ایسی بلندی
عامرؔ کو ایم۔ اے۔ کیے ہوئے، دو سال ہو چکے تھے، بہت بھاگ دوڑ کے بعد بھی جب اسے من پسند نوکری نہ ملی تو اس نے دلی جاکر قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ بابوجی اس سے کئی بار اپنے دوست سیٹھ بہاری لال کی دوکان پر بیٹھنے کو کہہ چکے تھے جہاں اسے بارہ سوروپیے ماہوار مل سکتے تھے مگراس نے جیسی زندگی سوچی تھی اور جیسے خواب دیکھے تھے وہ بھلا بارہ سو روپیے میں کیسے پورے ہو سکتے تھے۔
بھائی بہنوں میں عامر کا تیسرا نمبر تھا۔ اس کے بعد ایک چھوٹی بہن اور تھی۔ دونوں بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی۔ چھوٹی بہن معذور تھی مگر پڑھ رہی تھی۔ بڑے بھائی سرکاری ملازم تھے اور اپنے کنبہ کے ساتھ الگ رہتے تھے۔ باپ جل نگم میں ایک چھوٹی سی جگہ پر کام کرتے تھے جنھیں ریٹائر ہوئے بھی تین سال بیت چکے تھے۔ گھر میں جوان بہن اور پھر روپیے پیسے کی تنگی کی وجہ سے وہ اب آگے پڑھنے کی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ حالانکہ اس کے دونوں بھائی خوب کمارہے تھے مگر بھابھیاں ہمیشہ پیسے کا رونا روتی رہتیں۔ اول تو وہ مشترکہ خاندان میں رہنا پسند ہی نہیں کرتی تھیں البتہ کسی فنکشن یا تیوہار پر جب بھائی ملنے آتے تو ان کے ساتھ لگ کر ضرور آ جاتیں کہ کہیں وہ ماں باپ، بھائی بہن کی محبت میں کچھ پیسے نکال کر نہ دے دیں۔ اپنے گھر کے غیر ضروری خرچے بھی انہیں اہم معلوم ہوتے اور یہاں کے اہم اخراجات بھی فضول خرچی میں شمار ہوتے۔ ماں باپ تو کبھی کچھ بولتے نہیں اور نہ ہی کچھ مانگتے۔ بھائی بھی اپنے آپ سے کچھ دینا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ ایسے میں عامر اُن سے کیا امید لگا سکتا تھا۔ اس نے اپنے دوست نرمل سے بات کی۔ اس کے ماما دلی میں رہتے تھے۔ نرمل اسے دلی لے گیا اور اپنے ماما سے ملوا دیا۔ ماما نے اس کی نوکری کی تو کوئی ذمہ داری نہیں لی مگر ہاں اتنا ضرور کیا کہ اس کی چارپائی اپنے گیرج کے ایک کونے میں ڈلوا دی۔ نرمل تو واپس آ گیا مگر عامر تگ ودو میں لگ گیا۔ صبح سوکر اٹھتا تو ذریعۂ معاش کی فکر لاحق ہو جاتی۔ ایک کپ چائے پی کر وہ کام ڈھونڈنے نکل جاتا۔ چاروں طرف بھیڑ بھاڑ میں ہرانسان بھاگتا نظر آتا۔ کسی کو کسی کی پرواہ نہ تھی۔ کوئی کسی کو پوچھنے والا نہیں۔ ایسے میں اُسے اپنا چھوٹا سا شہر بہت یاد آتا۔ ماماجی سے اس کی ملاقات دوبارہ نہیں ہوئی۔ ویسے بھی ان کے گھر کے اندر سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ کھانا بھی وہ اپنا ہی کھاتا۔ کبھی باہر کبھی اسٹوو پر کچھ پکا لیتا۔ وہ روز صبح نکلتا، سرکاری، غیرسرکاری آفسوں کی خاک چھانتا اور رات گئے بسوں کے دھکے کھاتا، مایوس واپس آتا۔
گھر سے لائے پیسے اب دھیرے دھیرے ختم ہورہے تھے۔ وہ کیا کرے؟ کہاں جائے!۔ گھر واپس جاتا ہے تو سبکی کا احساس۔ وہ بابوجی سے یہ کہہ کر چلا تھا کہ اب کچھ بن کر ہی لوٹے گا مگر یہاں تو دو وقت کی روٹی کے لالے تھے۔ بارہ سو روپیے کی نوکری اسے گھر بیٹھے مل رہی تھی، یہاں تو وہ بھی نہیں تھی۔ وہ کیا کرے! یہی سوچتا ہوا وہ گیرج پر واپس آیا۔گیرج میں گاڑی آکر کھڑی ہو چکی تھی۔ کار کے پاس اس کی چارپائی بچھی ہوئی تھی۔ پورے گیرج میں پیٹرول کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ اسے کچھ گھٹن کا احساس ہوا۔ اس کی نظر کونے میں رکھے اسٹوو اور برتنوں کی طرف گئی تو یاد آیا کہ کھانے کاسامان ختم ہو چکا ہے۔ باہر جاکر کچھ لانے کی ہمت نہ ہوئی۔ لان میں لگے نل سے اُس نے ایک بالٹی پانی لاکر منھ ہاتھ دھویا اور دو گلاس پانی پی کر لیٹ گیا۔ خالی پیٹ پانی پینے سے، پیٹ میں درد کا احساس ہوا مگر اس نے برداشت کیا۔ تھوڑی دیر بعد جب کچھ طبیعت سنبھلی تو اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ دس روپئے کا آخری نوٹ اس کے ہاتھ میں تھا۔ اگر کل بھی کچھ کام نہ ملا تو بھوکا رہنے پڑےگا؟
عامر دیر تک آنکھیں بند کیے لیٹا رہا۔ انسان کیا سوچتا ہے اور کیا ہو جاتا ہے؟ کاش اس نے بابوجی کی بات مان لی ہوتی اوراسی نوکری پر اکتفا کر لیا ہوتا!! پھرآگے بھی بڑھنے کے مواقع تھے مگر اسے تو ایک دم بلندی پر پہنچنے کی تمنا تھی۔ وہ سب کچھ ایک ساتھ حاصل کر لینا چاہتا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کو نیند نے آ گھیرا۔ اس نے اپنے آپ کو ایک عالی شان کوٹھی میں، آرام دہ بستر پر پایا۔ معطر فضا، ٹھہرے اور پرسکون ماحول میں ہر شے مہیا تھی۔ نوکر چاکر، کار، طرح طرح کے کھانے کہ اچانک بڑے زور کی گڑگڑاہٹ سنائی دی۔ وہ چونک کراٹھ بیٹھا دیکھاتو ماما جی ، کار اسٹارٹ کررہے تھے ۔ وہ جلدی سے کھڑا ہولیا ۔ ماماجی نے رسماً پوچھا ۔
’’کیوں بھئی! کہیں نوکری ملی‘‘؟
’’جی نہیں!!‘‘
’’برخوردار یہ دلی ہے، یہاں کچھ پانا اتنا آسان نہیں جتنا دور سے دکھائی دیتا ہے‘‘۔
اور وہ اپنی کار لےکر چلے گئے۔
عامر نے رات بڑی بے چینی میں گذاری۔ صبح نہا دھوکر باہر نکل آیا، پاس کے کھوکھے سے اس نے ایک پیالی چائے، ایک پاپے کے ساتھ پی اور کام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ آفسوں کا چکر تو وہ پہلے ہی کاٹ چکا تھا ہر جگہ No vacancy کا بورڈ لگا تھا۔ پھر پرائیویٹ جگہوں پر بھی باربار گیا جہاں اس جیسے کئی لوگ اپنی فائل دبائے نظر آئے۔ دن کے بارہ بج گئے تھے۔ اسے بھوک کا شدت سے احساس ہوا مگر کیا کرتا تقریباً سبھی پیسے ختم ہو چکے تھے۔ وہ فٹ پاتھ پر کچھ دیر ایسے ہی بیٹھا رہا۔ سامنے چار منزلہ عمارت میں کام چل رہا تھا۔ وہ بے ارادہ اٹھا اور دھیرے دھیرے چلتا ہوا عمارت کے قریب پہنچ گیا۔ ٹھیکہ دار مزدورروں پر برس رہا تھا۔
’’سب کام چور، نکمے ہیں کم بخت۔ ایک دن کا کام چار دن لگا دیتے ہیں۔ آج ساری اینٹیں وہاں چلی جائیں، جہاں کل چھت پڑنی ہے! سمجھے!!‘‘۔
وہ مزدوروں پر حکم لگاکر پیچھے مڑا تو عامر کو دیکھا!
’’کیا ہے؟‘‘
عامر کچھ نہ بولا۔ تھوڑا پیچھے ہٹ کر مزدوروں کو دیکھنے لگا۔ ٹھیکہ دار نے اسے غور سے دیکھا۔ دبلا پتلا جسم، میلے کپڑے، پیروں میں پھٹے جوتے، بال بکھرے ہوئے، چہرے پر کئی دنوں کے فاقے کے اثرات۔ ٹھیکہ دار نے جیسے ترس کھاکر اس سے پوچھا!
’’مزدوری چاہئے‘‘؟
عامر تھوڑی دیر اسے دیکھتا رہا پھر غیر ارادی طور پر گردن ہاں میں ہلا دی۔
’’جاؤ کام پران مزدوروں کے ساتھ لگ جاؤ‘‘۔
اس نے ہاتھ سے اوپر اشارہ کرتے ہوئے چوتھی منزل پر بنے راستے کو دکھایا۔
’’مگرہاں مزدوری آج آدھی لگے گی کیونکہ بارہ بج چکے ہیں‘‘۔ کہہ کر وہ دوسری طرف چلا گیا۔
عامر تھوڑی دیر چپ کھڑا خلا میں گھورتا رہا۔ پھر دھیرے دھیرے اس بلندی کی طرف بڑھا، جدھر مزدور سرپر سامان رکھے اوپر چلے جا رہے تھے۔
شام کو جب آدھے دن کی مزدوری چالیس روپئے ٹھیکدار نے اس کے ہاتھ پر رکھے تو دو آنسو اس کی آنکھوں سے ٹپکے اور روپیوں پر گرے۔ پتہ نہیں یہ آنسو پہلی کمائی کی خوشی کے تھے یا ان خوابوں کے ٹوٹنے کے غم کے جنھیں وہ بچپن سے دیکھتا آیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.