کبھی کبھی آپ کو ایسا تو محسوس نہیں ہوتا کہ اگر آپ نے گھر خالی کر دیا ہوتا تو مشرا جی کے بچوّں کا گھر شاید نہ ٹوٹتا۔
شینا نے سعید صاحب کے چہرے کی طرف بغور دیکھا۔ اسے یقین تھا کہ اس بات کے جواب میں سعید صاحب کے ضمیر کا سارا بوجھ اس کے سامنے عیاں ہو جائےگا۔
سعید صاحب نے میز پر سے پانی کا گلاس اٹھایا اور ایک گھونٹ بھر کر واپس رکھ دیا پھر آہستہ سے روٹی کا نوالا توڑ کر ہاتھ سالن کی کٹوری کے کنارے کے قریب روک کر شینا کی رکابی کو دیکھنے لگے۔
آپ نے تو کچھ کھایا ہی نہیں۔۔۔ آپ باتوں میں اُلجھ گئیں یا پھر تکلف۔۔۔
وہ نرمی سے مسکرائے۔
کوئی مہینہ بھر پہلے شینا کی تقرری اس یونیورسٹی میں فلسفے کی ٹیچر کی حیثیت سے ہوئی تھی۔ یہ شہر اس کے گھر سے بہت دور تھا اور یونیورسٹی کی جانب سے رہائش الاٹ ہونے میں ابھی دیر تھی۔ کرائے کی رہائش کا انتظام کرنا اور پھر تنہا رہنا۔۔۔ وہ سوچ میں پڑ جاتی۔ کچھ دن سے وہ یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہوئی تھی مگر وہاں بھی آخر کب تک۔۔۔ اس سے پہلے کہ اس کی پریشانی بڑھ جاتی، سعید صاحب نے اُسے انتظام ہو جانے تک اپنے گھر میں رہنے کی دعوت دی۔ ان کے پاس دو خوابگاہوں والا فلیٹ تھا۔ بیٹی سسرال چلی گئی تھی اور اُس کا کمرہ خالی پڑا تھا۔
شینا سعید صاحب کی نیک طینت شخصیت سے پہلے ہی متاثر تھی۔ ان کی بیگم سے ملاقات ہونے کے بعد شینا نے بخوشی ان کی دعوت قبول کر لی۔
سعید صاحب ہر ایک کی مصیبت میں کام آنے کے لیے مشہور تھے۔ جہاں ان کا گھر تھا وہ جگہ بہت خوبصورت تھی۔ کشادہ چوکور پارک کے تین اطراف تعمیر کیے گئے تقریباً ایک جیسی ساخت کے مکانات۔ یعنی سامنے کی طرف مکانوں کا سلسلہ نہ تھا اور ایک کشادہ سی سڑک تھی۔ جس سے بصارت کو بھی کھلے پن کا احساس ہوتا تھا۔ کہ سڑک پر آمد و رفت محض اتنی ہی تھی جتنے لوگ ادھر ادھر رہا کرتے تھے۔
درختوں سے گھرا ہریالی سے بھرا علاقہ۔ دن بھر پرندوں کی چہچہاہٹ کانوں میں رس گھولتی معلوم ہوتی۔ ماحول پرسکون رہتا۔
سعید صاحب کا فلیٹ دوسری منزل پر تھا اور اوپر بڑی سی چھت تھی جہاں سے صرف کھلا آسمان نظر آتا۔
نچلے فلیٹ میں مشرا جی رہتے تھے، اپنی ضعیف اہلیہ کے ساتھ۔
ایک دن جب شینا یونیورسٹی سے لوٹی تو دونوں میاں بیوی باغیچے میں بیٹھے تھے۔ بانس کی پرانی کرسیوں کے سامنے بانس کی ہی گول میز پڑی تھی جس کی اوپری سطح پر کانچ لگا ہوا تھا۔ میز پر چائے کے برتن رکھے تھے۔
آداب عرض ہے بٹیا۔شینا ان کی موجودگی محسوس کر کے دائیں بائیں نہ دیکھ کر راہداری پار کر رہی تھی کہ مشرا جی نے پکار کر کہا تھا۔
جی، آداب۔ وہ دونو ں کی طرف باری باری دیکھ کر مسکرائی۔
آؤ چائے پیو ہمارے ساتھ۔ مسز مشرا نے سر اثبات میں ہلا کر کہا۔
میں کپ لاتی ہوں۔وہ کرسی سے اٹھنے لگیں۔
نہیں نہیں۔ آپ تشریف رکھئے۔۔۔ میں لاتی ہوں۔ شینا نے خوشدلی سے کہا اور گھر کے اندر کی طرف لپکی۔ اندازہ تھا کہ باورچی خانہ کہاں ہے کیونکہ دونوں منزلوں کی ساخت یکساں معلوم ہوتی تھی۔ وہ پیالی لے کر باہر آ گئی اور کرسی کھینچ کر اُن کے سامنے بیٹھ گئی۔
سعید صاحب کی رشتہ دار ہو؟مسز مشرا نے پیالی میں چائے اُنڈیلتے ہوئے پوچھا۔
جی بس۔۔۔ ایک اپنائیت سی ہے ان لوگوں کے ساتھ۔
شینا نے گردن کو ایک طرف خم دے کر نرم سے لہجے میں کہا۔
سعید صاحب کے ساتھ ہی میں بھی یونیورسٹی میں ہوں۔
شینا نے اپنی پیالی میں ایک چمچ چینی ڈال دی اور مسز مشرا نے اس میں ذرا سا دودھ انڈیل دیا۔
تمہارے آنے سے رونق سی آ گئی ہے۔ انھوں نے پر خلوص نظروں سے شینا کو دیکھا اور پیالی ہاتھ میں لے کر دونوں ہاتھوں سے شینا کو پکڑا دی۔ شینا نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ ہلکے ہلکے کانپ رہے تھے۔ اس نے جلدی سے پرچ پیالی تھام لیے۔
میں بھی آپ لوگوں سے ملنا چاہ رہی تھی مگر۔۔۔ تعارف نہیں ہوا تھا۔ اس لیے ذرا سی جھجک۔۔۔
محبت میں تعارف کی ضرورت ہی نہیں۔۔۔ بس آ جاتیں۔۔۔ مسٹر مشرا بولے۔
زینہ اترنے کی آواز آنے پر شینا نے مڑکر دیکھا۔ بیگم سعید تھیں۔
میں اپنے لیے پیالی لینے جا رہی ہوں۔۔۔ سمجھ گئی تھی کہ انکل آنٹی نے روکا ہوگا تمھیں لان میں۔وہ مسکراتی ہوئی بولیں اور باورچی خانے کی طرف مڑیں۔
صبا۔۔۔ اب دو لے آنا۔۔۔ تمہارے میاں بھی آ رہے ہوں گے۔مشرا جی کی بیگم نے آواز لگائی۔
اکثر شاموں کو ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔ ہم سب یہاں جمع ہو جاتے ہیں۔۔۔ بیگم صبا سعید نے ایک کرسی میز کی جانب کھسکاتے ہوئے کہا۔
تیس ۳۰ برس کی شناسائی ہے۔۔۔ کوئی مذاق نہیں۔ عادت سی ہو گئی ہے ان لوگوں کی۔ مشرا جی کی آواز میں کچھ سنجیدگی گھل گئی۔
اور گھر میں کون کون۔۔۔شینا نے پوچھنا چاہا تو بیگم سعید جلدی سے بولیں۔
بس یہ ہی دو ہیں اور ہم۔۔۔ کافی نہیں ہیں۔۔۔؟ انھوں نے ہلکا سا قہقہہ لگایا مگر بزرگ میاں بیوی کے چہروں پر سنجیدگی سی اتر آئی۔ لمحہ بھر بعد مسز مشرا نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی پیالی میز پر رکھ دی۔
ایک بیٹا ہے ہمارا۔۔۔ امریکہ میں رہتا ہے۔۔۔ ان کے چہرے پر ہلکی سی چمک نظر آ رہی تھی۔
دو سال پہلے آیا تھا۔۔۔ شاید اس سال بھی آئےگا۔۔۔ تمھیں ملوائیں گے اس سے۔مشرا جی نے بےتاثر چہرہ لیے کہا اور چائے پینے لگے۔ مسز مشرا نے ایک بسکٹ کے دوچار ٹکڑے کر کے دیوار کی طرف اچھال دیئے۔ادھر ایک چھوٹا سا درخت تھا۔ جو دیوار کی اونچائی سے کچھ ہی اونچا تھا۔ اس پر دو گلکچیاں بیٹھی تھیں۔ بسکٹ دیکھ کر ایک گلکچیا چہکی۔ اونچی باریک آواز میں۔۔۔ اور سب کو ہنسی آ گئی۔ دوسری پھُر سے نیچے اڑ آئی، کچھ دیر بعد پہلی بھی آ گئی۔ دونوں بسکٹ پر زور آزمائی کرنے لگیں۔
پچھلے کئی سال سے یہ مینائیں ادھر رہتی ہیں۔صبا بیگم بولیں۔
ہاں تعجب ہے۔۔۔ اور ہمیشہ دوہی نظر آتی ہیں۔مسز مشرا نے کہا۔
حالانکہ ان کا گھونسلہ بھی ہے۔۔۔ ادھر۔۔۔ اوپر اس جگہ وہ جہاں سے ایک اینٹ نکلی ہے نا۔۔۔ صبا بیگم نے کہا۔
جب ہم گھر بنا رہے تھے تو۔۔۔ کوئی۔۔۔ ۳۲ برس پہلے۔۔۔ اوپر کا لکڑی کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔۔۔ آس پاس۔۔۔ مزدوروں کے کام کرنے کے لیے۔ اسی دوران کہیں ان میناؤں نے یہاں گھونسلہ بنا دیا تھا۔ جب مکان مکمل ہو رہا تھا تو بانس کا وہ ڈھانچہ کھولنا پڑا تھا۔۔۔ دیکھا تو لکڑی اور دیوار کے درمیان۔۔۔ ایک گھونسلہ ہے۔۔۔ ریکھا کی نظر پڑی تھی۔۔۔ ورنہ مزدوروں کو تو بس اکھیڑنے کی جلدی تھی۔ مشرا جی نے بیوی کی طرف دیکھا اور گھونسلے کی طرف ہاتھ سے اشارہ کیا۔
میں نے پھر وہاں سے ایک اینٹ نکلوا کر بڑی احتیاط سے وہ گھونسلہ خالی جگہ میں منتقل کر دیا۔ مسز مشرا بولیں۔
دو انڈے بھی تھے نا اس میں۔۔۔ آپ نے بتایا تھا۔ صبا بیگم نے کہا۔
ہاں تھے تو۔۔۔ جانے کیا ہوا۔۔۔ یا تو بچے بڑے ہو کر یہیں رہتے ہیں اور ماں باپ اڑ جاتے ہیں۔۔۔ یا پھر بچےّ ہی کہیں اور اڑ جاتے ہیں۔۔۔
بچے ہی کہیں اڑ جاتے ہوں گے۔ انھوں نے ایک دبی دبی سی گہری سانس لی۔نظر تو بس یہ دو ہی مینائیں آتی ہیں۔۔۔ ہمیشہ۔
مشرا جی اور ریکھا مشرا کے ہونٹوں پر بےمعنی سی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔
کتنے اداس ہوتے ہیں ماں باپ۔
صبا بیگم اور شینا جب اوپر آ گئیں تو شینا نے کہا۔
بچے جانے کیوں چھوڑ جاتے ہیں اس طرح۔۔۔ والدین کو۔ شینا کے لہجے میں دکھ تھا۔
نہیں۔۔۔ دراصل ان کا لڑکا بہت فرمانبردار تھا۔صبا بیگم باورچی خانے کی طرف بڑھیں ۔ شینا ان کے پیچھے ہولی۔
تو پھر کیا ہوا۔۔۔ اتنی دور۔۔۔ بوڑھے ماں باپ۔ شینا نے پوچھا۔
صبا بیگم نے باورچی خانے کی کھڑکی کھول دی جو گیس کے چولہے کی دوسری طرف تھی۔ وہاں پیڑوں کی اونچی شاخیں نظر آتی تھیں۔۔۔ قریب ایک نیم کا درخت بھی تھا جس کے گھنے پتوں میں چڑیاں ادھر ادھر اُڑتی پھر رہی تھیں۔
بہت خوبصورتی سے سجایا ہے آپ نے کچن۔ شینا نے کہا۔
تیس سال سے Maintain کر رہی ہوں۔۔۔ اس گھر کو۔۔۔ یہ طاقچے تو تھے ہی نہیں۔۔۔ صبا بیگم مسکرائیں۔
اب تو گھر ایسا سنورا نہیں ہوتا۔۔۔ نغمہ ہوتی تھی تو گھر دلہن سا لگا کرتا تھا۔۔۔ اب سسرال میں۔۔۔
صبا بیگم نے دھیرے سے کہا۔
اچھا بھابی۔۔۔ مشرا جی کے بیٹے نے شادی بھی بدیس میں ہی کی ہے؟ شینا نے پوچھا۔
وہی تو دکھ کی با ت ہے۔۔۔ میں نے اسی لیے نیچے لان میں موضوع بدل دیا تھا۔۔۔ ورنہ۔
کیوں ؟
وہ اس لیے کہ اس کی بیوی اب اس کے ساتھ نہیں رہتی۔۔۔ مگر شادی اس نے اپنی مرضی سے نہیں کی تھی۔ نمرتا، مشرا جی کے دوست کی بیٹی تھی۔ برسوں سے آنا جانا تھا۔ روہت اور نمرتا میں دوستی بھی تھی۔ دونوں محنتی اور Professional تھے۔ ایک دوسرے کو سمجھتے تھے۔ گھر والوں نے شادی کر دی۔ صبا بیگم نے ریفریجیریٹر میں سے سبزی کی تھیلی نکالتے ہوئے کہا۔ شینا پرات میں آٹا نکالنے لگی۔
پھر بھابی؟
دو ڈھائی برس تو خوب جمی دونوں میں۔۔۔ پھر جانے کیا ہوا۔۔۔ نمرتا چپ چپ سی رہنے لگی۔ کبھی کبھی ان کے کمرے سے ان دونوں کی بحث کرنے کی اونچی اونچی آوازیں بھی آتیں۔۔۔ ان کا روم بالکل ہمارے بیڈروم کے نیچے والا تھا۔
جی۔۔۔ پھر کیا ہوا؟
خدا جانے کیا بات ہوئی نمرتا اکثر گھر میں نظر آنے لگی جبکہ دونوں نے ایک مشترکہ دفتر کھول رکھا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دفتر میں کچھ دوسرے لوگوں سے نمرتا کو اختلاف تھا۔۔۔ روہت اصل میں کچھ ضدی قسم کا لڑکا واقع ہوا تھا۔۔۔ ان دنوں نمرتا امید سے تھی۔ گھر میں تناؤ رہنے لگا تو۔۔۔ تو مشرا جی اور مسز مشرا اور نمرتا کے ماں باپ نے مشورہ کیا کہ دونوں کے دفتر الگ الگ ہو جائیں تو تناؤ کم ہو سکتا ہے۔ پہلے تو روہت اس بات پر راضی ہی نہیں ہوا۔ مگر بعد میں با دلِ نخواستہ مان گیا۔ طے یہ ہوا کہ نمرتا کی Delivery کے بعد Basement میں ہی اس کا دفتر کھولا جائےگا۔۔۔ پھر۔۔۔ کچھ ہفتہ دس دن سکون رہا مگر پھر تناؤ بڑھنے لگا دونوں کے والدین کے دہائیوں پرانے مراسم تھے۔ حیران تھے کہ کیا ہو گیا۔۔۔
شاید وہی Ego Clash شینا نے کہا۔
ہاں۔۔۔ ہو سکتا ہے۔۔۔ مردوں کی انا ہوتی بھی تو ان کے قد سے بڑی ہے۔۔۔ انہیں ذہین بیوی کی موجودگی میں بلاوجہ اپنی حیثیت خطرے میں نظر آتی ہے۔۔۔ حالانکہ عورت کا اس طرف دھیان جاہی نہیں سکتا۔ وہ تو ہر حال میں اپنے شوہر کو اپنے سے بہتر دیکھنا چاہتی ہے۔
مگر بھابی۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ بیوی ہی اپنی حیثیت منوانے پر تل جائے۔
ہاں۔ ہوتا ہے۔۔۔ مگر اس وقت جب مرد اس کی حیثیت کو للکارے۔
اچھا پھر کیا ہوا؟
بس دونوں کے والدین کسی طرح اس شادی کو بنائے رکھنا چاہتے تھے۔۔۔ وہ کسی طرح انھیں بچےّ کی پیدائش تک ساتھ رکھنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے کہ بعد میں بچہ خود دونوں کو قریب لے آتا۔
تو ایسا نہیں ہوا؟
نہیں۔۔۔ دونوں کے کمرے سے روز رات کو جھگڑنے کی آوازیں آتیں۔۔۔ نمرتا نے کہا کہ وہ ّبچہ ہونے تک الگ کمرے میں رہےگی۔۔۔ مگر کمرہ تو تھا ہی نہیں۔۔۔ صبا بیگم نے ایک لمبی سانس لی۔
ہم بھی بہت سمجھاتے کہ نبھ جائے مگر۔۔۔ خیر۔۔۔ ہم سے کہا گیا کہ گھر خالی کر دیں۔۔۔ سعید صاحب نے کہا کہ ٹھیک ہے۔۔۔ ہم لوگ پورے ایک مہینے بعد گھر خالی کرنے والے تھے کہ۔۔۔ اچانک ایک دن ہمارے نام عدالت کا سمن آ گیا۔۔۔صبا بیگم نے اتنا ہی کہا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ سعید صاحب لدے پھندے آ رہے تھے۔
موسم کے پہلے آم ہیں۔ سعید صاحب نے سامان بیوی کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا۔
صبا بیگم انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں:
ہاں بھائی۔۔۔ دے آیا ہوں ایک تھیلی نیچے بھی۔
وہ مسکرائے۔
شینا کا تجسّس کچھ اور بڑھ گیا تھا۔ وہ باقی حالات جانے کو بیقرار ہو گئی۔
پھر کیا ہوا بھابی؟ شینا صبا بیگم کے ہاتھ سے سامان لے کر الماریوں اور ریفریجیریٹر میں رکھنے لگی۔
پھر۔۔۔ ہم حیران کہ یہ کیسا سمن ہے۔ صبا بیگم بولیں تو سعید صاحب چونکے۔
اچھا۔۔۔ وہ بات۔۔۔ میں بتاتا ہوں۔۔۔ انہوں نے خوامخواہ سمن بھجوا دیا۔ میں نے وعدہ تو کیا ہی تھ۔۔۔ میں کبھی کوٹ کچہری کے چکر میں پڑا نہ تھا۔۔۔ حیرت میں پڑ گیا۔۔۔ اصل میں یہ سب روہت کا کیا دھرا تھا۔۔۔ وہ عجیب سرپھرا تھا۔۔۔ مجھے بھی غصہ آ گیا۔۔۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔۔۔ اب جو فیصلہ کوٹ کرےگا۔۔۔ وہی آخری ہوگا۔۔۔ شروع ہو گئیں تاریخیں۔۔۔ روہت گاڑی ڈرائیو کرتا۔۔۔ مشراجی اور مسز مشرا کچہری جانے سے پہلے مجھے بھی آواز لگاتے۔۔۔ میں بھی اسی گاڑی میں سوار۔۔۔ ساتھ ساتھ کچہری پہنچتے۔۔۔ اور وہاں الگ الگ کٹہروں میں کھڑے ہو جاتے۔
سعید صاحب نے ایک گہری سانس لی۔ بیگم نے پانی کا گلاس پکڑایا۔۔۔ سب لوگ چلتے چلتے نشست گاہ میں آ گئے۔
رنج ہوتا ہے یاد کر کے۔ وہ سر جھکا کر بولے اور صوفے پر بیٹھ گئے۔
جج نے بیان لینا شروع کیا۔مشرا جی سے پوچھا کہ کتنے افراد ہیں گھر میں تو پتہ چلا کہ چار۔ پوچھا کہ پھر کس لیے اوپری کی منزل خالی کروا رہے ہیں۔ جو لوگ پچیس سال سے رہ رہے ہیں وہ کہاں جائیں گے۔کس کے لیے چاہتے ہیں کمرے۔۔۔ تو مشرا جی بولے کہ بہو کے لیے۔۔۔ اب جج نے کہا کہ کیا بیٹا بہو دو الگ الگ کمروں میں سوئیں گے تو مشرا جی خاموش ہو گئے۔۔۔ لوگ ہنس پڑے۔۔۔ جج نے فیصلہ ہمارے حق میں سنا دیا۔۔۔
سعید صاحب کچھ مسکرا کر خاموش ہو گئے۔
کہ آپ یہیں رہیں گے۔۔۔ شینا نے کہا۔
ہاں۔۔۔ اور کیا۔۔۔
اور کرایہ؟
تیس ۳۰ سال پہلے سوا سو دیتے تھے۔۔۔ اب تین سو روپئے دیتے ہیں۔ صبا بیگم نے کہا تو دونوں میاں بیوی مسکرا دیئے۔
شام ڈھل چکی تھی۔ ایک بلبل آ کر کھڑکی کی چوکھٹ پر بیٹھ کر چہکنے لگی۔ جالی لگی کھڑکی میں سے اسے اندر بیٹھے ہوئے انسان نظر نہیں آ رہے تھے۔ اسی وقت مغرب کی اذان ہوئی تو سعید صاحب اُٹھ گئے۔
اچھا بھئی۔۔۔ ذرا نماز پڑھ لیتے ہیں۔وہ جاتے ہوئے بولے۔
شینا جیسے کہ سوچوں میں ڈوبی ہوئی تھی۔رات کے کھانے کے وقت شینا نے بات چھیڑی۔
پھر۔۔۔ نمرتا کا کیا ہوا تھا؟ اس نے صبا بیگم کی طرف دیکھا۔
نمرتا ان ہی دنوں اپنے والدین کے ہاں چلی گئی تھیں۔سعید صاحب نے کہا۔
پھر ایک دن ان لوگوں کو پتہ چلا کہ اس نے Abortion کروا لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد روہت کو امریکہ سے Offer آئی۔۔۔ اصل میں وہ اس کے لیے کافی دیر سے کوشش کر رہا تھا۔۔۔ وہ چلا گیا۔ صبا بیگم نے کہا۔
اور یوں سارا گھر بکھر گیا۔۔۔ شینا جیسے کہ اپنے آپ سے بولی۔
کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔شینا نے سر اٹھا کر سعید صاحب کو دیکھا۔
سر۔۔۔ آپ کو کبھی دکھ ہوتا ہے کہ یہ سب کیا ہوا؟ وہ آہستہ سے بولی۔
ہاں بھئی۔۔۔ اگر ادھر نہ رہ رہے ہوتے تو کم از کم یہ اپنا گھر بنانے کا خیال تو کرتے۔۔۔ نغمہ اپنے گھر کی ہو گئی۔۔۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس شہر میں کیا کریں گے۔۔۔ واپس گاؤں جائیں گے۔ گھر، زمین وغیرہ سنبھالیں گے۔ سعید صاحب کی جگہ صبا بیگم بولیں۔
تو۔۔۔ پھر یہاں کیا پتہ کیا ہو جائے۔۔۔ جب قبضہ ہی نہ رہےگا۔۔۔ کل کو نغمہ کے بچے آئیں گے۔۔۔ تو۔۔۔ شہر میں کوئی ٹھکانہ تو ہو۔۔۔ ماشاء اللہ۔۔۔ وہ امید سے ہے۔
سعید صاحب سر جھکائے آہستہ آہستہ کھانا کھاتے رہے۔
ہاں۔۔۔ صبا کو ا س بات کا بےحد غصہ ہے کہ میں نے اپنا گھر نہیں بنایا۔۔۔ بھائی اب ایسا علاقہ کہاں ملتا ا س بھیڑ بھاڑ میں۔۔۔ یہاں کی عادت ہو گئی تھی۔۔۔ کوئی جگہ جچی ہی نہیں۔۔۔ پھر۔۔۔ انھوں نے فرش کی طرف دائیں بائیں دیکھ کر کہا پھر کچھ دیر خاموش ہو گئے۔ جگ میں سے پانی گلاس میں انڈیلا۔
کبھی آپ کو۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ۔۔۔ یہ سب غلط ہوا ہے۔۔۔ ایسا ہونا نہیں چاہئے تھا۔ شینا نے آہستہ سے پوچھا۔ اسے یقین تھا کہ ساری یونیورسٹی کے دکھ درد میں سے اپنا حصہ مانگنے والے سعید صاحب ا س بات پر رنجیدہ تو ضرور ہوں گے کہ وہ برسوں کسی دوسرے کے گھر کے خوامخواہ مالک بنے رہے۔۔۔ اور حالات۔۔۔ ایسے ہو گئے۔
ہاں۔۔۔ کل کو نغمہ کے بچے اگر نانا نانی کے ساتھ کبھی شہر میں رہنا چاہیں گے۔۔۔ تو۔۔۔ کیا کروں گا۔۔۔ اس مکان نے مجھے مستقبل کے بارے میں سوچنے ہی نہیں دیا۔۔۔
وہ آہستہ سے کچھ کہتے کہتے جیسے کہ رک گئے تھے۔ شینا سمجھ گئی کہ واقعی انھیں ان حالات کا پچھتاوا ہے۔ اگر وہ براہِ راست ان سے سوال کرے گی تو یقیناً وہی بات ان کی زبان پر آئے گی جو شینا ان سے سننا چاہتی تھی۔ اس نے پہلے صبا بیگم اور پھر سعید صاحب کی طرف دیکھا کہ قانون ایک طرف مگر خود ان کا ضمیر تو کچھ اور کہتا ہوگا۔
سر اگر آپ لوگ اُس وقت گھر چھوڑ دیتے۔۔۔ تو کچھ عرصہ الگ کمرے میں بحث اور جھگڑے سے دور رہ کر شاید نمرتا کا ذہنی تناؤ کم ہو جاتا۔ اس نے صبا بیگم کی طرف دیکھا۔
ہو سکتا ہے وہ مائیکے نہ جاتی۔۔۔ اپنے بچےّ کو جنم سے پہلے۔۔۔ اور پھر دونوں میاں بیوی آخر کار بچھڑ ہی نہ جاتے۔۔۔ یا پھر۔۔۔ یا پھر روہت ہی امریکہ نہ جاتا۔۔۔ اور انکل، آنٹی۔۔۔ یوں تنہا۔۔۔
شینا آخری جملہ کہتے ہوئے اداس سی نظر آنے لگی۔ سعید صاحب نے آہستہ سے نوالا توڑا اور اسے سالن کی کٹوری کے کنارے سے ٹکا کر جانے کہاں دیکھنے لگے۔۔۔
ہاں۔۔۔ پتہ نہیں۔۔۔ مگر اکثر میرا ضمیر مجھے اس بات کے لیے کچوکتا ہے کہ میں اپنی بیٹی یا اس کے ہونے والے بچوں کے لیے۔۔۔ ایک گھر تک نہ بنوا سکا۔۔۔ وہ اداس ہو کر رک رک کر بولے۔۔۔ اور شینا حیرت زدہ سی اُنہیں دیکھتی رہ گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.