اجنبی چہرے
کہانی کی کہانی
یہ ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے جسے ہمیشہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنی پہچان کے چہروں کو بھولتی جا رہی ہے۔ لوگوں کے چہروں کو یاد رکھنے کے لیے وہ ان کی باتوں کو یاد کرنے لگتی ہے۔ اسے اپنے شوہر کا چہرہ بھی بھولتا جا رہا ہے۔ ایک دن جب وہ اپنے شوہر کے کہنے پر سجتی سنورتی ہے تو اس کا شوہر کسی اور لڑکی کا نام لے دیتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس کا شوہر بھی اس کا چہرہ بھول گیا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہ سب چہرے بھول جاتی تھی۔
بیٹھے بیٹھے اچانک نمو کو یاد آتا ہے کہ وہ اپنے سب بہن بھائیوں کے چہروں کی تفصیل بھول چکی ہے۔ اب وہ کہیں مل جائیں تو جانے وہ پہچان سکے گی یا نہیں؟ کوئی اس سے پوچھ بیٹھے کہ بڑے بھائی گورے ہیں یاکالے؟ تو وہ کیا جواب دے گی۔۔۔؟ اسی لیے تو میکے جانے کے نام سے اس کا دم نکلتا تھا۔ رضا اس بات پرخوش ہوتا کہ نمو اس کی جدائی برداشت نہیں کرسکتی۔ میکے والے کہتے تھے کہ جانے کیسی محبت کرنے والی سسرال ملی ہے کہ نمو اپنا میکہ بھول گئی۔ اور وہ ڈرتی تھی کہ کسی دن وہ اماں کو نہ پہچان سکی تو۔۔۔
اپنی اسی کمزوری پر وہ سوچتے سوچتے بیمار سی رہنے لگی تھی۔
بھلا یہ بھی کوئی تک ہے کہ آپ ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے والوں کو اچانک بھولنے لگیں۔
آدمی صرف اپنے چہرے سے ہی تو پہچانا جاتا ہے۔ ورنہ دلوں کا حال تو ایکسرے سے بھی معلوم نہیں ہوتا۔ یہ کارڈیوگراف بھی کیسی اچھی چیز ہے۔ کتنی بار نمو کا جی چاہا کہ وہ دل کے کسی شدید مرض کابہانہ کرکے اپنے شوہر رضا سے کہے کہ اس کے دل کا کارڈیوگراف کرادیں۔
وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ آنکھوں کے ساتھ ساتھ کیا دل نے بھی اس کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔ سنا ہے اس مشین پر سنیما کے پردے کی طرح دل کے اندر چھپی ہوئی ایک ایک لکیر نظر آتی ہے۔ کیا پتہ اس کے دل میں بھی چھپا ہوا بہت کچھ نکلے اور وہ رضا کے آگے مزید پشیمان ہو۔
اللہ جانے یہ مرض کب اور کیسے شروع ہوا تھا۔
اسے اچھی طرح یاد تھا کہ شادی سے پہلے تو وہ ہر ایرے غیرے کو جھٹ پہچان لیا کرتی تھی۔ اسکول کے زمانے کی سہیلیاں کہیں ملتیں تو وہ ایک جھلک دیکھ کر ادھر دوڑتی۔ کوئی پاس پڑوس کی خالہ گھر میں آتیں تو انہیں ہمیشہ ان کے نام کے ساتھ مخاطب کرکے سلام کرتی۔ بڑے تاؤ کو اس نے منجھلے یا چھوٹے تاؤ نہ کہا۔ حالانکہ یہ پانچوں بھائی اس غضب کی مشابہت رکھتے تھے کہ اکثر خود ان کی بیویاں دھوکہ کھاجاتیں۔ اور تو اور بڑی آپا کی چودہ اولادوں کے ایک سے چہرے اس نے ہمیشہ الگ الگ یاد رکھے۔ جب کہ خود بڑی آپا کو یاد نہ رہتا کہ یہ منو ہے چنو۔۔۔ گڈو ہے یا پپو۔
مگر جانے اچانک کیا ہوا نمو کے دماغ کا وہ حصہ ہی کچھ خراب ہوگیا جہاں لوگوں کی صورتیں محفوظ رہا کرتی ہیں۔ اور کم بخت یہ مرض ایسا تھا کہ کسی سے کہو اور اپنا مذاق بنوالو۔
اکثر ایسا ہوا کہ اچانک رضا ڈرائنگ روم سے چلانے لگا، ’’نموذرادیکھو تو آج کون آیا ہے ہمارے گھر۔‘‘
اور نمو پر جیسے بجلی گر پڑتی۔
’’کیا آج ’وہ‘ پھر آگیا؟‘‘ کہیں اس کی زبان سے آج پھر کچھ اور نکل جائے۔۔۔ ممکن ہے رخشی ہو۔ کٹنی شادی سے پہلے رضا کا رستہ گھیرتی تھی۔
اب بھی کیا پیچھا نہ چھوڑے گی۔
من من بھر کے پاؤں رکھتی۔ اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی وہ کمرے میں پہنچتی تو اپنے سامنے ایک اجنبی عورت کو دیکھ کر اور گھبراجاتی۔
کون ہے۔۔۔ یہ کون ہے۔۔۔؟ مارے خوف کے مارے وہ کانپنے لگتی۔ سارا بدن پسینے میں بھیگ جاتا۔ اور سرخ چہرے سے چھلکتا ہوا خون چھپائے نہ چھپتا۔
’’اوئی ایسا بھی کیا دل کمزور ہوگیاہے تمہارا کہ خوشی بھی برداشت نہیں ہوتی‘‘، آنے والی بی بی ہنس ہنس کر کہتی تو نمو اور گھبراتی۔
ممانی بیگم، طاہر کی بہن۔۔۔ نہیں اس کی چھوٹی نند ہے۔ تو کیا اسے سلمیٰ کہوں؟ اپنی بے بسی پر تلملاکے وہ آنے والی سے لپٹ کر سچ مچ رونے لگتی تھی۔
’’اوئی اب بس کرو۔ تین مہینے کا بچہ بھی کوئی ایسی چیز تھا کہ تم رو رو کر اپنے آپ کو ہلکان کیے دیتی ہو۔ اللہ تمہیں اتنے بچے دے گا کہ گنتے گنتے بھول جاؤگی۔‘‘
سب ہنسنے لگتے او ر وہ گھبراکے سوچتی۔۔۔ کیا بچوں کو بھی بھول جاؤں گی! کیا مجھے اپنے بچوں کی شکلیں یاد نہ رہیں گی۔۔۔؟ اچھا تو یہ چھوٹی آپا ہیں! یا اللہ تونے سارے چہرے اتنے ایک سے کیوں کر دیے ہیں کہ الگ الگ یاد رکھنا چاہو مگر سب گھال میل ہوجاتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لو کہ بڑی آپا اور چھوٹی آپا میں بھی کوئی فرق ہے۔ بس ذرا بڑی آپا کا رنگ صاف ہے۔ مگر چھوٹی آپا کے مقابلے میں وہ کتنی موٹی ہیں، سچ مچ انھیں منوں سے تولناپڑے۔ مگر جانے کیوں نمو دونوں آپاؤں کو الگ الگ یادنہ رکھنے پاتی۔ بس صرف یہ یاد رہتا کہ چھوٹی آپا جہاں دل کے زخموں پر پھائے رکھنے میں ماہر ہیں، بڑی آپا وہیں دل پر گھاؤ لگانے سے کبھی نہیں چوکتیں۔ نمو ان دونوں بہنوں کا فرق اسی وقت جانتی جب وہ کسی سے بات کر رہی ہوں۔ ورنہ یہ ہوتا کہ چھوٹی آپا کی ناک بڑی آپا کے چہرے پر جڑجاتی۔ کبھی بڑی آپا کی آنکھیں بالکل چھوٹی آپا کی لگتیں اور وہ گھبراکے سوچتی کہ آنکھیں تو بڑی آپا کی ہیں۔ اب انہیں بڑی آپا کہوں یا چھوٹی اپیا۔۔۔
اللہ جانے باقی لوگ کس طرح ہر ہر چہرے کو الگ الگ یاد رکھتے ہیں۔ اتنے سے دماغ میں اتنی جگہ کہاں سے آجاتی ہے کہ لائبریری کی طرح ہر ہر صورت کو الگ الگ خانوں میں رکھتے پھرو۔
پھر نمو سوچتی کہ اگر کسی دن رضا کو پتہ چل جائے کہ اس کا دماغ اتنا کمزور ہے تو۔۔۔ پوری سسرال میں بات پھیل جائے گی۔ اس کی نندیں تو پہلے ہی ہر بات پر ناک بھو ں چڑھاتی ہیں۔ اب اور انگلیوں پر نچائیں گی۔۔۔ اور خود رضا۔۔۔ (جس کی وہ سر سے پیرتک ہوچکی ہے) کتنا پچھتائے گا۔ کیا اسے کوئی اچھی بھلی صحیح و سالم عورت نہ ملتی کہ اس نے مجھ ادھوری کا انتخاب کیا! اور پھر کیسا جی جان سے چاہتا ہے۔ دنیا میں ایسے مرد کتنے کم ہوں گے جو ہر بار اپنی بیوی کو دیکھ کر مسکراسکیں۔
یا پھرممکن ہے سب ہی مردوں کی یہ عادت ہوتی ہو۔
یہ مردوں کی ملتی جلتی عادتیں ہی تو انہیں الگ الگ نہیں کرپاتیں۔
یہیں پر ساری گڑبڑ ہوتی ہے۔
جب گھر میں نمو کے بیاہ کا شور مچا تو وہ لاکھ لاکھ سوچتی۔ مگر کسی ایسے مرد کا تصور زہن میں نہ آتا جو ’اس کے ‘ سوا کوئی اور ہوسکتا ہے۔ اور وہ تھک کے ہار جاتی کہ اب تو اپنے پتوار رکھ دیے ہیں چاہے نیا پار لگے کہ ڈوبے۔
جب ’وہ‘ نہیں ہے تو اب کوئی بھی سہی۔
مگر ہوا یہ کہ نمو کا دولہا ’وہ‘ نہیں تھا۔ مگر پھر بھی اسی کی طرح ہنستا، ایسی ہی باتیں کرتا۔ اسی طرح اس کی تعریف کرتا۔ یوں ہی نمو کو دیکھ دیکھ کر مسکرائے جاتا۔
نمو کو یقین ہوگیا کہ مردوں کی عادتوں اور پیار میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر اس نے خواہ مخواہ ’اس کے ‘ لیے رو رو کر جان گنوائی۔
یہی بات جب اس نے شادی کے کئی مہینے بعد اپنی ایک رازدار سہیلی آفتاب کو سنائی تو اس نے بڑے طنز کے ساتھ کہا، ’’یوں کہو تم اب اسے بھول گئیں۔ چلو اچھا ہوا۔ ورنہ عورت کے لیے زندگی بھر کسی یاد کو سنبھال سنبھال کر رکھنا بڑا کٹھن کام ہے۔‘‘
’’ارے واہ۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ میں اسے کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔!‘‘
نمو نے سوچا۔۔۔ ’’آفتاب مجھ سے جل گئی ہے۔ وہ خود بھی تو ’اس‘ پر مرتی تھی نا۔۔۔ حالانکہ میں اب بھی ’اسے ‘ دن میں دس بار یاد کرتی ہوں۔ مگر جانے کیا بات ہے کہ ’اس‘ کا تصور کرو تو رضا کے نقش ابھرنے لگتے ہیں۔
پھر ایک دن وہ اکیلی گھر میں بیٹھی ننھے ننھے کپڑے سی رہی تھی کہ کسی نے دروازے پر دستک دی۔
لو بھلا۔۔۔ ایسے وقت مجھے اٹھانے کون آگیا۔۔۔ وہ اپنے پیٹ کا منو بوجھ اٹھائے گئی اور دروازہ کھول کر پوچھ بیٹھی،
’’آپ۔۔۔؟ آپ کون ہیں۔۔۔؟‘‘
’اس‘ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس گردن جھکائے واپس چلا گیا۔
تب نمو نے سوچا۔۔۔ یہ تو وہی تھا۔۔۔ بالکل وہی۔۔۔ مگر شاید ’وہ‘ نہ ہو۔
تو پھر ’وہ‘ واپس کیوں چلا گیا! میری حالت بھی تو ایسی ہو رہی ہے، وہ منہ نہ پھیر لیتا تو کیا کرتا۔ مگر میں نے اسے پہچانا کیوں نہیں۔۔۔! ہائے میری آنکھوں کو کیا ہوگیا تھا۔ کہیں ایسا تو نہ ہو کہ میں اب سب ہی صورتیں بھولنے لگوں؟ اور وہی ہوا۔۔۔ وہ دن اور آج کا دن، نمو کے ذہن سے ہر چہرہ محو ہونے لگا۔ صرف زبان سے کہی ہوئی بات یاد رہتی۔ یا دل پرلگائے ہوئے زخم نہ سوکھتے۔ باقی صورتیں تو سب کی ایک سی تھیں۔ جانے کیسے لوگ صورت دیکھ کر اپنے دوست دشمن کو پہچان لیتے ہیں۔ اسے تو سب چہرے ایک سے لگتے تھے۔ اپنے آس پاس کے نام وہ بار بار زبان سے دہراکے یاد کرتی جاتی تھی کہ فلاں آدمی وہی ہے یا کوئی دوسرا ہے۔
نمو کو لوگوں کی یادداشت پر رشک آتا تھا کہ دیکھتے ہی ہر آدمی کو پہچان لیتے ہیں۔ اور ایک وہ خود ہے کہ دیوانوں کی طرح ہر طرف جانے کسے ڈھونڈے جاتی تھی۔ ایک بار یونہی خود کو نہ پہچاننے پر اس کی نند نے طنز کیا تھا،
’’بھابی کی نظروں میں تو بس ایک ہی صورت بس گئی ہے۔ اب کوئی اور کیوں نظر آئے گا۔۔۔!‘‘
نمو جانتی تھی کہ اس کی چھری کی طرح کٹیلی نند کو اپنے بھائی کے چھن جانے کا بڑا دکھ ہے اور وہ معصوم سمجھتی ہے کہ ہرعورت کی نظروں میں صرف اس کا شوہر ہی بسا ہوتا ہے۔
حالانکہ جو چیز سامنے ہو اسے کوئی کیوں ڈھونڈنے میں جان گنوائے گا۔ مگر یہ بات اپنی نند سے کہنے کی تو نہ تھی۔ لوگوں کو تو طعنے دینے سے کام تھا۔۔۔ ’’ارے اب تو بڑی بیگم صاحب بن گئی ہیں نجمہ بیگم۔ بھلا ہمیں کیوں یاد کریں گی۔ اتنے قیمتی زیور کپڑوں میں چھپ کر غریب آدمی کب یاد رہتے ہیں۔۔۔!‘‘
’’خدا کے لیے ایسا نہ کہو۔۔۔‘‘ وہ سچ مچ اپنے آنسو پونچھ کر کہتی۔
میں کسی کو نہیں بھولی۔ میرے دماغ پر کچھ اثر ہوگیا ہے۔ سچ مچ نمو کو شک ہو رہا تھا کہ کوئی سایہ اس پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ یہ جادو ٹونا ’اسی‘ نے کروایا ہوگا۔ کیوں کہ وہ اکثر خوابوں میں نمو کو نظر آتا تھا۔ گھر میں چاروں طرف اس کی صورت ڈوبتی ابھرتی۔ جیسے ابھی یہاں تھا۔ ابھی وہاں تھا۔ لو اب رضا کے فوٹو میں چھپ کر مسکرا رہا ہے۔ ذرا دیر بعد سنو تو کوئی مدھم مدھم سرگوشیوں میں پکارتا۔
نمو۔۔۔ نمو۔۔۔ وہ چونک کر دیکھتی تو سامنے رضا کھڑا مسکرا رہا ہے۔
خوف کے مارے اس کی چیخ نکل جاتی تھی۔۔۔ یہ ’وہ‘ ہے یا رضا۔۔۔!
ممکن ہے اس نے رضا کا روپ دھار لیا ہو۔
پھر ایک دن وہ اپنی بھاوج کے ساتھ چپکے سے شاہ جی کے ہاں گئی۔ پانچ روپے گئے بھاڑ چولہے میں۔ شاہ جی کی فیس دینے کے بعد اس کے دل میں قرار تو ضرور آجائے گا۔
مگر شاہ جی نے آگ اور بھڑکادی۔
پانچ جمعراتوں کا چلہ کھینچنے کے بعد انہوں نے کہا، ’’تو نے کسی بزرگ کی بے ادبی کی ہے، جس کی سزا میں تیرے دل کا چین اڑگیا ہے۔ اور یہ کہ تو جسے اپنا سمجھتی ہے وہ بھی تیرا نہیں ہے۔۔۔ پانچ پیسے کا گنڈا اس نے اپنے دل کے پاس لٹکا لیا تھا۔ مگر اپنی قسمت پر پہروں روئے جاتی۔‘‘
جانے کس وقت اس نے کسی بزرگ سے بے ادبی کی ہوگی۔ جناتوں کے بادشاہ اپنے اڑن کھٹولے پر بیٹھے کہیں جارہے ہوں گے۔ جلالی صورت، شاہی لباس۔ ممکن ہے نمو کے گھر آتے ہوں۔ اور اس نے کوئی ڈھونگی فقیر سمجھ کر انہیں دھتکار دیا ہوگا۔۔۔ ’’آپ۔۔۔؟ آپ کون ہیں۔۔۔؟‘‘
کہتے ہیں جناتوں کو خالی ہاتھ لوٹادینے کی بڑی سزا ہوتی ہے۔ بے ادبی کرنے والا خود بھی خالی ہاتھ رہ جاتا ہے۔
جبھی تو وہ بھی میرا نہیں ہوگا جسے میں اپنا سمجھتی ہوں۔
شاہ جی نے چار گنڈے دیے تھے کہ رضا کے پلنگ کے چاروں پانوں تلے دبادو۔ اور وہ دعا جو صبح سویرے رضا کے منہ پر پھونکنا پڑتی۔ اللہ مارا کیسا جان جوکھوں کا کام ہوتا۔ وہ منہ قریب لے جاتی تو میاں جانے کس خوش فہمی میں پڑجاتے، اور ہنسی ہنسی میں اس دن کی دعا پھر رہ جاتی تھی۔
ادھر پلنگ کے چاروں کونوں کی حفاظت کرنا بھی بڑا مشکل کام تھا۔ کیوں کہ نمو کی ساس کوضد تھی کہ مہترانی جھاڑو دینے آئے تو سب پلنگ کھینچ کھینچ کر اپنی جگہ سے ہٹادے۔ جیسے ایک کونے میں جھاڑو نہ لگی تو قیامت آجائے گی پتہ نہیں لوگ ظاہری صفائی پر کیوں اتنا مرتے ہیں۔ کبھی اپنے اندر بھی تو جھانک کر دیکھیں کہ کتنی گندگی سمیٹ رکھی ہے۔
رفتہ رفتہ نمو پر ایک اور خوف چھانے لگا کہ کہیں وہ رضا کو نہ بھول جائے۔ ہائے جویوں ہوگیا تو کیا ہوگا؟ وہ تو کہیں کی نہ رہے گی۔ لو بھلا ایک شخص دل و جان قربان کردے ہمارے اوپر، اپنی خوشی کو ہماری خوشی بنالے، ہماری اداسی پر خود رونے بیٹھ جائے۔ اور ہم ہیں کہ ایک دن اچانک اسے پہچان نہ سکیں۔
اب رضاکا چہرا ہر وقت ذہن میں محفوظ رکھنے کے لیے وہ کیسے کیسے جتن کر ڈالتی۔ صبح وہ آفس جانے کے لیے اسکوٹر باہر نکالتا تو نمو پاس کھڑی بار بار اسے دیکھے جاتی۔
’’کیا بات ہے۔۔۔؟‘‘ کئی بار رضا ٹھٹک کر پوچھتا۔ پھر کوئی جواب نہ پاکر پانچ روپے کا ایک نوٹ اسے تھما دیتا۔
’’اچھا تو آج پھر سلمیٰ کے ساتھ پکچر کا پروگرام بنا ہے؟ جاؤ عیش کرو۔ اللہ نے تمہاری قسمت میں عیش لکھا ہے تو ہم روکنے والے کون ہوتے ہیں۔‘‘
نمو بے دلی سے نوٹ لے لیتی اور کیسا کیسا اس کا جی چاہتا کہ اس نوٹ کے عوض وہ ذرا سا مسکرادے۔ مگر توبہ کیجیے۔ دل کا چور تو مارے ڈالتا تھا۔ وہ جاتے وقت رضا کو بھرپور نظروں سے دیکھ کر یاد کیے جاتی۔
دائیں گال پر زخم کا نشان۔۔۔ اور گردن پر سیاہ تل۔۔۔
شام کو وہ سب کام چھوڑ کر کھڑکی میں چلی جاتی اور لاکھ یاد کرنے پر بھی یاد نہ آتا کہ آج رضا سیاہ پینٹ پہن کر گیا ہے یا سفید!
کپڑے ہی تو ایک ایسا امتیازی نشان ہیں کہ جھٹ کسی شخص کو پہچان لو۔
اگر رضا کالا پینٹ پہن کر آفس جائے گا تو کالا ہی پینٹ پہن کر واپس آئے گانا! واہ یہ تو بڑی آسان ترکیب مل گئی رضا کو پہچاننے کی۔
نمو نے جلدی سے کمرے میں آکر رضا کی الماری کھولی۔ کھونٹیوں پر دیکھا۔ کالا پینٹ کہیں نہیں تھا۔ بس آج تو وہ رضا کو سڑک کے موڑ سے ہی پہچان لے گی۔ کالا پینٹ۔۔۔ سفید شرٹ۔۔۔ دائیں گال پر زخم کا نشان۔۔۔ اور گردن کے نیچے۔۔۔ اللہ! میں کہیں یہ سب باتیں بھول تو نہ جاؤں گی۔۔۔؟ بس اب دس منٹ اور رہ گئے ہیں۔ وہ سارے گھر میں یوں حیران پریشان سی گھوم رہی تھی جیسے کسی بری خبر کی منتظر ہو۔
دروازے پر اسکوٹر کا ہارن گونج اٹھا۔ ہارن کی آواز پر نمو دروازے کی طرف بھاگتی اور اسکوٹر تھامے اس کے ساتھ ساتھ اندر آتی۔ اس وقت وہ کتنا خوش ہوتا تھا۔ کسی دن وہ اپنی ساس کے بتائے ہوئے کسی کام میں الجھ کر نہ اٹھتی تو رضا کا موڈ خراب ہوجاتا تھا۔
اج بھی نمو دروازے کی طرف لپکی۔۔۔ مگر پردے کے نیچے سے سفید پینٹ میں چھپی اجنبی ٹانگیں دیکھ کر واپس آگئی۔
’’کیا بات ہے۔ آج مجھے دیکھ کر منہ کیوں پھیر لیا۔۔۔؟‘‘
نمو آواز سن کر پلٹی۔۔۔ دائیں گال پر زخم کا نشان اور گردن کے نیچے۔۔۔
’’اوہ آپ! میں سمجھی جانے کون ہے‘‘، وہ سچ مچ سہمی جارہی تھی۔
’’تو گویا اب نئے سرے سے تعارف کروانا پڑے گا آپ سے؟‘‘ رضا شرارت سے مسکرایا تو وہ اور سہم گئی۔۔۔ یا اللہ اب کیا ہوگا! کہیں انہیں معلوم ہوگیا کہ میں انہیں نہیں پہچانا تو!
کپڑے بدل کر رضا باہر آیا، اس نے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ نمو پر ڈالی،
’’یہ تمہاری صورت پر ٹھیکرے کیوں برس رہے ہیں آج۔ اتنا بھی کیا کام ہے کہ بال سنوارنے کی فرصت نہیں ملتی، نہ کپڑے بدلنے کی۔ ہزار بار کہا کہ آج کل چوڑی دار پاجامے اور شرٹ کا فیشن ہے۔ مگر جب دیکھو وہی فرتوس ساریاں لپٹی ہوتی ہیں۔‘‘
وہ بڑبڑاتا ہوا باتھ روم میں چلا گیا۔
دوسرے دن نمو نے بڑے اہتمام سے کپڑے پہنے۔ سنگار کیا۔۔۔ یہ چوڑی دار پاجامہ اور تنگ شرٹ مجھ پر کیسا سجے گا۔۔۔ یہ تو نوعمر لڑکیوں کالباس ہے۔ مگر وہ مجھے جانے کون کون سے روپ دیکھنا چاہتا ہے۔
ابھی نمو آئینے کے سامنے سے ہٹی نہ تھی کہ رضا کی آواز نے اسے چونکا دیا، ’’ارے آج تو رخشی آگئیں ہماری قسمت جگانے۔‘‘
نمو نے پلٹ کر دیکھا، اچانک رضا گھبراگیا۔ یوں جیسے کسی نے اسے کھینچ مارا ہو۔
’’ارے توبہ۔۔۔ لو آج میں تمہیں بھول گیا۔۔۔ ایسا لگا جیسے۔۔۔ جیسے رخشی۔۔۔‘‘
رضا ہنسنے لگا۔ مگر نمو روپڑی۔
نہیں نہیں۔۔۔ وہ بھی مجھے نہیں پہچانتا ہے۔ وہ بھی زبردستی کا ڈھونگ رچائے ہوئے ہے۔ شاہ جی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا تو جسے اپنا سمجھتی ہے وہ بھی تیرا نہیں ہے۔۔۔ اب ساری زندگی وہ بار بار یہی کہتا رہے گا،
’’ارے آج تو رخشی آگئیں ہماری قسمت جگانے۔۔۔ لو آج میں تمہیں بھول گیا نمو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.