Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اندھا اونٹ

سید محمد اشرف

اندھا اونٹ

سید محمد اشرف

MORE BYسید محمد اشرف

    کہانی کی کہانی

    معاشی سطح پر تفریق کی وجہ سے پیدا ہونے والی حساسیت کی کہانی ہے۔ اکرم ثروت مند ہے اور یوسف کمزور۔ یوسف ہمیشہ اکرم کے معمولی معمولی کام کی تعریف کرتا ہے لیکن اکرم ہمیشہ اسے زک پہنچاتا ہے۔ تلاش معاش دونوں کو الگ کر دیتی ہے۔ ایک طویل مدت کے بعد کلرک اکرم کو جب اس کی رائٹنگ پر ٹوکا جاتا ہے تو وہ یوسف کو یاد کرتا ہے کہ وہ کس طرح اس کی رائٹنگ کی تعریفیں کیا کرتا تھا۔ دوسری طرف جب کشتی ران یوسف کو ایک سیاح انگریزی سے ناواقفیت کا طعنہ دیتا اور جاہل کہتا ہے تو وہ اپنے تعلیم یافتہ ہونے کی سند لینے گاؤں لوٹ آتا ہے۔ وہ دونوں جب ملتے ہیں تو اپنی عملی زندگی کی ناکامیوں کو شئیر کرتے ہیں۔ یوسف تو خیر بچپن سے صدمے برداشت کرنے کا عادی تھا لیکن اکرم کو اب جو صدمہ ہوا تو دونوں حساسیت اور بے بسی کی ایک سطح پر آ گئے۔ یوسف کہتا ہے کہ اندھا اونٹ مجھے پامال کر رہا ہے اور تمہیں بھی اس نے روند دیا ہے۔ اندھا اونٹ اس افسانے میں وقت کا استعارہ ہے۔

    (محمد عمر میمن کے نام)

    بورخیس پر محمد عمر میمن کے کام سے اہل نظر واقف ہیں۔ اس کہانی کا مرکزی خیال بورخیس کی کہانی کے ایک منظر سے مستعار ہے۔

    سامان رکھ کر میں نے کھانا بھی نہیں کھایا۔ اس سے ملنا ضروری ہے۔ میں خاموشی کے ساتھ گھر سے باہر آ گیا۔ باہر پوس کی رات تھی اور کہرا اور قصبوں والی خاموشی۔ وہ کل صبح واپس چلا جائےگا۔ ابھی نہیں ملا تو مدتوں انتظار کرنا پڑےگا۔ آج میں اس سے چوبیس برس بعد ملوں گا۔ آج وہ کیوں آیا ہے۔ وہ تو آٹھواں پاس کرتے ہی اپنی ماں، بڑے بھائی اور بہن کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہ قصبہ چھوڑ کر احمد آباد چلا گیا تھا، جہاں کشتی رانی سکھانے کے ایک ادارے میں اسے تار کھولنے اور باندھنے کی معمولی ملازمت مل گئی تھی۔

    چوک پار کرکے پھاٹک کی کھڑکی سے نکل کر میں نے محسوس کیا کہ قصبے کی گلیوں میں اس وقت سناٹا اور اندھیرا اور خوف تینوں ہوں گے۔ تیز ہوا میرے رخساروں کو چھیلتی ہوئی نکل گئی۔ میں نے مفلر دوہرا کر کے چہرا باندھ لیا۔ وہ مجھے اکثر خط لکھتا رہا۔ میں اپنی مصروفیت میں مشغول۔ سال چھے مہینے میں اس کا خط آ ہی جاتا تھا۔ ایک آدھ بار میں نے جواب بھی دیا۔ میں خط کا پابندی سے جواب نہیں دیتا تھا مگر اس کا خط نہ آئے تو دل میں ایک بےچینی سی رہتی تھی کہ کیا وہ میری ساری باتیں بھول گیا۔ ’’اکرم تمہاری رائٹنگ بہت اچھی ہے۔‘‘ وہ ڈیسک پر جھک کر میری کاپی پڑھ کر کہتا تھا۔

    ’’اکرم تم والی بال بہت اچھا کھیلتے ہو۔‘‘ وہ گراؤنڈ پر لگے والی بال کے پوسٹ کو پکڑ کر گھنٹوں میرا کھیل دیکھتا تھا۔ جب میں ایررائفل سے کوئی پرندہ گراتا تو مجھ سے زیادہ خوشی اسے ہوتی تھی۔ وہ میری ہر بات غور سے دیکھتا تھا۔ ہر بات پر پسندیدگی کا اظہار کرتا تھا۔ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا وہ مجھے بےوقوف بنا رہا ہے کیونکہ میں اسے روزانہ ہاف ٹائم میں آدھی ٹافیاں دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن کسی بات پر تکرار ہو گئی تو میں نے یہ بات جتا دی۔ وہ بہت مغموم ہوا۔ اس کا سانولا چہرہ سرخ ہو گیا۔ اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ اس کی آواز رندھ گئی۔ وہ مجھ سے بات کیے بنا اسکول سے بستہ اٹھا کر اپنے گھر چلا گیا۔ شام تک جب کسی نے کسی بات کی میری تعریف نہیں کی تو مجھے بے کلی سی ہونے لگی۔ میں بھی بستہ اٹھا کر اسکول سے باہر نکل آیا۔ پھر انجانے میں ہی اس کے چھوٹے سے گھر کے دروازے پر کھڑا تھا۔ اس کی امی دروازے پر آئیں، مجھے دیکھ کر مسکرائیں، ’’آج یوسف سے لڑائی ہوئی ہے۔ دوپہر سے منہ پھلائے لیٹا ہے۔‘‘

    میں ان سے کچھ نہیں بولا۔ اندر جا کر اشارے سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ انہوں نے اندر والی کوٹھری کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بھی سردیوں کا زمانہ تھا۔ وہ ایک موٹا سا پھٹا ہوا لحاف اوڑھے منہ ڈھانپے لیٹا تھا۔ لحاف میں جہاں اس کا چہرہ تھا وہاں کچھ لرزش تھی۔ اسے میری موجودگی کا احساس ہے، یہ سوچ کر میں پلنگ پر بیٹھ گیا۔ وہ کلبلایا۔ میں نے اندر ہاتھ ڈال کر اس کے چہرے پر ہاتھ رکھ دیا۔ میرے ہاتھ کے نیچے اس کی گرم گرم بھیگی ہوئی آنکھیں پھڑک رہی تھیں۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے پکڑ لیا۔ ہم دونوں تھوڑی دیر تک ایسے ہی بیٹھے رہے۔ اس نے کوئی شکایت نہیں کی۔ میں نے بھی تفصیل نہیں پوچھی۔ پھر جب شام کو ہم دونوں والی بال گراؤنڈ پر ملے تو جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔

    ہم دونوں پڑھائی میں اچھے تھے۔ وہ مجھ سے زیادہ اچھا تھا۔ آٹھویں میں اس کی فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن آئی۔ میں گرمیوں کی چھٹیوں میں ننیہال چلا جاتا تھا۔ وہاں جاکر میں اپنا گھر، اسکول سب کچھ بھول جاتا تھا۔ وہاں حکیم جی خالو کے گھر میں چرا چرا کر میٹھی یونانی دوائیں کھاتا تھا۔ بڑی خالہ کے گھر میں امرود پر دوپہر سے شام تک لٹکا رہتا تھا۔ شام کو اپنے ہم عمر خالہ زادوں کے ساتھ سراین ندی پر بنے ریلوے پل پر جانے کے لیے ریل کی پٹری پر پیدل مارچ کرتا تھا، اس شرط کے ساتھ کہ اسٹیشن سے ندی کے پل تک پٹری پر چل کر دکھاؤں گا۔ کبھی کبھی اس کوشش میں ریلوے لائن کے کنکروں پر گر کر خونا خون بھی ہو جاتا تھا۔ رات کو ایک پڑوسی کے گھر جا کر اس کی بیٹی کے پاس بیٹھا دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی شربتی آنکھیں قدرتی طور پر ایسی ہیں یا وہ کچھ لگاتی ہے۔

    پھر رات کو کسی بھی خالہ کے گھر سو جاتا تھا۔ وہاں میں زیادہ تر بھائیوں سے چھوٹا تھا۔ سب میری کچی پونی سمجھتے تھے اور خود کو سب سے بڑا عقل مند جانتے تھے۔ میں کوئی بھی کام کیوں نہ کر لوں کوئی تعریف ہی نہیں کرتا تھا۔ سب وہ کام مجھ سے بہتر کر لیتے تھے۔ ایک دن بگیا کی چار گز اونچی دیوار سے دھم سے کودا۔ گھٹنے کی ہڈی کھٹ سے بولی مگر ٹوٹی نہیں۔ میں سمجھا باقی بھائی حیرت سے منہ کھولے میری طرف دیکھ رہے ہوں گے۔ جب دھول چھٹی تو دیکھا سب ہنس رہے ہیں۔ احتشام بھائی بولے، ’’ذراسی اونچائی سے کودے اور ابھی تک اٹھ بھی نہیں پائے۔ ہم تو ایک دن ریلوے پل سے سراین ندی میں کود پڑے تھے جھم سے۔۔۔‘‘

    چوٹ کی شدت اور مایوسی نے میرے دماغ کے اندر گیلا گیلا پانی چھوڑ دیا جو آنکھوں تک آیا مگر باہر نہیں نکلا۔ کاش اس وقت یوسف ہوتا۔ جب چھٹیاں گزار کر گھر آیا تو معلوم ہوا کہ یوسف کا بڑا بھائی اپنا گھر بیچ کر سب کولے کر اپنے کسی خالو کے پاس احمد آباد چلا گیا ہے۔

    ’’وہ لوگ اب کبھی نہیں آئیں گے۔‘‘ کسی نے بتایا۔ اس دن میں نے رات گئے تک اس کے گھر کے کئی چکر لگائے۔ وہ مکان کسی کبڑئیے کو بیچ گئے تھے۔ میں نے مکان اندر سے دیکھنا چاہا تو انہوں نے دکھا دیا۔ مکان کا نقشہ بدل گیا تھا۔ جس کوٹھری میں اس کی پھڑکتی ہوئی آنکھوں پر میں نے ہاتھ رکھا تھا اس میں بھینس کا بھوسہ بھرا ہوا تھا۔ میں اس کے گھر سے نکل کر برابر کے کھنڈر میں آکر بیٹھ گیا۔ یہاں ہم لوگ بیٹھ کر اگلی زندگی کے منصوبے بناتے تھے۔ میں کمشنر بننا چاہتا تھا۔ میں نے کمشنر دیکھا نہیں تھا لیکن امی نے دیکھا تھا اور وہ یہی دعا کرتی تھیں۔ یوسف ایسے موقع پر کچھ کہتے کہتے رک جاتا تھا۔ وہ عہدہ تو نہیں بتاتا تھا مگر اس کی الجھی الجھی باتوں سے اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ بڑے ہوکر اس کے پاس ایک بڑا گھر ہو اور ایک موٹر سائیکل۔

    گھر اتنا بڑا ہوکہ اس میں تین کمرے ہوں۔ ایک میں، امی ایک میں بڑے بھائی اور ایک میں وہ خود۔ اس رات میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ سناٹے اور اندھیرے کے باوجود کوئی خوف نہیں ہے۔ گھر میں میری تلاش شروع ہو چکی تھی۔ میر صاحب اور انعام اللہ مما لالٹین اور لٹھیا لیے ہوئے قصبے کا چکر لگاتے ہوئے میرے سامنے سے نکل گئے تھے۔ وہ پریشان لہجے میں میرے کھونے کا ذکر کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے میاں ناراض بھی ہیں اور پریشان بھی۔ جب وہ تیسری مرتبہ میرے سامنے سے نکلے تو میں نے انہیں آوازی۔

    ’’ارے اکرم میاں! آپ یہاں کھنڈر میں کیا کر رہے ہیں اور کون لوگ ہیں؟‘‘

    ’’میں اکیلا ہوں۔‘‘

    ’’گھر چلیے میاں ناراض ہیں۔‘‘

    ’’کیا ڈنڈا لیے ہیں؟‘‘

    ’’نہیں اس کی فکر مت کیجیے، ہم کہہ دیں گےآپ درگاہ شریف کے پاس کھڑے تھے۔ مگر آپ یہاں رات کو کیا کر رہے ہیں؟‘‘

    ’’میں اپنے دوست یوسف کو یاد کر رہا تھا جو قصبہ چھوڑ کر احمد آباد چلا گیا ہے۔‘‘

    ’’چلیے ہم ان کو اگلے مہینے کچھ دن کو بلا لیں گے۔ ان کی یہاں گذر بسر نہیں ہوتی تھی۔ بڑے بھائی کو ایک ملازمت مل گئی، اس لیے وہ لوگ چلے گئے۔ اب آپ گھر چلیں۔‘‘

    پہلے میر صاحب نے گھر کے اندر والے دروازے پر جا کر میاں صاحب سے بات کی۔ انعام اللہ اس درمیان مجھے سمجھاتے رہے۔ گھر میں ڈرتے ڈرتے داخل ہوا تو لالٹین کی روشنی میں صاف نظر آیا کہ میاں تیز تیز غصیلی نظروں سے گھور رہے ہیں۔ امی نے جلدی سے اپنے پاس بلا کر کھانا کھلایا۔ میاں ’’اونہہ‘‘ کہہ کر کروٹ بدل کر آیت الکرسی کی دستک دے کر سو گئے۔ میں امی کے پلنگ کے پاس والے پلنگ پر لیٹا رات بھر جاگتا رہا۔ دوسرے دن اسکول میں کوئی میری ڈیسک پر نہیں جھکا، شام کو والی بال کے پوسٹ سے لگ کر کسی نے میرا کھیل نہیں دیکھا۔ مجھے لگا جیسے کہیں کچھ کم ہو گیا ہے۔ یوسف کے علاوہ بھی کچھ کم ہوگیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا چیز کھوئی ہے۔ پھر لڑکپن ختم ہوا، جوانی آئی اور تعلیم کے لیے دوسرے شہروں میں جانا پڑا۔ ملازمت ملی، عمر بڑھتی رہی۔

    کمشنر تو نہیں ہیڈ کلرک تک پہنچنے میں ہی کتنے برس لگ گئے۔ بدن کی اشرفیاں گر گر کے کھوتی رہیں۔ ایک دن بیماری کی تعطیل ختم کر کے آفس پہنچا تو معلوم ہوا کہ میری جگہ کسی اور کا تبادلہ کرکے مجھے شماریات والے ناقص شعبے میں بھیج دیا گیا ہے۔ طبیعت کی خرابی کا خمار ابھی ذہن میں تھا اور پھر یہ اچانک افتاد۔ میں سیدھا کمشنر کے پاس پہنچ گیا۔

    ’’ایک تو آپ نے اس مصروفیت کے زمانے میں چھٹی منائی۔ دوسرے آپ کی رائٹنگ بہت خراب ہے۔ ڈرافٹ سمجھ میں نہیں آتے۔‘‘ مجھے چکر سا محسوس ہو رہا تھا۔ میں نے کرسی کا سہارا لے کر ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی کوشش کی۔

    ’’جناب میری رائٹنگ کی تو اسکول کے زمانے سے تعریف ہوتی ہے۔‘‘

    ’’ہوتی ہوگی۔‘‘ وہ نرمی سے مسکرائے، ’’مگر اب بہت خراب ہے۔‘‘ مجھے یقین نہیں آیا۔ پچھلے ہفتے تک اسی رائٹنگ کے ڈرافٹ پڑھ پڑھ کر تو وہ احکامات پر دستخط کرتے تھے۔

    ’’آپ ایک بار پھر سوچ لیں سر۔‘‘ میں نے کہا۔ وہ ناراض ہوگئے لیکن انہوں نے ضبط کیا اور کہا، ’’آپ اب جا سکتے ہیں۔‘‘ مجھے ذلت کا شدید احساس ہوا۔ مجھے پھر چکر آنے لگے۔

    ’’آپ کا خیال ہے کہ میں والی بال بھی اچھی نہیں کھیل سکتا۔‘‘ وہ کچھ سمجھ نہیں پائے۔ میری طرف بھونچکا سے دیکھتے رہے۔ میں بھی کچھ نہیں سمجھ پایا۔ میں لمبی چھٹی کی درخواست ان کے آفس میں داخل کر کے اسی رات ٹرین میں بیٹھ کر دوسرے دن شام کو گھر آگیا۔ میاں نے کہا، ’’تمہارا بچپن کا دوست یوسف آیا ہوا ہے۔ تمہیں پوچھنے آیا تھا صبح چلا جائے گا۔‘‘ تبھی میں نے ارادہ کیا کہ صبح ہونے سے پہلے ہی اس سے مل لوں گا۔

    اب اس کی گلی کا موڑ آ گیا تھا۔ ماہوٹ کے بادل ہٹے اور چاند نے چہرہ دکھایا۔ شکر ہے کچھ روشنی تو ہوئی۔ اس کے پرانے گھر سے ہی اس کی رہائش کا سراغ لگے گا۔ اس کے گھر کے پاس پہنچ کر میں نے دیکھا کہ برابر والے کھنڈر میں کوئی شخص میری طرف پیٹھ کیے بیٹھا زمین کھود رہا ہے۔ چاندنی میں صاف نظر آیا کہ وہ کئی جگہ زمین کھود چکا ہے۔ برابر میں تازہ تازہ مٹی کی ڈھیریاں لگی ہوئی تھیں۔

    یہ کون ہے؟ کیا رات کو اس کھنڈر میں گڑھے کھود کر امرود کے پیڑ لگا رہا ہے؟ کھنڈر کے پار سنسان کھیتوں میں کوئی گیدڑ چلایا۔ میرے بدن میں سنسنی سی دوڑ گئی۔ مجھے لگا جیسے وہ کوئی بھوت ہے جو اس سنسان رات میں کھنڈر میں گڑھے کھود کھود کر لوگوں کے کاٹے ہوئے سر دفن کر رہا ہے۔ میں نے آیۃ الکرسی پڑھنا چاہی تو معلوم ہوا کہ میں بھول گیا ہوں۔ میرے قدموں کی آہٹ پر اس نے اپنا چہرہ موڑ کر میری طرف دیکھا۔ اس کے ایک ہاتھ میں کھرپا تھا جس سے وہ زمین کھود رہا تھا۔ چاندنی اس کے چہرے پر جھلملائی۔ اس کا سانولا چہرہ اور سنولا گیا تھا اور اس شدید سردی میں بھی اس کے چہرے پر پسینہ تھا۔ وہ کچھ دیر تک ویسے ہی بیٹھا رہا اور پھر تیزی سے اٹھا اور مجھے لپٹا لیا۔ کیوں کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لڑکپن اور جوانی سے ناواقف تھے، اس لیے ہم دونوں کو ایک دوسرے کا بدن پہلے ہی جیسا اپنا سا لگا۔ ہم دونوں چاندنی کے نیچے کھنڈر میں دو پتھروں پر بیٹھ گئے۔

    ’’یہ کیا کر رہے تھے؟‘‘ وہ چپ رہا۔ پھر دیر کے بعد بولا، ’’اپنی آٹھویں کی مارک شیٹ تلاش کر رہا تھا۔‘‘

    ’’کیوں؟ اب اس کی کیا ضرورت آن پڑی؟‘‘ وہ دیر تک چپ رہا۔

    ’’ایک دن بوٹنگ سیکھنے کے لیے ایک لڑکی آئی۔ وہ بہت بڑے باپ کی بیٹی تھی۔ وہ اپنے ساتھی سے انگریزی میں کہہ رہی تھی کہ اسے بھگا دو۔ ہم دونوں اکیلے بوٹ لے کر جھیل میں چلیں گے۔ میں نے ہندوستانی میں اس کو سمجھایا کہ یہ قاعدے کے خلاف ہوگا۔ وہ دونوں ناراض ہو گئے۔ ان کی ناراضگی کا سبب یہ نہیں تھا کہ میں ان کو جھیل میں اکیلے جانے کے لیے روک رہا تھا بلکہ یہ تھا کہ میں نے ان کی انگریزی کیوں سمجھ لی۔ انہوں نے غصے میں مجھے جاہل کہا تو میں نے نرمی سے سمجھایا کہ میں نے آٹھواں کلاس فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن سے پاس کیا تھا۔ اس پر وہ لوگ کھلکھلا کر ہنسے۔

    انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوا۔ وہ کہتے رہے کہ اگر آٹھویں میں اتنے اچھے نمبر تھے تو گریجویٹ ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ گریجویٹ ہو جاتے تو بڑا آدمی ہونے سے کون روک سکتا تھا۔ انہوں نے چلتے چلتے یہ بھی جتایا کہ ناؤ چلانا سکھاتے ہو، بڑے بڑے لوگوں سے ملاقات ہوتی ہوگی، اس لیے انگریزوں کے دوچار لفظ سمجھ کر خود کو قابل سمجھتے ہو۔ انہوں نے جاتے جاتے مجھے پھر جاہل کہا۔ میں گھر آکر نڈھال ہوکر بستر میں لیٹ گیا، تو تمہاری بھابھی نے پورا احوال سننے کے بعد کہا کہ ایسے دل پر کوئی بات مت لیا کیجیے۔ میں انہیں کیا بتاتا کہ یہ مرض بچپن سے ہے۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ مسکرانے لگا۔

    اس کی مسکراہٹ کے پیچھے ہم دونوں کا مشترکہ ماضی تھا۔ اس لیے میں نے دل میں خواہش کی کہ کاش وہ دیر تک مسکراتا رہے۔ مگر وہ ایک دم مغموم ہو گیا۔ میں نے اس سے آنکھیں نہیں ملائیں۔ میں نے کھنڈر پر ایک نگاہ ڈالی۔ پہلے سے بھی زیادہ شکستہ ہو گیا تھا۔ یہ کھنڈر کسی بڑے شہر میں ہوتا تو لوگ پلاٹ کر کے محل کھڑے کر لیتے۔ اس قصبے میں تو گاؤں والے بھی آکر نہیں بستے کہ گاؤں میں کم از کم اپنی زمینیں تو ہیں۔ یہ اور ایسے نہ جانے کتنے قصبے تقدیر کے بھاری قدموں کے نیچے آکر پامال ہو چکے ہیں، پامال ہو رہے ہیں۔

    وہ بولا، ’’تمہاری بھابی نے کہا تم اپنی مارک شیٹ ان دونوں کو لے جاکر دکھا دو تو تمہارے دل کا غبار نکل جائےگا۔ تب مجھے یاد آیا کہ قصبے سے رخصت ہوتے وقت مارک شیٹ کو ایک ٹین کے ڈبے میں بند کرکے میں نے اس کھنڈر میں گاڑ دیا تھا۔ میں اس دلاسے پر گیا تھا کہ ایک آدھ برس بعد واپس آکر پھر پڑھائی کا سلسلہ شروع ہو جائےگا۔ مگر وہاں جاکر بھائی نے نہ تو آگے پڑھایا۔ کہاں سے پڑھاتے۔ خود ان کی ملازمت بہت معمولی تھی اور ہے۔ نہ مجھے کبھی یہاں آنے کا موقع ملا۔ سیکڑوں روپے کا کرایہ ہے لوٹا پھیری۔ مگر اس بار تمہاری بھابھی کی بات میرے دل کو لگ گئی۔ میں نے سوچا تم نہیں ملوگے تو کم از کم تمہارے گھر جاکر سب سے مل کر آؤں گا۔ میں میاں سے مل کر آیا۔ میاں کیسے ہو گئے ہیں۔ کمزور، سفید۔ جب میں گیا تھا تو وہ سیاہ شیروانی پہنتے تھے اور قہقہہ لگاتے تو شیروانی کے بٹن ٹوٹ کر گر پڑتے تھے۔ ہم دونوں بین بین کر اٹھاتے تھے۔ کیا انہوں نے میرے آنے کے بارے میں بتایا تمہیں؟‘‘

    ’’ہاں۔ تبھی تو میں سیدھا چلا آرہا ہوں۔ تم وہاں کیا کرتے رہے اتنے دنوں؟‘‘

    ’’میں نے وہاں ادھر ادھر کی بہت سی کتابیں پڑھیں۔ کبھی کبھی میرا دل جب اوب جاتا تھا تو فلسفہ بھی پڑھتا تھا۔ تمہاری بھابھی مجھے فلسفی کہتی ہیں۔ ارسطو، افلاطون اور مسلم فلاسفہ میں ابن رشد اور غزالی کو پڑھا۔‘‘

    ’’ابن رشد کو مسلم کہتے ہو، اس کے خیالات تو مشرکانہ تھے۔ امام غزالی کی کتابوں کا رد لکھتا رہتا تھا۔‘‘

    ’’دونوں کی سمجھ اپنے اپنے حساب سے کام کرتی تھی۔ وہ خدا کے تصور اور قدرت خدا وندی کے بارے میں امام غزالی کے خیالات سے متفق نہیں تھا۔ صرف اتنی سی بات پر اسے مشرک کہنا زیادتی ہوگی۔‘‘

    اس رات کھنڈر میں بیٹھے مجھے یہ فلسفیانہ باتیں غیر ضروری لگیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے یوسف سے ایک سوال کیا، ’’یوسف تم کو میرا خط یاد ہے؟‘‘

    ’’تم بہت کم جواب دیتے تھے۔ کون سا والا خط۔‘‘

    ’’وہ خط نہیں۔۔۔ میرا مطلب رائٹنگ سے ہے؟‘‘

    ’’ہاں ہاں یاد ہے۔ کیوں؟‘‘

    میں ایک دم سے مایوس ہو گیا۔ کاش وہ اس وقت فوراً ہی کہہ دیتا کہ تمہاری رائٹنگ مجھے خوب یاد ہے۔ ہمارے ساتھیوں میں تم سے اچھی رائٹنگ کسی کی تھی ہی نہیں۔ ہم دونوں دیر تک چپ چاپ رہے۔ جیسے میں کسی شخص کو جانتا ہوں کہ وہ مجھے اس انداز سے چاہتا ہے اور وہ شخص نہیں جانتا کہ وہ مجھے اس انداز سے چاہتا ہے۔ یہ احساس پہلی بار ہوا اور اس احساس میں بڑی تکلیف تھی۔ وہ پھر کھرپا لے کر زمین کھودنے لگا۔ پھر اچانک رک کر بولا، ’’ابن رشد سے متعلق ایک کہانی پڑھ کر اکثر مجھے لگتا ہے کہ ایک اونٹ ہے۔ وہ اندھا ہے۔ اور وہ مجھے روندتا ہوا چلا جا رہا ہے۔‘‘

    رات کیوں کہ رات ہوتی ہے اور رات میں خوف بھی ہوتا ہے تو مجھے خوف محسوس ہوا۔ مجھے اونٹ کا پیکر خیال کر کے اور بھی ڈر لگا۔ مجھے اس کے اندھے پن کے خیال سے جھرجھری سی محسوس ہوئی۔ میں کھسک کر اس کے پاس ہو گیا۔ میں نے اس کا چہرہ دیکھا۔ اس کا سانولا چہرہ بچپن کے اس واقعے کی طرح سرخ ہو گیا تھا اور چاندنی میں اس پر پسینے کی بوندیں جھلملا رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک زنگ خوردہ ٹین کا ڈبہ تھا۔ زنگ اتنا جم گیا تھا کہ ڈبہ کھلنا دشوار تھا۔ اس نے کھرپے سے کاٹ کاٹ کر ڈبے سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا۔ پھر اس کا غذ کو کھول کر اس کے اندر سے مارک شیٹ نکالی۔ چاندنی میں ہم دونوں نے واضح پڑھا۔ فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن۔ وہ کچھ اور بھی خوش ہوتا کہ اس وقت میرے دل میں ایک کمینہ خیال آیا اور میں نے اس کا اظہار کرنے میں دیر نہیں کی۔

    ’’یہ مارک شیٹ مل گئی تو کیا ہوا۔ اسے اس لڑکی اور اس کے ساتھی کو دکھا بھی دو تو کیا ہوگا۔ کیا وہ تمہارا ماضی تمہیں واپس کردیں گے کہ لو اب اس مارک شیٹ کے سہارے گریجویٹ بن جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر مجھے محسوس ہوا کہ میرے دل پر سے ایک بوجھ ہٹ گیا۔ یوسف نے کچھ دیر تک مارک شیٹ کو ہاتھوں میں ویسے ہی سنبھالے رکھا پھر شدید مایوسی کے انداز میں سر جھکا کر بیٹھ گیا۔ میرا جملہ سن کر اس کا چہرہ اتر گیا تھا۔ اب مجھے اپنا بچپن والا یوسف یاد آیا۔ مجھے اس سے اچانک ہمدردی محسوس ہوئی۔ میں نے تلافی کرنے والے انداز میں کہا، ’’گریجویٹ ہونے سے بھی کیا ہوتا ہے یوسف۔ دیکھو میں تمہارے سامنے ایک گریجویٹ بیٹھا ہوں۔ کل ہی میرا تبادلہ صرف اس بات پر کر دیا گیا کہ میری رائٹنگ خراب ہے۔‘‘

    رائٹنگ والی بات پر اب بھی اسے کچھ نہیں یاد آیا۔ وہ اسی طرح بیٹھا رہا۔ پھر تھوڑی دیر بعد بولا، ’’وہ اندھا اونٹ تمہیں بھی پامال کر گیا۔‘‘

    کھنڈر کے پار کھیتوں میں پھر کوئی گیدڑ رویا۔ ہم دونوں نے ادھر دیکھا۔ اور دیکھا کہ کھیتوں، باغوں، قصبوں، شہروں اور ملکوں اور انسانوں کو روندتا ہوا ایک اندھا اونٹ بھاگا چلا جا رہا ہے۔ ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوگئے اور سر جھکائے دیر تک وہیں بیٹھے رہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY
    بولیے