طبیعت ذرا بوجھل تھی ‘انارکلی میں پھرتا پھراتا میں نیشل کالج آف آرٹس کے عین سامنے وولنر کے مجسمے کے ساتھ والی بنچ پر آ بیٹھا۔ اگست کی اس حبس زدہ شام نے میری سانسیں بےترتیب کر رکھی تھیں۔ میں نے خواہ مخواہ سامنے جھکی ہوئی توپ اور مجسمے پر غور کرنا شروع کر دیا۔ سارا دن شور شرابے کے باوجود کبوتر بےخطر توپ کا طواف کرتے ہیں تو کبھی کوئی اکا دکا پر ندہ مجسمے کے سر پر بھی آن بیٹھتا ہوگا، اس کے کان میں کسی ان دیکھے دیس کی کوئی کتھا سناتا ہوگا۔ لیکن اب ان پر تنہائی برس رہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ دونوں اس وقت کو کوس رہے ہیں جب انھیں یہاں نسب کیا گیا تھا۔
چند ہی دن پہلے میں نے برادرز کرامازوف ختم کیا تھا ‘شیطان اور ایوان کرامازوف والا باب میرے دماغ کو جکڑے ہوئے تھا۔ میں اس الجھن کو سلجھانے میں بےبس تھاکہ شیطان واہمہ تھا یا کہ حقیقت؟ کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ اندھیرے کمرے میں کرسی پہ بیٹھا ابلیس حقیقت ہو اور ایوان واہمہ ہو؟ ارد گرد سے بےخبر آنکھیں بند کیے میں اس بند کمرے کے اک کونے میں کھڑا ان کا مکالمہ سن رہا تھا۔ اچانک گہرے سکوت میں ابھرنے والی ایک نامانوس آواز مجھے حقیقت کی دنیا میں واپس لے آئی۔ آنکھیں کیا کھلیں میری دنیا ہی اندھیر ہو گئی۔ میرے سامنے توپ نہیں تھی، کالج نہیں تھا اور بائیں طرف مجسمہ بھی غائب تھا۔ میں نے اردگرد دیکھا تو میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ سامنے سڑک تھی نہ کوئی گاڑی‘ نہ وہ عمارتیں نہ کوئی روشنی کچھ بھی نہیں تھا۔ کچھ فاصلے پر اکا دکا عمارتیں تھی جو بیکراں اندھیرے میں سر جھکائے کھڑی تھیں کچھ کچھ نظر آ بھی رہیں تھیں اور نہیں بھی۔ کہیں کہیں اندھیرے سے لڑتی کوئی روشنی بھی دکھائی پڑتی۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ مجھے تو کسی نے مخاطب کیا تھا ‘میں نے دائیں کھڑے اس آدمی کی طرف دیکھا تو خوف اور حیرت کی شدت نے مجھے کھڑا ہونے پر مجبور کر دیا۔ میرے پاس جو آدمی کھڑا تھا وہ ہو بہو میری شکل کا تھا فرق صرف یہ تھا کہ اس کے چہرے پر لمبی داڑھی تھی‘ کندھوں تک آئے ہوئے لمبے لمبے بال تھے اور لباس صدیوں پرانے کسی درباری کا سا تھا۔ اگرچہ اس کے چہرے پر بھی میری طرح خوف اور حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے لیکن پھر بھی وہ بڑے تجسس اور دیدہ دلیری سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کی توجہ کا مرکز بھی میں اور میرا لباس ہی تھا خبر نہیں کتنی دیر ہم یونہی ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑے رہے۔
بالآخر میں نے ہمت کر کے اس سے پوچھا:
’’بھائی آپ کون ہیں اور میری طرف اِس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں‘‘؟
اس کے چہرے کے تاثرات سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ سمجھ نہیں پایا کہ میں کیا کہ رہا ہوں؟
میں نے ذرا انچی آواز میں کہا:
’’دوست آپ نے کس سے ملنا ہے؟‘‘
اب وہ چپ تو نہ رہا لیکن جو کچھ وہ بولا ‘میری سمجھ سے باہر تھا۔ اس نے کسی نامانوس زبان میں کوئی بات کی میری ٹانگوں سے تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ خود کو سنبھالنے کے لیے میں نے بنچ پر بیٹھنا چاہا تو کیا میں دیکھتا ہوں کہ جہاں میں اٹھا تھا ادھر جگہ ایسے خالی تھی جیسے کوئی بنچ کبھی تھا ہی نہیں۔ تمام مانوس چیزیں غائب تھیں اور جو نہیں تھا سینہ تانے میرا منہ چڑا رہا تھا۔
تھوڑی تھوڑی دیر بعد ہمارے قریب سے کوئی آدمی گھوڑے پر گزرتا ‘کبھی کبھار کوئی پیدل چلنے والا چپ چاپ گزر جاتا۔ ان تمام کے لباس کسی قدیم عہد کے باشندوں کی طرح تھے لمبے لمبے رنگ برنگے چوغے‘ سر پہ عجیب ہییت کی ٹوپیاں؛ سارا منظر نامہ عجیب تھا‘پرچھائیاں تھیں جو آرہی تھیں جا رہی تھیں۔ اس تصور سے میں کانپ اٹھا کہ میں کہیں کسی اور زمانے میں تو نہیں چلا گیا؟ ایک دوسرے خیال نے مجھے قدرے تقویت دی کہ میں سوتے میں خواب دیکھ رہا ہوں۔ اس بھیانک خواب سے نکلنے کے لیے میں نے اپنی شہادت کی انگلی دانتوں تلے رکھ کر اتنے زور سے دبائی کہ درد کی شدت سے میری آنکھ سے آنسو اور زور دار چیخ ایک ساتھ نکلے۔ چیخ کی بازگشت نے راہ چلتے لوگوں کو ہماری طرف متوجہ کر دیا ‘دو تین آدمی تقریباً بھاگتے ہوئے ہمارے پاس آئے۔ انہوں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا کہ کیا ماجرا ہوا ہے؟میرے ساتھ کھڑے آدمی نے انہیں کچھ جواب دیا اب وہ لوگ بھی حیرت سے میری طرف دیکھ رہے تھے۔ تھوڑی دیر وہ اس سے کچھ باتیں کرتے رہے جو ظاہر ہے کہ میرے ہی بارے میں تھیں۔ اس کے بعد وہ کچھ بولتے ہوئے وہاں سے دور اندھیرے میں غائب ہو گئے‘ ایک بار پھر میں اور وہ اکیلے کھڑے تھے۔ تھوڑی دیر وہ چپ چاپ کھڑا کچھ سوچتا رہا ظاہر ہے مجھ سے بات توکر نہیں سکتا تھا۔ پھر اُس نے فیصلہ کن انداز میں سر ہلایا اور میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ میں میکانکی انداز میں سائے کی طرح اُس کے پیچھے ہو لیا‘ میری انگلی میں رہ رہ کر ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔اب مجھے احساس ہوا کہ یہ تو کوئی سردیوں موسم ہے اور میں سردی کی شدت سے کانپ بھی رہا ہوں۔ میری نگاہیں اردگرد کا جائزہ لے رہی تھیں وہ مانوس جگہیں جہا ں میں نے کئی سال گزارے تھے ایک لمحے میں دھندلے خواب کی طرح میری یادداشت میں کہیں گم ہو گئیں۔
رات کافی ہو چلی تھی کہیں کوئی لالٹین یاموم بتی کی روشنی کسی روشن دان میں سے نظر آ جاتی اور پھر غائب ہو جاتی ۔ہمارے قدموں کی مدھم آواز خاموشی کی شدت کا احساس دلا رہی تھی۔ میں ڈرا سہما اس کے پیچھے گھسٹتا رہا ‘دوست‘ گھر والے اور مانوس جگہیں پینترے بدل بدل کر میری سوچوں پر حملہ آور ہو رہے تھے۔وہ مجھ سے چند قدم آگے چل رہا تھا جیسے رہنمائی کر رہا ہو۔میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھ رہا تھا ‘حقیقت کا ادراک میرے اندر خوف کی لہریں پیدا کر رہا تھا۔ میں تیزی سے دو قدم اٹھا کر اس کے پاس پہنچا‘ اسے کندھے سے پکڑا اور جھنجھوڑ کر پوچھا!
’’تم کون ہو؟ یہ کون سی جگہ ہے؟تم مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟‘‘
اس نے جب پلٹ کر میری طرف دیکھا تو کی آنکھوں میں وہ حقیقت دیکھ کر میں کانپ اٹھا جو بستر مرگ پر پڑا مریض کسی طبیب کی نگاہ میں دیکھتا ہے۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا میری کمر سہلائی اور مجھے ساتھ چلتے رہنے کا اشارہ کر کے دوبارہ چل پڑا۔ میرے جی میں آیا کہ جہنم میں جائے میرا یہ ہمدرداور بھاگ جاؤں لیکن دوسرے ہی لمحے خیال آیا کہ جاؤں گا کہاں؟
اونچی نیچی اور اندھیری گلیوں میں چلتے چلتے ہم ایک مکان کے پاس رکے ایک بڑا سا چوبی دروازہ ہمارے سامنے تھا۔ اس نے دردازے پر زور زور سے دو تین ہاتھ مارے اور اونچی آواز میں اندر سے کسی کو بلایا۔
جس کسی کو اس نے آواز دی وہ کوئی ’’ہامو‘‘ یا ’’حامو‘‘ تھا یا تھی۔میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دیکھئے اندر سے کون نکلتا ہے ‘دروازہ کھلا اندر سے پانچ چھ سال کا ایک بچہ نکلا۔ دور کمرے سے آتی مدھم روشنی میں اس نے حیرت بھری نظروں سے پاؤں تک میرا جائزہ لیا۔ اس کی نگاہ کا ٹھہراؤ میرے لباس پر ہوا‘ اس کی نگاہوں کے تعاقب میں جب میں نے اپنے لباس کو دیکھا تو خود مجھے بھی احساس ہونا شروع ہو گیا کہ یہ کیا بیہودہ لباس میں نے پہن رکھا ہے۔ اتنے چکروں کے بعد میں سمت کا تعین تو نہیں کر سکتا تھا لیکن یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے دروازہ مغرب کے رخ کھلتا ہے۔ بہت کھلا صحن تھا‘ بالکل سامنے دو کمرے تھے جن کا رخ باہر والے دروازے کی طرف ہی تھا۔صحن کے عین درمیان دو درخت تھے جنہیں اندھیرے میں پہچاننا ممکن نہیں تھا کہ کون سے تھے ۔دونوں کمروں کے دروازے کھلے ہوئے تھے ‘دائیں کمرے میں تو بالکل روشنی نہیں تھی لیکن بائیں کمرے میں سے مدھم مدھم لو جھانک رہی تھی۔ روشنی والے کمرے میں ہم جا کھڑے ہوئے‘ دو چارپائیاں ‘کچھ مٹی کے برتن‘ ایک بڑا سا پانی کا گھڑا اور کچھ عجیب ساخت کا سامان تھا۔
دیواریں پتھر کی اینٹوں سے بنائی گئی تھیں ‘وہ کوئی دو فٹ لمبی اور فٹ تک چوڑی تھیں۔ اینٹوں کا رنگ ایک جیسا نہیں تھا دیے کی مدھم لو میں وہ رنگ برنگی اور ٹمٹاتی دکھائی دے رہی تھیں۔ بڑے بڑے ٹہنے جوں کے توں کاٹ کر چھت کا انتظام کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ کوئی قابل ذکر چیز نہیں تھی جو میری توجہ اپنی طرف کھینچتی۔ میرا دھیان پھر مجھے ماضی میں لے گیا۔ وہ لاہور شہر کی زندگی‘ شام انارکلی میں گھومنا‘رات دیر تک دوستوں سے گپ بازی ‘لڑائی جھگڑے‘ صلح صفائی ‘ہلا گلا‘ صبح یونیورسٹی بھاگنے کی جلدی ‘لڑکیوں سے نوٹس لینے کے بہانے بات کرنا وہ بےفکری کی زندگی جہاں شور شرابا تھا‘ تنہائی نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
اچانک میں اجنبی زمانے اور لوگوں میں آ پھنسا تھا جن کی زبان بھی پتہ نہیں کون سی تھی۔ بےبسی کا شدید احساس مجھ پہ غالب آ گیا بےاختیار میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ خوف اور غم کی شدت میں اضافہ ہو نا شروع ہو گیا ‘ماں کی پتھرائی ہوئی متلاشی آنکھیں‘ میری آنکھوں میں کھب گئیں۔ یوں لگا کلیجہ منہ کو آ رہا ہے میں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا اور خبر نہیں کب تک روتا رہا۔ بےبسی کی تصویر بنے وہ دونوں میرے پاس کھڑے رہے ‘آنکھیں جب کبھی خشک ہوئیں تو میں نے اپنے مہربان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بھی پرنم تھیں گویا میرے غم کا شدت کا احساس ہے لیکن میرے لیے کچھ کر نہیں سکتا۔
اتنے عرصے میں چھوٹے نے ہمارے کھانے کا انتظام کر دیا تھا وہ چٹائی پر کھانا رکھے ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ میزبان نے مجھے اٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہم لوگ صحن میں آ گئے ‘کونے میں پانی اور ساتھ ہی غالباً رفع حاجت کا بھی انتظام تھا۔ اندھیرے میں زیادہ غور سے نہ میں نے دیکھا اور نہ ہی نظر آیا‘ ایک چھوٹا سا تالاب سا تھا جس کے اردگرد پتھر رکھ کر بیٹھنے کے لیے جگہ بنائی گئی تھی۔ میں نے منہ ہاتھ دھویا سخت سردی کا موسم تھا لیکن پانی نیم گرم تھا پر اب میں نے حیران ہونا چھوڑ دیا تھا ہم دسترخوان پر بیٹھ گئے۔
میزبان نے کچھ کہا اور کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا اور ایک پلیٹ میری طرف کھسکا دی۔ ابلے ہوئے چاول اور ساتھ چنے کا شوربہ ‘مٹی کے برتنوں میں کھانے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ میں چٹ پٹی اور کراری چیزیں کھانے کا عادی تھا لیکن یہاں کھانے کا جو دائقہ تھا اس کا اظہار مشکل ہے‘کھانے کے ساتھ ساتھ مٹی کی مہک بھی اپنا کام کر رہی تھی میں کھاتا ہی چلا گیا۔ کھانا کھاتے ہی مجھ پہ غنودگی طاری ہونا شروع ہو گئی۔ میرا بستر دیوار کے ساتھ لگا دیا گیا لیٹتے ہی خیالات کا ایک ہجوم مجھ پر حملہ آور ہو گیا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ زمانہ کون سا ہے؟ کیا میں ماضی بعید میں کہیں چلا گیا ہوں؟ وہ یونیورسٹی کا زمانہ اگر ماضی ہے تو کیا یہ حا ل ہے؟ اگر یہ حال ہے تو ماضی میں کیوں ہے؟ میرا کیا بنےگا؟ ماں باپ ‘بہن بھائی‘ دوست یار سب کدھر گم ہو گئے؟وہ سب تو میری تلاش میں پاگل ہو جائیں گے‘کیا میں زندہ ہوں؟ اس طرح کے لاتعداد سوالات میرے دماغ میں کلبلا رہے تھے۔ خبر نہیں کب میری آنکھ لگی۔
ایک عرصہ ہوا اس اجنبی کو میری زندگی میں آئے ہوئے سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں ‘اب اسے یوں چھپائے رکھنا بھی کب تک ممکن رہےگا۔ شروع کے دنوں میں دربار سے داروغہ اور چند دوسرے لوگ بھی پوچھنے آئے تھے۔ کسی نہ کسی طرح میں نے ٹال دیا کہ یہاں کوئی نہیں’’ایک عجیب وضع کا آدمی سرراہ مجھے ملا ضرور تھا لیکن خبر نہیں پھر وہ کہاں چلا گیا‘‘۔ایک عرصہ شہر میں اس کا چرچہ رہا ‘میں چونکہ اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا سو لوگ مجھ سے ہی اس کے بارے میں پوچھتے۔ میں بھی حیرت سے اس کے غائب ہو جانے پر ویسے ہی حیرت کا اظہار کرتا جیسے کہ دوسرے لوگ کرتے۔ اجنبی کو بچانے کے لیے مجھے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑے سب سے پہلے تو میں نے اس کی داڑھی کو اپنے ماحول کے مطابق بڑھایا‘ اس کا لباس تبدیل کیا اور پوری محنت سے اس کا رہن سہن کا انداز اپنے جیسا بنایا۔ خوش قسمتی سے وہ میرا ہمشکل ہے اس لیے صورت حال میرے لیے اتنی زیادہ پریشان کن نہیں رہی۔ دوسری بات یہ ہے کہ معاملے کی سنگینی کا ادراک اسے مجھ سے بھی زیادہ ہے سچی بات ہے اسے اتنا میں نے نہیں بدلا جتنا اس نے خود کو بدل لیا ہے۔ اب تو صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اتنا تو میں بھی میں نہیں رہا جتنا وہ میں ہو گیا ہوں۔ حیرت انگیز طور پر اس نے ہماری زبان کو اتنی جلدی سیکھ لیا ہے کہ اب وہ باآسانی میرے ساتھ گپ شپ کر سکتا ہے۔ حامو کو ساتھ لے کر وہ باہر سے بھی گھوم پھر آتا ہے بلکہ اُس نے میرا بہت بڑا مسئلہ حل کر دیا ہے۔ باہمی مشاورت سے ہم نے گھر اور باہر کے کام بانٹ لیے ہیں۔ ایک دن کام پر وہ جاتا ہے تو دوسرے دن میں۔ اس کے آنے سے پہلے زندگی بہت مشکل تھی مجھ اکیلے کو گھر باہر کا نظام سمنبھالنا پڑتا تھا۔ لیکن اب میں قدرے سکون میں ہوں اور اس کا بھی دل لگ گیا ہے۔ پہلے پہل تو اس کی حالت بہت خراب تھی اس کا دکھ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا تھا لیکن اب اس نے حالات سے سمجھوتا کر لیا ہے۔
شروع شروع میں ہمارے گھر میں ایک دلچسپ اور پریشان کن صورت حال یہ بھی پیدا ہو جاتی تھی جب حامو مجھے وہ اور اسے میں سمجھ لیتا تھا۔ ہمارے درمیان لکیر کھینچنے کی اس نے ناکام کوشش کی، مسلسل دھوکا کھا کھا کر اب اس نے بھی غور کرنا چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ اب تو وہ اس سارے معاملے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ صرف یہ میں جانتا ہوں یا وہ کہ میں میں ہوں اور وہ وہ ہے۔ جب تک ہمیں کوئی ایک ساتھ نہ دیکھ لے تب تک ہم دونوں لوگوں کے لیے ایک ہی ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جو ڈر مجھے کھائے جا رہا ہے وہ یہی ہے کہ اگر کسی نے ہمیں ایک ساتھ دیکھ لیا تو ہم کیا کریں گے؟ نامحسوس طریقے سے ہم نے کسی الجھن سے بچنے کے لیے اپنے درمیان موجود تفریق کو تو ختم کر لیا ہے لیکن اب ہمیں پہچان کا مسئلہ درپیش ہے۔ کبھی کبھی تو مجھے یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے مہمان میزبان بن کر مجھے میرے ہی گھر سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اپنی موجودہ زندگی کو ناصرف قبول کر لیا ہے بلکہ وہ بہت مطمئن اور آسودہ ہے۔یہ سب میرے لیے وبالِ جان بننا شروع ہو گیا ہے۔ بعض اوقات تو حامو بھی میری طرف بہت مشکوک نظروں سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ وہ بھی مجھ سے اتنی ہی محبت کرتا ہے جتنی کہ میں اس سے کرتا ہوں۔ اس نے میرے گھر کو اپنا گھر سمجھ کر اندر اور باہر کا سارا نظام سمنبھالا ہوا ہے۔ لیکن یہی وہ رویہ ہے جس سے مجھے سازش کی بو آتی ہے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں یہ میرا وہم ہے سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ لیکن دوسرے ہی لمحے جو طاقتور خیال میرے دماغ پر قابض ہو جاتا ہے وہ یہ ہے کہ سب ٹھیک لیکن ہم میں سے حقیقی کون ہے اور کون پرچھائیں؟ عجب دبدھے میں پھنس گیا ہوں۔ اب تو مجھے اپنے آپ پر رہ رہ کر غصہ آتا ہے کہ اس مصیبت کو میں گھر ہی کیوں لے آیا۔
کتنی منحوس تھی وہ سرد شام جب تیزتیز قدم اٹھا کر میں بلا تاخیر گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ اگرچہ شام ہو نے سے کافی پہلے میں گھر میں ہوتا تھا لیکن اس دن کی کوتاہی کا خمیازہ میں آج تک بھگت رہا ہوں۔ جاڑے کی وجہ سے لوگ سرشام ہی۔۔۔ سوائے چند ایک کے۔۔۔ اپنے اپنے مکانوں میں دبکے بیٹھے تھے۔ سنسان گلیوں سے ہوتا ہوا جب میں شہیدی چوک پہنچا تو دور تک کوئی نہیں تھا۔ اب وہاں جو کچھ میرے ساتھ پیش آیا اس کے خوف کی دھاک اجنبی کے روپ میں اب بھی میرے دل میں بیٹھی ہے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں پورے ہوش وحواس میں تھا۔ ایک لمحہ کے لیے میری نگاہ کہیں ادھر ادھر بھٹکی ہوگی۔ جب میں نے سامنے دیکھا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بمشکل چار قدم کے فاصلے پر ایک آدمی یوں بیٹھا ہوا ہے جیسے کہ کوئی کرسی پر بیٹھتا ہے۔ لیکن دہشت سے رونگٹے کھڑے کر دینے والی بات یہ تھی کہ اس کے نیچے کچھ بھی نہیں تھا۔ میں نے آنکھیں مسل کر اور سر جھٹک جھٹک کر دیکھا لیکن منظر وہی رہا۔ اضطراب اور خوف کی ملی جلی کشش نے اسے میری طرف کھینچا یا میں اس کے پاس پہنچا خبر نہیں ‘زبان سے ایک چیخ نکلی’’ کون ہو تم؟‘‘ میری آواز سن کر وہ اچھل کے یوں کھڑا ہوا جیسے کو ئی ڈراؤنے خواب سے اُٹھتا ہے۔ دیر تک ہم بت بنے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ یہ کیسا خواب ہے جو عینِ حقیقت ہے۔ جس حیرتی خوف سے وہ ارد گرد کچھ تلاش کر رہا تھا مجھے اس نتیجے پر پہنچنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ مجھ سے زیادہ قابل رحم ہے۔ میرا اعتماد ذرا بحال ہوا ‘دماغ نے کچھ کام کرنا شروع کیا تو میں نے اس کے خدوخال پہ غور کیا۔ ہو بہو میں‘ چہرہ داڑھی سے خالی اور لباس کسا کسایا: یہ منظر مجھے ایک بار پھر بدحواس کرنے کو کافی تھا۔ ڈراؤنے خواب سے ہڑبڑاکر اٹھنے والے کی طرح وہ حقیقت کو مشکوک نظروں سے دیکھ رہا تھا جبکہ میں بھیانک حقیقت سے آنکھیں چراکر خواب کی طلسماتی وادیوں میں غرقاب ہونا چاہتا تھا۔
اس وقت ترس کھا کر اسے میں اپنے گھر تو لے آیا تھا لیکن خبر نہیں تھی کہ یہ سب میرے لیے اتنا تکلیف دہ ہوگا۔ جس طرح وہ حامو کو ہر وقت ساتھ لیے پھرتا ہے ایک روز اس نے مجھے باقاعدہ طور پر کہہ دیا کہ ’’اب آپ آرام کریں آپ نے بہت کام کر لیا اب سب میں دیکھتا ہوں‘‘۔ اور کام پہ بھی مجھ سے زیادہ جانا شروع ہو گیا ہے اس سارے معاملے نے مجھے گھر تک محدود کر دیا ہے۔ میری حیثیت مہمان کی ہوتی جا رہی ہے اور وہ حامو کا بھائی اور گھر کا مالک بنتا جا رہا ہے۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ باہر نکلوں اور ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر لوگوں کو اول تا آخر سب ماجرا سناؤں۔ اگلے ہی لمحے یہ خیال بھک سے ہوا میں اڑ جاتا ہے کہ لوگ پوچھیں گے کہ اتنے سال گزرنے کے بعد کیوں بتا رہے ہو تو اس بات کا کیا جواب دوں گا؟ اور اگر اجنبی نے خود کو اجنبی ماننے سے انکار کر دیا تو میں کیسے ثابت کروں گا کہ وہ اجنبی ہے اور میں نہیں ہوں؟۔ جیسا کہ ایک روز میرے پوچھنے پر اس نے از راہ مذاق کہا تھا ’’اگر کبھی کسی نے ہمیں ایک ساتھ دیکھ لیا تو میں تو کہہ دوں گا کہ یہی وہ آدمی ہے جو مجھے اس شام ملا تھا میں تو یہیں کا ہوں اور حامو کو بھی ساتھ ملا لوں گا‘‘۔میرے ہی سوال نے مجھے بےبسی کی تصویر بنا دیا۔ ہمارے تعلق میں جو گرمجوشی تھی اب سردمہری میں بدلتی جا رہی ہے۔ کئی کئی دن ہماری بات نہیں ہوتی بلکہ اب تو ہماری ملاقات بھی کھانے کے اوقات تک سمٹتی جا رہی ہے۔ دن یونہی پیچ و تاب کھاتے گزرتے رہے۔
آج شام جب وہ واپس آیا تو بہت گبھرایا ہوا تھا۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتانے لگا ’’مجھے سرِراہ ان میں سے ایک آدمی ملا جو پہلے روز میری چیخ کی آواز سن کر میری طرف متوجہ ہوئے تھے۔ وہ مجھ سے یوں مخاطب ہوئے جیسے کہ میں آپ ہوں اور مجھ سے میرے ہی بارے میں پوچھنا شروع کر دیا۔‘‘ ’’اور تم نے کیا جواب دیا‘‘ میں نے بات ٹوک کر پوچھا۔’’میں معاملے کی نزاکت بھانپ گیا تھا انہیں میں نے یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ جب تم لوگ وہاں سے گئے تھے تو میں بھی آ گیا تھا اسے کے بعد خبر نہیں وہ کدھر گیا؟ اتنی بات کہہ کر میں وہاں سے کھسک آیا ہوں‘‘۔ اس نے یہ واقعہ مجھے یوں سنایا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور آرام سے پنے بستر میں دبک گیا۔ اس کا یہ رویہ میرے لیے ایک پیغام ہے کہ میاں اپنا ٹھکانہ کر لو یہ گھر میرا ہے۔تنہائی کے آسیب نے میرے دماغ میں پنجے گاڑ دیے ہیں۔
زندگی میں کبھی کوئی رات میں نے گھر سے باہر نہیں گزاری ا س وقت بھی نہیں جب میں اکیلا تھا اور حامو کے ہوتے ہوئے تو میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ لیکن آج رات مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں بستر پر لیٹ گیا تو کبھی اُٹھ نہیں سکوں گا یا پھر پاگل ہو جاؤں گا ۔یہ گھر حامو اور اس اجنبی کا ہے میں تو وہ آدمی ہوں جو اس گھر کے مالک کو حادثاتی طور پر ملا تھا اور جوکئی سالوں سے ان گھرو الوں پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ اگر میں زیادہ دیر یہاں رہا تو یہ دونوں مل کر مجھے گھر سے نکال دیں گے ۔میں نے ان دونوں کے سونے کا انتظار کیا اور نکل کھڑا ہوا۔ کافی دیر میں سوئے ہوئے حامو کا معصوم چہرہ دیکھتا رہا اور ساتھ ساتھ مطمئن آدمی کو بھی جس نے ایک عرصہ اپنے گھر میں مجھے رکھا اور میرے ناز اٹھائے۔ کوئی طاقت تھی جو مجھے گھر سے نکلنے پر مجبور کر رہی تھی اور میں جانتا تھا کہ اب میں کبھی پلٹ کر نہیں آ سکوں گا۔ میں نے درودیوارپر آخری نگاہ ڈالی اور شہر کو ویرانے کی طرف لے جانے والے راستے پر چل پڑا۔ تھوڑی ہی دیر بعد شہر میرے عقب میں اور میں اندھیرے کی اتھاہ وادی میں تھا۔ درختوں اور ٹیڑھے میڑھے راستوں کے درمیان چلتا رہا چلتا رہا چلتا رہا خبر نہیں کب تک چلتا رہا۔ نیند اور تھکاوٹ سے بےحال ہونے کے باوجود چلتا رہا۔
گھپ اندھیرے میں اپنے وجودکو ٹٹول ٹٹول کر میں آگے بڑھتا رہا۔ میرے ہونے کا احساس اجنبیت اور شناخت کا وہ بھوت مجھے دلا رہا تھا جو روپ بدل بدل کر میری سوچوں پر حملہ آور ہوتا رہا۔ یہ میرے جیسا میری دنیا میں کہاں سے ٹپک پڑا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ درحقیقت میں ہی کہیں اور سے آیا ہوں ‘اجنبی میں ہوں وہ نہیں ہے۔ اگر اس گھر کا مالک وہ ہے تو میں کون ہوں؟ میں کہیں اور سے آیا ہوں تو کہاں سے آیا ہوں؟ حامو اس کا بھائی ہے تو تکلیف مجھے کیوں ہو رہی ہے؟ ہم میں سے ایک حقیقت ہے تو دوسرا عکس لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت اور عکس کی تفریق کون کر سکتا ہے؟ پہلے لوگ مجھ سے اس کے بارے میں پوچھتے تھے لیکن اب اس سے میرے بارے میں استفسار کرتے ہیں۔ الہی یہ ماجرا کیا ہے ہم دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سب جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ ایک خواب ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خواب کہاں سے شروع ہوا اور کہاں اس کا خاتمہ ہوگا؟ حامو، میرا گھر، میرا شہر، اس ہم شبہیہ سے حادثاتی ملاقات کیا یہ سب خواب ہے؟ اگر سب خواب ہی خواب ہے تو پھر حقیقت کیا ہے؟ پھر تو میں بھی کسی خواب کا کردار ہوں لیکن میں کس کے خواب میں ہوں؟ اس طرح کے سوالات نے مجھے بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے۔ سردرد سے پھٹ رہا ہے اور ٹانگیں محض میری قوت ارادی کی وجہ سے مجھے اٹھائے پھر رہی ہیں۔ جسم کاوزن ان کی برداشت سے بڑھ رہا ہے اب کسی بھی لمحے ان کی ہمت جواب دے سکتی ہے۔ اب میرے دماغ میں کوئی خیال باقی نہیں ہے، چیونٹیاں ہی چیونٹیاں ہیں جو رینگنا اور کاٹنا شروع ہو گئی ہیں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر کو جکڑ لیا ہے دل اس خواہش کی شدت سے پھٹ رہا ہے کہ کاش مجھ میں اتنی طاقت آ جائے کہ میں اپنا بھیجا پیس کے رکھ دوں۔ کسی بھاری چیز کے دھڑام سے زمین پر گرنے کا ہلکا سا احساس ذہن کے کسی کونے میں باقی ہے۔
میں تو کہیں پڑا ہی رہتا اگر بے ہنگم شور میری آنکھیں نہ کھول دیتا۔ تمام ہیبت ‘دکھ‘ تکلیف اور پریشانی ایک لمحے میں بھک سے اڑ گئی کیا دیکھتا ہوں کہ میں کسی اور ہی دنیا میں ہوں۔ پتھرکی بنی ہوئی ایک لمبی سی کرسی پر بیٹھا ہوں۔ میرے بائیں ہاتھ تھوڑی اونچی جگہ پر ایک طویل قامت آدمی بت بنا کھڑا ہے۔ روشنیاں ہی روشنیاں ہیں اندھیرے کا دور دور تک نام ونشان نہیں ہے۔ گردا گرد تیز رفتار عجیب الخلق جانورایک دوسرے کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں۔ کوئی ایک آنکھ والا ہے تو کسی کی دو، اندھیرے میں ان کی آنکھیں اتنی روشن ہیں کہ میرے لیے ان کا باقی جسم دیکھنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے اور تو اور ان سب کی پشتیں بھی روشن ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سارے کے سارے جانور انسانوں کے پالتو ہیں اتنے تیز رفتار جانوروں کو سدھانا اور ان پر مزے سے سفر کرنا‘ میں بہت بے اعتباری سے یہ سب ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے قیامت کا منظر دیکھ رہا ہوں اور خود کو تسلیاں دے دے کر مطمئن بھی کر رہا ہوں کہ اب میری شناخت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، یہاں میرے جیسا کوئی نہیں ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.