اچھے آدمی
اجاگر نے دونوں کیتلیوں کو تازے چولہے پر چڑھاکر سامنے، پورب کی طرف دیکھا۔ رات سے ہی برسات کا موسم شباب پر ہے۔ سورج اگاہے یا نہیں، پتا نہیں چلتا۔ بادل ہلکی پروائی کے جھونکے پر امڈے آ رہے ہیں۔ دور پھوہیاورشا (ہلکی بارش) میں پیڑ کی پتیاں چھپ رہی ہیں۔ سامنے۔۔۔ کھلا ہوا بڑا میدان! ہریالی پر بچھی ہوئی۔۔۔ پکی پچ روڈ۔ نئی سڑک۔ اجاگر کاجی نہ جانے کیوں اچانک ہلکا ہو گیا۔ من میں رات بھر اس پسنجر کی بولی چبھتی رہی تھی۔۔۔ کھچ! کھچ!۔۔۔’’تم تو منھ دیکھ کر چائے میں چینی ڈالتے ہو۔ ادھر پکوڑیوں میں بھی ہاتھ کی صفائی کا کھیل ہوتا ہے۔ کسی کو ہری مرچی اور ادرک کے ٹکڑے ڈال کر کرمری پکوڑی دی جاتی ہے اور کسی کو سڑے پیاز اور باسی بیسن کی۔‘‘
ضرور وہ پسنجر جوگ بنی یا فاربس گنج سے دارو پی کر چلا ہوگا۔ ایسا منھ پھٹ پسنجر اجاگر نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
اجاگر نے پھر میدان کی طرف دیکھا۔
میدان کا داہنا حصہ پھوہیا ورشا میں ڈھک چھپ رہا ہے۔ سرکاری جنگل محکمے کے نئے بانس کے بن میں ہزاروں پتاکے (جھنڈے) اڑ رہے ہیں، مانو بانس کے نئے پودوں کی نئی ’کنچیوں‘ کے ہرپتا کے، کاس کے صاف غالیچے، سب ڈھک گئے۔ دو ہی سال کے بعد یہ بانس کا جنگل بیجو بن بیجو کھنڈ ہو جائےگا۔
اجاگر کا گھر گاؤں کے سب سے دکھنی چھور (کنارے) پراونچی جگہ پر ہے۔ سامنے دور تک ڈھلوان زمین ہے۔ کوسی ندی کی ماری ہوئی زمین کوسی کی سوکھی اور بالو سے بھری دھارا تک اوبڑ کھابڑ ہے۔ کٹیہار سے جوگ بنی تک پکی سڑک پچھلے سال ہی بن کر تیار ہوئی ہے، کھلی ہے۔ جب پہلی بار کاغذ والا نقشہ زمین پر ابھرا تو لگا کہ اجاگر کے گھر تک آنے کے لیے ہی سڑک ادھر آئی ہے۔ اجاگر کے گھر کو چھوکر پھر داہنی طرف مڑ گئی ہے۔
اجاگر نے دیکھا۔۔۔ لیٹی ہوئی دھرتی کے گلے میں چندرہار کی طرح پڑی۔۔۔ پچ روڈ!
ایک کیتلی کا پانی گنگنا اٹھا۔
پھر دوسری کیتلی کا بھی۔
اجاگر کی آنکھوں میں پردیپ کمار کی مائے (ماں) کے گلے میں پڑے چندرہار کی جھلک لگی۔۔۔ آج پردیپ کمار کی مائے اتنی سست کیوں ہے؟ کیتلیوں میں چائے کا پانی کھول رہا ہے۔ ابھی تک نہ بیسن کا گملا کھنکھنایا اور نہ کڑاہی چڑھی۔ آخر بات کیا ہے؟
اجاگر نے اپنے تین برس کے اکلوتے بیٹے کو پکارا، ’’کیا ہو پردیپ کمار! ببوا! مائے سے کہو، سادہ گاڑی کے آنے کا وقت ہو گیا۔ ادھر ہمارے ’ڈپاٹ‘ کا سب کام ’فنس‘ ہے!‘‘
اندر سے کوئی آواز نہیں آئی۔
اجاگر نے اپنے ’ڈپاٹ‘ پر نگاہ ڈالی۔ اجاگر کا شعبہ۔۔۔ چائے ڈپاٹ۔۔۔ کپ، طشتری، گلاس، چھننا، چمچ، چائے، دودھ۔۔۔ سب۔ سب ٹھیک ہے، لیکن آخر بات کیا ہے؟
اجاگر کاگھر اس علاقے کا ’غیرسرکاری بس پڑاؤ‘ ہے۔ قریب بیس پچیس گاؤں کے لوگ یہیں آکر چڑھتے اترتے ہیں بسوں میں۔ دکھن کٹیہار سے آنے والی بس ارریا کورٹ سے ڈیڑھ گھنٹے میں اور اتر جوگ بنی، فاربس گنج سے چلنے والی گاڑی کو ایک سے سوا گھنٹہ تک لگ جاتا ہے۔ اسی لیے اجاگر کے گھر اور دکان کے سامنے دس پندرہ منٹ رکتی ہے۔
اس ’لائن‘ (سڑک) میں اجاگر کی دکان کے پکوڑوں اور چائے کا خوب نام ہو گیا ہے۔ سادہ، خاکی اور لال گاڑیوں کے ڈرائیور، کنڈکٹر، پسنجر، کلینر، سبھی تعریف کرتے ہیں۔
پردیپ کمار کی مائے آئی۔
نہائی دھوئی پردیپ کمار کی مائے کو دیکھ کر اجاگر کا ہلکا جی اور بھی گدگدا اٹھا۔ گلاس میں گرم پانی ڈالتے ہوئے وہ مسکرایا۔ پردیپ کمار کی مائے بھی تنک مسکرائی۔ مانو من کی بات کو وہ من میں اب نہیں رکھ سکا۔ بول پڑا، ’’اب ریڈیو ’فٹ‘ کرانا ضروری ہے!‘‘
کل تک اجاگر کی سمجھ میں دکان میں ایک دیوار گھڑی ’فٹ‘ کرنا ضروری تھا۔ آج اچانک ریڈیو کی بات سن کر پردیپ کمار کی مائے کو اچنبھا ہوا۔ وہ اچکچائی۔ اجاگر بولا، ’’ریڈیو میں ایک ہی بات نہیں، تین تین بات ہے۔۔۔ من ہو تو گانا سنو، من ہو تو خبر سنو اور جاننا ہو تو ’ٹیم‘ بھی معلوم کر لو۔‘‘
پردیپ کمار کی مائے نے کڑاہی چڑھا دی۔
آنگن سے آنکھیں ملتا ہوا پردیپ کمار نکلا۔ اجاگر نے پیار سے بلایا، ’’ادھر آؤ بابو۔۔۔ ببوا!‘‘
ہر روز پہلے تین گلاس۔۔۔ سب سے پہلے پردیپ کمار کو، پھر پردیپ کمار کی مائے کو اور تب خود۔۔۔ پردیپ کمار دن بھر میں پانچ گلاس چائے پیتا ہے۔
بسوں میں چڑھنے والے ’کچہریا پسنجر‘ ایک ایک کر آنے لگے۔ بیل گاڑی پر کوئی نئی دلہن ہے کیا؟ ساون بھادوں میں نیہر (میکے) جا رہی ہے۔ یہ سائیکل والا آکر پھر تنگ کرےگا۔ یہ سائیکل رکھنے کی ذمے داری اب اجاگر اپنے اوپر نہیں لے سکتا۔ تالا لگانے پر بھی نہیں۔
پہلی بوہنی کی کشن پور کے بابو نے۔ ’’چار آنے کے پکوڑے اور دو گلاس چائے۔ دودھ، چینی برابر برابر۔ گلاس ذرا بڑھیا سے دھوکر۔‘‘ پردیپ کمار کی مائے نے گھونگھٹ کے اندر سے ہی دیکھا۔۔۔ کشن پور کے بابو کی نظر اس کی کلائی سے لے کر بانہہ تک گدی ہوئی مچھلیوں پر ہے۔ کئی جوڑی مچھلیاں چلبلا رہی ہیں۔ پردیپ کمار کی مائے نے بانہہ کی مچھلیوں کو آنچل کھینچ کر ڈھک لیا۔ کشن پور کے بابو نے، ’’پکوڑے ذرا اور کھرے کرمرے۔۔۔‘‘
چھنوٹے میں چھنے پکوڑوں کوپھر سے کھولتے ہوئے تیل میں ڈال دیا پردیپ کمار کی مائے نے۔ گیلی پروائی کے جھونکے میں گرم پکوڑوں کی سوندھی سلونی سگندھ گاؤں میں دھیرے دھیرے پھیلنے لگی۔
پکوڑے! چاہ! چائے! چہا!
گاؤں کا بوڑھا سنتوکھی سنکھ روز اسی وقت آتا ہے۔۔۔ روز، ’ٹیم‘ بندھا ہوا ہے، یہی۔ اگر بوہنی نہیں ہوئی ہو تو بڑے صبر کے ساتھ انتظار کرتا ہے۔ بوہنی ہوئی کہ اس کی چٹکی بجی۔ ’’جے سری سیتا رام!‘‘
آج بوہنی ہونے کے بعد سنتوکھی سنگھ کی طرف دھیان نہیں دیا اجاگر نے۔ سنتوکھی سنگھ ایسے موقعوں پر کوئی گپ شروع کر دیتا ہے۔ گپ یقینی طور سے کسی چوری ڈکیتی، یا ’گھر گھسی‘ کی ہوگی۔ گھر گھسی میں پکڑے گئے چور کو ’چم چور‘ کہتے ہیں۔ آج سنتوکھی سنگھ نے پاس کے گاؤں میں ہوئی چم چوری میں پکڑے گئے کسی چم چور کی کہانی شروع کی۔
سنتوکھی سنگھ کو اس علاقے کے سبھی نامی گرامی لوگ جانتے ہیں۔ جاتی (برادری) والوں نے مل کر بوڑھے سنتوکھی سنگھ کو برادری باہر کر دیا ہے۔ جاتی کا حقہ پانی چھوٹے، مگر سنتوکھی سنگھ اجاگر کی دکان کی چائے اور پکوڑوں کو نہیں چھوڑ سکتا اور اب تو پکوڑے چائے کھاپی کر ہی وہ سارا دن رہتا ہے۔ نہ آگے ناتھ، نہ پیچھے پگہا۔ سنتوکھی سنگھ ریٹائرڈ دفعدار ہے۔ بہت بہت ’اس پی‘ اور داروغہ کے ماتحت کام کر چکا ہے وہ۔ جب کہیں کوئی نئی واردات نہیں ہوتی ہے تب سنتوکھی سنگھ کوئی پرانی کہانی یوں ہی شروع کر دیتا ہے۔
لیکن آج کی کہانی تازہ ہے، جو کل رات کو ہی ہوئی ہے۔
کشن پور کے بابو نے ہری مرچ کی کڑواہٹ پر سی سی کرتے ہوئے اس بات کی تائید کی۔ ’’ہاں، اس لیے رات میں ادھر ہلا گلا ہو رہا تھا، کیوں۔۔۔؟ سی سی۔۔۔‘‘
معاملے کو گاؤں کے پنچوں نے مل کر رفع دفع کر دیا ہے، سنتوکھی سنگھ کو یہ خبر بھی مل چکی ہے۔ مدعی بیچاری سادھو ساہ کی بیوہ، کیا کر سکتی ہے؟ پانچ پنچ کی بات سے باہر کیسے جائے بیچاری۔
پردیپ کمار کی مائے نے پکوڑے نہیں دیے۔
اجاگر نے چائے کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا، ’’سنتوکھی کا کا، پکوڑے گاڑی جانے کے بعد۔‘‘
’’سوکیوں؟‘‘ سنتوکھی سنگھ نے نقد پیسہ دے کر کھانے والے کھرے گاہک کی طرح کھنکھناکر پوچھا۔
پردیپ کمار کی مائے نے گھونگھٹ کے اندر سے ہی اجاگر کو اشارے سے کچھ کہا۔ کیلے کے پتے پر گرم پکوڑے لاکر سامنے رکھ دیے اجاگر نے۔ ادھر کئی دنوں سے سنتوکھی سنگھ اسی طرح تیور چڑھاکر باتیں کرنے لگا ہے۔ سنتوکھی سنگھ نے کشن پور کے بابو سے کہا، ’’راسو بابو، یہ سسری سڑک جب سے چالو ہوئی ہے، چوری چکاری اور بھی بڑھ گئی ہے۔ پہلے تو سالا گاؤں کے آس پاس کے ہی چور ڈکیت چوری ڈکیتی کرتے تھے۔ اب تو منیہاری گھاٹ کا چور سالا جوگ بنی آکر چوری کر جاتا ہے۔۔ راتوں رات۔۔۔ بےداغ!‘‘
کشن پور کے بابو نے اعتراض کیا، ’’اس میں سڑک کا کیا قصور؟ بنا سڑک کھلے ہی کلکتہ کے لوگ کٹیہار میں پاکٹ مارتے ہیں۔‘‘
کشن پور کے بابو کو معلوم ہے۔ سڑک بنتے وقت علاقے میں کئی سڑک مخالف تحریکیں چلی تھیں۔ لوگوں کو ابھارنے کے لیے تحریک کے نیتاؤں نے اس بات پر سب سے زیادہ زور دیا تھا۔۔۔ سڑک کھلتے ہی کلکتیا پاکٹ ماروں سے لے کر پٹنہ کے ٹھگ دن دہاڑے گاؤں میں گھس کر دندناتے پھریں گے۔ کشن پور کے بابو نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی، پھر کان کے پاس لاکر سنا۔۔۔ بس لیٹ ہے یا گھڑی بند ہے؟ اجاگر بولا، ’’دونوں طرف کی گاڑی آج لیٹ ہے۔ رات میں جوگ بنی کی طرف زور سے برکھا ہوئی ہے۔‘‘ سنتوکھی سنگھ بولا، ’’پورب میں بھی ہوئی ہے۔‘‘
اجاگر کو چوری ڈکیتی کی کہانی ذرابھی نہیں اچھی لگتی۔ تس پر آج چم چوری کا قصہ۔ اجاگر نے چم چوری کے موضوع کو اچھی طرح بدلنے کے لیے بات کا سرا اپنے ہاتھ میں لے لیا، ’’پورب پچھم، اتر دکھن، سب طرف پانی برسا ہے۔ صرف اپنے علاقے میں۔۔۔‘‘ سنتوکھی سنگھ نے بیچ میں ہی کاٹ دیا، ’’ارے! اس علاقے میں کیا پانی برسےگا۔ سالا، دن دہاڑے چم چوری جہاں ہوتا ہے وہاں پانی برسےگا؟ بجلی گرےگی، ہڑہڑیا بجلی!‘‘
بادل سچ مچ گرجا۔ پردیپ کمار کی مائے گھونگھٹ کے نیچے ہنسی، ’’بادل نہیں، بس کی آواز!‘‘
پردیپ کمار کی مائے کو پچھلے سال کی برسات کی بات یاد آئی۔ برسات میں پکوڑے اور چائے کی بکری بڑھ جاتی ہے۔ چھاتا دھوتی گروی رکھ کر بھی آدمی پکوڑے کھاکر چائے پیتا ہے۔
کشن پور کے بابو نے پلاسٹک پیپر کے بڑے تھیلے سے ’واٹر پروف‘ نکالا۔ ملیریا محکمے کے دوا چھڑکنے والے سے بہت پیروی کے بعد یہ برساتی ملی ہے۔ جھماجھم پانی پڑے لیکن کپڑے کا ایک سوت بھی نہیں بھیگتا۔ کشن پور کے بابو نے اٹھتے اٹھتے اجاگر کو صلاح دی، ’’ادھر چار ہاتھ اور بڑھاکر بیٹھنے کی جگہ بناکر چھاؤں کیوں نہیں دیتے؟‘‘
پردیپ کمار کی مائے نے بانہہ کے اوپر ساڑھی کھینچ کر اجاگر سے کچھ کہا۔ کشن پور کے بابو کی آنکھوں میں گدی ہوئی مچھلیاں پھر سے چلبلانے لگیں۔ اجاگر نے کہا، ’’راسوبابو، ایک گاڑی بانس کے بنا سب کام رکا ہوا ہے۔ آپ کے دربار میں ایک دن عرضی لے کر۔۔۔‘‘ کشن پور کے بابو نے دیکھا، گھونگھٹ سے ایک جوڑی آنکھیں بھی کچھ کہہ رہی ہیں۔ بولے، ’’اچھی بات ہے، ایک دن آنا۔ ایک گاڑی کیوں، دو گاڑی بانس مل جائےگا۔‘‘
اجاگر نے دانت نپور کر پردیپ کمار کی مائے کی طرف دیکھا۔ پردیپ کمار کی مائے نے آنکھوں سے ہی باتیں کیں، ’’میں نے کہاتھا نا، راسو بابو اچھے آدمی ہیں۔‘‘ سنتوکھی سنگھ بولا، ’’ایک گاڑی گھاس کیوں نہیں مانگی تم نے؟ آج راسو بابو کا دل دریاؤ ہو گیا ہے۔‘‘
بارش شروع ہوئی۔ دونوں طرف سے بس آئی۔ ایک ہی ساتھ! پکوڑے، چائے، پیسے، نئے پیسے۔ اجاگر کو آج بات کرنے کی فرصت نہیں۔
’’ایک پتل پکوڑے، بنا مرچ کے۔‘‘
پردیپ کمار کی مائے نے گھونگھٹ کے نیچے سے ہی کچھ کہا۔ وہ آج بنا مرچوں کے پکوڑے الگ سے کسی گاہک کے لیے نہیں بنا سکےگی۔
’’لال گاڑی کے ڈرائیور جی مانگتے ہیں۔‘‘
پردیپ کمار کی مائے بنا مرچ والا بیسن پھینٹنے لگی۔
لال گاڑی کاڈرائیور اچھا آدمی ہے۔ منیہاری گھاٹ میں جہاز سے اترنے والے مسافروں کو بھی وہ اجاگر کی دکان کے پکوڑوں اور چائے کی تعریف سناکر پھانس لاتا ہے۔
’’بھائی، راستے میں کہیں چائے پینا او رپیسہ پھینکنا برابر ہے۔ چائے ناشتہ چل کر ربِک پور میں کیجیےگا۔ ایک بار چکھ کر دیکھیےگا تو پھر کبھی نہیں بھولیےگا۔ گرماگرم چائے اور کرمرے پکوڑے!‘‘
لال گاڑی کا ڈرائیور ایسی جگہ گاڑی لگاتا ہے جہاں سے پردیپ کمار کی مائے کی آنکھیں ترچھی نگاہ سے دیکھنے پر ٹکراجاتی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھے ہوئے مسافروں کی نظر دکان کے سامنے والے حصے پر ہی پڑتی ہے۔ جدھر پردیپ کمار کی مائے بیٹھتی ہے اُدھر بانس کی تیلیوں کی ٹٹی لگی ہوئی ہے۔۔۔ چھوٹی سی، آڑ میں بیٹھی ہوئی پردیپ کمار کی مائے کا صرف ہاتھ دکھائی پڑتا ہے۔ پکوڑے ڈالتی ہوئی انگلیاں۔ چھنوٹے سے پکوڑے نکال کر برتن میں رکھتے وقت کانچ کی چوڑیاں میٹھے سر میں بج اٹھتی ہیں۔
اجاگر کو ادھر ادھر دیکھنے کی چھٹی کہاں!
گلاس، چینی، پانی، پتی، چمچ، پیسہ، گاہک۔
پکوڑوں کا پتّل لیتے وقت ایک بار وہ پردیپ کمار کی مائے کی طرف ضرور دیکھ لیتا ہے۔ ’’دیکھیے بھائی، ہلا گلا نہیں، شانتی سے۔۔۔ شانتی سے!‘‘
دونوں گاڑیاں آکر چلی گئیں۔
پردیپ کمار کی مائے اٹھ کر اندر گئی۔ اجاگر ریزگاریوں کا حساب کرنے لگا۔
سنتوکھی سنگھ کو ایک گلاس چائے اور چاہیے۔ زوروں کی بارش شروع ہوئی۔ اجاگر نے کہا، ’’پانی گرم ہونے دیجیے۔‘‘
اجاگر نے لڑکپن سے ہی چائے بنانے کا کام کیا ہے۔
کمل دہ کے زمیندار کی ڈیوڑھی میں ہر کام کے لیے الگ الگ نوکر چاکر تھے۔۔۔ چائے بنانے والا، چلم سلگانے والا، تیل مالش کرنے والا، بھنگ گھونٹنے والا۔ کمل دہ کے زمیندار کی زمینداری چلی گئی۔ لیکن اجاگر کے ہاتھ کا ’علم‘ ہاتھ میں ہی رہ گیا۔ اس ’علم‘ نے اس کے من کی کامنا پوری کی۔ گھر میں لکشمی آئی۔۔۔!
ربک پور گاؤں کی اپنی آبائی زمین پر گھر بناکر ایک ’روپ والی‘ گھرنی لانے کی خواہش اس کے دل میں بچپن سے ہی گھر بناکر بیٹھی تھی۔ کمل دہ کے چھوٹے بابو کی دلہن جیسی گھروالی مل جائے تو اجاگر ساری عمر صرف روپ پی کر رہ سکتا ہے۔
روپ والی دلہن!
بالو والی زمین کا کوپ (کنواں) اور گاؤں کی لڑکی کا روپ۔۔۔ دونوں برابر۔ بالوں والی زمین کے کنویں کا پانی کنچن ٹھنڈا ہوتا ہے۔ ایک گھونٹ پی کر ہی آتما میں تراوٹ آ جائے۔ گاؤں کی لڑکی کا روپ ایک بار نہار کر نیند آ جاتی ہے آنکھوں میں۔ لیکن بالو والا کنواں دوسال میں بیٹھ جاتا ہے۔ گاؤں کا روپ سال لوٹتے ہی ڈھل جاتا ہے۔
اجاگر نے بھاگلپور، دربھنگہ اور پٹنہ جیسے شہروں میں گھوم گھوم کر نوکری کی۔ کہیں روپ کی جھلک ہی نہیں ملی۔ سب نقلی۔۔۔ کچی کلی کچنار جیسی اوپر سے۔۔۔ اس کو بھلا روپ کہتے ہیں؟
شہر سے وہ روپے کی گٹھری لے آیا۔ من کی جھولی اس کی خالی ہی رہی۔
گاؤں کے گھٹک دلالوں نے اجاگر کو ٹھگ کر بہت پیسہ کھایا۔ برادری کے پنچوں نے پان سپاری کے نام پر پچاسوں روپے جھینٹ لیے۔۔۔ ’روپ والی‘ گھرنی نہیں ملی۔ لیکن اجاگر مایوس نہیں ہوا۔ کمل دہ کی چھوٹی دلہن نے ایک دن کہا تھا، ’’اجاگر، چائے پلاکر تم اِندراسن کی پری کو بھی پھسلا کر مٹھی میں کر سکتے ہو!‘‘
اجاگر نے چھوٹی دلہن کی بات یاد کی اور ایک دن گھر سے نکل پڑا۔۔۔ کہیں چائے کی دکان پر نوکری بھی مل جائے، وہ کرنے کو تیار ہے۔
اجاگر اس (شُبھ) دن کو کیسے بھول سکتا ہے بھلا۔
کرسیلا اسٹیشن پر اتر کر وہ بہت دیر تک بیٹھا رہا۔
کھیرا خرید کر کھاتے وقت اس کو بچپن کے ایک کھیل کی یاد آئی تھی۔ بچے کھیرے ککڑی کے بیج کو انگلیوں میں دباکر کہتے، ’’فلاں کی شادی کدھر ہوگی؟‘‘ بیج چھٹک کر جس طرف گرے۔۔۔ ادھر ہی، اُسی دِشا میں۔ اجاگر نے کھیرے کے ایک بیج کو انگلیوں میں دباکر من ہی من میں کہا تھا، ’’بیج جس طرف چھٹکےگا، میری ہونے والی خوبصورت دلہن ادھر ہی ہوگی۔‘‘
بیج اتر کی طرف چھٹکا اور بنا کچھ سوچے بچارے وہ کرسیلا سے رانی گنج جانے والی بس پر جا بیٹھا تھا۔
کنڈکٹر نے پوچھا، ’’کہاں جائےگا؟‘‘ اجاگر کیا جواب دے؟ نہ جانے یہ گاڑی کہاں کہاں جاتی ہے! تب تک بغل کے مسافر نے برولی کا ٹکٹ مانگا اور اجاگر نے بھی برولی تک کا ٹکٹ کٹا لیا۔
گاڑی برولی پہنچ کر پکوڑوں والی سہوائن کی دکان کے سامنے رکی۔ برولی میں اترنے والے اتر گئے۔ اجاگر بیٹھا رہا۔ برولی گاؤں میں اتر کر وہ کیا کرےگا؟ وہ آنکھیں موند کر کچھ سوچ رہا تھا کہ کنڈکٹر نے اسے ٹھیل کر جگایا، ’’اے، برولی آ گیا، اترو۔‘‘
اجاگر نے اپنی جھولی سنبھالی اور نہ چاہتے ہوئے اترا۔
بس سے اترنے والے لوگ پکوڑے والی کی دکان پر تھوڑی دیر رکے اور جل پان کرکے چلے گئے۔ اجاگر چپ چاپ بغل میں ایک موڑھے پر بیٹھا رہا۔ بوڑھی سہوائن نے پکوڑو ں کی کڑاہی اتار کر اجاگر سے پوچھا، ’’کہاں جانا ہے؟‘‘
اجاگر نے کنمناکر جواب دیا، ’’کہیں نہیں۔ ایک آنے کے پکوڑے ہم کو بھی چاہئیں۔‘‘
بوڑھی جھنجھلائی، ’’اتنی دیر سے منھ سی کر بیٹھے رہے۔ اب کڑاہی اتارنے کے بعد ایک آنے کے پکوڑے! اب پکوڑے نہیں، اگر بینگنی پکوڑے کھانے ہیں تو بولو، چڑھاؤں کڑاہی۔۔۔؟ اری او سیتیا! کب تک بیٹھ کر بینگن کاٹےگی؟ اے، دے جا جتنا ہوا ہے۔ گاہک بیٹھا ہوا ہے یہاں۔‘‘
جھونپڑے کے اندر سے اسی انداز سے پتلی آواز میں جواب آیا، ’’کل سے میں کانا کبڑا بینگن نہیں کاٹوں گی۔ ایک ایک بینگن میں پانچ پانچ پلو (کیڑے)!‘‘
بوڑھی نے سیتیا نام کی لڑکی کو بینگن لگاکر ایک بھدی سی گالی دی۔ سیتیا سوپ میں بینگن کے ٹکڑے لے کر آئی، ’’میں روز تم سے کہتی ہوں موسی، پردیسی یاتری کے سامنے گالی مت بکا کرو۔‘‘
اجاگر سیتا عرف سیتیا کا روپ دیکھ کر پسینے سے تربتر ہو گیا تھا۔ ایک ایک بینگن میں پانچ پانچ پلو اور بینگن بھری گالی سن کر اس کو متلی آرہی تھی، سوسیتا کو دیکھنے کے بعد ہی دور ہو گئی۔۔۔ یہی ہے روپ! یہی ہے روپ!
اس نے گلا صاف کیا، ’’ماتارام! ایک آنے کی بینگنی نہیں، چار آنے کی۔‘‘
بوڑھی بولی، ’’اوں! اِی آدمی کا من رہ رہ کر بدلتا ہے۔ جو بولنا ہے، ایک ہی بار کیوں نہیں بولتے؟‘‘
اجاگر خاموش رہا لیکن گاہک کی طرفداری کرتے ہوئے سیتا بولی، ’’ایک بار بولے چاہے ہزار بار۔۔۔ تو اس طرح گاہک سے بات بات پر رگڑ کرےگی تو ایک پائی کی بینگنی بھی نہیں بکےگی۔‘‘ بوڑھی کڑاہی میں بینگنی ڈالتی ہوئی بولی، ’’بڑی آئی ہے ’بھتار‘ (شوہر) کی طرفداری کرنے والی!‘‘
جب بوڑھی اور جوان زبانوں کی ’بت کٹی‘ (لفظی جنگ) زور پکڑنے لگی تو اجاگر نے مردانگی دکھلائی، ’’چھی چھی، آپ لوگ اس طرح بے وجہ لڑیےگا تو رکھیے اپنی بینگنی! ایسی بینگنی کون کھائے؟‘‘
سیتا بولی، ’’لو، سنتی ہو؟ اب چھانو بیٹھ کر چار آنے کی بینگنی۔ دیکھوں کون کھاتا ہے؟‘‘
بوڑھی بولی، ’’نہیں کھائےگا تو پیسہ دے جائےگا۔‘‘
سیتا نے اجاگر کو پہلی بار نظر اٹھاکر دیکھا اور منھ کی بات منھ میں ہی رکھ کر اندر چلی گئی۔ اجاگر بیٹھ کر سوچتا رہا۔ چار آنے کی بینگنی وہ کھا سکےگا؟ یہ چنگیری بھر بینگنی؟ بوڑھی سہوائن نے پھر پکارا، ’’اری او سیتیا! پتل کہاں ہے؟ بینگنی تیرے سر پر پروسوں؟‘‘
اجاگر بینگنی کھانے لگا۔ تب بوڑھی نے نرم لہجے میں کہا، ’’بھیا، برامت ماننا۔ منھ جلی سیتیا سیدھی بات کبھی سنتی ہی نہیں۔ ٹھہرو، میں پانی لا دوں۔‘‘ بوڑھی کے اٹھنے سے پہلے ہی سیتیا پانی دےگئی۔ ’’میں جانتی ہوں، اب گاڑی آنے کاوقت ہوا تو تو کوئی نہ کوئی بہانہ بناکر چولھے کے پاس سے اٹھے گی ہی۔ کڑاہی اٹھاکر سڑک پر پھینک دوں گی، ہاں۔‘‘
بوڑھی پھر بیٹھ گئی۔ وہ کوئی بھدی گالی زبان پر چڑھا رہی تھی کہ اجاگر نے ٹوک دیا، ’’یہاں ایک چائے کی دکان خوب چلے گی، ماتا رام۔‘‘
سہوائن نے پوپلے منھ کو کچھ پھیلا کر پوچھا، ’’کیا چلےگی خوب؟‘‘
’’چائے کی دکان۔‘‘
’’کون کھولے گا؟‘‘
’’کوئی بھی کھولے، چلےگی خوب۔‘‘
بوڑھی اب کڑھ کر بولی، ’’آگ لگے چائے کی دکان میں۔ ایک پکوڑے کے چولھے میں ہی میری ہڈی جل کر راکھ ہو رہی ہے۔‘‘ سیتا نے اس بار پھر اجاگر کو دیکھا۔ چائے کی دکان کی بات سن کر ہی اس نے ایسی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اجاگر بولا، ’’چائے میں آٹھ گنا منافع ہے۔ چار آنے کے مال میں دو روپے منافع!‘‘
’’دو روپے!‘‘ بوڑھی موسی اور جوان سیتا نے ایک ہی ساتھ حیرت بھرے لہجے میں کہا، ’’دو روپے!‘‘
بوڑھی کچھ لمحے چپ رہنے کے بعد بولی، ’’رہنے دو بابا منافع۔ یہاں چائے کون پیےگا؟‘‘
سیتا نے کہا، ’’ملنے پر سبھی پیےگا۔‘‘
اجاگر بولا، ’’واجب بات۔‘‘
بوڑھی نے چھنوٹا چمکا کر پوچھا، ’’میں پوچھتی ہوں چائے بنائےگا کون، تیرا بھتار (میاں)؟ ایں؟‘‘
سیتا نے اس بار پلٹ کر گالی دی، ’’میرا نہیں، تیرا!‘‘
حیرت! گالی سن کر پوپلی بوڑھی ہنس پڑی۔ سیتا بھی ہنسی اور اجاگر کا کلیجہ زور سے دھڑکنے لگا۔ کچھ دیر تک چپ رہنے کے بعد اس نے تول کر بات شروع کی، ’’ہاں، چائے کی دکان تو مرد ہی چلا سکتا ہے۔‘‘ بوڑھی نے لمبی سانس لی۔ سیتا پھر آنگن کے اندر چلی گئی۔ اجاگر بہت دیر تک بوڑھی موسی کو تفصیل سے چائے کی دکان کے منصوبے کے بارے میں سمجھاتا رہا۔
دوسری گاڑی کے لوٹنے سے پہلے ہی اجاگر نے بوڑھی کو اپنی میٹھی بولی سے موہ لیا، ’’ماتا رام! آپ لوگوں کی مرضی ہو تو میں آج ہی جاکر سامان لے آؤں۔‘‘
’’تمہارا گھر کہاں ہے؟‘‘
’’ربِک پور۔‘‘
’’کون جات۔۔۔؟ ارے، تب تو برادری کے ہی نکلے۔‘‘
بات پکی ہو گئی۔
اجاگر کرسیلا بازار آیا اور چائے کی دکان کا سارا سامان خرید کر رات کی گاڑی سے ہی واپس لوٹا۔ بوڑھی نے کہا، ’’ارے تم سچ مچ لوٹ آئے! میں تو سمجھ رہی تھی کہ کوئی لچا لفنگا آکر بےپر کی ہانک کر چلا گیا۔‘‘ اندر سے سیتا نے جھڑکی دی، ’’موسی، تو بوڑھی ہوئی لیکن آدمی کو پہچاننا نہیں آیا۔‘‘ چائے کا سامان دیکھ کر بوڑھی اور جوان آنکھیں حیرت سے بڑی ہوگئیں، ’’اتنا سامان لگتا ہے چائے کی دکان میں؟‘‘
رات میں سیتا نے اپنے ہاتھ سے بھات دال پروس کر کھلایا تھا۔۔۔ پہلی بار۔
پرانی باتیں یاد کرکے آج بھی اجاگر کاجی جھوم اٹھتا ہے۔ سیتا کی بولی، سیتا کی ہنسی، سیتا کا چلنا پھرنا۔ دن رات اجاگر مانو سپنوں کی دنیا میں ہی رہتا تھا۔۔۔ روپ پی کر جیتا تھا۔
چائے کی دکان کھلی اور چل نکلی۔
پورے گاؤں میں بات پھیل گئی، ’’بوڑھی سہوائن کا ایک رشتے دار آیا ہے۔ چائے کی دکان کھولی ہے۔ اب پیو گھر بیٹھے۔۔۔ چائے گرماگرم!‘‘
بس کے ڈرائیور، کنڈکرٹ، پسنجر، کلینر نے ایک زبان ہوکر تعریف کی، ’’کیابہترین چائے بناتا ہے جوان! چلےگی دکان۔‘‘
لیکن چائے کی دکان چھ مہینے بھی نہیں چل سکی۔ پانچویں مہینے میں ہی سیتا نے اجاگر کو اکسایا، ’’کیوں؟ تمہارا کلیجہ اتناچھوٹا ہے؟ بوڑھی سے صاف صاف کہتے کیوں نہیں؟‘‘
’’اگر بوڑھی انکار کر دے؟‘‘
’’بلا سے! پہلے کہہ کے دیکھو۔‘‘
’’اگر کہے، گھر جمائی رہنا پڑےگا؟‘‘
’’ابھی مان لینا۔ بعد میں پھر۔۔۔‘‘
بوڑھی موسی آنکھ سے کم دیکھتی تھی اور کان سے ذرا کم سنتی تھی لیکن بنا کچھ دیکھے سنے ہی وہ سب کچھ سمجھ چکی تھی۔ اس لیے جس دن اجاگر نے ہکلا تتلاکر اپنی بات رکھی، بوڑھی نے ایک بھدی گالی دی تھی، ’’سوبار ستون اور بھتار کے آگے دتون! اب باقی ہی کیا رہا ہے۔ جوٹھے برتن میں اب کون پنڈت پروہت ویدمنتر پڑھےگا؟ خوب پیو گرماگرم چائے!‘‘
بوڑھی سہوائن اپنی پکوڑوں کی دکان پر بیٹھی آج بھی گالیاں دے رہی ہوگی، ’’اس ماٹی ملے نے آتے ہی چائے پلاکر اس موئی کو مٹھی میں کر لیا۔۔۔ دن رات کھسر پھسر میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔ جواب دے دیا، تم لوگ اپنا راستہ دیکھو۔‘‘ اور اسی کو کہتے ہیں، تریا کے بھاگ سے ملے راج!
سیتا نہیں، لکشمی!
رانی گنج سے کرسیلا جانے والی بس پر سوار ہوکر، روپ والی دلہن کو ساتھ لے کر اجاگر گاؤں لوٹ آیا۔ لوٹ کر اس نے سنا، ’’ادھر بھی نئی سڑک کھلنے والی ہے۔ بہت جلد ہی!‘‘
سچ مچ لکشمی ہے پردیپ کمار کی مائے!
بننے والی نئی سڑک کے ٹھیکیدار نے اجاگر کی جھونپڑی میں ہی ڈیرا ڈالا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے گھماپھرا کر اجاگر کو سمجھایا، ’’گھر میں جوان اور خوبصورت بہو اور باہر چھپر کے نیچے پردیسی کا رہنا، اچھی بات نہیں۔‘‘
سنتوکھی سنگھ جب ملتا، دن دہاڑے چم چوری کی کوئی کہانی سنانا نہیں بھولتا۔ اجاگر گھر لوٹ کر اپنی روپ وتی کو تکتے ہوئے کہتا، ’’جانتی ہو، گاؤں کے لوگ کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’گاؤں کے لوگوں کی بات سنو گے یا ٹھیکیدارجی کی؟ ٹھیکیدار جی کہتے ہیں، سڑک جب کھلے گی، چائے اور پکوڑوں کی دکان تب کھولنا۔ ابھی اتنے مزدور کام کر رہے ہیں، ابھی چاول دال کی دکان کھول دو۔ مزدور کو ادھار کھلاؤ اور ہفتے کے بعد ایک کا ڈیڑھ وصولو۔ یہی موقع ہے۔‘‘
’’سچ؟ اور اگر ادھار کھاکر بھاگ جائیں سبھی، تب؟‘‘
’’بھاگ کر کہاں جائیں گے؟ ان کی چٹیا تو ٹھیکیدار جی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
’’سچ؟ تم ٹھیک کہتی ہو برولی والی۔ ٹھیکیدار صاحب سچ مچ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘
’’اے! تم مجھے بِرولی والی کیوں کہتے ہو؟ مجھے اچھا نہیں لگتا۔‘‘
’’تب کیا کہوں؟‘‘ اجاگر کھلکھلاکر ہنستا، ’’اوہ، اب میں بھی ٹھیکدار صاحب کا دیا ہوا نام ہی لوں گا، ریشم بہو۔ ٹھیکیدار صاحب سچ مچ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘
گاؤں کے آوارہ نوجوانوں نے اجاگر کو چڑانے کے لیے ایک بولی نکالی، ’’ٹھیکیدار صاحب سچ مچ اچھے آدمی ہیں۔‘‘
اچھے آدمی کو اچھا آدمی نہیں کہیں تو کیا کہیں؟ گاؤں کے لوگ جلتے ہیں۔ اجاگر کی بیوی روپ وتی ہے، اچھے لچھنوں والی ہے۔ ہے کسی کی بیوی ایسی گاؤں میں جس کے آتے ہی گاؤں اور علاقے میں نئی سڑک کھل گئی؟
چاول دال کی چھوٹی سی دکان کھول کر پانچ ہی مہینے میں دس بیگھے زمین کس نے خریدی ہے؟ لوگ تو جلیں گے ہی! ٹھیکیدار صاحب انگریزی میں چٹھی لکھتے ہیں۔ ہے کوئی انگریز یا اس گاؤں میں؟ ریشم بہو ٹھیک ہی کہتی ہے۔۔۔ کام ایسا کرو کہ ’دیکھ پڑوسی جل مرے۔‘
ببوا کا جنم ہوا تو ٹھیکیدار صاحب نے چمڑے کی تھیلی سے پچیس روپے نکال کر منھ دکھائی دی تھی۔ چھٹی کی رات میں خوشی کے مارے رات بھر بیٹھ کر رامائن پڑھتے رہے اور یہ پردیپ کمار نام بھی انہیں کا رکھا ہوا ہے۔ گاؤں کے دُکھ موچن پنڈت نے تو بس ’پتا سو‘ نام رکھ دیاتھا۔ بھلا پتاسو بھی کوئی نام ہے!
پتا نہیں ٹھیکیدار صاحب آج کل کس علاقے میں ہیں۔ کہیں بھی رہیں، آدمی اچھے ہیں۔ پردیپ کمار کی مائے آج بھی ہر مہینے یاد کرتی ہے۔ بولے تھے کہ بیچ بیچ میں آکر پردیپ کمار کو دیکھ جائیں گے۔
اس دن چھتنو کارم ڈولوا بیٹا کہہ رہا تھا کہ پردیپ کمار کا منھ ٹھیک ٹھیکیدار صاحب جیسا ہے۔ پگلا ہے سالا!
لال گاڑی کے ڈرائیور جی بھی بہت بھلے آدمی ہیں۔ روز کہتے، ’’دیکھو اجاگر بھائی، چولھے کے پاس بیٹھتے بیٹھتے پردیپ کمار کی مائے کا رنگ بادامی ہو گیا ہے۔ بدن میں خوشبودار پوڈر لگانے سے رنگ ٹھیک رہےگا۔‘‘ اور دوسرے ہی دن ایک ڈبہ پوڈر خریدتے آئے پورنیا کی ساہا کمپنی سے۔ ایسا بھلا آدمی اس گاؤں میں کیا، اس علاقے میں بھی کھوجنے پر ملےگا؟
یہ نئے داروغہ صاحب بھی ہیرا آدمی ہیں۔ کہہ رہے تھے، ’’اس پی صاحب تمہارے پکوڑوں کی خوب تعریف کرتے ہیں۔‘‘
اور جوگ بنی کے لالہ کے بیٹے کی زبان تو پکوڑے کے نام سے ہی ’پنیا‘ جاتی ہے۔ بارہ بجے رات میں گاڑی پر داروغہ صاحب کے ساتھ آتا ہے اور چوری چوری پکوڑے کھاتا ہے۔ ویشنولالہ، جس کے چوکے میں پیاز نہیں چڑھتا ہے کبھی، وہ اجاگر کی دکان میں بیٹھ کر کیسے کھا سکتا ہے پیاز والے پکوڑے؟ پردیپ کمار کی مائے کہتی ہے، ’’لالہ کابیٹا ایک دم گائے جیسا سیدھا ہے۔ ذرا دبلا پتلا ہے، اس لیے پکوڑوں کے ساتھ چائے نہیں، انگریزی دارو پیتا ہے۔‘‘ اس رات کو پردیپ کمار کی مائے کے بدن میں درد تھا شام سے ہی۔ داروغہ صاحب نے کہا، ’’ایک گلاس لے آؤ! ایک گھونٹ پیتے ہی سب درد چھومنتر ہو جائےگا۔ سچ مچ!‘‘ ہوا بھی وہی۔ شام سے ہی کراہتی ہوئی پردیپ کمار کی مائے ٹنٹناکر اٹھ بیٹھی اور لالہ کے بیٹے سے منھا منھی گپ کرنے لگی۔ لکشمی ہے پردیپ کمار کی مائے!
تین بجے والی گاڑی آ رہی ہے۔
’’کہاں ہو ببوا! مائے سے کہو کہ تین بجّی گاڑی آ رہی ہے۔ میرے ڈپاٹ کا سب کام ریٹ ہے۔‘‘
’’ببوا! پردیپ کمار! مائے کہاں؟‘‘
پردیپ کمار صبح کی میٹھی نیند میں سویا ہوا تھا۔ اجاگر چپ چاپ بیٹھ کر بیڑی پینے لگا۔ آج اتنا سویرے ہی پردیپ کمار کی مائے اٹھ کر کہاں گئی ہے؟ طبیعت خراب ہے کیا؟ نہیں، لال گاڑی کے ڈرائیور جی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔۔۔ جان ہے تو جہان ہے۔ پردیپ کمار کی مائے دن بھر چولھے کے پاس بیٹھی رہتی ہے، یہ ٹھیک نہیں۔ پکوڑے بنانے کے لیے سگنی کی مائے کو مزدوری دے کر رکھنا ہوگا۔
اجاگر بیٹھا رہا۔ جب صبح کا تارا ڈوب گیا اور اجالا ہوا اور پردیپ کمار کی مائے کوٹھری میں نہیں آئی تو وہ باہر نکلا۔ باہر برتن باسن سب بکھرے پڑے ہیں۔ دونوں لوٹے بھی ہیں۔ تب کہاں گئی؟
اجاگر نے کوٹھری میں آکر دیکھا۔۔۔ پیٹی کھلی پڑی ہوئی ہے۔۔۔ ریشمی ساڑھی اور ریشمی بلاؤز کیا ہوا؟ لگا، دھرتی اچانک گھومنے لگی۔ اس نے چلاکر اپنے بیٹے کو جگایا، ’’بیٹا! ببوا! پردیپ کمار۔۔۔ مائے کہاں؟‘‘
پردیپ کمار اٹھ کر زور زور سے رونے لگا، ’’میا کہاں! آں، آں!‘‘
پردیپ کمار کو چپ کرانے کے لیے اجاگر نے اپنے کو سنبھالا۔ پھر بولا، ’’بیٹا، مائے گنگا تیرکا میلہ گئی ہے۔ دوپہر کی بارہ بجی گاڑی سے آوےگی۔‘‘ اس نے اپنے من کو بھی سمجھایا، کہاں جائے گی؟ کہیں کام سے ہی گئی ہوگی۔
صبح کی گاڑیوں کے آنے کا وقت ہوا۔ سنتوکھی سنگھ ٹھیک وقت پر ہی آیا۔ اس نے آتے ہی ٹوکا، ’’آج پکوڑوں کا چولہا نہیں سلگا ہے؟‘‘ اجاگر نے جواب دیا، ’’پردیپ کمار کی مائے کی موسی کا پیغام آیا کہ وہ لب جان ہے۔ اس لیے رات کی گاڑی سے ہی چلی گئی۔‘‘ پردیپ کمار نے کہا، ’’میا گنگا تیر کا میلہ گئی ہے۔‘‘ سنتوکھی سنگھ نے پرانے دفعدار کی طرح جرح کرتے ہوئے پوچھا، ’’رات میں تو سادہ گاڑی لوٹی نہیں۔ پھر کس گاڑی سے گئی؟‘‘
اجاگر نے آج بنا بوہنی ہوئے ہی سنتوکھی سنگھ کو چائے کا بڑا گلاس دیا۔ سنتوکھی سنگھ نے چائے پیتے ہوئے کہا، ’’زمانہ بہت خراب ہے۔ زنانہ ذات اکیلی باہر جائے۔۔۔‘‘
دونوں طرف سے گاڑیاں آئیں۔ اجاگر نے لال گاڑی کی طرف دیکھا۔۔۔ نیا ڈرائیور؟ لال گاڑی کے ڈرائیور جی کہاں گئے؟ چھٹی پر؟ کتنے دن کی چھٹی؟ آج پکوڑے نہیں، صرف چائے ملےگی بھیا!
دوپہر کے بعد اجاگر نے دکان بند کر دی۔
اس کا دل اندر ہی اندر ٹوٹنے لگتا۔ تب وہ زور زور سے رونا چاہتا لیکن پردیپ کمار کا منھ دیکھ کر وہ اپنے آپ کو سنبھال لیتا۔ وہی رونے لگے گا تو بچے کی کیا حالت ہوگی۔
’’بپا! بارہ بجی گاڑی آ رہی ہے۔‘‘
پردیپ کمار کی مائے نہیں آئی۔
’’بیٹا، ابھی نہیں آئی تو تین بجی گاڑی سے آوےگی۔‘‘
’’بپا! تین بجّی گاڑی آرہی ہے۔‘‘
’’نہیں آئی!‘‘
اس بار باپ بیٹا مل کر آنگن میں رونے لگے۔ جب پردیپ کمار ہچکیاں لیتے ہوئے دانت پر دانت بٹھاکر گھگھیانے لگا، تب اجاگر کو ہوش ہوا۔ اس نے آنسو پونچھ کر کہا، ’’رات کی گاڑی سے ضرور آوےگی۔ تمہارے لیے بسکٹ لاوےگی۔۔۔ کھلونے!‘‘
پردیپ کمار کی مائے رات کی گاڑی سے ہی آئی۔
’’آگئی میا! میا آ گئی!‘‘
پردیپ کمار زور زور سے رونے لگا۔ اجاگر بھی رونے لگا۔
’’کہاں چلی گئی تھیں تم پردیپ کمار کی مائے؟‘‘
’’لو، لو، کیا ہو گیا ہے تم دونوں کو؟‘‘
’’کہاں گئی تھیں؟ کس گاڑی سے گئیں؟‘‘
’’کام سے گئی تھی، پورنیا۔ گاڑی سے نہیں، ٹرک سے گئی تھی۔‘‘
’’کہہ کر جاتیں۔‘‘
’’کام کے پہلے بات کہی نہیں جاتی۔‘‘
پردیپ کمار کھلونا پاکر خوش ہو گیا۔ اس کی ماں نے گٹھری سے بسکٹ کا ڈبہ نکالا۔ اجاگر چپ چاپ، بنا پلک جھپکے دیکھتا رہا۔۔۔ کتنے دنوں کے بعد پردیپ کمار کی مائے نے ریشمی ساڑھی پہنی ہے۔۔۔ روپ ذرا بھی کم نہیں ہوا ہے۔ کون کہتا ہے کہ گاؤں کا روپ سال لوٹتے ہی ڈھل جاتا ہے!
اب پردیپ کمار کی مائے نے آنچل کی کھونٹ سے کاغذ کا ٹکڑا نکال کر دکھلاتے ہوئے کہا، ’’بولو تو، کیا ہے؟‘‘ اجاگر نے لالٹین کی روشنی میں کاغذ کو الٹ پلٹ کر دیکھا ’’بھگوان جانے کیا ہے! بولونا، کیا ہے؟ دیکھنے میں تو سرکاری کاغذ جیسا لگتا ہے۔‘‘
پردیپ کمار کی مائے ہنسی، ’’ٹھیک ہی پہچانا ہے تم نے! سرکاری کاغذ ہی ہے۔۔۔ پرمٹ!‘‘
’’پرمٹ؟ کس چیز کی پرمٹ؟‘‘
’’سیمنٹ، کوئلہ اور لوہے کے سریوں کی۔‘‘
’’کیا کروگی پرمٹ؟‘‘
پردیپ کمار کی مائے بول اٹھی، ’’گاؤں کے دشمنوں کو ذرا اور بھی اچھی طرح جلاؤں گی۔‘‘
’’جلائےگی! معنی؟ اوہو، سمجھا۔ پکا گھر، ایں؟ سچ کہتا ہوں، پردیپ کمار کی مائے، تم دھنّہ ہو! اچھا کیا تم نے جو مجھ سے پہلے ہی نہیں کہا، اتنی بڑی بات میرے پیٹ میں ہرگز نہیں پچتی۔ سچ کہتا ہوں، میں پاگل ہو جاؤں گا۔ سچ، تم لکشمی ہو!‘‘
’’میں نے کیا کیا؟ سب لال گاڑی کے ڈرائیور جی کی مہربانی ہے۔ حاکم کے کلرک سے ان کی دوستی ہے۔۔۔ اور جانتے ہو۔۔۔ اسی پرمٹ سے گھر بنانے کا آدھا روپیہ بھی نکلےگا۔‘‘
’’سو کیسے؟‘‘
’’دیکھنا، آنے دو لالہ جی کے بیٹے کو۔‘‘
’’سچ؟ حد ہے! حد ہے! کل سالے سنتوکھی سنگھ کو پانچ گلاس چائے بوہنی کے پہلے ہی پلاؤں گا۔۔۔ اب تم کو کیا کہیں پردیپ کمار کی مائے؟‘‘
’’ریشم بہو!‘‘
’’ہی ہی ہی ہی!‘‘
اجاگر کے گھر کی نیو پڑ گئی۔ ایک بانس میں پرانا جھاڑ باندھ کر گاڑ دیا گیا۔۔۔ بری نظر کو کاٹنے کے لیے۔ گاؤں کے لوگ اندر ہی اندر جل بھن کر خاک ہونے لگے۔
لیکن ادھر کئی دنوں سے اجاگر کا من بھی اندر ہی اندر سلگ رہا ہے۔ نہ جانے کیوں۔ پرمٹ کا کاغذ لالہ جی کے بیٹے کو دے کر اینٹ، سیمنٹ، لوہا لیا گیا۔ ٹھیک ہے۔ لالہ جی کے بیٹے نے پرمٹ لیتے وقت پردیپ کمار کی ماں کی انگلیاں دبا دی تھیں۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔ داروغہ جی نے اس دن دارو کی جھونک میں کبوتری کہہ دیا۔ سرکاری آدمی کا سات خون معاف ہے۔ لال گاڑی کے ڈرائیور جی نے ہولی کے دن گال پر عبیر لگا دیا۔ ہولی کی بات! پھر ڈرائیور جی بھلے آدمی ہیں۔ لیکن۔۔۔
کیتلی کا کھولتا پانی ٹونٹی سے گرنے لگا۔ پردیپ کمار کی مائے نے کہا، ’’لو، لو، تمہارا دھیان کہاں ہے؟ ہوش میں ہو یا۔۔۔؟‘‘
اجاگر بولا، ’’خوب ہوش میں ہوں۔‘‘
اس نے کیتلی اتار دی۔ مکان بنانے والا یہ چھچھوندر جیسے منھ والا راج مستری بنا کہے سنے آنگن کے اندر کیوں گیا؟ جانے کے پہلے پردیپ کمار کی مائے کو اس طرح کی آنکھ کی مٹکی کیوں مار گیا؟ پردیپ کمار کی مائے اس طرح ہنسی کیوں؟ اٹھ کر آنگن میں گئی کیوں؟
اجاگر کا من دھویں سے بھر گیا مانو۔
اس نے پکارا، ’’ببوا! بیٹا پردیپ کمار!‘‘
پردیپ کمار آیا۔ اس کا منھ بھی تمتمایا ہوا ہے۔ اجاگر نے دھیرے سے پوچھا، ’’ببوا، مائے کہاں ہے؟ کیا کر رہی ہے؟‘‘ پردیپ کمار بولا، ’’بپا، مستری بڑا بدمعاش ہے۔ ہم کو پتاسو کہتا ہے۔‘‘
اجاگر غصے سے دہک اٹھا۔ اس چھچھوندر مونہے کی اتنی ہمت! میرے بیٹے کو، پردیپ کمار کو پتاسو کہےگا؟ وہ اٹھ کر دہلیز کے پاس گیا۔ آنگن میں گھن گھن کرکے کیا پرائیویٹ بات ہو رہی ہے؟ آمنے سامنے بیٹھ کر؟ مستری سالا اس طرح جانگھ کے کپڑے ہٹاکر کیوں بیٹھا ہے؟ اجاگر کے سر پر جیسے انگیٹھی جلنے لگی۔ وہ آنگن میں جاکر گرجا، ’’مستری، دیوار کی گتھائی یہاں ہو رہی ہے کیا؟‘‘
مستری شرمندہ سا ہوکر اٹھا۔ ہنستی ہوئی پردیپ کمار کی مائے بھی چونک پڑی۔ اجاگر نے دھڑام سے دہلیز کا دروازہ بند کر دیا۔ پردیپ کمار کی مائے اجاگر کی آنکھیں دیکھ کر ڈر گئی۔ اجاگر ہونٹ کو دانتوں سے بھینچتا ہوا اس کے پاس گیا۔ پھر دھیرے سے بولا، ’’تو کتی ہے! کتی! کتیا!‘‘
پردیپ کمار کی مائے نے آواز اونچی کرکے کہا، ’’کیا ہو گیا ہے تم کو؟‘‘
اجاگر چپ چاپ اپنی کوٹھری میں چلا گیا۔ اندر سے ہی اس نے پکارا، ’’بیٹا! پردیپ کمار! یہاں آؤ۔‘‘ پردیپ کمار اپنے باپ کے پاس چلا گیا۔ باہر دکان میں چولہے سلگتے رہے۔ گاڑیاں آئیں۔ ڈرائیوروں نے ہارن بجا بجاکر پکارا۔ سنتوکھی سنگھ نے آواز دی۔ آنگن سے کوئی جواب نہیں ملا۔ کسی نے کہا، ’’بھائی، اب پکا مکان بنوا رہا ہے۔ دکان پر کیوں بیٹھےگا؟‘‘
گاڑیاں آتیں، رکتیں، ہارن دیتیں، پھر چلی جاتیں۔
دن بھر اجاگر گھر سے نہیں نکلا۔ پردیپ کمار بھی دم سادھ کر باپ کی بغل میں پڑا رہا۔ پردیپ کمار کی مائے اوسارے (برآمدے) پر بیٹھی دھیرے دھیرے روتی رہی۔
سانجھ ہوئی۔ اجاگر اٹھا اور پردیپ کمار کی مائے کے پاس جاکر بولا، ’’اس چھچھوندر مونہے مستری کے ساتھ جاتی کیوں نہیں حرام زادی؟ نکل جا میرے آنگن سے۔‘‘ پردیپ کمار کی مائے بولی، ’’اتنی تیزی ہے تو کل سے تم ہی دیکھا کرو مزدوروں کو! پکا گھر بنوانا کھیل۔۔۔‘‘
’’جہنم میں جائے سالی تیرا پکا گھر!‘‘
’’اور دکان پر ہزاروں لوگوں کے سامنے۔۔۔‘‘
’’آگ لگے تیری دکان میں!‘‘
اجاگر باہر گیا اور لات مار مار کر دونوں چولھوں کو توڑ پھوڑ آیا۔ دہلیز کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا، ’’نکل جا پچھواڑے کی راہ چپ چاپ! نہیں تو آج خون کر ڈالوں گا۔‘‘
اب پردیپ کمار رونے لگا۔ اجاگر اس کو گود میں لے کر اپنی کوٹھری میں چلا گیا۔ پردیپ کمار کی مائے اوسارے پربیٹھی رہی۔ پردیپ کمار روتے روتے سو گیا۔
سانجھ بیتی۔ رات آئی۔ سڑک پر ایک ٹریکٹر بھڑبھڑاتا ہوا چلا گیا۔ اجاگر نے باہر نکل کر دیکھا، پردیپ کمار کی مائے اوسارے پر ہی لیٹ گئی ہے۔ اجاگر دبے پاؤں اس کے پاس چلا گیا۔ ’’جاکر مستری کی کھٹیا پر کیوں نہیں سوتی؟ نخرہ پسار کر یہاں زمین پر کیوں سوئی ہے؟‘‘ اجاگر نے دھکا دیا، ’’اٹھ سالی! تریاچرتر کہیں اور جاکر دکھلا!‘‘
پردیپ کمار کی مائے اٹھ کر بیٹھ گئی اور دونوں ہاتھوں سے اجاگر کا پاؤں پکڑ کر بولی، ’’پردیپ کے بابو! تمہارے پیر پڑتی ہوں۔ میرا گلا گھونٹ کر مار ڈالو!۔۔۔ مارڈالو مجھے!‘‘ اجاگر نے دونوں ہاتھوں سے اس کی گردن کو جھپٹ کر پکڑا۔ لمبے بال چھتراگئے کھل کر۔
’’ہاں، مار ڈالوں گا۔‘‘
’’مار ڈالو۔ میں جینا نہیں چاہتی۔‘‘
’’مار ڈالوں گا گلا دباکر، حرامزادی!‘‘
’’مارو۔ پردیپ کے با۔۔۔!‘‘
’’بول، کل سے تو آنگن کے باہر پیر رکھےگی؟‘‘
’’نہیں رکھوں گی۔‘‘
’’کسی سے ہنسے گی بولےگی نہیں۔ بول!‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’مستری سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’داروغہ سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’اس لالہ کے بیٹے سے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’لال گاڑی کے ڈرائیور سے؟‘‘
’’نہیں نہیں! نہیں۔۔۔! پردیپ کے بابو!‘‘
پردیپ کمار کی مائے اجاگر کی چھاتی سے منھ سٹاکر بلکنے لگی۔ اسے لگا، بیاہ کے بعد آج پہلی بار وہ اپنے گھر والے کے ساتھ، اپنے مرد کے ساتھ سہاگ رات منارہی ہے۔۔۔ انگ انگ میں کپکپی۔۔۔ لہریں۔۔۔ طوفان۔۔۔ پردیپ کے بابو، مجھے مار۔۔۔ ڈا۔۔۔ لو۔۔۔ مار۔۔۔ ڈالو!
سڑک سے ایک ٹرک کھڑبڑاتا گزر گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.