اچھوت
کہانی کی کہانی
’’ایک ایسے برہمن سیٹھ کی کہانی ہے، جس کے یہاں کام کرتے ہوئے ایک چمار ذات کے مزدور کی جان چلی جاتی ہے۔ چمار مزدور کی موت پر قانونی کارروائی سے بچنے کے لیے سیٹھ آناً فاناً اس مزدور کی لاش اپنے یہاں سے ہٹوا دیتا ہے۔ سالوں بعد جب اس چمار کا بیٹا ضلع کا حاکم بن کر اس شہر میں آتا ہے تو اس سیٹھ سے ملنے جاتا ہے۔ جب وہ سیٹھ کو بتاتا ہے کہ وہ اسی اچھوت کا بیٹا ہے، تو سیٹھ کو یہ بات برداشت نہیں ہوتی ہے اور وہ وہیں گر کر مر جاتا ہے۔‘‘
شکروا چمار اپنی جھونپڑی میں بیٹھا ناریل پی رہا تھا۔ قریب ہی اسکا اکلوتا لڑکا ’بینی‘ کھیل رہا تھا۔ بینی کے سوا شکروا کا اس دنیا میں کوئی نہ تھا۔ وہی اب اس کی ضعیفی کا سہارا تھا۔ دن بھر محنت مزدوری سے جو کچھ مل جاتا اسی میں دونوں کا خرچ چلتا۔ لیکن دو دن سے وہ گاؤں کے زمیندار پنڈت رام پرشاد کے یہاں بیگار کر رہا تھا۔ زمیندار کو سرکار نے رائے صاحب کا خطاب دیا تھا۔ جسکی خوشی میں جشن منایا جا رہا تھا۔ دن بھر کی بیگار سے فرصت پاکر تھوڑی دیر ہوئی شکروا نے اپنی جھونپڑی میں قدم رکھا تھا۔ بینی نے باپ کے گلے سے لپٹ کر کہا، ’’بابا موکا (مجھ کو) نئی دھوتی منگا دو۔‘‘
شکروا نے ٹھنڈی سانس بھر کہا، ’’مالک کے ہاں کام ختم ہو جائے اور کچھ انعام ملے تو اسی سے تجھ کو دھوتی منگا دوں گا۔‘‘ بینی نے بال ہٹ سے کام لیا، ’’اوں اوں میں تو ابھی لوں گا۔ مالک کے یہاں سب لوگ اچھے اچھے کپڑے پہنے ہیں۔ میں بھی پہنوں گا۔‘‘
شکروا نے کہا، ’’پاگل نہ بن ہم غریب وہ امیر۔ ہمارا انکا کیا مقابلہ؟‘‘ بینی نے بھولے پن سے کہا، ’’ہمیں غریب اور انکو امیر کس نے بنایا ہے؟‘‘
’’ہاہاہا‘‘ شکروا نے قہقہہ مار کر کہا، ’’تو بڑا پاگل ہے۔ بھگوان بنائے ہیں اور کون بنا سکتا ہے!‘‘
’’تو بھگوان نے ہم کو امیر کیوں نہیں بنایا؟‘‘
’’اب رام جانیں اگلے جنم میں ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہوگی۔ اسی کی سزا ملی ہے۔‘‘
’’اگر بھگوان ہم سے خوش ہو جائیں تو کیا وہ ہم کو امیر کر دیں گے؟‘‘
’’اور نہیں تو کیا؟ بھگوان کے ہاتھ میں تو سب کچھ ہے۔‘‘
’’تو بھگوان کیسے خوش ہوتے ہیں؟‘‘
’’پوجا پاٹ سے۔‘‘
’’تو ہم پوجا پاٹ کریں گے۔‘‘
’’لیکن ہم مندر میں نہیں گھس سکتے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’ہم لوگ اچھوت ہیں۔ پنڈت لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے گھسنے سے مندر ناپاک ہو جائے گا۔‘‘
’’تو کیا، بھگوان مندر ہی میں رہتے ہیں اور کہیں نہیں؟‘‘
’’نہیں بھگوان تو ہر جگہ ہیں۔‘‘
’’تو میں بھی اپنی جھونپڑی میں ایک چھوٹا سا مندر بناؤں گا اور بھگوان کی پوجا کیا کروں گا۔‘‘
’’لیکن بغیر کسی پنڈت کی مدد کے پوجا نہیں مانی جائے گی۔‘‘
بینی کا دل ٹوٹ گیا اور کچھ پوچھ ہی نہ سکا۔ اتنے میں کسی نے باہر سے آواز دی، ’’ابے شکروا!‘‘ باہر نکل کر شکروا نے دیکھا کہ زمیندار کا پیادہ، داتا دین کھڑا ہے۔ شکروا نے ادب سے پوچھا، ’’مہاراج کا حکم؟‘‘
’’ابہن، ہاں ابھی!‘‘
’’سرکار ابہن تو دن بھر کی بیگار سے واپس آیا ہوں۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتا۔ میں نے تجھے مالک کا حکم سنا دیا ہے۔ اگر تو ابھی اسٹیشن پر نہیں جائے گا تو پھر خیر نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر مہاراج داتا دین تو اکڑتے ہوئے چل دئیے اور شکروا آسمان کی طرف حسرت سے دیکھ کر رہ گیا۔ دن بھر بیگار میں رہا۔ سمجھتا تھا کہ رات کو آرام ملے گا، مگر غریبوں کی قسمت میں آرام کہاں؟ کچھ چبینا بینی کو دیکر اسے گتھڑی پر لٹا دیا اور خود اسٹیشن کی طرف روانہ ہو گیا۔
(2)
رائے صاحب رام پرشاد کے مکان کے سامنے ایک عالیشان شامیانے میں پنڈتوں کو بھوج دیا جا رہا تھا۔ پنڈت کون تھے؟ جو بظاہر غریب برہمن بنے ہوئے تھے، لیکن جن کے گھروں میں سونا برستا تھا۔ جو داعوتیں کھا کھا کر اتنے موٹے ہو گئے تھے کہ دو قدم چلنا مشکل تھا۔ اسی قماش کے برہمن آج تعلقدار کے یہاں انواع واقسام کی مٹھائیاں کھا رہے تھے۔ ان سے دور چند، فاقہ کش بیگاری مزدور جنہیں پنڈتوں نے اچھوت کا خطاب دے رکھا ہے، حسرت بھری نظروں سے پنڈتوں کی توند کو دیکھ رہے تھے۔
شکروا چمار کو رات بھر اسٹیشن پر رہنا پڑا۔ وہ تھوڑی دیر ہوئی مہمانوں کا سامان لیکر گاؤں میں واپس ہوا تھا، اور اب تک اسے گھر جانے کی اجازت نہ ملی تھی۔ وہ ایک طرف لنگوٹی باندھے چپ چاپ کھڑا تھا کہ ایک تلک دھاری پنڈت شبو شنکر لٹیا میں گنگا جل لئے کھڑاؤں پہنے رام رام کی مالا جپتے ہوئے اس طرف سے نکلے۔ زمین کچھ اونچی نیچی تھی۔ پنڈت جی لڑکھڑائے اور انکا بدن شکروا چمار سے چھو گیا۔ بات معمولی تھی۔ پنڈت جی اپنے گھر کی مرمت اچھوتوں ہی سے کراتے تھے۔ مہاراجن کا ڈولا چمار ہی اٹھاتے تھے لیکن اس وقت انکے ہاتھ میں گنگا جل تھا۔ وہی گنگا مائی کا جل جس سے ساری دنیا سیراب ہوتی ہے۔ جسمیں بھنگی، چمار، برہمن سب اشنان کرتے ہیں۔ وہی گنگا جل لٹیا میں بھر کر خود کو دیوتا سے بھی بڑھکر سمجھنے لگے۔ غلطی تھی اپنی لیکن قصور بتایا گیا تھا شکروا چمار کا۔ جب اسنے پنڈت جی کو اپنے پاس سے گزرتے دیکھا تو ہٹا کیوں نہیں۔ بھری سبھا میں اس نے جان بوجھ کر پنڈت جی کی ہتک کی۔ اب ان کو پھر اشنان کرنا پڑے گا۔ اسی قسم کی باتیں سوچ کر پنڈت جی شکروا چمار پر برس پڑے۔’’پاپی چنڈال۔ بدمعاش۔‘‘ غرض پنڈت جی کو جتنی گالیاں یاد تھیں وہ ختم کر دیں۔ تعلقدار صاحب شور و غل سن کر دوڑے آئے اور پنڈت جی سے پوچھا، ’’مہاراج کیا بات ہے؟‘‘
مہاراج نے بگڑ کر کہا، ’’جہاں پنڈتوں کو بھوج دیا جاتا ہے وہاں چماروں کا کیا کام؟ دیکھیے نہ اس پاپی نے جان بوجھ کر مجھے چھو لیا۔ اب آپ ہی بتائیے مجھے غصہ کیوں نہ آئے۔ رام رام! آپنے چماروں کو بہت سر چڑھا رکھا ہے۔‘‘ مہاراج کے آخری جملے نے تعلقدار کو آگ بگولا کر دیا۔ انہوں نے شکروا چمار سے پوچھنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ پیادے کو اشارہ کر دیا کہ ’’مار سالے کو‘‘ وہاں تو حکم کی دیر تھی۔ شکروا بھوک کے مارے یونہی مرا جا رہا تھا۔ مار پڑی تو زمین پر گر کر لوٹنے لگا۔ پیادے نے سمجھا کہ مکاری کر رہا ہے۔ اس نے کس کر لات ماری۔ چوٹ تلی پر لگی اور وہ پھٹ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے شکروا نے دم توڑ دیا۔ جشن میں ایسی بد شگنی، سب لوگ گھبرا گئے۔ تھوڑی دیر کے لیے تعلقدار صاحب بھی پریشان ہو گئے۔ ان کو اسکا تو کوئی غم ڈر نہ تھا کہ ایک غریب کی ہتیا ہو گئی۔ بلکہ اسکا صدمہ تھا کہ کمبخت آج ہی کیوں مرا۔ سب برہمن کھا پی چکے تھے، وہ سب رام رام کہتے ہوئے چلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ وہ ایسے پاپ کی جگہ پر کیسے رہ سکتے تھے۔ برادری ان کو چھوڑ دیتی۔ لیکن تعلقدار کے پاس پنڈتوں کو رام کرنے کا نسخہ موجود تھا۔ لکشمی دیوی ان پر مہربان تھیں۔ ایسی صورت میں انہوں نے چماروں کو بلا کر حکم دیا کہ، ’’شکروا کی لاش کو لے جا کر فوراً جلا دو۔‘‘ ساتھ ہی دھمکی دی کہ اگر کسی نے پولیس میں مار پیٹ کی خبر دی تو اسکے حق میں اچھا نہ ہوگا۔
شکروا کو میرے بیس سال ہو چکے تھے۔ تعلقدار رائے صاحب رام پرشاد زندہ تھے۔ لیکن چراغ سحری، مگر اس ضعیفی کے عالم میں بھی جب پر گنے کا حاکم انکے علاقے میں آتا تو رائے صاحب فوراً حاکم کے سلام کے لیے حاضر ہوتے۔ ایک دن رائے صاحب نے سنا کہ ایک نئے حاکم مسٹر ڈیوڈ انکے علاقے میں آئے ہیں۔ فوراً پڑاؤ پر پہنچے۔ سب سے پہلے پیشکار سے ملے۔ وہ رائے صاحب کے پرانے نیازمندوں میں سے تھا۔ اس نے رائے صاحب سے کہا، ’’یہ صاحب رئیسوں سے بہت کم ملتے ہیں۔ آپ ان سے نہ ملیں تو بہتر ہے۔‘‘
’’تو کیا مجھ سے بھی نہ ملیں گے؟‘‘
’’نہیں آپ جیسے رئیس سے تو ضرور ملیں گے لیکن جیسا کہ میں عذر کر چکا ہوں، ان سے مل کر آپکی طبیعت خوش نہ ہوگی۔‘‘
’’میں نے تو سنا ہے کہ یہ نیچ ذات والوں سے بھی ملتے ہیں۔ پھر مجھ سے کیوں نہ ملیں گے۔‘‘
’’ہاں یہ صاحب اچھوتوں سے بہت ملتے ہیں اور انکو کرسی پر بٹھاتے ہیں لیکن رئیسوں سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتے۔‘‘
’’عیسائی ہے نہ، لیکن اب تو میں آ گیا ہوں، مل ہی کے جاؤں گا۔ میری اطلاع تو کر دیجئے۔‘‘
’’جیسے آپکی مرضی۔‘‘ اتنا کہہ کر پیشکار، ڈیوڈ صاحب کے خیمے میں داخل ہوا اور اطلاع کی حضور رائے صاحب رام پرشاد ملنے کے لیے آئے ہیں۔
ڈیوڈ صاحب نے کچھ سوچ کر کہا، ’’اچھا اندر بھیج دو۔‘‘ رائے صاحب نے خیمے میں داخل ہو کر نہایت ادب سے صاحب کو جھک کر سلام کیا اور پھر حسب معمول خود ہی ہاتھ ملانے کے لیے آگے بڑھے لیکن ڈیوڈ صاحب نے ان سے ہاتھ نہ ملایا اور کہا، ’’معاف کیجئے میں آپ جیسے عالی خاندان پنڈتوں سے ہاتھ نہیں ملا سکتا کیونکہ میں اچھوت ہوں‘‘، رائے صاحب بولے، ’’حضور ایسی باتیں نہ کریں۔ راج کو ہم ایشور کا سایہ سمجھتے ہیں۔‘‘
’’لیکن میں اچھوت ہوں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘
’’یہ آپ کو بہت جلد معلوم ہو جائے گا۔ ہاں یہ تو بتائیے آپکے گاؤں میں کوئی شکروا رہتا تھا؟‘‘
شکروا کا نام سن کر پنڈت جی کو بیس برس پہلے کی باتیں یاد آگئیں۔ ڈر کے مارے انکا چہرہ فق ہو گیا۔ انہوں نے دبی زبان سے کہا، ’’جی ہاں میرا ایک اسامی اس نام کا ضرور تھا لیکن اسکو مرے ہوئے بیس سال ہو گئے۔‘‘
ڈیوڈ صاحب نے کہا، ’’میں نے سنا ہے آپ نے اس کو جان سے مروا ڈالا تھا۔‘‘
راے صاحب تن گئے، ’’جھوٹ، بالکل جھوٹ۔ بھلا کہیں ایسی جیو ہتیا ہو سکتی ہے؟‘‘
’’جی ہاں، آپ بے درد تنگ نظر لوگوں سے جیو ہتیا ہو سکتی ہے! رائے صاحب ادھر دیکھئے۔ جس کو اس وقت آپ حضور کہہ کر فخر کر رہے ہیں، جسکو سلام کرنے آپ یہاں حاضر ہوئے ہیں، وہ اسی بدنصیب شکروا چمار کا لڑکا بینی ہے۔‘‘ رائے صاحب یہ سن کر بیہوش ہو گئے۔ ڈیوڈ صاحب نے انہیں گھر بھیج دیا، جہاں وہ اس صدمے سے جانبر نہ ہوئے۔ جب انکی ارتھی ڈیوڈ صاحب کے کیمپ سے گزری تو وہ ’’رام نام ست ہے‘‘، کی آواز سنتے ہی ٹوپی اتار کر کھڑے رہے۔
(اردو افسانے کی روایت مرتبہ مرزا حامد بیگ، ص 379)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.