کام کرتے ہیں آپ؟‘‘

    وہ خاموش رہا۔

    ’’بیوی بچے ہیں؟‘‘

    اس کے ہونٹوں پر ٹہلتی ہوئی مسکراہٹ بھاگ گئی۔ وہ تن کر بیٹھ گیا۔ سامنے بیٹھنے والی کی طرف دیکھتے ہوئے اس کی آنکھیں بجھ گئیں اور منہ کھل گیا۔ اندھیرے کا ایک بادل سا اس کی نظر کے سامنے سے گزر گیا۔

    ’’تھے۔‘‘ اس نے نیچی آواز میں کہا، ’’سب مر گئے۔‘‘

    ’’ہائے توبہ! بیوی خوبصورت تھی؟‘

    ’’ہاں۔ بہت۔ میری عمر اٹھارہ سال کی تھی اور اس کی چودہ تب ہماری شادی ہوئی تھی اور۔۔۔ اور۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’کچھ نہیں۔‘‘

    ’’وہ آپ سے پیار کرتی تھی؟‘‘

    اس نے پیار سے سوالات پوچھنے والی کی طرف دیکھا اور ہنس پڑا۔ اس نے اپنی ٹوپی اتار لی اور اس پر کڑھے ہوئے نقوش پر انگلیاں پھیرنے لگا۔

    ’’بےحد نیک ہوگی آپ کی بیوی۔‘‘

    شور و ہنگامے کے باوجود ان دونوں کی خاموشی مکمل ترین تھی۔

    ’’آپ نے دوسری شادی نہیں کی؟‘‘

    اس نے دوسرا جھٹکا محسوس کیا۔ اس نے اپنے سامنے والی کی طرف بھنویں سکیڑ کر دیکھا۔ اس نے سر پر ٹوپی رکھ کر جیب سے رومال نکال لیا۔

    ’’کیوں نہیں کی؟ آپ اب تک جوان ہیں۔‘‘

    بولنے والی نے گھوم کر اس کی طرف پشت کر لی اور کہا، ’’ہم سے کروگے شادی؟‘‘

    اور وہ پھر تیزی سے اس کی طرف گھوم کر ہنسنے لگی۔ اس نے محض مذاق کیا تھا اور اس کے چہرے پر آوازیں اور اجالے ہنس رہے تھے۔ تاہم یہ ہنسی اس کے میک اپ کے ساتھ میل نہ کھا رہی تھی۔ اسے یہ مذاق برا معلوم ہوا۔ وہ اٹھا اور چلنے لگا۔ مذاق کرنے والی نے کہا، ’’اپنے پیسے وصول نہیں کروگے؟‘‘

    دروازے کے قریب پہنچ کر اس نے پیچھے دیکھا۔ اس کا سینہ تن گیا اور آنکھیں چکر مکر ہو گئیں۔ اس کے بشرے پر اس کی مرضی کے خلاف ایک دوسری ہی کیفیت ابھر آئی۔ اس بدنام عورت سے اسے جو نفرت ہو گئی تھی اسے وہ چھپا نہ سکا۔ اس کے ہونٹ بھپخ گئے اور آنکھوں سے چنگاریاں جھڑنے لگیں۔

    ’’کل آؤگے؟‘‘ اس سے پوچھا گیا لیکن وہ جواب دیے بغیرزینہ اتر گیا اور نیچے پہنچ کر آوازوں اور اجالوں کے جنگل میں گم ہو گیا۔

    اس کی نظر اس وقت کچھ دیکھ نہ رہی تھی۔ یہ اجالے اس کے نزدیک بجھ چکے تھے۔ اس کے کانوں میں اس چھوٹی سی گلی کی آوازوں کی بازگشت گونج رہی تھی۔

    اجالوں بھرے راستے عبور کرکے آوازوں کی گلی میں داخل ہوتے وقت اس نے اطمینان کا سانس لیا۔ اس نے اپنی رفتار کم کر دی۔ کہیں دیا جل رہا تھا، کہیں سے آوازیں آ رہی تھیں۔ اس کے تھکے ہوئے جسم میں ٹھنڈک کی ایک لہر دوڑ گئی۔

    آواز نے اسے گھیر لیا۔

    ’’آپ کے بیوی بچے ہیں؟‘‘

    ’’سب مر گئے۔‘‘

    وہ زیادہ برداشت نہ کر سکا۔ نیچے دھکیلا ہوا پھندا پھر اوپر آیا۔ اس دفعہ اس نے اسے نہ روکا اور اس کے منہ سے ایک ہچکی نکل گئی۔ اس نے گلوگیر آواز میں کہا، ’’اس وقت تک سب مر گئے تھے۔‘‘

    ذرا بھی آواز پیدا کیے بغیر وہ پھاٹک میں سے نکلا چلا گیا۔ ایک وقت میں دو دو سیڑھیاں پھلانگتا وہ چوتھی منزل پر پہنچا۔ اوپر پہنچ کر وہ گھڑی بھر کے لیے ٹھٹکا۔ سامنے ہی اس کے کمرے کے کواڑ اس طرح کھلے ہوئے تھے جس طرح وہ انہیں چھوڑ گیا تھا۔ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ یہاں سچ مچ کچھ نہ ہوا تھا۔ یہ کیسی دنیا تھی؟ اس کے ہاتھ میں سے دھوتی کا کنارہ چھوٹ گیا۔

    وہ کمرے میں داخل ہوا اور ادھرادھر دیکھا۔ مٹی کے تیل کے دیے کی لوکو ابھارنے کے لیے چوڑیوں والا ایک ہاتھ دیے کی طرف بڑھا۔ اس نے دوڑ کر یہ ہاتھ پکڑ لیا اور اسے پیار سے دبایا۔

    ’’کون؟ آپ!‘‘

    ’’ہاں۔ میں ہی ہوں۔ رہنے دے یونہی۔ روشنی کی کوئی ضرورت نہیں۔ ارے باپ رے! تیرا ہاتھ تپ رہا ہے۔ بخار چڑھ آیا ہے۔‘‘

    جواب میں رونے کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ وہ ہاتھ چوڑیاں چھنکا تا اس کی گرفت میں سے پھسل گیا۔ دوسرے کو نے میں کوئی بری طرح سے کھانسنے لگا۔ ایک بچہ رو پڑا۔ ’’اوماں‘‘ ایک بار پھر چوڑیاں کھنکیں۔ الماری پر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ہوئے چوہوں نے تام چینی کا ایک پیالہ نیچے پھینک دیا اور دودھ والے نے دروازے پر دستک دی اور وہ چارپائی پر بیٹھ کر اپنے بال نوچنے لگا۔

    پھر وہی آوازوں کی دنیا!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے