ارہر بڑھیا کی کمرکیوں خمیدہ ہوگئی
’’ ہم مکان کے اوپر مکان بنالیں چاہے مکان کے نیچے مکان بنالیں۔ دوگز زمین کے تصرف سے زیادہ کی آرزو بہادر شاہ ظفر جیسا کوئی بادشاہ وقت بھی نہیں کرسکا۔‘‘
میں آرام کرسی پر بیٹھا اخبار پڑھتے وقت سوچ رہا تھا۔
’’آئے دن اخبارات میں لینڈ مافیا اور انکروچمنٹ کی خبریں چھپ رہی تھیں۔ ویسے بھی صنعتی شہروں میں رہائشی مکانوں کے لیے پلاٹ خریدنا ایک عام آدمی کے لیے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگیا تھا۔‘ ‘
اسی دوران نہ جانے کب میری نظریں اخبار سے ہٹ کر دور خلا میں تیرنے لگیں اور میرے تفکرات کا سلسلہ دوبارہ مربوط ہوگیا۔
’’ہم اپنے حالیہ گناہوں کا بھاری پتھر تو اٹھا نہیں سکتے مگر ایسے چھوٹے چھوٹے پتھروں کو جمع کرنے میں ہمہ وقت سرگرداں رہتے ہیں جن کا بوجھ ہماری آنے والی نسلیں مل کر بھی اٹھانا چاہیں تو بھی نہیں اٹھاسکیں گی۔‘‘
’’بیٹا! میرا ایک خط لکھ دوگے؟ ارہر بڑھیا نے دھیرے سے میرے قریب آکے بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کیوں نہیں‘‘میں نے کہا۔
’’ابھی لکھتا ہوں‘‘ اتنا کہہ کر میں نے جیب سے قلم نکالا اور اس کے ہاتھ سے پوسٹ کارڈ لے کر اس پر لکھنا شروع کردیا۔ ’۷۸۶‘ آگے بولیے نانی کیا لکھوانا ہے؟
’’عظمت علی کو معلوم ہوکہ ہم یہاں خیریت سے ہیں۔ اس سال پھر بہو کو بیٹا ہوا ہے‘‘، وغیرہ وغیرہ وہ لکھواتی اور جب خط مکمل ہوجاتا تو میں پوچھتا کہ آپ نے کسے کو خط لکھوایا ہے؟
’ارے میرا دیور ہے وہ۔ اسے میری طرف سے جو بھی لکھا جاتا ہے وہ توخود ہی لکھ دے مجھے وہ سب نہیں معلوم ہے‘ میں کہتا۔ ’’میں نے یہی لکھ دیا ہے کہ وہ سب مجھے نہیں معلوم ہے۔‘‘ اس پر وہ مذاق کے موڈ میں آجاتی۔۔۔ ’’بیٹا! میں تو ان پڑھ ہوں تو نے کیا پڑھا ہے جو تجھے نہیں معلوم؟‘‘ پھر وہ اپنے بچپن کے زمانے کو یاد کرکے خیالوں میں گم ہوجاتی ۔
میں نے بھی تیسری کلاس تک مولوی صاحب سے پڑھائی کی ہے۔ میرے ماں باپ نے بہت لاڈ سے پالا تھا مجھے۔ ایک دو نہیں پورے بارہ سال تک میں نے گائے کا کچا دودھ پیا ہے۔ چھوٹی عمر میں میرا بدن اتنا بڑھ گیا، اتنی جلدی بڑی لگنے لگی کہ ایک دن جب میں تیسری کلاس میں تھی اور مولوی صاحب نے مجھے کسی بات پر چھڑی سے ماراتو میں روتی ہوئی فوراًگھر چلی گئی۔ میرے باپ ،چچا کا اتنا دیکھنا تھا کہ وہ مولوی سے لڑنے کے لیے دوڑ پڑے اور گھر آکر مجھ سے کہا کہ کل سے مولوی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن پھر میں کبھی اسکول نہیں گئی۔
میرے باپ اور چچا دھنباد کی کوئلیری میں بڑے ٹھیکیدار تھے۔وہ سب ناگدہ کے قریب جیت پور، سدھام ڈیہہ اور باگ ڈ گیّ کی کانوں میں ٹھیکیداری کیا کرتے تھے۔ ہزاروں مزدور ان کے یہاں مزدوری کرتے تھے۔ دور دور تک ان کی عزت اور شہرت تھی اور کیوں نہ ہوتی دھوں دھوں کرکے دھواں اگلتی اور سلگتی ہوئی زمین کے اندر کوئلے کی ہزاروں فٹ گہری کانوں سے کوئلہ نکالنا اتنا جان جوکھم کا کام تھا کہ ہر ایک کے بس کا نہیں تھا۔ بڑے جگرے کے لوگ ہی اس کام کو کرسکتے تھے۔ برسات کے دنوں میں مال ڈھولائی کے لئے بھی مزدور ہاتھ نہیں آتے تھے ۔ کبھی کبھی تو زہریلی گیس نکلنے سے بہتوں کی موت ہو جایا کرتی تھی۔انھیں کمپنی سے معاوضہ دلوانا، ان کے وارثوں کو نوکری دلوانا یہ سب بڑی ذمے داری کا کام تھا۔ ہنگامی حالات میں گہری کانوں کے اندر سوائے آکسیجن کے ماسک کے کسی بھی احتیاطی اُپائے کا بندوبست نہیں ہوتا تھا.. .
میں نے بیچ میں ہی بات کاٹ کر کہا۔’ ’اچھا! اب خط مکمل ہوگیا ہے۔ کارڈ پر بتائیے پتہ کس کا لکھنا ہے؟‘‘
وہ کہتی
’ ’گرام: مبھری‘‘
’’ پوسٹو آفس: چکسیہ‘‘ (وہ پوسٹ آفس کو ہمیشہ ٹ اور واؤ کو کھینچ کر پوسٹو آفس کہا کرتی تھی۔)
اسی طرح ایک اور غلط بات اس کے دماغ میں گھسی ہوئی تھی جسے نکالنا ناممکن تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جواہر لال نہرو اندراگاندھی کے نانا تھے اور سمجھانے پر کہتی ،’’بیٹا! میں غلط نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ میں نے اپنے باپ چچا سے سنا ہے۔ آج کل کی پڑھائی غلط ہوسکتی ہے لیکن وہ غلط نہیں ہوسکتے‘‘۔اپنے باپ اور چچا پر وہ اس قدر راسخ العقیدہ تھی کہ اس کی اس کٹ ہجتی کے آگے آخر مجھے ہی خاموش ہونا پڑتا تھا۔
بہرحال، اس نے آگے لکھوایا۔
’ ’ضلع: دھنباد‘‘ ۔ساتھ میں وہ یہ بھی کہتی،’ ’عظمت میاں کو ملے۔‘‘
اس پتے پر اس نے اتنی بار خط لکھوائے تھے کہ اس واقعہ کو گزرے آج بارہ سال بیت چکے ہیں۔ لیکن یہ پتہ آج بھی میری یادداشت کے پردے پر ویسے سے ہی نقش ہے جیسے آج سے بارہ برس پہلے چسپاں رہتا تھا ۔
جب ہم نے جمشید پور میں دلمہ پہاڑ کی وادی میں اپنا مکان بنوایا۔ والد صاحب چونکہ شاعرانہ مزاج کے آدمی تھے اور والدہ بھی قدرت کے حسین مناظر کی دلدادہ تھیں۔ کھلی فضا میں حد نگاہ تک اونچی نیچی چھوٹے ناگپور کی پٹھاری زمین پھیلی ہوئی تھی۔ محکمۂ جنگلات نے یوکلپٹس کا گھنا جنگل لگا رکھا تھا۔ قدرت کے اس دلفریب آغوش میں سرخ ٹائیلس کا ایک مکان تھا جو ہمارے مکان جیسا تھا لیکن فرق یہ تھا کہ وہاں ارہر کے کھیت لگے ہوئے تھے۔ ارہر بڑھیا اسی مکان کی مالکن تھی اور ارہر کے کھیت کی نسبت سے لوگ اسے ارہر بڑھیا کے نام سے پہچانتے تھے۔ ویسے اس کا نام بتولن تھا۔ ماں باپ نے شاید اس کا یہ نام اس لیے بھی رکھا ہوگا کہ وہ بولتی بہت تھی۔ ہر وقت اپنے پرکھوں کو یاد کرتی۔ ان کی عظمت کی داستان سناتی نہیں تھکتی تھی اور ویسے بھی اس کے پاس ماضی کے سوا رکھا ہی کیا تھا۔ کہنے کو ایک بیٹا تھا جو کچھ نہیں کرتا تھا۔ لوگ باگ دبی زبان یہاں تک کہتے تھے کہ وہ چور ہے اور اس نے کہیں بڑا ہاتھ مار کر وہ مکان بنوالیا تھا۔ شہتیر اور کڑیاں شال کے درختوں کو آرا مشین سے چیرواکر منگوائی گئی تھی اور فرش پر سنگ مرمر کے دانے کٹوائے گئے تھے۔ دیواریں پکی اینٹ اور سیمنٹ سے چنوائی گئی تھی۔
شہر آہن جمشید پور میں ویسے تو سبھی صوبوں کے لوگ رہتے تھے لیکن مقامی آدی باسی ،کول ،بھیم اور سنتھال کے ماسوا یوپی اور بہار کے زیادہ تر لوگ وہاں آباد تھے۔ ٹاٹا کی اسٹیل فیکٹری نے ہزاروں لوگوں کوروزگار دے رکھا تھا۔ نئے نئے مکانات بن رہے تھے۔ لوگ باگ مختلف فیکٹریوں اور کمپنیوں سے سبک دوش ہوہوکر جہا ں کہیں بہار سرکار کی پرتی زمین ملتی اسے خرید کر مکان بنارہے تھے۔ کول، بھیم اور سنتھال بھی اب بہت چالاک ہوتے جارہے تھے۔ وہ کسی بھی اُ سّرزمین پر باڑا بنالیتے، اس پر ہل بیل چلاتے اور اسے فروخت کردیتے۔ اس سے ان کی زندگی میں خوشحالی آرہی تھی۔ ان کی اگلی پیڑھیاں مشنری اسکولوں میں پڑھنے لگی تھیں۔
ارہر بڑھیا نے مجھے کبھی بتایا تھاکہ اس کا بیٹا بھی میٹرک میں پڑھتا تھا۔
ایک دن میں درخت پر چڑھ کر اس کی کچھ فاضل ٹہنیاں اور شاخیں تراش رہا تھا کہ اچانک مجھے دیکھ کر اس پر دور ا سا پڑگیا اور تقریباً چیختی ہوئی بولی ۔
’’اُتر جا بیٹا۔۔۔ پیڑ سے اُتر جا۔۔۔ تویہ کیا کررہا ہے۔۔۔ ہرے بھرے پیڑ کو کبھی کاٹنا نہیں چاہیے‘ ‘۔
میں نے کہا۔
’ ’یہی کچھ فالتو ڈالیوں کو کاٹ رہا ہوں کوئی پیڑ تھوڑے ہی کاٹ رہا ہوں؟ ‘‘جب میں درخت سے اُترا تو وہ قدرے غمناک ہوکر کہنے لگی۔
’’میرا بیٹا میٹرک میں تھا۔ ایک دن وہ پیڑ پر چڑھ کر اس کی کچھ ڈالیاں کاٹ رہا تھا۔ کچا بدن، پیڑ پر سے پاؤں پھسل گیا اور گرتے ہی اس کی موت ہوگئی‘‘ کہتے کہتے اس کا گلا رندھ گیا۔ آنکھیں نم ہوگئیں۔پھر کہنے لگی۔
’’پیڑ پر بھوت پریت کا بسیرا ہوتا ہے۔ در اصل، اسے بھوت نے پٹخ دیا تھا۔ ورنہ کوئی پیڑ سے گر کر یوں بھلا مرتا ہے کہیں؟‘‘
اس نے بڑی اپنائیت سے مجھے سمجھایا۔
’’ہرے بھرے ڈال کو کبھی کاٹنا نہیں چاہیے۔‘‘میں نے کہا۔
’ ’ تم بھی تونانی اتنی ساری لکڑیاں پہاڑ سے کاٹ کر لایا کرتی ہو۔ اس سے کیا ہوتا ہے۔‘‘
’’بیٹا! میں سوکھی لکڑیاں توڑ کر لاتی ہوں۔ وہ جلاون کی لکڑیاں ہوتی ہیں‘ ‘۔یہ کہہ کر اس نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی۔ ’’پھر تو ابھی نوجوان ہے۔ تجھے دُنیا دیکھنا ہے۔ بھوت پریت جوان لڑکوں پر عاشق ہوجایا کرتی ہیں‘‘151لیکن میں سوچنے لگا۔
’’سب بکواس ہے۔ میں بھوت پریت کو نہیں مانتا!‘‘
ستّر سال کی عمر میں بھی ڈھائی من لکڑیاں کاٹ کر باندھ چھاندھ کر اونچی پہاڑیوں سے سرپرڈھوکر لانا بچوں کا کوئی کھیل نہیں۔ جب وہ لکڑیاں لایا کرتی تھی۔ اس کی تیز رفتاری بھی قابل دید ہواکرتی تھی۔ یوں جب وہ چلتی تو اس کی کمر بہت زیادہ جھکی ہوئی بلکہ نوے کے زاویے پر خمیدہ ہوتی تھی۔ مگر لکڑیوں کا بوجھ ڈھوتے وقت وہ تن کر بالکل سیدھی کھڑی ہوجاتی تھی۔ بدن ہاتھ پر جھریاں اس قدر زیادہ تھیں جسے دیکھنے سے محسوس کیا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی جوانی میں کس دھڑلے کی عورت رہی ہوگی۔ایک آنکھ کچھ زیادہ ہی میچی ہوئی سی تھی۔ اس میں موتیابند کی لالی پڑی گدلی سی جھلی ہر وقت نمایاں رہتی تھی۔ مِسّی لگے دانت بتیس کے بتیس اپنی جگہ موجود تھے۔ بالوں میں البتہ جابجا چاندی گھلی ہوئی تھی۔ جنہیں نہانے کے بعد وہ ساری کے پلّو کے نیچے کھلا چھوڑ دیا کرتی تھی ۔اکثر ایسا اس وقت ہوتا تھا جب وہ باری تالاب سے نہا کر آتی تھی۔ گرمی کے دنوں میں بھیگی ساری کے نیچے کچھ نہیں پہنتی تھی۔ ٹانگوں میں ساری توانائی آکر مجتمع ہوگئی تھی۔ سرخ پاڑ والی سفید مارکن کی ساری میں اس کا سلونا بدن اِدھر سے اُدھر ڈولتا رہتا تھا۔
ارہر بڑھیانے مجھے کسی بات پر ایک دفعہ ہم سبھی افراد خانہ کے سامنے بتایاتھا:
’’میری جب شادی ہوئی ۔تمہارے نانا نے جب پہلی بار مجھے دیکھا تو میرے سامنے دبلے سے تھے، کانپنے لگے۔ کمرے سے باہر جانے لگے تو میں بھانپ گئی اور میں نے اپنی قد کاٹھی چھپالیے اور خود کو چھوئی موئی کی ایک پوٹلی سی بنالی۔ دفعتاً وہ پلٹ آئے اور پیار سے پوچھنے لگے۔
’’تم کہیں گھبراتو نہیں رہی ہو ؟ ‘‘
پرانے زمانے کی شادی ماں باپ نے کرائی تھی۔ ہم نے شادی سے پہلے ایک دوسرے کا منھ تک بھی نہیں دیکھا تھا۔ گاؤں میں بڑے ہوشیار اور مکھیا مانے جاتے تھے۔ مجھے ہنسی آگئی۔
مرد کیسا بھی رعب دار کیوں نہ ہو عورت کے سامنے آتے ہی منمنانے لگتا ہے۔مین نے اپنی ہنسی دبالی۔‘‘
کچھ دیر تک خاموش اور گم سم رہتی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو اور جب سوچ کا سرا مل جاتا تو دو بارہ سکوت توڑتی۔
’ ’بڑا دبدبہ تھا ان کا، ان کی موت کے بعد قسمت نے کہاں لاکے پھینکا۔ بیٹے بچوں کی محتاج ہوگئی ہوں۔ کسے خبر تھی کہ یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے۔ بڑھیا رانڈی کو کون پوچھتا ہے۔ بیٹے کو پال پوس کر بڑا کردیا۔ شادی ہوگئی۔ اب وہ سمجھتا ہے کہ میں بے وقوف ہوں۔‘‘
مجھ سے کہنے لگی اب نظام کا قصہ سن لو،
نظام الدین ان کا چھوٹا بیٹا تھا۔ ٹاٹا اسٹیل کمپنی کے پھینکے جانے والے کوڑے میں فارنیس کی راکھ اور چمنیوں کی کالک کے علاوہ کبھی کبھی کچلے کوئلے اور لوہے کے ٹکڑے بھی مل جایا کرتے تھے۔ نظام وہاں اپنے دوستوں کے ساتھ لوہا اورکوئلہ کھوجنے جایاکرتا تھا۔ انہیں بیچ کر چار پیسے کمالیا کرتا تھا لیکن کوئلے کے دھندے میں ہاتھ تو کالے ہوتے ہی ہیں۔ ایک مدراسن لڑکی رضیہ اس سے وہیں ٹکراگئی تھی۔ رضیہ کے جسم میں غضب کی جنسی کشش تھی۔ وہ تھی تو سیاہ فام لیکن اس کی بوٹی بوٹی چمکتی تھی۔ لمبی ناگن جیسی بل کھاتی ہوئی زلفیں اور ملیح رخساروں کے آخری سرے یہ تھوڑی سے ذرا اوپر ہونٹ سے متصل ایک کالا سے مسّہ تھا۔ جب کبھی وہ ہنستی تو اس کے سفید چمکیلے دانت اس قدر جاذب نظر معلوم ہوتے کہ دیکھنے والوں کا جی چاہتا کہ بڑھ کر اس کا منھ چوم لیں۔ ظاہر ہے نظام پر بھی ایسی کیفیت طاری ہوئی تھی اور اس نے اس جذبے سے مغلوب ہوکر اس کا منھ چوم لیا تھا۔ تب سے یہ دونوں ساتھ ساتھ رہتے تھے اور کوئلے کے دھندے میں دل کھول کر ہاتھ کالے کررہے تھے۔ جب دونوں تمام لچھمن ریکھا لانگ چکے اور سیاحتِ جسم و جان سے سیر ہوچکے تو ایک دن چپکے سے ہاتھ پیلا کیے بغیر نظام اسے اپنے گھر لے آیا۔
ارہر بڑھیا نے سلسلۂ کلام جاری کرتے ہوئے کہا ۔
’’ ایک روز وہ اسے شام کے جھٹپٹے کے وقت گھر لے آیا۔ پوچھنے پر بتایاکہ اس کا نام رضیہ ہے اور میں نے اس سے شادی کرلی ہے، اب یہ یہیں رہے گی۔ میں حیران رہ گئی یا اللہ! ایسے بھی دنیا میں کہیں ہوتا ہے۔؟یہ ڈھیٹ ایسی کہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہیں ہوتی تھی۔ آخر، رات ہوگئی تو میں نے کہا۔
’’ اب اتنی رات کو کہاں جائے گی۔ رات کے رات یہاں رہ لو صبح تڑکے یہاں سے نکل جانا، کوئی تمھیں دیکھے گا بھی نہیں‘‘۔ رات بھر فکر سے میری نیند اُڑی کی اُڑی رہی اور وہ بے خبر غفلت کی ماری صبح دیر تک بستر پر پڑی رہی۔ نظام صبح صبح کام پر جاچکا تھا۔ شام لوٹ کر گھر آیا تو منّت و سماجت کرنے لگا۔
’’ کہاوت مشہور ہے کہ بیٹا کا دل قصائی کااور ماں کا دل گائے کا۔ آخر کار ، گھر میں اسے سہارا دے ہی دیا اور اس کے بعد میں نے دیکھا کہ ہلال، پورنیماشی، اماوس سب گزر گئے، اس نے کھاپی کر سب ہضم کرلیے۔ ڈکار تک نہ لی۔ مجھے حیرانی ہوئی۔ کافی گھما پھراکر دس بہانے سے پوچھا تو پیٹ کی طرف اشارہ کرکے بولی۔
’’دوسرا مہینہ چڑھ گیا ہے۔‘‘
وہ دن ہے اور آج کا دن۔ مدراسن اتنی سخت جان ثابت ہوئی کہ کھٹّی دال اور باسی بھات سب کچھ ہضم کرجاتی ہے اور اسے کچھ ہوتابھی نہیں اور کوئی ہوتی تو کھاٹ پکڑلیتی، لیکن یہ باسی تباسی جو بھی کھاتی اس کے بدن کو لگتا گیا۔ افضل پیدا ہوا تو نظام جیل میں تھا۔ اس نے بتایا کہ مال تو اس کے دوستوں نےُ اُڑالیے تھے اور اسے تھانے میں پھنسادیا گیا تھا۔ دانے دانے کو میں ترستی رہی۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ نظام الدین بھاری مال جمع کررہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں کب کی اسے جیل سے چھڑا لاتی۔ لیکن بولنے والوں کی زبان کس نے پکڑی ہے۔
مجھے اس بات کا احساس تھا کہ ارہر بڑھیا جھوٹ نہیں بولتی تھی۔ مجھے اس کی ایمانداری کا ایک واقعہ اچانک یاد آگیا۔
ارہر بڑھیا میرے گھر میں بھی چھوٹے موٹے سودے سلف لے آیا کرتی تھی۔ گھر کے اوپر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹادیا کرتی تھی۔ ایک بار رات کے گیارہ بجے وہ اندھیرے میں جنگل کی کچی زمین بلکہ اونچی نیچی زمین پر پاؤں جماتے ہوئے ہمارے گھر چلی آئی۔ رات تیز بارش ہورہی تھی۔ ڈاکٹرنی! ڈاکٹرنی! سب لوگ جاگے ہیں یا سوگئے؟ وہ میری امّی کے دکھ تکلیف اور بیماری میں بڑی خدمت کیا کرتی تھی۔ امّی نے دروازہ کھولا اور گھر کیے اندر بلالیا۔ کہنے لگی ۔
’’ میں شام میں ڈیری سے دودھ لانے گئی تھی۔ ساڑھے گیارہ روپے کا دودھ ہوا اور باقی اٹھنّی میں نے اپنی کمر میں اڑوس رکھی تھی ۔ ‘ ‘وہ ہمیشہ ساری پہنا کرتی تھی، کہنے لگی:
’’رات بستر پر لیٹی تو کروٹ بدلتے ہی اٹھنّی گڑی، میں نے سوچا آخر کیا ہے؟ جو مجھے یوں چبھ رہا ہے، ہاتھ سے چھوا تو محسوس ہوا کہ کوئی سخت سی چیز ہے، پھر معلوم ہوا کہ سکہ ہے۔ کچھ دیر تک دماغ پر زور دینے کے بعد مجھے خیال آیاکہ یہ تو ڈاکٹرنی کی اٹھنّی ہے اور میں سوچنے لگی۔ ڈاکٹرنی کیا سوچیں گی کہ دیکھوپچاس پیسے کے لیے خالہ نے مجھ سے بتایاتک نہیں اور اٹھنّی چھپاکر رکھ لی۔ اگر خالہ مجھ سے مانگ لیتی تو کیا میں انھیں نہیں دے دیتی۔ اس خیال کے آتے ہی میں بے چین ہوگئی۔ پہلے تو دل کو سمجھایا کہ صبح ہونے پر دے آؤں گی لیکن دل نہیں مانا، آنکھوں سے نیند اڑگئی مجھے لگا جیسے میراضمیر اس کا بوجھ نہیں اٹھا پائے گا۔ قیامت کے دن اللہ کو کیا منھ دکھاؤں گی۔اس نے اٹھنّی میری امّی کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔
’’لالٹین کی بتّی بڑھائی تو اندھیرے میں میری ہتھیلی پر اٹھنّی چمک رہی تھی۔‘‘
بات آئی گئی ہوگئی۔
میری امّی بارہا ذکر کیا کرتی تھیں۔
’’دیکھو کیسی ایماندار بڑھیا ہے۔ لوگ اسے کانی کہا کرتے ہیں۔ کوئی اس کے بیٹے کو چور بتاتا ہے۔ مگر مجھے تو یہ ایماندار معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘
بیوہ تھی۔ اس لیے فطرہ اور زکوۃ کے پیسے ہم لوگ اسے ہی دے دیا کرتے تھے۔ ضرورت پڑنے پر گھر میں اوپر کے کام کاج بھی کردیا کرتی تھی۔ روٹی کھانے اور پرانے کپڑے ہم اس کے پوتوں کے لیے دے دیا کرتے تھے۔
وقت تیزی سے اپنا چکّر پورا کرتا رہا۔۔۔
میں دلّی آگیا۔ یہاں میں ایک سنٹرل یونیورسٹی میں لیکچرر ہوگیا۔ اس عرصے میں میری امّی کا انتقال ہوگیا۔ کوئی دس سال کے بعد جب میں جمشید پور گیا تو میں نے دیکھاکہ دوپہر کے وقت لوگ ارہر بڑھیا کے گھر کوچاروں اطراف سے حصار میں لیے کھڑے تھے۔ ایک اوجھا بیٹھا وہاں کچھ جھاڑ پھونک کررہا تھا۔ میں نے زیادہ دھیان نہیں دیا اور آگے بڑھ گیا۔ مجھ سے ڈرائیور نے کہا ’’صاحب! کوئی مداری والا ہے، کھیل دکھارہا ہوگا۔‘‘ میں نے بھی سن کر بس ہاں، ہوں کردیا۔
گھر میں سبھوں کے حال چال دریافت کیے جاتے رہے۔ سبھوں نے ایک ساتھ مل کر کھاناکھایا۔ پھر جب شام ہوئی تو میں گھر سے باہر نکلا۔ وہاں پکی سیاہ سڑک پر ہمارا چتکبرہ پڑوسی نبی رسول کھڑا ہوا دور سے کسی برص کے بدنما داغ کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ گال پچک چکے تھے۔ ہڈیاں ابھر آئی تھیں۔ بال بری طرح سفید مٹیالیے ہورہے تھے۔ یہ اتنا حاسد واقع ہواتھاکہ جسم پر اس کے کبھی ایک بوٹی گوشت نہیں چڑھتا تھا۔ ہر وقت دوسروں کی ٹوہ اور عیب جوئی میں لگارہتا تھا۔ خود کی بہو کسی کے خالی گھر میں کسی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی جائے تو کوئی بات نہیں لیکن مُحلّے میں کسی کی بہو بیٹی نے رکشہ پر جاتے ہوئے برقعہ الٹ کر دیکھ بھی لیا تو وہ اس شخص کی حاملہ ٹھہرادی جاتی تھی۔ اس کی پوری چھان بین کرنا ،اس کی تضحیک کرنا وہ اپنا پیدائشی حق سمجھتاتھا۔ مجھ سے علیک سلیک کے بعد کہنے لگا۔
’’ڈاکٹر صاحب! آج کل ارہر بڑھیا ڈائن ہوگئی ہے۔‘‘
میرا ماتھا ٹھنکا یہ ضروراس کی کوئی نئی سازش ہوگی۔ مجھے یاد ہے پہلے کبھی یہ کسی سے بات نہیں کرتا تھا۔ ہونہ ہو یہ ٹنٹا اسی نے کھڑا کیا ہوگا۔ میں نے حیرت کا مصنوعی اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا۔
’’ ایسی کون سی آفت آگئی، اس کی وجہ سے، اوّل تو وہ ڈائن ہوہی نہیں سکتی۔ اس کے گھر میں تین تین پوتے پوتیاں ہوئیں اور اس کی گود میں پل کر سبھی بڑے ہوئے۔ ارہر بڑھیا ڈائن ہوتی تو انھیں چھوڑتی؟ ‘‘نبی رسول کہنے لگا۔
’’ علاء الدین کی بیٹی مری ہوئی پیدا ہوئی یا شاید پیدا ہوتے ہی مرگئی۔‘‘ اس نے عجلت میں اپنے منھ سے نکلے فقرے کو درست کیا۔’’ کیونکہ اس کی پیدائش سے ایک دن پہلے اس نے علاء الدین کی بیوی کا پیٹ دیکھ لیا تھا۔‘‘
میں نے عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔’’ اب لوگ باگ کیا کہہ رہے ہیں؟ اس کا کیاکرنا ہے؟‘‘
’’کرنا کیا ہے! تڑی پار کردی جائے گی۔ اب اس محلے میں تو اسے کوئی ٹکنے نہیں دے گا، ‘‘نبی رسول نے ہتھیلی پر کھینی کچھ زیادہ ہی زور سے ملتے ہوئے کہا۔
میں خاموش رہا، وہ مجھے متجسس سمجھ کر دوبارہ گویا ہوا۔’’ ہم نے ایک سماج سدھار کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ لوگوں نے مجھے اس کا صدر بنایا ہے۔ لیکن جیسے ہی میں صدر بنا اتفاق دیکھیے کہ اس کے دوسرے ہی دن علاء الدین کے گھر کے زیورات چوری ہوگئے۔ پچاس ہزار کے زیورات تھے۔وہ بہت پریشان ہوا۔ کمیٹی سے درخواست کی۔ درخواست پر غور کرنے کے بعد کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ارہر بڑھیا کا بیٹا چور ہے۔ آج کل چونکہ باہر ہاتھ مارنے کا اسے موقع نہیں ملتاہے اورشریر سے بھی کمزور ہوچکا ہے۔ اس لیے گانجے چرس کے لیے اس نے محلے میں ہی چوری کرنا شروع کردی ہوگی، ‘‘کہتے کہتے اس نے کھینی کی ایک چٹکی منھ میں دبائی اور تھوک کی پچکاری چھوڑتے ہوئے لنگی جانگھوں کے بیچ سمیٹ کر بولا۔
’’ڈاکٹر صاحب! آپ کو یقین نہیں آئے گا۔ کمیٹی نے جب محلے والوں کے سامنے اس کے گھر کی تلاشی لی تو ارہر بڑھیا کے کپڑوں میں لپٹے ہوئے زیوارت اس کے بکسہ کے اندر سے نکلے۔ پھرکیا تھا، پولیس آئی اور ماں بیٹے کو تھانے لے گئی۔وہاں اس کے بڑھاپے کا خیال کرکے اسے تو چھوڑدیا لیکن نظام چونکہ عادی مجرم ثابت ہوا ،اس لیے اسے ساڑے تین سال کی سزا ہوگئی۔‘‘
مجھے واقعی یقین نہیں ہوا۔ میں وہاں سے کسی بہانے سے ہٹ گیا۔
اس واقعے کے علل و اسباب پر میں دیر تک بیٹھا غور کررہاتھا۔ ایک ایک کرکے واقعات کی کڑیاں ملاتا رہا۔ در اصل، علاء الدین اس محلے کا نامی غنڈہ تھا۔ بلرام پور، پرولیہ میں کسی سنگین جرم کے ارتکاب میں ملوث تھا اور اسے مغربی بنگال کی پولیس ڈھونڈ رہی تھی۔وہ قانون کا فرار مجرم تھا۔ یہاں اسے نبی رسول نے شروع شروع میں سہارا دیا تھا۔ دونوں کو باہم دیگر سہارے کی ضرورت تھی۔ اس کی قوت بازو اور اس کے شاطر دماغ نے پورے محلے بھر میں لوگوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس زمانے میں ارہر بڑھیا پہلی عورت تھی جس نے پورے محلے کے سامنے نبی رسول کو خوب دل کھول کے جلی کٹی سنائی تھی۔
یہ جس قدر بے ایمان تھا ،اتنے ہی پر تقدس نام اپنے بچوں کے رکھے ہوئے تھا۔ اوّل تو بیوی چھوٹاناگپور کی آدی باسی تھی۔ اسے کلمہ پڑھواکر اس نے جنت خاتون کے نام سے شادی کرلی تھی۔ شادی کے عوض اسے جھارکھنڈ کے ایک گاؤں میں گھر اور زمین کی ملکیت مل گئی تھی۔ دوسرے اس نے بچوں کے نام عیسیٰ اور موسیٰ رکھے ہوئے تھے۔ سناہے ، دُنیا کے سارے برے لوگ اپنے سارے برے دھندے اچھے ناموں کی آڑ میں ہی کیا کرتے ہیں۔ اس کا خود کا بھی کیا مبارک نام تھا، نبی رسول! ۔اس کا تیسرا بیٹا جب پیدا ہوا اور اس کا نام اس نے خالق رکھا تو ہم سبھی بھائی بہن اپنے اس نئے پڑوسی پر ان دنوں خوب ہنسا کرتے تھے۔ یہ خود تو نبی رسول ہے شادی کرتے ہی جنت اس کے گھر میں آگئی،۔عیسیٰ اور موسیٰ بھی اس کے ساتھ ہیں،۔ایک کمی رہ گئی تھی خد ا کی تو اس خالق نام کے ساتھ اس نے وہ بھی پوری کرلی۔ اب بچاہی کیا ہے؟ جو اُسے گناہوں سے روکے۔ وہ دل کا کالا آدمی تھا۔ وہ بتولن کے ارہر کے کھیت ہڑپنا چاہتاتھا۔ یہ تب کی بات ہے جب نبی رسول نے اس محلے میں مکان نہیں بنایا تھا اور بتولن نے اپنے کھیت میں ارہر نہیں بوئے تھے۔ بتولن بعد میں ارہر بڑھیا کے نام سے مشہور ہوئی ۔ جب اس نے پورے محلے کے سامنے اس کی سازش کو بے نقاب کرکے اس کی عزت سر عام نیلام کردی تھی۔
کتا اپنا زخم اس وقت تک چاٹتا رہتا ہے۔ اس کا زخم اس وقت تک مندمل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنا بدلانہ لے لے۔ ویسے بھی بدلہ لینے والے کازخم ہمیشہ ہرا رہتا ہے۔ اوپر سے طرہ یہ کہ نبی رسول اوّل درجے کا کینہ توش آدمی تھا۔ میں نے سوچا۔
نبی رسول نے ارہر بڑھیا کے کمزور اور بیمار پڑتے ہی سازش رچ دی ہوگئی اور اس کے بیٹے نظام کو ساڑے تین سال کی سزائے قید کروادی ہوگی۔
پہلے یہ میرا خیال تھا۔ آپ اسے گمان کہہ لیجیے۔ لیکن بعد میں چند ایک معتبر لوگوں سے اس بات کی تصدیق بھی ہوگئی۔ اب سوال یہ تھا کہ ارہر بڑھیا اچانک ڈائن کیسے ہوگئی۔ میری بے چینی بڑھتی جارہی تھی۔ میں نے اپنے شام کے کپڑے تبدیل کئے۔ سگریٹ سلگائی اور پینٹ کی جیب میں ایک ہاتھ ڈالے، ارہر بڑھیا کے گھر کے سامنے لگے مجمعے کی طرف نکل پڑا۔ سڑک پر چلتے ہوئے میں نے محسوس کیا۔
آج سے دس سال پہلے یہ علاقہ کس قدر ہرا بھرا ہوا کرتاتھا۔ کچی پگڈنڈیوں پر چل کے ہم یہاں تک آیاکرتے تھے۔ دور دورپر سرخ کھپریل کے اِکا دُکا مکان ہی نظر آتے تھے۔ رات برات کوئی مسافر آندھی پانی میں رستہ بھٹک کر پھنس جاتاتو ہم اسے لالٹین کی روشنی میں ہاتھ میں ڈنڈا لیے، دور تک بحفاظت چھوڑ کر آیاکرتے تھے۔ آج کیسی گھنی آبادی ہوگئی ہے۔ یہاں چاروں طرف جدھر دیکھیے کنکریٹ کے اونچے اونچے پختہ مکان بن چکے ہیں۔ زمین کی قیمت ہے کہ آسمان چھورہی ہے۔ سامنے دلمہ پہاڑ کا خوبصورت نظارہ مکانوں کی کھڑیوں اور دروازوں نے کھالیے ہیں۔ اونچی اونچی دیواروں کے بیچ یوکلپٹس کے درخت نہ جانے کہاں گم ہوچکے ہیں۔ آس پاس کے علاقوں میں کیسے کیسے پٹرول پمپ، بس اڈے، سنیما گھر ا ورشاپنگ مال کھل گئے ہیں۔
اچانک میرے ذہن میں خیال آیا۔ نبی رسول اور علاء الدین جو ، اب ایک دوسرے کے سمدھی بن چکے ہیں دونوں مل کر ارہر بڑھیا کاکہیں مکان تو ہڑپنا نہیں چاہتے ہیں؟ اس کا بیٹا نظام الدین جیل میں ہے اور بڑھیا کی عمر طویل ہی ہوتی جارہی ہے۔ اس کی عمر اسی سال ہونے کو آئی اور وہ اب بھی زندہ اور آئندہ بھی دس برسوں تک کوئی اس کا بال بیکا نہیں کرسکتاتھا۔ ہاں! کمر اس کی مزید خمیدہ ہوچکی تھی۔ چہرے پر بے شمار ننھی ننھی منحنی سی جھریوں کا جال بن چکاتھا۔ جیسے زر خیز زمین پر سوکھے کی متواتر مار جھیلنے کی وجہ سے دراڑیں پڑگئی ہوں۔ لیکن بتیسی اب تک اپنی جگہ پر ویسے ہی صحیح سلامت تھی۔ شاید یہ مسی کا کمال تھا۔
مجمع میں بڑے چھوٹے، بوڑھے بچے، جوان عورت مرد سبھی ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ان سبھوں کے چہرے پرخوف اور ہیبت کی دبیر پر چھائیں موجود تھی۔ ایک کالا بھو جنگ ہڈی چمڑے کا ڈھانچہ نما آدمی سر پر بالوں کا ایسا جٹادار جوڑا کیے بیٹھا تھاکہ اس کے آگے بھگوان شنکر کی جٹا بھی پھیکی پڑ جائے۔ خونی لال رنگ کی اچکن اور تہمد باندھے اپنا گورکھ دھندا لیے بیٹھا تھا۔ گلے میں تلسی اور رودراکش کی کنٹھ مالا پڑی ہوئی تھی۔ سامنے مردے کی کھوپڑی پر لال سندور، ایک مرغا، شراب کی بوتل، اصلی گھی کا ڈبہ اور اڑہل کے چند لال پھول پڑے ہوئے تھے۔ لوگ باگ کھسر پھسر کررہے تھے۔ ان کے کچھ فقرے میرے کانوں میں بھی پڑ رہے تھے:
’’بہت بڑا تانترک ہے۔‘‘
’’ضرور شیومت کا ماننے والا ہوگا‘‘۔
’’باربار جے بھوانی! جے بھوانی اور کالی کلکتے والی بولتا رہتا ہے۔‘‘
’’پر شراب تو بھیروں پیتے ہیں؟‘‘
’’ارے ڈائن کا بدھ کرنے کے لیے تو بھیروں بننا ہی پڑتا ہے۔‘‘
’’ڈائن اور چڑیلیں اتنی آسانی سے کہاں قابو دیتی ہیں۔‘‘
غرض یہ کہ جتنے منھ اتنی بات ہورہی تھی۔ سنتے سنتے مجھ سے رہانہ گیا۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ اس تانترک سے مجمع میں بڑھ کر پوچھا:
’’ہاں بھئی مہاراج جی! یہ سب کیا ہے؟‘‘
اس نے پہلے تو اپنی سرخ غصیلی آنکھوں سے مجھے گھور کر دیکھا، پھر بولا۔
’’اس گھر میں ایک ڈائن رہتی ہے۔ اس نے علاء الدین جیسے سجن ویئکتی کے نوجات ششو کا پیدا ہوتے ہی کلیجہ کھالیا ہے۔ اب اس سبھا میں وہ ننگی ناچتی ہوئی آئے گی اور ہم اس کا ڈائن چھڑادیں گے۔ آپ بھی دیکھنا، وہیں ہاتھ باندھے کھڑے رہو۔‘‘
’’تمہیں کیسے پتہ چلا کہ ارہر بڑھیا نے ہی اس کا بچہ کھایا ہے اور یہ کہ وہ ڈائن ہے؟ ‘‘
یہ سن کر اس نے سامنے پڑے گانجے کی چلم سے دوچار لمبی لمبی کش کھینچی پھر کچھ سوچنے کے بعد ترنگ میں آکر بولا:
’’کل رات بارہ بجے میں شمشان گھاٹ میں ایک مردے کے آسن پر بیٹھا تھا۔ وہاں ماں کالی پرکٹ ہوئی اور وہ بولی ارہر بڑھیا نے ہی نوجات ششو کاکلیجہ کھایا ہے۔‘‘
اس عیار کی ایسی ڈھونگ بھری حرکتیں معاً میرے لیے ناقابل برداشت ہوگئیں۔ پہلے تو خاموش کرنے کی غرض سے آگے بڑھا مگر لگا وہ مجھے بندر گڑکیاں دینے۔
’’خبردار! آگے مت آنا‘‘، کہہ کے پہلے تووہ لنگور کی طرح خوب بلیوں اچھلنے لگا پھر بڑے ڈرامائی انداز سے کچھ پھوں پھاں کرکے ہاتھ پیر چلائے اور جے ماں کلکتے والی کی کریہہ اور ڈراؤنی آواز نکالی اور بولا۔
’’بھشم ہوجائے گا تو اگر اور ایک قدم بھی آگے بڑھا تو، اس سادھو کے شراپ سے خون تھوکنے لگے گا تو۔‘‘
اتنا سننا تھاکہ میں نے فی الفور اسے گریبان سے پکڑکے اس کی مشکیں کسی اور کہنی کاجودباکر ایک زبردست ٹہوکا دیا تو اوندھے منھ زمین پر جاکر بھڑام سے گرا اور وہاں پڑا دھول چاٹنے لگا۔ منٹوں میں اس کے دونوں ہونٹ پھول کے ملغوبہ ہوگئے۔ اس کے بعد اسے رام کرنے میں مجھے چنداں دیر نہ لگی۔آن کے آن میں اس کا سارانشہ ہرن ہوچکا تھا۔ وہ ایسا خوف زدہ ہوا کہ سیدھے میرے پاؤں پر آ کے گرگیا۔
یہ دیکھناتھا کہ مجمع میں کہرام مچ گیا۔
’’مارو مارو،۔۔۔ بچاؤ بچاؤ،۔۔۔ اور مارو ،۔۔۔ مت مارو،۔۔۔ چھوڑ دو چھوڑ دو،۔۔۔‘‘ کاشور برپا ہوگیا۔
اتنے میں علاء الدین اور نبی رسول بھی وہاں آگئے۔ یہ اب تک دور کھڑے نظارہ دیکھ رہے تھے۔
’’اجی! ڈاکٹر صاحب، آپ کیوں ہاتھ گندہ کرتے ہیں۔ چھوڑدیجیے اسے ابھی کمیٹی کے ممبران پولیس کے حوالے کردیں گے۔‘‘ مجمع میں سے ایک اونچی آواز ابھری۔
’’ پولیس کچھ نہیں کرے گی۔ مارو اس پاکھنڈی کو بچ کے جانے نہ پائے۔‘‘
دونوں سمدھی میری گرفت سے اس کا گریبان چھڑانے کی حتی المقدور کوشش کرنے لگے۔
’’ارے صاحب! آپ سمجھتے نہیں ہیں؟۔۔۔ جمشید پور کتنا حساس علاقہ ہے۔ ہندومسلم دنگا بھڑکتے دیر نہیں لگے گی۔ ‘‘میں نے علاء الدین کو تیز نظروں سے گھورتے ہوئے کہا۔
’’ یہ جو چرکی داڑھی ہے تمہاری، اس کے رکھ لینے سے تم شریف نہیں ہوگئے ہو۔ میں تمہاری ہسٹری جانتا ہوں۔ سب سے پہلے تم جاؤگے جیل میں اگر فساد بھڑکا تو، یادرکھنا میں تمہیں چھوڑوں گانہیں!‘‘میں نے غصے سے کہا۔
’’آج میں اتناماروں گا اسے کہ زندگی بھر یہ کسی کے ساتھ دھوکا دھڑی نہیں کرے گا۔ ‘‘یہ سن کر دونوں سمدھی تو ایک طرف کو کھسک گئے اور اس اوجھانے مرتے ہوئے چوہے کی طرح آنکھ اٹھاکر اوپر دیکھا اور ڈر سے سہم گیا۔
’’ اسے صرف ایک شرط پر معاف کرسکتا ہوں۔ ‘‘میں نے مجمع کی طرف دیکھا اور انہیں حق بجانب محسوس کرتے ہوئے کہا۔
’’ اگر یہ سبھوں کے سامنے اپنا گناہ قبول کرلے اور بتادے کہ اس گورکھ دھندے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے اور ارہر بڑھیا جیسی شریف اور ایماندار عورت کو کس نے ڈائن قرار دینے کو کہا تھا؟‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں آئیں۔
’’ ہاں! ہاں! اسے بتانا ہوگا۔‘‘
کسی نے آگے آکر کہا۔’’ او بے پاکھنڈی بتادے ورنہ پبلک پیٹ پیٹ کر تجھے جان سے مار ڈالے گی۔‘‘
اس نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی اور پانسہ پلٹتا ہوا دیکھ کر پہلے تو اس نے باری باری علاء الدین اور نبی رسول کی طرف دیکھا جوہاتھ باندھے خاموشی سے دم بخود کھڑے تھے۔ پھر ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ بولا۔
’’صاحب جی! یہی وہ لوگ ہیں۔ جنھوں نے دولت کا لالچ دے کر یہ کہانی گڑھنے کو کہا تھا۔ میں کسی آسن واسن پر نہیں بیٹھا تھا۔ ارہر بڑھیا کو میں جانتابھی نہیں۔ یہ مائی بے قصور ہے۔ اصل میں، میں فقیر آدمی ہوں ،دولت کے لالچ نے مجھے اندھا کردیا تھا۔ ‘‘
اتنا سننا تھاکہ کہمجمع کا رخ بدل گیا اور لوگ جوتے چپلوں سے دونوں سمدھیوں پر نشانہ سادھنے لگے۔ محلے کے سارے مظلوم لوگ اپنا حساب چکتا کرنے میں لگ گئے
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی بوڑھی اور بیوہ عورتوں کو جو ایسے لوگوں کی باتوں میں نہیں آتی ہیں، انہیں اس نوع کے سماج کے معدودے چند ریا کار اور دھوکے باز لوگ اپنے نجی مفاد کے حصول کے لیے ڈائن قرار دے دیتے ہیں۔ ارہر بڑھیا بھی اسی قسم کی سازش کا شکار ہوتی ہوتی بچی تھی۔ کیوں کہ اس کے مکان اور پلاٹ کی قیمت اب بیس لاکھ لگائی جارہی تھی۔ میں ان باتوں پر غور کرتے کرتے بستر پر لیٹ گیا اور کب آنکھ لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا۔
جب آدھی رات بیت گئی تو اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے دیکھا:
ارہر بڑھیا دروازے پر بیٹھی زاروقطار رورہی تھی۔
’’بیٹا! تونے آج آکر اس بڑھیا کی لاج بچالی۔ اللہ نے تجھے میری جان کی حفاظت کے لیے فرشتہ بناکر بھیجا ہے۔‘‘
تھوڑے توقف کے بعد وہ دوبارہ گویاہوئی۔
’’ میری باتوں کا اب یہاں کوئی یقین نہیں کرتاہے۔ میرے باپ چچا نے دھنباد کی کوئلیری میں ضرور کوئی نیکی کی ہوگی، ورنہ ۔۔۔ اس نبی رسول نے پہلے میرے بیٹے کو جیل بھجوادیا۔ پھر میری بہو کو دھمکا دھمکا کر اتنا ورغلایا کہ وہ مجھے یہاں اکیلا چھوڑ کر بچوں کے ساتھ اپنے مائیکے چلی گئی۔‘‘وہ کہتے کہتے پھر رونے لگی۔
’’ اتنا دکھ جھیلنے کے بعد بھی میں زندہ ہوں۔ ‘‘
میں نے ارہر بڑھیا کو دونوں بازوؤں سے پکڑ کر اوپر اٹھایااور اپنے کندھے کے سہارے ایستادہ کرکے اس کی چوندھیائی ہوئی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پوچھنے لگا۔معاً مجھے محسوس ہوا۔
پہاڑ سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے لاتے ارہر بڑھیا کا جسم بھی کاٹھ کا ہوگیا تھا۔ شال کی چھال کی طرح اس کے بدن ہاتھ کی جلدیں بھی کھردری ہوچکی تھیں۔
’’نانی تم گھبراؤ مت۔ تمہار ا کوئی ایک بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ میں ہوں نا!‘‘
اتنا کہتے کہتے میرا گلا ایک دم رندھ گیا۔ کچھ دیر بعد خود پر قابو پاتے ہوئے میں نے دریافت کیا۔
’’ نانی! ایک مشورہ دوں آپ کو؟ ‘‘
وہ سراپا سوالیہ نشان بنی خالی خالی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔
’’آپ یہ مکان بیچ کیوں نہیں دیتیں؟ بیس بائیس لاکھ روپے مل جائیں گے۔ ان بہت سارے روپوں کو لے کر آپ اپنے باپ چچا کے پاس دھنباد چلی جائیے۔‘‘
’’نہ بیٹا ناں! یہ مجھ سے نہ ہوگا۔ اب وہاں کون بیٹھا ہے رانڈی کو پہچاننے والا؟ باپ چچا سب مرکھپ گئے۔ اب اس بوجھ کو کون ڈھوئے گا؟ جب اپنا جنا ہوا بیٹا ہی نہیں ڈھورہا ہے، یہاں۔‘‘
’’نانی وہ کہاوت سنی ہے ناآپ نے۔’ جس کے ہاتھ میں ڈوئی اس کا ہر کوئی۔‘ جب پاس میں پیسے ہوں گے تو سبھی آپ کے آگے پیچھے دوڑیں گے۔ سارے روپے کسی کو دینے کے بجائے بینک میں جمع کرادیجیے گا۔‘‘
’’مکان ہے تب تو یہ حال ہے۔‘‘ارہر بڑھیا نے قدرے تاسف سے کہا۔
’’ جب بینک میں روپے ہوں گے تو اور تو کوئی نہیں بہو کے کہنے میں آکر بیٹا ہی اپنے ہاتھوں سے بڑھیا کا گلا دبادے گا اور کورے کاغذ پر انگوٹھا لگوالے گا۔‘‘ وہ کچھ دیر تک سوچنے کے بعد ٹھنڈی آہ بھر کر بولی، گو وہ بہت تھگ گئی ہو اور افکار کی دنیا میں بہت دور تک سفر کرکے واپس آئی ہو۔
’’اپنے جیتے جی میں کسی کو اس مکان میں ہاتھ لگانے نہ دوں گی۔‘‘
میں نے کہا۔’’ یہ ہوئی نہ ہمت والی بات! اب کوئی بھی آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا، حوصلہ رکھیے۔ یہی حوصلہ ایک دن دشمنوں کے دانت کھٹے کردے گا۔‘‘
اصل میں اس کا پختہ یقین تھا کہ اس کا بیٹا بے قصور ہے اور وہ چھٹ کر ایک دن ضرور آئے گا۔
موسم گرما کی تعطیل گزار کر میں دلّی جانے کی تیاری میں مصروف ہوگیا۔ دوسرے دن صبح مجھے راجدھانی ایکسپریس سے دلّی روانہ ہونا تھا۔ ٹھیک شام کے وقت ارہر بڑھیا لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی ہمارے یہاں چلی آرہی تھی۔ آج تو اس کی چال میں غیر معمولی تیزی نظر آرہی تھی۔
’’بیٹا! نظام الدین چھٹ کر آگیا۔‘‘
وہ بچوں کی طرح اٹھلارہی تھی،’’ میں نہ کہتی تھی ، نظام بے قصور ہے وہ ضرور آئے گا۔‘‘
جب ارہر بڑھیا نے یہ جملے اپنے منھ سے ادا کیے تو مجھے ایسا لگا جیسے تھوڑے فرق کے ساتھ مونالیزا اپنی صدیوں پرانی تصویر سے نکل کر سامنے آگئی ہو،اور وہ فرق صرف ا تنا سا تھا کہ چہرے پر جھریوں کا جال سا بچھ گیا تھا مگر اس کے ہونٹوں پہ کھلی ہوئی مسکان اب بھی اس کے دل کی مسرور کن کیفیت کی غمازی کررہی تھی۔
ارہر بڑھیا نے بتایا کہ کس طرح اس کے بیٹے کو رہائی نصیب ہوئی۔
در اصل، کچھ دنوں پہلے ایک نوجوان عاشق جو نیم پاگل معلوم ہوتا تھا۔ اچانک اس نے جیل کے داروغہ کی پستول پر جھپٹ کر قابض ہوگیا تھا اور اسے گولی مارنے کے بعد زخمی حالت میں چھوڑ کے جیل سے فرار ہوجانا چاہتاتھاکہ دفعتاً نظام الدین نے بڑی غیر معمولی سرعت کے ساتھ اسے جکڑ کر قابو میں کرلیا اور اس کے ہاتھ سے پستول چھین لی تھی۔ اس طرح، داروغ�ۂ جیل کی جان بچالی تھی۔ جیلر صاحب نے اس کی ایمانداری اور بہادری کے عوض اس کی سزا ختم کروادی اور اسے جیل سے جلدی رہاکردیا گیا تھا۔
’’اب تو آپ خوش ہیں نا، نانی؟ آپ کا بیٹا گھر آگیا ہے۔‘‘
میں نے اسے بتایاکہ کل سویرے والی گاڑی سے میں دلّی چلا جاؤں گا۔ اسے ہمت سے کام لینا چاہیے اور یہ کہ انسان کو کبھی حوصلہ نہیں ہارنا چاہیے۔ چلتے وقت میں نے اسے کہا۔
’’ اچھا نانی، الوداع!‘‘
دوسرے دن سورج کی کی پہلی کرن کے ساتھ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ میں سوٹ کیس ہاتھ میں لے کر باہر نکلا تو کسی نے خبر دی۔
ارہر بڑھیا مرگئی۔
یہ سنتے ہی میرے ہاتھ سے سوٹ کیس چھوٹ کر زمین پر گرگیا۔
میں انتہائی مغموم دل کے ساتھ وہاں پہنچا تودیکھا کہ ارہر بڑھیا بستر مرگ پرسوئی ہوئی تھی۔ چہرے پر ابدی سکون جیسے دنیا کا سارا کام نمٹانے کے بعد کوئی سورہا ہو۔ منھ کا دہانہ کھلاہوا تھا۔ ارہر بڑھیا کے جبڑوں میں مسی لگے اس کے اپنے بتیس کے بتیس اصلی دانت ٹھیک ویسے ہی چمک رہے تھے، جیسے وطن کی حفاظت کی خاطر جنگ میں شہید ہونے والے کسی میجر جنرل کے سینے پر براس کے چمکتے ہوئے تمغے اپنی فتحمندی کے گیت سنارہے ہوتے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.