Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادیب کی بیوی

محشر عابدی

ادیب کی بیوی

محشر عابدی

MORE BYمحشر عابدی

    (۱)

    ’’دوفرشتے نورانی لباس میں آسمان سے زمین کی طرف مائل پرواز تھے۔‘‘

    رشید کی بیوی بستر مرض پر پڑی تھی۔ رشید کے پاس اس وقت ایک پیسہ بھی نہ تھا جس سے وہ اپنی بیوی کا علاج کرتا۔ وہ اسی سوچ میں پڑا تھا کہ کہاں جائے اور کس سے مانگے؟

    بیوی نے درد واضطراب کے لہجے میں کہا، ’’گھر میں کھانے کو ایک ٹکڑا نہیں ہے۔ ابھی بچہ سوکر اٹھے گا تو میں اسے کیا دوں گی؟ اور آہ۔۔۔ کیا میں یونہی۔۔۔ درد و تکلیف سے سسک سسک کر جان دوں گی۔ مجھے ایک دمڑی کی بھی دوا نصیب نہ ہوگی؟‘‘

    رشید پر بیوی کی اس گفتگو کا غیرمعمولی اثر ہوا۔ اس نے تسکین بخش لہجے میں کہا، ’’میری پیاری مجھے اپنی بدبختی کا خدا سے کوئی شکوہ نہیں لیکن اپنے ساتھ تمہیں بھی اس عذاب جاں گسل میں دیکھ کر تاب نہیں لاسکتا۔ خدا کے لیے ذرا صبر سے کام لو۔‘‘

    بیوی بولی، ’’آہ ان ایڈیٹروں اور کتب فروشوں کو ذرا بھی خیال نہیں آتا کہ جب کوئی شخص انتہائی دماغی کاوشوں کے بعد کچھ تحریر کرتا ہے تو اس کا مناسب معاوضہ دیں، اور اس کی ہمت افزائی کریں، نہ کہ مفت ٹرخادیں۔ آہ۔۔۔ اور جو دیتے بھی ہیں تو برسوں کے وعدے پر۔۔۔ آہ۔۔۔‘‘

    رشید نے نرمی سے جواب دیا، ’’میری عزیز بیگم، تمہارا کہنا بالکل بجا ہے لیکن ابھی ہماری پبلک اور ہمارے ایڈیٹر اس قابل نہیں ہوئے ہیں کہ وہ تصانیف کا قابل قدر معاوضہ دیں اور اس طرح ایک مضمون نگار یا شاعر کی حوصلہ افزائی کریں۔ وہ تو بس اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ مضمون مفت مل جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے بہترین لکھنے والے مفلسی اور فلاکت کی وجہ سے بالکل روپوش ہیں۔۔۔ میں اب جاکر ان ایڈیٹروں سے کچھ قرض مانگتا ہوں جو میرے مضامین شائع کرتے ہیں، شاید ان کو میری اس پریشان حالت پر ترس آجائے اور وہ کسی مضمون کا معاوضہ پیشگی دے دیں۔‘‘

    (۲)

    رشید رسالۂ ’’میکدہ‘‘ کے ایڈیٹر کے پاس گیا۔ اس رسالہ میں اس کے مضامین معاوضہ پر شائع ہوتے تھے، یہاں وہ بہت آس لگاکر آیا تھا لیکن گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ ایڈیٹر صاحب رسالے کی توسیع اشاعت کی خاطر دورے پر گئے ہیں۔ یہ سن کر اس کے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے اپنی بیوی کی تکلیف کا خیال کیا، بچے کی بھوک کا احساس کیا اور اپنی بیکسی پر نظر دوڑائی تو اس کی آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔ وہ سوچنے لگا، اب کس کا سہارا ڈھونڈے۔ اسی سوچ میں وہ گھر واپس آرہا تھا کہ اسے یاد آگیا کہ ناظم کتب فروش کے ذمے اس کا کچھ بقایا ہے، چل کر اس سے مطالبہ کرے۔ اس خیال کے آتے ہی گویا اس کی مردہ امیدوں میں تازہ روح دوڑگئی اور وہ اس طرف روانہ ہوا۔ کتب فروش کے مکان پر پہنچا۔ وہ موجود نہ تھا۔ اس کا انتظار کرتے کرتے شام ہوگئی۔ آخر وہ آیا۔ اس سے ملاقات ہوئی۔ رشید نے اپنی داستانِ الم بیان کرکے باقی اجرت مانگی۔ کتب فروش نے ترش روئی سے جواب دیا، ’’ہم کو تو یاد نہیں آتا کہ آپ کی کوئی اجرت باقی ہے۔‘‘

    رشید نے جواب دیا، ’’جناب آپ یہ کیسے فرماتے ہیں کہ کچھ باقی نہیں۔ میں آپ سے جھوٹ تھوڑے ہی بول سکتا ہوں۔‘‘ کتب فروش بولا، ’’ہم کو تو جہاں تک یاد ہے آپ کا کچھ باقی نہیں۔ تاہم اگر آپ اصرار کرتے ہیں تو ہم کل دوکان پر حساب دیکھ کر جواب دیں گے۔‘‘

    رشید نے بہت منت سماجت کی، بہت خوشامد سے کام لیا کہ براہ خدا کچھ تو دے دے، لیکن اس سنگ دل کتاب فروش نے، اس بدسرشت انسان نے ایک نہ سنی اور کل پرٹال دیا۔ رشید اس کے اس ظالمانہ، غیرانسانی اور بیدردانہ سلوک سے دل ہی دل میں بہت غصہ ہوا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس وقت اپنے دل کا بخار نکال لے مگر مصلحت اسی میں تھی کہ خاموش رہے۔ وہ بہت افسردہ دل اور مایوس ہوکر گھر پلٹا۔ اسے اس وقت ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے دوفرشتے آسمان سے زمین کی طرف مائل پرواز ہیں۔

    (۳)

    بیوی شدتِ درد سے، بستر پر کروٹیں لے رہی تھی۔ اس درد و کرب کے عالم میں وہ اپنے شوہر کی زندگی پر نظر دوڑا رہی تھی۔ اپنی موجودہ کسم پرسی کی حالت دیکھ رہی تھی۔ اور سوچ رہی تھی، ’’آہ دوپہر کا نکلا ہوا آدمی، بھوکا، پیاسا دوڑتا، آوارہ گردی کرتا، ایڈیٹروں کے دفتروں کے صدقے ہوتا پھر رہاہوگا، کسی نے اسے کچھ نہ دیا ہوگا۔ وہ اتنی دیر نہ لگاتا۔ شام ہو رہی ہے اور واپسی کے کہیں آثار تک نہیں معلوم ہوتے۔ آہ کس قدر بے کس اور مصیبت آمیز ہے میری زندگی۔۔۔ آہ۔ اف۔۔۔ پناہ، واللہ کیسا درد ہے۔۔۔؟ اُف اللہ توبہ کرتی ہوں۔۔۔ اوخدا۔۔۔ او میرے اللہ۔۔۔ آہ رحم کر۔۔۔ اس درد سے۔۔۔ آہ اس درد سے نجات دے۔۔۔ او اللہ۔۔۔ کسی عورت کو ایسے زمانے میں۔۔۔ آہ اُف۔۔۔ اواللہ ایسے زمانے میں جب کہ۔۔۔ آہ جب۔۔۔ ادب کی کوئی قدر نہیں۔۔۔ آہ اُف۔۔۔ درد۔۔۔ اللہ جب ادبی آدمی۔۔۔ کی۔۔۔ کوئی وقعت۔۔۔ نہیں۔۔۔

    آہ۔۔۔ جب ایک مضمون۔۔۔ مضمون نگار کو۔۔۔ اس کی دماغی۔۔۔ آہ اُف درد۔۔۔ اواللہ۔۔۔ دماغی کاوشوں کی۔۔۔ کاوشوں کی۔۔۔ آہ کوئی اجرت۔۔۔ نہیں ملتی، نہیں ملتی۔۔۔ ایک عورت کو میرے اللہ آہ۔۔۔ یہ درد۔۔۔ یہ درد میری جان۔۔۔ لے کر جائے گا۔۔۔ آہ ایک عورت کو۔۔۔ ایک ادیب کی۔۔۔ اللہ ایک ادیب کی۔۔۔ آہ بیوی نہ بنانا۔۔۔ آہ اللہ توبہ کرتی ہوں۔۔۔ میں توبہ۔۔۔ توبہ کرتی ہوں۔۔۔ آہ۔۔۔ آہ مجھے۔۔۔ اس تکلیف سے۔۔۔ نجات دے۔‘‘

    یہ کہہ کر اس نے اپنی سرمگیں آنکھیں بند کرلیں۔ آنسوؤں کے قطرے۔۔۔ شبنم کی طرح۔۔۔ اس شبنم کی طرح جو موتیوں کی شکل میں بوقت صبح گلاب کی پنکھڑیوں پر پڑتی رہتی ہے۔۔۔ اس کے پنکھڑی سے رخساروں پر پڑے تھے اور اس کی افسردہ دلی سے اس قدر متاثر ہو رہے تھے کہ خود ان کا رنگ اور روپ دھندلا پڑگیا تھا۔ اسی درد و کلفت کے عالم میں پڑے پڑے اس کی آنکھ لگ گئی۔

    (۴)

    ڈرتے ہوئے، کانپتے ہوئے۔۔۔ ڈرتے ہوئے اس لیے کہ وہ اپنی مصیبت زدہ بیوی کے سوال کا کیا جواب دے گا۔ کانتپے ہوئے اس لیے کہ وہ بچے کی بھوک کے اضطراب اور بلبلانے کو دیکھ کر کیسے اپنے آپ میں رہ سکے گا۔۔۔ رشید نے دروازہ پر قدم رکھا۔ دبے پاؤں بیوی کے بستر کے قریب پہنچا۔ ایک طرف کھڑا ہوگیا اور بیوی کو دیکھنے لگا۔ اس کے رخساروں پر آنسو اب بھی پڑے ہوئے کسی فلاکت نصیب کی داستان الم کو تازہ کر رہے تھے۔ رشید نے ان آنسوؤں کو دیکھا اور اسے ایسا معلوم ہوا کہ جیسے برف کے بے شمار پہاڑ اس کے ایک انسانی اور نازک ترین قلب پر ٹوٹ پڑے ہیں اور وہ ان سے یخ میں تبدیل ہوا جارہا ہے۔

    وہ اپنی بیوی کے چہرے کو دیکھ کر اس کی قلبی کیفیات کا گہرا مطالعہ کرنے لگا۔ اور جتنا جتنا وہ زیادہ سوچتا جاتا اس کا دل بھر آتا۔۔۔ آخر اس سے ضبط نہ ہوسکا اور وہ رونے لگا۔ خاموشی سے کھڑا ہوا آنسو بہاتا رہا۔ یہ ایک ایسا دل خراش اور پرسوز منظر تھا کہ پتھر سے پتھر دل کو بھی پگھلاکر موم کرسکتا تھا۔ بڑے سے بڑے سنگ دل کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کرسکتاتھا۔ رشید رو نہ رہاتھا بلکہ کاتبِ ازل نے جو نوحے اس کے صفحۂ تقدیر پر منقوش کردیے تھے، انھیں کا مطالعہ کر رہا تھا۔

    بچے نے کروٹ لی، رشید نے دوڑ کر اسے اٹھالیا۔ بچہ اماں، اماں کرنے لگا۔ اس کے اس اماں اماں کرنے میں ایک ایسا درد اور ایک ایسی معصومیت تھی، جو دامن تخیل میں نہیں سماسکتی۔ رشید ڈرا کہ کہیں اس کی چیخ اور پکار سے اس کی ماں بیدار نہ ہوجائے اور اگر وہ بیدار ہوگئی تو وہ معصوم ہستیوں کو ایک ساتھ مصروف گریہ و فریاد دیکھنا کیوں کر گوارا کرے گا؟ وہ کن آنکھوں سے ان کی تکلیف کو دیکھے گا اور زندہ رہے گا۔ وہ یہ سوچ کر بچے کو بہلانے لگا۔ بچہ آخر بچہ ہی تھا، وہ نہ ماننا تھا نہ مانا اور رونے لگا۔ بچے کی آواز صدائے صورتھی، جو خوابیدہ ماں کی دنیائے سماعت میں گونج پیدا کرتی ہوئی چلی گئی اور اسے بیدار کردیا۔ وہ گھبراکر اٹھ بیٹھی۔ اس نے رشید اور بچے کو ایک ہی نظر میں دیکھا اور اس کی زبان سے فوراً یہ الفاظ نکلے،

    ’’میرے پیارے شوہر۔۔۔ کچھ لائے؟‘‘ اور یہ سوال کرکے وہ متمنی اور ساتھ ہی ساتھ مایوسانہ نگاہوں سے رشید کی صورت تکنے لگی۔ رشید کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ اس وقت اس غم نصیب انسان کی حالت اس شخص کی سی تھی جو ایک درخت پر بیٹھا ہو۔ اس کے نیچے ایک غار ہو اور اوپر سے ایک سانپ اس کی طرف بڑھ رہا ہو اور یہ دیکھ کر وہ اپنے آپ میں نہ رہے۔ رشید بھی اس وقت ایسی ہی کشمکش میں مبتلاتھا۔ آخر اس نے دھیمی آواز میں جواب دیا، ’’کچھ نہیں۔‘‘

    بیوی نے یہ سن کر ایک آہ بھری اور روکر بولی، ’’او اللہ۔۔۔ کیا ہماری قسمت۔۔۔ آہ قسمت میں۔۔۔ فاقوں سے۔۔۔ مرنا لکھا ہے۔۔۔؟ آہ او اللہ۔۔۔ اگر تجھے یہی منظور۔۔۔ ہے تو۔۔۔ اٹھالے۔ ہم تیری۔۔۔ مصلحتوں کو۔۔۔ نہیں۔۔۔ سمجھ سکتے۔۔۔ آہ اُف۔۔۔ میرے بچے۔۔۔ لاؤ۔۔۔ میرے بچے کو۔۔۔ میرے پاس۔۔۔ میرے پاس لاؤ۔ آہ۔‘‘

    رشید نے بچے کو، روتے اور بلبلاتے ہوئے بچے کو ماں کی گود میں دے دیا اور چپ کھڑا ہوگیا۔ ماں نے اسی حالتِ اضطراب و درد میں بچے کو لے کر دودھ پلانا شروع کیا۔ مگر بچے کی تسکین نہ ہوئی۔ بیوی بولی، ’’آہ اگر۔۔۔ اگر میرے لیے کچھ نہیں۔۔۔ آہ کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ تو نہ ہو۔۔۔ میرے علاج کے لیے۔۔۔ آہ۔۔۔ اُف۔ میری دوا درمن کے لیے۔۔۔ تم سے۔۔۔ کچھ نہیں ہوسکتا۔۔۔ آہ نہ ہو۔ میں۔۔۔ یونہی مرجاؤں گی۔۔۔ میں فاقوں سے جان دے دوں گی۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر اس بچے کی۔۔۔ آہ اللہ اف۔۔۔ اس معصوم ہستی کی۔۔۔ بے چینی۔۔۔ آہ اللہ دیکھ کر۔۔۔ میرے پیارے شوہر۔۔۔ آہ اس کی بھوک۔۔۔ بھوک دیکھ کر۔۔۔ تاب نہیں لاسکتی۔۔۔ آہ اُف کس بلا کا۔۔۔ درد ہے۔۔۔ آہ ذرا جاکر۔۔۔ حلوائی کی دوکان سے۔۔۔ دودھ ہی۔۔۔ دودھ ہی قرض لے آؤ۔ آ۔ اللہ رحم کرے۔۔۔ میرے خدا۔۔۔ پناہ تیری۔‘‘

    رشید نے یہ سنا اور اس کے دل پر سانپ سالوٹ گیا۔ وہ اس وقت ایک ایسے ہدف کے مانند تھا، جس پر ہر طرف سے تیروں کی بوچھار ہو رہی ہو مگر رونے اور چلانے کی اجازت نہ ہو۔ اس نے کچھ نہ کہا۔ ایک پیالہ لے کر گھر سے نکلا اور پھر چند منٹ میں دودھ لے کر داخل ہوا۔

    بیوی، اس تکلیف اور درد کے باوجود دودھ دیکھ کر مسرور ہوگئی اور ایک ہلکا سا تبسم اس کے ہونٹوں پر آگیا۔ رشید نے دودھ پلایا۔ دودھ پی کر بچے کی تسکین ہوئی اور وہ سوگیا۔ آفتاب غروب ہوچکا تھا۔

    بیوی نے کہا، ’’میرے عزیز شوہر! کیا۔۔۔ آپ۔۔۔ اپنے۔۔۔ آہ اپنے دوست۔۔۔ کے پاس گئے تھے؟ آہ ذرا۔۔۔ ذرا انہی سے جاکر۔۔۔ قرض مانگیے۔۔۔ میری طبیعت۔۔۔ میری طبیعت۔۔۔ بہت بے چین ہو رہی ہے۔ میرا۔۔۔ آہ اللہ میرا درد۔۔۔ درد زیادہ۔۔۔ ہوتاجارہا ہے۔۔۔ آہ دیکھو۔۔۔ دیکھو میرا بخار۔۔۔ آہ۔۔۔ کسی حکیم۔۔۔ کسی ڈاکٹر۔۔۔ سے۔۔۔ قرض۔۔۔ آہ اللہ۔ دوا۔۔۔ دوا۔۔۔ لے آؤ۔۔۔ میں اُف پھنکی جارہی۔۔۔ جارہی ہوں۔۔۔ آہ اللہ۔۔۔ تیری۔۔۔ تیری پناہ۔۔۔ بخار۔۔۔ آہ۔۔۔ بخار۔۔۔‘‘

    رشید کے دل پر اس وقت کیا گزر رہی تھی۔۔۔ عیش و عشرت میں بسر کرنے والے انسان اس کا احساس نہیں کرسکتے۔ چین و آرام میں دن گزارنے والے اس کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتے۔ وہ مصنف اور ادیب اس کی باریکیوں کو نہیں سمجھ سکتے، جن کی تصنیفوں نے ان کے لیے راحت و آسایش کے سامان مہیا کردیے ہیں۔۔۔ البتہ ایک وہی شاعر سمجھ سکتا ہے۔۔۔ ایک وہی شاعر دردمند، جو انقلابات زمانہ کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکا ہو، جو افکار وحوادث کے طوفان میں اپنی کشتی حیات غرق کرچکا ہو۔۔۔ صرف وہی ایک انسان۔۔۔ صرف ایسا ہی ایک انسان!

    رشید کے آنسو، طوفانی موجوں کی شکل میں اُبل پڑنے کو بحرچشم میں طلاطم مچائے ہوئے تھے لیکن وہ ضبط کر رہا تھا کہ کہیں ان آنسوؤں کی روانی میں، اس کی بیوی کی ضبط و استقلال کی طاقت بھی بہہ نہ جائے۔ رشید کے آنسو دیکھ کر کہیں غم و اندوہ کی کثرت سے اس کا دل پھٹ نہ جائے۔ اس کا سینہ پاش پاش نہ ہوجائے۔ رشید نے جواب دیا، ’’میں آخری بار اور کوشش کرکے دیکھتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکلا اور اپنے عزیز ترین دوست کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ،

    جیسے دو آسمانی روحیں انسانی لباس میں، زمین کی طرف مائل پرواز ہیں۔

    (۵)

    رشید کو اپنے دوست کے گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ اس کا دوست بیمار ہے اور بخار کی شدت سے غافل پڑا ہے، اس لیے ملاقات نہیں ہوسکتی۔ رشید کی امیدوں کا یہ آخری مرکز تھا۔ یہ آخری ذریعہ تھا جس سے وہ اپنے بیوی کی موجودہ تکلیف کو کم کرسکتاتھالیکن یہاں سے یہ یاس آگیں جواب پاکر دنیا اس کی نگاہوں میں تاریک ہوگئی اور دنیا کے رہنے والے اسے انتہائی بے رحم انسان کش نظر آنے لگے۔ وہ کثرت الم سے مغلوب ہوکر دنیا کی خونی گردشوں کو کوسنے لگا۔ وہ چرخِ کج ر فتار کی کج ر فتاریوں پر لعن طعن کرنے لگا۔ وہ خدا کی بارگاہ میں اپنے آلام و مصائب کی شکایت کرکے سرپیٹنے لگا۔ وہ اپنی زندگی کا ماتم کرنے لگا۔ وہ دنیا سے بیزار ہوگیا۔ وہ دنیا کے انسانوں سے بیزار ہوگیا۔ وہ دنیا کی ہرچیز سے بیزار ہوگیا۔ اس نے ایک خط لکھ کر دے دیا کہ جب اس کا دوست ہوش میں آئے تو اس کو دے دیا جائے۔

    وہ چلا جارہا تھا، لعن طعن کرتا۔ روتا، گلہ و شکوہ کرتا۔ وہ چلا جارہا تھا دنیا اور دنیا والوں کو کوستا اور ان کی ہجوکرتا۔ وہ چلا جارہا تھاقدرت اور قدرت کے احکام سے بغاوت کرتا۔ اپنی قسمت کی ناسازگاریوں کو ہدف ملامت بناتاہوا۔ وہ چلاجارہا تھا۔ چلتے چلتے گھر پہنچ گیا۔ اس کے چہرے پر افسردگی چھائی ہوئی تھی اور آنکھوں میں یاس و ناکامی کا غبار۔

    وہ چپکے چپکے بیوی کے بستر کے پاس چلا گیا۔ وہ سو رہی تھی۔ اس نے پہلے آہستہ سے اپنا ایک ہاتھ اس کی نبض پر رکھ کر دیکھا۔ نبض بہت تیز تھی اور اس کا سارا جسم آگ کی طرح جل رہاتھا۔ وہ ایک ٹوٹی ہوئی تپائی پر بیٹھ گیا اور ایک ہاتھ پر سر رکھ لیا۔ یکایک اس کی نظر دروازے کے پاس ایک کاغذ پر پڑی۔ اس نے کاغذ اٹھالیا۔ یہ کسی ایڈیٹر کاخط تھا جس میں حسب ذیل عبارت درج تھی،

    ’’مکرمی، حضرت رشید سلام نیاز۔ و مزاج گرامی؟

    ’سالنامہ‘ زیر ترتیب ہے۔ آپ کا مضمون نہیں آیا۔ براہِ کرم کوئی افسانہ لے کر فوراً تشریف لائیے۔ معاوضہ حسب سابق دیا جائے گا۔ اگر کوئی افسانہ موجود ہو تو اسی وقت لیتے آئیے۔‘‘

    یہ خط پڑھ کر رشید مسرور ہوگیا۔ اس کی ساری موہوم امیدوں میں مسرت کے نقوش ابھرنے لگے، اور اس کی نظروں میں ایک خوش نما منظر گردش کرنے لگا۔ کل صبح ہی اس کے پاس کچھ روپیہ آجائے گا اور وہ خاطر خواہ بیوی کاعلاج کرسکے گا۔ یہ سوچ کر وہ اٹھا۔ بیوی کی نبض دیکھی۔ اس کا بخار ویسا ہی تھا۔ بچہ سو رہاتھا۔ رشید نے قلم اور کاغذ لیا۔ چراغ قریب رکھا اور بیوی کے بستر کے سامنے کچھ فاصلے پر ایک تخت پر بیٹھ کر افسانہ لکھنے لگا۔

    اس کا دماغ افکار کی وجہ سے اس قدر پریشان تھا کہ کوئی پلاٹ ذہن میں نہ آتا تھا۔ بہت دیر تک وہ مضمون کا عنوان ہی تلاش کرتا رہا۔ آخر کار اس نے افسانے کاعنوان ’ادیب کی بیوی‘ قائم کیا اور لکھنے لگا۔ ابھی اس نے لکھنا شروع ہی کیا تھا کہ بیوی نے کروٹ لی اور ’’آہ درد‘‘ کی ایک نہایت دردناک آواز آئی۔ رشید یہ آواز سن کر تڑپ گیا۔ اس کی نظروں میں ایک خوفناک منظر پھرنے لگا اور دہشت ناک خیالات اس کو پریشان کرنے لگے۔ وہ اٹھ کر بیوی کے پاس گیا۔ اس کی نبض دیکھی، بخار میں ذرا بھی کمی نہ ہوئی تھی۔ بیوی پھر غافل ہوگئی۔ رشید کواس کے بخار کی وجہ سے تشویش ہونے لگی تاہم وہ اٹھا اور پھر آکر تخت پر بیٹھ گیا اور لکھنے لگا۔

    اس کایہ خیال تھا کہ رات بھر بیٹھ کر ایک طویل افسانہ لکھے تاکہ کافی معاوضہ ملے۔ اس نے پہلا حصہ ختم کیا اور دوسرا شروع کرنے والا تھا کہ بچے نے اماں اماں کہہ کر پکارا۔ رشید اٹھا، بچے کے پاس گیا، اسے گود میں لے لیا مگر وہ اماں اماں کرتا ہی رہا۔ رشید نے کندھے سے لگاکر سلانا چاہا لیکن وہ بھوک سے بے چین ہو رہا تھا۔ اس لیے رشید نے باقی دودھ پلانا شروع کیا۔ بمشکل تمام اس نے دودھ پیا اور سونے میں ایک گھنٹہ گزر گیا، بارہ بج چکے تھے۔

    رشید پھر تخت پر آکر بیٹھا اور لکھنے لگا۔ دوسرا حصہ بھی ختم ہوگیا اور وہ تیسرے حصے کے درمیان تک پہنچ گیا تھا۔ بیوی ’’آہ۔ اُف، درد!‘‘ کہہ کر کراہنے لگی۔ رشید پھر اٹھ کر اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا، ’’میری پیاری کیسا مزاج ہے؟‘‘ بیوی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ اپنے ہوش میں نہ تھی، اس نے ’’آہ۔ درد، اُف۔ پانی۔ پانی‘‘ کہا اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ رشید نے قریب رکھے ہوئے لوٹے سے کٹورے میں پانی لیا اور چند قطرے منہ میں ٹپکادیے۔ وہ چپ ہوگئی۔ بخار بدستور تھا۔

    رشید اپنی زندگی کو کوستا ہوا اٹھا اور پھر لکھنا شروع کردیا۔ اس مضمون میں اس نے دنیا اور دنیا کے بسنے والوں کی بے دردی اور بے رحمی کی داستان اس قدر الم ناک پیرایہ میں بیان کی تھی کہ ہر پڑھنے والا جاہل سا جاہل آدمی بھی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حقیقت میں وہ خود اپنی فلاکت اور مصائب کی کہانی تحریر کر رہا تھا۔ ایک بج گیا۔ دو بج گئے اور وہ مسلسل لکھتا رہا۔

    ’’دوفرشتے زمین کی طرف مائل پرواز تھے۔‘‘

    (۶)

    تین بج گئے اور رشید بدستور بیٹھا لکھتا رہا۔ پھر وہ اٹھا اس نے بیوی کی نبض دیکھی۔ بخار تیز ہوگیا تھا۔ وہ یہ دیکھ کر گھبراگیا اور اس کے دماغ میں ایک اضطرار پیدا ہوگیا۔ وہ سوچنے لگا، کیا اب وہ اپنے افسانے کو کبھی ختم نہ کرسکے گا؟ اس کے بعد وہ بچے کے پاس گیا۔ وہ بالکل بے حس و حرکت سو رہاتھا۔ اس نے اس کو دیکھا۔ چراغ کی ٹمٹماتی ہوئی روشنی میں بچے کا چہرہ چاند کی طرح چمک رہاتھا۔ وہ اسے محبت، ارمان اور آرزو بھری نگاہوں سے چند لمحوں تک دیکھتا رہا۔ پھر جوش محبت سے اس کے رخساروں کو، ایسے رخساروں کو جن میں معصومیت کی تجلیاں جگمگ جگمگ کر رہی تھیں، بوسہ دیا۔ اٹھ کر تخت پر آیا اور آخری بار لکھنے لگا۔ وہ افسانے کے آخری حصے تک پہنچ گیا تھا۔ اور لکھ رہا تھا،

    ’’ادیب کی عزیز ترین اور پیاری بیوی، بخار کی شدت سے تپ رہی تھی۔ اس کا روواں روواں شعلہ و شرر کی طرح گرم تھا اور وہ غافل اور خودفراموش بستر پر پڑی تھی۔ مصیبت زدہ ادیب، قریب ہی بیٹھا ہوا بارگاہِ ربّ العزت میں سربہ سجود تھا اور دعا مانگ رہا تھا۔۔۔ او پروردگار اپنی ایک ناچیز لونڈی کواس عذاب سے نجات دے، بارگاہ ربّ العزت میں اس کی دعا مقبول ہوئی اور ادیب کی بیوی نے آخری بار کہا، ’پانی۔ پانی۔‘ ادیب نے اس کے حلق میں شربت کے چند قطرے ٹپکائے اور اس کی روح فردوس کی جانب پرواز کرگئی۔‘‘

    رشید نے یہ فقرہ ختم کیا۔ گھڑی نے چار بجائے۔ سپیدۂ سحر نمودار ہوا۔ موذّن نے اذاں دی۔ رشید نے آنکھیں بند کرلیں۔ اسے ایسا معلوم ہوا جیسے زمین سے آسمان کی طرف دو فرشتے مائل پرواز ہیں۔ وہ یہ دیکھ کر چونک پڑا اور اپنی بیوی کے بستر کی طرف دوڑا۔ گھبرائے اور مبہوت انداز سے اس کی نبض پر ہاتھ رکھا۔ نبض بالکل ساکت تھی اور جسم سرد تھا۔ اس کی بیوی نے موذّن کے پہلے ’’اللہ اکبر‘‘ کے ساتھ ہی اپنی نازک، معصوم اور لطیف روح کو مخلوقاتِ آسمانی کے سپرد کردیا تھا، جو اب آسمان کی طرف صعود کرچکے تھے۔ رشید نے بیوی کے دل پر ہاتھ رکھا۔ اس کا دل خاموش تھا اور رات کی طرح ساکت۔ رشید نے آہ کہہ کر ایک چیخ ماری اور بستر کے پاس ہی گر پڑا۔

    (۷)

    آفتاب کی کرنیں اس غربت کدے پر پڑ رہی تھیں۔ دروازے پر متعدد آدمیوں کا ہجوم تھا۔ ان میں سے ایک وہ ایڈیٹر تھا جس نے رات کو خط بھیجا تھا اور اس وقت رشید سے افسانہ لینے اور اس کا معاوضہ ادا کرنے آیا تھا۔ اس مجمع میں رشید کے عزیز ترین دوست کا ملازم بھی تھا جو رشید کی خاطر ایک نوٹ لایا تھا، جو اس کے دوست نے ہوش میں آنے کے بعد خط پڑھ کر روانہ کیا تھا۔ اس میں ناظم کتب فروش کا چپراسی بھی تھا، جس کے ذمے رشید کا بقایا تھا اور جو اسے یہ بقایا دینے کو بلانے آیا تھا۔ اس میں ایک ایسا ایڈیٹر بھی تھا جس پر رشید کی علمیت اور قابلیت کی حقیقت منکشف ہوچکی تھی اور جو اب رشید کی مستقل خدمات حاصل کرنے آیا تھا اور دوسو روپیہ ماہانہ دینے کا ارادہ رکھتا تھا۔

    آخر کار دروازہ توڑا گیا۔ سب لوگ اندر داخل ہوئے۔ انہوں نے سب سے پہلے جو دل خراش منظر دیکھا، وہ ان دو بے حس و حرکت انسانوں کی نعشیں تھیں جن میں ایک آفاتِ آسمانی کی آماجگاہ بناتھا اور دوسرا انسانی مظالم، بیدردی، بے حسی اور بے رحمی کا شکار۔ یہ قلب شکن نظارہ دیکھ کر سب کے دل بھر آئے اور بعض رونے لگے۔ ایڈیٹر نے تخت پر پڑا ہوا کاغذ اٹھالیا اور بلند آواز میں پڑھنے لگا،

    ’’ایک ادیب کی بیوی۔۔۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے