Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ادھوری

قرب عباس

ادھوری

قرب عباس

MORE BYقرب عباس

    اتوار کی ٹھنڈی اور مہکتی صبح تھی۔۔۔ صحن کی طرف کھلنے والی کھڑکی میں نصب شیشے کے سامنے ایک بلبل مسلسل اپنے پھیکے عکس سے لڑ رہی تھی۔ چونچ اور شیشے کے ٹکراؤ سے پیدا ہونے والی آواز کے سبب جویریا کی آنکھ کھلی تو اس نے موبائل پر وقت دیکھا۔ ابھی تو صرف سات پنتالیس بجے تھے، اس کی پیشانی پر بل آئے کیونکہ رات کئی بار اس کی نیند ٹوٹی تھی، بلبل اور شیشے کی لڑائی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس بےچینی کے باعث جو پچھلے کئی ماہ سے کسی چور کی طرح نیند کو چُرا کر وہیں کہیں گھر کے کونے کھدرے میں چھپ رہتی تھی۔

    وہ جاگنے کے بعد کچھ لمحوں کے لیے بےسدھ پڑی رہی اور پھر بستر سے نکل کر ایک گہری سی انگڑائی لے کر باتھ روم میں چلی گئی۔ آئینے کے سامنے پہنچی تو اپنے چہرے کو دائیں بائیں گھما کر دیکھا۔ گو کہ جوانی کچھ مدھم پڑ چکی تھی لیکن اپنے آپ کو مطمئن کرنے کےلیے حُسن تو اب بھی باقی تھا، ہاں مگر آنکھوں کے نیچے جو معمولی سی جھریاں اور رتجگوں کی وجہ سے کالے حلقے تھے، کچھ دنوں سے اس کی پریشانی کا باعث بنے ہوئے تھے۔

    چاہنے والوں کی فہرست میں کمی آتی جا رہی تھی۔ ان میں سے اکثر کا کہنا تھا کہ جویریہ خود پرست، منہ پھٹ، خود غرض ہونے کے ساتھ ساتھ مرد بیزار بھی ہے۔ اس کی شخصیت کے متعلق یہ قیاس آرائیاں اس لیے بھی مضبوط لگتی تھیں کہ وہ دو مرتبہ محبت اور ایک شادی کر کے اپنے ماضی کو تلخ تجربات سے گزار کر دیکھ چکی تھی۔ اس کی ایسی طبعیت میں جکڑے تجربات اس قدر بھیانک رہے تھے کہ اسے مردوں سے نفرت سی ہو گئی تھی۔

    وہ سب کچھ پانا چاہتی تھی جو اسے پسند تھا لیکن پھر بھی ایک خلاء تو ضرور تھا، وہ اس خلاء کو جان سکتی تو شاید پر کرنے میں کوئی آسانی رہتی، مشکل تو یہی تھی کہ بارہا غور کرنے کے باوجود سمجھنے سے قاصر تھی۔ دل بہلانے کے لیے بہت راستے تھے جیسا کہ ہوٹلوں میں گھومنا، بازاروں میں شاپنگ کرنا، نت نئے لباس تن پر سجانا۔ بالوں کے مختلف سٹائل بنانا۔۔۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا یہ سب بے کار لگنے لگا تھا، کیوں کہ یہ بھی تو ایک یکسانیت تھی اور یکسانیت کا جویریہ کے ساتھ کوئی جوڑ تھا ہی نہیں۔۔۔ اب تو بس دن کی رونق میں کمی سی آ گئی تھی، راتیں خاموش، خالی اور لمبی ہوتی جا رہی تھیں۔

    یونیورسٹی کے زمانے کے کئی عشاق اب بھی اسی شہر میں تھے لیکن اس کے لیے اپنی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تھک چکے تھے، کئی سال سے کسی نے اس سے رابطہ نہ کیا تھا، اس بات پر بھی اس نے غور نہیں کیا کہ سب نے اسے چھوڑا کہ اس نے سب کو چھوڑ دیا۔۔۔؟

    آج اچانک نجانے کیوں اسے اپنا چہرہ دیکھتے ہوئے سب کے خیال نے آ گھیرا تھا۔ وہ ماضی کے پرستاروں کے بارے میں سوچ کر مسکرانے لگی اس مسکراہٹ کے ساتھ ہی ایک خیال اس کے جی میں پھوٹا کہ کیوں نہ آج کسی پرانے عاشق سے ملا جائے۔۔۔ ان کی آنکھوں سے چھلکتی مستی، باتوں میں بہتی طمع کو پھر سے محسوس کیا جائے، اپنے حسن کو ایک مرتبہ پھر سے تعریف کی قیمت پر پرکھا جائے۔۔۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر واپس آکر بیڈ پر بیٹھ گئی، ریموٹ اٹھا کر ٹی۔ وی چلایا تو اس پر وائلن بج رہا تھا۔۔۔ اس کے ذہن میں اس وائلنسٹ کا خیال پیدا ہوا۔۔۔ وہی جو اپنا درد سُروں میں بھر کر اس کا دل جیتنے کی ناکام کوشش کرتا رہا تھا۔۔۔ “حارث”۔۔۔ اس نے مسکراتے ہوئے اپنا فون اٹھا کر ایک دو لوگوں سے رابطہ کر کے حارث کا نمبر لے لیا اور پھر وہ دونوں رابطے میں تھے۔

    “ہیلو۔۔۔۔”

    “ہیلو۔۔۔ جی کون۔۔۔؟”

    کیا اب ہمیں یہ بھی بتانا پڑےگا۔۔۔ جے۔ کے۔ بول رہی ہوں۔۔۔ جویریا کنول۔۔۔”

    “اوہ۔۔۔ اچھا۔۔۔ کیسی ہو جے۔ کے۔؟”

    ٹھیک ہوں۔۔۔ تم سناؤ۔۔۔ کیا ہو رہا ہے۔۔۔”

    “کچھ نہیں۔۔۔ یونہی بےکار۔۔۔”

    “ابھی تک۔۔۔؟” جویریا نے یہ کہہ کر ایک قہقہہ لگایا۔۔۔ اور پھر بولی۔ “کہاں رہ رہے ہو۔”

    “وہیں ہوں۔۔۔ اپنے گھر۔۔۔” حارث کی خشک سی آواز آئی۔۔۔

    “چلو پھر آتی ہوں۔۔۔۔ “جویریا نے یہ کہہ کر فون کاٹا اور تیار ہو کر گھر سے نکل پڑی۔

    راستے میں اس نے ان تمام باتوں کے جواب سوچ لیے تھے جو حارث کی طبیعت میں ابلنے کا امکان رکھتے تھے، وہ جانتی تھی کہ حارث دروازہ کھولتے ہی اس کے چہرے کو خاموشی کے ساتھ کچھ دیر دیکھتا رہے گا اور پھر وہ کہےگی۔۔۔ “ہیلو مسٹر۔۔۔ اندر آ سکتی ہوں یا یہاں سے ہی واپس چلی جاؤں۔۔۔؟” وہ چونکےگا اور پھر سر جھٹک کر مسکراتے ہوئے کہےگا، “آؤ ۔۔۔ آؤ۔۔۔” کچھ گھبرا سا جائےگا۔ کتنا گہرا عاشق تھا۔۔۔ بالکل فلمی مگر سچاتھا اور کھرا بھی۔۔۔

    اسے یاد آنے لگا کہ آخری مرتبہ حارث کو سات سال پہلے ایک دوست کی شادی پر دیکھا تھا۔ حارث کی نظروں میں گلہ ضرور تھا لیکن محبت ویسے ہی تازہ تھی، ہونٹوں پر لاکھ روکنے کے باوجود ایک مسکان پھوٹتی تھی۔۔۔ کچھ ناراض نارا ض سا تھا لیکن میں نے بھی کب منہ لگایا تھا۔۔۔ میں نے بھی تو ہیلو ہائے کرنے کے بعد خود کو دوسروں کے ساتھ مصروف رکھا تھا۔ اسے اگنور کرنے میں کتنا مزہ تھا، اس کی آنکھوں میں کتنی بےچینی سی بھر آئی تھی۔ اب تو اس کے پاس بہت ساری باتیں ہوں گی، بہت ساری دھنیں۔۔۔ وائلن میں ماسڑ ہو گیا ہوگا۔

    دروازے پر دستک ہوئی حارث نے دروازہ کھولا؛

    “ہیلو۔۔۔۔”

    “ہائے۔۔۔” حارث کے چہرے پر مسکان تھی تو سہی، مگر پھیکی۔ اس نے دروازہ کچھ اور کھول کر جویریا کو راستہ دیا اور پھر بولا “آؤ جے۔ کے۔”

    کچھ پل کے لیے جویریا کا دماغ کسی قسم کے خیال سے بالکل خالی ہو گیا۔ اس کے قدموں میں جو جوش تھا اس میں کمی آ گئی۔ “اتنی پھیکی مسکراہٹ؟ اتنی خالی نظریں؟” اس نے صوفے پر بیٹھتے ہی سوچا۔

    “اور کیسی ہو؟”

    حارث کی آواز پر جویریا نے مڑ کر دیکھا ، وہ فریج میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ ہاں ٹھیک ہوں۔”

    پھر وہ ایک گلاس میں اورنج جوس لے کر آیا اور جویریا کے سامنے رکھ کر سامنے والے صوفے پر نیم دراز ہو گیا۔

    “تم سناؤ۔۔۔” جویریا جوس کا گھونٹ بھر کر بولی۔

    “کیا سناؤں؟”

    “کچھ بھی سنا دو۔۔۔ تمہارے پاس باتیں کچھ کم ہیں؟ وہی سنا دو جو اکثر سناتے تھے، پیار، محبت ،عشق۔۔۔”

    وہ جویریا کی بات سن کر مسکرایا۔۔۔”وہ سب فضول سی باتیں”

    “اور تمہارا وائلن۔۔ اب تو اور ایکسپرٹ ہو گئے ہوگے۔۔ کیوں؟”

    “ہاں۔۔۔ وہ۔ سیکھنے کی بہت کوشش کی مگرسیکھ نہ پایا۔۔۔ اب کبھی کبھار ایسا کرتا ہوں کہ پل دو پل کے لیے کیس سے نکال کر اس کی گرد جھاڑتا ہوں اور بَو کو تاروں پر پھیر کر بےتکی، بے سُری سی آوازیں سن کر ہی خوش ہو جاتا ہوں، پھر اس کے بعد اسے کئی مہینوں کے لیے واپس رکھ دیتا ہوں۔

    خیر۔۔۔ چھوڑو! تمہیں بہت عرصے کے بعد آج دیکھا، سناؤ کیسی ہو؟” جویریا کو حارث کی آنکھوں میں بات کے کئی معنی دکھائی دیے۔

    “ہاں میں جانتی ہوں، وائلن تمہیں بہت پسند تھا۔”

    وہ مسکرائی”

    یاد ہے تم نے ایک مرتبہ سگریٹ سے اپنی کلائی جلا لی تھی۔۔۔ میں نے پوچھا کہ یہ کیسا پاگل پن ہے؟ تو تم کتنے فلمی انداز میں بولے تھے۔۔۔ پاگل پن نہیں جنون۔۔۔ جنون، جہاں حسن ہوگا وہاں عشق ہوگا اور جہاں عشق ہوگا وہاں جنون بھی ہوگا”

    یہ کہنے کے بعد جویریا نے قہقہہ لگایا۔ حارث کے چہرے پر بھی مدھم سی مسکان نمودار ہوئی جو جویریا کے بڑے قہقہے کو نگل گئی۔

    “اور۔۔۔ شادی کا بتاؤ۔۔۔”

    “شادی۔۔۔؟” حارث کی بھوئیں دو سوالیہ نشان بن گئیں۔

    “ہاں۔۔۔ شادی کی کہ نہیں۔”

    “ارے نہیں۔۔۔ کیا رکھا ہے شادی میں۔۔۔ جب کوئی کام والی ماسی نہیں ملے گی تو شادی کر لوں گا۔”

    جویریا ہنسی اور کچھ دیرکے لیے خاموشی سے حارث کا چہرہ تکنے لگی۔ “کیا یہ اس کی وہی آنکھیں ہیں جو میرے چہرے سے ہٹتی نہ تھیں؟ آج اتنی بے نیاز کس لیے ہیں؟ اتنی لاپروائی؟ کیا میں اس سے بھیک مانگنے آئی ہوں؟” جویریا گہری سوچ میں ڈوبی حارث دیکھ رہی تھی جو مسلسل موبائل کے ساتھ مصروف تھا۔ کمرے میں کچھ دیر کے لیے بالکل خاموشی رہی۔۔۔ گہری خاموشی جو دھیرے دھیرے جویریا کی سانسوں کے ساتھ اس کے اندر اتر رہی تھی۔

    “مسٹر میں دیواروں سے باتیں کرنے نہیں آئی۔۔۔”

    “ہوں۔۔۔؟ حارث کی نطریں موبائل پر رہیں، ہونٹوں پر مسکان آئی؛ اچھا، وہ تمہارا عاشق ملا تھا کچھ روز پہلے۔”

    “کون سا عاشق؟”

    “وہی۔۔۔ شاعر، آصف کمال”

    جویریا کچھ دیر چپ رہی” میرا ذکر تو تم دونوں نے مل کر کیا ہوگا”

    “نہیں۔ میں جلدی میں تھا۔۔۔ اور ویسے بھی اب کیا ذکر کرنا، وہ تو جوانی کی بےوقوفی تھی۔” حارث نے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا۔

    دو سانس خاموشی مزید اندر اتری۔۔۔ اور وہ بولی “کیا مجھے اس کا نمبر مل سکتا ہے؟”

    “ہاں نوٹ کرو۔”

    جویریا نے پرس میں سے موبائل نکالا اور آصف کا نمبر نوٹ کیا۔

    پھر وہی سانس سانس خاموشی۔۔۔ یہ جو بے وزن باتوں کے درمیان خاموشی کا سلسلہ تھا جویریا کو نجانے کیوں چبھ رہا تھا، اس نے دیواروں پر لگی پینٹنگز، کھڑکی سے نظر آنے والے صحن کے پودوں، کمرے میں بکھری ہوئی چیزوں، حارث کے چہرے۔۔۔ ان سب پر سے اس خاموشی کی پرتیں ہٹاہٹا کر باتیں تلاش کرنے کی ناکام کوشش کی آخر اکتا کراٹھتے ہوئے بولی۔ “مجھے چلنا چاہیے۔۔۔

    “ابھی تو آئی ہو۔۔۔” حارث بھی اٹھ کھڑا ہوا۔

    “ہاں۔۔۔ چلوں بس۔۔۔”

    “اچھا۔۔۔ ٹھیک ہے جیسے تمہاری مرضی”

    وہ حارث کے گھر سے باہر نکلی تو گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سر کو جھٹکا۔۔۔ “آخر کیوں آ گئی اس کی طرف۔۔۔؟ کیا ضرورت تھی ملنے کی، کیا سمجھتا ہوگا؟ کہ میرے پاس ملنے کو شہر میں کوئی اور نہیں تھا؟ اس کی آنکھیں کتنی خالی تھیں۔۔۔ اس کے چہرے پر وہ خوشی نہیں تھی۔۔۔ اس نے کوئی گلہ نہیں کیا، اس نے کچھ بھی تو ایسا نہیں کہا جو اکثر کہا کرتا تھا۔۔۔

    ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ سر کو ٹکا تے ہی اسے دفعتاً آصف کا خیال آیا۔۔ “اس سے اچھا تو وہی تھا۔ نظمیں لکھ لاتا تھا۔۔۔ مجھ پر نظمیں، میری آنکھوں پر، میرے چہرے پر، اپنے عشق پر۔۔۔ اس کی محبت میں سچائی تھی۔ آج بھی ملے تو دیوانہ ہو جائے۔”

    “ہیلو آصف میں جے۔کے بول رہی ہوں۔”

    دوسری طرف کچھ خاموشی رہی اور پھر آواز آئی “اچھا اچھا۔۔۔ جے۔ کے۔ کیا حال ہیں؟”

    “شکر ہے پہچانا۔ ٹھیک ہوں تم سناؤ شاعر۔۔۔”

    “ٹھیک ہوں میں بھی۔۔۔ آج کیسے اچانک؟”

    “کچھ نہیں آوارہ گردی پر نکلی ہوں سوچا تم سے بھی بات ہو جائے۔”

    “ہوں۔۔۔ اوکے۔۔۔ آجاؤ پھر۔”

    کچھ ہی دیر میں وہ آصف کے پاس تھی۔

    ادھر آصف کا چہرہ بھی بہت بدلا ہوا محسوس ہوا، بہت سنجیدہ سا۔ جویریا کو اس سے بات کرنے میں مشکل محسوس ہو رہی تھی، شاید یہ اس لیے تھا کہ کچھ دیر پہلے کڑوے تجربے کے سبب اس کے مزاج کا ذائقہ بد مزا ہو چکا تھا۔

    “اب بھی لکھتے لکھاتے ہو شاعر۔۔۔؟” اس نے اپنی انگلی میں انگوٹھی کو گھماتے ہوئے پوچھا۔

    “نہیں نہیں۔۔۔ اب تو نہیں۔۔۔ وہ تو بس ایسے ہی۔۔۔”

    “ایسے ہی۔۔۔؟ پہلے تو بہت شاعری کرتے تھے۔”

    “ہاں بےوزن اور بےکار شعر تھے۔ تم ہی تو کہتی تھیں۔”

    “ہاں تھے تو بےکار ہی۔۔۔ تمہاری آنکھیں جھیل ہیں۔۔۔ ہونٹ پھول کی پتیاں۔۔۔” جویریا نے ہنستے ہوئے جواب دیا۔

    وہ بھی مسکرایا۔ ”ہوں۔۔۔۔ کچھ ایسا ہی تھا۔۔۔”

    جویریا اس کی آنکھوں میں کچھ تلاش کر رہی تھی۔”اب نہیں ہے۔۔۔؟”

    “نہیں۔۔۔ اس عمر میں سبھی شاعری کرتے ہیں۔”

    “پر تم نے چھوڑی کیوں۔”

    “ارے ایسے ہی بس۔۔۔ شاعری میں کچھ جان ہوتی تو تم میری جان ہوتی۔” یہ کہہ کر آصف نے قہقہہ لگایا۔

    “اچھا ہے۔۔۔ یہ بھی ٹھیک تھا”

    “یہ ٹھیک تھا؟ تمہارا ٹیسٹ تو اور بھی گر گیا جے۔ کے۔” آصف کے لہجے میں بھرے طنز کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا تھا۔۔۔

    جویریا کے چہرے کے پیچھے چھپی سنجیدگی واضح ہو گئی۔

    “کیا کر رہی ہو آج کل۔۔۔۔ میاں کیا کرتے ہیں؟”

    “میاں”۔۔۔ ایک گہری آہ بھرنے کے بعد وہ بولی “مجھ سے شادی کر کے اور کسی کے ساتھ عشق لڑاتے تھے، جب میں ان کے پاس تھی، اب پتہ نہیں کیا کرتے ہیں۔۔۔ باسٹرڈ۔۔۔” ماتھے پر کئی بل بنے۔

    “کیا؟ تم سیپریٹڈ ہو؟”

    “ہاں۔۔۔ بہت سال ہوگئے۔۔۔”

    “کہیں اور شادی کر لی ہوتی۔”

    “نہیں۔۔۔

    انفیکٹ ڈونٹ وانٹ سچ ایس ہولز ان مائی لائف اینی مور۔

    In fact don’t want such assholes in my life anymore

    یہ محبتیں، شادیاں، سب جنجال ہے۔۔۔ کنٹریکٹ ہیں جو مجھ سے نہیں ہوتے”

    “ہوں۔۔۔”

    “چھوڑو اسے تم بتاؤ۔۔۔ کیا کر رہے ہو۔”

    “بس کچھ نہیں، بزنس۔۔۔ اور بیوی بچے”

    “اوہ تو شادی کر لی۔۔۔”

    “ہاں۔۔۔ کر ہی لی۔”

    “ارینج ہوگی۔”

    “نہیں نہیں۔۔۔ لو تھی، سب ٹھیک ہے، ہیپی لائف۔۔۔ دو بچے ہیں۔ آج اپنے ننھیال گئے ہیں۔”

    اچھا ہے۔۔۔”

    اس کمرے میں بھی جویریا کو وہی وحشت ناک خاموشی اترتی ہوئی محسوس ہوئی تو وہ فوراً بولی۔

    “پرانی نظمیں ہی سنا دو شاعر۔۔۔”

    “کہاں رہی ہیں۔۔۔ سب کہیں گم ہو گئیں۔۔۔ اب تو بس زندگی میں پھنسے ہوئے ہیں”

    جویریا کو اس لاپروائی پر کچھ عجیب محسوس ہوا، جو اس بار بھی اس کے اندر کو دہکا سا رہا تھا۔ اسے دوسری مرتبہ بالکل ویسی مایوسی کا سامنا کرنا پڑا تھا، اس کی انا کے پرخچے بری طرح سے اڑ رہے تھے، اس کے اندر کچھ ایسا تھا جس کی طلب ختم ہونے کی بجائے مزید بڑھنے لگی تھی۔ ماحول پر جب بھی یہ خوفناک خاموشی چھاتی تو اسے اپنی لپیٹ میں لے لیتی، وہ اس سے بجنے کی خاطر کوئی بات بھی کرتی تو وہ بھی بہت خشک سی ہو کر رہ جاتی۔ “میں یہاں کس لیے ہوں؟” اس نے خود سے سوال کیا اور پرس اٹھا کر باہر کی جانب چلنے لگی۔ چلتے چلتے ا س کے کانوں میں آواز آئی “ارے۔۔۔ جے۔ کے۔ کہاں چلیں؟ رکو تو سہی۔۔۔ ہوا کیا؟” اس نے کوئی جواب نہ دیا اور گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی سٹارٹ کی، وہاں سے دور نکل آئی۔

    دراصل وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ یہ غصہ کیسا تھا؟ بوجھ کیسا تھا؟ اس کا دل کیوں چاہ رہا تھا کہ وہ کسی ویران جگہ پر جا کر چیخے اور اتنا چیخے کہ اس کے اندر بھری خاموشی ڈر کر کہیں دور بھاگ جائے۔ کچھ بھی تھا لیکن ان سب کے بیچ میں ایک خواہش تو بہرحال پوشیدہ تھی، جو اس کے حسن کی تکمیل کے لیے ضروری تھی۔ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اسے نظر بھر کر دیکھ لیتا تو شاید اسے کچھ سکون میسر آجاتا۔ وہ ان کی اس قدر لاپروائی سے جھنجھلا گئی تھی۔

    دل پرچانے کے لیے اور کون سا ٹھکانہ بہتر تھا؟ اس نےسوچا۔۔۔ اور گاڑی سینما کی طرف دوڑائی، ٹکٹ خرید کر وہ آرام دہ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ بار بار خیالات کو جھٹک کر وہ سکرین کی طرف متوجہ ہوتی لیکن پھر گزشتہ گھنٹوں کی ساری فلم اسکے سامنے آ جاتی۔ وہ کیوں جھکی تھی؟ وہ کیوں ان کے پاس گئی تھی؟ اسے ضرورت ہی کیا تھی۔۔۔؟

    “ضرورت؟ نہیں نہیں۔۔۔ کیسی ضرورت؟ وہ برباد لوگ ہیں۔ تباہ لوگ۔۔۔ کل بھی بے کار تھے آج بھی ویسے کے ویسے ہیں، بالکل بھی نہیں بدلے۔۔۔ لیکن پھرمیں کس امید کے سہارے ان کے آس پاس منڈلا رہی تھی؟ کوئی امید نہیں۔۔۔ میں تو وقت گزاری کرنے کے لیے۔۔۔ لیکن۔۔۔ میں بھی تو بے کار ہی ہوں۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔”

    اس کے اندر تلاطم اپنے عروج پر تھا۔ اڑھائی گھنٹے کی فلم کب شروع ہوئی اور کب اس کی آنکھوں کے سامنے ختم ہو گئی کچھ پتہ نہ چلا۔۔۔ فلم بین اٹھ کر جانے لگے وہ بیٹھی انھیں تکتی رہی اور سب سے آخر میں بہت آہستہ قدموں کے ساتھ چلتی ہوئی باہر نکل آئی۔

    کچھ وقت گاڑی میں بیٹھے رہنے کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ گھر ہی جایا جائے۔۔۔ لیکن گھر بھی کیا تھا؟ وہاں بھی تو کچھ نہیں تھا۔۔۔ یہی خالی پن، یہی اداسی۔۔۔ یہی وحشت۔۔۔ کسی کے پاس جانا بھی بےکار تھا۔۔۔ اس کے اندر جو صبح تازگی بھری ہوئی تھی اب روکھے پن میں بدل گئی تھی، اسکا چہرہ جذبات سے خالی ہو چکا تھا اور آنکھیں باسی تھیں، گو کہ دھوپ ٹھنڈ ی پڑ چکی تھی لیکن جویریا کے وجود کو تلخی کے ساتھ کاٹ رہی تھی، اس نے نظر اٹھا کر سورج کی طرف دیکھا تو اس طرف سوائے ایک اندھی روشنی کے اور کچھ نہ تھا، اپنے آپ کو عاجز پایا تو اس کا جی چاہا کہ وہ سورج کو پکڑکے نیچے اتار لائے اور پاؤں سے مسلنے کے بعد زمین میں دفن کر دے۔ لیکن آج ایسا کچھ بھی تو ممکن نہ تھا جو اس کے خواہش کے مطابق ہو۔۔۔ فطرت اس کے وجود میں سے چھید کر کر کے اپنا ہونا منوانے پر تلی ہوئی تھی۔اس نے لاشعوری طور پر گاڑی کو سٹارٹ کیا اور گلوریا جینز کیفے کی طرف چل نکلی۔

    وہاں پہنچ کر اس نے اطمینان سے کافی کا کپ پیا اور ادھر ادھر بیٹھے لوگوں کو تکنے لگی۔ بالکل سامنے والی ٹیبل پر ایک نوجوان بیٹھا لڑکی کے ساتھ مسکرا کر گپیں لگا رہا تھا، خوبصورت تھا، آنکھوں میں چمک تھی۔ جویریا اس کی آنکھوں کی چمک مستعار لے کر تاریک بدن میں روشنی بھرنے کی کوشش کرنے لگی۔ لڑکے کی نظر بھی تھرکی اور جویریا سے ٹکرا گئی لیکن فوراً ہی وہ سامنے بیٹھی لڑکی کے ساتھ محوِ گفتگو ہو گیا۔۔۔ جویریا کی نظر مسلسل اس پر تھی۔ لڑکے نے دوبارہ دیکھا۔ اس مرتبہ اس کی نگاہیں کچھ زیادہ وقت کے لیے جویریا پر ٹھہریں، اسی دوران میں جویریا نے اپنے ہاتھ سے ٹشو کو میز سے نیچے گرا دیا اور پھر بہت آرام سے اٹھانے کے لیے زمین کی طرف جھکی۔۔۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ٹاپ کا گلہ بہت کھلا ہے اور نوجوان کسی صورت اپنی نظر نہیں ہٹا پائےگا۔ لیکن نوجوان نے جویریا کو دیکھا اور پھر مسکرا کر سامنے بیٹھی لڑکی سے گفتگو میں جڑ گیا۔۔۔ جویریا سیدھی ہو کر بیٹھی اور کمر کو کچھ اکڑا لیا جس سے اس کا سینہ کچھ اور باہر کو نکل آیا تھا۔۔۔ بےکار کوشش تھی۔۔۔ نوجوان نے دوبارہ اس کی طرف نہ دیکھا۔

    جویریا نے ادھر ادھر نظر گھمائی، سٹاف میں آج وہ لمبے بالوں والا لڑکا بھی تو کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔

    ہاں وہی جو اس کے ساتھ بہت مسکرا مسکرا کر باتیں کیا کرتا تھا، اس لڑکے کی مسکراہٹ قابل دید ہوا کرتی تھی۔۔۔ لیکن وہ تھا کہاں؟

    کچھ دیر وہ کافی کے خالی کپ کو گھماتی رہی پھر اٹھ کر کاؤنٹر پر چلی گئی۔

    “ایکسکیوز می۔۔۔ یہاں ایک لڑکا ہوتا ہے، لمبے بالوں والا۔۔۔

    کاؤنٹر پر کھڑی لڑکی نے مسکرا کر جواب دیا، “جی میڈم۔۔۔ شاید آپ فیصل کی بات کر رہی ہیں۔ وہ چھوڑ گیا ہے۔ کوئی کام ہے تو بتائیں۔ ہاؤ مے آئی ہیلپ یو؟”

    “نہیں کچھ نہیں۔۔۔ تھینکس۔” اتنا کہہ کر وہ وہاں سے باہر نکل آئی۔

    روشنی بجھنے لگی تھی۔ شام پورے ہنگامے کے ساتھ شہر میں اتر آئی تھی۔ گاڑیوں کا شور بڑھ چکا تھا۔ لوگوں کی طرح طرح کی آوازیں گرد و نواح میں سنائی دینے لگی تھیں۔ بکھرے بکھرے خیالات چھوٹے کیڑوں کی طرح رینگ رہے تھے، گاڑی اس کے جسم کو لیے گھر کی جانب بڑھ رہی تھی، ذہن روبوٹ کی طرح لال، پیلی ہری بتیوں کو پڑھ رہا تھا۔۔۔ مگر اس دوران وہ خود کہیں بھی موجود نہ تھی۔۔۔ اس کے اندر ایک گہری خاموشی تھی۔ ایک سناٹا تھا۔ ایک خالی پن تھا۔۔۔ ایک ادھورا پن تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اپنے عشاق سے ملنے پر ان کے کمروں میں بار بار اترنے والی خاموشی جو اس کے وجود میں اترتی رہی تھی، اندر ہی اندر پھیل کر اتنی جگہ گھیر لےگی کہ سانس تک لینا دشوار ہو جائےگا۔

    گھر آ چکا تھا، گاڑی رک چکی تھی۔۔ اور وہ سامنے لگے گیٹ کی سلاخوں کے اس پار اداسی اور سناٹے کے رقص کو دیکھ سکتی تھی۔بہت وقت وہاں بے سبب رکنے کے بعد بیابانی سے بھرے وجود کو لیے جب اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئی تو یہاں بھی ہر ایک شے خاموش تھی۔ دیواروں پر لگی اس کی سب تصویریں جیسے دھندلی سی پڑ گئی ہوں۔۔۔ اندر کی خاموشی اور کمرے میں پھیلی نیم تاریکی میں کتنی مماثلت تھی۔۔۔ سر گھما کر موجود ہر ایک چیز کو دیکھنے کے بعد ایک طرف پڑے ڈریسنگ ٹیبل کی جانب بڑھی اور اس میں نصب آئینے کے سامنے رک گئی۔

    چہرہ۔۔۔ رنگ۔۔۔ آنکھیں۔۔۔ ہونٹ۔۔۔ بال۔۔۔ سب کچھ ویسے کا ویسا ہی تو تھا۔۔۔ فرق ہوگا بھی تو اتنا زیادہ نہیں کہ لوگوں کی دلچسپی حاصل کرنے کے لیے ناکافی ہو۔ اس کے سارے ابھار تھوڑے بڑھ گئے تھے، لیکن اتنے بھدے تو بالکل بھی معلوم نہ ہو رہے تھے۔۔۔ پھر کچھ تو کم تھا۔ کہیں تو کوئی کمی رہ گئی تھی۔۔۔ اس کے ذہن میں گلوریا جینز میں بیٹھے اس لڑکے کا خیال ابھرا جس نے جویریا کے سینے کو بالکل بھی توجہ سے نہ دیکھا تھا۔۔۔ “لیکن کیوں؟ وہی سینہ تو تھا جس کو مرد کی نظر ڈوپٹے کے نیچے سے بھی پھانپ لیتی ہے۔۔۔”

    عجیب بات ہے۔۔۔ مرد عورت کے بغیر مکمل کیوں نہیں ہے، عورت مرد کے بغیر ادھوری کیوں ہے؟ یہ فطرت عجیب ہے، یہ نظام عجیب ہے اس نظام کی ڈس آرڈرنگ، بدنظمی، توڑ پھوڑ سے انسان اس قدر متاثر کیوں ہو جاتا ہے؟ وہ خیالات کے بھنور میں پھنستی چلی جا رہی تھی۔

    کیا تھا یہ۔۔۔؟ کیوں تھا۔۔۔؟فطرت اتنی بدمزاج، لاپرواہ، زورآور کیسے ہو سکتی تھی۔۔۔؟

    اس نے آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر گہری نظر سے اپنے پورے جسم کا بغور جائزہ لیا، اس کے باوجود کہیں بھی کوئی بھی گوشہ ایسا نہ ڈھونڈھ پائی جو کبھی مردوں کی توجہ کی وجہ ہوا کرتا تھا۔۔۔ آخر جھنجھلا کر ٹاپ اتاری اور ایک طرف پھینک دی ،پھر تھکے ہوئے جسم کیساتھ بستر میں گھستے ہی ساتھ پڑے تکیے کو بانہوں میں لے کر اک خلاء سا پُر کیا اور آنکھیں موند لیں۔

    تصورات کے اندھیروں میں کہیں کوئی بلبل اپنے ہی پھیکے عکس کے ساتھ لڑ رہی تھی۔۔۔ اورابھی تو بہت رات باقی تھی۔

    خاموش۔

    خالی۔

    اور لمبی رات۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے