سردی کا موسم اپنی شان وشوکت کچھ زیادہ ہی دکھا رہا تھا۔ سرد ہوائیں جسم کو چیرتی ہوئی گزرتی تھیں۔ گرم کپڑے پہننے کے باوجود یوں محسوس ہوتا تھا جیسے رگوں میں خون جم گیا ہو۔ رات کا کھانا کھانے کے بعد میں انگیٹھی کے پاس بیٹھا اپنے جسم کو گرما رہا تھا۔ میری ساس میرے پاس بیٹھی اپنی انگلیوں کے پوروں پر تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ ابھی ابھی وہ عشاء کی نماز سے فارغ ہوئیں تھیں۔ میری بیوی فاطمہ بیڈ پر بیٹھی ہمارے منّے کو کچھ کھلا رہی تھی۔ میرے سسر کام سے لیٹ آئے تھے۔ مجھ سے خیروعافیت پوچھنے کے بعد وہ ایک طرف بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ میں نے باہر کی طرف دیکھا دھند جلوہ افروز ہونا شروع ہو گئی تھی۔ میری نظر دیوار پر لٹک رہے کلاک کی طرف گئی آٹھ بجنے میں کچھ منٹ باقی تھے۔ تبھی میرے موبائل کی گھنٹی بجنی شروع ہو گئی۔ میں نے جیب سے مو بائل نکال کر سکرین پر اپنے دوست کا نام پڑھا تو موبائل آن کرکے کان کو لگاتے ہوئے سلام کیا اور ہاں ابھی کچھ دیر میں پہنچ رہا ہوں کہہ کر موبائل بند کرکے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’فاطمہ چلیں کیا۔۔۔؟‘‘
فاطمہ منّے کے منہ میں چمچہ ڈالتے ہوئے بولی،
’’جی ہاں چلتے ہیں، بس ذرا منّے کو یہ کھلا دوں۔ نہیں تو آپ کو پتا ہی ہے کہ آدھی رات کے وقت یہ نیند سے جاگ کر کتنا پریشان کرتا ہے۔‘‘
میری ساس منہ سے بھاپ چھوڑتے ہوئے میری طرف دیکھتے ہوئے بولی،
’’چلے جانا بیٹے، ابھی تو آٹھ ہی بجے ہیں۔ تھوڑی دیر اور رک جاؤ۔‘‘
میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑے موبائل کی سکرین پر اُبھرے میسیج کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
امی دھند اترنا شروع ہو گئی ہے اور 8:30 بجے مجھے ایک ضروری میٹنگ میں بھی جانا ہے۔ اُن کے فون اور میسیج بھی آرہے ہیں۔ اِن دونوں کو گھر چھوڑ کر پھر میٹنگ میں جاؤں گا۔
میری ساس محبت بھرے لہجہ میں بولیں،
’’تم تو ہر وقت مصروف ہی رہتے ہو۔ کبھی اپنی اس ماں کے لئے بھی وقت نکال لیا کرو۔ فاطمہ تو صبح سے ہی آجاتی ہے۔ تم رات کے وقت بس اسے لینے ہی آتے ہو، اور آتے ہی جانے کی جلدی مچا دیتے ہو۔ اس زندگی کا اب کیا بھروسہ میں کل رہوں یا نہ رہوں۔ بیٹے کبھی میرے پاس بیٹھ کر بھی کچھ باتیں کر لیا کرو۔ تم دونوں مجھے بہت پیارے ہو۔‘‘
میں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا،
’’امی آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ کاروبار کی ساری ذمہ داری مجھ پر ہی ہے۔ اس لئے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑتی ہے، اور ہاں آپ یہ مرنے کی باتیں نہ کیا کریں۔ ابھی تو آپ کو اپنے نواسے کی شادی بھی دیکھنا ہے۔ آپ بھی ہمیں بہت پیاری ہیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کبھی میں پورا دن آپ کے پاس رہوں گا۔ پھر آپ دل بھر کر باتیں کر لینا۔‘‘
میری ساس کے منہ سے دعاؤں کی برسات ہونے لگی۔
’’جیتے رہو بیٹا، خدا تمھاری عمر دراز کرے۔ تم دونوں کی جوڑی سلامت رہے۔ پروردگار تمھیں کاروبار میں اور ترقی دے۔‘‘
اتنے میں فاطمہ نے منّے کو کھانا کھلا کر چھوٹے کمبل میں لپیٹ لیا تھا۔ بیڈ سے نیچے اتر کر اس نے ایک طرف پڑا اپنا پرس اُٹھایا اور منّے کو سنبھالتی ہوئی میرے قریب آکر پیار سے بولی،
’’چلیئے جناب۔۔۔‘‘
میں نے موبائل جیب میں ڈالا اور کرسی سے اُٹھ کر اپنے سسر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا،
’’اچھا ابو جی اب ہم چلتے ہیں۔۔۔ السلام عليكم۔‘‘
وہ اپنے سامنے پڑا پانی کا گلاس اُٹھاتے ہوئے بولے،
’’وعليكم السلام بیٹا۔۔۔ ذرا دھیان سے جانا۔ موٹر سائیکل دھیرے چلانا۔ دھند بہت ہو رہی ہے۔‘‘
میں نے اُن کی بات سن کر اپنے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے۔
’’جی ابو۔۔۔‘‘
کہا اور مین گیٹ کی طرف چل دیا۔ فاطمہ بھی اُنھیں سلام کرنے کے بعد میرے ساتھ ہولی۔ میری ساس بھی کرسی سے اُٹھ کر ہمارے ساتھ باہر کی طرف آگئی۔ مین گیٹ پر آکر اُنھوں نے فاطمہ کو پانچ سو روپے کا ایک نوٹ پکڑاتے ہوئے کہا،
’’یہ رکھ لو بیٹی۔‘‘
فاطمہ نے انکار کرتے ہوئے کہا،
’’امی آپ اسے رہنے دو۔‘‘
میری ساس ممتا بھرے انداز میں اسے ڈانٹتے ہوئے بولیں،
’’تو چپ چاپ اسے رکھ لے۔ تم لوگ روز روز تھوڑے ہی آتے ہو۔ بڑی مشکل سے پندرہ دنوں کے بعد آتے ہو۔ کئی بار تو تمھیں آتے آتے مہینہ ہی گزر جاتا ہے۔ زیادہ نخرے مت کر اور اسے پکڑ لے۔‘‘
فاطمہ میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اسے نوٹ پکڑنے کا اشارہ کر دیا۔ کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ ہم چاہے جتنا مرضی انکار کر لیں اس معاملہ میں میری ساس اپنی بات منوا کر ہی رہتی ہیں۔ مجھے جلدی جانا تھا اس لئے ٹائم ویسٹ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ فاطمہ نے نوٹ پکڑ کر اپنے پرس میں رکھ لیا۔ میں نے موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہوئے کہا،
’’اچھا امی، اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا،
’’ٹھیک ہے بیٹا، دھیان سے جانا اور گھر پہنچتے ہی مجھے فون کر کے بتا دینا۔‘‘
پھر وہ سنسان گلی کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں،
’’دیکھ لو فاطمہ تمھارا لاڈلا بھائی ماجد ابھی تک نہیں آیا۔ فلم دیکھنے گیا ہے۔ میں تو اسے روک رہی تھی کہ آج تم لوگ آے ہوئے ہو کل چلے جانا۔ مگر ضد کرنے لگا کہ سبھی دوستوں نے پروگرام بنایا ہوا ہے ٹکٹ بھی لے رکھی ہے۔ کھانے کے ٹائم تک وہ آجائے گا۔ لیکن دیکھ لو ابھی تک نہیں آیا۔ آجائے تو وہ بھی کھانا کھا لے۔ نہیں تو مجھے پھر سے کھانا گرم کرنا پڑے گا۔‘‘
میں نے موٹر سائیکل گرم کرنے کے ارادے سے ریس پر تھوڑا زور دیتے ہوئے کہا،
’’کوئی بات نہیں امی، بچہ ہے وہ ابھی، آپ فکر نہ کریں تھوڑی دیر میں آجائے گا۔ ابھی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ہی ہوگا۔‘‘
اُنھیں میرے ریس پر زور دینے کی وجہ سمجھ آگئی تھی کہ میں جلدی میں ہوں۔ اس لئے اُنھوں نے فاطمہ کو گلے لگایا اور منّے کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں،
’’اب کی بار جلدی آنا، اس بار کی طرح نہیں کہ پورے ایک مہینے کے بعد چکر لگاؤ۔‘‘
’’جی امی۔‘‘
کہتے ہوئے فاطمہ موٹر سائیکل پر سوار ہو گئی۔ ہم دونوں نے اُنھیں سلام کیا اور چل دئیے۔ وہ گیٹ پر کھڑیں ہمیں دیکھتے اپنا ہاتھ الوداعی انداز میں ہلانے لگیں۔ فاطمہ بھی بار بار پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے اپنا ہاتھ ہلا رہی تھی۔ میں موٹر سائیکل کے سائیڈ دیکھنے والے شیشہ سے اُنھیں دیکھ رہا تھا۔ میری ساس کا یہ معمول تھا کہ جب بھی ہم وہاں سے چلتے وہ اپنے گیٹ پر کھڑیں تب تک ہمیں دیکھتی رہتیں جب تک ہم اُن کی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو جاتے۔ فاطمہ بھی اُنھیں پیچھے مڑمڑ کر دیکھتی رہتی۔ ان دونوں کا یہ پیار بھرا انداز مجھے بہت اچھا لگتا۔
فاطمہ سے میری شادی تین سال پہلے ہوئی تھی۔ وہ دن اور آج کا دن میری ساس کی ہمارے تئیں محبت میں ذرا بھی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ بہت اچھے سبھاؤ کی تھیں۔ حالانکہ شوگر کی وجہ سے وہ بہت کمزور ہو گئی تھیں پھر بھی وہ بہت ہمت والی تھیں۔ گھر کے تمام کام وہ خود کرتیں اور ہمیشہ خوش رہتی تھیں۔ فاطمہ سے انہیں بے انتہا لگاؤ تھا۔ فاطمہ بھی اپنی امی سے بہت پیار کرتی تھی۔ ہر روز یہ دونوں آپس میں فون پر ایک یا دو بار بات بھی ضرور کرتی تھیں۔ پھر بھی اگر کبھی کام کی مصروفیات کی وجہ سے ہم مہینہ بھر ان سے ملنے نہیں جاپاتے تھے تو وہ فون پر ہمیں آنے کے لئے بار بار بولتی رہتیں تھیں مجھے ان کی شفقت میں ہر بار اضافہ ہی محسوس ہوتا۔
اس دن صبح کے وقت میرے سسر نے مجھے فون کرکے بتایا کہ تمھاری امی کو شوگر کا اٹیک ہوا ہے۔ اس کی حالت خراب ہے۔ ہم لوگ اسے سرکاری ہسپتال میں لے آئے ہیں۔ تم لوگ بھی آجاؤ۔ یہ سنتے ہی میں فاطمہ کو ساتھ لے کر جلدی سے ہسپتال پہنچ گیا۔ ایمرجنسی روم کے باہر میرے سسر اور ماجد غمگین بیٹھے تھے۔ اُن سے ملنے کے بعدہم نے میری ساس کو دیکھا وہ ایمرجنسی روم میں بے ہوش پڑی تھیں۔ ڈاکٹر اُنھیں ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے۔ فاطمہ اپنی امی کی حالت دیکھتے ہی رونے لگی اسے دیکھ کر ماجد بھی رونے لگا۔ میں نے فاطمہ کو دلاسا دیتے ہوئے کہا،
’’فاطمہ پلیز رو مت، حوصلہ رکھو۔ دیکھو تمھیں روتا ہوا دیکھ کر ماجد بھی رونے لگا ہے۔ اگر تم اس طرح ہمت ہار گئی تو ماجد کا کیا یوگا۔ اس لئے چپ ہو جاؤ اور ماجد کو کو سنبھالو۔ میں ڈاکٹر سے بات کرتا ہوں۔ تم لوگ فکر نہ کرو اللہ پاک امی پر رحم کریں گے۔‘‘
یہ سنتے ہی فاطمہ کے دل میں پتا نہیں کیا بات آئی اس نے جلدی سے اپنے آنسو پونچھے اور ماجد کے پاس جاکر بیٹھ گئی اور اسے دلاسا دے کر سمجھاتے ہوئے بولی،
’’چپ ہو جا میرے بھائی امی کو کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ پاک اُنھیں جلد صحت یاب کریں گے۔ تم رو مت بلکہ اللہ کے حضور میں امی کے لئے دعا کرو’’
کافی وقت کے بعد ایک ڈاکٹر باہر نکلا اور ہمارے پاس آکر نرمی سے بولا،
’’میں نے بہت کوشش کی مگر۔۔۔ سوری۔۔۔ میں اُنھیں بچا نہیں سکا۔‘‘
یہ سنتے ہی ہمارے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ ہم سبھی دوڑ کر اندر گئے۔ وہاں بیڈ پر میری ساس کی لاش پڑی تھی۔ ہمیں تو جیسے یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اب ہم سے ہمیشہ کے لئے دور چلی گئی ہیں۔ ماجد ان کی لاش سے لپٹ کر رونے لگا۔ میرے سسر کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر وہ حوصلہ سے کام لیتے ہوئے ماجد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے دلاسا دے کر چپ کرانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جبکہ فاطمہ پتا نہیں کہاں کھوئی اپنی امی کے چہرے کو دیکھے جا رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے۔ میں جیسے تیسے ان سبھی کو سنبھالتا ہوا اپنی ساس کی لاش کو گھر لے آیا۔ تقریبًا دو گھنٹے بعد میری ساس کو سپرد خاک کر دیا گیا۔ شام تک رشتہ داروں، دوستوں کا پرسے کے لئے آنا جانا لگا رہا۔ ماجد کا رو رو کر برا حال ہوا جا رہا تھا۔۔۔ میرے سسر کی بھی حالت خراب تھی۔ وہ بار بار اپنی بیوی کی باتوں کو یاد کرتے ہوئے رونے لگتے۔ مگر فاطمہ بالکل خاموش بت بنی بیٹھی کبھی اپنے ابو کی طرف کبھی ماجد کی تو کبھی اپنی امی کی کسی چیز کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔ یا پھر وہ گم صم سی بیٹھی چھت کو گھورنے لگتی۔ صبح اپنی امی کے انتقال کے بعد سے ہی اس کا یہ حال تھا۔ اس کی آنکھوں سے ایک بھی آنسو نہ نکلا تھا۔ وہ تو جیسے رونا ہی بھول گئی تھی۔ افسوس کے لئے آنے والی عورتیں اسے مل رہی تھیں۔ مگر وہ بالکل ساکت بیٹھی تھی۔ مجھے اس کی یہ حالت دیکھتے ہوئے کافی فکر ہونے لگی تھی۔ اسی لئے میں نے من بنا لیا تھا کہ رات کو اسے یہاں نہیں رہنے دوں گا بلکہ اسے اپنے گھر لے کر جاؤں گا۔ تاکہ اس کا تھوڑا من بدل جائے۔ یہاں رہی تو کہیں یہ اپنی امّی کی چیزوں کو دیکھ دیکھ کر اپنی طبیعت خراب نہ کر لے۔ اس نے منّے کو بھی سنبھالنا تھا۔ صبح سے وہ میری بھابھی کے پاس ہمارے گھر پر ہی تھا۔ دن میں کئی بار میں فون پر اپنی بھابھی سے منّے کے بارے میں پوچھ چکا تھا۔
رات ہوتے ہی جب میں نے فاطمہ سے چلنے کے لئے کہا تو وہ خاموشی کے ساتھ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے اپنے سسر سے اجازت لیتے ہوئے کہا،
’’ابو اب ہم چلتے ہیں۔ میں فاطمہ کو صبح لے کر آجاؤں گا۔ ابھی یہ گھر جا کر منّے کو سنبھال لے گی۔‘‘
وہ بجھی آواز میں بولے،
’’ٹھیک ہے بیٹا۔۔۔‘‘
میں نے اُنھیں سلام کیا۔ ماجد کو پیار دینے کے بعد میں فاطمہ کو ساتھ لے کر باہر آگیا۔ میرے موٹر سائیکل سٹارٹ کرتے ہی وہ خاموشی سے میرے پیچھے بیٹھ گئی۔ میں دھیمی رفتار سے موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔ میرا پورا دھیان فاطمہ کی طرف تھا۔ وہ بار بار اپنے گھر کے گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی۔ فاطمہ کے آج اس طرح پیچھے کی طرف مڑمڑ کر دیکھنے کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو اگئے۔ میں اپنے آپ کو روک نہ سکا اور رندھی ہوئی آواز میں، میں نے فاطمہ سے پوچھا۔
’’کیا دیکھ رہی ہو فاطمہ۔۔۔؟! سنسان گیٹ۔۔۔؟!‘‘
میرے اتنا کہتے ہی اس نے اپنا سر میری پیٹھ کے ساتھ لگایااور چیخیں مار کر رونے لگی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.