Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اور پھر ایسا ہوا

مشتاق احمد نوری

اور پھر ایسا ہوا

مشتاق احمد نوری

MORE BYمشتاق احمد نوری

    (منشی پریم چند کے الگو چودھری اور شیخ جمن سے معذرت کے ساتھ)

    یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح سارے گاؤں میں پھیل گئی، جس نے بھی سنا دنگ رہ گیا۔

    ’’ایسا تو کبھی نہیں ہوا تھا؟‘‘

    ’’پھر آج کیسے ہو گیا؟‘‘

    کانوں کان یہ بات پھیلتی چلی گئی اور گاؤں میں بھگدڑ کا سماں پیدا ہو گیا۔ ہر شخص تاڑ کے جھنڈ کی جانب دوڑا آ رہا تھا۔

    تاڑ کے ایک بہت لمبے پیڑ پر الگو چودھری چڑھا ہوا تھا۔ لمبا تڑنگا جوان۔ سرپر بہت بڑی پگڑی باندھے۔ وہ بت کی طرح تاڑ کے پیڑ سے چپکا ہوا تھا۔ اس کا ایک ہاتھ لبنی پر تھا دوسرا پیڑ کے گرد۔ اس کی آنکھیں گردش کرنا تک بھول گئی تھیں۔ نیچے سے ساری نگاہیں اوپر کی جانب اٹھی ہوئی تھیں سب کی نگاہوں میں ایک ہی سوال تھا۔

    ’’اب کیا ہوگا؟‘‘

    یہ ایک ایسا سوال تھا جس کا جواب سب کو معلوم تھا، لیکن کسی کا بھی دل اس کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔

    اوپر الگو چودھری بت بنا تھا اور نیچے سب سے زیادہ پریشان تھے شیخ جمن۔

    دونوں ایک دوسرے کے لیے ہی بنے تھے۔ جب جب شیخ جمن پر آفت آتی الگو چودھری اپنے لٹھیتوں کے ساتھ حاضر ہو جاتا۔ اسی کے دم سے شیخ جمن کی زمین پر آدی باسیوں کا قبضہ نہیں ہوا تھا، ورنہ دیگر زمین داروں کی طرح ان کی زمین پر بھی قبضہ ہو گیا ہوتا اور جب الگو چودھری مصیبت میں گرفتار ہوتا یا پولیس کے چکر میں پڑتا تو شیخ جمن کا اثرورسوخ ہی اسے بچاتا۔

    یہاں الگو چودھری پر نزع کی کیفیت طاری تھی اور شیخ جمن اپنے آپ کو بالکل بے بس پا رہے تھے۔

    ’’کیا یہ الگو چودھری کا آخری دن ہے؟‘‘ بھیڑ میں سے کسی نے یہ سوال اچھالا۔

    ساری نگاہیں شیخ جمن پر ہی جم گئیں گویا جواب وہی دیں گے، لیکن شیخ جمن کے پاس جواب کب تھا؟

    الگو چودھری کی عمر یہی کوئی تیس چالیس کے درمیان رہی ہوگی، لیکن اس کی کاٹھی ایسی تھی کہ تیس کا ہی لگتا تھا۔ پورے گاؤں میں دھاکڑ جوان کے نام سے مشہور تھا۔ پاسی برادری سے تعلق رکھنے والا الگو چودھری آٹھویں پاس تھا اس لیے پوری برادری میں اس کا مان سمان بھی بہت تھا۔ وہ اپنے پشتینی پیشہ سے منسلک تھا اور جب سے سرکار نے تاڑی سے ٹیکس معاف کیا تھا، تب سے اس کا کاروبار کافی چمکا ہوا تھا۔

    پورے گاؤں میں سب سے بڑا تاڑبنی شیخ جمن کا ہی تھا اور ہرسال اس کی ٹھیکہ داری الگو چودھری کو ہی ملتی تھی۔ گاؤں کے دیگر تاڑ کے پیڑ برادری کے لوگوں کے حصہ میں آتے، الگو چودھری اپنے چھوٹے بھائی پھگوا چودھری کے ساتھ مل کر اپنا کاروبار کرتا تھا۔ تاڑی فروخت کرنے کی ساری ذمہ داری دراصل پھگوا کی ہی تھی، کیوں کہ الگو کو اور بھی تو بہت سے کام تھے۔

    جب الگو کے پاس دولت کی ریل پیل ہونے لگی تو اس کے شوق بھی کافی بڑھ گئے اور شوق کی اس آگ میں گھی ڈالنے کا کام کرتے تھے شیخ جمن۔ کبھی کبھار الگو اڑوس پڑوس کے گاؤں میں لمبا ہاتھ مار لیتا تو پھر مہینوں آرام سے عیش کرتا۔ اکثر ایسا بھی ہوا کہ شکار کی جانب شیخ جمن ہی اشارہ کرتے، اس طرح ان کے دشمن بھی ان سے دبتے تھے اور پنگا لینے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔ الگو نے گاؤں کے لوگوں کو کبھی پریشان نہیں کیا تھا بلکہ برادری کے علاوہ دیگر لوگوں کی بھی مدد ہاتھ کھول کر کیا کرتا تھا اس لیے وہ گاؤں میں کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

    شیخ جمن چوں کہ زمین دار تھے تو تھوڑا بہت ظلم بھی کر لیتے تھے کہ یہ ان کا خاندانی شوق تھا۔ کبھی کبھار ان کی زیادتی میں بھی اگر زیادتی ہو جاتی تو کام الگو چودھری ہی آتا۔

    دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم۔ ایک بہت بڑا تو دوسرا بہت چھوٹا۔ ایک قدرے بوڑھا تو دوسرا جوان۔ ایک مسلمان تو دوسرا ہندو۔ ایک بڑی ذات والا تو دوسرا چھوت، لیکن پھربھی دونوں کو ایک ہی تھالی میں کھاتے ہوئے لوگوں نے دیکھا تھا اور آج ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ یہ رشتہ ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائےگا۔

    ’’پیڑ سے چپکا الگو چودھری۔ پیڑ سے زندہ کیسے اترےگا؟‘‘

    الگو اوپر بت بنا تھا اور نیچے شیخ جمن سکتے کے عالم میں اوپر تک رہے تھے۔ تاڑبنّی لوگوں سے کھچاکھچ بھرا پڑا تھا۔ ان کے درمیان رہنے والا ایک آدمی سارے گاؤں کی موجودگی میںآج موت کو گلے لگانے والا تھا، لیکن سارے لوگ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپا رہے تھے۔

    اچانک الگو چودھری کا باپ شیخ جمن کے پاؤں پر گر گیا۔

    ’’مالک۔ اب آپ ہی بچا سکتے ہیں الگو کو۔‘‘

    الگو کی بیوی بدھیا بھی زار و قطار روئے جا رہی تھی اور شیخ جمن سوچ رہے تھے کہ انھوں نے کئی بار الگو کو پھانسی چڑھنے سے بچایا تھا۔ اس عمر میں ہی الگو نے کچھ نہیں تو تیس چالیس خون ضرور کیے تھے، لیکن آج ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھاکہ کس طرح الگو کو موت کے منھ سے بچایا جائے۔

    ’’کچھ کیجیے مالک۔ الگوا کا تو پران سوکھا جا رہا ہے۔‘‘ اس کا باپ پھر گڑگڑایا۔

    ’’کچھ کیجیے۔۔۔ کچھ کیجیے۔۔۔‘‘ کی آوازیں چاروں طرف سے آنے لگیں۔ اسی دوران گاؤں کے اسکول کے ماسٹر نے شیخ جمن سے کہا۔

    ’’حضور، رائفل سے کیوں نہیں اڑا دیتے۔‘‘

    ’’ہاں رائفل۔۔۔ شیخ جمن سکتہ سے واپس آئے اور پھر چاروں طرف سے رائفل رائفل کی گردان ہونے لگی۔

    ’’اگر نشانہ چوک گیاتو الگو کی کھوپڑی اڑ جائےگی۔‘‘

    یہ خیال آتے ہی شیخ جمن کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ نشانہ بازی میں وہ کئی بڑے انعامات حاصل کر چکے تھے۔ ان کا نشانہ اچوک ہوتا تھا۔ ان کے نشانے کی تعریف میں اکثر الگو کہا کرتا:

    ’’حضور! مہابھارت کے یگ میں اگر آپ جنمے ہوتے تو ارجن آپ ہی ہوتے۔‘‘

    شیخ جمن کا حال اب یہ ہو رہا تھا کہ نہ نگلتے بنتا تھا اور نہ اگلتے۔ رائفل داغیں اور نشانہ چوک جائے تو سیدھے الگو کے قتل میں جیل جائیں اور اگر نشانہ دائیں بائیں ہو جائے تو وہ موذی اور بھڑک اٹھےگا اور الگو کی جان بچانی مشکل ہو جائےگی۔

    آخر کیا کیا جائے؟

    بہت بھاری سوال تھا یہ جسے وہ سنبھال نہیں پا رہے تھے۔ لوگ طرح طرح کی رائے پیش کرنے لگے۔ اسی دوران تاڑ بنی میں ہی پنچایت بیٹھ گئی اور سارے حالات کا پنچوں نے بہت باریکی سے جائزہ لیا۔ کافی غوروخوض کے بعد پنچوں کے درمیان آخرکار یہی فیصلہ ٹھہرا کہ شیخ جمن ہی اپنی رائفل کے سہارے الگو چودھری کی جان بچائیں گے۔

    جلدی سے رائفل اور گولی منگوائی گئی۔ تاڑ کا پیڑ کافی اونچا تھا اور الگو بالکل اس کے آخری سرے پر بیٹھا تھا۔ نیچے سے نشانہ لینا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ اگر سامنے کا معاملہ ہوتا تو شیخ جمن کب کا اپنا کمال دکھا چکے ہوتے، لیکن یہاں تو مقطع میں سخن گسترانہ بات آپڑی تھی۔

    الگو چودھری بارہ سال کی عمر سے تاڑ کے پیڑ پر چڑھنے لگا تھا، لیکن تب سے آج تک ایسا واقعہ نہیں ہوا تھا۔ پورے گاؤں میں کسی نے سوچا بھی نہیں تھاکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔

    ’’پھر آج ہی اچانک یہ سب کیسے ہو گیا؟‘‘ اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ اس معاملے میں اگر کسی آدمی کا ہاتھ ہوتا تو اسے شیخ جمن کی گولی کب کی چاٹ گئی ہوتی، لیکن یہاں تو کسی کو قصوروار بھی ٹھہرایا نہیں جا سکتا تھا۔

    گلابی جاڑا ابھی ابھی رخصت ہوا تھا۔ ماحول میں اس کا گلابی پن اب بھی برقرار تھا۔ الگو چودھری صبح سویرے ہی بیدار ہوتا اور پھگوا کے ساتھ تاڑ بنی کی راہ لیتا۔ شام میں جو لبنی لگاتے، اسے سورج طلوع ہونے سے قبل ہی اتار لیتے۔ اس تاڑی میں سورج کی کرنیں نہیں پڑتیں، اس لیے اس میں نشہ بھی نہیں ہوتا۔ نشہ آور بنانے کے لیے اسے گھر میں پکایا جاتا۔ اس کام میں بدھیا اس کا ہاتھ بٹاتی، باغیچہ سے دونوں سیدھے شیخ جمن کے پاس آتے اور انھیں دو لبنی تازہ تاڑی پیش کرتے جسے وہ نہار منھ ہی پوری کی پوری گٹک لیتے۔ اس سے ان کا پیٹ کبھی خراب نہیں ہوا تھا اور صحت بھی ایسی تھی کہ بڑھاپا ان سے بھاگا پھر رہا تھا۔

    آج بھی الگو چودھری پھگوا کے ساتھ تاڑ بنی میں آیا تھا۔ پھگوا نیچے رہ گیا اور الگو رسی کے چھلا کے سہارے دنادن پیڑ پر چڑھ گیا۔ رسّی کا ایک مضبوط چھلا اس کی کمر کے گرد تھا جس کا ایک سرا پیڑ کے گرد تھا۔ اب وہ اپنا پاؤں پیڑ سے ٹکائے اپنے ہاتھوں سے بھری لبنی اتارنے لگا، لبنی تاڑی سے لبالب بھری ہوئی تھی اس نے اس کی تاڑی اپنی کمر سے لٹکی لبنی میں انڈیلی اور اسے دوبارہ اپنی جگہ باندھ دیا جسے شام میں اتارا جاتا۔ اس کے بعد اسے نیچے اتر جانا تھا، لیکن تبھی ایسا ہو گیا جس کے ہونے کا گمان بھی کسی کو نہیں تھا۔

    اس سے قبل کہ الگو نیچے کی جانب اترنا شروع کرتا زمین پر کھڑا پھگوا چیخ پڑا۔

    ’’الگو ارے سانپ۔۔۔ تمہارے سر پر۔‘‘

    بس کیا تھا الگو کو جیسے سچ مچ سانپ سونگھ گیا وہ جس حال میں تھا اسی حال میں بت بن گیا۔

    ہوا یہ کہ جب الگو لبنی سے تاڑی نکال رہا تھا اسی دوران ایک گہمن سانپ جو پیڑ پر مینا کا بچہ کھانے کے لالچ میں گیا تھا اور کامیاب ہونے کے بعد اپنا پیٹ پھیلائے پیڑ پر ہی تھا۔ اس نے لبنی سے دو چار گھونٹ تاڑی بھی پی لی تھی اور آسودگی کے عالم میں آرام کر رہا تھا۔ نہ جانے اس کے جی میں کیا آیا کہ وہ دھیرے سے الگو چودھری کی پگڑی پر آکر بیٹھ گیا۔ وہ کنڈلی مارے بیٹھا تھا اور اپنا پھن پھیلائے اپنی شاخ دار زبان باہر نکالے اپنے وجود کا اعلان کر رہا تھا۔

    الگو کے جی میں آیا کہ وہ تیزی سے اپنی پگڑی اچھال دے، لیکن خدشہ یہ تھاکہ سانپ اسے ڈس نہ لے۔ گاؤں میں یہ بات عام تھی کہ سانپ پیڑپر چڑھ کر چڑیوں کے بچے کھا جایا کرتا تھا، لیکن جو شرارت اس نے آج کی تھی وہ سب کے لیے نئی تھی۔

    رائفل آنے کے بعد الگو چودھری کی جان میں جان آئی۔ اسے شیخ جمن کے نشانے پر پورا بھروسہ تھا۔ شیخ جمن نے انیکوں بار اس کی جان بچائی تھی آج بھی وہی اس کے کام آئیں گے یہ سوچ کر اسے سکون مل گیا تھا۔

    شیخ جمن نے الگو چودھری کے خاندان والوں کے ساتھ پنچوں کو گواہ بنایا کہ اگر الگو کی جان بچانے میں ان کا نشانہ چوک جائے اور خدانخواستہ الگو کی کھوپڑی اڑ جائے تو اس کے ذمہ دار وہ نہیں ٹھہرائے جائیں گے۔ ماسٹر صاحب نے پنچ نامہ تیار کیا اور پھر سب سے انگوٹھے کا نشان لگواکر شیخ جمن نے اﷲ کا نام لے کر نشانہ سادھا۔

    ’’دھائیں‘‘ کی آواز ہوئی اور چاروں طرف خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نشانہ اچوک تھا اور سانپ کا پھن گردن کے پاس سے اڑ گیا تھا۔

    الگو چودھری کی جان بچ گئی۔ آج شیخ جمن نے اس پر ایک ایسا احسان کیا تھا جس کے عوض وہ دل ہی دل میں ساری زندگی ان کا غلام بنے رہنے کا وعدہ کر چکا تھا۔ الگو نے تیرکی سی تیزی کے ساتھ سر کی پگڑی اچھال دی۔ سانپ کا دھڑ زمین پر گر کر اینٹھنے لگا۔ گہمن سانپ بہت بڑا اور پرانا تھا اس نے آج شیخ جمن کے نشانے کا کمال دیکھ لیا تھا۔

    الگو زمین سے قدرے دور ہی تھاکہ وہ پیڑ سے زمین پر کود گیا اور دوڑکر شیخ جمن سے لپٹ گیا۔ اس کا پورا جسم خوف کے مارے اب بھی کانپ رہا تھا جسے شیخ جمن اپنی بانہوں میں سنبھالے ہوئے تھے۔ الگو ان سے لپٹا کانپتا رہا اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری رہے۔

    پھر نہ جانے کیا ہوا کہ الگو چودھری کا جسم لہرایا اور وہ شیخ جمن کی بانہوں سے پھسل کر زمین پر آ رہا تھا۔ اس کے منھ سے جھاگ جاری ہو گیا۔ جسم نیلا ہونے لگا اور آنکھیں پتھرا گئیں۔

    ’’سانپ تو مر گیا۔ پھر یہ سب کیسے ہو گیا؟ آج تک ایسا تو نہیں ہوا تھا۔‘‘

    سارے لوگ حیران تھے۔ شیخ جمن کو کاٹو تو خون نہیں۔ تبھی اچانک ماسٹرصاحب کی نظر الگو چودھری کے تلوے پر پڑی جہاں سانپ کا گولی سے اڑا ہوا پھن چپکا ہوا تھا جس پر انجانے میں الگو کود گیا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے