Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عروسی تاج

راج کشور رائے

عروسی تاج

راج کشور رائے

MORE BYراج کشور رائے

    شادی کے منڈپ میں میری بہن ریکھا مہندر کے برابر بیٹھی تھی۔ جب شادی کا پوتر بندھن باندھنے کی گھڑی آئی تو ہمارے خاندانی پروہت سربسیور، میرے باپوجی سے مخاطب ہوئے۔ انہوں نے کہا، ’’جگن ناتھ بھگوان گواہ ہے، دوسرے تمام خیالات ترک کرکے اس کا دھیان کرو اور اپنے دل ودماغ کی یکسوئی سے کہو، بھگوان کرے یہ دولہا آنے والے یگ میں اسی لڑکی کا ہوکر رہے۔‘‘ باپوجی برت سے تھے اور اکلوتی لڑکی کو دوسرے کے ہاتھ میں دینے کے غم نے انہیں نڈھال کر دیاتھا۔ وہ بےچین تھے۔ ایسے میں وہ کیونکر لال پگڑی پہنے ہوئے مضبوط بازوؤں والے جگن ناتھ بھگوان کی طر ف اپنا دھیان مرکوز کرتے؟ بھگوان تو بڑے آرام سے نوے میل دور اپنے مندر میں براجمان تھے۔

    دولہے کے ساتھ آئے ہوئے پروہت نے اپنا ہاتھ اٹھایا اور داہنا کان چھوتے ہوئے احتجاج کیا، ’’غلط اور مہاپاترا! یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ شادی کے منڈپ میں دولہے کو رواج کے مطابق اولیت حاصل ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ ایک ہیرو کی پوشاک میں ملبوس ہے؟ اس کے برابر میں بیٹھی یہ دلہن اس کو دی گئی ایک مقدس نذر ہے۔ یہی مناسب ہوگا کہ جس بھگوان کا تم دھیان کرنا چاہتے ہو، وہ بھگوان بشیشور ہی ہو، جس کی پوجا دولہے کے گاؤں میں پرانے زمانے سے ہوتی آئی ہے۔ دلہن کے پتا کو اسی طرح کہنا چاہیے کہ دلہن دولہے کی ہو جائے!’’ اوریگ یگ کامطلب ہندو طریقہ استعمال کے مطابق صرف چوبیس برس ہوتے ہیں۔ یہ تو نہایت ہی نامعقول طریقہ ہے۔ تمہیں کہنا چاہیے، ’’اس جنم کے بعد والے جنم میں! یا جنم جنمانترتک!‘‘

    میں نے باپوجی کو دیکھا۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے میں نے یہ محسوس کیا کہ وہ اس وقت ناہی جگن ناتھ کا دھیان لگانا چاہتے تھے اورنہ ہی نامعلوم بھگوان بشیشور کا۔ ایک ہندو کو تو ہزاروں دیوتاؤں کادھیان کرنے کی آزادی تھی۔ باپو جی نے برت رکھا ہوا تھا اور نیند سے نڈھال تھے۔ باپو جی کو اس بات سے کوئی رغبت نہیں تھی کہ کسی ایک پروہت کی ہدایت مان کر کسی ایک بھگوان کا دھیان کیا جائے۔ وہ جیسے ہی منڈپ کے نزدیک پہنچے، باپوجی نے ماں کو سرگوشی کرتے ہوئے سنا، ’’لفظوں کے تکرار میں نہ پڑنا۔ پوتر بندھن سے بندھ جانے دو۔ دوسری باتیں بعد میں، یہ جنگ کا زمانہ ہے۔ سائیکل نہیں ملتی، تم ان لوگوں سے ایسا ہی کہنا۔ تم جہیز میں سائیکل نہیں جٹا سکتے۔ یہ مت بھولنا۔ تمہیں پوتر بندھن سے پہلے کچھ بھی نہیں کہنا ہے۔ بعد میں سمجھا سکتے ہو۔‘‘

    باپوجی کو سب باتیں یاد تھیں۔ ایک معتبر ذریعہ سے مجھے یہ معلوم ہوا تھا کہ دولہا حجام سپانا سے کہہ رہا تھا کہ وہ گھر میں ایک نئی چمکدار نیلے رنگ کی سائیکل کا پتہ لگائے۔ ایسے حالات میں یہ قدرتی بات تھی کہ باپو جی کو اس بات کی فکر ہوتی کہ بلا تاخیر پہلے پوتر بندھن بندھ جائے۔ وہ بےصبری سے بول پڑے، ’’بحث کرنے سے کیا حاصل؟ میں اپنا دھیان بھگوان بشیشور اور بھگوان جگن ناتھ دونوں پر لگاؤں گا۔ دونوں دیوتا مشترک گواہ بن جائیں اور دلہن جنم جنمانتر کے لیے دولہا کی ہو جائے۔‘‘

    دونوں پروہت ایسے چپ ہوئے جیسے لڑتی ہوئی بلیاں اپنے دم لپیٹ کر بھاگ کر چھپ جاتی ہیں، جب کوئی شرارتی بچہ ان پر ٹھنڈا پانی ڈال دیتا ہے۔ ’’ٹھیک ہے! ٹھیک ہے!‘‘ دونوں ایک ساتھ بول اٹھے، ’’یہ کام اسی طریقہ سے ہونا چاہیے تھا۔ کروشنا بابو نے ایسے ہی نہیں پولس ڈپارٹمنٹ میں اتنے دنوں کام کیا ہے۔‘‘

    ’’گاؤں کا آدمی ہونے کے ناطے تمہیں معلوم ہونا چاہیے۔‘‘ ہمارے پروہت نے دوسرے کو اکساتے ہوئے کہا، ’’کہ گاؤں روئی کی طرح دھن دیا جاتا اور بدمعاشوں کو چھان کر نکال لیا جاتا تھا۔ یہ سب صرف کروشنا بابو کی سوجھ بوجھ کا ہی نتیجہ تھا۔‘‘

    پروہتوں کے اس جھگڑے سے مجھے بڑی کوفت ہوئی۔ کیسے بے حس ہیں یہ لوگ! غیرانسانی! وہاں ریکھا ان کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے دودن سے کچھ بھی نہیں کھایا تھا۔ وہ جلدی رونے والی لڑکی نہیں تھی لیکن پڑوس کی بوڑھیاں اسے مسلسل آنسو بہانے پرمجبور کر رہی تھیں۔ اسے زبردستی ہر کس وناکس کے پیر پر گر کر رونے کو کہتیں، ’’میری پیاری بیٹی!‘‘ وہ جذباتی ہوکرچیخنے لگتیں، ’’کیاتم واقعی شادی سے بہت خو ش ہو؟ تمہیں اپنے والدین کا کوئی احساس نہیں؟ تمہارے اپنے ماں باپ؟ کیاتمیں ان سے الگ ہونے کادکھ نہیں؟ کیوں نہیں بتا دیتی کہ تمہارے لیے ان سے جدا ہونا کتنا مشکل ہے؟‘‘ ان کے ایسے سخت سوالات کی بوچھار سے ریکھا روپڑی۔

    جیسے یہ سب کچھ کافی نہ تھا۔ ریکھا پوتر اگنی کے نزدیک ہی بیٹھی تھی۔ اس میں تیز تیز لپٹیں اٹھ رہی تھیں۔ آگ کی تپش نے ریکھا کی پیشانی کو جھلسا دیا اور آنکھوں میں جلن پیدا کر دی تھی۔ اس کی آنکھوں سے سرمہ پگھل کر رخساروں پر پھیل گیا تھا۔ گھنٹوں سے وہ وہاں بیٹھی تھی۔ پیروں کومو ڑے ہوئے پروہتوں کے منتراچارن کو مستعدی سے سنتے ہوئے۔ وہ اب جیسے بےہوش ہونے ہی والی تھی۔ حجام کی بیوی بریکانی اسے اپنے بازوؤں سے سہارا دے رہی تھی۔ اسے مصیبت میں دیکھ کر مجھے بڑا رنج ہوا۔ میں پروہتوں سے چلاکر مخاطب ہوا، ’’او مہاپاترا، تمہیں کیسا لگےگا اگر تمہیں اس گرمی کے موسم میں بھٹی کے سامنے بٹھا دیا جائے اور چہرے پر گرد اڑانے والے پنکھے سے ہوا کی جائے اور تمہارے جسم کو بوری میں لپیٹ دیا جائے؟ کافی دیر تک اور ہر دومنٹ پر تمہیں اوپر نیچے کمر موڑنے جھکانے کے لیے کہا جائے؟ بتاؤ! تم اپنے جگن ناتھ اور بشیشور دونوں بھول جاؤگے۔ تقریب جاری رکھو۔ اسے خواہ مخواہ طول نہ دو۔ کیا تم لوگ کچھ نہیں سمجھتے ہو؟‘‘

    میں نے یہ سب کہہ تو دیا۔ لیکن اب مجھے بچانے والا وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ باپوجی نے تو مجھے وہاں سے ایک دم اٹھ کر چلے جانے کی ہدایت دی۔ مجھے اپنے پتا کی بےبسی نے پریشان کر دیا۔ وہ ہمیشہ بہت مضبوط اور ایماندار ہوا کرتے تھے۔ یہاں اپنی ہی لڑکی کی شادی میں وہ بےدست وپا تھے۔ میں نے منڈپ کے باہر جانے سے انکار کر دیا۔ پروہتوں نے اپنے ناگوار جنیوؤں کو ہاتھ میں لے کر، دو دروساؤں کی طرح اونچی اور سنجیدہ آوازوں میں مجھ سے سوالات کرنے شروع کر دیے،

    ’’بھٹی سے کیا مراد ہے تمہاری؟‘‘ایک نے سوال کیا۔

    ’’تمہارا یہ ہون کنڈ! کیا تم سوچتے ہوکہ یہ قطبین کے برف کی طرح ٹھنڈا ہے؟‘‘

    ’’گرد اڑانے والے پنکھے سے کیا مراد ہے؟‘‘دوسرے نے منھ بگاڑتے ہوئے پوچھا۔

    ’’یہ عروسی تاج، وہ دونوں کے سروں کے شادی کے تاج۔‘‘

    ’’اور بوری؟‘‘

    ’’ریکھا کا عروسی لباس! کیا تم نہیں دیکھتے؟ کیا یہ ایک بوری کی طرح بھاری اور گرم نہیں ہے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے ان کے ناقابل معافی ڈھیٹائی کو نظرانداز کرتے ہوئے جواب د یا۔

    میں ایک پچیس سالہ تعلیم یافتہ اور ایک حد تک بالغ ذہنیت کا مالک نوجوان تھا۔ پھر بھی میرے باپوجی مجھ پر برس پڑے، ’’یہ کیا لڑکا ہے! بالکل خبطی، اسے ہندو رسومات کا قطعی کوئی علم نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے پان کی ڈبیہ اٹھائی اور پروہتوں کی طرف بڑھا دی اور دونوں کو ایک ایک پان پیش کیا۔ جیسے ہی انہوں نے پان چبایا اور اس کے میٹھے رس سے ان کا منھ بھر گیا، پروہتوں کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

    ایک بار شادی کی تقریب ختم ہو جاتی تو ریکھا کچھ آرام کر لیتی۔ اس نے مجھے وہاں کمرے کے اس کونے میں بلاکر کہا تھا جہاں وہ اکیلی بیٹھی تھی، ’’میں اب بےحد تھک گئی ہوں۔‘‘

    ریکھا اپنے نئے زیورات سے لدی سجی ہوئی، کمرے میں اکیلی بیٹھی نہ جانے کیا کیا سوچتی رہی تھی۔ تشویش سے اس کی پیشانی پر فکر کے آثار نمایاں ہو گئے۔ مٹی کے دیے کی لو، جس سے کمرے میں ہلکی سی روشنی پھیلی تھی، پروائی کے جھونکوں میں لڑکھڑانے لگی۔ بھور ہونے ہی والی تھی اور مشرق کے جانب افق پروشنی پھیل گئی تھی۔ شادی کے منڈپ پر آسمان کی نیلاہٹ ایسے پھیلی تھی جیسے آسمان دعائیں دے رہا ہو۔ ہر طرف خاموشی کا دور دورہ تھا۔ ریکھا اکیلی جاگ رہی تھی۔ وہ لوگ جو ابھی ایک گھنٹہ پہلے اسے گھیرے ہوئے تھے، ان میں سے کسی ایک کو بھی اس با ت کا احساس نہیں تھا کہ اسے اس وقت ایک ساتھی کی ضرورت تھی۔ وہ اپنے مستقبل کے خیالات میں گم تھی۔ آنے والی زندگی جو اچھے برے، دکھ، سکھ اور خوشی اور آنسو کا مرکب ہے۔ گیس کا ہنڈا شادی کے منڈپ میں بےشمار مردہ پتنگوں کے ڈھیر میں ڈھکا ہوا اب بھی مدھم مدھم جل رہا تھا۔ تقریب کی ساری گہماگہمی اورتڑک بھڑک کی دم توڑتی ہوئی آخری جھلک صندل کے لیپ سے بنائے گئے نقش، شنگرفی مصوری اورگھی کے دیے سب کچھ اندھیروں میں غرق تھے۔ لیکن ریکھا کی آنکھوں میں نیند نہ تھی۔ ’’ریکھا تم ہمیں بھولوگی تو نہیں؟‘‘میں اپنے بستر سے اٹھ کر اس کے پاس گیا اور اس سے نرمی سے پوچھا۔ میری آواز رندھی ہوئی تھی۔ لہذا مجھے اس سے یہ پوچھنے میں تھوڑی دیر لگی۔ اس لیے ریکھا کو جواب ڈھونڈنے میں کوئی تاخیر نہ ہوئی۔

    ’’میں کیسے بھول سکتی ہوں۔۔۔ کہو، کیاتم انہیں سائیکل نہیں دے رہے ہو؟ میں سمجھتی ہوں کہ وہ بہت ہی گھمنڈی آدمی ہے۔ اگر یہ کلکتہ میں نہیں مل رہا ہے توان سے بتا دو اور پیسہ دے دو۔ کیا تم نہیں سمجھتے؟ ورنہ یہ جھنجھٹ کبھی ختم نہیں ہوگا۔ ان کے طعنے مجھے مار ڈالیں گے اور ہاں، ایک اور بات ہے۔ کیا وہ سارے کپڑے جو رشتہ داروں اور دوستوں سے مجھے ملے ہیں وہ میرے ساتھ نہیں بھیجے جائیں گے؟ کیا جہیز کی ایک فہرست دلہن کے ساتھ دینے کے لیے نہیں بنائی گئی؟ سچ مچ بتاؤ؟ میرا پورا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔‘‘

    میرا دل اندر ہی اندر مرجھا گیا، بالکل اس مٹی کے گھرکی طرح جو ٹوٹ گیا ہو۔ ریکھا کے چہرے پر محبت کا جذبہ تھا لیکن صندل اور سیندور کی تہہ کے نیچے چھپا ہوا۔ اس کی کلائی پر بندھی ہوئی خوشبودار گھاس، مٹی کے دیے کی خاموش اور مدھم روشنی میں بھی دیکھی جا سکتی تھی۔ سب کچھ ختم ہو گیا، میں نے سوچا۔ ریکھا کے ساتھ لگاؤ ابھی سے کمزور ہو گیا تھا۔ بھگوان کرے کہ وہ دوسروں کے دل میں اپنا مقام بنا لے اور بھگوان کرے کہ اس کی اپنے شوہر سے عقیدت مکمل ہو جائے۔ لیکن یہ کس قدر تعجب خیز بات تھی کہ ایک نئے شخص کے آتے ہی پچھلے اٹھارہ سالہ ساری محنتیں اور سارے تعلق اچانک ہی بڑی آسانی سے ختم ہو جائیں۔ ہاتھ کے ایک ہلکے سے لمس سے ہی اسے اپنے شوہر کے بارے میں یہ بھی علم ہو گیا کہ وہ گھمنڈی ہے۔ آنسو میری آنکھوں میں امڈ آئے اور میری بینائی دھندلا گئی۔ میں نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کیوں ابھی اس کے سارے تحفے نہیں بھیجے جا رہے ہیں۔

    ’’ریکھا!‘‘ میں نے کہا، ’’تم تو جانتی ہو کہ تمہاری شادی کے اخراجات کی وجہ سے ہم لوگ کس قدر تنگ دست ہو گئے ہیں۔ اٹھارہ ایکڑز مین گروی ہو گئی۔ ماں سن لے تو بےہوش ہی ہو جائے۔ لیکن تم ان باتوں کی فکر نہ کرو۔ تمہیں تمہارے سارے تحفے رفتہ رفتہ مل جائیں گے، بس تھوڑی دیر ہوگی۔ تمہارے والدین نے اس بات کا وعدہ کیا ہے کہ تمہیں ایک سال تک ہر پورنیما کو ایک نیا جوڑا دیا جائےگا۔ اس لیے میں نے بارہ جوڑے کپڑے الگ کر لیے ہیں تمہارے ان تحفوں میں سے جو تمہیں ملے ہیں۔ یہ تمہیں ایک ایک کرے بھیج دیے جائیں گے ہر پورنیما کو۔ اگر ہم تمہیں سارے کپڑے ابھی دے دیں تو بعد میں کہاں سے جٹائیں گے؟‘‘

    پتہ نہیں ریکھا میری بات سمجھ پائی یا نہیں۔ اس کی آہوں سے میں نے محسوس کیا کہ وہ غم زدہ اور بے آرام تھی۔

    ریکھا کی رخصتی کا وقت آیا، الوداعی کلمات کہے جا رہے تھے۔ ریکھا بری طرح رورہی تھی، پالکی میں ادھر ادھر تڑپتی ہوئی۔ اس کے جوان دل پر ناقابل برداشت بوجھ تھا۔ آواز کے ساتھ رونا اب محال تھا لیکن آنسو اس کی آنکھوں سے جھرنے کی لڑی کی طرح رواں تھے۔ اس کے دل میں اٹھارہ سالہ لڑکی چیخ رہی تھی، ’’ماں! ماں! میں نہیں جا سکتی، باپو! مجھے مت چھوڑو! میرے بھائی، مجھے الگ مت بھیجو!‘‘میں یہ سب کچھ سن سکتا تھا۔ باپو کہاں تھے؟ کسی کو معلوم نہ تھا، ماں؟ ماں بےہوش ہو رہی تھی۔ ریکھا کا نام بدبداتی ہوئی۔ میں نے اپنے چھوٹے بھائی کو ماں کے پاس اس کی دیکھ بھال کے لیے بھیجا اور پالکی برداروں کوہدایت کی کہ جلدی سفر شروع کریں۔ میرے دل کی دھڑکن رک گئی اور جیسے میری رگوں کوکسی نے کاٹ کر کھول دیا ہو۔ میرے والدین کیا محسوس کرتے ہوں گے، یہ سوچنے کی ہمت نہیں ہوئی مجھے۔ ریکھا کی یادیں ایک ایک کرکے ابھرنے لگیں۔ باتیں جو اس نے کہی تھیں، اس کا بھولپن، اس کا پیار اور اس کی شرارتیں۔ میرا ذہن ان یادوں سے دھندلا گیا۔

    پالکی آگے بڑھ رہی تھی۔ باپو، بھوک اورغم سے نڈھال اپنی اکلوتی بیٹی کو آخری بار الوداع کہنے کے لیے کھڑے تھے۔ ریکھا باپو کی پریشانی کو دیکھتی ہوئی چیخ پڑی، ’’پتاجی!‘‘لیکن وہ کہاں تھے؟ وہ دوسری جانب پلٹ کر کھڑے ہو گئے تھے کہ ان کی آنکھیں ابل پڑنے ہی والی تھیں، جیسے مچھلی پانی سے باہر آکر تڑپنے لگتی ہے۔ اپنے آنسوؤں پر قابوپاتے ہوئے انہوں نے بھنبھناتے ہوئے کہا، ’’میری بیٹی، میری پیاری چھوٹی سی بیٹی، جاؤ اب اپنے مقدر کے ساتھ۔ ان دونوں کو باندھنے والی ڈور اچانک ہی ٹوٹ گئی۔ پالکی والوں نے گانا شروع کر دیا۔ ریکھا کی مانوس جگہیں ایک ایک کرکے پیچھے چھوٹنے لگیں، کھیل کے میدان، وہ جگہ جہاں وہ گانا سیکھا کرتی تھی اور ماں کی گود۔‘‘

    میں اس کی پالکی کے دروازے پر ہاتھ رکھے ہوئے دور تک اس کے ساتھ گیا۔ میں چاہتا تھا کہ اسے کچھ سکون آ جائے تو جاؤں۔ اس کے دل کا بوجھ کچھ کم ہوا۔ وہ اپنے آنسو پوچھنے لگی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ خود سے بوجھ رہی ہو۔ اچانک ہی اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دل گرفتہ آواز میں بھنبھنائی، ’’چھوٹے بھائی، مجھے خط لکھنا نہ بھولنا، گونپا نے کچھ کہا تو نہیں!‘‘

    میں سمجھ گیاکہ ریکھا کیا کہنا چاہتی ہے۔ اس کا شوہر، مہندر اسے اپنے گاؤں کے گھر میں نہیں لے جانا چاہتا تھا۔ وہ جہاں نوکری کرتا تھا اسی شہر میں گھر بسانے کا ارادہ تھا اس کا۔ اس لیے اسے پیسے کی ضرور ت تھی۔ ریکھا یہ بات خود نہیں کہہ پائی، اس لیے اس نے اپنے چچیرے بھائی گونپا سے کہا تھا کہ مجھے اس بارے میں بتائے۔ میری جیب میں پچاس روپے تھے۔ میں نے وہ روپے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔ اس نے روپیہ مٹھی میں دبا لیا اور ایسے روئی جیسے آنسو کے آخری بوند بھی وہ نچوڑ کر نکال دےگی، ’’روپے کے بارے میں کچھ خیال مت کرنا میرے بھائی!‘‘اس نے کہا، ’’میں تمہیں یہ روپے کچھ مہینہ بعد ہی بھیج دوں گی۔‘‘ میں نے اسے تسلی دی اور چپ کرایا، ’’تم اس کی فکر کیوں کرتی ہو؟ یہ اتنا زیادہ بھی نہیں ہے۔ ’’لیکن یہ بات میرے نزدیک ایک راز کی بات تھی کہ ریکھا نے اتنی جلدی یہ کیسے مان لیا کہ اس کے شوہر کو پیسے کی ضرورت تھی۔ میں جوایک غیرشادی شدہ لڑکا تھا۔ کیا یہ ایسا تھا کہ ان کا دل ابھی سے ایک ساتھ دھڑکنے لگا تھا؟ جو ہوا سو ٹھیک ہی ہوا۔

    میں ہمیشہ ریکھا کی خوشحال ازدواجی زندگی کے لیے کچھ نہ کچھ کرتا رہا۔ کبھی برہمپور کی تیار کردہ ساڑی تو کبھی چلکا جھیل کے کیکڑے، پراچی ندی سے ہلسی مچھلی تو کبھی کلکتہ بازار سے پھل وغیرہ۔ یہ سارے سا مان میں ماں کے کہنے پر اس کے یہاں لے جاتا رہا۔ پھر کبھی ریکھا کی خواہش ہوتی توگاؤں کے زمیندار کے باغ سے کچے کٹہل لے جاتا۔ میں اس کے لیے ہمیشہ کچھ بھی کرنے کو تیار رہتا۔

    اس کی نسوانیت کی تکمیل ہوئی اور ماں بنی۔ ایک اکیس روزہ بچہ اس کی گود میں لیٹا ہوا تھا۔ میں نے بچے کے گلے میں ایک سونے کی زنجیر پہنا دی اوراس کے نرم و نازک گالوں کو پیار کیا اور اس نوجوان ماں سے کچھ سرگوشی کرتے ہوئے اپنی ماں سے شکایت کی، ’’ریکھا نے مجھے دھوکا دیا ہے۔ ڈیڑھ سال پہلے اس نے کہا تھا کہ وہ روپے ایک ماہ میں بھیج دےگی یہ کیسا آدمی ہے مہندر؟‘‘

    ماں نے میرے منھ پر ہاتھ رکھ د یا، ’’کیسے نا سمجھ ہو تم!‘‘ اس نے نرمی سے کہا، ’’مہندر دوسرے ہی کمرے میں ہے۔ وہ کیوں روپیہ واپس کرےگا؟ میں تمہیں اس سے دو گنا دے دوں گی۔‘‘ میں چپ رہا اور خود کو سنجیدگی کے ساتھ مطمئن کرنے لگا۔ ماں میرے بالوں میں انگلیاں کرتی ہوئی سمجھانے لگی، ’’میرے ناسمجھ بچے! سوچو کہ ریکھا اور تم کیا ہو، تم دونوں کا کیا رشتہ ہے، کیا روپیہ ہی سب کچھ ہے؟‘‘

    بچے کے ہونٹ پکے ہوئے میوے کی طرح سرخ تھے، میں نے انہیں انگلیوں سے چھوتے ہوئے سوچا۔ ماں بھول گئی ہے کہ دنیا ایک کھیل کا میدان ہے، جہاں جو جیت گیا روپیہ اسی کا ہے۔ وہ اپنے پیار بھرے دل سے ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتی۔ لیکن یہی سچ ہے اور کہیں چاہے یہ مختلف ہو۔ میرے دل نے کہا، ’’مائیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے