Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندیشہ

MORE BYبلال حسن منٹو

    الو کی آنکھوں والے فضو انکل کے بارے میں امی کی جو خواہش تھی، یعنی یہ کہ جب یہ شخص مرے اور جہنم میں جائے اور جب وہاں اس کو لٹکاکر اس کے نیچے آگ دہکائی جائے تو میں وہ منظر دیکھ سکوں، وہ تونہ جانے پوری ہو سکے گی یا نہیں ،کیونکہ امی ابھی زندہ ہیں اور یہ بات ہمیں معلوم نہیں کہ فضو انکل ابھی جہنم میں پہنچے ہیں یا نہیں، یا بھیجے جائیں گے یا نہیں، مگر جس طرح ان کی وفات ہوئی اس پر امی ناخوش تھیں۔ نا خوش سے زیادہ شاید مایوس تھیں کہ اچھا، ایسے ہی اتنے آرام سے ان کو موت آ گئی؟ لگتا ہے امی کا خیال تھا کہ جس قسم کے انسان وہ تھے، دہریے اور ملحد سے، ان کو انتہائی عذاب میں، درد میں مبتلا ہو کر، سسک سسک کر، ایڑھیاں رگڑ رگڑ کے مرنا چاہیے تھا اور ایسی تکلیف میں ہونا چاہیے تھا کہ وہ خود پکار پکار کے کہتے کہ کاش مجھے فوراً موت آ جائے۔ امی نے کبھی اس خیال یا خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا کیونکہ یوں کسی کے مرنے کے بارے میں اس قدر سفاک آرزو رکھنا کچھ مناسب نہ لگتا مگر بات کچھ ایسی ہی تھی۔ میرا خیال ہے کہ امی چاہتی تھیں کہ ان کی یہ بات ثابت ہو کہ فضو انکل جس جس نوعیت کی غیرمذہبی باتیں زندگی میں کرتے رہے تھے اور جیسے انہوں نے اپنی بیوی کو عذاب میں مبتلا رکھا تھا وہ صرف شیطان کے پیروکار کر سکتے ہیں اور جب وہ مرض الموت میں مبتلا ہو کر تکلیف میں عذاب سے چیخیں گے تو انہیں بالاخر خدا ہی یاد آئےگا اور پھر وہ اس سے دعا مانگیں گے کہ یا اللہ میری مشکل آسان کر۔

    مگر فضو انکل بہت آرام سے، اطمینان سے، ایک دوپہر اپنے گھر میں اکیلے، صوفے پر بیٹھے بیٹھے، اخبار پڑھتے پڑھتے، چپ چاپ فوت ہو گئے۔ان کے ہاتھ اپنی گود میں گر گئے، اخبار تھوڑا چڑ مڑ ہو گیا اور سر نیچے ڈھلک گیا۔ بس۔ اس کے علاوہ کچھ بھی نہ ہوا۔ عینک تک ناک سے نہ ہلی۔ آخرکار امی نے اس کی توجیح یہ نکالی کہ اگر اس کو زندگی میں عذاب نہیں ملا تو پھر اس کا یقینا یہ مطلب ہے کہ جہنم میں تو اس کو بہت ہی زیادہ عذاب ملےگا اور آگ میں جلنے کے ساتھ ساتھ سانپ اور بچھوتو کاٹیں گے ہی، مگر کچھ ایسا عذاب بھی ملےگا جو ہمارے تصور سے باہر ہے۔

    فضو انکل کے جنازے سے واپسی پر ابا خاموشی اختیار کیے رہے تھے، جیسے غمگین ہوں یا کسی گہری سوچ میں ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ دونوں باتیں ہو کیونکہ کسی کا مرنا عام طورپر غم پیدا کرنے والا واقعہ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ مرنے والا کوئی ایسا خراب شخص ہو کہ کرہ ارض پر اس کو پسند کرنے والا کوئی نہ ملے۔ بس اس استثنا کے سوا مر جانا ایک ایسا سانحہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کے وقوع پذیر ہونے پر کسی قسم کی خوشی منانا سخت معیوب گنا جاتا ہے۔ یہ بات کتنی مصمم ہے اور کب سے ایسی ہی چلی آ رہی ہے، اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ ایک پرانے سے شاعر نے یہاں تک کہاں ہے کہ اگر کوئی شخص آپ کو نہایت برا بھی لگتا ہو، مثلاً آپ کا کوئی دشمن ،تو بھی اس کے مرنے پر ہر گز خوشی مت منائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہی، مثلاً کل یا پرسوں، کوئی ایسا شخص مر جائے جو آپ کو بہت پسند ہو، جس سے آپ کو محبت ہو، یا ایسا کوئی اور پر اسرار جذبہ۔

    ’’سمجھ میں نہیں آتا کہ اس چیز کا کیا مقصد ہے؟‘‘ ابا نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے خود کلامی کی۔

    ’’کیا بول رہے ہیں آپ؟‘‘ امی نے کہا۔ ’’اس کافر کی موت کا اتنا اثر ہو گیا آپ کے دماغ پر کہ مہمل باتیں کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں‘‘ ابا نے کہا۔ ‘‘ اپنڈیکس کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ جس چیز کا نام ہی اپنڈیکس ہے، جس کا کوئی کام نہیں، بیکار اور فالتو ہے، وہ کیوں انسان کے اندر موجود ہوتی ہے؟‘‘

    ’’بیکار؟‘‘ امی تنک کے بولیں۔ ’’بیکار؟ یہ اللہ تعالیٰ نے وسیلہ بنایا ہے ایسے لوگوں کی موت کے لئے۔ خاص کر اس آدمی کی موت کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے ایسا بندوبست کیا کہ اسے پتہ بھی نہ چلا اور وہ پھٹ گئی۔ پتہ چلتا تو ہسپتال جا کے علاج کروا لیتا منحوس۔ یا پھر تکلیف سے مرتا اور پھر اس کا آخرت کا عذاب کم ہو جاتا۔‘‘

    میں نہیں مانتا کہ فضو انکل کے بارے میں امی کی ناپسندیدگی، بلکہ نفرت ہی سہی، کی اصل وجہ مذہب کے بارے میں ان کے خیالات تھے۔ اگر ایسا تھا تو عجیب بات تھی کیونکہ امی کے اپنے خاوند، یعنیـ ابا، بھی مجھے کوئی خاص مذہبی معلوم نہیں ہوتے تھے۔ ہم نے تو خود امی کو کبھی کوئی بہت سے مذہبی فریضے ادا کرتے نہیں دیکھا تھا بلکہ خاص بکرا عید کے معاملے میں تو ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا تھا کہ جب ہمسایوں کے لائے ہوئے قربانی کے بکروں کی آوازیں پہلے پہل ہمارے کانوں میں آتی تھیں تو امی کہتی تھیں۔

    ’’لو جی، آ گئے جے وچارے بکرے‘‘(1)

    وہ ناک پر دوپٹہ رکھ کر یہ کہتی تھیں، حالانکہ ان بکروں کی کوئی بو وو ہمارے ہاں نہیں پہنچ رہی ہوتی تھی۔ خود ہمارے گھر میں قربانی نہیں کی جاتی تھی اور ظاہر ہے کہ یہ امی اور ابا دونوں کے ایماء سے یو ں تھا۔ پھر یہ بھی تھا کہ امی کو قربانی کے بکروں کا گوشت کھانا بالکل پسند نہیں تھا اور وہ یہ بات سخت نا پسند کرتی تھیں کہ کوئی ان کو وہ گوشت بھیجے۔ وہ ناگواری سے یہ دہرایا کرتی تھیں کہ قربانی کر ہی دی ہے آپ نے تو اس کا گوشت مستحقین میں تقسیم کریں، ہمیں بھیج کر کیا شیخی بگھارتے ہیں کہ دیکھو کیسے اعلیٰ درجے کے مویشی کو ہم نے اللہ کی راہ میں قربان کیا ہے۔ ایک تو امی کو وہ گوشت نا پسند تھا اور دوسرا وہ اس بات سے گھبراتی تھیں کہ کون یہ گوشت صاف صوف کرکے ہمارے فریج کے چھوٹے سے فریزر خانہ میں بھرے۔ مصیبت یہ تھی کہ وہ ایسا گوشت کہیں آگے بھی نہیں بھیج سکتی تھیں کیونکہ سب جانتے تھے کہ ہمارے ہاں کوئی قربانی وربانی نہیں کی جاتی تھی۔ یہ تو یوں ہی ہوتا جیسے ایک بار چھوٹی عید پر اختر آنٹی ہمارے گھر آئیں تو ایک کیک بھی لیتی آئیں کہ لو تم لوگوں کیلئے خرید کے لائی ہوں مگر جب بعد میں اسے کھولا گیا تو اس پر سفید چورا میٹھی چینی سے صاف لکھا تھا ’’اختر خالہ کو عید مبارک ‘‘۔

    بکرا عید پر ہمارے گیٹ کو صبح باہر سے تالا لگا دیا جاتا تھا تاکہ گوشت لانے والے یہ سمجھیں کہ گھر والے باہر گئے ہوئے ہیں اور اپنا گوشت واپس لے جائیں۔ ہوتا بھی یوں ہی تھا، سوائے اس کے کہ آپا صغراں جتنا عرصہ ہمارے ہمسائے میں رہیں پلاسٹک کے لفافوں میں لپیٹ لپاٹ کر گوشت ہمارے گیٹ کے اندر پھینکوا دیتیں اور ان کی اس حرکت پہ امی بہت جز بز ہوتی تھیں۔ ہم بڑی عید کے دو دن گھر میں بند رہتے تھے اور فون بھی نہیں اٹھاتے تھے۔ جب بعد میں کوئی کہتا کہ جی بڑے فون کئے آپ کو یا یہ کہ ہم گوشت دینے آئے تھے تو امی کہہ دیتیں کہ ہم نے تو عید منائی ہی نہیں کیونکہ فلاں مر گیا تھا اور ہم وہاں چلے گئے تھے۔یا یہ کہ فلاں بہت بیمار تھا سو ہم اس کی عیادت کو کسی دوسرے شہر چلے گئے تھے۔ امی کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کہ لوگ جان گئے تھے کہ یہ سب جھوٹ تھا۔ یہ تو وہ نہیں جانے ہوں گے کہ ہم ایسا کیوں کرتے تھے مگر یہ جان گئے تھے کہ ان لوگوں کو بڑی عید سے متعلق کچھ خاص مسئلہ ہے کیونکہ چھوٹی عید پر تو ہم نماز بھی پڑھنے جاتے تھے اور گھر میں ٹرالی بھی سجتی تھی جس پر ایک بار ہم نے اختر آنٹی کے جانے کے بعد سفید چورا چینی کی عبارت مٹا کر ان کا لایا ہوا کیک بھی رکھا تھا۔ اس کیک کو ہم نے یونہی سالم ٹرالی پر نہیں رکھ دیا تھا کیونکہ عبارت مٹانے کے باوجود اس پر ایک پتلی سی لکیر صاف نظر آتی تھی۔ سو امی نے چالاکی سے کیک کے چھوٹے بڑے ٹکڑے کر کے انہیں آگے پیچھے کر کے پلیٹ میں رکھ دیا تھا تاکہ کوئی جان نہ پائے کہ اس پر کچھ لکھا ہوا تھا جو اب مدہم کر دیا گیا ہے۔

    امی بس اتنی ہی مذہبی تھیں کہ جب کسی مشکل میں گرفتار ہوتیں یا کسی خرابی کا خدشہ ہوتا تو قرآن پاک کی آیات زیر لب پڑھتی رہتیں یا جب گھر میں کتا پالنے کی انہوں نے مخالفت کرنی تھی تو رحمت کے فرشتے کا کتے والے گھروں سے دور رہنا بطور ایک بڑی دلیل کے پیش کیا تھا۔ مجھ کو یہ بھی یاد ہے کہ ایک بار جب میں سات آٹھ برس کا تھا اور میں نے ضدکر کے روزہ رکھا تھا تو دوپہر دو بجے کے لگ بھگ امی میرے پاس آئی تھیں اور انہوں نے کہا تھا کہ بچوں کا روزہ دو بجے افطار ہو تا ہے، چلو فوراً یہ سیب اور کیلا کھاکے چپ کر کے سو جاؤ اور شام کو بڑوں کے ساتھ با قاعدہ افطار بھی کر لینا کیونکہ پھر تمہیں دوگنا ثواب ملےگا۔ اس بچوں کے روزے کا نام انہوں نے چڑی روزہ بتایا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ خبردار جو یہ بات کسی سے کہی ورنہ ہڈیاں توڑ دوں گی اور یہ کہ اگر ایسی دوگنا ثواب حاصل کرنے سے متعلق باتیں لوگوں میں مشتہر کی جائیں تو ثواب کی جگہ شیخی بگھارنے پر اللہ میاں گناہ دیتے ہیں۔

    سو اگر امی ایسی ہی نیم معتدل سی مسلمان تھیں تو پھر یہ فضو انکل کے بارے میں انکے سخت ترین خیالات کہاں سے آئے تھے؟

    مجھے فضو انکل میں کچھ خاص خرابی نظر نہ آتی تھی۔ انہوں نے وقت سے کافی پہلے اپنے محکمہ سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی، مختصر پنشن پر گزارا کرنے لگے تھے اور بیٹے کو فلسفے اور ادب کے بیکار مضامین میں بی اے کروانے کے بعد کہا تھا کہ اب میں تمہارے لئے مزید کچھ نہیں کر سکتا۔ اس بیچارے نے بد دل ہو کر خود ہی ہاتھ پاؤں مارکے کراچی میں ایک درمیانی سی نوکری تلاش کر لی تھی جس کا فلسفے اور ادب سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ عجیب بات تھی کیونکہ ایسے کون اپنے بچوں سے صاف صاف کہتا ہے کہ چلو اب جاؤ اور خود کرو جو کرنا ہے، خاص کر جبکہ اس کی خواہش کے برعکس اسے بی اے بھی کروایا ہو اور بےکار مضامین کا چناؤ بھی آپ نے خود ہی کیا ہو۔ ایک اور بات مجھے ان کے بارے میں یہ معلوم تھی کہ جب انہوں نے ریٹائرمنٹ سے پہلے بڑی مشکل سے ایک چھوٹا سا گھر خریدا تو اس کے فرشوں پر سندھ کے شہرہالہ سے منگوائی ٹائیلوں کے کچھ ڈیزائن بنوائے اور پھر جو ٹائلیں بچ گئیں انہیں اپنی چھوٹی سی گاڑی کے فرش پر لگوا لیا۔ میں اور کسی گاڑی کے بارے میں علم نہیں رکھتا تھا جس کے فرش پر ربر کے پائیدانوں کی جگہ ٹائلیں لگی ہوئی ہوں، چاہے ہالہ کی، یا کہیں اور کی۔

    ریٹائرمنٹ کے بعد وہ گھر سے بہت ہی کم نکلتے تھے۔ ہمارے گھر توخیر ان کا آنا کافی پہلے سے ہی تقریباً صفر تھا مگر ابا جب کبھی جا کے انہیں کہتے کہ چلو ذرا باغ میں سیر کریں تا کہ تم کچھ ورزش بھی کیا کرو تو وہ صاف جواب دیتے کہ مجھے کہیں آنا جانا نہیں ہے۔ ابا اصرار کرتے تو وہ کہتے کہ دیکھو بھئی اگر تو باغ میں کوئی عجیب و غریب چیز دیکھنے کو ملےگی تو میں چلا جاتا ہوں۔ ورزش سرزش کے لئے نہیں جاؤں گا۔ مجھے اب صرف اپنے دماغ کی ورزش سے دلچسپی ہے۔ ایک بار ابا نے سوچ کر کہا کہ طرح طرح کی عجیب و غریب تتلیاں دیکھنے کو ملیں گی توا نہوںنے پوچھا تھا کہ اچھا، بھلا وہ کیسی تتلیاں ہو گی؟ ابا نے کہا تھا کہ رنگ برنگ، حیرت انگیز رنگوں والی جس پر انہوں نے کہا کہ کوئی رنگ حیرت انگیز نہیں ہوتا اور بس چند ایک ہی رنگ ہیں جن کو ملا جلا کے باقی تمام رنگ تیار کئے جا سکتے ہیں۔ ہاں اگر تم کہو کہ ایسی تتلی ہو گی کہ جس کے دونوں پروں پر ایک ایک آلو بخارہ رکھا ہوگا اور وہ آلو بخاروں کے بوجھ کے باوجود ادھر ادھر اڑتی پھرتی ہو گی تو پھر میں یہ منظر دیکھنے کے لئے تمہارے ساتھ چل سکتا ہوں۔ یہ کہنے کے بعد وہ کچھ لمحے خاموش رہے تھے اور پھر کہا تھا کہ مگر ایسا منظر بھی جا کے دیکھنا کیا ضروری ہے؟ جب تم نے کہہ دیا کہ ایسی تتلی موجود ہے تو ہوگی۔ بس میں صرف تب کہیں جاؤں گا جب کوئی ایسا تجربہ کرنا ہو جو بیان میں نہ آ سکے۔

    ان کی گاڑی انہیں محکمہ تعلیم کی طرف سے ملازمت کے دوران ملی تھی اور جب وہ ریٹائر ہوئے تو دفتر والوں نے کہا کہ اب آپ یا تو کچھ روپے دےکر گاڑی خرید لیں یا پھر یہ گاڑی ہمیں واپس کر دیں۔ انہوں نے جواباً کہا کہ مجھے گاڑی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، میں نے تو ریٹائرمنٹ لی ہی اس لئے ہے کہ گھر میں بیٹھ کر دل جمعی سے مطالعہ اور غور و فکر کروں اس لئے آپ یہ بیشک واپس لے لیں۔ دفتر والے گاڑی واپس لے گئے جس پر فضو انکل کی بیگم بہت افسردہ ہوئیں۔ فرحت آنٹی امی کی سہیلی تھیں اور انہوں نے امی سے کہا تھا کہ کیسی خود غرضی کی بات ہے کہ چونکہ خوداسے کہیں آنے جانے میں دلچسپی نہیں ہے اس لئے مجھ سے پوچھا تک نہیں اور گاڑی واپس کر دی۔ امی نے کہا کہ جب وہ ایسا کر رہے تھے تو تمھیں احتجاج کرنا چاہیے تھا۔ وہ بیچاری بولیں کہ ندرت، تم تو جانتی ہو میری اس گھر میں کیا پوزیشن ہے اور میں کتنی مجبور اور لاچار ہوں، پھر بھی احتجاج تو میں نے کیا تھا مگر تم یہ بھی جانتی ہو کہ اس کے پاس تو ہر بات کا جواب موجود ہوتا ہے۔ امی یہ جانتی تھیں۔ امی کو خود ایسے لوگوں سے چڑ تھی جن کے پاس ہر بات کا جواب ہو، خاص طور پر جب امی کے پاس اس جواب کا جواب الجواب نہ ہوتا۔ پھر بھی انہوں نے پوچھا کہ کیا جواب دیا تمہارے میاں نے تمہاری بات کا؟

    ’’یہی کہ کیا کرنا ہے کہیں جا کر؟ باہر کچھ نہیں ہے۔‘‘

    امی یہ سن کر حیران ہوئیں اور کہا، اتنا بڑا شہر ہے، دوکانیں ہیں، لوگ ہیں، کیا مطلب باہر کچھ نہیں ہے؟ فرحت آنٹی نے کہا کہ ہاں میں نے بھی ایسی ہی بات کی تھی مگر اس نے کہا کہ سب لایعنی اور فضول چیزیں ہیں اور گھر میں رہ کر اعلیٰ درجے کی باتوں پر سوچ بچار کرنا چاہیے۔

    محکمہ والوں نے گاڑی واپس ہونے کے کچھ عرصہ بعد فضو انکل کو خط لکھ کے پوچھا کہ یہ آپ نے گاڑی کا کیا حشر کیا ہے؟ اس میں یہ ٹائلیں کیوں لگوائی ہیں اور یہ کہ اب یہ ہم نہیں رکھ سکتے، آپ کو خریدنی ہوگی۔ انکل نے جواب دیا کہ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں اسے خرید سکوں اور ساتھ یہ بھی لکھا کہ مجھے کب کسی نے بتایا تھا کہ اس میں ٹائلیں نہیں لگوا سکتے؟ لوگ گاڑی کے فرش پر ربر کے طرح طرح کے پائیدان رکھتے ہیں، وہ پھٹ جاتے ہیں اور نئے خریدنے پڑتے ہیں سو میں نے یہ ٹائلیں لگوا لیں۔ بجائے اس کے کہ آپ داد دیں کہ ایسی خوبصورت ہالے کی ٹائلیں اس میں لگائی ہیں آپ مجھ پر الزام دھر رہے ہیں کہ میں نے کچھ غلط کر دیا ہے۔ یہ جواب پڑھ کر دفتر والوں نے لاچار مکرر خط لکھا کہ اچھا ہم اس کی قیمت بہت کم کر دیتے ہیں، آپ دس ہزار روپے دے کر اسے واپس خرید لیں ورنہ ہم آپ کی پنشن میں سے یہ رقم کاٹنا شروع کر دیں گے۔

    جب یہ دوسرا خط محکمہ والوں کا پہنچا تو فرحت آنٹی بھی وہاں پاس بیٹھی سویٹر بن رہی تھیں۔ فضو انکل کو کچھ خیال آیا اور انہوں نے فرحت آنٹی سے کہا کہ بھئی یہ دفتر والے بڑی بکواس کر رہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس دس ہزار روپے ہیں تو دے دیں تاکہ یہ گاڑی لے لیں۔ فرحت آنٹی اس بات سے خوش ہوئیں اور فوراً کہا کہ فی الحال تو نہیں ہیں مگر میں نے ایک کمیٹی ڈالی ہوئی ہے جس میں چار ماہ بعد پندرہ ہزار کی رقم میرے نام نکلنا طے ہے۔ فضو انکل نے محکمہ والوں کو خط لکھا کہ میرے پاس تو فالتو پیسے نہیں ہیں کہ میں دس ہزار آپ کو دےکر گاڑی لے لوں جبکہ مجھے کہیں آنا جانا بھی نہیں ہے، مگر میری بیوی نے بتایا ہے کہ اس کی کمیٹی چار ماہ بعد نکلنے والی ہے۔ اسے جگہ جگہ پھرنے کا بہت شوق ہے، سو اگر آپ انتظار کر سکتے ہیں تو کر لیں، چار مہینے بعد آپ کو دس ہزار روپے دے کر گاڑی لے لیں گے۔ ساتھ یہ بھی لکھ دیا کہ اگر گاڑی مجھے بیچنی ہے تو خیال رہے کہ ٹائلیں خراب نہ ہوں۔

    دو ہفتے بعد محکمہ والوں کا خط آیا کہ اگر تو آپ فوراً خریدتے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ چار ماہ بعد دس نہیں تیس ہزار روپے دینے پڑیں گے۔

    فضو انکل نے وہ خط فرحت آنٹی کو تھما دیا۔ آنٹی روہانسی ہو گئیں۔ گاڑی ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر انہیں صدمہ سا پہنچ رہا تھا۔ انہوں نے فوراً اپنی اس سہیلی کو فون کیا جس کی کمیٹی اسی ماہ نکلنی طے تھی اور اس سے درخواست کی کہ وہ اپنے پندرہ ہزار انہیں دے دے اور چار ماہ بعد ان کے پندرہ ہزار روپے لے لے۔ سہیلی نے پوچھا کہ خیر ہے؟ کوئی ہسپتال وغیرہ جا کے بہت بڑا آپریشن کروانا پڑ گیا ہے جو فوراً پیسے درکار ہیں؟ فرحت آنٹی نے جب ماجرہ صحیح صحیح بیان کیا تو سہیلی نے معذرت کی اور کہا کہ فرحت، میری بیٹی کی شادی جہاں دو ماہ بعد ہونے والی ہے، وہاں ہم نے رشتہ کر کے بہت غلطی کی۔ مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ وہ لوگ تو بڑے ہی کمینے سے ہیں اور اشاروں کنائیوں میں گھر کے استعمال کی مختلف چیزیں مانگ رہے ہیں۔ ویسے تو میں اگر چاہوں تو خاموش رہوں اور صرف وہی جہیز دوں جو میں نے بنایا ہے اور ایسی ایکٹنگ کروں کہ جیسے مجھے ان کے اشارے سمجھ میں ہی نہیں آ رہے۔ مگر آخر بیٹی کا سوال ہے۔ جس قسم کے لوگ وہ ثابت ہو رہے ہیں اگر بعد میں انہوں نے اپنے بیٹے کو مجبور کر کے میری بیٹی کو طلاق دلوادی تو کیا ہوگا؟ وہ لڑکا تو اچھا ہے بیچارا، مگر پھر بھی، کیا پتہ کیا ہو؟

    فرحت آنٹی نے مایوسی سے جب یہ بات فضو انکل کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ آپ کی سہیلی ناحق پریشان ہو رہی ہے۔ طلاق بنی ہی اس لئے ہے کہ دی جائے اور اگر دینی ہی نہ ہو تو پھر اس کے ہونے کا فائدہ؟ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی بیٹی کو نکاح نامے میں اپنے لئے طلاق دینے کا حق ضرورلے لینا چاہیے۔ بس یہ کہا اور بڑبڑا کے یہ بھی کہا کہ لوگ یہ کیا فضول شادی بیاہ کرتے رہتے ہیں۔ ویسے ہی اکٹھے رہ لیا کریں۔ کیا فرق پڑتا ہے؟

    یہ آخری بات وہ اگر کسی اور وقت کہتے تو فرحت آنٹی بےحد غصے میں آتیں، کہ جان بوجھ کر یہ شخص ایسی بات بڑبڑا رہا ہے کہ میرے زخم ہرے ہوں۔ مگر اب آہستہ آہستہ گاڑی خریدنا اُن کے اعصاب پر سوار ہو رہا تھا اس لئے وہ درگزر کر گئیں۔

    ’’آپ کے پاس نہیں ہیں کوئی بھی پیسیـ؟‘‘ انہوں نے کہا۔

    ’’ہیں، مگر وہ بیماری سستی کے لئے رکھے ہیں۔‘‘ فضو انکل نے کہا۔

    ’’تو آپ ابھی دے دیں اور چار مہینے بعد میں آپ کو واپس کر دونگی۔‘‘ آنٹی کھل کے ایسے بولیں جیسے مسئلہ تو حل ہو ہی گیا۔

    ’’اور اب سے چار مہینے تک اگر مجھے فالج ہو گیا تو کیا ہوگا؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔

    پھر وہ کچھ دیر بعد خود ہی بولے۔ ‘‘آپ کے پاس جو بیکار زیور پڑے ہیں، ان میں سے کچھ بیچ دیں۔ زیور تو بالکل فضول چیز ہے۔‘‘

    یہ بھی ایسی بات تھی کہ اگر کسی اور وقت میں کہی جاتی تو فرحت آنٹی چیخ اٹھتیں کہ جو عذاب تم مجھے اتنی دیر سے دے رہے ہو، جو میں ہمہ وقت اس اندیشے میں رہتی ہوں کہ کہیں تم وہ اعلان نہ کر دو جس سے میں خوف کھاتی ہوں، کیا وہ کافی نہیں کہ اب تم مجھے یہ بھی کہہ رہے ہو کہ میں ہی اپنا واحد سرمایہ بیچوں اور گاڑی خرید لوں؟مگر وہ چپ رہیں، بلکہ سنجیدگی سے سوچنے لگیں کہ واقعی، سونا اتنا مہنگا ہو گیا ہے، کچھ زیور بیچ کے کیوں نہ گاڑی لے لوں۔

    ۔۔۔۔۔۔

    میرا خیال ہے کہ یہی بات تھی جس کی وجہ سے امی فضو انکل سے نفرت کرتی تھیں اور ایسے آدمی سے ابا کی دوستی کو بہت مشکل سے برداشت کرتی تھیں جوکسی بھی وقت وہ اعلان کر سکتا تھا جس کے اندیشے سے فرحت آنٹی ہمہ وقت خوف میں مبتلا رہتی تھیں۔

    فرحت آنٹی کا اندیشہ بہت برس پہلے سے چلا آرہا تھا جب انہوں نے امی کو ایک روز یہ بتایا تھا کہ انہیں شک ہو چلا تھا کہ فضو انکل خدا میں یقین نہیں رکھتے اور شاید ہندو ہو چکے ہیں۔ یہ خیال فرحت آنٹی کو اس لئے آیا تھا کہ فضو انکل کہیں سے ہندوؤں کی موٹی مذہبی کتاب گیتا لے آئے تھے اور ان دنوں اسے بغور پڑھتے رہتے تھے۔ امی نے یہ بات سن کر دانتوں تلے انگلیاں دبا لی تھیں اور فرحت آنٹی سے کہا تھا کہ مجھے تمہارے میاں کی باتوں سے ہمیشہ ہی ایک کافرانہ سی بو آتی رہی ہے۔ امی نے سوچے سمجھے بغیر یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مجھے یقین ہے کہ یہ ہمیشہ سے کافر تھا اور اس نے دھوکے سے تم سے شادی کی تھی، اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے۔ امی نے اپنے ان خیالات کا بھی اظہار کیا تھا کہ صرف کان میں اذان دینے سے انسان مسلمان نہیں ہو جاتا۔ اصل بات تو ایمان کی ہوتی ہے۔

    فرحت آنٹی کے دل میں یہ بات بیٹھ گئی تھی۔ انہوں نے اس روز گھر جاتے ہی فضو انکل سے صاف صاف پوچھا تھا کہ آج آپ کو یہ بتانا پڑےگا کہ آپ کا مذہب کیا ہے؟ کیا آپ ہندو ہو چکے ہیں یا کسی اور طرح کے ملحد ہیں؟ یہ بھی بتائیں کہ کیا آپ ہمیشہ سے ہی ایسے تھے اور مجھے دھوکہ دےکر آپ نے مجھ سے شادی رچائی تھی یا اب کچھ عرصہ سے ایسے بن گئے ہیں؟

    آنٹی کے ان سوالات کے جواب میں انکل نے کہا تھا کہ میں نے آپ کو کوئی دھوکہ نہیں دیا، آپ نے میرا مذہب پوچھا ہی کب تھا؟ یہ سن کر فرحت آنٹی دنگ رہ گئی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ سب ہی مسلمان ہوتے ہیں اور اگر آپ نہیں تھے تو آپ کو مجھے بتانا چاہیے تھا۔ آپ نے میرے ساتھ دھوکہ کیا۔ فضو انکل اس بات پر بہت حیران ہوئے تھے کہ سب ہی مسلمان کس طرح ہوتے ہیں، مگر وہ اس وقت خاموش رہے تھے۔ فرحت آنٹی نے چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ آپ اس بات پر اطمینان سے نہ بیٹھیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ میں یہ برداشت کر لوں گی؟ مجھے طلاق لینی پڑی تو ضرور لوں گی۔ فضو انکل نے انہیں یاد دلایا تھا کہ انہیں طلاق لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ طلاق دینے کا حق وہ انہیں نکاح نامہ میں دے چکے تھے اور یہ اسی وجہ سے کیا تھا کہ اگر ایسی نوبت آ جائے کہ وہ ان کے ساتھ رہنے پر راضی نہ ہوں تو سہولت سے انہیں خود ہی طلاق دے سکیں بجائے اس کے کہ کورٹ کچہری کے چکر لگانے پڑیں۔

    ’’لیکن اس کی ضرورت کیا ہے؟ اچھے بھلے تو ہم رہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا تھا۔

    ’’اچھے بھلے رہ رہے ہیں؟ اچھے بھلے؟ہم مسلمان عورتیں غیر مسلمانوں سے شادی نہیں کر سکتیں۔ آپ صاف صاف اپنا مذہب بتائیں۔‘‘

    فضو انکل نے کہا تھا کہ یہ اتنی سادہ بات نہیں۔ اس میں بڑی پیچیدگیاں ہیں اور ابھی وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کا کیا مذہب ہونا چاہیے اور ہونا بھی چاہیے یا نہیں۔ ابھی وہ ان باتوں کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور ان پرسوچ بچار کرنا چاہتے ہیں تا کہ کسی صحیح رائے پر پہنچیں کہ کوئی مذہب اختیار کریں یا نہ کریں اور اگر کریں تو وہ کون سا ہو جس کو ان کے دل و دماغ یکساں قبول کر لیں۔

    ’’آپ کو بھی مطالعہ کرنا چاہیے‘‘ انہوں نے کہا تھا۔

    ’’مطالعہ؟ مطالعہ؟بکواس بند کریں آپ۔ میں مسلمان ہوں۔ اگر آپ مسلمان نہیں ہیں تو میرا اور آپ کا نکاح ہی باطل تھا۔ وہ شادی ہی نہیں تھی۔‘‘ پھر انہوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر آپ مسلمان نہیں ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے کہ میں گناہ کی زندگی بسر کرتی رہی ہوں۔

    ایسی سنجیدہ اور ہولناک گفتگو سن کر چاہیے تو یہ تھا کہ فضو انکل فرحت آنٹی کو تسلی دینے کو کچھ کہتے یا کم از کم خاموش ہی رہتے مگر ان کے منہ سے خود بخود نکل گیا تھا کہ :

    ’’اگر نکاح باطل تھا تو پھر تو شاید طلاق بھی غیرضروری ہو۔ پھر تو شادی ہوئی ہی نہیں۔‘‘

    لیکن شکر ہے کہ تب انہوں نے ساتھ یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ویسے قانوناً تو میں مسلمان ہی ہوں کیونکہ میں نے کہیں، کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ میرا مذہب کچھ اور ہے اور اگر میں مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوا تھا تو مسلمان ہی تصور ہوں گا۔

    یہ دلاسہ اس وقت آنٹی کے کوئی خاص کام نہ آیا تھا بلکہ انہوں نے دھاڑ دھاڑ کے امی کی کہی ہوئی بات دہرائی تھی کہ مسلمانوں کے گھر پیدا ہونا یا کان میں اذان دلوانا کافی نہیں ہوتا۔ جس کے دل میں ایمان نہیں ہے، وہ مسلمان نہیں ہے۔

    فرحت آنٹی اسی روز واپس امی کے پاس آئی تھیں اور یہ روداد بیان کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ میں اس آدمی سے علیحدگی اختیار کرونگی یا طلاق دونگی یا جو کچھ بھی کرنا ہوا کرونگی۔ امی نے آنٹی سے بہت ہمدردی کی تھی مگر وہ اس بات کی کچھ قائل نہ لگتی تھیں کہ آنٹی طلاق دیتیں یا علیحدہ ہو جاتیں۔ وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ایسا کوئی بھونچال فرحت آنٹی کی زندگی میں آئے اور دل ہی دل میں نادم ہو رہی تھیں کہ انہوں نے پہلے کی گفتگو میں کیوں اتنی سخت باتیں کر دیں کہ نوبت یہاں تک پہنچی۔ تب فوراً انہیں آنٹی کی بتائی ہوئی فضو انکل ہی کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی تھی اور انہوں نے کہا تھا:

    ’’ابھی تمہارا بیٹا چھوٹا ہے۔ کیا ضرورت ہے اتنا بڑا قدم اٹھانے کی؟ اور ویسے مجھے اس آدمی سے تو کوئی ہمدردی نہیں ہے، مگر دیکھو اگر قانون وہی کہتا ہے جو اس نے کہا ہے تو پھر اس میں ضرور کوئی بات ہے۔ اس نے ابھی تک یہ تو نہیں کہانہ کہ میں شادی کے وقت مسلمان نہیں تھا؟ بلکہ غور سے دیکھو تو یہ بھی نہیں کہا کہ اس وقت وہ مسلمان نہیں ہے۔‘‘

    امی کے منہ سے اب یہ کلمات سن کے آنٹی کو کچھ تسلی ہوئی تھی مگر اتنی زیادہ بھی نہیں۔ وہ کچھ دیر اور روتی رہی تھیں اور پھر آہستہ آہستہ رونا بند کر نے کے بعد امی سے کہا تھا:

    ’’جا کے پوچھتی ہوں کہ وہ شادی کے وقت کیا تھا؟‘‘

    ’’نہ نہ‘‘ امی نے کہا تھا۔ ’’بالکل نہ پوچھنا۔ بالکل بھی ایسی غلطی نہ کرنا۔ پتہ نہیں کیا کہہ دے جواب میں۔ بالکل چپ کر جاؤ اور صرف یہ کوشش کرو کہ وہ مطالعہ وغیرہ نہ کیا کرے۔‘‘

    ’’لیکن اگر اس نے خود ہی کبھی اعلان کر دیا کہ میں مسلمان نہیں ہوں؟ تو پھر میں کیا کرونگی؟ ندرت، کیا میں ایسے آدمی کے ساتھ رہ کر گناہ کی زندگی گذاروں گی؟ ساری عمر اس اندیشے میں رہونگی کہ کہیں وہ یہ نہ کہہ دے کہ میں مسلمان نہیں ہوں یا اس سے بھی بد تر یہ کہ میں کبھی مسلمان تھا ہی نہیں؟‘‘

    ’’بس چپ‘‘ امی نے کہا تھا ’’تم پوچھوگی نہیں تو وہ اعلان نہیں کریگا۔‘‘

    آنٹی کے جانے کے بعد امی نے ابا کو یہ سارا معاملہ سنایا تھا۔ جب وہ انہیں یہ باتیں سنا رہی تھیں تو ان کو کچھ شک کی نگاہ سے بھی دیکھ رہی تھیں اور آخرکار جس بات سے انہوں نے آنٹی کو منع کیا تھا، ان سے رہا نہ گیا تھا اور خود وہی کر بیٹھی تھیں۔ انہوں نے پوچھ ہی لیا تھا کہ یہ آپ کی اور اس آدمی کی دوستی کیسی ہے؟ آپ لوگ آ پس میں کیا باتیں کرتے ہیں؟ کہیں آپ بھی تو اس کی طرح لا مذہب یا ہندو تو نہیں ہو گئے؟

    ابا نے پہلے تو کوشش کی تھی کہ امی کو سمجھائیں کہ فضو انکل لا مذہب یا ہندو نہیں ہیں، صرف کھوج میں ہیں اور فی الحال تو شاید مسلمان ہی ہیں۔

    ’’ہاں، بڑا مسلمان ہے۔‘‘ امی نے طنز سے کہا تھا۔ ’’کس چیز کے کھوج میں ہے وہ الوکی آنکھوں والا؟ ہیں؟‘‘

    ابا نے مزید سمجھایا تھا کہ فضو انکل کا خیال تھا کہ جس طرح جسم کی صحت اور نشوونما کیلئے طرح طرح کی ورزشوں کے نظام بنے ہوئے ہیں اور ان میں سے آپ اپنے مزاج اور جسم کی ضرورت کے مطابق کوئی بھی قسم کا نظام اختیار کر سکتے ہیں، اسی طرح روح کی نشوونما کیلئے بھی طرح طرح کی ورزشوں کے مختلف نظام ہیں۔ سو وہ صرف اس کھوج میں ہیں کہ ان کی روح کیلئے کون سا نظام یا کون سا مذہب بہترین اور درست رہےگا۔

    ’’واہ واہ‘‘ امی نے بہت زور سے ہنس کے کہا تھا۔ ’’جسم دی ورزش تے اوہنے کدی کیتی نئیں اے، تے روح دی اوہنوں اینی فکر پے گئی اے۔ بکواس کردا اے بےغیرت۔ تے جے کھوج لاندے لاندے ای مر گیا تے سدھا جہنم وچ جائےگا۔‘‘(2)

    ابا نے اس پر وضاحت کرنی چاہی تھی کہ فضو انکل سمجھتے تھے کہ کسی شخص کا نیک نیتی سے کھوج میں رہنا اتنا ہی اچھا ہے جتنا کہ کسی شخص کا صحیح صحیح کھوج لگا لینا اور اپنے لئے درست مذہب اختیار کر لینا مگر یہ بات کہتے کہتے جب ان کی نظر امی کے چہرے پر پڑی تھی تو انہوں نے دیکھا تھا کہ وہ انتہائی غضب ناک ہوتی چلی جا رہی تھیں سو انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر خاموشی اختیار کرلی تھی۔ اس وقت امی نے صاف صاف پوچھا تھا کہ کہیں آپ بھی تو ایسی کسی ورزش سرزش کے کھوج میں نہیں ہیں؟ ابا نے یہ سوال سنتے ہی فوراً انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ نہیں، ہرگز نہیں۔ خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے۔ امی کو ابا کی اس بات سے مکمل تسلی تو نہیں ہوئی ہو گی، مگر انہوں نے بات آگے نہیں بڑھائی تھی۔ اب کی بار اپنی ہی اس نصیحت کے مطابق، جو انہوں نے فرحت آنٹی کو کی تھی، کہ چپ رہو، خبردار، بالکل مت پوچھنا تاکہ کہیں یہ بات درست نہ نکل آئے کہ تم واقعی گناہ کی زندگی بسر کرتی رہی ہو۔

    ۔۔۔۔۔۔

    گاڑی آئی تو فرحت آنٹی خوش ہوئیں۔ اسی روز جب انہوں نے فضو انکل سے کہا کہ چلئے ذرا گاڑی پر جا کے گھر کا کچھ سامان لے آئیں تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں تو ماسوائے اشد ضرورت گھر سے کہیں نہیں جاؤں گا اور سامان آپ جا کے رکشے میں لے آئیں جیسے اتنے دن لاتی رہی ہیں۔ انہوں نے وہی کہا کہ انہیں مطالعہ اور سوچ بچار کرنا ہے اور اسی لئے انہوں نے ریٹائرمنٹ بھی اتنی جلدی لی ہے کہ دلجمعی سے بس یہی کریں۔ اس بات پر آنٹی خاموش ہو گئیں کیونکہ امی کی ہدایت کے مطابق اتنے سالوں سے انہوں نے یہ رویہ اختیار کئے رکھا تھا کہ وہ مطالعہ اور سوچ بچار کے الفاظ سنتے ہی کنی کترا کے ادھر ادھر ہو جاتی تھیں۔

    لیکن اب یہ کیا مصیبت آن پڑی تھی؟ ایک تو زیور بیچ کے یہ گاڑی لی تھی اور اب اس کو چلانے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ حیران پریشان تھیں کہ اب اس کا کیا کروں؟ ایسی ہالے کی ٹائلوں والی گاڑی بیچوں بھی کیسے؟ انہوں نے کچھ وقت کے بعد فضو انکل سے پوچھا کہ پھر آخر انہوں نے گاڑی خریدی کیوں؟

    ’’میں نے تو نہیں خریدی‘‘ انہوں نے کہا’’آپ نے خریدی ہے‘‘۔

    آنٹی یہ جواب سن کرششدر رہ گئیں مگر تبھی، اسی وقت انہوں نے سوچا کہ اچھا، اگر میں نے خریدی ہے تو انشاء اللہ میں ہی اسے چلاؤں گی اور پھر فضیلت باجوہ، جب تجھے فالج ہوگا، جس کے علاج کے لئے تو نے پیسے جمع کر کے رکھے ہیں، تو تو خود بھی رکشے پر ہی ہسپتال جائیگا۔

    اسی دن آنٹی کو سڑک پر بیکری کے سامنے ایک ڈرائیونگ سکول کی گاڑی کھڑی نظر آئی تو انہوں نے اسے تائید غیبی سمجھا اور اس گاڑی پر لکھے Fee-Male ڈرائیونگ سکول کا فون نمبر نوٹ کر لیا۔

    ڈرائیونگ سکول کی مالکن فرزانہ ملک تھی۔ اس کے پاس دو گاڑیاں تھیں جن میں سے ایک میں وہ خود ڈرائیونگ سکھاتی تھی اور دوسری میں ایک اور عورت جسے اس نے ملازمہ رکھا ہوا تھا۔ آنٹی نے اگلی صبح فون کیا تو فرزانہ ملک نے ہی اٹھایا۔ آنٹی نے کہا کہ وہ گاڑی چلانا سیکھنا چاہتی ہیں اور امید رکھتی ہیں کہ اس سکول میں عورتوں کو گاڑی چلانا سکھایا جاتا ہے۔

    ’’ہا ہا ہا ہا‘‘ فرزانہ ملک نے خوش دلی سے قہقہہ لگایا۔ دونوں کو سکھاتے ہیں۔ عورتوں کو بھی اور مردوں کو بھی۔ ہا ہا ہا ہا مگر مردوں کو صرف میں سکھاتی ہوں کیونکہ مجھے ڈر ہے کہ اگر میں نے اپنی اسسٹنٹ روزینہ کو مردوں کو گاڑی چلانا سکھانے دیا تو کہیں وہ کسی مرد کے ساتھ بھاگ ہی نہ جائے۔ پھر میں کہاں سے نئی اسسٹنٹ ڈھونڈوں گی؟ ’’ہا ہا ہا ہا‘‘

    ’’اوہ اچھا اچھا ’’انٹی نے کہا۔ ‘‘ میں آپ کے سکول کے نام سے سمجھی کہ یہ صرف عورتوں کا سکول ہے۔‘‘

    ’’ہاہاہاہاہا ہاہا نہیں Fee-Male میں ہم نے دو‘‘ ’’ڈالے ہیں اوربیچ میں ڈیش لگائی ہے۔ یعنی ہم مردوں سے فیس لے کر انہیں گاڑی چلانا سکھاتے ہیں۔ہے نہ مزے کی بات؟ فی-میل؟ ہاہاہاہاہاہا ہا‘‘

    آنٹی کا دل خوشی سے اچھلاکہ شاید عورتوں کو یہ مفت سکھاتی ہے۔ لیکن یہ خوشی دو لمحے کی تھی کیونکہ بات کرنے کے فوراً بعد فرزانہ خود ہی دوبارہ بولی:

    ’’مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ ہم عورتوں سے فیس نہیں لیتے۔ بس ہم نے ذرا یہ مزیدار سا نام رکھ لیا ہے۔ ہاہاہاہاہاہاہا‘‘

    آنٹی کا جذبہ بھی خوب تھا اور وہ ذہین بھی تھیں۔ فرزانہ ملک تو شاید بہت ہی ذہین تھی۔ سو آنٹی گاڑی چلانا سیکھنے کے مراحل سے جلدی جلدی گزرنے لگیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی فرزانہ ملک سے دوستی بھی ہوتی چلی گئی۔

    ’’آپ کے میاں اچھے روشن خیال آدمی ہونگے جو آپ کو مردوں کو بھی گاڑی چلانا سکھانے دیتے ہیں۔‘‘ ایک دن آنٹی نے سبق کے بعد فرزانہ ملک کے دفتر میں چائے پیتے ہوئے کہا۔

    ’’میاں؟ ہا ہاہاہا ہا ہا، اسے تو نکال دیا میں نے۔‘‘

    ’’نکال دیا؟‘‘ آنٹی نے حیرت سے پوچھا۔’’ میں سمجھی نہیں۔‘‘

    ’’بڑاخبیث تھا وہ۔‘‘ فرزانہ نے بتایا۔ ’’اپنی طرف سے میرے ساتھ بڑی لو میرج کی تھی اور تھوڑے ہی عرصے میں ادھر ادھر ہر ایک سےLove کرنا شروع کر دیا تھا۔ کام بھی کچھ خاص نہیں کرتا تھا، گھرتو میں ہی چلاتی تھی، اسی ڈرائیونگ سکول کی آمدن سے اور دیکھو کیسا ذلیل تھا کہ مجھے کہتا تھا کہ تم آدمیوں کو گاڑی چلانا مت سکھایا کرو۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔ تھا کہ نہیں ذلیل؟ میں نے مار مارکے بھگا دیا۔‘‘

    آنٹی نے حیرت سے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے اپنے میاں کو مارا بھی تھا یاایسے ہی محاورۃً کہہ رہی ہیں ،کیونکہ آپ جیسی پتلی دبلی عورت نے کس طرح ایک آدمی کو مارا ہوگا؟

    ’’بہت مارا تھا۔ چھڑی سے۔ میں نے اپنے نوکر برکت کو پانچ سو روپے دیئے تھے اور کہا تھا کہ موقع دیکھ کر اس کے سر پہ بوری چڑھانا اور اس کے ہاتھ پیرباندھ دینا۔ وہ ہزار روپے مانگتا تھا کہ کہیں میرا میاں پولیس میں شکایت نہ کر دے۔ میں نے کہا یہ کبھی بھی جا کر پولیس میں شکایت نہیں کریگا کہ مجھے میری پتلی دبلی بیوی نے مارا ہے اور اگر کر دی تو میں تمھیں پانچ سو اور دے دونگی۔ ہاہاہاہاہاہاہا۔‘‘

    ’’اوہ اچھا‘‘ فرحت آنٹی نے حیرت سے کہا، ’’تو پھر آپ کا نام، یعنی ملک، یہ آپ کے والد صاحب کا نام ہے؟‘‘

    ’’نہیں نہیں‘‘ وہ بولی۔ ملک تو اسی کمینے کا نام ہے۔ طلاق کے بعد میں نے سوچا کہ نام وام بدلنے کے فالتو کاموں کی مصیبت کون کرے۔ چلنے دو یہی۔ کیا فرق پڑتا ہے؟ ٹھیک سوچا نہ؟ ’’ہاہاہاہاہاہاہا۔‘‘

    فرزانہ نے کچھ عرصہ سے ایک چھوٹا سا ہوٹل بھی کھولا ہوا تھا جس میں بیٹھنے کی جگہ تو نہیں تھی مگر کھانا خرید کر لے جایا جا سکتا تھا اور ٹیلیفون پر آرڈر لے کر گھروں اور دفتروں میں بھی پہنچایا جاتا تھا۔تب لاہور میں شاید ایسے کوئی دو چار ہوٹل ہی اور ہونگے۔ ہوٹل کا نام ’’Bell and Tell’’تھا۔ آنٹی یہ نام سن کر حیران ہوئیں تو فرزانہ نے کہا:

    ’’مان گئی نہ؟ کیسا انوکھا نام ہے؟ہاہاہاہاہاہاہا۔ میں ایسی ہی ہوں۔ لوگوں کو حیران کر دیتی ہوں۔ اچھا تم زیادہ حیران نہ ہو۔ بھئی آسان سی بات ہے، تم فون کروگی تو ہمارے ہاں بیل بجےگی پھر تم اپنا آرڈر بتاؤگی۔۔ یعنی ہمیںTell’’ ‘‘ کروگی۔ سو سیدھی سی بات ہے نہ، ’’بیل اینڈ ٹیل‘‘ ہاہاہاہاہاہاہا۔ پہلے میں نے سوچا تھا کہ اس کا نامTell and Sell’’ ‘‘ رکھوں یعنی تم آرڈرTell کرو اور میں تمھیں کھانا Sell کروں، لیکن پھر میں نے سوچا کہ نہیں، اس سے میں بڑی کمینی اورکاروباری سی لگوں گی۔ سچی بات تو ویسے یہی ہے کہ میں ہوں بھی کمینی اور کاروباری۔ ہوں نا؟ہاہاہاہاہاہاہا۔‘‘

    آنٹی کی فرزانہ ملک سے دوستی بڑھی تو انہوں نے اپنے اور فضو انکل کے تعلقات کی روداد بھی سنا ڈالی۔ فرزانہ نے تمام کہانی سن کر اتفاق کیا کہ فضو انکل بہت خبیث آدمی ہیں مگر اسے مذہب کے بارے میں ان کی بکی ہوئی خرافات سے زیادہ اس بات پر غصہ آیا اور بہت ہی آیا، کہ کیسے پہلے تو آنٹی کے زیورات بکوائے اور پھر کہا کہ جاؤ رکشے پر جاکر سامان لے آؤ، میں نہیں جاؤں گا۔ اس نے اس بات پر غصے کا اظہار تو کیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اچھا ہی ہوا فرحت بی بی کہ اس نے ایسا کہا، تم نے گاڑی چلانا سیکھی اور ہم تم سہیلیاں بنیں۔ آنٹی نے اصرار کیا کہ رکشے پر سامان لانے والی بات بھی بہت ہی بری تھی اور اسی کی وجہ سے انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ فضو انکل کو فالج ہونے کی صورت میں ہسپتال نہیں لے کر جائینگی، مگر وہ سال ہا سال سے اس کرب میں مبتلا ہیں کہ نہ جانے درپردہ اس آدمی کا کیا مذہب ہے اور وہ اب اس خوف سے تنگ آ چکی ہیں کہ کہیں یہ آدمی کسی دن یہ نہ بک دے کہ اس کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہے اور اس سے بھی زیادہ اذیت ناک بات یہ ہو گی کہ کہے کہ میں تو فلاں وقت سے غیر مسلم ہوں جس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں ایک غیرمسلمان کے ساتھ رہتی رہی ہوں اور گناہ کی زندگی گزارتی رہی ہوں۔

    ’’تو پھر چھوڑو اس فضو شضو کو۔ دفع کرو۔ ایسی کیا مجبوری ہے؟ میرے گھر میں ایک کمرہ کرائے پرلے لو اور میرے سکول میں ڈرائیونگ سکھاؤ۔ ٹائیلوں والی گاڑی تو تمھارے پاس ہے ہی۔‘‘ فرزانہ ملک نے اچانک یہ سب کہا۔

    اس وقت تو آنٹی نے اس بات کا جواب نہ دیا مگر اندر ہی اندر یہ خیال ان کو بھاتا چلا گیا۔ ایک دن انہوں نے امی سے اس بارے میں بات کی اور کہا کہ تب تو میں نے بیٹے کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے فضو کو نہیں چھوڑا تھا، پر اب کیوں نہ میں فرزانہ کی تجویز پر عمل کروں؟ ابھی میری عمر صرف پچاس سال ہے۔ اگر ابھی یہ کر لیا تو کر لیا، ورنہ پھر کچھ برس اور گزرگئے تو بہت دیر ہو جائےگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابھی تو ڈرائیونگ سکول میں کام کرونگی، مگر فرزانہ بہت اچھی عورت ہے اور کیا عجب کبھی اس کے ہوٹل میں بھی میں حصہ دار بن سکوں۔ یا ہم مل کے ایک اور ہوٹل کھول لیں۔ شاید یہاں ماڈل ٹاؤن میں ہی۔ امی یہ سب سن کر بہت مخمصے میں پڑیں۔ ان کو سمجھ نہ آتا تھا کہ کیا مشورہ دیں۔ ایسا نہ کرو، یہ مشورہ انہیں مناسب لگتا تھا، مگر ایسا کرنے میں ہرج کیا ہے، یہ ان کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔

    ’’جس میں تمہاری خوشی فرحت‘‘۔ آخر کار انہوں نے کہا۔ پھر کچھ سوچ کے بولیں۔ ’’ایک چیز تو اتنے سال کر لی، خوش بھی نہیں ہو۔ میاں تمہارا خود غرض،خبیث سا ہے۔ وہ اندیشہ بھی ہر وقت تلوار بن کے لٹکتا رہتا ہے۔ سو چلو اب یہی کر کے دیکھ لو اپنی نئی سہیلی کے ساتھ۔ مگر تمہارا بیٹا کچھ نہیں کہےگا؟‘‘

    ’’وہ کون سا اپنے باپ کا بڑا خیر خواہ ہے۔ فون بھی کرتا ہے تو مجھ سے ہی بات کرتا ہے اور میں کونسا طلاق دے رہی ہوں؟‘‘

    ’’چلو پھر، دیکھ لو۔‘‘ امی نے کہا۔

    ’’بس ماڈل ٹاؤن چھوڑنا پڑےگا۔‘‘ آنٹی فرحت نے افسردگی سے کہا۔‘‘ فرزانہ کا گھر نیو مسلم ٹاؤن میں ہے۔‘‘

    اس بات پر امی نے بھی تاسف سے سر ہلایا اور آنٹی فرحت کی دل جوئی کے لئے کہا کہ نیو مسلم ٹاؤن بھلا کون سا دور ہے اور پھر اگر تم نے یہاں ماڈل ٹاؤن میں بیل اینڈ ٹیل کی شاخ کھولی تو تمہارا رشتہ یہاں سے پھر استوار ہو جائےگا۔

    آنٹی فرحت کیلئے یہ بہت تھا کہ امی نے انکے ایسا بڑا قدم اٹھانے کے فیصلے کی مخالفت نہ کی تھی۔ انہوں نے اگلے ہی ہفتے سامان باندھا اورفضو انکل کا گھر چھوڑ دیا، لیکن گو وہ اپنے اس فیصلے پر مطمئن اور خوش تھیں، انہوں نے امی سے اپنے اس قلق کا اظہار کیا کہ فضو انکل نے ان کے اس طرح یک لخت گھر چھوڑ دینے پر ذرا بھی افسوس کا اظہار نہیں کیا۔

    ’’اوہنوں کھوج لان دے فرحت۔ دفع کر۔ کردا وی اظہارتے توں کی کرنا سی اوہدے اظہار نوں؟‘‘ (3)

    جب آنٹی فرزانہ ملک کے گھر اٹھ آئیں اور Fee-Male ڈرائیونگ سکول میں کام کرنا شروع کیا تو فرزانہ نے کہا کہ بھئی تمہارے اس با ہمت قدم پر ایک چھوٹی سی دعوت ہونی چاہیے۔ میں ایک دو سہلیاں اپنی بلاؤں گی، دفتر سے روزینہ کو بلا لیں گے اور تم بھی اپنی ایک دو سہلیاں بلا لینا۔

    اگلے ہفتے یہ دعوت فرزانہ ملک کے گھر منعقد ہوئی، جو اب فرحت آنٹی کا گھر بھی تھا۔ امی اس دعوت سے لوٹیں تو بڑی خوش تھیں۔

    ’’کھانے کو کیا ملا؟‘‘ میں نے پوچھا؟

    ’’طرح طرح کی چیزیں۔‘‘ امی نے کہا۔ ’’سب کچھ فرزانہ کے ہوٹل سے آیا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’فرحت بڑی خوش نظر آرہی تھی۔میرا خیال ہے اچھا ہی کیا اس نے۔‘‘

    ’’کباب بھی تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

    ’’ہاں۔ کباب بھی تھے۔‘‘

    ’’وہ کیسے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔‘‘ آپ والے پیاز اور ادرک سے بھرے کبابوں سے اچھے تھے؟‘‘

    ’’نہیں خیر۔ اب ان سے اچھے تو کہاں ہو سکتے تھے۔ مگر برے نہیں تھے۔‘‘ امی نے کہا۔

    پھر امی نے بتایا کہ فرحت آنٹی نے آج پھر سرگوشی میں امی سے کہا تھا کہ شاید کسی روز ایسا ہو جائے کہ وہ اور فرزانہ مل کر بیل اینڈ ٹیل کی ایک شاخ ماڈل ٹاؤن میں ہی کھول لیں۔

    ’’اگر ایسا ہو گیا‘‘ امی نے سوچتے ہوئے کہا ،’’تو میرا خیال ہے کہ میں ان سے کہوں کہ میرا بھی حصہ اس ہوٹل میں ڈال لیں۔ مجھے بھی کچھ کرنا چاہیے۔کچھ زیور بیچ کے حصہ ڈال لوں گی۔‘‘ امی فرحت کی نئی زندگی سے مطمئن اور ان کے ہوٹل کھولنے کے اس ممکنہ پروگرام سے بہت متاثر نظر آتی تھیں اور مجھے یہ بات کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔

    میں ساری شام امی کے بیان کئے ہوئے عزائم کے بارے میں سوچتا رہا۔ سونے سے پہلے میں نے فیصلہ کیا کہ ابا کو یہ بات بتانا ضروری ہے۔ صبح جب میں سکول جانے کیلئے گھر سے نکلنے والا تھا تو امی باورچی خانہ میں تھیں اور یہ موقع مناسب تھا۔

    ’’ابا‘‘ میں نے کہا۔

    ’’ہوں‘‘ ابا بولے۔

    ’’ایک بات پتہ چلی ہے۔‘‘ میں نے کہا۔

    ’’کیا؟‘‘ انہوں نے اخبار دیکھتے دیکھتے لاپرواہی سے پوچھا۔

    ’’امی کے بارے میں۔‘‘ میں نے کہا

    ’’وہ کیا‘‘ اب انہوں نے چہرہ میری طرف کر کے کہا۔

    ’’میرا خیال ہے کہ امی نے پلان بنا لیا ہے۔ وہ فرحت آنٹی کی طرح ہمارا گھر چھوڑ کے بھاگنے والی ہیں۔‘‘

    ابا کے چہرے پہ حیرت پھیل گئی تو مجھے اطمینان ہوا کہ میں نے یہ اندیشہ ان کے رو برو رکھ کے بہت اہم کام سر انجام دیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے