Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اجلی صبح کا انجام

عائشہ صدیقی

اجلی صبح کا انجام

عائشہ صدیقی

MORE BYعائشہ صدیقی

    ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور سمیٹی ہوئی پیلی سوکھی پتیاں پھر سارے آنگن میں پھیل گئیں۔ اس نے جھنجھلاکر جھاڑو پھینک دی۔ کتنی دیر سے وہ کچے صحن کو کھرچ رہی تھی۔ جگہ جگہ سے اوبڑ کھابڑ زمین۔ کہیں زمین سے جھانکتے آڑے ترچھے گمے اور کہیں منھ کھولے گڈھے۔ اس پر سے ناک تھوک کے دھبے اور سونے پر سہاگہ یہ ناس مارا نیم کا پیڑ۔ اسے اپنی ماں پر غصہ ہی تو آگیا۔ یہاں سے وہاں تک پھیلے ہوئے اس بھائیں بھائیں کرتے اجاڑ آنگن میں اس کو کسی پھل پھول کے اگانے کی روزی نہ ہوئی اور بڑا دل کرکے گایا بھی تو یہ نیم کا پیڑ جس میں پھول بھی آئیں تو ان کی خوشبو سے حلق تک کڑواہٹ گھلتی چلی جاتی ہے۔

    ماں پر اسے کوئی آج نیا غصہ نہیں آیا۔ ان کی تو بات بات پر اسے غصہ آجاتا ہے۔ سچ کبھی کبھی تو انہیں دیکھ کر ایسا جنون سوار ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ اپنی اور ان کی جان ایک کردے۔ کسی طرح یہ عذاب تو کٹے۔ ہر وقت ڈھوں ڈھوں کھانسا کرتی ہے یا پکار پکار کے جینا حرام کردیتی ہے۔

    ’’منی ذرا پانی پلادے۔‘‘

    ’’منی چولہاجلا۔‘‘

    ’’منی بٹیا کو روٹی کا ٹکڑا پکڑا دے۔‘‘

    ’’منی میری پیٹھ سہلادے، جی متلا رہا ہے۔‘‘

    منی ذرا تسلہ کھسکا دے، پیشاب کروں گی۔‘‘

    ’’منی۔۔۔ منی۔۔۔ منی۔‘‘ افوہ کان پک گئے۔ وہ سوکھی لکڑی کی طرح سلگ اٹھتی ہے۔ ’’کاہے کو ہاتھ دھوکر پڑی ہو۔۔۔ مرگئی منی۔‘‘ وہ بڑبڑاتی ہوئی اٹھتی ہے۔ بھلی بری طرح جیسے بھی بن پڑتا ہے اور جیسے طبیعت راغب ہوتی ہے سارے کام پورے کرتی ہے۔ کبھی ایک کام پورا ہوتا ہے تو دوسرا چھوٹ جاتا ہے، کبھی خود ہی سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر باہر نکل جاتی ہے اور گھنٹوں گھر میں نہیں گھستی۔ گھر میں اسے پہلے بھی اچھا نہیں لگتا تھا اور اب تو بالکل دل نہیں لگتا۔ عجیب وحشت برستی رہتی ہے، جیسے ابھی کسی کونے سے بڑے بڑے دانت نکال کر کوئی بھوت اس پر جھپٹ پڑے گا۔ کبھی کبھی منی کو لگتا ہے جیسے یہ گھر نہ ہو قبرستان ہے، جہاں سے تھوڑی دیر پہلے لوگ کسی لاوارث لاش کو دفن کرکے بے تعلق سے واپس چلے گئے ہیں۔

    ابا ٹرک چلانے کے لیے جاتے ہیں تو کئی کئی دن نہیں لوٹتے اور لوٹ کر آتے بھی ہیں تو شراب کے نشے میں جھومتے ہوئے۔ ہاں اس دن گھر میں تھوڑی چہل پہل ضرور ہوجاتی ہے۔ اس دن ببو کو بھی جانے کہاں سے خبر مل جاتی ہے اور وہ بھی آجاتا ہے۔ ویسے تو تین تین دن گزرجاتے ہیں اور اس کی صورت نظر نہیں آتی۔ اور آتا بھی ہے تو ماں کی دوا کے لیے رکھے دوچار آنے بھی چراکر لے جاتا ہے، منی بولتی ہے تو بال پکڑ پکڑ کر مارتا ہے۔ کبھی کبھی اکیلے پن سے گھبراکر اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ آجائے، چاہے اس کے ساتھ جھگڑا ہی کیوں نہ کرے۔ لیکن اس کا کوئی پتہ ٹھکانہ تو ہے نہیں۔ موٹر کے کارخانے کی نوکری سے پہلے ہی نکالا جاچکا ہے۔ سلیم میکینک کی دوکان پر وہ جم نہیں سکا۔ آخر چوٹٹے کو کوئی کیوں رکھنے لگا۔ پرزے چراکر اسے بیچنے کی لت اسے ایسے پڑی ہے کہ اب بغیر چوری کے اس کا کام نہیں چلتا۔ لیکن کیا مجال جو کبھی کچھ گھر میں لے آئے۔ بس دن بھر کے بعد جب گھر میں گھستا ہے تو سوائے کھانے کے اور کوئی سبق یاد نہیں ہوتا لیکن جس دن ابا آئیں اس دن کھانا بھی تو پیٹ بھر کر ملتا ہے۔

    اس دن چھوٹی بٹیا کو سنترے کی مٹھائی اور اماں کو بسکٹ بھی مل جاتے ہیں۔ بڑا مزہ آتا ہے۔ ابا سامنے بیٹھ جاتے ہیں اور اماں سے کہتے ہیں۔ ’ابھی کھاؤ۔ وہ چاہتے ہیں سب بسکٹ ماں کو کھلادیں لیکن نشے میں انہیں ہوش کہاں ہوتا ہے۔ وہ ان کی نظربچاکر بسکٹ سرہانے دباتی جاتی ہیں۔ اور دوسرے دن ان کے جانے کے بعد سب کو دیتی ہیں۔ ایک بار ابا نے انہیں بسکٹ چھپاتے دیکھ لیا تھا تو بہت مارا تھا۔ پیٹھ پر نیل پڑ گئے تھے۔ پہلے تو اماں چل پھر لیتی تھیں لیکن جب سے ٹانگیں بیکار ہوئیں ہیں تو کوئی چیز چھپا کر رکھنے کا سوال ہی نہیں۔ اور اب رکھیں بھی تو کیا، اب تو ابا پندرہ پندرہ دن آتے ہی نہیں۔ کبھی کسی آدمی کے ہاتھ پیسے بھجوادیتے ہیں اور کبھی کوئی دوا۔ کم یا زیادہ جتنی سمجھ میں آئے وہ حلق کے نیچے دوا اتار کر لیٹ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی زیادہ دوا پی جانے پر پڑی سوتی ہی رہتی ہیں۔

    گلی کے اس پار جہاں سے بڑا بازار شروع ہوتا ہے، گراموفون ریکارڈر اور لاؤڈاسپیکر والے کی دوکان ہے، وہ بائسکوپ کے پورے پورے ریکارڈر بجاتا ہے۔ ایسے اچھے اچھے گانے ہیں اس کے پاس، ’’جھوٹ بولے کوا کاٹے۔‘‘، ’’دم مارودم۔‘‘ اور’’میرے انگنے میں تمہارا کیا کام ہے؟‘‘ منی کو سب منھ زبانی یاد ہوگئے ہیں۔ اماں نے کئی بار منع کیا کہ وہاں نہ جایا کر لیکن منی وہاں ضرور جاتی ہے۔ ’شعلے کی اسٹوری سنتی ہے۔ اس کا دل چاہتا ہے کہ ایک بار ’بسنتی‘ کو دیکھے لیکن نہ تو اسے سنیما کا راستہ معلوم ہے اور نہ ہی اس کے پاس ٹکٹ کے پیسے ہیں۔ سب بتاتے ہیں کہ سنیما میں بہت پیسے دینا پڑتے ہیں۔ ہاں ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آتی ہے۔ لاؤڈاسپیکر کی دوکان پر جو آدمی ادھر ادھر سامان پہنچانے کا کام کرتا ہے، اسی سے کہے گی کہ اسے سنیما دکھادے۔ وہ اس پر بڑا مہربان ہے۔ وہ کبھی کبھی اسے آئس کریم لے کر کھلاتا ہے اور ہاتھ پکڑ کر اپنے برابر بٹھالیتا ہے لیکن چھوٹی بٹیا کبھی اسے وہاں زیادہ ٹکنے نہیں دیتی۔ ایسے گلا پھاڑ پھاڑ کر روتی ہے جیسے وہ منی کو مارہی تو ڈالے گا۔

    ایسے میں اسے بہت غصہ آتا ہے۔ ایک تو دن بھر کمر پر لادے لادے گھومو، پھر کسی سے بات بھی نہ کرنے دے۔ اسی لیے کبھی کبھی وہ اسے پارک کے چبوترے پر پٹخ دیتی ہے۔ بٹیا ہاتھ پھیلا پھیلا کر گود میں آنے کے لیے مچلتی ہے تو منی کو بہت مزہ آتا ہے۔ وہ اور دور بھاگ جاتی ہے۔ بٹیا مچل مچل کر چبوترے پرلوٹنے لگتی ہے تو وہ دور کھڑے ہوکر قہقہے لگاتی ہے، تب ہی یوکلپٹس کے پیڑ کے نیچے ’بھیک‘کے پیسے گنتی ہوئی ’راج رانی‘ دانت کٹکٹاکر اسے پکارتی ہے، ’’اے حرامجادی اب اسے اٹھاتی ہے کہ نہیں۔ جالم لونڈیا کی جان لیے لیتی ہے۔‘‘

    ’راج رانی‘ کو دیکھ کر اس کی سٹی گم ہوجاتی ہے۔ وہ ہنسی بھول کراس کی صورت تکنے لگتی ہے۔ سر پر بالوں کا گھونسلا۔ بڑی بڑی کیچڑ زدہ آنکھیں۔ اسے ماں یاد آنے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے ماں کی آنکھیں کلیجے میں اتری جارہی ہیں۔ وہ اس کا کلیجہ نوچ کر کھالینا چاہتی ہے۔ ہاں سچ تو ہے پتا نہیں ماں نے کچھ کھایا بھی ہوگا کہ نہیں۔ وہ کولہوں کے بل کھسک کھسک کر باورچی خانے تک آتو جاتی ہے لیکن خود کچھ پکا تو نہیں سکتی۔ ادھر کولہوں میں زخم ہوجانے کی وجہ سے اپنی جگہ سے آگے بھی کم ہی بڑھ پاتی ہے۔

    ماں کی یاد آتے ہی اس کا دل اس کھیل سے اچاٹ ہوجاتا ہے۔ وہ لپکتی جھپکتی گھر پہنچتی ہے۔ اسے لیٹا دیکھ کر وہ سکون کا سانس لیتی ہے۔ ’’شکر ہے وہ سو رہی ہے۔‘‘ منی منہ اور ران پر بھنکتی ہوئی مکھیوں کو ہنکاتی ہے اور آنکھوں کے گرد پڑجانے والے گڑھوں کو گھور کر دیکھتی ہے، ’’ہائے تم کو سویرے سے کچھ بھی کھانے کو نہیں ملا۔ ببی کے ہاتھ میں سوکھی روٹی کا ٹکڑا تھماکر وہ اسے فرش پر بٹھادیتی ہے اور گھر پر ایک نظر ڈالتی ہے جیسے میلا اجڑنے کے بعد کا منظر ہوتا ہے۔ جھوٹے برتن ادھر ادھر بکھرے ہیں۔ گھڑا ایک طرف اوندھا پڑا ہے۔ بجھے چولہے کی راکھ اڑ اڑ کر آس پاس بکھر گئی ہے۔ لنڈ منڈ درخت ساکت کھڑا ہے۔

    ’’یہ کیسا سناٹا ہے۔ میں ہوں۔ ماں ہے۔ ببی ہے۔ پھر بھی۔۔۔ پھر بھی گھر خالی خالی کیوں لگ رہا ہے۔ سب زندہ ہیں، پھر یہ میت والے گھر کا سا سوگ کیوں۔۔۔‘‘ وہ بالٹی لے کر باہر نل پر نکل جاتی ہے۔ سائیں سائیں کرتی دوپہر اب ڈھلنے کو ہے۔ نل پر کوئی نہیں ہے۔ نکڑ پر کھڑا گراموفون والا لڑکا اسے دیکھ کر لپکتا ہے۔ اور سیٹی بجاکر اپنی طرف مخاطب کرتا ہے۔۔۔

    ’’سیٹی کیوں بجاتے ہو۔ کیا منہ میں زبان نہیں؟‘‘

    ’’ارے تو میری زبان سمجھتی کہاں ہے۔ یہی تو غم ہے، ذرا مسکراکر دیکھ لے تو رانی بنادوں۔ دیکھ میں تیرے لیے کب سے چنے لیے بیٹھا ہوں اور توجھانکی تک نہیں۔‘‘ اسے ایک دم احساس ہوتا ہے کہ وہ بہت بھوکی ہے اور دنیا میں سوائے چنوں کے اسے کسی چیز سے دلچسپی نہیں۔ وہ جھپٹا مار کر اس طرح پڑیا چھینتی ہے جیسے چیل بوٹی نوچ لے جائے۔ وہ اس طرح جلدی جلدی کھانے لگتی ہے جیسے سبزی کا ٹھیلا اکیلا پاکر گائے بیل منہ مارتے ہیں۔

    ’’اب کھائے ہی جائے گی یا میری بات بھی سنے گی۔‘‘

    ’’تم کہے جاؤ میں سب سن رہی ہوں۔‘‘ وہ پھر بکر بکر منہ چلاتی ہے۔

    ’’میں سوچ رہا تھا تجھے بائسکوپ دکھلاؤں۔۔۔ چلے گی؟‘‘

    خوشی سے اس کا چہرہ کھل جاتا ہے۔ وہ ساری ہیروئینیں جنھیں پوسٹروں میں دیواروں پر چسپاں دیکھا تھا یکایک جیسے سامنے تھرکنے لگتی ہیں اور کانوں میں فلمی گانوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔ اسے احساس بھی نہیں ہوتا کہ لاؤڈاسپیکر والے لڑکے نے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا ہے تب ہی ایک تیز رفتار ٹرک سامنے کی سڑک پر شور مچاتا ہے۔ وہ بدک کر دور کھڑی ہوجاتی ہے۔

    ’’بارہ برس کی جوان گھوڑی ہوگئی اور ابھی تک سڑکوں پر دندناتی پھرتی ہے۔ خبردار جو شام کو گھر سے قدم نکالا۔ ہڈی پسلی توڑ دوں گا۔‘‘ اسے اس شور میں باپ کی آوازیں گونجتی محسوس ہوتی ہیں۔ وہ بدحواس ہوکر ادھر ادھر دیکھتی ہے اور گبھراکر بول پڑتی ہے۔

    ’’نہیں نہیں ابا ماریں گے۔ میں نہیں جاؤں گی۔‘‘

    ’’بڑا خراب ہے تیرا باپ۔ جوان لڑکی پر ہاتھ اٹھاتا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔

    ’جوان۔۔۔‘ وہ گھبراکر اپنا ہاتھ چھڑالیتی ہے۔ تو کیا۔۔۔ کیا اسی لیے یہ میرے پیچھے۔۔۔ کیا عمر کا حساب ان دس انگلیوں پر ختم ہوتے ہی جوانی آجاتی ہے۔۔۔ کیا ایسی ہی ہوتی ہیں جوان لڑکیاں؟ وہ اپنے دبلے پتلے جسم پر نظر ڈالتی ہے۔۔۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ یہ جھوٹا ہے۔‘‘ ابھی تو میرا بچپن بھی پھلا پھولا نہیں۔ یہ جوانی کہاں سے آگئی۔ وہ گھبراکر بالٹی جلدی سے اٹھاتی ہے اور گھر چل دیتی ہے۔

    روز صبح اسی طرح ہوتی ہے اور دن آنکھوں میں دھول جھونک کر گزرجاتا ہے۔ جانے کتنے دن کتنے مہینے اور سال اسی طرح گزر گئے ہیں۔ کوئی فرق نہیں ہوتا۔ بس ماں کے زخم بڑھتے جاتے ہیں اور ابا کا آنا گھٹتا جاتا ہے۔ ادھر ببو بھی کئی دن سے نہیں آیا۔ شاید کسی چوری میں جیل بھیج دیا گیا ہے۔

    ’’پانی۔۔۔ اری منی ذرا پانی پلادے۔‘‘ ماں نیم بے ہوشی میں پکارتی ہے۔ وہ قلعی اترا ہواتانبے کا کٹورا ہاتھ میں تھمادیتی ہے۔ وہ غٹ غٹ سب پانی حلق میں اتارلیتی ہے اور پھر اچانک پیٹ پکڑ لیتی ہے۔ پھر بڑی سی ابکائی کے ساتھ بھل بھل قے کردیتی ہے اور نڈھال ہوکر پڑجاتی ہے۔

    ’’لو اور کام بڑھادیا۔ اب ایک بھی تو کپڑا نہیں ہے۔ کیا پہنوگی۔‘‘ وہ جمپر اتار کر چادر جسم پر لپیٹ دیتی ہے اور ادھر ادھر خالی نظریں ڈالتی ہے۔ گھر میں کچھ بھی تو نہیں پیٹ کی آگ مٹانے کو۔ کل دوپہر میں چائے کے ساتھ روٹی کھائی تھی بس۔ اس کے بعد۔۔۔ وہ پھر نظروں سے ایک ایک ڈبے کو ٹٹولتی ہے۔

    ’’منی۔۔۔‘‘ ماں کی آواز کسی گہرے کنویں سے آتی محسوس ہوتی ہے۔

    ’’بہت بھوک لگی ہے۔۔۔‘‘ وہ اپنی ٹھیکر اسی آنکھیں پھیلاکر اسے د یکھتی ہے۔

    ’’پھر میں کیا کروں؟‘‘ وہ عجیب بے بسی سے کہتی ہے۔

    ’’تو دیکھ تو شا۔۔۔ شاید۔۔۔ بھوسی کے ڈبے میں سوکھی روٹی کا کوئی ٹکڑا پڑا ہو۔‘‘

    ’’بھوسی تو کل ہی آٹے میں ملاکر پکائی تھی۔ اب اس میں کیا ہے؟‘‘

    مجھے کچھ دے۔۔۔ دے۔۔۔ دے نہیں تو میں مر جاؤں گی۔‘‘ وہ منی کا ہاتھ سختی سے اپنے سوکھے ہاتھوں میں دبالیتی ہے۔

    ’’چھوڑو مجھے۔۔۔ میں کہاں سے لاؤں۔۔۔ میں تو خود بھوک سے۔۔۔‘‘

    ’’منی بہت۔۔۔ بہت بھوک۔۔۔‘‘

    بھوک۔۔۔ بھوک۔۔۔ بھوک فضامیں یہی آواز گونجتی رہ جاتی ہے۔ یہ آواز اسے حلقہ بناکر گھیرلیتی ہے۔ اسے سوکھے پیٹ لیے انسانی جسم اپنی طرف بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ وہ گھبراکر اپنے سامنے آنے والے جسموں کو پرے دھکیلنے لگتی ہے۔ ایک ہڈی کا سوکھا پنجر اس سے بری طرح الجھ جاتا ہے۔ وہ اپنی پوری طاقت سے اس پر دوہتڑ برسانے لگتی ہے۔ اسے اپنا کلیجہ بھی بیٹھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ کہیں یہ بھوک اسے ہی نہ کھاجائے۔ وہ اسے زور سے دھکادیتی ہے اور بے تحاشا بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ وہ بھاگتی چلی جارہی ہے، ایک شور اس کا پیچھا کر رہا ہے۔

    ’’پکڑو۔۔۔ پکڑو۔۔۔ یہ ڈائن ہے۔۔۔ اس نے اپنی بیمار ماں کو جان سے مار ڈالا اسے جیل بھیجو۔‘‘ لیکن وہ سب کی پہنچ سے دور بھاگتی چلی جارہی ہے۔۔۔ دور۔۔۔ بہت دور کسی ایسے کونے کی تلاش میں جہاں ’بھوک، بھوک‘ کا شور نہ ہو اور نہ روٹی مانگنے والے سوکھے ہاتھ۔

    پتہ نہیں دنیا میں کوئی ایسا گوشہ ہے بھی یا نہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے