’’ارجن کیا کرتے ہیں؟‘‘
’’وہ بی۔ ڈی۔او۔ ہیں۔ پاس کے ضلع کے ایک بلاک میں۔‘‘
’’اوہ، تب تو آمدنی اچھی خاصی ہوگی۔ پھر یہ مکان، اتنا خستہ حالت میں کیوں پڑاہے؟‘‘
’’آمدنی، تنخواہ کی صورت میں جو ہے سو ہوتی ہے، لیکن ارجن بالائی آمدنی کو حرام سمجھتا ہے، ایماندار آفیسر ہے، ایماندار۔‘‘
’’ایماندار آفیسر ہے؟ واہ بھئی واہ۔ شاید آپ کا ارجن راہ بھٹک کر اس کلجگ میں آ گیا ہے۔ نا، نا، ہمیں اپنی لڑکی کی زندگی برباد نہیں کرنی۔ اس کی ایمانداری تو بیوی بچوں کو بھوکا مار دےگی۔‘‘
لیکن شادی نہ ٹلی اور ایک غیرایماندارانہ آدرش رکھنے والے باپ کی بیٹی ایک ایماندار اور آدرش وادی آدمی کے ساتھ منسلک ہو گئی۔
اولڈ سکریٹریٹ کے سربلند ٹاور کی گھڑی ٹریفک کے سپاہی کی طرح اپنے دونوں ہاتھوں سے اب تک ملازمین کے آنے اور جانے کا اشارہ کر رہی تھی۔ لیکن سالہاسال سے وقت بتانے والے واچ ٹاور کو بدلتے ہوئے وقت کاشاید کوئی اندازہ نہ تھا۔
اولڈ سکریٹریٹ کے ایک لمبے سے کاری ڈور میں پچھلے ڈھائی ماہ سے ارجن آتے جاتے اور اکثر گھنٹوں کھڑے کھڑے، اپنے سارے جسم کا بوجھ داہنے پاؤں سے بائیں پاؤں اور بائیں پاؤں سے داہنے پاؤں پر ڈالتے ہوئے کسی چمتکار اور اوتار کا منتظر تھا۔!
ڈھائی مہینے کے بعدایک دن جب وہ اپنے بوجھل قدموں سے اولڈ سکریٹریٹ کی تیسری منزل سے نیچے کی طرف جانے والی سیڑھیوں سے اتر رہا تھا تو اسے ایک چمتکار ہوتا سامعلوم پڑا تھا اور آج اس کے گھر کے دروازے پر لالاسکھی چند ٹھیک اسی طرح کھڑا تھا، جس طرح بنسی دھر کے دروازے پرپنڈت الوپ دین مختار نامہ لے کر وارد ہوا تھا۔
اگرچہ اوتار کی صورت میں آنے والا سکھی چنداس کے ہاتھوں میں کاغذ کا ایک ٹکڑا پکڑاکر جا چکا تھا۔ لیکن ارجن کی آنکھوں میں ستارے ٹمٹما رہے تھے، جیسے لاکھوں چراغ روشن ہو گئے ہوں، تاہم اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بڑے زورکی آندھی اٹھ رہی ہو اور جھکڑ چل رہے ہوں اور تندوتیز اور بلاخیز تھپیڑے انہیں گل کر دینے کے درپے ہوں۔ اس کا من چاہ رہا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ مگر وہ اپنی آنکھوں کے بھرے پیالوں کو چھلکنے سے روکے ہوئے تھا۔ اس نے اپنے آپ مسکرانے کی کوشش کی۔ اور زور زور سے کھانسنے لگا، جیسے حلق میں اٹکی ہوئی کسی شے کو نکال دینا چاہتا ہو۔ اچانک اسے اپنادم گھٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اسے لگا وہ ایک شکست خوردہ اور بےحد کمزور آدمی ہے۔ غصہ، نفرت اور انتقام کے جذبے سے بےبس ہوکر رہ گیا تھا۔ اسے اپنے آپ سے ندامت سی محسوس ہوئی ۔اس کے اعضا ڈھیلے پڑ گئے۔ اس نے ایک سرد آہ بھری اور سوچا۔
آہ، یہ کیا ہو گیا۔ کاش یہ نہ ہوا ہوتا۔
میں بدل گیا۔ ڈھائی ماہ کی مدت نے مجھے بدل دیا:
شاید ارجن مر گیا۔
یہ میں نہیں ہوں، یہ کوئی اور ہی ہے۔ کیا میں اب بھی لوگوں سے آنکھیں ملا سکتا ہوں:
شاید نہیں۔
سنگ ریزوں کی دنیا میں، وہ بے بہاموتی، بے آب ہو گیا، جسے پنڈت آلوپ دین نے پاکر اس کے لیے دعا کی تھی کہ پرماتما آپ کو سدا وہی ندی کے کنارے والا بے مروت، سخت زبان، تند مزاج لیکن فرض شناس داروغہ بنائے رکھے۔
نمک کے داروغہ کا قصہ اس نے اپنے بچپن میں پڑھا تھا اور اس درجہ متاثر ہوا کہ ندی کے کنارے والا بےمروت، سخت زبان اور تند مزاج لیکن فرض شناس داروغہ اس کے اندر اس طرح رچ بس گیا کہ بچپن سے جوانی تک ہر مرحلے میں اس کے ساتھ رہا، حالانکہ اس کا یہ عمل زندگی میں اکثر، اس کے لیے خفت اور عارضی، پشیمانی کاسبب بھی بنا۔ لیکن بچپن میں بننے والی غیرواضح صورت بتدریج پائیدار، پختہ اور نمایاں ہونے لگی۔
ارجن دنیا اور دنیا کے لوگوں کو حرص وطمع کے مایا جال سے نکال کر سچی اور کھری دنیا میں پرویش کرنے کی ترغیب دینے کا خواب دیکھا کرتا تھا۔ لہٰذا دھیرے دھیرے وہ موجودہ دنیا سے کٹتا چلا گیا اور ایک اجنبی کی طرح تنہا اور اکیلا رہ کر دکھوں سے مکتی کی پرارتھنا کرنے کا عادی ہوتا چلا گیا۔
ارجن کے ماتا پتا، اس کی طرف سے مایوس ہوکر بھی، اسے جوان ہوتا دیکھ کر اس کے سدھر نے کی آشا کی جیوتی اپنے دلوں میں جلائے رہے ان ہی دنوں ارجن ریاستی پبلک سروس کمیشن میں کامیاب ہوا اور ضلع کے پاس ہی ایک دور افتادہ علاقہ میں بلاک ڈیولپمنٹ آفیسر کی حیثیت سے تعینات ہو گیا۔
’’۔۔۔ارجن بولا۔ اے اچتیہ! میرا رتھ دونوں فوجوں کے درمیان کھڑا کر دو تاکہ ان لوگوں کو دیکھوں جو جنگ کی خواہش سے جمع ہوئے ہیں اور دیکھوں کہ کن کن سے مجھے جنگ کرنی ہے۔۔۔۔‘‘
تو پھر ایسا ہوا کہ ارجن نے خود کو سرکار اور عوام کے درمیان کھڑا پایا اور خود کو رابطہ سمجھ کر اپنے کام میں جٹ گیا۔ پھر دھیرے دھیرے اس کی مقبولیت اور شہرت، فرض شناسی اور ایمانداری کے چرچے ہوئے، لیکن کچھ دنوں کے بعد نہایت تیزی کے ساتھ سرکار اور عوام میں تقریباً یکساں طور پر اس کونا اہل اور ناعاقبت اندیش، ان پریکٹیکل اور سماج سے کٹاہوا فرد سمجھا جانے لگا۔
پھر ایسا ہوا کہ آناً فاناً ارجن کا ٹرانسفر ہو گیا۔ یہ دنیاکے نشیب وفراز سے بےبہرہ چارج حوالہ کرکے نئی جگہ جوائن کرنے کے لئے روانہ ہو گئے، جوائن کیا، لیکن اسے چارج نہ ملا۔ ہوا یہ کہ بی ڈی اوصاحب فرصت میں چلے گئے اور تقریباً بیس دن بعد لوٹے تو عدالت سے اپنے ٹرانسفر کے اسٹے کا آرڈر ساتھ لے کر آئے تھے۔ اب ارجن نے سوچا میں کہاں جاؤں؟ پھر اولڈ سکریٹریٹ کے چکر لگنے شروع ہو گئے۔ شروع شروع میں تو ارجن نے سمجھا کہ یہ کوئی ایسا پیچیدہ معاملہ نہیں ہے۔ کسی دوسرے مقام پر پوسٹنگ آسانی سے ہو جائےگی۔ پوسٹنگ تو خیرہونی ہی تھی، لیکن اولڈ سکریٹریٹ میں ارجن کومعلوم ہوا کہ اس کاروائی کے لیے اسے برج کشور جھا سے ملنا ہوگا۔ ملاقات ہوئی، جھاجی نے اشواشن دیا کہ اس کی پوسٹنگ جلد ہی کر دی جائےگی۔ معاملہ پروسیس میں ہے۔
ارجن اولڈ سکریٹریٹ کے کاری ڈور میں چکر لگاتا رہا اور اس جیسے ہی، کتنے معاملے اس درمیان نپٹتے رہے۔ یوں ایک مہینہ گزر گیا اور اس کی پوسٹنگ نہ ہوئی۔ کاری ڈور میں کھڑے کھڑے اپنے جسم کا بوجھ ایک پاؤں سے دوسرے پاؤں پر ڈالتے ہوئے جب اس کا من بوجھل ہو گیا اور چہرے کی رنگت اڑ گئی تو برج کشور جھا کے اسٹینو کو اس کی سادگی پر بڑا ترس آیا اور اس نے بتایا کہ ’’بھائی! آپ کامعاملہ تو جینون ہے، پوسٹنگ تو ہونی ہی ہے۔ مگر پنڈ دان تو کیجئے۔ کہ سدھی کرائے بنا آپ پوتر کیسے ہو سکتے ہیں؟‘‘
ارجن نے تعجب سے دیکھا اور کہا۔
’’مگر مرا کون ہے؟ کیسی سدھی؟ میں خود چھتری ہوں اور پوتر ہوں۔‘‘
اسٹینو بابو نے پہلے تو بڑے زور کا قہقہہ لگایا۔ پھر اولڈ سکریٹریٹ کے کاری ڈور میں آتے جاتے لوگوں کو دیکھ کر خاموش ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعدپھر مخاطب ہوئے۔
’’آپ کو لاش دکھائی نہیں دیتی؟ آپ دبے جا رہے ہیں بوجھ سے، دکھ کا احساس ختم ہو گیا ہے کیا؟ وہاٹ این انوسینٹ۔۔۔!‘‘
ارجن خاموش ہو گیا۔
’’ارجن نے سوچا تھا اس کی خاموشی احتجاج بن جائےگی اور ایک ایسی صدا کا روپ دھارن کر لےگی، جو اولڈ سکریٹریٹ میں اتھل پتھل مچا دے گی۔ پھر ایک چمتکار ہوگا اور برج کشور جھا اس کی پوسٹنگ کا پروانہ اس کے حوالہ کر دیں گے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے دو ماہ گزر گئے۔۔۔ پھر ڈھائی ماہ بیت گئے۔۔۔ اور اس کی بدحالی اس کے چہرے کی رنگت سے عیاں ہونے لگی۔ کپڑے کی چمک تو کبھی کی ماند پڑ چکی تھی۔ چمتکار کا انتظار کرتے کرتے اس کی ہمت ٹوٹنے لگی۔حالانکہ اس کی بیوی نے اس کا بہت ساتھ دیا اور ساہس بندھایا، اس نے کہا:
’’دریودھن لالچی اور بدطینت تھا۔ اس نے خفیہ منصوبہ بنایا اور قماربازی کے ذریعے یودھسٹر سے سلطنت چھین لی اور یہ شرط پیش کی کہ پانڈو بارہ سال تک جنگل میں جلاوطن رہیں اور ایک سال تک گمنامی کی زندگی بسر کریں۔ ان کی شرائط کی تکمیل کے بعد پانڈؤں نے اپنے حصۂ حکومت کا مطالبہ کیا، لیکن دریودھن نے سوئی کی نوک کے برابر زمین دینے سے بھی انکار کیا اور تب جنگ ناگزیر ہو گئی۔‘‘
لیکن یہ جنگ کیسے لڑی جائے؟ ارجن فکرمند تھا۔
کیا پنڈ دان کرکے سدھی پراپت کی جائے؟ یا اس دنیا اور سماج کے رسم ورواج اور حرص وطمع کے خلاف کمربستہ رہنے کی ضرورت ہے؟ یا یہ کہ چمتکار کا انتظار کیا جائے؟ چمتکار کا انتظار تو وہ ڈھائی مہینہ سے کر رہا تھا۔ اس نے سوچا اور اولڈ سکریٹریٹ کی تیسری منزل سے نیچے کی طرف جانے والی سیڑھیاں اترنے لگا۔
اچانک لالہ سکھی چند اس کے ساتھ ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔
’’سر آپ اپنی پوسٹنگ کہاں چاہتے ہیں؟‘‘
’’کہاں چاہتا ہوں؟ بھائی میرے، مجھے نوکری کرنی ہے، پوسٹنگ جہاں چاہے سرکار کرے۔‘‘
’’تو پھر آپ ہمارے بلاک میں کیوں نہیں آجاتے، جگہ بھی خالی ہے۔‘‘
’’ایں۔۔۔ کیایہ میرے بس میں ہے؟‘‘
’’سر آپ کیوں ترد دکرتے ہیں آپ گھر میں بےفکر بیٹھے رہیں۔ میں سب کام کرائے دیتا ہوں۔ آپ تو یوں بھی تھکے ہارے سے ہیں۔ ہمارے بلاک میں آپ آئیں گے تو۔۔۔ آخر ہمارا بھی خیال تو کریں گے ہی۔۔۔ بتائیے کیا سمئے آ گیا ہے۔ ادھر ڈھائی ماہ سے پوسٹنگ کے لیے آپ پریشان ہیں کہ تنخواہ بندہے۔ ادھر میں بھی اپنے بل کی ادائیگی کے لیے پریشان ہوں۔ پریشان تو رہتا ہی ہوں کہ ایک چھوٹے سے ٹھیکہ دارکی حیثیت ہی کیا ہے۔۔۔‘‘
لالاسکھی چند کی باتوں کو چمتکار مان کر جس دن ارجن گھر لوٹا، اس کے ٹھیک تیسرے دن، شام ڈھلے لالا سکھی چند نے اس کے مکان کے دروازے پردستک دی۔ ارجن نے باہر آکر دیکھا کہ لالاسکھی چند کے ہونٹوں پر ایک فتح مند مسکراہٹ تھی۔
اس نے کہا۔ لیجئے سر، یہ آپ کی پوسٹنگ کا نوٹی فیکیشن ہے۔۔۔ اب ہماری ملاقات بلاک میں ہوگی اور وہ چلا گیا۔
ارجن نے سوچا۔ نمک کے داروغہ منشی بنسی دھر کی آزمایش، شاید اتنی کڑی نہ تھی، فرض شناسی اور ایمانداری نے بنسی دھر کو نوکری سے معطل ضرور کرا دیا تھا، لیکن اس کی زردرو اور دل آزار دنیا میں، اچانک ہی ایک چمتکار ہوا اور پنڈت الوپ دین، اپنے سجے ہوئے رتھ پر سوار ہوکر بصورت اوتار، اس کے دروازے تک آئے تھے، لیکن لالاسکھی چند۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.