امرتسر آ گیا ہے
گاڑی کے ڈبے میں زیادہ مسافر نہیں تھے۔ میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھے ہوے سردار جی مجھے بڑی دیر سے محاذ جنگ کے قصے سنا رہے تھے۔ جنگ کے زمانے میں وہ برما کی لڑائی میں حصہ لے چکے تھے اور بات بات پر کھی کھی کرکے ہنستے اور گورے فوجیوں کا مذاق اڑاتے جا رہے تھے۔ ڈبے میں تین پٹھان بیوپاری بھی تھے۔ ان میں سے ایک ہرے رنگ کی پوشاک پہنے اوپر والی برتھ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ آدمی بڑا ہنس مکھ تھا اور بڑی دیر سے میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ایک دبلے سے بابو کے ساتھ اس کا مذاق چل رہا تھا۔ وہ دبلا بابو پشاور کا رہنے والا جان پڑتا تھا کیوں کہ کسی کسی وقت وہ آپس میں پشتو میں باتیں کرنے لگتے تھے۔ میرے سامنے بائیں طرف کونے میں ایک بڑھیا منھ سر ڈھانپے بیٹھی تھی اور دیر سے مالا جپ رہی تھی۔ یہی کچھ لوگ رہے ہوں گے۔ ممکن ہے دو ایک مسافر اور بھی رہے ہوں لیکن وہ مجھے ٹھیک طرح یاد نہیں۔
گاڑی دھیمی رفتار سے چلی جارہی تھی، گاڑی میں بیٹھے مسافر باتیں کر رہے تھے، باہر گیہوں کے کھیتوں میں ہلکی ہلکی لہریں اٹھ رہی تھیں اور میں من ہی من میں بڑا خوش تھا کیوں کہ میں دلی میں ہونے والا آزادی کا جشن دیکھنے جا رہا تھا۔
ان دنوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے ہم کسی جھٹ پٹے میں جی رہے تھے۔ شاید وقت بیت جانے پر ماضی کا سارا بیوپار ہی جھٹ پٹے میں گذرا ہوا جان پڑتا ہے۔ جوں جوں مستقبل کے پٹ کھلتے جاتے ہیں، یہ جھٹ پٹا اور بھی گہرا ہوتا چلا جاتا ہے۔
انہیں دنوں پاکستان کے بنائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا اور لوگ طرح طرح کے اندازے لگانے لگے تھے کہ مستقبل میں زندگی کا خاکہ کیسا ہوگا مگر کسی کا بھی تصور بہت دور تک نہیں جا پاتا تھا۔ میرے سامنے بیٹھے ہوئے سردار جی بار بار مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ پاکستان بن جانے کے بعد جناح صاحب بمبئی ہی میں رہیں گے یا پاکستان جاکر بس جائیں گے اور میرا ہر بار یہی جواب ہوتا، بمبئی کیوں چھوڑیں گے، پاکستان آتے جاتے رہیں گے، بمبئی چھوڑ دینے کی کیا تک ہے؟ لاہور اور گورداس پور کے بارے میں بھی اندازے لگائے جا رہے تھے کہ کون سا شہر کس طرف جائےگا۔ مل بیٹھنے کے ڈھنگ میں، گپ شپ میں، ہنسی مذاق میں کوئی خاص فرق نہیں آیا تھا۔ کچھ لوگ اپنے گھر چھوڑکر جا رہے تھے جب کہ دوسرے لوگ ان کا مذاق اڑا رہے تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کون سا قدم ٹھیک ہوگا اور کون سا غلط۔
ایک طرف پاکستان بن جانے کا جوش تھا تو دوسری طرف ہندوستان کے آزاد ہونے کا جوش۔ جگہ جگہ فساد بھی ہو رہے تھے اور یوم آزادی کی تیاریاں بھی چل رہی تھیں۔ اس پس منظر میں لگتا، ملک آزاد ہو جانے پرفسادات اپنے آپ بند ہو جائیں گے۔ ماحول کے اس جھٹ پٹے میں آزادی کی سنہری دھول سی اڑ رہی تھی اور ساتھ ہی ساتھ غیر یقینی پن بھی ڈول رہا تھا اور اسی غیر یقینی پن کی حالت میں کسی کسی وقت مستقبل کا خاکہ جھلک دے جاتا تھا۔
شاید جہلم کا اسٹیشن گزر چکا تھا جب اوپر والی برتھ پر بیٹھے پٹھان نے ایک پوٹلی کھول لی اور اس میں سے ابلا ہوا گوشت اور نان کے ٹکڑے نکال نکال کر اپنے ساتھیوں کو دینے لگا۔ پھر وہ ہنسی مذاق کے بیچ میری بغل میں بیٹھے بابو کی طرف بھی نان کا ٹکڑا اور گوشت کی بوٹی بڑھاکر کھانے کے لیے اصرار کرنے لگا، ’’کھالے بابو، طاقت آئےگی۔ ہم جیسا ہو جائےگا۔ بیوی بھی تیرے ساتھ خوش رہےگی۔ کھالے دال خور، تو دال کھاتا ہے اس لیے دبلاہے۔۔۔‘‘
ڈبے میں لوگ ہنسنے لگے تھے۔ بابو نے پشتو میں کچھ جواب دیا اور پھر مسکراتا سر ہلاتا رہا۔ اس پر دوسرے پٹھان نے ہنس کر کہا، ’’او ظالم، امارے آتھ سے نئیں لیتا اے تو اپنے آتھ سے اٹھا لے۔ خدا قسم برکا گوشت اے اور کسی چیز کانئیں ہے!‘‘ اوپر بیٹھا پٹھان چہک کر بولا، ’’اوخنزیر کے تخم، اِدر تمہیں کون دیکتا ہے؟ ام تیری بیوی کو نئیں بولےگا۔ او تو امارے ساتھ بوٹی تور، ام تیرے ساتھ دال پیےگا۔‘‘ اس پر قہقہہ اٹھا لیکن دبلا پتلا بابو ہنستا سر ہلاتا رہا اور کبھی کبھی دو لفظ پشتو میں بھی کہہ دیتا۔
’’او کتنا برابات اے، ام کاتا اے اور تو ا مارا منھ دیکتا اے۔۔۔‘‘ سب پٹھان مگن تھے۔
’’یہ اس لیے نہیں لیتا کہ تم نے ہاتھ نہیں دھوئے ہیں۔‘‘ بھاری بھرکم سردارجی بولے اور بولتے ہی کھی کھی کرنے لگے۔ ادھ لیٹی حالت میں بیٹھے سردارجی کی توند سیٹ کے نیچے لٹک رہی تھی۔
’’تم ابھی سوکر اٹھے ہو اور اٹھتے ہی پوٹلی کھول کر کھانے لگ گئے ہو، اس لیے بابوجی تمہارے ہاتھ سے نہیں لیتے اور کوئی بات نہیں۔‘‘ سردار جی نے میری طرف دیکھ کر آنکھ ماری اور پھر کھی کھی کرنے لگے۔
’’گوشت نئیں کاتا اے بابو تو جاؤ زنانہ ڈبے میں جاکر بیٹو۔ ادر کیا کرتا اے؟‘‘ پھر قہقہہ اٹھا۔
ڈبے میں اور بھی کئی مسافر تھے لیکن پرانے مسافر یہی تھے جو سفر شروع ہونے پر گاڑی میں بیٹھے تھے۔ باقی مسافر اترتے چڑھتے رہے تھے۔ پرانے مسافر ہونے کے ناتے ہی ان میں ایک طرح کی بےتکلفی آگئی تھی۔
’’او ادر آکر بیٹو۔ امارے ساتھ بیٹو۔ آؤ ظالم، قصہ خوانی کی باتیں کریں گے۔‘‘ تب ہی کسی اسٹیشن پر گاڑی رکی تھی اور نئے مسافروں کا ریلا اندر آ گیا تھا۔ بہت سے مسافر ایک ساتھ اندر گھستے چلے آ رہے تھے۔
’’کون سا اسٹیشن ہے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’وزیر آباد ہے شاید۔‘‘ میں نے باہر کی طرف دیکھ کر کہا۔ گاڑی وہاں تھوڑی دیر کھڑی رہی لیکن چھوٹنے سے پہلے ایک چھوٹا سا واقعہ ہوا۔ ایک آدمی ساتھ والے ڈبے میں سے پانی لینے اترا تھا اور نل پر جاکر پانی لوٹے میں بھر رہا تھا کہ اچانک بھاگ کر اپنے ڈبے کی طرف لوٹ آیا۔ چھلچھلاتے لوٹے میں سے پانی گر رہا تھا۔ لیکن جس ڈھنگ سے وہ بھاگا تھا اسی نے بہت کچھ بتا دیا تھا۔ نل پر کھڑے دوسرے لوگ بھی۔۔۔ تین یا چار آدمی رہے ہوں گے۔۔۔ ادھر ادھر اپنے اپنے ڈبوں کی طرف بھاگ گئے تھے۔ اس طرح گھبراکر بھاگتے لوگوں کو میں دیکھ چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پلیٹ فارم خالی ہو گیا مگر ڈبے کے اندر اب بھی ہنسی مذاق چل رہا تھا۔
’’کہیں کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘ میرے پاس بیٹھے دبلے بابو نے کہا۔
کہیں کچھ تھا۔۔ لیکن کیا تھا؟ کوئی بھی ٹھیک سے نہیں جانتا تھا۔ میں کئی فساد دیکھ چکا تھا، اس لیے ماحول میں ہونے والی چھوٹی سی تبدیلی کو بھی بھانپ گیا تھا۔ بھاگتے لوگ، کھٹاک سے بند ہوتے دروازے، گھروں کی چھتوں پر کھڑے آدمی، خاموشی اور سناٹا، سبھی فساد کے آثار تھے۔
ٹھیک تب ہی پچھلے دروازے کی طرف سے، جو پلیٹ فارم کے دوسری طرف کھلتا تھا، ہلکا سا شور ہوا۔ کوئی مسافر اندر گھسنا چاہتا تھا۔
’’کہاں گھسا آ رہا ہے، نہیں ہے جگہ! بول دیا جگہ نہیں ہے۔‘‘ کسی نے کہا۔
’’بند کروجی دروازہ۔ یوں ہی منھ اٹھائے گھسے آتے ہیں۔۔۔‘‘ آوازیں آرہی تھیں۔
جتنی دیر کوئی مسافر ڈبے کے باہر کھڑا اندر آنے کی کوشش کرتا رہے، اندر بیٹھے مسافر اس کی مخالفت کرتے رہتے ہیں لیکن ایک بار جیسے تیسے وہ اندر آ جائے تو مخالفت ختم ہو جاتی ہے اور وہ مسافر جلد ہی ڈبے کی دنیا کا باسی بن جاتا ہے اور اگلے اسٹیشن پر وہی سب سے پہلے باہر کھڑے مسافر پر چلانے لگتا ہے، ’’نہیں ہے جگہ! اگلے ڈبے میں جاؤؤ۔ گھسے چلے آتے ہیں۔۔۔‘‘
دروازے پر شور بڑھتا جا رہا تھا، تب ہی میلے کچیلے کپڑوں اور لٹکتی مونچھوں والا ایک آدمی دروازے میں سے اندر گھستا دکھائی دیا۔ چیکٹ میلے کپڑے، ضرور کہیں حلوائی کی دکان کرتا ہوگا۔ وہ لوگوں کی شکایتوں، آوازوں کی طرف دھیان دیے بغیر دروازے کی طرف گھوم کر بڑا سا کالے رنگ کا صندوق اندر کی گھسیٹنے لگا۔
’’آجاؤ، آجاؤ، تم بھی چڑھ جاؤ!‘‘ وہ اپنے پیچھے کسی سے کہے جا رہا تھا۔ تبھی دروازے میں ایک پتلی سوکھی سی عورت نظر آئی اور اس کے پیچھے سولہ سترہ برس کی سانولی سی ایک لڑکی اندر آ گئی۔ لوگ اب بھی چلائے جا رہے تھے۔ سردار جی کو کولہوں کے بل اٹھ کر بیٹھنا پڑا۔
’’بند کروجی دروازہ، بنا پوچھے چڑھے آتے ہیں! اپنے باپ کا گھر سمجھ رکھا ہے۔ مت گھسنے دو جی، کیا کرتے ہو، دھکیل دو پیچھے۔۔۔‘‘ دوسرے لوگ بھی چلا رہے تھے۔
وہ آدمی اپنی سامان اندر گھسیٹے جا رہا تھا اور اس کی بیوی اور بیٹی سنڈاس کے دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑی تھیں۔
’’اور کوئی ڈبا نہیں ملا؟ عورت ذات کو بھی یہیں اٹھا لایا ہے!‘‘
وہ آدمی پسینے میں تر تھا اور ہانپتا ہوا سامان اندر گھسیٹے جا رہا تھا۔ صندوق کے بعد رسیوں سے بندھی کھاٹ کی پٹیاں اندر کی طرف کھینچنے لگا۔
’’ٹکٹ ہے جی میرے پاس، میں بےٹکٹ نہیں ہوں۔ لاچاری ہے، شہر میں فساد ہو گیا ہے۔ بڑی مشکل سے اسٹیشن تک پہنچا ہوں۔‘‘ اس پر ڈبے میں بیٹھے بہت سے لوگ چپ ہو گئے لیکن برتھ پر بیٹھا پٹھان اچک کر بولا، ’’نکل جاؤ اِدر سے! دیکتانئیں اے اور جگہ نئیں اے!‘‘
اور پٹھان نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، آگے بڑھ کر اوپر ہی سے اس مسافر کو لات جمادی مگر لات اس آدمی کو لگنے کے بجائے اس کی بیوی کے کلیجے میں لگی اور وہ وہیں ہائے ہائے کرتی بیٹھ گئی۔
اس آدمی کے پاس مسافروں کے ساتھ الجھنے کے لیے وقت نہیں تھا۔ وہ برابر اپنا سامان اندر گھسیٹے جارہا تھا لیکن ڈبے میں خاموشی چھاگئی۔ کھاٹ کی پٹیوں کے بعد بڑی بڑی گھڑیاں آئیں۔ اس پر اوپر بیٹھے پٹھان کی قوت برداشت جواب دے گئی۔
’’نکالو اس کو باہر! کون ہے یہ؟‘‘ وہ چلا یا۔ اس پر دوسرے پٹھان نے، جو نیچے کی سیٹ پر بیٹھا تھا، اس آدمی کا صندوق دروازے میں سے نیچے دھکیل دیا، جہاں لال وردی والا ایک قلی کھڑا سامان اندر پہنچا رہا تھا۔
اس کی بیوی کو چوٹ لگنے پر کچھ مسافر چپ ہو گئے تھے، صرف کونے میں بیٹھی بڑھیا کر لائے جا رہی تھی، ’’اے نیک بندو، بیٹھنے دو۔ آجا بیٹی، تو میرے پاس آجا۔ جیسے کیسے سفر کاٹ لیں گے۔ چھوڑو ظالموں، بیٹھنے دو۔‘‘
ابھی آدھا ہی سامان اندر آ پایا ہوگا کہ اچانک گاڑی سرکنے لگی۔
’’چھوٹ گیا! سامان چھوٹ گیا!‘‘ وہ آدمی بدحواس سا ہوکر چلایا۔
’’پتاجی، سامان چھوٹ گیا!‘‘ سنڈاس کے پاس کھڑی لڑکی سر سے پاؤں تک کانپ رہی تھی اور چلائے جا رہی تھی۔
’’اترو، نیچے اترو!‘‘ وہ آدمی ہڑبڑاکر چلایا اور آگے بڑھ کر کھاٹ کی پٹیاں اور گٹھریاں باہر پھینکتے ہوئے دروازے کا ہینڈل پکڑ کرنیچے اتر گیا۔ اس کے پیچھے اس کی بے چین بیٹی اور پھر اس کی بیوی کلیجے کو دونوں ہاتھوں سے دبائے، ہائے ہائے کرتی نیچے اتر گئی۔
’’بہت برا کیا ہے تم لوگوں نے، بہت برا کیا ہے!‘‘ بڑھیا اونچی آواز میں بول رہی تھی، ’’تمہارے دل میں درد مر گیا ہے۔ چھوٹی سی بچی اس کے ساتھ تھی۔ بے رحمو، تم نے بہت برا کیا، دھکے دے کر اتار دیا!‘‘
گاڑی سونے پلیٹ فارم کو لانگھتی آگے بڑھ گئی۔ ڈبے میں بے چین سی خاموشی چھا گئی۔ بڑھیا نے بولنا بند کر دیا تھا۔ پٹھانوں کی مخالفت کرنے کی کسی کو ہمت نہیں ہوئی۔ میری بغل میں بیٹھے دبلے بابو نے میرے بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا، ’’آگ ہے، دیکھو آگ لگی ہے۔‘‘
گاڑی پلیٹ فارم چھوڑ کر آگے نکل آئی تھی اور شہر پیچھے چھوٹ رہاتھا۔ تب ہی شہر کی طرف سے اٹھتے دھویں کے بادل اور ان میں لپلپاتی آگ کے شعلے نظر آنے لگے تھے۔
’’فساد ہوا ہے۔ اسٹیشن پر بھی لوگ بھاگ رہے تھے۔ ضرور کہیں فساد ہوا ہے۔‘‘
شہر میں آگ لگی ہوئی تھی، یہ بات ڈبے بھر کے لوگوں کو معلوم ہوگئی اور وہ لپک لپک کر کھڑکیوں سے آگ کا منظر دیکھنے لگے۔
جب گاڑی شہر چھوڑ کر آگے نکل گئی تو ڈبے میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے گھوم کر ڈبے کے اندر دیکھا، دبلے بابو کا چہرہ پیلا پڑ گیا تھا اور ماتھے پر پسینے کی پرت کسی مردے کے ماتھے کی طرح چمک رہی تھی۔ مجھے لگا جیسے اپنی اپنی جگہ بیٹھے سب مسافروں نے اپنے ادھر ادھر بیٹھے لوگوں کا جائزہ لیا ہے۔ سردارجی اٹھ کر میری سیٹ پر آ بیٹھے۔ نیچے والی سیٹ پر بیٹھا پٹھان اٹھا اور اپنے دو ساتھی پٹھانوں کے ساتھ اوپروالی برتھ پر چڑھ گیا۔ یہی عمل شاید ریل گاڑی کے دوسرے ڈبوں میں بھی جاری تھا۔ اب ڈبے میں تناؤ آ گیا۔ لوگوں نے بات چیت بند کر دی۔ تینوں کے تینوں پٹھان اوپر والی برتھ پر ساتھ ساتھ بیٹھے چپ چاپ نیچے دیکھے جا رہے تھے۔ تمام مسافروں کی آنکھیں پہلے سے زیادہ کھلی کھلی اور شک بھری نظر آنے لگیں۔ یہی صورت حال شاید گاڑی کے سبھی ڈبوں میں پیدا ہو رہی تھی۔
’’کون سا اسٹیشن تھا یہ؟‘‘ ڈبے میں کسی نے پوچھا۔
’’وزیر آباد۔‘‘ کسی نے جواب دیا۔
جواب ملنے پر ڈبے میں ایک دوسرا ردعمل ہوا۔ پٹھانوں کے دل کا تناؤ فوراً ڈھیلا پڑ گیا، جب کہ ہندو سکھ مسافروں کی خاموشی اور زیادہ گہری ہو گئی۔ ایک پٹھان نے اپنی واسکٹ کی جیب میں سے نسوار کی ڈبیا نکالی اور ناک میں نسوار چڑھانے لگا۔ دوسرے پٹھان بھی اپنی اپنی ڈبیا نکال کر نسوار چڑھانے لگے۔ بڑھیا برابر مالا جپے جا رہی تھی۔ کسی کسی وقت اس کے بدبداتے ہونٹ نظر آتے، لگتا ان میں سے کوئی کھوکھلی سی آواز نکل رہی تھی۔
اگلے اسٹیشن پر جب گاڑی کی تو وہاں بھی سناٹا تھا۔ کوئی پرندہ تک نہیں پھڑک رہا تھا۔ ہاں، ایک بھشتی پیٹھ پر پانی کی مشک لادے، پلیٹ فارم لانگھ کر آیا اور مسافروں کو پانی پلانے لگا۔
’’لو پیو پانی، پانی پیو۔‘‘ زنانہ ڈبے میں سے عورتوں اور بچوں کے کئی ہاتھ باہر نکل آئے تھے۔
’’بہت مارکاٹ ہوئی، بہت لوگ مرے ہیں۔‘‘ لگتا تھا یہ اس مارکاٹ میں اکیلا ثواب کمانے چلا آیا تھا۔
گاڑی سر کی تو فوراً کھڑکیوں کے پلے چڑھائے جانے لگے۔ دور دور تک پہیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھڑکیوں کے پلے چڑھانے کی آواز آنے لگی۔
کسی نامعلوم خطرے کے احساس تلے دبلا بابو میرے پاس والی سیٹ سے اٹھا اور دوسیٹوں کے درمیان فرش پر لیٹ گیا۔ اس کا چہرہ اب بھی مردے کی طرح پیلا ہو رہا تھا۔ اس پر برتھ پر بیٹھا پٹھان اس کا مذاق اڑانے لگا، ’’او بےغیرت، تم مرداے کہ عورت اے؟ سیٹ سے اٹھ کر نیچے لیٹتا اے۔ تم مرد کے نام کو بدنام کرتا اے!‘‘ وہ بار بار بول رہا اور بار بار ہنسے جا رہا تھا۔ پھر پشتو میں کچھ کہنے لگا۔ بابو چپ چاپ لیٹا رہا۔ دوسرے تمام مسافر بھی چپ تھے۔ ڈبے کا ماحول بوجھل ہو گیا تھا۔
’’ایسے آدمی کو ام ڈبے میں بیٹنے نئیں دےگا۔ او بابو، تم اگلے اسٹیشن پر اتر جاؤ اور زنانہ ڈبے میں بیٹو۔‘‘
مگر اب بابو کی حاضر جوابی اس کے گلے میں سوکھ چکی تھی۔ وہ ہکلا کر چپ ہو رہا تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد وہ اپنے آپ سیٹ پر جابیٹھا اور دیر تک اپنے کپڑوں کی دھول جھاڑتا رہا۔ وہ فرش پر کیوں لیٹ گیا تھا؟ شاید اسے ڈرتھا کہ باہر سے گاڑی پر پتھراؤ ہوگا یا گولی چلےگی۔ شاید اسی خوف سے کھڑکیوں کے پلے بھی چڑھائے جا رہے تھے۔ کچھ بھی کہنا مشکل تھا۔ ممکن ہے کسی ایک مسافر نے کسی وجہ سے کھڑکی کا پلا چڑھایا ہو اور پھر اس کی دیکھا دیکھی، بلاسوچے سمجھے، دھڑا دھڑ کھڑکیوں کے پلے چڑھائے جانے لگے ہوں۔
بوجھل اور غیریقینی سے ماحول میں سفر کٹنے لگا۔ رات گہری ہوتی گئی۔ ڈبے کے مسافر خاموش اور خوف زدہ، جوں کے توں بیٹھے تھے۔ کبھی گاڑی کی رفتار اچانک ٹوٹ کر دھیمی پڑ جاتی تولوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے اور کبھی راستے میں رک جاتی تو ڈبے کے اندر کا سناٹا اور بھی گہرا ہو جاتا۔ صرف پٹھان بےفکر بیٹھے تھے۔ ہاں، بات چیت کرنا انہوں نے بھی چھوڑ دیا تھا، کیوں کہ اب ان کی بات چیت میں کوئی بھی شامل ہونے والا نہیں تھا۔
دھیرے دھیرے پٹھان اونگھنے لگے، جب کہ دوسرے مسافر پھٹی پھٹی آنکھوں سے خلا میں گھور رہے تھے۔ بڑھیا منھ سر لپیٹے، پاؤں سیٹ پر رکھے بیٹھی بیٹھی سو گئی تھی۔ اوپر والی برتھ پر ایک پٹھان نے ادھ لیٹے ہی کرتے کی جیب میں سے کالے منکوں کی تسبیح نکال لی اور اسے دھیرے دھیرے ہاتھ میں چلانے لگا۔
کھڑکی کے اوپر آسمان میں چاند نکل آیا تھا اور چاندنی میں باہر کی دنیا اور بھی زیادہ غیریقینی اور پراسرار ہو گئی تھی۔ کسی کسی وقت دور کسی طرف آگ کے شعلے اٹھتے نظر آتے، کوئی نگر جل رہا تھا۔ گاڑی کسی وقت چنگھاڑتی ہوئی آگے بڑھنے لگتی، پھر کسی وقت اس کی رفتار دھیمی پڑ جاتی اور میلوں تک دھیمی رفتار ہی سے چلتی رہتی۔
اچانک دبلا بابو کھڑکی ہی سے باہر دیکھ کر اونچی آواز میں بولا، ’’ہربنس پورہ گزر گیا ہے۔‘‘ اس کی آواز میں جوش تھا، وہ جیسے چیخ کر بولا تھا۔ ڈبے کے سبھی لوگ اس کی آواز سن کر چونک گئے۔ اس وقت ایسا لگا جیسے ڈبے کے زیادہ ترمسافروں نے اس کی آواز ہی کو سن کر کروٹ بدلی ہو۔
’’خوبابو، چلاتا کیوں اے؟‘‘ تسبیح والا پٹھان چونک کر بولا، ’’ادر اترےگا تم؟ زنجیر کھینچوں؟‘‘ اور کھی کھی کرکے ہنس دیا۔ ظاہر ہے وہ ہربنس پورہ کے حالات سے بلکہ اس کے نام تک سے ناواقف تھا۔ بابو نے کوئی جواب نہیں دیا، صرف سرہلاکر ایک آدھ بار پٹھان کی طرف دیکھا اور پھر کھڑکی کے باہر جھانکنے لگا۔ ڈبے میں پھر خاموشی چھا گئی۔ تبھی انجن نے سیٹی دی اور ایک دم اس کی رفتار ٹوٹ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ایک کھٹاک کی سی آواز سنائی دی، شاید گاڑی نے لائن بدلی تھی۔ بابو نے جھانک کر اس سمت میں دیکھا جدھر گاڑی چلی جا رہی تھی۔
’’شہر آ گیا ہے!‘‘ وہ پھر اونچی آواز میں چلایا، ’’امرتسر آ گیا ہے!‘‘ اس نے پھر سے کہا اور اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اوپر والی برتھ پر لیٹے پٹھان کو مخاطب کرکے کہا، ’’اوبے پٹھان کے بچے! نیچے اتر تیری ماں کی۔۔۔ نیچے اتر، تیری اس پٹھان بنانے والے کی میں۔۔۔‘‘ بابو چلانے لگا تھا او رچیخ چیخ کر گالیاں بکنے لگا تھا۔ تسبیح والے پٹھان نے کروٹ بدلی اور بابو کی طرف دیکھ کر بولا، ’’او کیا اے بابو؟ ام کو کچھ بولا؟‘‘
بابو کو جوش میں دیکھ کر دوسرے مسافر بھی اٹھ بیٹھے۔
’’نیچے اتر، تیری میں۔۔۔ ہندوعورت کو لات مارتا ہے، حرام زادے، تیری اس۔۔۔‘‘
’’اے بابو، بک بک مت کرو۔ اوخنزیر کے تخم، گالی مت بکو، ام نے بول دیا۔ ام تمارا زبان کھینچ لےگا۔‘‘
’’گالی دیتا ہے مادر۔۔۔‘‘ بابو چلایا اور اچھل کر سیٹ پر چڑھ گیا۔ وہ سر سے پیر تک کانپ رہا تھا۔
’’بس بس۔۔۔‘‘ سردارجی بولے، ’’یہ لڑنے کی جگہ نہیں ہے۔ تھوری دیر کا سفر باقی ہے، آرام سے بیٹھو۔‘‘
’’تیری میں لات نہ توڑوں تو کہنا۔ گاڑی تیرے باپ کی ہے؟‘‘ بابو چلایا۔
’’اوام نے کیا بولا؟ سب لوگ اس کو نکالتا تا، ام نے بی نکالا۔ یہ اِدرام کو گالی دیتا اے۔ ام اس کا زبان کھینچ لےگا۔‘‘
بڑھیا بیچ میں پھر بول اٹھی، ’’اے جیئن جوگیو، آرام نال بیٹھو۔ اے رب دیو بندیو، کچھ ہو ش کرو!‘‘ اس کے ہونٹ پھڑپھڑا رہے تھے اور ان میں سے ہلکی سی پھسپھساہٹ سنائی دے رہی تھی۔ بابو چلائے جا رہا تھا، ’’اپنے گھر میں شیر بنتا تھا۔ اب بول، تیری میں اس پٹھان بنانے والے کی۔۔۔‘‘
تب ہی گاڑی امرتسر کے پلیٹ فارم پر رکی۔ پلیٹ فارم لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا جو جھانک جھانک کر ڈبوں کے اندر دیکھنے لگے۔ لوگ بار بار ایک ہی سوال پوچھ رہے تھے، پیچھے کیا ہوا ہے؟ کہاں پر فساد ہوا ہے؟
کھچاکھچ بھرے پلیٹ فارم پر شاید اسی بات کا ذکر تھا کہ پیچھے کیا ہوا ہے۔ پلیٹ فارم پر کھڑے دو تین خوانچے والوں پر مسافر ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ سبھی کو اچانک بھوک پیاس پریشان کرنے لگی تھی۔ اسی دوران تین چار پٹھان ہمارے ڈبے کے باہر دکھائی دیے اور کھڑکی میں سے جھانک جھانک کر اندر دیکھنے لگے۔ اپنے پٹھان ساتھیوں پر نظر پڑتے ہی وہ ان سے پشتو میں کچھ بولنے لگے۔ میں نے گھوم کر دیکھا، بابو ڈبے میں نہیں تھا۔ نہ جانے کب وہ ڈبے سے نکل گیا تھا۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ وہ غصے میں پاگل ہوا جا رہا تھا، نہ جانے کیا کر بیٹھے۔ مگر اسی دوران ڈبے کے تینوں پٹھان اپنی اپنی گٹھری اٹھاکر باہر نکل گئے اور اپنے پٹھان ساتھیوں کے ساتھ گاڑی کے کسی اگلے ڈبے کی طرف بڑھ گئے۔ جو تقسیم پہلے ہر ایک ڈبے کے اندر ہوتی رہی تھی، اب وہ پوری گاڑی کی سطح پر ہو رہی تھی۔
خوانچے والوں کے اردگرد بھیڑ چھٹنے لگی۔ لوگ اپنے اپنے ڈبوں کی طرف لوٹنے لگے۔ اچانک مجھے ایک طرف سے وہ بابو آتا دکھائی دیا۔ اس کا چہرہ اب بھی زرد تھا اور ماتھے پر بالوں کی لٹ جھول رہی تھی۔ نزدیک پہنچا تو میں نے دیکھا، اس نے اپنے بائیں ہاتھ میں لوہے کی ایک سلاخ اٹھا رکھی تھی۔ جانے وہ اسے کہاں سے مل گئی تھی۔ ڈبے میں گھستے وقت اس نے سلاخ کو اپنی پیٹھ کے پیچھے کر لیا اور ساتھ والی سیٹ پر بیٹھنے سے پہلے آہستہ سے سیٹ کے نیچے سرکا دیا۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی اس کی آنکھیں پٹھان کی تلاش میں اوپر کو اٹھیں لیکن ڈبے میں پٹھانوں کو نہ پاکر وہ ہڑبڑاکر چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’نکل گئے حرامی، مادر۔۔۔ سب کے سب نکل گئے!‘‘ پھر وہ سٹپٹاکر اٹھ کھڑا ہوا اور چلاکر بولا، ’’تم نے ان کو جانے کیوں دیا؟ تم سب نامرد ہو، بزدل!‘‘
گاڑی میں بہت بھیڑ تھی، بہت سے نئے مسافر آ گئے تھے۔ کسی نے اس کی طرف کوئی خاص دھیان نہیں دیا۔
گاڑی سرکنے لگی تو وہ پھر میری بغل والی سیٹ پر آ بیٹھا۔ وہ بہت جوش میں تھا اور بڑبڑائے جارہا تھا۔ دھیرے دھیرے ہچکولے کھاتی گاڑی آگے بڑھنے لگی۔ ڈبے کے پرانے مسافروں نے پیٹ بھر کر پوریاں کھالی تھیں اور پانی پی لیا تھا۔ اب گاڑی اس علاقے میں آگے بڑھنے لگی تھی جہاں ان کے جان و مال کو خطرہ نہیں تھا۔
نئے مسافر باتوں میں مصروف تھے۔ دھیرے دھیرے گاڑی اپنی عام رفتار سے چلنے لگی تھی اور کچھ ہی دیر بعد لوگ اونگھنے بھی لگے تھے مگر بابو اب بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے سامنے کی طرف دیکھے جا رہا تھا اور بار بار مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ پٹھان ڈبے میں سے نکل کر کس طرف گئے ہیں۔ اس کے سر پر جنون سوار تھا۔
گاڑی کے ہچکولے میں، میں خود اونگھنے لگا تھا۔ ڈبے میں لیٹنے کی جگہ نہیں تھی۔ بیٹھے بیٹھے ہی نیند میں میرا سر کبھی ایک طرف کو لڑھک جاتا اور کبھی دوسری طرف۔ کسی کسی وقت جھٹکے سے میری نیند ٹوٹتی اور مجھے سامنے کی سیٹ پر بے پروائی سے پڑے سردارجی کے خراٹے سنائی دیتے۔ امرتسر پہنچنے کے بعد سردارجی پھر سے سامنے کی سیٹ پر ٹانگیں پسار کر لیٹ گئے تھے۔ ڈبے میں طرح طرح کی آڑی ترچھی حالتوں میں مسافر پڑے تھے۔ ان کی اس بےترتیب کیفیت کو دیکھ کر لگتا جیسے ڈبا لاشوں سے بھرا ہوا۔ پاس بیٹھے بابو پر نظر پڑتی تو کبھی وہ کھڑکی سے باہر منھ کیے ہوتا تو کبھی دیوار سے پیٹھ لگائے تن کر بیٹھا نظر آتا۔
کسی کسی وقت جب گاڑی اسٹیشن پر رکتی تو پہیوں کی گڑگڑاہٹ بند ہوکر خاموشی چھا جاتی۔ اس وقت یوں لگتا جیسے پلیٹ فارم پر کچھ گراہے یا جیسے کوئی مسافر گاڑی سے اترا ہے۔۔۔ اور میں جھٹکے کے ساتھ اٹھ کر بیٹھ جاتا۔
اسی طرح ایک بار جب میری نیند ٹوٹی تو گاڑی کی رفتار دھیمی پڑگئی تھی اور ڈبے میں اندھیرا تھا۔ میں نے اسی طرح ادھ لیٹے کھڑکی کے باہر دیکھا۔ دور، پیچھے کی طرف، کسی اسٹیشن کے سگنل کے لال قمقمے چمک رہے تھے۔ ظاہر ہے گاڑی کسی اسٹیشن سے گزر کر آئی تھی لیکن ابھی تک اس نے رفتار نہیں پکڑی تھی۔
ڈبے کے باہر مجھے دھیمی سی، مبہم آوازیں سنائی دیں۔ دور ایک دھندلا سا کالا ہیولا نظر آیا۔ نیند کے خمار میں کچھ دیر میری نظریں اسی پر جمی رہیں، پھر میں نے اسے سمجھ پانے کا خیال چھوڑ دیا۔ ڈبے کے اندر اندھیرا تھا، بتیاں بجھی ہوئی تھیں لیکن باہر لگتا تھا پو پھٹنے لگی ہے۔
میری پیٹھ پیچھے، ڈبے کے باہر، کسی چیز کے کھر چنے کی سی آواز آئی۔ میں نے دروازے کی طرف مڑ کر دیکھا۔ ڈبے کا دروازہ بند تھا۔ مجھے پھر دروازہ کھرچنے کی آواز سنائی دی۔ پھر میں نے صاف صاف سنا، لاٹھی سے کوئی آدمی ڈبے کا دروازہ پیٹ رہا تھا۔ میں نے جھانک کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ سچ مچ ایک آدمی ڈبے کی دوسیڑھیاں چڑھ آیا تھا۔ اس کے کندھے پر ایک گھڑی جھول رہی تھی اور ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ اس نے بدرنگ سے کپڑے پہن رکھے تھے اور اس کے داڑھی تھی۔ پھر جب میری نظر باہر نیچے کی طرف گئی تو دیکھا، گاڑی کے ساتھ ساتھ ایک عورت ننگے پاؤں بھاگتی آ رہی تھی۔ اس نے دو گھڑیاں اٹھا رکھی تھیں۔ بوجھ کی وجہ سے اس سے دوڑا نہیں جا رہا تھا۔ ڈبے کے پائیدان پر کھڑا آدمی بار بار اس کی طرف مڑ کر دیکھ رہا تھا اور ہانپتا ہوا کہے جارہا تھا، ’’آجا، آجا، تو بھی چڑھ جا!‘‘
دروازے پر پھر لاٹھی ٹپٹپانے کی آواز آئی، ’’کھولو جی دروازہ، خدا کے واسطے کھولو۔‘‘
وہ آدمی ہانپ رہا تھا، ’’خدا کے لیے دروازہ کھولو۔ میرے ساتھ عورت ذات ہے۔ گاڑی نکل جائےگی۔۔۔‘‘
اچانک میں نے دیکھا، بابو ہڑبڑاکر اٹھ کھڑا ہوا اور دروازے کے پاس جاکر، دروازے میں لگی ہوئی کھڑکی سے منھ باہر نکال کر بولا، ’’کون ہے؟ ادھر جگہ نہیں ہے۔‘‘ باہر کھڑا آدمی پھر گڑگڑانے لگا، ’’خدا کے واسطے، گاڑی نکل جائےگی۔۔۔‘‘ اور کھڑکی میں سے اپنا ہاتھ اندر ڈال کر دروازہ کھولنے کے لیے چٹخنی ٹٹولنے لگا۔
’’نہیں ہے جگہ، بول دیا! اتر جاؤ گاڑی پر سے۔۔۔‘‘ بابو چلایا اور اسی لمحے لپک کر دروازہ کھول دیا۔
اور اسی وقت میں نے بابو کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخ کو چمکتے ہوئے دیکھا۔ ایک ہی بھرپور وار بابو نے اس مسافر کے سرپر کیا تھا۔ میں دیکھتے ہی ڈر گیا اور میری ٹانگیں لرزگئیں۔ مجھے لگا سلاخ کے وار کا اس آدمی پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کے دونوں ہاتھ اب بھی زور سے دروازے کے ہینڈ ل کو پکڑے ہوئے تھے۔ کندھے پر ہوئی لٹکتی ہوئی گٹھری کھسک کر اس کی کہنی پر آ گئی تھی۔
اچانک اس کے چہرے پر خون کی دوتین دھاریں ایک ساتھ پھوٹ پڑیں۔ جھٹ پٹے میں مجھے اس کے کھلے ہونٹ اور چمکتے دانت نظر آئے۔ وہ دو ایک بار ’’یا اللہ!‘‘ بڑبڑایا، پھر اس کے پیر لڑکھڑا گئے۔ اس کی آنکھوں نے بابو کی طرف دیکھا، ادھ مندی سی آنکھیں جو دھیرے دھیرے سکڑتی جا رہی تھیں گویا اسے پہچاننے کی کوشش کر رہی ہوں کہ وہ کون ہے اور اس سے کس عداوت کا بدلہ لے رہا ہے۔ اس دوران اندھیرا کچھ اور کم ہو گیا تھا۔ اس کے ہونٹ پھر سے پھڑپھڑائے اور سفید دانت جھلکنے لگے۔ میں نے محسوس کیا جیسے وہ مسکرایا ہو، لیکن حقیقت میں صدمے کی وجہ سے اس کے ہونٹوں پر بل پڑنے لگے تھے۔
نیچے پٹری کے ساتھ ساتھ بھاگتی ہوئی عورت کوستی جا رہی تھی۔ اسے ابھی تک معلوم نہیں ہو پایا تھا کہ ہوا کیا ہے۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ شاید گٹھری کی وجہ سے اس کا شوہر گاڑی پر ٹھیک طرح چڑھ نہیں پا رہا اور اس کا پیر جم نہیں رہا۔ وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتی ہوئی، اپنی دو گٹھریوں کے باوجود، اپنے شوہر کے پیر کو پکڑ پکڑ کر پائیدان پر ٹکانے کی کوشش کر رہی تھی۔
اچانک اس آدمی کے دونوں ہاتھ ڈبے کے ہینڈل سے چھوٹ گئے اور وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح نیچے جاگرا۔ اس کے گرتے ہی عورت نے بھاگنا بند کر دیا، جیسے دونوں کا سفر ایک ساتھ ہی ختم ہو گیا ہو۔
بابو اب بھی میرے قریب ڈبے کے کھلے دروازے میں بت بنا کھڑا تھا۔ لوہے کی سلاخ اسی طرح اس کے ہاتھ میں تھی۔ مجھے لگا جیسے وہ سلاخ کو پھینک دینا چاہتا ہے لیکن پھینک نہیں پا رہا، اس کا ہاتھ جیسے اٹھ ہی نہیں رہا تھا۔ میری سانس پھولی ہوئی تھی اور ڈبے کے اندھیرے کونے میں کھڑکی کے ساتھ لگ کر بیٹھا ہوا میں اس کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔
پھر وہ کھڑے کھڑے ہلا اور کسی انجانی قوت کے بس میں آکر وہ ایک قدم آگے بڑھ آیا اور دروازے میں سے باہر، پیچھے کی طرف دیکھنے لگا۔ گاڑی آگے نکلتی جا رہی تھی۔ دور پٹری کے کنارے اندھیرا ہیولا سا نظر آ رہا تھا۔
بابو کاجسم حرکت میں آیا۔ ایک جھٹکے سے اس نے لوہے کی سلاخ کو ڈبے سے باہر پھینک دیا۔ پھر گھوم کر ڈبے کے اندر دائیں بائیں دیکھنے لگا۔ سب مسافر سوئے پڑے تھے۔ میری طرف اس کی نظر نہیں اٹھی۔ تھوڑی دیر تک وہ وہیں کھڑا رہا، پھر اس نے گھوم کر دروازہ بند کر دیا۔ اس نے غور سے اپنے کپڑوں کو دیکھا، دونوں ہاتھوں کو دیکھا، پھر باری باری اپنے ہاتھوں کو ناک کے قریب لاکر سونگھا، جیسے جاننا چاہتا ہو کہ کہیں اس کے ہاتھوں میں سے خون کی بوتو نہیں آ رہی، پھر وہ دبے پاؤں چلتا ہوا آکر میری بغل والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
دھیرے دھیرے دھندلکا چھٹنے لگا اور صبح پھوٹ پڑی۔ چاروں طرف روشنی پھیلنے لگی۔ کسی نے زنجیر کھینچ کر گاڑی کو نہیں روکا تھا اور لوہے کی سلاخ کی چوٹ کھاکر گری ہوئی اس آدمی کی لاش میلوں پیچھے رہ گئی تھی۔ سامنے گیہوں کے کھیتوں میں پھر وہی ہلکی ہلکی لہریں سی اٹھتی نظر آنے لگی تھیں۔
سردارجی اپنا بدن کھجلاتے اٹھ بیٹھے۔ میری بغل میں بیٹھا بابو اپنے دونوں ہاتھ سر کے پیچھے رکھے سامنے کی طرف دیکھے جا رہا تھا۔ رات بھر میں اس کے چہرے پر داڑھی کے چھوٹے چھوٹے بال بھی اگ آئے تھے۔ اپنے سامنے بیٹھا دیکھ کر سردار جی اس سے باتیں کرنے لگے، ’’بڑے جی دار ہوبابو، دبلے پتلے ہو لیکن ہو بڑے دل والے۔ بڑی ہمت دکھائی تم نے۔ تم سے ڈر کر ہی وہ پٹھان ڈبے میں سے نکل گئے۔ یہاں رہتے تو ایک نہ ایک کی کھوپڑی تم ضرور درست کر دیتے۔‘‘ اور سردار جی ہنسنے لگے۔
جواب میں بابو مسکرایا، ایک خوف ناک مسکراہٹ اور دیر تک سردار جی کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.