ڈیوڑھی نما بڑے دروازے میں داخل ہوکر بیری والا باغ محلہ شروع ہوتا تھا جہاں پھوپی جان کا گھر تھا۔ دروازے سے داخل ہوتے ہی بیچ کی نسبتاََ چوڑی گلی سے دائیں بائیں پتلی پتلی گلیاں نکلتی تھیں جہاں پرانے مکان تھے جو مسلمان پاکستان جاتے وقت چھوڑ گئے تھے اور ان میں مغربی پنجاب سے آئے ہوئے خاندان بس گئے تھے۔ لیکن اب بھی اس محلے میں کچھ مسلمان خاندان آباد تھے۔ پھو پھا جو شفیق میموریل اسکول میں استاد تھے انھوں نے شاید سن اڑتالیس میں یہ مکان کرائے پر لیا تھا۔ نہ جانے کس سے لیا ہوگا، میں گھر میں داخل ہوتے ہوئے سوچنے لگی۔
پھوپی جان کے گھر کا آنگن ہمیشہ کی طرح صاف ستھر ا تھا۔ حالانکہ فرش کے پرانے سرخ پتھر کئی جگہ ٹوٹ گئے تھے۔ آنگن میں دروازے کے ساتھ باہر والی بیٹھک تھی جس کے دو دروازے باہر گلی میں کھلتے تھے اور ایک دروازہ اندر گھر میں کھلتا تھا۔ بیٹھک کے پرانے لکڑی کے کواڑوں کے اوپری حصے میں رنگ برنگے شیشے لگے ہوئے تھا جن میں کچھ ٹوٹ گئے تھے اور ان کی جگہ پلائی کے ٹکڑے جڑ دئے گئے تھے۔ آنگن کے اس پار بیٹھک کے مقابل لمبا برآمدہ تھا۔ برآمدے کے بعد لمبی سہ دری تھی جس کو ایک اینٹ کی دیوار سے کمروں کی شکل دے دی گئی تھی۔ ایک زینہ آنگن سے اوپر جاتا تھا جہاں پھو پی جان کے بیٹے اکبر بھائی رہتے تھے جو ہندو کالج میں زولوجی ڈپیارٹمنٹ میں لکچرر تھے۔
’’آداب پھوپھی جان‘‘ میں نے آنگن میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔
’’ارے آج میر ا دل کہہ رہا تھا کہ کوئی آئےگا ضرور۔‘‘ انھوں نے مجھے گلے لگاتے ہوئے کہا، ’’بے مروت، آ گئی پھوپھو کی یاد۔ دلی میں ہی رہتی ہو اور مہینوں ہو جاتے ہیں شکل دیکھے ہوئے۔‘‘
’’کون آیا ہے بتول‘‘ کمرے کے اندرسے دادا با کی بھاری آواز آئی آواز آئی۔ چق اٹھا کر اندر گئی تو وہ حسب معمول تخت پر سفید گاؤن تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے سفید ململ کا کرتا اور سفید آڑا پاجامہ پہنے۔ سرہانے نہج الباغہ، دیوان میر چند اور کتابیں اور اردوکا اخبار رکھا ہوا تھا۔
’’تصویر زہرا آئی ہے بابا۔‘‘ پھوپی جان نے کہااونچی ٓواز میں کہا کیونکہ دادا ب بہت اونچا سننے لگے تھے۔ میر اپور ا نام تو صرف پھو پی جان ہی لیتی ہیں۔ ورنہ سب تصویر کہتے ہیں یا یونیورسٹی میں زہرا کہلاتی ہوں۔ دادا ابا نے میری تاریخ پیدائش کے حساب سے یہ نام رکھا تھا۔
پھو پی جان نے پھر قدرے نیچی آواز میں کہا، ’’اے ہے! ابھی امام کا چہلم بھی نہ ہو ا اور تم نے لال ساڑی پہن لی اور پھر یہ ساڑھی پہننے کہ کیا آفت ہے۔ بن بیاہی لڑکیاں نہیں اچھی لگتیں ساڑی پہنے، ویسے بھی غیروں کا پہناوا ہے۔‘‘
کہاں تو دادا جان اونچا سنتے ہیں کہاں انھوں نے سب کچھ سن لیا۔ ٹھنڈی سانس بھر کر کہا۔
وہ شکت خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں۔
محلے میں داخل ہوتے ہی میں نے ماتھے کی بندی تو اتار کر پرس میں رکھ لی تھی۔ ویسے ہی شوق میں لگا لی تھی ساڑی سے میچ کرتی ہوئی بندی اور یہ ساڑی لال بھی تو نہیں، کافی گہری عنابی ہے۔۔۔ میں نے سوچا۔ دراصل میں سیدھی ایک سیمنار سے ادھر آ گئی جو حقوق نسواں اور اقلیتوں کے موضوع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں کیا گیا تھا۔
پھو پا جان جو اسکول سے آ گئے تھے او رپلنگ پر بیٹھے جوتے کے فیتے کھول رہے تھے۔ انھوں نے بھی پھو پھو کے اعتراض سن لئے، وہ ہنس کر بولے۔
’’تصویر، تمہاری پھوپی جان کا بس چلے تو سارے سال سوگ منایا کریں۔ ڈھائی مہینے محرم، چہلم کا سوگ اور پھر رمضان کے مہینے بھر بھی کوئی ریڈیو یا ٹی وی پر گانا نہیں سن سکتا۔ ‘‘
’’اچھا بس اپنی کامریڈی مت بگھارئے، میں ا پنی بیٹی سے بات کر رہی ہوں‘‘۔ پھو پھو کہتی ہوئی کھانا نکالنے چل دیں۔
کوفتے پکے تھے، کھانا کھا کر مزہ آ گیا، ورنہ ہاسٹل میں تو دال، سبزی ہی کھاتی تھی۔ نان ویجیٹرین اس لئے نہیں لیتی تھی کہ پتہ نہیں گوشت حلال ہے یا جھٹکے کا۔
کھانا کھا کر بر آمدے میں بچھی مسہری پر پھو پی جان کے ساتھ لیٹ کر باتیں کرنے لگی تو کچھ دیر کیلئے آنکھ لگ گئی ہو گی۔ کسی کے زور زور سے بولنے کی آواز سے آنکھ کھلی تو دیکھا اوپر کوٹھے والے مکان سے شکنتلا بہن جی اپنی دیوارپر سر نکالے پھوپی جان سے پوچھ رہی تھیں۔
’’ بتول بہن جی! تصویر آئی ہے؟ اس کی آواز جیسی لگ رہی تھی۔ پنکی بھی آج سسرال سے آئی ہے، پوچھ رہی تھی اپنی بچپن کی سہیلی کو۔ اتنی دیر میں پنکی بھی دیوار سے جھانکنے لگی۔ پھوپی جان نے چلاکر کہا۔‘‘
’’اے ہے! پنکی کیا کرتی ہو، ایسی حالت میں تم کیوں اسٹول پر چڑھ گئیں۔۔۔ یا علی، یاعلی سنبھل کے۔۔۔اترو نیچے۔۔۔ میں تصویر کو بھیج دوں گی دو منٹ کے لئے تمہار ے گھر۔ ‘‘
مجھے ہنسی آ گئی اس دومنٹ والی بات پر۔ جب ہم بچپن میں پھوپی جان کے گھر کبھی چٹھیوں میں جاتے تھے اور پنکی کے گھر کھیلنے کے لئے جانا چاہتے تھے تو پھوپی بس تھوڑی دیر کی اجازت دیتی تھیں۔ کچھ کھانے پینے کی ممانعت کر دیتی تھیں مگر مانتا کون تھا۔ شکنتلا بہن جی کے ہاتھ کے مولی کے پراٹھے کون چھوڑ سکتا ہے۔ کونڈوں کے نیاز کی میٹھی ٹکیا ں جب پھوپی جان آنگن میں انگھیٹی رکھ کر پکاتیں تو بےبی اور پنکی میرے ساتھ اکڑوں بیٹھ کر بہت دلچسپی سے دیکھتی تھیں۔ پھوپی جان کو فکر لگی رہتی کہ کہیں وہ ان کے پاک کئے ہوئے برتنوں کو نہ چھو لیں۔ نیاز سے پہلے وہ کچھ پوریاں پنکی اور بے بی کو بھی دیتی تھیں۔
میں پنکی سے بات ہی کر رہی تھی کہ اکبر بھائی گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے، انھوں نے پھوپھا کو الگ لے جاکر کچھ کہا، وہ سر پکڑ کر میں پنکی سے بات ہی کر رہی تھی کہ اکبر بھائی گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے، انھوں نے پھوپھا کو الگ لے جاکر کچھ کہا، وہ سر پکڑ کر آنگن میں رکھی نما زکی چوکی پر بیٹھ گئے۔ پھر انھوں نے پھو پی جان سے کچھ کہا تو وہ سینے پر دو ہتٹر مارکر مسہری پر گر پڑیں۔ دادا جان باہر نکل آئے تو اکبر بھائی نے رک رک کر بتایاکہ نسیمہ پھوپھی کا فون آیا تھا، ان کی بیٹی سیما جو دلی کے یک NGO میں سوشل ورکر تھی وہ ایکسیدنٹ میں ختم ہو گئی۔ اس کی آخری رسومات یہیں ادا ہوں گی۔
نسیمہ پھوپھی ہمارے ابا کی خالہ زاد بہن تھیں۔ اپنے زمانے میں بہت انقلابی تھیں، لکھنؤ میں پڑھتی تھیں تب انھوں نے اپنے ایک کامریڈ ساتھی امر یش سنگھ سے شادی کی تھی۔ سیما سے میں دو سال پہلے ملی تھی، وہ مجھ سے دو چا ر سال بڑی ہوگی۔ بہت پیاری لڑکی تھی، بہت شوق سے سوشل ورک میں ڈپلوما لیا تھا اور اب جی جان سے اپنے کام میں لگی رہتی تھی۔ سیما اپنی ایک دوست دیپالی کے ساتھ ایک کرائے کے فلیٹ میں رہتی تھی۔ جب سیما کو دہلی میں ملازمت ملی تھی تب نسیمہ پھوپی ایک بار پھوپی جان کے گھر اس کو ساتھ لے کر آئیں تھیں اور اس کو تاکید کی تھی کہ وہ یہاں آتی رہے۔ وہ پھو پھا سے کہہ گئی تھیں کہ سیما کی خیر خبر رکھیں۔
اکبر بھائی اور پھوپھا عجلت سے باہر نکل گئے، پھوپھی کچن کے برابر والے چھوٹے کمرے کاسامان نکا لنے لگیں اور مجھے بھی مد د کیلئے بلا لیا، اس کمرے میں غسل دینا تھا۔ مغرب کے وقت سے گھر میں خواتین اور باہر بیٹھک میں مرد آنے شروع ہو گئے۔ پھوپھا، سفید کپڑے کا پلندہ اور اور دیگر سامان پھو پھو کو دینے گھر میں آئے تو بتایا کہ نسیمہ پھو پھو لاش کے ساتھ ایک گھنٹے بعد پہنچ جائیں گی وہ صبح ہی لکھنؤ سے آ چکی ہیں۔
امریش انکل کا انتقال ہوئے دس برس گذر گئے اور ان کا بیٹا امریکہ جا کر بس گیا۔ نسیمہ پھوپی لکھنؤ میں اپنے آبائی مکان میں اپنے ایک بھتیجے کے ساتھ رہتی ہیں وہ بھی دو برس سے سعودی عرب گیا ہوا ہے۔ لکھنؤ میں وہ آج کل بالکل اکیلی ہیں۔ یہ سب تفصیلات پھوپھی نے سامان ادھر اد کرتے ہوئے، کام کے دوران مجھے بتائی تھیں۔
میں نے زندگی میں پہلی بار یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ پھوپھو چٹائی بچھا کر کچھ خواتین کے ساتھ کفن تیار کرنے لگیں۔ قریب کی مسجدسے سیپاروں کا بکسا منگوا لیا گیا تھا۔ کچھ خواتین محلے والیاں آ گئی تھیں، برآمدے میں دری اور چاندنی بچھا دی گئی تھی۔ ایک بزرگ خاتون جو ہاتھ میں تسبیح لئے بیٹھی تھیں، انھوں نے قریب بیٹھی مسز تقوی سے کہا
’’سنا ہے کہ مرنے والی کا باپ ہندو تھا، وہ بھی ہندو ہی ہوگی؟‘‘
مسز تقو ی نے منہ بنا کر دھیرے سے کہا ’’ارے، ان لوگوں کا کیا مذہب، ماں ٹینی باپ کلنگ، بچے اپنے اپنے رنگ۔‘‘
ایک اور خاتون نے کہا سیپارے کا ورق پلٹے ہوئے کہا ’’ہم تو بس مغفرت کی دعا کر رہے ہیں، آگے اللہ جانے۔‘‘
نسیمہ پھو پھو جو گٹھیا کی مریض تھیں، سکتے کی حالت میں دروازے میں داخل ہوئیں، ان کے پیچھے لاش لیکر اکبر بھائی اور کچھ لوگ تھے۔
پھوپی جان نے انھیں سنبھالا اور کچھ خواتین نے غسل دینے کی تیاری شروع کر دی۔
ابھی غسل ختم بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک باہر بیٹھک میں کچھ ہل چل سی ہوئی، کچھ تیز تیز آوازیں سنائی دیں۔
شمشان گھاٹ۔۔۔ ارتھی۔۔۔ انتم سنسکار۔۔۔ کچھ ایسے الفاظ سنائی دئیے۔
پھوپھا گھبرائے ہوئے اندر آئے اور دھیر ے سے پھو پی جان سے کہا کہ سیما کے ددھیال والے آئے ہیں۔ خواتین میں بے چینی سی پھیل گئی۔ نسیمہ پھوپی تو بالکل سکتے کی حالت میں تھیں۔ پھو پی جان دل پکڑ کا بیٹھ گئیں۔
غسل مکمل ہو چکا تھا، آنگن میں میت لاکر رکھی جا رہی تھی، کافور کی بو پھیلی ہوئی تھی، نسیمہ پھوپی پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھیں۔ باہر مردانے میں اب بھی تیز تیز بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔
اتنے میں ایک لڑکی تیز ی سے اندر آئی، یہ دیپالی تھی سیما کی دوست، اکبر بھائی نے بتایا اس کے ہاتھ میں کچھ کاغذات تھے جو اس نے پھوپھا کے ہاتھ میں تھما د ئے۔
پھوپھا نے چند منٹ کاغذات دیکھے، چند منٹ کے لئے آنکھیں بند کرکے کھڑے رہے پھرگہری سانس لے کر کہا ’’سیما نے اپنی ڈیڈ باڈی میڈیکل ریسرچ کیلئے دینے کا فیصلہ کئی سال پہلے ہی کر لیا تھا۔‘‘
نسیمہ خالہ چیخ مارکر روئیں، سیما کی لاش سے لپٹ کر اسے چومنے لگیں۔
میں نے نہ جانے کیوں چین کا سانس لیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.