ابابیل
کہانی کی کہانی
انسانی فطرت کی پرتیں کھولتی ایک ایسے کسان کی کہانی ہے جسکے غصے کی وجہ سے گاؤں کے لوگ ہمیشہ اس سے فاصلہ بنا کر رکھتے ہیں۔ اس کے بے جا اور شدید غصے کی وجہ سے ایک دن اس کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ کسان جب اپنے کھیت سے واپس آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ وہ اب گھر میں تنہا ہے۔ایک دن اسے اپنے گھر کے چھپر میں ابابیل کا گھونسلا دکھایی دیتا ہے۔ گھونسلے میں ابابیل کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ابابیل کے بچوں سے ایک ایسا گہرا رشتہ ہو جاتا ہے کہ انھیں بارش سے بچانے کے لیے وہ بارش میں بھیگتا ہوا چھپر کو ٹھیک کرتا ہے۔ بارش میں بھیگ جانے کی وجہ سے وہ بیمار ہو جاتا ہے اور اسکی موت ہو جاتی ہے۔
اس کا نام تو رحیم خاں تھا مگر اس جیسا ظالم بھی شاید ہی کوئی ہو۔ گاؤں بھر اس کے نام سے کانپتا تھا ۔نہ آدمی پر ترس کھائے نہ جانور پر۔ ایک دن رامو لہار کے بچے نے اس کے بیل کی دم میں کانٹے باندھ دیئے تھے تو مارتے مارتے اس کو ادھ موا کر دیا۔ اگلے دن ذیلدار کی گھوڑی اس کے کھیت میں گھس آئی تو لاٹھی لے کر اتنا مارا کہ لہولہان کر دیا۔ لوگ کہتے تھے کہ کمبخت کو خدا کا خوف بھی تو نہیں ہے۔ معصوم بچوں اور بے زبان جانوروں تک کو معاف نہیں کرتا۔ یہ ضرور جہنم میں جلے گا۔ مگر یہ سب اس کی پیٹھ کے پیچھے کہا جاتا تھا۔ سامنے کسی کی ہمت زبان ہلانے کی نہ ہوتی تھی۔ ایک دن بندو کی جو شامت آئی تو اس نے کہہ دیا، ’’ارے بھئی رحیم خاں تو کیوں بچوں کو مارتا ہے۔‘‘ بس اس غریب کی وہ درگت بنائی کہ اس دن سے لوگوں نے بات بھی کرنی چھوڑ دی کہ معلوم نہیں کس بات پر بگڑ پڑے۔ بعض کا خیال تھا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اس کو پاگل خانے بھیجنا چاہیئے۔ کوئی کہتا تھا اب کے کسی کو مارے تو تھانے میں رپٹ لکھوا دو۔ مگر کس کی مجال تھی کہ اس کے خلاف گواہی دے کر اس سے دشمنی مول لیتا۔
گاؤں بھرنے اس سے بات کرنی چھوڑ دی۔ مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوا۔ صبح سویرے وہ ہل کاندھے پر دھرے اپنے کھیت کی طرف جاتا دکھائی دیتا تھا۔ راستے میں کسی سے نہ بولتا۔ کھیت میں جا کر بیلوں سے آدمیوں کی طرح باتیں کرتا۔ اس نے دونوں کے نام رکھے ہوئے تھے۔ ایک کو کہتا تھا نتھو، دوسرے کو چھدو۔ ہل چلاتے ہوئے بولتا جاتا، ’’کیوں بے ’نتھو‘ تو سیدھا نہیں چلتا۔ یہ کھیت آج تیرا باپ پورے کرے گا۔ اور ابے چھدو تیری بھی شامت آئی ہے کیا۔‘‘ اور پھر ان غریبوں کی شامت آ ہی جاتی۔ سوت کی رسی کی مار۔ دونوں بیلوں کی کمر پر زخم پڑ گئے تھے۔
شام کو گھر آتا تو وہاں اپنے بیوی بچوں پر غصہ اتارتا۔ دال یا ساگ میں نمک ہے، بیوی کو ادھیڑ ڈالا۔ کوئی بچہ شرارت کر رہا ہے، اس کو الٹا لٹکا کر بیلوں والی رسی سے مارتے مارتے بے ہوش کر دیا۔ غرض ہر روز ایک آفت بپا رہتی تھی۔آس پاس کے جھونپڑوں والے روز رات کو رحیم خاں کی گالیوں، اس کے بیوی اور بچوں کے مار کھانے اور رونے کی آواز سنتے مگر بے چارے کیا کر سکتے تھے اگر کوئی منع کرنے جائے تو وہ بھی مار کھائے۔ مار کھاتے کھاتے بیوی غریب تو ادھ موئی ہو گئی تھی۔ چالیس برس کی عمر میں ساٹھ سال کی معلوم ہوتی تھی۔ بچے جب چھوٹے چھوٹے تھے تو پٹتے رہے۔ بڑا جب بارہ برس کا ہوا تو ایک دن مار کھا کر جو بھاگا تو پھر واپس نہ لوٹا۔ قریب کے گاؤں میں ایک رشتہ کا چچا رہتا تھا۔ اس نے اپنے پاس رکھ لیا۔ بیوی نے ایک دن ڈرتے ڈرتے کہا، ’’بلاس پور کی طرف جاؤ ذرا 'نورو کو لیتے آنا۔‘‘ بس پھر کیا تھا آگ بگولہ ہو گیا۔ ’’میں اس بدمعاش کو لینے جاؤں۔ اب وہ خود بھی آیا تو ٹانگیں چیر کر پھینک دوں گا۔‘‘
وہ بدمعاش کیوں موت کے منہ میں واپس آنے لگا تھا۔ دو سال کے بعد چھوٹا لڑکا بندو بھی بھاگ گیا اور بھائی کے پاس رہنے لگا۔ رحیم خاں کو غصہ اتار نے کے لئے فقط بیوی رہ گئی تھی سو وہ غریب اتنی پٹ چکی تھی کہ اب عادی ہو چلی تھی۔ مگر ایک دن اس کو اتنا مارا کہ اس سے بھی نہ رہا گیا۔ اور موقع پاکر جب رحیم خاں کھیت پر گیا ہوا تھا وہ اپنے بھائی کو بلا کر اس کے ساتھ اپنی ماں کے ہاں چلی گئی۔ ہمسایہ کی عورت سے کہہ گئی کہ آئیں تو کہہ دیاع کہ میں چند روز کے لئے اپنی ماں کے پاس رام نگر جارہی ہوں۔
شام کو رحیم خاں بیلوں کو لئے واپس آیا تو پڑوسن نے ڈرتے ڈرتے بتایا کہ اس کی بیوی اپنی ماں کے ہاں چند روز کے لئے گئی ہے۔ رحیم خاں نے خلاف معمول خاموشی سے بات سنی اور بیل باندھنے چلا گیا۔ اس کو یقین تھا کہ اس کی بیوی اب کبھی نہ آئے گی۔
احاطے میں بیل باندھ کر جھونپڑے کے اندر گیا تو ایک بلی میاؤں میاؤں کر رہی تھی۔ کوئی اور نظر نہ آیا تو اس کی ہی دم پکڑ کر دروازے سے باہر پھینک دیا ۔چولھے کو جا کر دیکھا تو ٹھنڈا پڑا ہو اتھا۔ آگ جلا کر روٹی کون ڈالتا۔ بغیر کچھ کھائے پئے ہی پڑ کر سو رہا۔
اگلے دن رحیم خاں جب سو کر اٹھا تو دن چڑھ چکا تھا۔ لیکن آج اسے کھیت پر جانے کی جلدی نہ تھی۔ بکریوں کا دودھ دوہ کر پیا اور حقہ بھر کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔ اب جھونپڑے میں دھوپ بھر آئی تھی۔ ایک کونے میں دیکھا تو جالے لگے ہوئے تھے۔ سوچا کہ لاؤ صفائی ہی کر ڈالوں۔ ایک بانس میں کپڑا باندھ کر جالے اتار رہا تھا کہ کھپریل میں ابابیلوں کا ایک گھونسلہ نظر آیا۔ دو ابابیلیں کبھی اندر جاتی تھیں کبھی باہر آتی تھیں۔ پہلے اس نے ارادہ کیا کہ بانس سے گھونسلہ توڑ ڈالے۔ پھر معلوم نہیں کیا سوچا۔ ایک گھڑونچی لاکر اس پر چڑھا اور گھونسلے میں جھانک کر دیکھا۔ اندر دو لال بوٹی سے بچے پڑے چوں چوں کر رہے تھے۔ اور ان کے ماں باپ اپنی اولاد کی حفاظت کے لئے اس کے سر پر منڈ لا رہے تھے۔ گھونسلے کی طرف اس نے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ مادہ ابابیل اپنی چونچ سے اس پر حملہ آور ہوئی۔
’’اری، آنکھ پھوڑے گی‘‘ اس نے اپنا خوفناک قہقہہ مار کر کہا۔ اور گھڑونچی پر سے اترآیا۔ ابابیلوں کا گھونسلہ سلامت رہا۔
اگلے دن سے اس نے پھر کھیت پر جانا شروع کر دیا۔ گاؤں والوں میں سے اب بھی کوئی اس سے بات نہ کرتا تھا۔ دن بھر ہل چلاتا، پانی دیتا یا کھیتی کاٹتا۔ لیکن شام کو سورج چھپنے سے کچھ پہلے ہی گھر آ جاتا۔ حقہ بھر کر پلنگ کے پاس لیٹ کر ابابیلوں کے گھونسلے کی سیر دیکھتا رہتا۔ اب دونوں بچے بھی اڑنے کے قابل ہو گئے تھے۔ اس نے ان دونوں کے نام اپنے بچوں کے نام پر نورو اور بندو رکھدئیے تھے۔ اب دنیا میں اس کے دوست یہ چار ابابیل ہی رہ گئے تھے۔ لیکن ان کو یہ حیرت ضرور تھی کہ مد ت سے کسی نے اس کو اپنے بیلوں کو مارتے نہ دیکھا تھا۔ نتھو اور چھدو خوش تھے۔ ان کی کمروں پر سے زخموں کے نشان بھی تقریباً غائب ہو گئے تھے۔
رحیم خاں ایک دن کھیت سے ذرا سویرے چلا آ رہا تھا کہ چند بچے سڑک پر کبڈی کھیلتے ہوئے ملے۔ اس کو دیکھنا تھا کہ سب اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وہ کہتا ہی رہا۔ ’’ارے میں کوئی مارتا تھوڑا ہی ہوں۔‘‘ آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ جلدی جلدی بیلوں کو ہانکتا ہوا گھر لایا۔ ان کو باندھا ہی تھا کہ بادل زور سے گرجا اور اور بارش شروع ہو گئی۔
اندر آ کر کواڑبند کئے اور چراغ جلا کر اجالا کیا۔ حسب معمول باسی روٹی کے ٹکڑے کر کے ابابیلوں کے گھونسلے کے قریب ایک طاق میں ڈال دئیے۔ ’’ارے او بندو۔ ارے او نورو‘‘ پکارا مگر وہ نہ نکلے۔ گھونسلے میں جو جھانکا تو چاروں اپنے پروں میں سردئیے سہمے بیٹھے تھے۔ عین جس جگہ چھت میں گھونسلہ تھا وہاں ایک سوراخ تھا اور بارش کا پانی ٹپک رہا تھا۔ اگر کچھ دیر یہ پانی اس طرح ہی آتا رہا تو گھونسلہ تباہ ہو جائے گا اور ابابیلیں بے چاری بے گھر ہو جائیں گی۔ یہ سوچ کر اس نے کواڑ کھولے اور موسلا دھار بارش میں سیڑھی لگا کر چھت پر چڑھ گیا۔ جب تک مٹی ڈال کر سوراخ کو بند کر کے وہ اترا تو شرابور تھا۔ پلنگ پر جا کر بیٹھا تو کئی چھینکیں آئیں۔ مگر اس نے پرواہ نہ کی اور گیلے کپڑوں کو نچوڑ چادر اوڑھ کر سو گیا۔ اگلے دن صبح کو اٹھا تو تمام بدن میں درد اور سخت بخار تھا۔ کون حال پوچھتا اور کون دوا لاتا۔ دو دن اسی حالت میں پڑا رہا۔
جب دو دن اس کو کھیت پر جاتے ہوئے نہ دیکھا تو گاؤں والو کو تشویش ہوئی۔ کالو ذیلدار اور کئی کسان شام کو اس کے جھونپڑے میں دیکھنے آئے۔ جھانک کر دیکھا تو پلنگ پر پڑا آپ ہی آپ باتیں کر رہا تھا۔ ’’ارے بندو۔ ارے نورو۔ کہاں مر گئے۔ آج تمہیں کون کھانا دے گا۔‘‘ چند ابابیلیں کمرے میں پھڑ پھڑا رہی تھیں۔
’’بے چارہ پاگل ہو گیا ہے۔‘‘ کالو زمیندار نے سر ہلا کر کہا۔ ’’صبح کو شفا خانہ والوں کو پتہ دیں گے کہ پاگل خانہ بھجوادیں۔‘‘
اگلے دن صبح کو جب اس کے پڑوسی شفاخانہ والوں کو لے کر آئے اور اس کے جھونپڑے کا دروازہ کھولا تو وہ مر چکا تھا۔ اس کی پائنتی چار ابابیلیں سر جھکائے خاموش بیٹھی تھیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.