Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اپنا سورج، اپنا چاند

مسرور جہاں

اپنا سورج، اپنا چاند

مسرور جہاں

MORE BYمسرور جہاں

    مسرور جہاں

    قوس قزح کے سارے رنگ اس کی تنہا ذات میں سمٹ آئے تھے۔ اگر حسن کی کوئی تعریف ہو سکتی ہے تو اسے دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ حسن اسے کہتے ہیں اور جب میرا جیسا مڈل ایج کا مرد کسی لڑکی کے حسن اور دلکشی کی یوں دل کھول کر تعریف کرے تو آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ وہ کیسی ہو گی؟۔

    اگر آپ اسے میری بدنیتی سمجھیں گے تو یہ آپ کی سمجھ کا قصور ہوگا۔ خوبصورتی ہمیشہ سے میری کمزوری رہی ہے اور میں ہر وقت اسے سراہنے کے لئے تیار رہتا ہوں۔ میں خود بھی بہت خوبرو اور اسمارٹ ہوں۔ کالج سے لے کر یونیورسٹی تک میری مردانہ و جاہت کے چرچے رہے ہیں۔ شاید اسی احساس نے مجھے اتنا اعتماد بخشا ہے۔ میرا بیاا شیراز بھی بالکل میرا ہی عکس ہے۔ اس میں مجھے اپنی جوانی کی تصویر نظر آتی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ وہ اپنی ماں پر نہیں گیا۔ ورنہ کسی کام کا نہ ہوتا۔ جی ہاں۔ میری بیوی سلمہ بےحد معمولی شکل و صورت کی ایک عام سی عورت ہے۔ جب میری شادی ہوئی تھی اس وقت۔ یعنی نوجوانی میں بھی اس میں کوئی ایسی بات نںیش تھی جو میرے جیسا خوبرو اور اسمارٹ مرد اس سے شادی کرتا اور اب اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد تو وہ اور زیادہ بدصور ت ہو گئی ہے۔ گوشت کی موٹی موٹی تہیں چڑھنے کی وجہ سے وہ اور بھی بے ڈول ہو گئی ہے۔ شروع میں جب میں اس کے ساتھ باہر نکلتا تھا تو دیکھنے والی آنکھوں میں میرے لئے بے پناہ ہمدردی ہوتی تھی۔ خصوصاً صنف نازک کے جذبات چھپائے نہ چھپتے تھے جیسے گھر والوں نے زبردستی اسے میرے سر منڈھ کر بڑا ظلم کیا ہے۔ جب کہ بات اس کے بالکل برعکس تھی۔ کیوں کہ سلمہ سے شادی کرنے کا فیصلہ میں نے اپنی خوشی سے کیا تھا۔ کسی زور زبردستی کا تو سوال ہی نہیں تھا۔ لیکن یہ بات سب کو سمجھا نا بھی مشکل تھی۔ میں نے سلمہ سے شادی اس لئے کی تھی کیوں کہ میں نیما کو سبق دینا چاہتا تھا۔ اس کا غرور توڑنا چاہتا تھا اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب میں اس کے مقابلے میں ایک بدصورت عورت کو اپنی زندگی میں شامل کر کے اسے نیما پر ترجیح دیتا اور میں نے ایسا ہی کیا۔

    نیما تو یہ سمجھتی تھی کہ میں اس پر اتنا مرتا ہوں کہ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں مانتا ہوں کہ اس جیسی حسین لڑکی ذرا کم ہی نظر آتی ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ میں اس کے لئے اپنی جان دے دیتا۔ یا جنگلوں کی خاک چھاننے لگتا۔ جبکہ وہ ایسا ہی چاہتی تھی اور شاید اسی لئے وہ میرے ساتھ جان بوجھ کر زیادتی کرتی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا کہ وہ مجھے کہیں ملنے کے لئے وقت دیتی اور غائب ہو جاتی۔ کتنے ہی پروگرام اس کی سنگدلی کی نذر ہو گئے۔ کتنی ہی شامیں اس کی وجہ سے غارت ہو گئیں اور میں شدید کوفت اور ذہنی اذیت میں مبتلا ہو گیا۔

    اس نے معذرت تک کرنے کی زحمت گوارانہ کی۔ جیسے مجھ کو جلانے، تڑپانے اور گڑھانے کا اسے پورا حق ہو اور میرا فرض یہ کہ اس کے ستم سہتا رہوں۔ اس نے میرے تحائف یہ کہہ کر حقارت سے ٹھکرا دیئے کہ اسے یہ چیزیں پسند نہیں ہیں اور چند روز کے بعد اس نے میرے ہی سامنے بڑے ذوق و شوق سے وہی چیزیں خرید لیں۔

    ایک دن میرا بھی صبر و ضبط جواب دے گیا۔ میں نے اس کی ساری زیادتیوں کا بدلہ ایک ہی دفعہ میں لے لیا اور اس کے ہاتھ میں اپنی شادی کا دعوت نامہ تھما دیا۔

    اس لمحہ میں نے اس کی آنکھون میں جو کیفیت دیکھی اس سے میری روح تک سر شار ہو گئی۔ کیا کچھ نہ تھا اس کی آنکھوں میں۔ حیرت، غصہ، ندامت اور اپنی توہین کا احساس۔ اس کے پتلے، پتلے گلابی لبوں کی کپکپاہٹ اور حنائی ہاتھوں کی لرزش اس کے جذباتی ہیجان کی غماز تھی اور میں یہ سب دیکھ کر اور محسوس کر کے مسکرا رہا تھا۔ اس کیفیت میں جیسے صدیاں بیت گئیں۔ جب اسے ہوش آیا تو میں نے بصد خلوص اصرار کیا۔

    ’’نیما! بھول نہ جانا۔ تمہیں بھولنے کی عادت ہے‘‘۔

    ’’بہت بہت مبارک ہو جہانگیر‘‘۔

    اس نے اپنے لہجے کو نارمل رکھنے کی بہت کوشش کی۔ لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے ساتھ ثمینہ بھی کھڑی تھی۔

    ’’یہ اچانک سب کچھ کیسے ہو گیا جہانگیر۔ تم نے تو ہمیں ہوا بھی نہ لگنے دی؟۔ ثمینہ نے شکوہ کیا۔‘‘

    ’’زندگی اتنی تیز رفتار ہو چکی ہے کہ بہت سے فیصلے اچانک اور عجلت میں کرنا پڑتے ہیں۔ سوچنے کے لئے اب کسی کے پاس وقت ہی کہاں رہا ہے۔‘‘ میں نے لاپرواہی سے کہا۔

    ’’بھئی میں تو تمہاری بیوی کو دیکھنے کے لئے ابھی سے بے چین ہوں۔ یقیناً وہ بہت خوبصورت ہوگی؟‘‘ ثمینہ نے کریدا۔

    ’’آنا تو خود ہی دیکھ لینا۔ میں تو اتنا جانتا ہوں کہ حسن دراصل دیکھنے والے کی نظر میں ہوتا ہے۔ اگر بات اس کے برعکس ہو تو باقی بچ جاتا ہے غرور اور غرور حسن کا دشمن ہے۔ جو اسے عفریت بن کر نگل جاتا ہے۔‘‘

    ’’اخاہ۔ یہ آپ نظر والے کب سے بن گئے۔ ؟‘‘

    تمینہ نے مذاق کیا۔ نیما اب بھی خاموش تھی۔

    ’’ہم تو ہمیشہ سے اہل نظر میں شمار ہوتے ہیں۔ یقین نہ ہو تو نیما سے پوچھ لو۔‘‘

    میں نے ہنس کر فقرہ کسا اور نیما تلملا گئی۔ اس نے ثمینہ کا ہاتھ تھام کر چلنے کا اشارہ کیا اور میں خدا حافظ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔

    یونیورسٹی میں میری شادی کی خبر جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئی۔ سب کو تعجب تھا کہ نیما کو چھوڑ کر میں کہیں اور شادی کیوں کر رہا ہوں۔ میری محبت کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں تھا اور یہ خبر اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کر گئی تھی۔

    شادی پر میرے سارے دوست آئے تھے۔ بس نیما نہیں آئی تھی۔ اسے آنا بھی نہیں چاہئے تھا۔ بے چاری ابھی تک اس صدمے سے سنبھلی نہیں تھی۔ یہاں آ کر میرے دوستوں پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ سلمہ ان کی امیدوں کے برعکس انتہائی معمولی صورت و شکل کی مالک تھی اور جو سب کا اندازہ تھا کہ میری بیوی نیما سے زیادہ حسین ہوگی۔ وہ بھی یکسر غلط ثابت ہوا تھا اور بحث کچھ زیادہ ہی سنجیدگی اختیار کر گئی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو کہ میں نے دولت کی لالچ میں شادی کی ہوگی۔ لیکن یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا۔ بہت سادگی سے ساری رسوم ادا ہوئی تھیں۔ نہ امارت کا مظاہرہ ہوا اورنہ ہی جہیز کی نمائش کی گئی تھی۔

    ایک دن میں سلمہ کے ساتھ فلم دیکھ کر باہر نکلا۔ تو نیما سے سامنا ہو گیا۔ شادی کے بعد یہ اس سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ بھی ٹھٹھک گئی تھی۔

    ’’ہیلو‘‘ اس کی آواز اتنی دھیمی تھی کہ اس کے سوا کسی اور نے نہ سنی ہوگی۔ لیکن میں تو اس کی آواز پر کان لگائے تھا۔ کیسے نہ سنتا؟۔

    ’’میری بیوی سلمہ سے ملو اور سلمہ یہ میری کلاس فیلو نیما ہیں۔‘‘ میں نے دونوں کا تعارف کرایا۔ تو نیما نے ہمیں شادی کی مبارکباد دے ڈالی۔ لیکن اپنے نہ آنے کے متعلق ایک لفظ نہ کہا۔ افسوس اور معذرت کا بھلا کیا سوال تھا اور پھر میں نے اسے 'کافی' کی دعوت دے ڈالی جسے تھوڑے سے تکلف کے بعد اس نے منظور کر لیا۔

    لیکن اصرار کر کے بل خود ہی دیا۔ پھر ہم ایک دوسرے سے رخصت ہو گئے۔

    سلمہ راستے بھر نیما کے حسن کی تعریف کرتی رہی۔ لیکن میں نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ میں عورت کی نفسیات سے اتنا تو واقف تھا کہ وہ اپنے شوہر کے منہ سے دوسری عورت کی تعریف نہیں سن سکتی۔

    ’’اتنی خوبصورت لڑکی کئی سال آپ کے ساتھ پڑھی ہے اور آپ نے اس کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ میرا مطلب ہے شادی، محبت، رومانس وغیرہ ’’بیوی نے کریدا‘‘۔

    ’’کیا ضروری ہے کہ ساتھ پڑھنے والی لڑکیوں کے بارے میں اس طرح سے سوچا جائے؟‘‘ میں کچھ تلخ ہو گیا۔ نہ جانے کیوں؟

    ’’ارے میں تو ایسے ہی کہہ رہی تھی۔‘‘

    ’’وہ شرمندہ ہو گئی اور بات ختم ہو گئی۔ اس کے بعد ہمارے درمیان نیما کا ذکر کبھی نہیں ہوا۔ شاید میری بیوی مطمئن ہو گئی تھی کہ مجھے خوبصورت لڑکیوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔

    سلمہ بہت اچھی بیوی ثابت ہوئی۔ وہ گھر کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ میری بھی بہت خدمت کرتی تھی۔ محبت بھی کرتی تھی اور جہاں تک میرا سوال ہے تو میرا اس سے بہت گہرا رشتہ تھا۔ وہ میری بیوی تھی۔ میرے بچوں کی ماں تھی اور ہم ایک گھر میں ایک ہی چھت کے نیچے رہتے تھے۔ اب اگر جانور پالیں تو اس سے بھی انس ہو جاتا ہے۔ وہ تو بہرحال انسان تھی۔

    انسان سے بھی زیادہ یہ کہ میری بیوی تھی۔ لیکن میں اس سے کبھی والہانہ محبت نہ کر سکا اور اسے بھی زیادہ کی طلب نہیں تھی۔

    وہ ایک کھاتے پیتے گھر کی بیٹی تھی۔ لیکن اس نے میکے کی دولت کا غرور کبھی نہیں کیا۔ کئی مرتبہ اس کے پاپا نے مجھے بزنس کرنے کے لئے پیسہ دینا چاہا، لیکن اس نے منع کر دیا۔ اسے اپنے شوہر کی خود داری اور عزت کسی بھی دولت سے زیادہ پیاری تھی اور اس لئے میں اس کی قدر کرتا تھا۔ وہ صبر و شکر سے میری تنخواہ میں گزر بسر کر کے خوش تھی۔ ایسا ایثار ایک باوفا اور چاہنے والی بیوی ہی کر سکتی ہے۔ پھر اب تو زمانے کے سارے گرم و سرد گزر چکے تھے۔ ہمارے بچے جوان ہو گئے تھے۔ ایک بیٹی تھی اس کی شادی ہو چکی تھی۔ میرا بیٹا شیراز چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بن گیا تھا اور ایک اچھی کمپنی میں جاب کر رہا تھا۔ اب مجھے اس کے لئے ایک پیار ی سی لڑکی کی تلاش تھی۔ انہیں دنوں مجھے نیہا مل گئی۔ میں جس اخبار میں ایڈیٹر تھا اس میں کچھ نئے ٹرینر آئے تھے۔ انہیں میں نیہا بھی تھی۔ اس نے جرنلزم میں ڈپلوما کیا تھا۔ وہ مجھے پہلی ہی نظر میں بھا گئی تھی۔ اسے میں نے اپنے ساتھ ہی رکھا تھا۔ چند ہی دنوں میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ صرف خوبصورت ہی نہیں ذہین بھی ہے۔ میں اس کی محنت اور لگن سے بہت خوش تھا۔

    اخبار کے دفتر کا ماحول بھی الگ ہی ٹائپ کا ہوتا ہے۔ اسے چھوٹی موٹی دنیا سمجھ لیں۔ بھانت بھانت کے اور الگ الگ نظریات رکھنے والے لوگ جب ایک جگہ مل بیٹھ کر کام کرتے ہیں تو بہت مزہ آتا ہے۔ نیہا کے آنے کے بعد ہمارے اسٹاف کے مردوں کو یہ شکایت ہو گئی کہ میں نے اسے اپنے ساتھ رکھ کر گویا ان سب کی حق تلفی کی ہے۔ جبکہ خواتین اس بات سے بہت خوش تھیں کہ نیہا ایک سنجیدہ اور باوقار باس کے ساتھ منسلک ہے اور ان ندیدے مردوں کی پر ہوس نظروں، باتوں اور گھاتوں سے محفوظ ہے۔ یہ کسی کو نہیں معلوم تھا کہ میں اسے کس نظر سے دیکھتا ہوں۔ میں نے اپنی ساری عمر میں بس دو عورتوں میں دلچسپی لی تھی۔ ایک نیما اور دوسری سلمہ۔ اب یہ تیسری لڑکی میری زندگی میں آئی تھی۔ جو میرے لئے بیٹی جیسی تھی اور میں اسے سچ مچ اپنی بیٹی بنانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔

    میری شادی کی سالگرہ تھی اور میں نے بطور خاص نیہا کو مدعو کیا تھا۔ اسٹاف کے لوگوں کو میں دفتر ہی میں ٹریٹ دے چکا تھا۔ لیکن نیہا میری خاص مہمان تھی۔ نیہا نے مجھے مبارک باد دی لیکن گھر آنے سے معذرت کر لی۔ میں اس کے انکار سے بد دل ہو گیا۔

    ’’مبارکباد گھر آ کر دو گی تو قبول کر لیں گے۔ ورنہ نہیں‘‘۔

    ’’سر میں مجبور ہوں۔‘‘

    ’’یہی تو جاننا چاہتا ہوں کہ آخر کیا مجبوری ہے؟‘‘۔

    دراصل میں گرلز ہاسٹل میں رہتی ہوں اور وارڈن ہمیں رات میں باہر نہیں جانے دیتی۔ ‘‘

    ’’لیکن ہاسٹل میں کیوں؟۔ تمہارا گھر، والدین؟۔ تم نے مجھے آج تک بتایا بھی نہیں‘‘۔

    ’’سر یہ میری ذاتی پرابلم ہے۔ میں آپ کو بتا کر پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی‘‘۔ اس نے آہستہ سے کہا۔

    ’’تم مجھے اپنا نہیں سمجھتیں اسی لئے۔۔۔‘‘

    ’’نہیں۔ نہیں۔ ایسا نہ کہئے۔ آپ اتنے اچھے ہیں کہ۔۔۔‘‘

    ’’خیر میں تمہاری وارڈن سے مل کر اجازت لے لوں گا۔

    تب تو تمہیں انکار نہیں ہو گا؟‘‘۔

    ’’بالکل نہیں۔ بلکہ مجھے تو بہت خوشی ہوگی‘‘۔

    ’’میں واپسی میں تمہیں خود پہنچادوں گا‘‘ میں نے اسے تسلی دی۔

    اس دن میں نیہا کے ساتھ جا کر وارڈن سے ملا۔ وارڈن ایک عیسائی عورت تھی اور ابھی تک ’مس‘ تھی۔ اس نے بڑی خوشی سے نیہا کو اجازت دے دی۔ وہ میری وجاہت سے بہت متاثر نظر آ رہی تھی شاید خوبصورتی کے لو بھی مردوں نے اس کے حساس دل کی آواز سننے سے انکار کر دیا تھا اور اسی لئے وہ غریب کنواری رہ گئی تھی۔

    نیہا ہمارے گھر آئی تو بہت خوش تھی۔ لیکن جب میں نے اسے اپنی بیوی سے ملوایا تو وہ حیرت کی زیادتی سے خاموش رہ گئی۔ شاید سلمہ اس کی امیدوں کے برعکس نکلی تھی۔ اس کی ٹٹولتی ہوئی نظریں میرے چہرے پر نہ جانے کیا تلاش کر رہی تھیں۔ اس کی اداسی محسوس کر کے میں نے شیراز کو اس کے پاس بھیج دیا۔ کہ شاید اس کی کمپنی میں وہ خوش رہ سکے۔ لیکن وہ چند منٹ کے بعد اس کے پاس سے اٹھ آئی اور میرے پاس بیٹھ گئی۔ میں نے کہا۔

    ’’کیا بات ہے نیہا۔ تم کچھ پریشان لگ رہی ہو۔؟‘‘

    ’’سر! میں تو یہاں بہت خوش ہوں‘‘۔

    ’’نیہا! یہاں میں تمہارا باس نہیں ہوں۔ اس لئے بار بار سر کہہ کر میرا دل نہ توڑ دو۔‘‘

    ’’آپ! آپ میرے بزرگ ہیں سر۔‘‘ وہ نہ جانے کیا سمجھی تھی۔

    ’’تم مجھے شیراز کی طرح ڈیڈی کہہ سکتی ہو‘‘۔ میں مسکرایا۔

    ’’سچ کہہ رہے ہیں آپ۔؟‘‘

    ’’آف کورس۔ تم میری بیٹی ہو۔‘‘ میں نے پیار سے کہا اور تب اس کی اداسی غائب ہو گئی۔ وہ ہنستی رہی۔ مسکراتی رہی اور کام کاج میں سلمہ کا ہاتھ بٹاتی رہی۔ جب میں پارٹی کے اختتام کے بعد اسے ہوسٹل چھوڑنے جا رہا تھا۔ تو اس نے ایک عجیب بات کہی۔

    ’’ڈیڈی! آپ سے ملنے کے بعد اکثر میں نے سوچا ہے کہ کاش آپ میرے پایا ہوتے۔ یا پھر میرے پاپا بھی آپ جیسے ہینڈسم ہوتے اور جب آپ کی بیگم کو دیکھا تو ایک اور خیال آیا کہ آپ کی بیگم کو میری ممی جیسا ہونا چاہئے تھا۔ میری ممی بہت خوبصورت ہیں۔ لیکن پاپا آپ جیسے نہیں ہیں‘‘۔

    بیٹے! سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا ہم چاہتے ہیں۔ بس یوں سمجھ لیں کہ ہمیں زندگی میں وہ سب کچھ نہیں ملتا جس کی ہم خواہش کرتے ہیں۔ لیکن زندگی ہر حال میں گزر جاتی ہے۔‘‘ میں نے اسے سمجھایا۔

    ’’آپ اپنی بیگم سے پیار کرتے ہیں؟‘‘۔

    ’’ہاں بھئی کیوں نہیں۔ آخر وہ میری شریک زندگی ہے۔ اگر پیار نہ ہوتا تو اتنے برس ہنسی خوشی کیسے گزرتے؟ میں نے اپنے جھوٹ پر مصلحت کا غلاف لپیٹ کر اسے مطمئن کرنا چاہا۔ اس وقت مجھے نیما یاد آ گئی۔ اگر وہ اتنی مغرور، سنگ دل اور خود پسند نہ ہوتی تو آج سلمہ کی جگہ وہی میری بیوی ہوتی اور تب نیہا کو ایسا سوال نہ کرنا پڑتا۔ واہ رے۔ زندگی کے کھیل!۔

    ’’ڈیڈی! میں آپ کے جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔‘‘

    ’’کیوں بھلا۔ اس میں بےاطمینانی والی کیا بات ہے؟‘‘۔

    ’’کیوں کہ ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ہے اور جب ایسا نہ ہو تو رشتے ٹوٹ جاتے ہیں یا پر ان میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔ جیسا کہ میری ممی اور پاپا کے معاملے میں ہوا‘‘۔

    ’’تو کیا ان میں علیحدگی ہو گئی؟ اور اسی لئے تم ہوسٹل میں رہتی ہو۔ بیٹی میں نے خواہش کے باوجود اس بات کو کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ کیوں کہ میں تمہارے نازک اور حساس دل پر چوت نہیں لگانا چاہتا تھا۔‘‘

    ’’میرے پاپا بے چارے بہت بدصورت ہیں اور ممی اتنی حسین ہیں کہ بہت کم عورتیں ایسی ہوں گی۔‘‘

    ’’پھر یہ شادی کیسے ہو گئی۔ میرا مطلب ہے کہ کیا تمہاری ممی نے تمہارے پاپا کو شادی سے پہلے نہیں دیکھا تھا؟‘‘۔

    ’’ایسی بات نہیں ہے۔ وہ ان کے فرسٹ کزن ہیں اور یہ رشتہ ممی کی پسند سے ہوا تھا۔‘‘ اس نے اداس لہجہ میں بتایا۔

    ’’پھر وہ ان سے خوش کیوں نہیں ہیں؟‘‘۔

    ’’خدا جانے۔ حالانکہ پاپا انہیں بہت چاہتے تھے۔ لیکن وہ انہیں چھوڑ کر امریکہ چلی گئیں۔ جہاں وہ سروس کرتی ہیں۔‘‘ اور تنہا زندگی گزار رہی ہیں۔ پاپا مرچنٹ نیوی میں انجینئر ہیں۔ اس لئے وہ میرے پاس نہیں رہ سکتے اور میں، ماں باپ دونوں سے الگ رہ کر جی رہی ہوں‘‘۔

    ’’کیا تمہاری ممی کا نام نیما ہے؟‘‘۔

    میرے دل میں ہلچل مچانے والا نام آخر زبان پر آ گیا۔

    ’’جی ہاں۔ لیکن آپ کو کیسے معلوم؟‘‘۔

    ’’نیما میرے ساتھ ہی پڑھتی تھی اور وہ۔ وہ اس وقت بھی ایسی ہی تھی۔ اگر وہ ایسی نہ ہوتی۔ تو آج ہماری راہیں ایک ہوتیں۔ ہم دو مختلف راہوں کے مسافر نہ ہوتے۔ لیکن اب تمہاری صور ت میں ہم ایک ہو سکتے ہیں۔ تم مجھے پاپا سے کب ملواؤگی۔؟‘‘

    ’’ڈیڈی! کہہ کر نیہا مجھ سے لپٹ گئی اور میں نے اس کی پیشانی پر بوسہ ثبت کر دیا۔‘‘

    نیہا کے پاپا دار اب صاحب چھٹی پر آئے تو نیہا نے مجھے ان سے ملوایا اور میں نے شیراز کے لئے نیہا کو مانگ لیا۔ دار اب صاحب اس رشتے سے بہت خوش تھے۔ انہوں نے شیراز کو بھی بہت پسند کیا تھا۔ دو تین ملاقاتوں میں ہی شادی کی تاریخ طے ہو گئی۔ میں نے دار اب سے درخواست کی ’’اگر آپ اجازت دیں تو نیہا کی ماں کو بھی مدعو کر لوں۔ بیٹی کی شادی میں ماں کی شرکت ضروری ہے‘‘۔

    دار اب خاموش ہو گئے۔

    میں نے نیما کو خط لکھ دیا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ ضرور آئےگی اور وہ آ گئی۔ ’’جہانگیر تم؟۔ مجھے تو یقین ہی نہیں آ رہا ہے کہ میں سچ مچ تمہیں دیکھ رہی ہوں۔ تم آج بھی ویسے ہی ہو۔‘‘

    نیما نے پر جوش لہجہ میں کہا۔

    ’’ اور تم کیا بدل گئیں؟‘‘

    ’’تمہیں کیا لگتا ہے؟‘‘ اس نے الٹے سوال کر دیا۔

    ’’میرے خیال میں تو تم آج بھی ویسی ہی ہو‘‘۔

    ’’اس ’ویسی ہی‘ کی وضاحت نہیں کروگے جہانگیر؟‘‘

    ’’کچھ کہہ دیا تو تم خفا ہو جاؤگی اس لئے کوئی اور بات کرو‘‘ میں نے ٹالنے کے لئے کہا۔

    ’’کیا تم جانتے تھے کہ نیہا میری بیٹی ہے؟‘‘۔

    ’’اتنی پیاری سی لڑکی تمہاری ہی بیٹی ہو سکتی ہے۔ میں نے تو اسے پہلی بار دیکھنے کے بعد ہی اپنے بیٹے کے لئے پسند کر لیا تھا‘‘ میں نے در پر دہ اس کی تعریف کی۔

    ’’تم حسن کے شیدائی کب سے ہو گئے۔؟‘‘ اس نے چوٹ کی۔

    ’’میں تو سدا ہی سے حسن پرست ہوں۔ لیکن شرط یہ ہے کہ حسن مغرور نہ ہو۔‘‘ میں نے بھی چٹکی لی۔

    ’’شاید تم طنز کر رہے ہو۔ لیکن میں منافق اور ریاکار نہیں ہوں۔ اسی لئے دار اب سے علیحدہ ہو گئی۔‘‘

    ’’ریاکار اور منافق تو تم اس وقت تھیں، جب مجھ سے انتقام لینے کے لئے تم نے دار اب کا انتخاب کیا تھا اور جب اسے چھوڑ کر چلی گئیں تو ظالم، سنگ دل اور بے مہر بھی بن گئیں۔ آخر اس سارے قصے میں بیچارے دار اب کا کیا قصور تھا، جو تم نے اسے سزا دی۔ ساتھ ہی اپنی بیٹی سے بھی بے انصافی کی‘‘۔

    ’’تم ٹھیک کہتے ہو جہانگیر۔ تم نے مجھے ٹھکرایا تو مجھے دنیا کے سارے خوبرو مردوں سے نفرت ہو گئی اور میں نے دار اب کو شریک زندگی بنانے کا فیصلہ کر ڈالا۔ یہ میری غلطی تھی، جس کی سزا میں آج تک بھگت رہی ہوں‘‘ اس نے اداسی سے کہا۔

    ’’تم دار اب سے مفاہمت بھی تو کر سکتی تھیں، جیسے میں نے سلمہ کے ساتھ کی اور یہ بھی تم غلط کہہ رہی ہو کہ میں نے تمہیں ٹھکرایا، تم نے خود اپنی خوش قسمتی کو ٹھوکر ماری تھی۔ مرد محبت کر سکتا ہے، ایثار و قربانی کر سکتا ہے، لیکن اپنی انا اور خود داری کو قربان نہیں کر سکتا۔ خیر چھوڑو،۔ یہ بتاؤ تمہیں شیراز کیسا لگا؟‘‘۔

    ’’ماشاء اللہ بہت پیارا بچہ ہے۔ نیہا اور شیراز کی جوڑی چاند و سورج کی جوڑی لگےگی‘‘۔

    تم اس رشتے سے خوش ہو؟‘‘

    ‘’بہت خوش ہوں‘‘۔

    ’’میری ایک بات مانوگی؟‘‘

    ’’کہو‘‘۔

    ’’تم اپنی ذات کا سارا حسن اپنی نظروں میں سمو لو۔ تب تمہیں دار اب اتنے برے نہیں لگیں گے‘‘۔

    نیما نے گردن ہلائی۔ شاید میری بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔

    نیہا اور شیراز کی شادی بڑی دھوم دھام سے ہوئی اور دونوں ہنی مون منانے کے لئے یورپ چلے گئے۔ دار اب صاحب نے بھی رخت سفر باندھا۔ لیکن اس بار وہ اکیلے نہیں جا رہے تھے۔ نیما بھی ان کے ساتھ جا رہی تھی ہم انہیں ایئرپورٹ پر خدا حافظ کہنے گئے، سلمہ بھی میرے ساتھ تھی اور جب ہم انہیں رخصت کر کے گھر لوٹ رہے تھے تو سلمہ نے ایک ایسی بات کہہ دی کہ میں چونک پڑا، وہ کہہ رہی تھی ’’خدا کا شکر ہے کہ چاند اور سورج کبھی ایک ساتھ نہیں نکلتے، ورنہ سچ کہتی ہوں کہ اگر ایسا ہوتا تو قیامت آ جاتی۔

    ‘‘تو کیا تم جانتی تھیں کہ میں اور نیما؟۔۔۔’‘

    جی جناب! یہی سبب ہے کہ میں نے اپنے سورج کو ہمیشہ اپنے آنچل میں چھپا کر رکھا۔‘‘ سلمہ نے ہنس کر کہا۔ میں نے دور آسمان پر نظر ڈالی۔ جہاں نیلے آسمان پر چاند مسکرا رہا تھا اور اس کے قریب ایک ستارہ درخشاں تھا۔ جیسے کہکشاں سے ٹوٹ کر چاند کے قریب آ گیا ہو‘‘۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے