Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

انوکھ سنگھ کی بیوی

سنت سنگھ

انوکھ سنگھ کی بیوی

سنت سنگھ

MORE BYسنت سنگھ

    اگر کبھی آج کل لاہور جانے کا اتفاق ہو تو آپ کو وہاں کے اسٹیشن کے سیکنڈ کلاس ٹکٹ گھر کی ڈیوڑھی پر منڈراتا انوکھ سنگھ ملےگا۔ گھبرایا اور پگلایا سا، آنکھوں میں ایک پتھر ہو رہی نظر، سفید داڑھی، جسے دیکھ کر یہ صاف پتہ چلےگا کہ کبھی یہ کالی کی جاتی رہی ہے۔ اس ڈیوڑھی میں وہ اپنی پیاری کو کھو بیٹھا ہے۔ یوں سمجھیے تو اس کی عمر کی ساری کمائی ایک بیش قیمت ہیرا، گم ہو گیا ہے۔ یا پھر ٹکٹ لیتے وقت کسی نے بھیڑ میں اس کی جیب کاٹ کر اسے لوٹ لیا ہے۔

    اس کے چہرے پر کچھ ایسی بوکھلاہٹ سی، گھبراہٹ سی ہے کہ اسے ڈیوڑھی میں گھومتے ہوئے دیکھ کر آپ اسے نظرانداز نہیں کر سکتے۔ ’’ہاں سردار صاحب! آپ کس ٹرین کے بارے میں پتہ کرنا چاہتے ہو؟‘‘ آپ پوچھیں گے تو حیران ہوں گے کہ کہیں اس طرح اس سے مخاطب ہونے میں کوئی حماقت تو نہیں کی۔

    ’’میری کہانی بڑی لمبی ہے۔ لیکن اگر آپ کے پاس ٹیم ہے تو اتنی لمبی بھی نہیں۔ میں آپ کے پانچ منٹ سے زیادہ نہیں لوں گا۔‘‘ وہ کہےگا تاکہ آپ کے دل میں اس کی کہانی لمبی ہونے کی وجہ سے کوئی جھجک پیدا ہو گئی ہو تو وہ دور ہو جائے۔

    آپ اردگرد دیکھیں گے۔ اس کے کپڑے اور ظاہری حالت ایسی اچھی ہے کہ آپ کو یہ شک نہیں گزرےگا کہ وہ کچھ مانگنا چاہتا ہے۔ آپ کو صرف کھٹکے گا تو صرف یہ کہ کیا واقعی اس کی عجیب و غریب کہانی سننے کے لائق ہے۔ یا شاید اس کی پتھریلی نظر سانپ کی نظر کی طرح آپ پر کچھ ایسا اثر کر گئی ہوگی کہ آپ اپنی جگہ پر کھڑے رہ جاؤگے۔

    ’’میں ایک ریٹائرڈ کپتان ہوں۔‘‘ وہ شروع کرےگا، میرا نام انوکھ سنگھ ہے۔ میں فرانس، درادانیال، ٹرکی، میسوپٹامہ، عراق میں جنگ کے دوران گیا۔ انیس سو آٹھ میں اسکول چھوڑ کر میں سپاہی بھرتی ہوا۔ میرا باپ پہلے اسی پلٹن میں صوبیدار تھا۔ وہ اس طرح جلدی جلدی اپنی زندگی کی تاریخ بیان کرنا شروع کر دےگا، ’’لیکن کمیشن سے بھی ایک بہت بڑی چیز میں میدان جنگ سے لےکر واپس آیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ دیر چپ رہےگا۔ آپ اپنے دل میں اندازہ لگا لیں گے کہ اس آدمی کو کہانی کہنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ پھر اونچی آواز میں پوچھیں گے۔ ہاں وہ عجیب شئے کیا تھی؟

    ’’دیکھا! مجھے پتہ تھا کہ میری کہانی آپ کو دلچسپ لگےگی۔‘‘ وہ ایسا کہےگا اور اس کی مسکراہٹ سے ایسا لگےگا کہ وہ اس حقیقت سے واقف ہے کہ آپ پر اس کے جادوئی بیان کا اثر ہو گیا ہے۔

    ’’اچھا۔ وہاں ٹرکی میں ایک شہر پر ہم نے قبضہ کیا ہوا تھا اور وہاں ایک اٹھارہ سال کی بارجین لڑکی مجھ پر عاشق ہو گئی تھی اس کی ماں انگریز تھی۔ اس لیے وہ میرے جیسی اچھی خاصی انگریزی بول لیتی تھی۔ وہ بے حد خوبصورت تھی اور جناب ہمارا عشق لوایٹ فسٹ سایٹ، پہلی نظر کا پیار تھا۔ جیسا کہ انگریز شاعر لکھتا ہے۔ وہ عشق ہی کیا جو لو ایٹ فسٹ سائٹ نہ ہو۔‘‘ ایسا کہہ کر وہ آنکھ پونچھنے کے لیے ہاتھ اوپر لے جائےگا۔ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسو کہاں؟ اور آپ کے ہونٹوں پر، اس کی زبانی مارلو شاعر کا یہ حوالہ سن کر کچھ مسکراہٹ کھیلنے لگےگی۔

    ’’قصہ کوتاہ، میں نے اس سے شادی کر لی اور اس کو اپنے گاؤں بھولا پور لے آیا جو یہاں سے بیس میل کے فاصلے پر ہے۔‘‘

    ’’اچھا۔‘‘ آپ کے منہ سے بےاختیار نکلےگا۔ اس عجیب کہانی میں آپ کے لیے ایسی دلچسپی پیدا ہو جائےگی کہ آپ اسے چھپا نہیں سکیں گے۔ وہ پھر مسکرائےگا۔ ’’میں اسے اپنے گاؤں لے آیا۔ وہ میرے اوپر فدا تھی۔ اس وقت میں نے مشکل سے بیس سال پار کیے تھے اور بہت خوبصورت تھا۔‘‘ اس کے چہرے پر اس کا یہ فخر کسی طرح ظاہر نہیں ہوگا۔ آپ اس کے چہرے کی طرف دیکھیں گے، تو مان جائیں گے کہ سچ مچ وہ اس وقت بہت خوبصورت رہا ہوگا۔ ایک طرح سے اب بھی وہ آپ کو خوبصورت لگے گا۔

    ’’ہم دونوں گاؤں میں گویا ایک عجوبہ بن گئے تھے، بلکہ سارے علاقے کے لیے میلوں تک۔ دو براعظموں میں وہ سب سے خوبصورت عورت تھی، ایشیا اور یورپ میں۔ یہ میمیں اس کا مقابلہ کیا کر سکیں گی۔ میں تو میموں پہ تھوکتا بھی نہیں۔‘‘ اس آدمی کی سادگی اور اکھڑ بولی پر آپ مسکرا دیں گے۔ لیکن پھر آپ سوچیں گے کہ فوجی ایسے ہی سادے اور کھلی بات کرنے والے ہوتے ہیں۔ کوئی بات نہیں۔

    ’’میں نے ایک بہت عالیشان گھر تعمیر کرایا۔ سارے گاؤں، سارے علاقے میں بڑھیا اور ہم دونوں گویا شہزادوں کی طرح رہتے تھے۔ ہاں شہزادوں کی طرح۔۔۔‘‘ وہ دہرائےگا تاکہ آپ کے دماغ میں شہزادوں کے بارے میں جو غلط خیالات ہوں، وہ دب جائیں۔

    ’’سارا گاؤں، بوڑھے، جوان، مرد، عورت، لڑکے اور لڑکیاں حیران تھے۔ نزدیک کے گاؤں کے لوگ ہمیں دیکھنے آتے تھے۔‘‘ یہاں وہ اوپر کو دیکھے گا، کہ کہیں آپ کا دھیان کسی اور طرف چلا گیا ہو۔

    ’’ہاں۔‘‘ آپ جھٹکا سا کھاکر اپنا دھیان اور طرف سے موڑ کر کہیں گے۔

    ’’آپ جانتے ہیں پنجابی ’’مٹسیار‘‘ جوان لڑکی کو اپنی خوبصورتی پر بڑا ناز ہوتا ہے اور وہ میموں کو اپنے مقابلے میں کچھ نہیں سمجھتی، کیونکہ میمیں صرف گوری ہی ہوتی ہیں۔ ان کے نقش کوئی اچھے نہیں ہوتے اور پنجابی نوجوانوں کو بھی اپنی عورتوں پر بڑا غرور ہوتا ہے۔ لیکن سب مرد، میری عورت کی خوبصورتی کو مانتے تھے اور گویا ہار مانتے تھے۔ گاؤں کے لوگ اسے یہودی کہتے تھے۔ حالانکہ دراصل وہ یہودن نہیں تھی۔‘‘

    آپ اس کہانی کو جیسے جیسے سنیں گے، حیران ہوں گے اور آپ کو چولھے کے پاس بیٹھ کر بہن بواسے سنی ہوئی کہانیاں یاد آ جائیں گی۔ ایک شہزادہ، اکیلا گھوڑے پر سوار، جنگل میں دوپہر کو شکار کے پیچھے بھاگتا ہوا اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا۔ وہ بھٹکتا بھٹکتا ایک برگد کے پیڑ کے پاس آیا۔ جہاں ایک نہایت خوبصورت عورت جھاڑیوں میں چھپی بیٹھی تھی۔ وہ فوراً اس عورت پر عاشق ہو گیا۔ اس عورت نے اسے منظور کر لیا اور اس کے گھوڑے پر اس کے پیچھے بیٹھ گئی۔ وہ محلوں میں آ گئے اور کئی سال تک سکھ چین کی زندگی گزارتے رہے۔ لیکن آخر ایک رات وہ عورت بنا کسی کو کچھ بتائے چپ چاپ گھر سے نکل گئی اور شاہزادے کو کسی کام کا نہ چھوڑ گئی۔ اس آدمی کے ساتھ بھی ایسی ہی بیتی لگتی ہے، آپ سوچیں گے۔

    ’’عورتیں ٹولیاں بناکر اسے گوردوارے یا کسی بیاہ شادی والے گھر لے جانے کے لیے آتیں نوجوان لڑکے جب ہماری بیٹھک کے پاس سے گزرتے تو کھڑکیوں میں سے اندر جھانکتے۔ میں ان کی اس حرکت پر صرف ہنس دیتا۔ اس تک کسی کی رسائی نہیں تھی۔ ورنہ جناب۔ ذرا سوچو۔ ایک لڑکی ہزاروں کوسوں کے فاصلے پر پردیس میں پیدا ہوتی ہے، پلتی ہے، جوان ہوتی ہے۔ پھر جنگ ہوتی ہے۔ میں اس کے ملک میں جاتا ہوں، وہ مجھ پر ایٹ فسٹ سائٹ عاشق ہو جاتی ہے، او۔۔۔ مجھے اس کے بارے میں کوئی شک یا خطرہ نہیں تھا اور میں گاؤں کے شوقین لڑکوں پر ہنس دیا کرتا تھا۔‘‘

    اس بات کے یہاں تک پہنچنے تک، آپ اندازے لگانے شروع کر دیں گے۔ غالباً اس کے ساتھ وشواش گھات کرکے وہ عورت گاؤں کے کسی نوجوان کے ساتھ یارانہ لگا بیٹھی ہوگی یا کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہوگی۔ وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر دبائےگا اور آپ کے دھیان کو اپنی طرف موڑےگا۔ ’’پھر تین سال میں ہمارے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ دونوں لڑکے۔‘‘ وہ کچھ تن کر کہنے لگا۔ جیسے اسے یقین ہو کہ ان دونوں بچوں کا لڑکے ہونا، اس کی خاص غیرمعمولی مردانگی کا ثبوت تھا۔ ’’ایشیا اور یورپ دونوں براعظموں میں سب سے خوبصورت بچے تھے۔ سارا گاؤں کیا، سارا علاقہ ان کو دیکھ کر حیران تھا بڑا زندہ ہے اور واہے گورو اس کو بہت لمبی عمر دے، وہ دو زبانیں بولتا ہے۔‘‘ اب آپ کسی اور طرف اندازے لگانے لگ پڑیں گے۔ شاید وہ عورت چھوٹے لڑکے کی موت کے غم میں مر گئی۔

    ’’ہم بہت خوش تھے۔ ہر ہفتے شہر میں سینما دیکھنے آتے تھے کبھی کبھی بڑے لڑکے کو بھی ساتھ لے آتے تھے۔‘‘ اب آپ اندازہ لگانے چھوڑ دیں گے۔ اس طرح آپ اور الجھن میں پڑتے ہو۔ اندازوں سے کوئی حل نہیں نکل سکتا۔

    ’’ان موقعوں پر کئی لوگ ہمارے واقف ہو گئے۔ اس کی واقفیت زیادہ تر میموں اور امیر گھرانوں سے تھی۔ آدمیوں کی دوستی وہ بالکل پسند نہیں کرتی تھی۔ اس لیے وہ بہت کم آدمیوں سے بات چیت کرتی تھی۔ سوسائٹی میں وہ بہت خوش تھی۔ کئی بار صاحب لوگ ہمیں اپنے بنگلوں میں چائے کے لیے بلاتے اور۔۔۔‘‘ یہاں آپ کو کچھ ہنسی اور کچھ ترس بھی آئےگا۔ یہ سوچ کر کہ اس قسم کی سوسائٹی میں یہ پگڑی والا اور داڑھی والا آنریری کپتان کیسا بے محل اور بیوقوف لگتا ہوگا۔ وہ اس طرح بیوقوفوں کی طرح اس پر پہرا دیتا ہوگا۔ جب وہ اپنے انگریز واقفوں کے ساتھ چائے پیتی ہوگی۔

    ’’لیکن آپ جانتے ہیں ہمارے گاؤں کے بوڑھے لوگوں کو۔ یہ بوڑھے لوگ ہر جگہ ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں ہماری خوشی اچھی نہیں لگتی تھی۔‘‘ سچی بات ہے، آپ بھی بوڑھوں سے نفرت کرتے ہوں گے، تو اس کے اس خیال کی فوراً تائید کریں گے۔

    ’’وہ ضرور ارداسیں کرتیں ہوں گے۔ دعائیں کرتے ہوں گے کہ ہم پر کوئی مصیبت پڑے۔ چنانچہ میرا چھوٹا لڑکا ایک سال کا ہوکر گزر گیا۔‘‘ آپ اس کی آنکھوں کی طرف دیکھنے لگ جائیں گے۔ لیکن بےسود۔ وہاں آنسو کی گنجائش ہی نہیں۔ اس کی آنکھوں سے ایک ایسی زردی سی جھانکتی ہے جو کسی موت سے زیادہ دردناک ہے۔

    ’’اس بچے کی موت کی وجہ سے ہی وہ مجھ سے گم ہو گئی۔ اس واقعے کو ہوئے کوئی دس سال سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ اس بپتا کے علاوہ میرے بال سفید ہو سکتے تھے؟‘‘ اس بات پر آپ کے دل کو ایک بے چینی سی جکڑےگی اور آپ جلدی سے پوچھیں گے، ’’ہاں، پھر کیا ہوا؟‘‘

    ’’آپ جانتے ہیں، ہم مردے کو جلادیتے ہیں، اسی لیے ہم بچے کی لاش کو شمشان میں لے گئے وہ بھی ہمارے پیچھے آئی اور ہمیں بچے کو جلانے نہ دے۔ وہ بچے کو دبانا چاہتی تھی اور آپ کو معلوم ہے کہ یہ ہمارے دھرم کے خلاف بات ہے۔‘‘ وہ ایسا کہہ کر اوپر دیکھےگا۔ جیسے آپ سے تائید چاہتا ہو کہ ایسے معاملوں میں دھرم کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔

    ’’میرے بچے کا پھول سا جسم آپ لوگ آگ میں جلانے لگے ہو۔۔۔ کہہ کر وہ کر چلانے لگی اور چتا کی طرف دوڑی تاکہ بچے کی لاش کو اٹھا لے۔ وہ چاہتی تھی کہ بچے کو لکڑی کے صندوق میں رکھ کر قبر میں دفنایا جائے تاکہ قیامت کے دن اس کاجسم صحیح سلامت نکلے۔ یہ ان کے گھر کا اصول اور یقین ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’بڑی مشکل سے ہم نے اسے چتا سے بچایا۔ لیکن اس دن سے وہ کوئی اور ہی عورت بن گئی۔ وہ پہلی سی نہ رہی۔ مجھے پھٹکار ڈالتی رہتی۔ تم نے میرا پھول سا بچہ آگ میں جلا دیا ہے اور اب اسے نجات نہیں مل سکتی۔‘‘ آپ کا سر افسوس میں ہلنے لگ جائےگا۔ لیکن وہ اپنی کہانی جاری رکھےگا۔

    ’’چنانچہ میں اسے زیادہ بار شہر لانے پر لگ پڑا لیکن وہ کبھی خوش نہیں ہوئی۔ اس سوسائٹی میں جس کو وہ پہلے اتنا پسند کرتی تھی، اب وہ ایک زخمی ہرن جیسی تھی اور دوسروں سے ڈرتی تھی اور آخر ایک روز جب رات کو ہم سینما دیکھ کر واپسی کی گاڑی لینے کے لیے آئے۔ میں ٹکٹ لینے کے لیے گیا اور پتہ نہیں وہ اس جگہ سے کہاں چلی گئی۔‘‘

    اب آپ سمجھ جائیں گے کہ کیا ہوا۔

    ’’وہ جارجیا واپس نہیں جا سکتی۔ جارجیا کوئی اتنا نزدیک تو نہیں اور اگر اس نے اس طرح دور جانا تھا تو وہ مجھ پر بڑی عاشق تھی۔ وہ مجھے اینوک، جو ایک عیسائی نام ہے، کہہ کر بلایا کرتی تھی اور یہ میرے اصلی نام سے ملتا ہے اور میں اسے روپ کہہ کر بلایا کرتا تھا۔ اس کا اصلی نام ’اوب‘ تھا۔‘‘ یہاں وہ آپ کے منہ کی طرف دیکھےگا۔ لیکن آپ ایک ایسے غم میں ڈوبے ہوں گے کہ اس کے لیے اپنی درد بھری کہانی جاری رکھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ دکھائی نہیں دےگا۔

    ’’وہ ضرور واپس آئےگی۔ مجھے یقین ہے۔ قسمت نے ہماری جوڑی بنائی تھی۔ ورنہ کہاں اس کا جارجیا میں ہزاروں میل کے فاصلے پر جنم لینا اور یہاں میرا ہندوستان میں۔ سب کچھ الگ الگ۔ میں اسے ڈھونڈنے نہیں گیا۔ وہ اپنے آپ آئی۔ میرے ساتھ اس کا لو ایٹ فسٹ سائٹ ہوا اور نہ ہی میں اب اس کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ وہ بغیر ڈھونڈے میرے پاس واپس آئےگی۔ میں تو صرف یہاں انتظار میں کھڑا ہوں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے