Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادھ کھایا امرود

خان فضل الرحمٰن

ادھ کھایا امرود

خان فضل الرحمٰن

MORE BYخان فضل الرحمٰن

    کوئی دوسرے کے ادھ کھائے امرود کو کیوں کھانے لگا۔ جب لنکا کا کوٹ ایک مرتبہ سر ہو چکا، اس کے جید پھاٹک کھل ٹوٹ چکے، تو اس پر یورشیں کرنے میں کیا تک تھی اور حسن جہاں افراز مینو کو اس کمتری کا احساس تھا۔ سو یہی وجہ تھی کہ ہم حدیقہ والی کوٹھی کے شرقی برآمدے کی طرف شام کی چائے پر بیٹھے تو وہ کہ جس کی نظریں کبھی نچلی نہ ہوا کرتی تھیں، جب وہ سامنے بیٹھی ہوا کرتی تو ایسا محسوس ہو ا کرتا تھا جیسے اس کی آنکھیں جھلمل جھلمل کھلونے ہوں۔ اس کی آنکھیں گویا اڑتی تتلی کے پروں کی طرح رنگ پر رنگ پیش کرتی رہتیں تھیں۔ لیکن آج اس کی آنکھوں میں نچلا پن تھا اور حزیں سنجیدگی۔ ایک مرتبہ چائے پیتے ہوئے میرے منہ سے ذرا سپر سپر کی آواز نکل گئی تو وہ مجھے جھپکانے کے لیے ذرا ذرا سے سپر سپر کرکے چائے پینے لگا لیکن وہ تو ایسی خاموش رہی جیسے ماں بیٹھی ہو۔۔۔ وہ اخبار نویس اور پارلیمانی سیکرٹری سے بھی زیادہ حاضر جواب تھی۔۔۔ مگر آج تو کھسیانت سے اس کا منہ سیاہ ہوا تھا۔

    باہر بجلی چمک رہی تھی بادل ایسا گھٹا ہوا تھا کہ جیسے برسنے پر پانی نیزوں چڑھ جائےگا۔ کوٹھی کے جنوبی حصہ میں جو لوکاٹوں کی ٹکڑی تھی۔ اس کے اندھیروں میں بسیرا کرتی ہوئی سانجھ چڑیاں بول رہی تھیں۔ شرقی برآمدے کے آگے کھڑے شمر آور جھمکداسیندودے آم ہریالے ماحول میں سجل معلوم ہو رہے تھے۔ مینو کا چہرہ بھی انہیں آموں ایسا تھا۔ پچھلے سال انہیں دنوں جب تھوڑا سا برسنے کے بعد دکھنا بادلوں کو چھتر بتر کر رہی تھی تو انہیں آموں کے درمیان میں نے اس عشوہ گر سے سوال کیا تھا۔

    ’’آپ کو گندھرپ کے معنی آتے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں‘‘۔

    ’’اس کا مطلب ہے عشقیہ شادی، کیا آپ کو یہ پسند ہے؟‘‘

    ’’۔۔۔پہلے پیار اور بعد میں شادی؟‘‘

    ’’اچھا مینو تو اگر یوں ہو جائے۔۔۔ پہلے پیار بعد میں شادی اور شادی کے بعد بھی مسلسل پیار اور۔۔۔‘‘

    ’’۔۔۔۔اصل مقصد وصل دوامی ہو؟‘‘

    ’’چندے خاموش رہیے ہمیں آپ کی باتیں پسند نہیں، ہم آپ کے پاس سے ابھی ابھی جایا چاہتے ہیں۔ پھر یہ اڑنگ بڑنگ باتیں فضاؤں کو سناتے رہیےگا‘‘۔

    ’’مجھے مضطرب چھوڑ کر نہ جائیے۔۔۔نہ جائیے‘‘۔

    ’’قرائن بتاتے ہیں کہ آپ دماغی توازن کھو چکے۔ سراسیمگی بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے قیام مباح نہیں‘‘۔

    ’’آپ جیسی شستہ اور کتابی زبان کوئی نہیں بول سکتا‘‘۔

    ’’ہمیں مرزا غالب نے بھی یہی کہلا بھیجا تھا‘‘۔

    ’’دل چاہتا ہے کہ آپ کی باتیں ہی سنے جائے‘‘۔

    ’’لیکن آپ کی جانب ہمارا میلان طبیعت ہی نہیں‘‘۔

    ’’آپ سلام ناز کرکے تشریف لے جا سکتی ہیں‘‘۔

    ’’ہمیں یہ بھی گوارا نہیں‘‘۔

    ’’کچھ گوارا بھی ہے‘‘۔

    ’’کچھ بھی نہیں‘‘۔

    ’’کیوں کیا خطا کیا قصور!‘‘

    ’’نہ خطا نہ قصور، یہ ہمارا مقتضائے طبیعت ہے‘‘۔

    ’’جب سے تم منکر ہوئیں۔۔۔دل ڈوبا جا رہا ہے‘‘۔

    ’’دھڑام سے گرنے کی آواز تو ہمیں بھی آتی تھی‘‘۔

    ’’بدلی کی چھاؤں میں پھوار پڑتی ہوتی اور ہم دونوں تی منزلہ کی بارہ دری میں بیٹھے ساون کے نیزوں چڑھے ندی نالوں کو آپس میں لڑتے دیکھتے‘‘۔

    ’’آپ کے سفلی احساسات آپ کو مبارک‘‘۔

    ’’آپ کو برشگالی رات میں جھینگر بولتے ہوئے کیسے لگتے ہیں‘‘۔

    ’’جیسے بھی لگتے ہیں۔۔۔ آپ ہرزہ سرائی جاری رکھیے۔ ہم چلے‘‘۔

    مینو میری عزیز تھی، بدر بھی عزیز تھا۔ ان دونوں کی رسم منگنی تو نہ ہوئی لیکن ویسے ہر طور سے معاملہ طے ہو چکا تھا۔ بدر کو مجھ پر اس لیے ترجیح دی گئی کہ اسے فوج میں کمیشن مل گیا تھا مجھے انتخابی بورڈ والے اس لیے نہ لیتے تھے کہ مجھ میں کچھ کچھ امر دینے کا شائبہ تھا۔ صدر بورڈ نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ اس سے تو پانچ میل کی دوڑ بھی نہ دوڑی جائےگی۔ میرے متلعق ان کا اندازہ قطعی غلط تھا۔ شکار میں بدر نے مجھ سے زیادہ جفا کشی کبھی نہ دکھائی تھی۔ بلند ستانی جنگلوں میں میں نے جیٹھ کے روزے رکھتے ہوئے شکار کھیلا تھا اور بدر نے پیاس اتنی محسوس کی تھی کہ اس نے اکثر تیسرے پہر سے پہلے ہی روزے توڑ دئیے تھے۔

    یہ ابھی چھ مہینے کی بات تھی۔ بقر عید کا مہینہ تھا۔ محرم سے اگلے چاند میں بدر اور مینو کی شادی ہو جانے والی تھی کہ میں اپنے ایک اور عزیز اور بےتکلف دوست جمالی کے ساتھ کوٹلہ شاہی میں بیٹھا ہوا تھا، جاپانیوں کے جذبہ خود کشی پر گفتگو ہو رہی تھی۔ باہر گرد اٹھانے والا اندھیاؤ چل رہا تھا۔ فضا ایسی ہو رہی تھی جیسے شیطان اس میں قدیم روما کے زمانے کی رتھیں گھڑ گھڑ چلا رہے ہوں۔ ہم تیسری منزل پر تھے میرے طبیعت اتنی چلبلا رہی تھی جیسے میں کھڑکی کھول کر سر کے بل سرک کے کھڑنجے پر گر پڑوں گا۔ میرے آزار کا کوئی علاج دکھائی نہ دیتا تھا۔ پھر جمال نے کہا۔

    ’’میں یونانی، اوڈیس اور شیوا جی مرہٹہ سے زیادہ چالاک ہوں، تمہاری مینو سے شادی میری ذمہ داری ہے۔ اس کی شادی سیکنڈ لفٹیننٹ بدر سے کبھی نہ ہو سکےگی۔ گو وہ ہمارے خاندان سے ہے اور تم نہیں، سیکنڈ لفٹیننٹ بدر کو اس کی ضرورت تم سے زیادہ نہیں ہے جو اندھیاؤ چل رہا ہے، میں اسے تو روک نہیں سکتا، البتہ یہ شادی ضرور روک دوں گا۔‘‘

    جمالی نے یہ بہادرانہ الفاظ تو استعمال کردئیے تھے اوروہ تھا بھی بڑا ہی سچا اور دلاور انسان لیکن میرے دل میں اسی وقت سے یہ الجھن پیدا ہورہی تھی کہ جمال اپنا قول کیسے پورا کرےگا۔ مینو کا حاصل کرنا میرے لیے قطب تک پہنچنے سے کم نہ تھا۔ اب جمالی کے قول نے بھی ایک ایسے ہی قطب کی صورت اختیار کر لی تھی۔ ان قطبین تک پہنچنے کا کوئی ذریعہ مجھے نظر تو نہ آتا تھا۔

    جمالی کے آباؤ اجداد کبھی ملک کے تاجدار رہ چکے تھے۔ ان کی جائے پیدائش شاہی کوٹلہ میں تھی جس کے جنگی دروازے تھے اور گھوگھس بھی تھی۔ ہمارے بزرگ ان کے سپہ سالار تھے۔ ہمارا قیام حدیقہ میں تھا۔۔۔ حدیقہ چہار دیواری والے باغ کو کہتے ہیں۔ حسن جہاں افروز کا تعلق شاہی کوٹلہ والوں سے تھا۔ ان دونوں خاندانوں میں رشتے بیاہ ہورہے تھے۔ جمالی کے والد کا تنازع خطاب اور پنشن کے سلسلے میں دوسرے خاندانی دعوے داروں سے چل رہا تھا اور جب ملک کی آخری بڑی عدالت نے فیصلہ جمالی کے والد کے حق میں کر دیا تو شاہی کوٹلہ میں ایک زبردست مجلس جشن و سماع برپا ہو رہی تھی، چوٹی کی گائن طوائفیں بلائی گئیں تھیں اور سبزہ زار چوگان میں گندیری دار درباری شامیانے نصب تھے۔

    بیگمات اور معزز مہمان خواتین نوبت خانے کے بلند پھاٹک میں بیٹھی رقص و سرود سے بہرہ ور ہو رہی تھیں۔ سامنے بانگی کے کپڑے ایسا جھینا جھینا سرخ پردا پڑا ہوا تھا۔ مرغول دار پھاٹک کے پیچھے شمال میں سنگ مر مر کے کھلے فرش پر میز کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ میزوں پر طرح طرح کے ٹھنڈے مشروبات اور پان سجے ہوئے تھے۔ کہ خواتین جب چاہیں آہیں۔ حسب ضرورت شربت وغیرہ نوش جان کریں پان کھائیں، الائچی سپاری اور زردہ چاندی کے نقشین چوگھڑوں میں رکھ تھا جس کسی کو تشنگی محسوس ہوتی یہاں آتی اور جو چیز چاہتی ہے پیتی۔ اس مرمرین صحن کے ہر دو جانب شرق و غرب لال پتھر کی مرغول دروں والی ایک منزلہ عمارت تھی۔ دروں پر زری دار بینگنی پردے پڑے تھے۔ یہاں بستروں کا انتظام تھا اور اندر عودو لوبان، دار چینی اور دیگر مشمومات سے خلوت گاہیں معطر تھیں۔ جو کوئی تھک جائے یہاں آکر آرام کر سکتی تھی۔ اس چوگردہ عمارت کے شمال میں جو سہ دریاں تھیں، وہاں کنیزوں کے آرام کرنے کا بندوبست تھا۔ صحن سے جو حویلی بھی دکھائی دے رہی تھی جس کے سہ منزلہ پر بیٹھے ہوئے جمالی نے کہا تھا۔ ’’یہ جو اندھیاؤ چل رہا ہے میں اسے تونہیں روک سکتا۔ البتہ یہ شادی ضرور روک دوں گا‘‘۔میں سبزہ زار چوگان میں نصب دباری شامیانے میں بیٹھا اسی سہ منزلہ کی طرف کبھی کبھی نظریں اٹھاتا ہوا سوچ رہا تھا۔ ’’کیا جمالی اس شادی کو روک سکتا ہے؟ جس طرح چلتا ہوا اندھیاؤ نہیں رک سکتا، اسی طرح یہ بھی نہیں رک سکتی‘‘۔

    جب رات کی کمر ٹوٹی اور چاند نے مسجد سے گنبد پر سے کھیت کیا مشروبات کی دیکھ بھال کرنے والی کچھ کنیزیں تو شمالی سہ دریوں میں سو گئیں اور کچھ بلند پھاٹک کے پیل پایوں کے پاس بیٹھ کر گانا سننے لگیں تو حسن جہاں افروز مینو کو پیاس نے ستایا۔ وہ چمک دار وصلی جوتا بلا جراب پاؤں میں پہنے ہوئے صحن میں آئی۔ اس کے پاؤں گورے پن کی اور چکناہٹ میں سنگ مرمر کو مات کر رہے تھے۔ اس نے برف میں لگی ہوئی بوتل تیلی سے پی اور کچھ شربت گلاس سے پیا۔ اس وقت اس کے ذرا بھیگے بھیگے ہونٹ واقعی آب و آتش کی آمیخت کا سماں پیدا کر رہے تھے۔

    وہ واپس جانے ہی والی تھی کہ ایک لمبے تڑنگے مضبوط آدمی نے اسے اس طرح اٹھا لیا جیسے چڑی مار کبوتر کو دبوچ لے۔ حملہ آور اسے پردے پڑی ہوئی شرقی استراحت گاہ میں لے آیا۔ حملہ آور کی گرفت اتنی کڑی تھی کہ وہ مینو کو تڑپنے بھی نہ دے رہا تھا۔ پھر وہ خوب ہلکا ں کی گئی۔ اس کا جھاڑ کا آزار بند چاقو سے کاٹ ڈالا گیا۔ سنہری شلوار ایسے ہلکے رنگ کی جیسے عطر ہو۔ تار تار ہو چکی تھی کامدار قمیص کی دھجیاں اڑ گئی تھیں۔ حملہ آور نے اندر جاتے ہی روشنی گل کر دی تھی۔

    پھر ایک کنیز نے صحن میں شور مچانا شروع کر دیا۔ ڈاکو، ڈاکو بیگم مینو۔ بیگم مینو۔ دوڑیو، دوڑیو! اس شور پر بلند دروازہ میں بیٹھی تمام مستورات صحن میں ڈھوک آئیں۔۔۔ اخفائے واردات۔۔۔۔۔ ناممکن تھا حسن جہاں افروز مینو تو گویا چھاپے میں چھپ گئی تھی۔ اس کے بدنامی کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ مردوں تک خبر پہنچ گئی بےچاری خستہ اندام، دریدہ ملبوس، حسن جہاں افروز مینو کچھ ہی منٹ میں ایسی بن گئی تھی۔ جیسے ڈربے کا دروازہ بند ہو گیا ہو۔ کوئی مرغی باہر بیٹھی رہ جائے، رات کے سناٹے میں باہر بلاو پھانے لگے تو وہ چیخ پکار ہو کہ ہمسایوں کے بچے تک میں بدک بدک کر جاگ پڑیں۔ مینو کے عطرایسے ہلکے سنہرے رنگ کی شلوار سرخ ہو رہی تھی، چولی کے بٹن اور تکمے ٹوٹے ہوئے تھے۔ اس کا زعفرانی دوپٹہ، رومال، کانوں کا ایک جواہر جڑ آویزہ اور اس کے چہرے کی وغد غاہٹ یہ سب غائب تھے۔ تشہیر اتنی ہوچکی تھی کہ اس سے کوئی بھی نہ دریافت کرتا تھا۔ اس کے منہ میں بولی بھی نہ تھی۔ امرود ادھ کھایا ہو چکا تھا۔ لنکا کے کوٹ کے جید پھاٹک کھل چکے تھے۔ کنیزیں باربار حاشا رحمان، حاشا للہ کہتی پھر رہی تھیں۔

    سیکنڈ لفٹیننٹ بدر اور حسن افروز جہاں بیگم مینو کی شادی عشق و محبت کی اساس پر نہ ہورہی تھی۔ جو اس کی بناء پر عشق و محبت ہوتی تو اس کا توڑنا مشکل ہوتا اور مینو اس واقعے کی مجرم بھی گردانی نہ جا سکتی تھی۔ جو کوئی راہ جا رہا ہو۔ لیکن کوئی دوسرا اسے زبردستی پکڑ کر کچھ دیر کو راہ سے کراہ کر دے۔ تو اسے بے راہ تو نہیں کہہ سکتے۔ پر یہاں تو مسئلہ ہی دوسرا درپیش تھا۔ عورت کی عصمت ایک مرتبہ گئی تو سدا کے لیے گئی۔ ادھ کھائے امرود کا کوئی گاہک نہ تھا۔ گو رشتہ قطع کرنے کی کوئی باقاعدہ اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ لیکن بدر کی طرف سے یہ رشتہ منسوخ سمجھا گیا تھا۔ جس طرح سے ہٹلر کو کسی لیے ملک پر حملے کرنے سے پہلے الٹی میٹم کی ضرورت محسوس نہ ہوا کرتی تھی۔ اسی طرح بدر کی جانب سے اس ضمن میں کوئی اعلان متوقع نہ تھا۔ اب میرے امتحان کی گھڑی آن پہنچی تھی کہ میرا دعویٰ محبت فرضی تھا؟ کیا میں نے صرف بڑ ماری تھی۔ شاہی کوٹلہ میں بدر یا کوئی اور ادھ کھائے امرود کو قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھا تو کیا ہم اہل حدیقہ بھی انہیں کی پیروی کر رہے تھے؟

    حادثے کے اگلے دن ہی مجھ سے ملے بغیر جمالی پہاڑ پر چلا گیا تھا ورنہ اسی سے اپنے دل کی بات کرتا۔

    ادھر مینو کویہ معلوم تھا کہ میں اس کا خویش ہوں۔ اگر دنیا میں اس کی کسی مرد ذات سے کچھ تھوڑی بہت بے تکلفی تھی تو صرف مجھ سے تھی۔ میں نے خلاف تہذیب و اخلاق اس سے محبت کا اظہار تک کر دیا تھا۔ رواج کے مطابق ان دونوں خاندانوں میں بیٹی والے کسی صورت بھی بیٹے والوں کو رشتہ کی پیشکش نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس تھوڑی بے جا بےتکلفی اور منہ پھٹ پنے کی آڑ لیتے ہوئے جو میری مینو کے ساتھ تھی، وہ چاہتی تو میرا جذبہ محبت للکارا تو جا سکتا تھا کہ ’’کہیے محبت وحبت اب بھی باقی ہے یا اس کا مرنڈا بن چکا‘‘۔ اب اس کا امن میرے دل میں تھا اور یہی وجہ تھی کہ وہ میری چھوٹی بہن اور اپنی سہیلی کی معمولی سی علالت کی خبر پاکر عیادت کو پہنچی تھی۔ گوگل پارہ خانم کو صاحب فراش ہوئے دو دن ہو چکے تھے لیکن اسے نزلے کا معمولی بخار اور آدھے سر کا درد ہی تو تھا۔

    چنانچہ شام کی چائے پر جب باہر بجلی چمک رہی تھی اور بادل ایسا گھٹا ہوا تھا جیسے اب برسا، اب برسا میں اس ترک طناز کی مدامی خنداں اور تنقیدی نگاہوں میں نچلا پن دیکھ کر یہ بھانپنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ آج یہاں کس مقصد کے لیے پہنچی ہے۔ میرے دل کو یہ تسلی ہو رہی تھی کہ وہی شاخ گل جس کے لیے میں کب سے دل پر ہاتھ دھرے فقیروں کی طرح پلہ پسارے پھر رہا تھا، وہ شاخ گل شجر سے کٹ کر کسی دوسرے کے پلے میں گرنے کو اس طرح لٹک چکی ہے جیسے کسی کا زخمی ہاتھ گلجنڈرے سے کھل کر لٹک گیا ہو۔ آج وہ پلہ جس میں وہ گرا چاہتی تھی، نیچے سے ہٹا لیا گیا تھا۔ اب اسے گرنا تھا تو جوتوں کی جگہ زمین پر یا شجر پر ہی لٹکے لٹکے سوکھ جانا تھا۔ میرے خیال میں اب وہ اتنی عاجز آ چکی تھی کہ اس پس پر میری طرف جھکے کہ میں اسے گرد آلودگی سے بچانے کے لیے اپنا پلہ پسار لوں گا۔

    میں نے اسے پورے ایک سال سے نہ دیکھا تھا۔ ہمار ی آخری ملاقات حدیقہ ہی کے سیندورئیے آموں میں ہوئی تھی۔ جب وہی عشقیہ شادی کا ذکر آیا تھا۔ زیادہ عرصہ گذر جانے کے سبب اب میرے دل میں اس کی وہ تڑپن باقی نہ رہی اور میں اسی لیے متذبذب تھا کہ ایک گرے ہوئے موتی کا مول کروں یا نہ کروں پر آج جو میں نے اس کی مضمحل مضمحل صورت اور نچلی نچلی آنکھیں میز کے دوسری طرف سے دیکھیں تو اوسان بجا نہ رہے۔ میں سوچنے لگا جو وہ مجھ سے سوال کرے ’’کہیے اب آپ اس نظریے پر قائم ہیں کہ پہلے پیار اور پھر شادی؟‘‘ تو کیا میں اس کا یہ جواب دوں گا۔ ’’میں اب اس نظرئیے پر قائم نہیں ہوں‘‘۔ نہیں میرا جواب تو یہ ہونا چاہیے ’’مینو مجھے اب بھی تمہاری ویسی ہی آرزو ہے‘‘۔

    تو ہم شام کی چائے حدیقہ والی کوٹھڑی کے شرقی حصے میں پی رہے تھے جس کے آگے جھمکدار طوطا پری آمون کی زیبائش تھی۔ گل پارہ خانم کا بستر علالت انتہائی جنوبی کمرے تھا۔ مینو چائے پی کر اسی کے پاس چلی گئی تھی۔ بڑی جنوبی کھڑکی کے پاس صوفہ اس طرح سے رکھا ہوا تھا کہ وہاں بیٹھ کر باہر دیکھ سکتے تھے۔ مینو اسی صوفے پر بیٹھی پیانو بجا رہی تھی کیونکہ گل پارہ خانم کے آدھے سر میں درد ہو رہا تھا اور مینویہ کہا کرتی تھی کہ وہ ایسا پیانو بجاتی ہے کہ کیسا ہی دردسر ہو آرام ہو جاتا ہے، مریضہ کے درد سر کو آرام ہوا ہو یا نہیں، البتہ مینو نے پیانو بجا کر میزبان کو سلا ضرور دیا تھا اور تکلف میں سونا بھی آرام کے مترادف ہے، مینو نے یہ غزل چھیڑی ہوئی تھی۔

    اس کو پاکر بھی اسے پانے کی حسرت چاہیے

    وصل میں بھی چاشنیٔ درد فرقت چاہیے

    گو ہیں ان معصوم آنکھوں میں ہزاروں خوبیاں

    کچھ شرارت بھی مگر حسب ضرورت چاہیے

    اجنبیت جن کی فطرت، بےرخی جن کا شعار

    کچھ نہ کچھ ایسوں سے بھی صاحب سلامت چاہیے

    لوکاٹوں کے گھنیرے گھنیرے ماحول میں بسیرا کرتی ہوئی سانچھ چڑیاں اب بھی بول رہی تھیں۔ میرا دل مینو سے باتیں کرنے اور دیکھنے کو چاہ رہا تھا۔ یہ بات اسے خاص طور پر اور فوراً ہی سنا دینی تھی کہ میں اب بھی اپنے نظریے پر قائم ہوں اور میں وہی سوختہ سامان ہوں جسے تم یا تمہارے گھر والے مسترد کر چکے ہیں۔

    میرے قدم مجھے خودبخود لوکاٹوں کی ٹکڑی میں لے گئے اور خودبخود یا شاید مجھے کھڑکی سے وہاں دیکھ کر مینو بھی ٹیوب ویل کے پاس سے ہوتی ہوئی وہاں پہنچ گئی۔ وہ اس جھٹ پٹے کے وقت میرے ساتھ تنہا تھی۔ اوپر اب بھی سانجھ چڑیوں نے طوفان بدتمیزی مچا رکھا تھا۔ مینو کی وہاں پہنچنے کی علت میری سمجھ میں یہی آتی تھی کہ اسے مجھ سے دریافت کرنا تھا ’’کہ کہیے اب کیا ارداہ ہیں‘‘۔ ہم چند منٹ لوکاٹوں میں ٹھہرے ہوں گے، یہ اس نے کچھ کہا ہو لیکن چڑیوں کی بم چیخ نے کچھ نہ سننے دیا اور جب میں نے کچھ سناہی نہ تھا تو جواب کیا دیتا لیکن میں کچھ سنوں یا نہ سنوں۔ وہ کچھ کہے نہ کہے۔ مجھے یقین ہو گیا تھا کہ وہ میری طرف شادی کا ہاتھ بڑھا رہی ہے۔

    مینو رات بھر حدیقہ میں ٹھہر کر صبح شاہی کوٹلہ لوٹ گئی۔ اس کی اس بےتوقع آمد نے میری چاہت کو ہزار گنا رنگ دے دیا تھا۔ جب امید بر آنے لگے تو طبیعت بھڑک ہی جایا کرتی ہے۔ میں نے گل پارہ خانم کے ذریعے والدین سے کہلوایا، کہ وہ مینو کے لیے ابتداء کریں لیکن وہ تو یہ رشتہ ذرا بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ والدہ برملا کہتی تھی وہ تتلی جسے ہمارے پھولوں پر سایہ ڈالنا گوارہ نہ تھا۔ تو جب کسی کل چڑے نے اس کے پروں میں بھمبا کا کھول دیا تو اب وہ ادھر کیوں اڑ کرآنے لگی۔ فوجیوں کی کمی نہیں وہ اب بھی کوئی اور فوجی ڈھونڈ لیں‘‘۔ بس وہی ادھ کھائے امرود کا مسئلہ درپیش تھا یہ لوگ مینو کو کسی صورت بہو بنانے کو تیار نہ تھے۔

    میں نے مینو کو چٹھی لکھی، اس میں کوئی القاب نہ تھا۔

    مینو!

    تمہیں معلوم ہی ہے کہ میں تمہارے لیے کب سے بےقرار پھرتا ہوں۔ حا لانکہ تمہارے والدین مجھے مسترد کر چکے ہیں۔۔۔ اب کیا ہوگا؟ ادھر میرے گھر والے بھی نہیں مانتے تم ہی کوئی ترکیب لڑاؤ۔ یہ نہ مانیں تو نہ مانیں میں اس ضمن میں آزاد ہوں اور تم بھی۔۔۔

    مینو نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا۔ تو میں نے فون پر بات کی۔

    ’’میرا خط پہنچ گیا ہوگا؟‘‘

    ’’جی۔۔۔‘‘

    ’’اور جواب؟‘‘

    ’’ایسے خط شرمندہ جواب نہیں ہوا کرتے آپ سے خط و کتابت روا نہیں‘‘۔

    ’’تو پھر میرے گھر والے توراضی نہیں‘‘۔

    ’’کیوں؟۔۔۔۔قصور؟‘‘

    ’’جب تک ہمارے والدین رضامند نہ ہوں‘‘۔

    ’’تو میں کب تک یوں بیٹھا روتا رہوں‘‘۔

    ’’جب تک پن کال نہ پڑجائے‘‘۔

    جب میں نے یہ داستان شاہی کوٹلہ کے اسی سہ منزلہ پر بیٹھ کر ٹھنڈی ٹھنڈی بھینی بھینی مگن ہوا میں سانس لیتے ہوئے جمالی کو سنائی تو اس نے کہا۔

    ’’عالی خان! سب ٹھیک ٹھاک ہو جائےگا۔ چنانچہ اس نے میری عدم موجودگی میں کوئی جادو چلاتے ہوئے میرے والدین کو درست کر لیا۔ لیکن جب مینو کے گھر پیغام رسانی کی گئی تو وہ نہ مانتے تھے ان کا خیال تھا کہ اس طرح لڑکی سسرال میں خوش نہ رہ سکےگی۔ حدیقہ والے ہمیشہ سوچتے رہیں گے کہ ’’اس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آچکا ہے۔ یہ عفیفہ نہیں اور اسی لیے ہمارے لائق بھی نہیں ہے اسے کیوں سر منڈھا گیا۔ یہ کچوکے کس سے برداشت ہو سکیں گے؟‘‘ شادی اب پھر جوکھوں میں پڑ گئی تھی۔ جمالی مینو کے گھر جانے کو تیار نہ تھا، البتہ اس نے اس کنیز کو وہاں بھیجا جس نے مرمرین صحن میں اس رات شور مچایا تھا۔ اس کنیز کے ساتھ ایک مفصل خط مینو کا دوپٹہ، رومال اور کانوں کا ایک جواہر جڑاؤ آویزہ بھی تھا۔ اس واقعے کی تہہ میں جمالی کی تیز ذہنیت کارفرما تھی۔ یہ تکلف اس نے میرے لیے پیدا کیا تھا۔ حسن جہاں افروز بیگم مینو سمپورن تھی۔ امرود کے کسی کے ہونٹ تک مس نہ ہوئے تھے لنکا کے کوٹ میں تاحال ایک ٹانکی نہ پڑی تھی۔ یہ سارا کھیل جمالی نے اپنی بات پوری کرنے کو رچایا تھا۔

    اب عفیفہ کا رشتہ بدر سے بھی ہو سکتا تھا لیکن اس طرف جو سرد مہری برتی گئی اس نے پالا چتا دیا۔ بدر بہت تڑپا لیکن اس نے تو چراغ سے اپنی بتی خود ہی نکال لی تھی۔ اب وہ چراغ دوسرے کی بتی سے روشن ہونے والا تھا اور یہ روشنی یقیناًزیادہ اجلی اور دیرپا ثابت ہونے والی تھی۔ سیکنڈ لفٹیننٹ بدر کو دوسرا موقع کون دیتا۔

    جھر جھرے جھر جھرے سفید بادلوں میں نیلا آسمان نظر آرہاتھا۔ صحن چمن میں موسری کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ لمبے لمبے تیلیا نیلے بازؤں اور سفید پیٹ والے پہاڑی کستورے ٹڑ ٹڑ کرتے ہوئے کوٹھے کے پیش گاہ پراڑتے بیٹھتے پھررہے تھے۔ ان کی ٹڑ ٹڑ سے چاؤ کی خوشی پھوٹ رہی تھی۔ میں شام کے وقت لان میں سوگی اور کسمسایہ بیٹھا پیڈسٹل پنکھے کی ہوا کھا رہا تھا کہ جمالی نے آکر مجھے یہ فرحت آمیز خبریں سنائیں اور میں نے اس کا داہنا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر ازراہ تشکر چوم لیا جو اس کی کوشش نہ ہوتی تو معاملہ پھر کھڑاک میں پڑ گیا تھا۔ مجھے اتنی خوشی ہورہی تھی کہ جنگلی ہرن کی طرح قلانچیں بھرتا پھرنے لگوں۔

    جب اہل حدیقہ اور شاہی کوٹلہ والوں کی باہمی غلط فہمیاں دور ہو گئیں تو میں اور مینو دلہا دلہن بن گئے، میں نے اول ملاقات میں اس سے کہا۔

    ’’پہلے پیار پھر شادی اور شادی کے بعد بھی مسلسل پیار‘‘۔

    ’’پہلے تو میرا نظریہ اس سے کچھ مختلف تھا۔ اب اپنا نظریہ کوئی نظریہ نہیں رہا‘‘۔

    ’’کس لیے‘‘۔

    ’’ اس لیے کہ اب تو شرعاً و عرفاً جو آپ کا نظریہ ہے، وہی میرا بھی ہے!‘‘

    ’’پہلے تو آپ مجھے لاجواب کر لیے دیا کرتی تھیں‘‘۔

    ’’اب آپ ہی وہ دستور العمل چھوڑ چکی ہیں، اب تو لاریب آپ کی رضامیری رضا ہے اور وہ جو پہلے مجھ میں دغل فصل معلوم ہوا کرتا تھا وہ دغل فصل ہر گز نہیں تھا مجھے تو آپ سے بڑی نزدیک کی نسبت تھی آپ تو شہ رگ سے بھی زیادہ میرے قریب ہیں۔ لیکن میری جبلت تربیت، وضع داری نے مجھے جکڑ رکھا تھا۔ میں آپ کو جواب یا صواب نہیں دے سکتی تھی۔ مسیح مرد ہونے کے باوجود جب مصلوب کئے گئے تو چلائے تھے۔ آٹھ پہر ضبط کی سولی پر ہونے کے باوجود میرے منہ پر نالہ و فریاد نہ تھا۔ میں اپنے ضبط کی خود آپ کی داد دیا کرتی تھی۔ لیکن کبھی کبھی میرا قدم بھی ڈگمگانے لگتا تھا۔ مثلا جب آپ سپر سپر چائے پی رہے تھے تو آپ نے مجھے قتل ہی تو کر ڈالا تھا۔ آپ کے سپر سپر کرتے ہوئے ہونٹ کی جنبش کیا بتاؤں کیسی معلوم ہوتی تھی، بس میں بتا نہیں سکتی‘‘۔

    ’’پر آپ تو مجھے چڑانے کے لیے خود بھی سپر سپر چائے پینے لگی تھیں‘‘۔

    ’’آپ نے وہ سپر سپر تو ملاحظہ فرمائی تھی لیکن یہ ملاحظہ نہ فرمایا تھا کہ میں اپنے ہونٹ بھی تو کاٹ رہی تھی‘‘۔

    ’’لیکن جو کہیں آپ کی شادی اس فوجی سے ہو جاتی تو کیا آپ کو پھر بھی میراخیال رہ سکتا تھا؟‘‘

    ’’کبھی کبھی نہ رہ پاتی جو میں اس کی ذرا سی سرسراہٹ محسوس کرتی تو اسے اس طرح علیحدہ کر دیتی جیسے ترازو کے پلڑے سے تولا ہوا بوجھ اور میں اپنی طبیعت بدر سے ذوق و شوق کے ساتھ باندھ لیتی‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے